Tuesday, 9 July 2024

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر و پیغام

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر و پیغام


تخلیق کائنات سے لیکر آج تک کی تاریخ کو اگر بغور دیکھا جائے تو بہت سے واقعات سامنے آتے ہیں ، لیکن جس طرح سرزمین کربلا میں امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اپنے جان نثاروں کے ساتھ ہوئی ہے اس طرح کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی ۔ آپ کی ولادت سے لے کر شہادت تک کے واقعات کو پڑھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ سب سے پہلے آپ رضی اللہ عنہ کے بچپن کے حالات کو دپڑھتے ہیں : ⬇


عن ابی رافع رضی اللہ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اَذَّنَ فی اذن الحسن والحسین علیہم السلام حین ولدا ۔ (مجمع الزوائد)

حضرت ابی رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت امام حسن و حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ان دونوں کے کانوں میں آذان دی ۔


عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عق عن الحسن و الحسین کبشا کبشا ۔ (سنن ابوداؤد شریف)

ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود امام حسن اور امام حسین کی طرف سے عقیقے میں ایک ایک دنبہ ذبح کیا ۔


عن المفضل قال ان اللہ تعالیٰ حجب اسم الحسن و الحسین حتیٰ سمی بہما النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابنیہ الحسن و الحسین ۔ (البدایہ والنہایہ ابن کثیر)

ترجمہ : حضرت مفضل سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حسن اور حسین کے ناموں کو حجاب میں رکھا یہاں تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بیٹوں کا نام حسن اور حسین رکھا ۔


عن یحییٰ بن ابی کثیر ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمع بکاء الحسن و الحسین فقام زعما فقال ان الولد لفتنۃ لقد قمت الیہما وما اعقل۔ (ابن ابی کثیر البدایہ والنہایہ،چشتی)

ترجمہ : حضرت یحییٰ بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا رونا سنا تو آپ پریشان ہوکر کھڑے ہو گئے اور فرمایا بیشک اولاد آزمائش ہے میں بغیر غور کرنے کے کھڑا ہوگیا ہوں ۔


حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے تو حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما آپ صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پشت پر سوار ہو گئے تو لوگوں نے ان کو منع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان کو چھوڑدو ، ان پر میرے ماں باپ قربان ہیں ۔


حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کی تو اس نے مجھ سے محبت کی ۔ (سنن ابن ماجہ)


حضرت ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی و فاطمہ و حسن و حسین رضی اللہ عنہم کی طرف دیکھا اور فرمایا جس نے تم سے جنگ کی اس نے مجھ سے جنگ کی ۔ (مشکوٰۃ المصابیح)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت خبر دے دی تھی  ⏬


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں صراحۃً فرماتے تھے کہ میرے اس بیٹے کو میری امت کے اوباش حاکم شہید کریں گے ۔ اور کبھی فرماتے تھے کہ ” یا ام سلمۃ اذا تحولت ہٰذہ التربۃ دما فاعلمی ان ابنی قد قتل ۔ (معجم الکبیر عربی،چشتی)

ترجمہ : اے ام سلمہ جب یہ مٹی خون میں تبدیل ہوجائے تو یقین کرلینا کہ میرا لخت جگر شہید کیا گیا ۔ میرے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی وفات کی جگہ بھی بیان فرمادی تھی کہ ”انہ تقتل بکربلاء“ یہ میرا نواسہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کربلاء کی زمین میں شہید کیا جائے گا ۔


یزید کے وکیل کہتے ہیں یہ من گھڑت کہانی ہے استغفر اللہ یہ لوگ بغضِ امام حسین رضی اللہ عنہ اور یزید پلید کی محبت میں اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ صحیح احادیث کا بھی انکار کر دیتے ہیں ان کے اِن اعمال و افعال کی وجہ سے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ غیر مقلدیت کا دوسرا نام منکرین حدیث ہے اب آیئے انہیں کے محدث شیخ ناصر البانی کی کتاب سلسلہ احادیث صحیحیہ جلد سوم صفحہ 59 ، 60 پر اس حدیث کو اصل اسکن کے ساتھ و دیگر مستند حوالہ جات و دیگر احادیث مبارکہ جو اس کی تائید کرتی ہیں پڑھتے ہیں : ⏬


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض دو طریق سے عام ہوا ۔ مشابہت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض اور روحانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض، ایک فیض کے عام ہونے کا ذریعہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ بنے اور دوسرے فیض کے عام ہونے کا اعزاز حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے حصہ میں آیا، فیض کے یہ دونوں دھارے حسین ابن علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہما کی ذات میں آ کر مل گئے کیونکہ حسین رضی اللہ عنہ کو ذبح عظیم بنانا مقصو دتھا؟ ذبح اسماعیل کے بارے میں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں حکم ملا لیکن ذبح حسین رضی اللہ عنہ کے لئے حضور آئینہ رحمت کو عالم خواب میں نہیں، عالم بیداری میں وحی خداوندی کے ذریعہ مطلع کیا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم بیداری میں جبرئیل امین علیہ السلام نے اطلاع دی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! عراق کی سر زمین میں آپ کے شہزادے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا جائے گا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طلب کرنے پر جبرئیل امین علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کی مٹی بھی لاکر دی کہ یہ ہے سر زمین کربلا کی مٹی جہاں علی رضی اللہ عنہ کے نور نظر اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لخت جگر کا خون ناحق بہا دیا جائے گا وہ حسین رضی اللہ عنہ جو دوش پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سوار تھا۔ وہ حسین رضی اللہ عنہ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آغوش رحمت میں پروان چڑھا تھا۔ وہ حسین رضی اللہ عنہ جو نماز کی حالت میں پشت اقدس پر چڑھ بیٹھا تو تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سجدے کو طول دے دیا کہ کہیں گر کر شہزادے کو چوٹ نہ آجائے۔ وہ حسین رضی اللہ عنہ جو یتیموں کے آقا اور غریبوں کے مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبتوں اور شفقتوں کا محور تھا اور وہ حسین رضی اللہ عنہ جس کے منہ میں رسول آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبان اقدس دے دی اور اپنے لعاب دہن کو لب حسین سے مس کیا کہ ایک دن میدان کربلا میں ان نازک ہونٹوں کو پرتشنگی کی فصلوں کو بھی لہلہانا ہے ۔ اس حوالے سے چند روایات مندرجہ ذیل ہیں : ⏬


عن ام سلمه قالت قال رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم أخبرني جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بأرض العراق فقلت لجبرئيل ارني تربة الارض التي يقتل فيها، فجاء فهذه تربتها ۔ (البدايه والنهايه، 8 : 196 - 200)(کنز العمال، 12 : 126، ح : 34313،چشتی)

ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے جبرئیل امین نے (عالم بیداری میں) بتایا کہ میرا یہ بیٹا حسین عراق کی سرزمین میں قتل کر دیا جائیگا میں نے کہا جبرئیل مجھے اس زمین کی مٹی لا کر دکھا دو جہاں حسین کو قتل کر دیا جائے گا پس جبرئیل گئے اور مٹی لا کر دکھا دی کہ یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے ۔


عن عائشة عنه انه قال أخبرنی جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بعدي بأرض الطف ۔

ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل امین نے مجھے خبر دی کہ میرا یہ بیٹا حسین میرے بعد مقام طف میں قتل کر دیا جائے گا ۔ (المعجم الکبير، 3 : 107، ح : 2814)


حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی روایت بھی کم و بیش وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے، یہ بھی قتل حسین رضی اللہ عنہ کی اطلاع ہے۔ یہ روح فرسا اطلاع پا کر قلب اطہر پر کیا گزری ہوگی اس کا تصور بھی روح کے در و بام کو ہلا دیتا ہے، پلکوں پر آنسوؤں کی کناری سجنے لگتی ہے اور گلشن فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تباہی کا دلخراش منظر دیکھ کر چشم تصور بھی اپنی پلکیں جھکا لیتی ہے ۔


ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام کے چشمان مقدس سے آنسو رواں تھے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج کیا بات ہے چشمان مقدس سے آنسو رواں ہیں؟ فرمایا کہ مجھے ابھی ابھی جبرئیل خبر دے گیا ہے کہ : ان امتک ستقتل هذا بأرض يقال لها کربلاء ۔

ترجمہ : آپ کی امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس بیٹے حسین کو اس سر زمین پر قتل کر دے گی جس کو کربلا کہا جاتا ہے ۔ (المعجم الکبير، 3 : 109، ح : 2819،چشتی)


عن ام سلمة قالت قال رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم يقتل حسين بن علي علي رأس سيتن من المهاجري ۔ (مجمع، 9 : 190)۔(بحواله طبراني في الاوسط)

ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا حسین بن علی کو ساٹھ ہجری کے اختتام پر شہید کر دیا جائے گا ۔


غیب کی خبریں بتانے والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کی نشاندہی کردی کہ یہ عراق کا میدان کربلا ہوگا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ یہ عظیم سانحہ 61 ہجری کے اختتام پر رونما ہوگا ۔


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اکثر دعا فرمایا کرتے : اللهم انی اعوذبک من رائس الستين وامارة الصبيان ۔

ترجمہ : اے اللہ میں ساٹھ ہجری کی ابتدا اور (گنوار) لڑکوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ (الصواعق الحرقه : 221)


60 ہجری کی ابتدا میں ملوکیت کی طرف قدم بڑھایا جا چکا تھا اور یہی ملوکیت وجہ نزاع بنی ۔ اور اصولوں کی پاسداری اور اسلامی امارت کے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خاطر نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو کربلا کے میدان میں حق کا پرچم بلند کرتے ہوئے اپنی اور اپنے جان نثاروں کی جانوں کی قربانی دینا پڑی ۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ اہل حق کٹ تو سکتے ہیں کسی یزید کے دست پلید پر بیعت کرکے باطل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ وہ نیزے کی انی پر چڑھ کر بھی قرآن سناتے ہیں۔ ان کے بے گور و کفن لاشوں پر گھوڑے تو دوڑائے جاسکتے ہیں لیکن انہیں باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں کیا جاسکتا، یہی لوگ تاریخ کے چہرے کی تابندگی کہلاتے ہیں اور محکوم و مظلوم اقوام کی جدوجہد آزادی انہی نابغان عصر کے عظیم کارناموں کی روشنی میں جاری رکھتے ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ 60 ہجری کی ابتدا سے پناہ مانگتے تھے کہ خلفائے راشدین کے نقش قدم سے انحراف کی راہ نکالی جا رہی تھی، لڑکوں کے ہاتھ میں عنان اقتدار دے کر اسلامی ریاست کو تماشا بنایا جا رہا تھا ۔ کہ اب سنجیدگی کی جگہ لا ابالی پن نے لے لی تھی ۔


حضرت یحیٰ حضرمی کا ارشاد ہے کہ سفر صفین میں مجھے شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا ۔ جب ہم نینوا کے قریب پہنچے تو داماد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابو عبداللہ! فرات کے کنارے صبر کرنا میں نے عرض کیا ’’یہ کیا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جبرئیل نے خبر دی ہے : ان الحسين يقتل بشط الفرات و اراني قبضة من تربته ۔

ترجمہ : حسین رضی اللہ عنہ فرات کے کنارے قتل ہوگا اور مجھے وہاں کی مٹی بھی دکھائی ۔ (الخصائص الکبریٰ 2 : 12،چشتی)


حضرمی روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت علی شیر خدا رک کر اس زمین کو دیکھنے لگے تو اچانک بلند آواز میں گویا ہوئے۔ ابو عبداللہ! حسین رضی اللہ عنہ بر کرنا۔ ہم سہم گئے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے، آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ورطہ حیرت میں ڈوب گئے کہ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ اس میدان کربلا میں میرا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہو گا ۔


حضرت اصبغ بن بنانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : اتينا مع علي موضع قبر الحسين فقال ههنا مناخ رکابهم و موضع رحالهم و مهراق دمائهم فئة من ال محمد صلي الله عليه وآله وسلم يقتلون بهذه العرصة تبکی عليهم السماء والارض ۔

ترجمہ : ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبر حسین رضی اللہ عنہ کی جگہ پر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ ان کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ اور یہ ان کے کجاوے رکھنے کی جگہ ہے اور یہ ان کے خون بہنے کا مقام ہے ۔ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک گروہ اس میدان میں شہید ہوگا جس پر زمین و آسمان روئیں گے ۔ (الخصائص الکبری، 2 : 126) (سر الشهادتين : 13،چشتی)


گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کا پورا نقشہ کھینچ دیا کہ یہاں پر وہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوگا اور یہاں خاندان رسول ہاشمی کا خون بہے گا ۔


ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا ذکر پہلے ہوچکا ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حسین کو عراق میں قتل کردیا جائے۔ اور یہ کہ جبرئیل نے کربلا کی مٹی لاکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : يا ام سلمه اذا تحولت هذه الترته دما فاعلمي ان ابني قد قتل فجعلتها ام سلمة في قارورة ثم جعلت تنظر اليها کل يوم و تقول ان يوما تحولين دما ليوم عظيم ۔

ترجمہ : اے ام سلمہ رضی اللہ عنہاجب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا قتل ہوگیا ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیا تھا اور وہ ہرروز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں اے مٹی! جس دن تو خون ہوجائے گی وہ دن عظیم ہوگا ۔ (الخصائص الکبری، 2 : 125)(سر الشهادتين، 28،چشتی)( المعجم الکبير للطبرانی، 3 : 108)


شہادت حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت کا یہ پہلو بطور خاص اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے تذکرے عہد رسالت میں ہی ہونے لگے تھے ۔ کسی واقع کا وقوع سے قبل شہرت اختیار کرلینا اس کے غیر معمولی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔ 


شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خبر والی حدیث پر اعتراض کا جواب : ⏬


محترم قارٸینِ کرام : تاریخ دمشق ابن عساکر کی روایت ہے : أخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا أبو محمد الحسن بن علي إملاء ح ۔ وأخبرنا أبو نصر بن رضوان وأبو غالب أحمد بن الحسن وأبو محمد عبد الله بن محمد قالوا أنا أبو محمد الحسن بن علي أنا أبو بكر بن مالك أنا إبراهيم بن عبد الله نا حجاج نا حماد عن أبان عن شهر بن حوشب عن أم سلمة قالت كان جبريل عند النبي (صلى الله عليه وسلم) والحسين معي فبكى فتركته فدنا من النبي (صلى الله عليه وسلم) فقال جبريل أتحبه يا محمد فقال نعم قال جبرائيل إن أمتك ستقتله وإن شئت أريتك من تربة الأرض التي يقتل بها فأراه إياه فإذا الأرض يقال لها كربلا ۔

ترجمہ :  شہر بن حوشب کہتا ہے کہ ام سلمة رضی الله عنہا نے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور حسین ان کے ساتھ تھے پس وہ روئے…جبریل نے بتایا کہ اپ کی امت اس بچے کو قتل کرے گی اور اپ چاہیں تو میں وہ مٹی بھی دکھا دوں جس پر قتل ہونگے پس اپ صلی الله علیہ وسلم کو زمین دکھائی اور اپ نے اس کو كربلا کہا ۔

ان دونوں روایات میں کی سند میں شہر بن حوشب ہے

النَّسَائِيُّ کہتے ہیں : لَيْسَ بِالقَوِيِّ، قوی نہیں .

ابْنُ عَدِيٍّ کہتے ہیں : لاَ يُحْتَجُّ بِهِ، وَلاَ يُتَدَيَّنُ بِحَدِيْثِهِ اس کی حدیث ناقابل دلیل ہے.

أَبُو حَاتِمٍ الرَّازِيُّ کہتے ہیں: وَلاَ يُحْتَجُّ بِهِ، اس کی حدیث نا قابل دلیل ہے . يَحْيَى بنِ مَعِيْنٍ: ثِقَةٌ کہتے ہیں . عَبْدِ اللهِ بنِ عَوْنٍ، قَالَ: إِنَّ شَهْراً تَرَكُوْهُ اس کو متروک کہتے ہیں ، الذھبی کہتے ہیں اس کی حدیث حسن ہے اگر متن صحیح ہو اور اگر متن صحیح نہ ہو تو اس سے دور رہا جائے کیونکہ یہ ایک احمق مغرور تھا ۔

پہلے ہم روایت پر بات کر لیں ۔ روایت یوں ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السّلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بتایا کہ آپ کی امت امام حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرے گی ، اور پھر وہ کربلا سے مٹی لے کر آئے ۔

بڑی مزے کی بات یہ کہ محقق الوہابیہ جناب شیخ ناصر الدین البانی نے اپنی کتاب ، سلسلہ احادیث صحیحیہ کے جلد 2، صفحہ 464 پر یہ حدیث باب کے طور پر لکھی 

821 - " أتاني جبريل عليه الصلاة والسلام، فأخبرني أن أمتي ستقتل ابني هذا (يعني

الحسين) ، فقلت: هذا؟ فقال: نعم، وأتاني بتربة من تربته حمراء ".

ترجمہ : جبریل میرے پاس آئے اور خبر دی کہ میری امت میرے اس بیٹے یعنی حسین کو قتل کرے گ ے۔ اور پھر میرے لیے سرخ مٹی لے کر آئے ۔

اگلا باب محقق الوہابیہ جناب شیخ ناصر الدین البانی نے اس حدیث کے ساتھ باندھا 

822 - " لقد دخل علي البيت ملك لم يدخل علي قبلها، فقال لي: إن ابنك هذا: حسين

مقتول وإن شئت أريتك من تربتة الأرض التي يقتل بها ".

ترجمہ : ایک فرشتہ گھر میں داخل ہوا، جب پہلے کبھی داخل نہیں ہوا تھا۔ اور اس نے کہا کہ آپ کا یہ بیٹا حسین قتل ہو گا۔ اگر آپ چاہیں، تو میں آپ کو وہاں کی مٹی لا کر دکھا سکتا ہوں ۔

اسی طرح کی ایک روایت مسند احمد، ج 44، ص 144 پر ہے ۔ شیخ شعیب نے اسے حسن حدیث قرار دیا ۔ نیز فضائل الصحابہ ، از امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ، ج 2، ص 965، روایت 1357 پر بھی ہے ۔ اور کتاب کے محقق وصی اللہ بن محمد عباس نے سند کو صحیح قرار دیا ۔

جلد 3، صفحہ 159 پر محقق الوہابیہ جناب شیخ ناصر الدین البانی اس حدیث سے باب قائم کرتے ہیں :  1171 - " قام من عندي جبريل قبل، فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات ".

ترجمہ : جبریل میرے پاس کھڑے ہوئے اور کہا کہ امام حسین کو فرات کے کنارے قتل کیا جائے گا ۔

محترم قارئین : یاد رہے کہ ان ساری احادیث پر محقق الوہابیہ جناب شیخ ناصر الدین البانی نے بحث کر کے ثابت کیا ہے کہ یہ مستند ہے ۔

میں تو صرف آپ کو اس کا لب لباب دے رہا ہوں تاکہ نواصب اور یزید پلید کے حواریوں کی حقیقت آشکارہ ہو ۔

ایک روایت امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد، ج 9، ص 120 پر تحریر فرمائی ہے :  15116 - عن أم سلمة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم جالسا ذات يوم في بيتي قال: “لا يدخل علي أحد”. فانتظرت فدخل الحسين، فسمعت نشيج رسول الله صلى الله عليه وسلم يبكي، فاطلعت فإذا حسين في حجره والنبي صلى الله عليه وسلم يمسح جبينه وهو يبكي، فقلت: والله ما علمت حين دخل، فقال: “إن جبريل عليه السلام كان معنا في البيت فقال: أفتحبه؟ قلت: أما في الدنيا فنعم، قال: إن أمتك ستقتل هذا بأرض يقال لها: كربلاء، فتناول جبريل من تربتها”. فأراها النبي صلى الله عليه وسلم فلما أحيط بحسين حين قتل ۔ صفحہ نمبر . 303 ، قال : ما اسم هذه الأرض؟ قالوا: كربلاء، فقال: صدق الله ورسوله، كرب وبلاء.،چشتی)

15117- وفي رواية: صدق رسول الله صلى الله عليه وسلم أرض كرب وبلاء.

رواه الطبراني بأسانيد ورجال أحدها ثقات.

ترجمہ : حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میرے گھر میں بیٹھے تھے ۔ مجھ سے فرمایا کہ کسی کو میرے پاس نہ آنے دو ۔ پھر امام حسین رضی اللہ عنہ اندر چلے گئے ۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے رونے کی آواز سنی ۔ میں داخل ہوئی ، اور کہا کہ مجھے علم نہیں کہ یہ کب داخل ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ جبریل میرے پاس اس گھر میں تھے ۔ اور مجھ سے پوچھا کہ آپ ان سے محبت کرتے ہیں ؟ میں نے کہا کہ اس دنیا میں ہاں ۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی امت ان کق کربلا نامی زمین میں قتل کر دے گی۔ پھر جبریل وہاں سے مٹی لائے۔ پھر جب امام حسین رضی اللہ عنہ قتل ہونے لگے تو انہوں نے پوچھا کہ اس زمین کا کیا نام ہے ؟ بتایا گیا : کربلا ۔ انہوں نے کہا اللہ و رسول نے سچ کہا ، کرب و بلا ، اور دوسری روایت میں ہے کہ رسول نے سچ کہا کرب و بلا ، طبرانی نے اسے مختلف سندوں کے ساتھ لکھا ، اور ایک کے راوی ثقہ ہیں ۔

تو جناب من : یہ ہے آئمہ محدثین علیہم الرّحمہ کے ارشادات ہیں اور دوسری طرف یہ یزید کے وکیل ناصبی و خارجی ہیں کہ کسی ہر صورت دھوکہ دینے کے چکرمیں ہیں ۔

جہاں تک سوال ہے شہر ابن حوشب کا ، تو بڑے بڑے علماء نے انہیں ثقہ کہا 

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اپنی تہذیب التہذیب میں لکھتے ہیں کہ یہ مسلم ، اور 4 کتب یعنی ابن ماجہ، ابی داؤد ، نسائی ، اور ترمذی کے راوی ہیں ۔ نیز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کیا کہ وہ کہتے ہیں کہ شہر ابن حوشب حسن الحدیث ہیں ، اور اپنے امر میں قائم ہیں ۔ یحیی ابن معین نے کہا کہ وہ ثقہ ہیں ۔ عجلی نے کہا کہ وہ ثقہ ہیں ۔ یعقوب ابن شیبہ نے کہا کہ وہ ثقہ ہیں ۔ یعقوب بن سفیان نے کہا کہ وہ ثقہ ہیں ۔ ابو زرعہ نے کہا ان میں کوئی برائی نہیں ۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ کوئی برائی نہیں ، اسی طرح انہوں نے خود امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کا قول لکھا کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ لیس بالقوی تھے ۔یاد رہے کہ لیس بالقوی اور لیس بقوی میں فرق ہے ۔ لیس بالقوی کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ راوی ضعیف ہے ۔

مشہور عالم ، معلمی اپنی کتاب التنكيل لما في تأنيب الكوثري من أباطيل، ج 1، ص 442 پر لکھتے ہیں : أقول : عبارة النسائي: «ليس بالقوي» وبين العبارتين فرق لا أراه يخفي على الأستاذ ولا على عارف بالعربية، فكلمة «ليس بقوي» تنفي القوة مطلقاً وأن لم تثبت الضعف مطلقاً، وكلمة «ليس بالقوي» إنما تنفي الدرجة الكاملة من القوة، والنسائي يراعي هذا الفرق فقد قال هذه الكلمة في جماعة أقوياء منهم عبد ربه بن نافع وعبد الرحمن بن سليمان بن الغسيل فبين ابن حجر في ترجمتيها من (مقدمة الفتح) أن المقصود بذلك أنهما ليسا في درجة الأكابر من أقراهما، وقال في ترجمة الحسن بن الصباح : «وثقه أحمد وأبو حاتم، وقال النسائي: صالح، وقال في الكنى: ليس بالقوي. قلت: هذا تليين هين، وقد روى عنه البخاري وأصحاب (السنن) إلا ابن ماجة ولم يكثر عنه البخاري» .،چشتی)

ترجمہ : میں کہتا ہوں کہ نسائی کے لیس بالقوی کہنے، اور لیس بقوی کہنے میں فرق ہے---لیس بقوی راوی کی قوت کی مکمل نفی کرتا ہے، مگر اس میں قطعی ضعف ثابت نہیں کرتا، جبکہ لیس بالقوی کامل قوت کے درجے سے راوی کی نفی کرتا ہے۔ نسائی ان دونوں لفظوں میں فرق کرتے تھے، اور اس وجہ سے اس جماعت کے لیے بھی استعمال کیا جو کہ کافی قوی تھے جیسے کہ عبد ربہ، عبدالرحمن ۔  

آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ جب آپ کسی کے بارے میں کہیں لیس بالقوی ، اس سے یہ سامنے آتا ہے کہ وہ اس قدر بھی قوی نہیں ، اگرچہ ثقہ ہے ، مگر اس درجے تک قوت کے نہیں پہنچاتا لیس بقوی قوت کی مکمل نفی کر دیتا ہے ۔

امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک کتاب لکھی ،  ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق ، یعنی وہ لوگ کہ جن کے بارے میں کلام کیا گیا ، مگر وہ ثقہ ہیں ۔ اس کے صفحہ 100، راوی نمبر 161 پر انہوں نے شہر بن حوشب کا نام درج کیا ۔ نیز، ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں اپنی تقریب التہذیب، ج 1، ص 269 پر صدوق مگر وہمی کہا ۔ خیر ، جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے ، آپ البانی کی کتاب پڑھ لیں ، اس میں کئی سندیں درج ہیں کہ جن میں شہر ابن حوشب نہیں ہے ۔


ایسے دور میں جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ رونما ہونے والا تھا تو اس دور کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ : تعوذوا باللہ من سنۃ سنین و امارۃ الصبیان ۔ (البدایہ والنہایہ جلد نمبر ۸،چشتی)

ترجمہ : یعنی ساٹھ ہجری کے سال اور لڑکوں کی حکومت سے پناہ مانگو ۔ اس مذکورہ حدیث کو سامنے رکھ کر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یہ دعا کرتے تھے کہ ”اللّٰہم انی اعوذبک من رأس الستین وامارۃ الصبیان“ اے اللہ میں ساٹھ ہجری اور لڑکوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ”ان ہلاک امتی او فساد امتی رؤس امراء اغیلمۃ سمہاء من قریش“ بیشک میری امت کی ہلاکت یا فساد قریشوں کے بیوقوف اور اوباش حکمرانوں کے ہاتھوں ہوگا ۔ (مسند احمد بن حنبل،چشتی)


مذکورہ صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح امام حسین رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محبت اور پیار کیا تھا اس کا مثال ملنا محال ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ اپنے محبوب نواسے کو یہ سب کچھ سمجھادیا کہ تیری شہادت کب ، کہاں اور کیوں ہو گی ۔ اب ہم اگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے آپ نے کس طرح اپنے آقا صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شریعت و سنت کو اپنی جان سے عزیز تر سمجھا تھا کہ کبھی پوری رات نماز میں ہوتے تھے ، کبھی تلاوت میں ، کبھی مخلوق کی خدمت میں ، کبھی سخاوت میں ، ہر وقت اوامر و نواہی پر عمل کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔


جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری زندگی سے آپ کو محبوب حقیقی کی طرف سے وصال کا پیغام آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برقعہ پوش ہو گئے تو اس وقت عالمِ اسلام کےلیے قیامت کا منظر تھا ۔ لیکن اس کے بعد گلشن توحید کی آبیاری کےلیے خلفائے راشدین اس گلشن کو اپنے محبوب قائد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے بڑھاتے رہے ۔ حتیٰ کہ وہ ساٹھ ہجری کا وقت آگیا جس کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”یہ میری امت کو قریش کے اوباش حکمران تباہ کریں گے ۔


اب ایک ظالم و جابر حکمران سامنے آتا ہے اور شریعت کی حدود کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے۔ شراب پینا شروع کر دیا ، زنا عام ہو گئی ، قتل و غارت عام ہوگئی ، ظلم بڑھنے لگا ۔ اب یہ وقت تھا جب شہیدِ کربلا امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے محبوب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہر طرف نظر آنے لگا کہ میری امت کو اوباش حکمران ہلاک کریں گے ۔


حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ جب عربستان کی سر زمین پر معصوم بچیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا ، بت پرستی عام تھی ، ویاج خوری عام تھی، زنا کو زندگی کا اہم حصہ سمجھا جاتا ہے ، جہالت و ظلم کی انتہا تھی ۔ ایسے پرفتن دور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس طرح توحید کا اعلان کیا تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلان کے بعد کس طرح ابولہب نے ناشائستہ کلمات کہے تھے جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے سورہ لہب نازل فرمائی تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو طائف کے میدان میں کس طرح لہولہاں کردیا گیا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی غلام عورت حضرت بی بی سمیہ رضی اللہ عنہا کو کس طرح ظالموں نے سرِ عام شہید کر دیا تھا ۔ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو کس درخت کے ساتھ باندھ کر اور تیروں سے آپ کے جسم کو خون میں نہلایا گیا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کس طرح اپنے صحابہ کے ساتھ شعب ابی طالب میں محصور کیا گیا تھا ۔ اور ان تین سالوں میں کتنے معصوم بچے اسلام کی آبیاری کےلیے بھوکے پیاسے شہید ہوگئے تھے ، کتنی معصوم بچیاں پانی کے ایک گھونٹ کےلیے چلاتی چلاتی تڑپتی ہوئی حالت میں دم توڑ چلی تھیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس طرح جنگ احد میں اپنے رب کریم کی توحید کی بلندی کےلیے اپنے دانت مبارک شہید کروا دیے تھے ۔


یہ وہ منظر تھا جو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات کے سامنے ہر وقت طواف کر رہا تھا ، اب جب ایک ظالم نے اس گلشنِ اسلام کی ویرانی کےلیے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی تو حضرت امام حسین کی روح تڑپ اٹھی ، آنکھوں کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک تھا کہ عنقریب قریش کے اوباش حکمران میری امت کو ہلاک کردیں گے ۔


اس دینِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بچانے کےلیے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا تن من دھن ، اپنا وطن ، اولاد ، مال ، دولت ہر طرح کی قربانی دینے کےلیے تیار ہو گئے ۔ اور پھر وہ وقت بھی آگیا کہ جب تاریخ عالم نے دیکھا کہ ایک طرف ہزاروں لوگ جو بظاہر مسلمان تھے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب نواسے کو بھوکا اور پیاسا دیکھتے خوشی محسوس کر رہے تھے ۔ لیکن امام حسین رضی اللہ عنہ کو اور ان کے جان نثاروں کو پانی کا ایک گھونٹ پلانا ان کی نظر میں بڑا جرم تھا ۔ در حقیقت یہ مقام رضا تھا جہاں بڑے بڑے اولیاء اللہ بھی ڈگمگاتے ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا فیصلہ ہے کہ انسان کو بھوک ، خوف ، مال ، ثمرات وغیرہ کی کمی سے آزمایا جاتا ہے کہ دیکھا جائے کہ انسان اپنے مالک حقیقی کی رضا پر راضی رہتا ہے یا نہیں ۔ لیکن تاریخ عالم نے دیکھا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس مقام پر بھی رضا کا دامن نہیں چھوڑا اور جابر و ظالم کے سامنے اپنی گردن نہ جھکائی ۔ اب وہ آخری مرحلہ مقام رضا بھی آ پہنچا جب حضرت امام عالی مقام کے سامنے آپ کے جان نثاروں کو ایک ایک کر کے شہید کیا گیا ۔ لیکن اس صبر کے پہاڑ نے اپنے نانا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو مضبوطی کے ساتھ سنبھال کر رکھا ۔ اور پھر یہ مردِ مجاہد مردِ غازی جس نے 72 نفوسِ قدسیہ کے ساتھ بالآخر خود بھی شہادت کا جام پی لیا ۔ اور اپنے نانا کے دین کے ساتھ ایسا رشتہ جوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملا جس کا مثال تاریخ عالم میں ملنا محال ہے ۔


سیدُالشہدا حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہمیں کئی پیغام دیتی ہے اول یہ کہ ایمان والا اپنے خون کے آخری قطرہ تک حق پر صداقت پر جما رہے باطل کی قوت سے مرعوب نہ ہو ۔ دوسری بات یہ کہ امام حسین رضی اللہ عنہ یزید کی جن خرابیوں کے باعث مخالفت کی ویسے لوگوں سے اپنے آپ کو الگ کرے اور فسق و فجور والا کام نہ کرے اور نہ ویسے لوگوں کا ساتھ دے نیز یہ بھی پیغام ملا کہ ظاہری قوت کے آگے بسا اوقات نیک لوگ ظاہری طور پر مات کھا جاتے ہیں مگر جو حق ہے وہ سچائی ہے وہ کبھی ماند نہیں پڑتی مات نہیں کھاتی اور وہ ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لاتی ہے ۔ یہی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسلام کا سرمایہ حیات یزیدیت نہیں بلکہ شبیریت حسینیت ہے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شہادت امتِ مسلمہ کےلیے کئی پہلو سے عملی نمونہ ہے، جس پر انسان عمل پیرا ہو کر اپنی زندگی کو اسلامی طرز پر قائم رکھے اسلامی زندگی اسلامی رنگ و روپ کی بحالی کےلیے صداقت حقانیت جہد مسلسل اور عمل پیہم میں حسینی کردار اور حسینی جذبہ ایثار و قربانی سے سرشار ہو ۔ اقتدار کی طاقت جان تو لے سکتی ہے ایمان نہیں ۔ اگر ایمانی طاقت کار فرما ہو تو اس کے عزم و استقلال کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا ۔ لندن کے مشہور مفکر '' لارڈ ہیڈلے '' کے بقول '' اگر حسین میں سچا اسلامی جذبہ کار فرما نہ ہوتا تو اپنی زندگی کے آخری لمحات میں رحم و کرم ، صبر و استقلال اور ہمت و جوانمردی ہرگز عمل میں آ ہی نہیں سکتی تھی جو آج صفحہ ہستی پر ثبت ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرت اما م حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حقیقی فلسفہ و حقیقت اور مقصد کو سمجھا جائے اور اس سے ہمیں جو سبق اورپیغام ملتا ہے اسے دنیا میں عام کیا جائے ۔


فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی اہل اسلام کی خدمت میں عرض کرتا ہے محبت اہلبیت و امام حسین رضی اللہ عنہم کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ ہم انے پیغام کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں ۔ حضرت امام عالی مقام سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا پہلا پیغام عملی جدوجہد کا پیغام ہے ۔ محبت حسین رضی اللہ عنہ کو فقط رسمی نہ رہنے دیا جائے بلکہ اسے اپنے عمل و حال و قال میں شامل کرلیا جائے اور اپنی زندگی کا مقصد بنایا جائے ، یعنی معلوم کیا جائے کہ یزیدی کردار کیا ہے اور حسینی کردار کیا ہے ۔


یزید نے کھلم کھلا اسلام کا انکار نہیں کیا تھا اور نہ ہی بتوں کی پوجا کی تھی ، مسجدیں بھی مسمار نہیں کی تھیں ۔ وہ اسلام کا نام بھی لیتا تھا ، وہ یہ بھی کہتا تھا کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں ، میں مسلمان بھی ہوں، میں موحد بھی ہوں ، میں حکمران بھی ہوں ، میں آپ کا خیر خواہ بھی ہوں ۔ اسلام کا انکار یہ تو ابوجہلی ہے ، ابولہبی ہے ۔ یزیدی کردار یہ ہے کہ مسلمان بھی ہو اور اسلام سے دھوکہ بھی کیا جائے ، امانت کی دعویٰ بھی ہو اور خیانت بھی کی جائے ، نام اسلام کا لیا جائے اور آمریت بھی مسلط کی جائے ۔ اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو کچلا جائے ۔ اسلام سے دھوکہ فریب یزیدیت کا نام ہے ۔ بیت المال میں خیانت کرنا ، دولت کو اپنی عیش پرستی پر خرچ کرنا یزیدیت کا نام ہے ۔ معصوم بچوں اور بچیوں کے مال کو ہڑپ کرنا یزیدیت کا نام ہے ۔ مخالف کو کچلنا اور جبراً بیعت اور ووٹ لینا یزیدیت کا نام ہے ۔ (چشتی)


آج روح حسین رضی اللہ عنہ ہم سے پکار پکار کر کہتی ہے کہ : میری محبت کا دم بھرنے والوں میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت رسمی ہے یا پھر آج تم کوئی معرکہ کربلا برپا کرتے ہو ۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت میں پھر تم آج کے وقت یزیدیوں کو للکارتے ہو یا نہیں ۔ روح حسین رضی اللہ عنہ آج پھر دریائے فرات کو رنگین دیکھنا چاہتی ہے ، آج تمہارے صبر و استقامت کا امتحان لینا چاہتی ہے ۔ کہ کون اسلام کا جھنڈا سربلند کرتے ہوئے تن من دھن کی بازی لگاتا ہے ، کون ہے جو مجھ سے حقیقی پیار کرتا ہے ۔


حسینیت کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں جہاں تمہیں یزیدیت کے کردار کا نام و نشان نظر آئے حسینی لشکر کے غلام و فرد بن کر یزیدیت کے بتوں کو پاش پاش کردو ۔ اس کے لیے اگر تمہیں مال ، جان ، اور اپنی اولاد ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑے ۔ خصوصا آج جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں ہمارے بھائیوں ، بچوں ، ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ ہو رہا ہے حسینیت کا تقاضا ہے کہ ہم سب ان کے حو میں آواز بلند کریں ۔


پہلے حسینی کردار کی تجلی اپنے اندر پیدا کرو ، سیرت حسین کو اپنے سینے پہ سجالو ، پھر اس قوت حسینی سے یزیدی کردار کی مخالفت کرو اور اس کا مقابلہ کرو ۔ کاش ہمیں وہ دل نصیب ہوجائے جس میں عمل و محبت امام حسین رضی اللہ عنہ ہو ۔ کیوں کہ یہ دنیا تو ہر کسی کو چھوڑنی ہے ، جس نے اقتدار کے نشے میں اگر لوگوں کا قتل عام کیا ، معصوموں کا خون بہایا ، ظلم کے پہاڑ گرائے وہ بھی مرگیا ، جس نے اپنے سینے پر تیروں کو جگہ دی ، شریعت کی پیروی کی ، مخلوق کی خدمت کی وہ بھی چلا گیا۔ لیکن یزیدیت تباہی و بربادی کا نام ہے ، اور حسینیت محبت و اخوت و بہادری کا نام ہے ۔ جو ظالم ہو کر مرتا ہے وہ خالق و مخلوق کی نظر میں مردود ہے ۔ جو عادل ہوکر اپنی جان رب کریم کے حوالے کرتا ہے وہ مقبول ہو جاتا ہے ۔ یہی شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا فلسفہ تھا ۔ یہی آپ کا جذبہ تھا کہ حسینیت کبھی کسی ظالم و جابر کے سامنے سرخم نہیں کرتی اور کبھی مصیبت میں نہیں گھبراتی ۔ وہ مصیبت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے تو خوشی میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے ۔


حضرت سیّدنا اما م حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حقیقی فلسفہ و حقیقت اور مقصد کو سمجھا جائے اور اس سے ہمیں جو سبق اورپیغام ملتا ہے اسے دنیا میں عام کیا جائے کیونکہ پنڈت جواہر لا ل نہرو کے بقول ’’ حسین کی قربانی ہر قوم کےلیے مشعلِ راہ و ہدایت ہے ‘‘ اور جیسا کہ مولانا محمد علی جوہر نے شہادت حسین پہ کہا ہے کہ : ⏬


قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد


اور کسی شاعر نے بہت پیاری بات کہی ہے : ⏬


نہ یزید کا وہ ستم رہا نہ وہ ظلم ابن زیاد کا

جو رہا تو نام حسین کا جسے زندہ رکھتی ہے کربلا


حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ  عنہ حق ہے اور یزید باطل ہے اور دین کی بقا کےلیے ہر دور میں شبیری کردار درکارہے کہ مرورِ وقت کے باوجود خونِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سرخی اور زیادہ بڑھتی جارہی ہے ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس عظیم الشان قربانی سے اس داستانِ حرم کی تکمیل ہوئی جو سیّدنا اسماعیل علیہ السّلام سے شروع ہوئی تھی اور حق وباطل ، کفر واسلام ، نیکی و بدی اورخیر وشر کے درمیان تمیز ہو گئی اور حد فاصل قائم ہو گئی ۔ یزیدیت مذموم ٹھہری اور یزید کا نام قیامت تک کےلیے گالی بن کر رہ گیا ۔ اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کو شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ سے سبق لینے ، حق پر چلنے اور ہمیں پیغامِ شہادت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...