آیتِ تطہیر اہلبیتِ اطہار اور ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہم
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : اِنَّمَا یُرِیْدُ ﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا ۔
ترجمہ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر والو ! اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کر کے خوب صاف ستھرا کردے ۔ (سورہ الاحزاب ، 33 : 33)
یہ آیت کریمہ اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے جمیع فضائل ، رفعتوں ، عظمتوں اور قدرو منزلت کے بیان کا منبع و مصدر اور سب سے اہم علمی اور قرآنی سرچشمہ ہے ۔ یہ آیت کلمہ حصر ’’اِنَّمَا‘‘ سے شروع ہوتی ہے ۔ ’’حصر‘‘ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ بات کی اہمیت اور تاکید کو بیان کرتا ہے ۔ اس سے مقصود سننے اور پڑھنے والوں کو بھر پور طریقے سے متوجہ کرنا ہوتا ہے تاکہ جو بات بیان کی جارہی ہے ، لوگ توجہ سے اسے سنیں ، سمجھیں اور اپنے فکر و عقیدہ میں اس کو جگہ دیں ۔
اے میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے گھر والو ! اللہ تعالیٰ تو یہی چاہتا ہے کہ گناہوں کی نجاست سے تم آلودہ نہ ہو ۔ (تفسیر مدارک الاحزاب الآیۃ: ۳۳، صفحہ ۹۴۰)
اِس آیت میں اہلِ بیت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ازواجِ مُطَہَّرات سب سے پہلے مراد ہیں کیونکہ آگے پیچھے سارا کلام ہی اُن کے متعلق ہو رہا ہے ۔ بقیہ نُفوسِ قُدسیہ یعنی خاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہرا ، حضرت علی المرتضیٰ اور حسنین کریمَین رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ کا اہلِ بیت میں داخل ہونابھی دلائل سے ثابت ہے ۔
تاجدار گولڑہ ولی کامل حضرت سیّدنا و مرشدنا پیر سیّد مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ : آیتہ تطہیر میں لفظ اہل بیت امہات المؤمنین آیتِ تطہیر ، اہلبیتِ اطہار اور ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن و آلِ عبا علیہم السلام دونوں کو شامل ہے سیاق آیۃ و احادیث کثیرہ اسی پر دال ہیں ۔ (مکتوبات طیّبات معرف بمہریہ چشتیہ صفحہ نمبر 263 طبع قدیم،چشتی)
حضرت صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’سوانح کربلا‘‘ میں یہ آیت لکھ کر اہلِ بیت رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ کے مِصداق کے بارے میں مفسرین کے اَقوال اور اَحادیث نقل فرمائیں ۔ اس کے بعد فرماتے ہیں : خلاصہ یہ کہ دولت سرائے اقدس کے سکونت رکھنے والے اس آیت میں داخل ہیں (یعنی ازواجِ مُطَہَّرات) کیونکہ وہی اس کے مُخاطَب ہیں (اور) چونکہ اہلِ بیتِ نسب (نسبی تعلق والوں) کا مر اد ہونا مخفی تھا ، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنے اس فعل مبارک (جس میں پنجتن پاک کو چادر میں لے کر ان کےلیے دعا فرمائی) سے بیان فرما دیا کہ مراد اہلِ بیت سے عام ہیں ۔ خواہ بیت ِمسکن کے اہل ہوں جیسے کہ اَزواج یا بیتِ نسب کے اہل (جیسے کہ) بنی ہاشم و مُطّلب ۔ (سوانح کربلا اہل بیت نبوت صفحہ ۸۲)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے اہل بیت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے نسب و قرابت کے وہ لوگ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے ۔ ایک جماعت نے اسی پر اعتماد کیا اور اسی کو ترجیح دی اور ابن کثیرنے بھی اسی کی تائید کی ہے ۔ (الصواعق المحرقۃ، الباب الحادی عشر،الفصل الاول فی الآیات الواردۃ فیہم صفحہ نمبر ۱۴۳،چشتی)
اس سے پتا چلا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن جو مومنین کی مائیں ہیں ، وہ بھی اہل بیت رضی اللہ عنہم ہیں ، اگرچہ اس پر قرآن و حدیث گواہ ہیں ، مگر یہ بات تفضیلی پیر و مولوی صاحبان چھپاتے ہیں ، لوگوں کے سامنے بیان کرنے سے کتراتے ہیں ، کہ کہیں سُنّی عوام پوچھ ہی نہ لیں کہ جب یہ بھی اہل بیت ہیں ، تو پھر روافض کی جانب سے امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن خصوصاً امّا عائشہ صدیقہ پاک سلام اللہ علیہا کی توہین و گستاخیوں پر تم گونگے کیوں بن جاتے ہو ؟
کبھی ایسے گستاخ رافضی ذاکروں کے نام سوشل میڈیا پر لے کر ، ان پر بھی دو چار لعنتیں ڈال دیا کریں ؛ کبھی اپنے درباری مولویوں کے ذریعے سے ان کا رد بھی کروا دیا کریں ؛ کبھی اپنے چاپلوس نعت خوانوں اور نقیبوں سے دو اشعار ایسوں کی مذمت میں بھی لکھوا دیا کریں ؛ کبھی اِن اہل بیت کی ناموس کی خاطر بھی خود تھانے جاکر گستاخ روافض کے خلاف ایف آئی آر کٹوا دیا کریں ؛ اور کبھی کبھی اپنے مریدین و متعلقین کی تربیت ایسی بھی کر دیا کریں ، کہ اُن سے جب پوچھا جائے ، کہ اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم کون ہیں ؟ تو وہ نام لیتے وقت امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کو بھی یاد رکھیں ۔
احادیث پر جب نظر کی جاتی ہے تو مفسرین کی دونوں جماعتوں کو ان سے تائید پہنچتی ہے ۔ امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ یہ آیت پنجتن پاک کی شان میں نازل ہوئی ۔ پنجتن سے مراد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور حضرت علی و حضرت فاطمہ و حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین ہیں ۔ (صلوات اللہ تعالیٰ علی حبیبہ و علیہم وسلم)
خلاصہ یہ کہ دولت سرائے اقدس کے سکونت رکھنے والے اس آیت میں داخل ہیں (یعنی ازواجِ مُطَہَّرات) کیونکہ وہی اس کے مُخاطَب ہیں (اور) چونکہ اہلِ بیتِ نسب (نسبی تعلق والوں) کا مر اد ہونا مخفی تھا ، اس لئے آں سَرور ِعالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنے اس فعل مبارک (جس میں پنجتن پاک کو چادر میں لے کر ان کے لئے دعا فرمائی) سے بیان فرمادیا کہ مراد اہلِ بیت سے عام ہیں ۔ خواہ بیت ِمسکن کے اہل ہوں جیسے کہ اَزواج یا بیت ِنسب کے اہل (جیسے کہ) بنی ہاشم و مُطّلب ۔ (سوانح کربلا باب اہل بیت نبوت ، چشتی)
اہل بیت کون ہیں ؟
بیت عربی زبان میں گھر کو کہتے ہیں۔ گھر تین قسم کا ہوتا ہے
(1) بیت نسب
(2) بیت مسکن یا بیت سکنٰی
(3) بیت ولادت
اسی اعتبار سے گھر والوں کے بھی تین طبقے ہیں
(1) اہل بیت نسب
(2) اہل بیت سکنٰی
(4) اہل بیت ولادت
اہل بیت نسب سے مراد انسان کے وہ رشتہ دار ہیں جو نسب میں آتے ہیں یعنی وہ رشتہ دار جو باپ اور دادا کی وجہ سے ہوتے ہیں مثلاً چچا، تایا، پھوپھی وغیرہ نسب کے رشتے ہیں ۔
اہل بیت مسکن سے مراد وہ رشتہ دار ہیں جو گھر کے اندر آباد ہوتے ہیں یعنی شوہر کی بیوی ۔
اہل بیت ولادت سے مراد وہ نسل ہے جو گھر میں پید اہوئی ہے۔ اس میں بیٹے، بیٹیاں اور آگے ان کی اولاد شامل ہے۔ جب مطلق اہل بیت کا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد مذکورہ تینوں طبقات ہوتے ہیں بشرطیکہ وہ اہل ایمان ہوں ۔ ان میں سے کسی ایک طبقے کو خارج کردینے سے اہل بیت کا مفہوم پورا نہیں ہوتا ۔
جب انسان متعصب ہو جاتا ہے تو پھر اسے اپنے مطلب کی چیز کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ جب دین تعصب کی نظر ہوجاتا ہے تو ہر کوئی اپنے مطلب کی بات نکالنے لگتا ہے ۔ وہ دو طبقے جو حب صحابہ اور حب اہل بیت رضی اللہ عنھم کے نام پر افراط و تفریط کا شکار ہوئے ان میں سے ایک طبقے نے مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے اس میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو نکال دیا ۔ گویا انہوں نے اہل بیت میں سے اہل بیت مسکن کو نکال دیا ۔ جب اہل بیت میں سے بیویاں ہی نکل جائیں تو پھر اولاد کا گھر سے کیا تعلق رہا ؟
بہر حال انہوں نے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو نکال کر کہا کہ اہل بیت سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ شیر خدا ، حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا ، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ہیں ۔
بے شک مذکورہ چاروں ہستیاں اہل بیت میں شامل ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے انہیں چادر تطہیر میں چھپایا اور ان کے اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہونے کا انکار فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا انکار ہے مگر سمجھانا یہ مقصود ہے کہ ایک طبقے نے کچھ اہل بیت مراد لیے اور باقی چھوڑ دیے ۔ اس کے رد عمل کے طور پر دوسرے طبقے نے کہا کہ اہل بیت سے مراد صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ہیں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ، سیدہ دوعالم حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا اور حسنین کریمین رضی اللہ عنھما اہل بیت میں شامل ہی نہیں ۔ دونوں طبقوں نے قرآن پاک کو گویا سکول کا رجسٹر داخل خارج سمجھ لیا ہے کہ جسے چاہا داخل کر دیا اور جسے چاہا خارج کر دیا ۔ من مانی تاویلیں کر کے امت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور نہ صرف امت بلکہ نسبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو بھی متنازعہ بنا دیا ۔
محترم قارئینِ کرام : جو گھر والا ہے وہ تو ہر گھر والے کو پیارا ہے اور وہ ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہے پھر جو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے نسبی تعلق والا ہے ، آپ کے گھر میں ہے یا آپ کی نسل پاک میں سے ہے اور اہل ایمان ہے ۔ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا اہل بیت اور ہر ایک کو پیارا ہونا چاہیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے نسبی تعلق ہونا ، آپ کے گھر میں ہونا یا آپ کی اولاد پاک میں سے ہونا تو ایک طرف حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے گھر صرف خدمت کرتے تھے اور سودا سلف لاکر دیتے تھے انہیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنے اہل بیت میں شامل فرمایا ہے حالانکہ نہ تو ان کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے نسبی تعلق تھا نہ وہ اہل بیت مسکن میں سے تھے اور نہ ہی وہ آپ کی اولاد پاک میں سے تھے ، بیت کی تینوں نسبتیں مفقود تھیں لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے رحمت کے ہاتھ بڑھاتے ہوئے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بھی اہل بیت میں شامل فرمالیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا سلمان ہمارے اہل بیت میں سے ہے ۔ (مستدرک امام حاکم 3 : 691 رقم 6539،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے جب اپنے اہل بیت میں سے کسی ایک طبقے کو خارج نہیں کیا تو ہم کسی ایک طبقے کو خارج کرکے کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے انصاف کر رہے ہیں ؟ یقیناً یہ انصاف نہیں بلکہ محض جہالت اور تعصب ہے ۔
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا ارشادِ مبارک
راہ اعتدال کو چھوڑ کر افراط و تفریط کا راستہ اپنانے والوں کےلیے حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان مبارک ایک تازیانے کی حیثیت رکھتا ہے ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے مجھ سے فرمایا کہ تمہیں حضرت عیسٰی علیہ السلام سے ایک مشابہت ہے ۔ ان سے یہود نے بغض کیا یہاں تک کہ ان کی والدہ ماجدہ پر زنا کی تہمت لگائی اور نصاریٰ ان کی محبت میں ایسے حد سے گزرے کہ ان کی خدائی کے معتقد ہوگئے ۔ ہوشیار ! میرے حق میں بھی دو گروہ ہلاک ہوں گے ۔ ایک زیادہ محبت کرنے والا جو مجھے میرے مرتبے سے بڑھائے گا اور حد سے تجاوز کرے گا ۔ دوسرا بغض رکھنے والا جو عداوت میں مجھ پر بہتان باندھے گا ۔ (مسند احمد بن حنبل جلد نبر 2 صفحہ نمبر 167، رقم 1376،چشتی)
شیعہ مذہب کے نزدیک معتبر کتاب ’’نہج البلاغہ،، میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے : میرے معاملہ میں دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے ۔ ایک محبت کرنے والا ، حد سے بڑھانے والا ۔ وہ محبت اس کو غیر حق کی طرف لے جائے گی ۔ دوسرا بغض رکھنے والا حد سے کم کرنے والا ، وہ بغض اس کو خلاف حق کی طرف لے جائے گا اور سب سے بہتر حال میرے معاملہ میں میانہ رو جماعت کا ہے پس اس میانہ رو جماعت کو اپنے لئے ضروری سمجھو اور (بڑی جماعت) سواد اعظم کے ساتھ وابستہ رہو کیونکہ اللہ کا ہاتھ اسی جماعت پر ہے اور خبردار! اس جماعت سے الگ نہ ہونا کیونکہ جو شخص جماعت سے الگ ہوگا وہ اسی طرح شیطان کا شکار ہوگا جس طرح ریوڑ سے الگ ہونے والی بکری بھیڑیئے کا شکار ہوتی ہے ۔ (ترجمہ و شرح نہج البلاغہ جلد اول، 383)
ان آیات کا سیاق و سباق بتاتا ہے کہ أمہات المؤمنین رضی اللہ عنہن اس میں شامل ہیں ۔ کسی عامی آدمی کو بھی ان آیات کا ترجمہ پڑھنے کے لیے کہا جائے تو اس کو بھی سمجھ آ جائے گی کہ یہاں اہل بیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی بیویاں شامل ہیں ۔
اس پورے رکوع کو آپ اس آیت سے پہلے پڑھ لیں اس کے بعد پڑھ لیں سب کا اتفاق ہے کہ اس سے مراد امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن ہیں بلکہ یہی آیت اس کو شروع سے پڑھ لیں ۔ و قرن فی بیوتکن ۔ اس میں خطاب مؤنث کے صیغے کے ساتھ ہے ۔
اور پھر اس سے بعد والی آیت بھی واذکرن سے شروع ہورہی ہے جو خطاب جمع مؤنث کے لیے ہے ۔ جبکہ إنما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس أہل البیت و یطہرکم تطہیرا ۔ میں یہ نکتہ ہے ۔ واللہ أعلم ۔ تاکہ امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کے ساتھ دیگر اہل بیت رضی اللہ عنہم کی شمولیت کا بھی امکان باقی رہے ۔ یہی وجہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی تو حضرت علی و حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا اور امامِ حسن و امامِ حسین رضی اللہ عنہما کو بطور خاص اہل بیت میں شامل کیا تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ سیاق سباق تو امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کے لیے ہے یہ چار ہستیاں اس میں کیسے شامل ہیں ۔
اور امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن چونکہ اس سے پہلے بنص قرآن اس میں شامل تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اس کی ضرورت نہ سمجھی کیونکہ یہ تو ایک قسم کا تحصیل حاصل تھا ۔ اور ویسے بھی معروف بات ہے کہ اہل بیت کے واقعے والی اس حدیث میں یہ تو ذکر ہے کہ چار ہستیاں اہل بیت میں سے ہیں لیکن باقیوں کی نفی کہیں بھی نہیں ۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے یہ تو کہا تھا کہ یہ چار میرے اہل بیت ہے لیکن یہ نہیں کہا تھا کہ ان کے علاوہ اور کوئی اہل بیت میں سے نہیں ہے ۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سنواے لوگو ! میں صرف ایک بشر ہوں ‘ عنقریب میرے پاس اللہ کا سفیر آئے گا ‘ اور میں اس کی دعوت کو قبول کروں گا ‘ میں تم میں وہ بھاری چیزیں چھوڑنے والا ہوں ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے ‘ سو تم اللہ کی کتاب کو پکڑ لو اور اس کا دان تھام لو ‘ پھر آپ نے کتاب اللہ پر برانگخیتہ کیا اور اس کی طرف راغب کیا ‘ اور فرمایا دوسری بھاری چیز میرے اہل بیت ہیں ‘ میں تم کو اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ کی یاد دلاتا ہوں ‘ حصین نے حضرت زید بن ارقم سے پوچھا ! اے زید ! آپ کے اہل بیت کے اہل بیت کو ہیں ؟ کیا آپ کی ازواج مطہرات آپ کی اہل بیت نہیں ہیں ؟ حضرت زید بن ارقم نے کہا آپ کی ازواج مطہرات بھی اہل بیت سے ہیں لیکن (اس ارشاد میں) آپ کے اہل بیت سے مراد وہ لوگ ہیں جن پر آپ کے بعد صدقہ کرنا حرام ہے ‘ اس نے پوچھا وہ کون ہیں ! انہوں نے کہا وہ آل علی ‘ آل عقیل ‘ آل جعفر اور آل عباس ہیں ‘ اس نے پوچھا ان سب پر صدقہ حرام ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٠٨‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٨١٧٥)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کے حج کے موقع پر دیکھا آپ اپنی اونٹنی القصواء پر سوار خطبہ دے رہے تھے ‘ آپ فرما رہے تھے اے لوگو ! میں نے تم میں واپسی چیزیں چھوڑی ہیں کہ اگر تم نے ان کو پکڑ لیا تو تم کبھی گمراہ نہیں ہو گے اللہ کی کتاب اور میری اولاد میرے اہل بیت ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٧٨٦‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٨)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لے پالک حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت حضرت ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی : انما یریداللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا ۔ (سورہ الاحزاب : ٣٣)
ترجمہ : اے رسول کے گھر والو ! اللہ صرف یہ ارادہ فرماتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی نجاست دور رکھے اور تم کو خوب ستھرا اور پاکیزہ رکھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ ‘ حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلوایا اور ان سب کو ایک چادر میں ڈھانپ لیا ‘ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کی پشت کے پیچھے تھے پس آپ نے ان کو بھی اس چادر میں ڈھانپ لیا پھر کہا اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں ‘ تو ان سے (ہرقسم کی) نجاست کو دور رکھنا اور انکو خوب پاکیزہ رکھنا ‘ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ ! آیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں ؟ آپ نے فرمایا تم اپنے مقام پر ہو اور تم میری طرف منسوب ہو ‘ نیک ہو ‘ دوسری روایت میں ہے تم خیر پر ہو۔
(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٧٨٧‘ ٣٢٠٥،چشتی)
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تم میں اسی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم نے ان کو تھام لیا تو تم میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے ! ان میں سے ایک دوسری سے زیادہ عظیم ہے ‘ ایک کتاب اللہ ہے یہ وہ رسی ہے جو آسمان سے زمین تک تانی ہوئی ہے اور دوسری میری اولاد ہے میرے اہل بیت ‘ وہ ہرگز ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوں گے حتی کہ وہ دونوں میرے پاس حوض پروارد ہوں گے ‘ پس غور کرو کہ تم میرے بعد ان سے کس طرح پیش آتے ہو۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٧٨٨‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٠ ص ٥٠٦‘ مسند احمد ج ٣ ص ١٤۔ ١٧۔ ٢٦۔ ٥٩‘ مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ١٠٢١۔ ١٠٢٧‘ الضعفاء للعقیلی ج ٢ ص ٢٥٠‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٧٨‘ المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٣٥٦٦‘ المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٣٦٣،چشتی)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ ‘ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کو امام طبرانی کی دیرگ روایات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر بھی ہے) کو ایک کپڑے میں داخل کیا (حدیث : ٢٦٦٧ میں سیاہ چادر کا ذکر ہے) پھر مرمایا : اے اللہ یہ مرے اہل بیت ہیں ! میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے بھی ان کے ساتھ داخل فرما لیں ! آپ نے فرمایا تم (بھی) میرے اہل سے ہو ۔ دیگر روایات میں الاحزاب : ٣٣ کی تلاوت کا بھی ذکر ہے ۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٧٣۔ ٢٦٧٢۔ ٢٦٧١۔ ٢٦٧٠۔ ٢٦٦٨۔ ٢٨٨٧٦۔ ٢٦٦٦۔ ٢٦٦٥۔ ٢٦٦٤۔ ٢٦٦٣ )
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھر کم تطھیرا ‘ حضرت علی ‘ حضرت فاطمہ ‘ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کے متعلق نازل ہوئی ہے ۔ (مسند البز اررقم الحدیث : ٢٦١١‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٦٣‘ رقم الحدیث : ٢٦١١‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
ابو الحمراء ہلال بن الحارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر روز حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کے دروازے پر جا کر فرماتے الصلاۃ الصلاۃ (نماز کےلیے اٹھو) انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھر کم تطھیرا ۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٤ ص ١٩٨‘ رقم الحدیث : ١٠٧٨‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ،چشتی)
اہل بیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات ‘ آپ کی اولاد اور آپ کے رشتہ دار سب داخل ہیں ‘ اولاد اور رشتہ دار داخل ہیں ۔
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں : کسی شخص کے اہل وہ لوگ ہیں جو اس کے نسب ‘ یا دین یا پیشہ یا گھر یا شہر میں شریک اور شامل ہوں ‘ لغت میں کسی شخص کے اہل وہ لوگ ہیں جو اس کے گھر میں رہتے ہوں ‘ پھر مجازاً جو لوگ اس کے نسب میں شریک ہوں ان کو بھی اس کے اہل کہا جاتا ہے ‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کے لوگوں کو بھی مطلقاً اہل بیت کہا جاتا ہے ‘ جیسا کہ قرآن مجید کی اس آیت میں ہے : انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت (الاحزاب : ٣٣) اے رسول کے گھر والو ! اللہ صرف یہ ارادہ فرماتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی نجاست کو دور رکھے ۔ کسی شخص کی بیوی کو اس کے اہل سے تعبیر کی جاتا ہے اور اہل اسلام ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو سب اسلام کے ماننے والے ہوں۔ اور چونکہ اسلام نے مسلم اور کافر کے دریمن نسب کا رشتہ منقطع کردیا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے فرمایا : یانوح انہ لیس من اھلک ج انہ عمل غیر صالح ۔ (ھود : ٤٦) اے نوح ! بیشک وہ (آپ کا بیٹا) آپ کے اہل سے نہیں ہے ‘ اس کے عمل نیک نہیں ہیں ۔ (المفردات ج ١ ص ٣٧‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٨ ھ،چشتی)
علامہ محمد بن مکرمہ ابن منظور الافرفیقی المصری المتوفی ٧١١ ھ لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت آپ کی ازواج ‘ آپ کی بیٹیاں اور آپ کے داماد یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہم ہیں ۔ (لسان العرب ج ١١ ص ٢٩‘ نشرادب الحوزۃ ‘ ١٤٠٥ ھ)
علامہ محمد طاہر پیٹنی المتوفی ٩٨٢ ھ لکھتے ہیں : آپ کی ازواج آپ کے اہل بیت سے ہیں جن کو تعظیما ثقل کہا گیا ہے لیکن یہ وہ اہل بیت نہیں ہیں جن پر صدقہ حرام ہے ۔ (مجمع بخار الانوارج ١ ص ١٣٤‘ مکتبہ دارالایمان المدینۃ المنورۃ ‘ ١٤١٥ ھ،چشتی)
سید محمد مرتضیٰ حسینی زبیدی متوفی ١٢٠٥ ھ لکھتے ہیں : کسی شخص کی بیوی کو اس کی اہل کہا جاتا ہے ‘ اور اہل میں اولاد بھی داخل ہے ‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل آپ کی ازواج ‘ آپ کی بیٹیاں اور آپ کے داماد حضرت علی رضی اللہ عنہم ہیں ۔ (تاج العروس شرح القاموس جلد ٧ صفحہ نمبر ٢١٧‘ داراحیاء التراث العربی بیروت،چشتی)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ حضرت سارہ کے متلعق قرآن مجید میں ارشاد ہے : قالوا آتعجبین من امر اللہ رحمت اللہ و برکتہ علیکم اھل البیت ۔ (ھود : ٧٣) ۔ تعجب کرتی ہو ! اے اہل بیت ! تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بیوی کے متعلق ارشاد ہے : فقال لاھلہ امکثوآ انی انست نارا ۔ موسیٰ نے اپنی بیوی سے کہا تم ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے ۔ (سورہ طہ : ١٠)
عزیز مصر کی بیوی کے متعلق ارشاد ہے : قالت ما جزآء من اراد باحلک سوء الآ ان یسجن ۔ (سورہ یوسف : ٢٥) ۔ وہ کہنے لگی جو شخص تیری بیوی کے ساتھ برا ارادہ کرے اس کی یہی سزا ہے کہ اس کو قید کردیا جائے ۔
بیوی اور بچوں کے متعلق ارشاد ہے : فاستجبنا لہ فکشفنا ما بہ من ضرو اتینہ اھلہ و مثلہم معھم ۔ (سورہ الانبیا : ٨٤) ۔ سو ہم نے ایوب کی دعا سن لی اور ان کو جو تکلیف تھی وہ دور کردی اور ہم نے ان کو اہل و عیال عطا فرمائے اور ان کے ساتھ ان کی مثل بھی ۔
وکان یامر اھلہ بالصلوۃ ۔ (سورہ مریم : ٥٥) اور اسماعیل اپنے بیوی بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دیتے تھے ۔
جب منافقین نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر غزوہ بنو المصطلق میں بدکاری کی تہمت لگائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس تہمت سے برأت بیان کرتے ہوئے فرمایا : یامعشر المسلمین من یعذرنی من رجل قد بلغنی عنہ اذاہ فی اھلی واللہ ماعلمت علی اھلی الاخیر ا ۔ اے مسلمانو ! اس شخص کے معاملہ میں میری مدد کون کرے گا جس کی اذیت اب میری بیوی کے متعلق پہنچ چکی ہے ‘ اللہ کی قسم مجھے اپنی بیوی کے متلعق سوا خیر کے اور کسی چیز کا علم نہیں ہے۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤١٤١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٧٠‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢١٣٨‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٣٤٧۔ ١٩٧٠،چشتی)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص اپنی اہل (بیوی) سے عمل زوجیت کرتے وقت یہ دعا کرے بسم اللہ اے اللہ شیطان کو ہم سے دور رکھ اور ہم کو جو (بچہ) دے اس کو بھی شیطان سے دور رکھ ‘ پھر ان کے لیے جو بچہ مقدر کیا جائے اس کو شیطان ضرر نہیں پہنچائے گا۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٣٤‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢١٦١‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٠٩٢‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٩٠٣٠‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٩١٩،چشتی)
اسی طرح صحیح مسلم (رقم الحدیث : ٢٤٠٨) کے حوالہ سے یہ حدیث گذر چکی ہے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت سے ہیں لیکن ان اہل بیت میں سے نہیں ہیں جن پر صدقہ حرام ہے ‘ اور جن پر صدقہ کرنا حرام ہے وہ اہل بیت آل علی ‘ آل عقیل ‘ آل جعفر اور آل عباس رضی اللہ عنہم ہیں ۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ٧ ص ٤٢٠‘ ١ لمفہم ج ٦ ص ٣٠٥‘ صحیح مسلم بشرح النوادی ج ١٠ ص ٦٣٠٥،چشتی)
اور اس وضاحت سے ان احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے جن میں سے بعض میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تم اپنی جگہ خیر پر یعنی اہل بیت میں سے نہیں ہو ‘ اور بعض احادیث میں ہے کہ تم اہل بیت میں ہو ‘ یعنی ان اہل بیت میں سے نہیں ہو جن پر صدقہ حرام ہے اور مطلقاً اہل بیت میں سے ہو ‘ روایات کی تفصیل یہ ہے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ یہ آیت انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا ۔ (الاحزاب : ٣٣) ۔ میرے گھر میں نازل ہوئی ‘ میں اس وقت دروازہ پر بیٹھی ہوئی تھی ‘ آپ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھم اپنے خاوند اور اپنے دونوں بیٹوں کو بلاٶ ‘ پھر آپ نے ان سب کو چادر میں داخل کرکے فرمایا : اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں ‘ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا میں نے چادر اٹھائی تاکہ میں بھی ان میں داخل ہوں تو آپ نے میرا ہاتھ کھینچ کر فرمایا (بعض روایات میں ہے تم الگ رہو) تم تو خیر پر ہو ہی ۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٦٢۔ ٢٦٦٤۔ ٢٦٦٦۔ ٢٦٦٨،چشتی)
اس روایت کا محمل یہ ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ان اہل بیت میں سے نہیں ہیں جن پر صدقہ حرام ہے ‘ اور دوسری روایات وہ ہیں جن میں آپ نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تم اہل بیت سے ہو ۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ ‘ (دوسری روایات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی ذکر ہے) اور حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو ایک کپڑے میں داخل کرکے فرمایا : اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں ‘ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے بھی ان کے ساتھ داخل فرمالیں ‘ آپ نے فرمایا تم بھی میرے اہل سے ہو ‘ اور بعض روایات میں ہے تم بھی ہو۔ امام بغوی کی روایت میں ہے : حضرت ام سلمہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی اہل بیت میں سے ہوں آپ نے فرمایا کیوں نہیں ! ان شاء اللہ ۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٦٣‘ ٢٦٦٥۔ ٢٦٦٧۔ ٢٦٦٩۔ ٢٦٧٠ معالم النزیل ج ٣ ص ٦٣٧‘ شرح السنہ رقم الحدیث ٣٨٠٥)
امام فخرالدین رازی لکھتے ہیں :
اہل بیت کی تعین میں مختلف اقوال ہیں اولیٰ یہ ہے یہ کہا جائے کہ آپ کے اہل بیت ‘ آپ کی اولاد اور آپ کی ازواج ہیں ‘ اور حضرت حسن اور حضرت حسین اور حضرت علی رضی اللہ عنہم بھی ان میں سے ہیں ‘ کیونکہ آپ کی بیٹی کی واسطے سے وہ بھی آپ کیا ہل بیت سے ہیں ۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ١٦٨‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
علامہ ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ لکھتے ہیں :
ازواج مطہرات اہل بیت سے خارج نہیں ہیں ‘ بلکہ زیادہ ظاہر یہ ہے کہ وہ اہل بیت کے عنوان کی زیادہ مستحق ہیں کیونکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیت (گھر) میں آپ کے ساتھ لازم رہتی تھیں ‘ علامہ ابن عطیہ نے کہا کہ آپ کی ازواج اہل بیت سے خارج نہیں ہیں ‘ پس اہل بیت آپ کی ازواج ہیں ‘ آپ کی بیٹی (حضرت فاطمہ) ان کے بیٹے اور ان کے شوہر ہیں ‘ علامہ زمخشری نے کہا اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج اہل بیت سے ہیں ‘ اور آپ کی ازواج کے گھر وحی نازل ہونے کی جگہیں ہیں ۔ (البحر المحیط جلد ٨ صفحہ ٤٧٩‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٤ ھ،چشتی)
علامہ اسماعیل حقی حنفی متوفی ١١٣٧ ھ لکھتے ہیں : اس آیت میں اس پر قوی دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج آپ کے اہل بیت سے ہیں اور اس میں شیعہ کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ اہل بیت حضرت فاطمہ ‘ حضرت علی ‘ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کے ساتھ مخصوص ہیں کیونکہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیاہ چادر لے کر آئے پھر حضرت فاطمہ ‘ حضرت علی ‘ حضرت حسن اور حضرت حسین کو اس چادر میں داخل کرکے یہ آیت پڑھی : انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھر کم تطھیرا ‘ یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ حضرات اہل بیت سے ہیں ‘ اس پر دلالت نہیں کرتی کہ ان کے علاوہ دیگر حضرات اہل بیت سے نہیں اور اگر بالفرض اس کی یہ دلالت ہو بھی تو قرآن مجید کی اس نص صریح کے مقابلہ میں اس روایت کا اعتبار نہیں ہوگا کیونکہ یہ آیت ازواج مطہرات کے متعلق نازل ہوئی ہے ۔ (تفسیر روح البیان ج ٧ ص ٢٩٧‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ،چشتی)
قاضی ابو السعود محمد بن محد العماری الحنفی المتوفی ٩٨٢ ھ اور قاضی عبداللہ بن عمر البیضادی الشافعی متوفی ٦٨٥ ھ نے بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی تقریر کی ہے ۔ (تفسیر ابی السعود ج ٥ ص ٢٢٥‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٩ ھ ‘ تفسیر بیضاوی مع حاثیۃ الشہباب ج ٧ ص ٤٨٧‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)
علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں : امام ابن جریر ‘ امام ابن ابی حاتم اور امام طبرانی نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ آیت انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھر کم تطھیرا ‘ میرے متعلق ‘ علی کے متعلق ‘ فاطمہ ‘ حسن اور حسین کے متعلق نازل ہوئی ہے ‘ اس روایت میں حضر کا لفظ نہیں ہے اور عدد میں مفہوم مخالف معتبر نہیں ہوتا ‘ اور شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پانچ کا خصوصیت سے اس لیے ذکر فرمایا کہ یہ افضل اہل بیت ہیں اور یہ تقریر اس مفروضہ کی بناء پر ہے کہ یہ حدیث صحیح ہو اور مجے ظن غالب یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے ۔ (روح المعانی جز ٢٢ ص ٤ ہ ‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)
مشکوۃ المصابیح : ٦١٨٦ میں صحیح مسلم کے حوالے سے یہ حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صبح سیاہ چادر اوڑھی ہوئی تھی ‘ آپ کے پاس حضرت حسن بن علی آئے تو آپ نے ان کو اس چادر میں داخل کرلیا ‘ پھر حضرت حسین آئے تو وہ بھی اس چادر میں داخل ہوگئے ‘ پھر حضرت فاطمہ آئیں تو آپ نے ان کو اس سیاہ چادر میں داخل کرلیا ‘ پھر حضرت علی آئے تو ان کو بھی اس چادر میں داخل کرلیا (رضی اللہ عنہم) پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی : انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھر کم تطھیرا ۔ (الاحزاب : ٣٣)
اس کی تشریح میں امام ملا علی قاری متوفی ١٠١٤ ھ لکھتے ہیں : اس حدیث میں دلیل ہے کہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں داخل ہیں کیونکہ اس آیت سے پہلے بھی ازواج مطہرات سے خطاب سے ینسآ النبی لسنتن کا حد من النسآء ۔ (الاحزاب : ٣٢) ۔ اور اس آیت کے بعد بھی ازواج مطہرات سے خطاب ہے واذکرن مایتلی فی بیوتکن من آیت اللہ والحکمۃ ۔ (الاحزاب : ٣٤) ۔ (مرقات ج ١٠ ص ٥٠٨‘ مکتبہ خقانیہ پشاور)
الحمد للہ فقیر چشتی نے کتب لغت ‘ قرآن مجید کی آیات ‘ احادیث اور فقہاء اسلام کی عبارات سے واضح کر دیا ہے کہ اہل بیت میں ازواج مطہراتِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عترت اور آپ کے داماد حضرت علی رضی اللہ عنہم سب داخل ہیں اس لیے شیعہ حضرات کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ اہل بیت کا لفظ صرف ان پانچ نفوس قدسیہ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اب ہم شیعہ علماء کی عبارت پیش کررہے ہیں ۔ ⬇
شیعہ علماء کے اس اعتراض کا جواب کہ اہل بیت کے ساتھ مذکر کی عبارت ضمائر کیوں لائی گئیں
شیخ الطائفہ ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسی المتوفی ٤٦٠ ھ اور شیخ طبرسی لکھتے ہیں :
حضرت ابو سعید الخدری ‘ حضرت انس بن مالک ‘ حضرت عائشہ ‘ حضرت ام سلمہ اور حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت (انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھر کم تطھیرا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘ حضرت علی ‘ حضرت فاطمہ ‘ حضرت حسن اور حضرت حسین کے متعلق نازل ہوئی ہے ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی ‘ حضرت حسن اور حضرت حسین کو بلا کر اپنی سیاہ چادر میں داخل فرمالیا اور فرمایا اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں تو ان سے نجاست کو دور کر دے اور ان کو خوب پاک کردے ‘(الی قولہ) عکرمہ نے کہا یہ آیت خصوصیت کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج کے متعلق ہے اور یہ غلط ہے ‘ کیونکہ اگر یہ آیت ازواج کے متعلق ہوتی تو اس میں مؤنث کے صیغے ہوتے جیسے اس سے پہلے وقرن فی بیوتکن اور ولا تبرجن اور اطعن اللہ اور اقمن وغیر ھا میں ہیں ۔ (التبیان فی تفسیر القرآن ج ٨ ص ٣٤٠‘ ملخصا داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ مجمع البیان جلد ٨ صفحہ ٥٥٩‘ دارالمعرفہ بیروت،چشتی)
شیخ الشیعہ کے اس عتراض کا جواب یہ ہے کہ اہل بیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی داخل ہیں اور جب کسی جملہ میں مذکر اور مؤنٹ دونوں ہوں تو مذکر صیغے لائے جاتے ہیں مؤنث نہیں لائے جاتے اس لیے لیذھب عنکم الرجس فرمایا اور لیذھب عنکن الرجس نہیں فرمایا ‘ اور اس اعتراض کا دوسرا جواب یہ ہے کہ اہل بیت الفظاً مذکر ہے اور معنی مونث ہے اور ضمیروں کے لانے میں لفظ کی رعاییت ہوتی ہے معنی کی نہیں ہوتی ۔
شیعہ علماء کا اہل بیت کی عصمت کو ثابت کرنا اور اس کا جواب
شیخ الطائفہ ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسی المتوفی ٤٦٠ ھ لکھتے ہیں : ہمارے اصحاب نے اس آیت (الاحزاب : ٣٣) سے یہ استدلال کیا ہے کہ اہل بیت کی جماعت میں ایسے معصوم ہیں جن سے کوئی غلطی نہیں ہو سکتی اور ان کا جماع ہمیشہ صحیح ہوتا ہے ‘ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرمایا ہے : اللہ تعالیٰ نے اہل بیت سے نجاست کو دور کرنے کا اور ان کو پاک کرنے کا ارادہ فرمایا ہے اور اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو گناہوں سے مجتنب رکھنے اور ان سے اطاعت اور عبادت کرانے کا ارادہ فرمایا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ ارادہ تو تمام مکلفین سے فرمایا ہے اور اس ارادہ کی اہل بیت کے ساتھ کوئی خصوصیت نہیں ہے ‘ بلکہ اہل بیت کی خصوصیت تب ہوگی جب اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ایسے لطف کا ارادہ کرے جس کی بناء پر ان سے معصیت کا صدور ممتنع اور محال ہوجائے اور اسی وجہ سے اس آیت کو اہل بیت کی مدح میں پیش کرنا درست ہوگا اور اس سے واضح ہوگیا کہ اس آیت میں اہل بیت کی عصمت کا ثبوت ہے ۔ (التبیان فی تفسیر القرآن ج ٨ ص ٤٣٠‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)
شیخ ابو علی الفضل بن السحن الطبرسی نے بھی اہل بیت کی عصمت کے ثبوت میں یہی تقریر کی ہے ۔ (مجمع البیان ج ٨ ص ٥٦٠‘ بیروت ‘ ١٤٠٦ ھ)
شیعہ مفسرین کی یہ دلیل حسب ذیل وجوہ سے مردود ہے : ⬇
(1) اس آیت میں ایسا کوئی لفظ نہیں ہے جس کا یہ تقاضا ہو کہ نجاست کو دور کرنا اور گناہوں سے پاک کرنا آل رسول کی خصوصیت ہے اور کسی اور کسی اور کو یہ وصف نہیں دیا گیا اور اس آیت کا سیاق وسباق ازواج مطہرات کی مدح کا تقاضا کرتا ہے نہ کہ آل رسول کی ‘ اس لیے اگر اس وصف کی خصوصیت ہوگی بھی تو وہ ازواج مطہرات کے ساتھ ہوگی نہ کی آل رسول کے ساتھ ۔
(2) عصمت کا یہ معنی نہیں ہے کہ معصوم سے گناہ کا صدور ممتنع اور محال ہو ورنہ اس کو گناہوں کے ترک کرنے کا مکلف کرنا یا اطاعت کرنے کا مکلف کرنا صحیح نہیں ہوگا کیونکہ مکلف اس کام کا کیا جاتا ہے ہے جس کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہو ‘ جیسے پتھروں اور درختوں کو عبادت کرنے اور گناہوں کو ترک کرنے کا مکلف نہیں کیا گیا ‘ اور جب اہل بیت اس معنی میں معصوم ہیں کہ ان کے لیے نیکی کو تر کرنا اور برائی کا ارتکاب کرنا ممکن نہیں ہے تو ان کا عبادت کرنا اور گناہوں سے بازرہنا تعریف اور تحسین کا موجب بھی نہیں ہوگا جیسے دیواروں کی اس بات پر تعریف نہیں کی جاتی کہ وہ شراب نہیں پیتیں اور زنا نہیں کرتیں ۔
(3) اگر اہل بیت معصوم ہیں اور ان کا گناہ رکنا ممکن نہیں ہے تو پھر اس آیت کا نازل کرنا عبث اور بےفائدہ ہوگا کیونکہ جب وہ گناہوں سے معصوم ہیں اور ان سے گناہ ہو ہی نہیں سکتے تو پھر اس کہنے کا کیا فائدہ ہے کہ اللہ اہل بیت کو گناہوں سے مجتنب کرنے اور پاک کرنے کا ارادہ فرماتا ہے۔
(٤) اللہ تعالیٰ جس کام کا ارادہ فرماتا ہے اس کا ہونا لازم اور ضروری ہوگا یا نہیں ہوگا اگر اس کا ہونا لازم اور ضروری نہیں ہے تو پھر اہل بیت کا گناہوں سے پاک ہونا بھی لازم اور ضروری نہیں ہوگا اور اس سے اہل بیت کا معصوم ہونا ثابت نہیں ہوگا ‘ اور اگر اس کا پورا ہونا لازم اور ضروری ہو تو پھر لازم آئے گا کہ تمام مسلمانوں کو معصوم مانا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وضو ‘ غسل اور تیمم کی مشروعیت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے : مایرید اللہ لیجعل علیکم من حرج و لکن یرید لیطھرکم ولیتم نعمتہ علیکم ۔ (سورہ المائدہ : ٦) ۔ اللہ تم کو کسی قسم کی تنگی میں ڈالنا نہیں چاہتا لیکن وہ تم کو پاک کرنے اور تم پر اپنی نعمت کو تمام کرنے کا ارادہ فرماتا ہے ۔
بلکہ اس آیت سے اہل بیت رضی اللہ عنہم کی تطہیر کی بہ نسبت عام مسلمانوں کی عصمت زیادہ مٶکد طریقہ سے ثابت ہوگی کیونکہ اس میں مسلمانوں کو صرف گناہوں سے پاک کرنے کا ذکر نہیں ہے بلکہ ان پر اپنی نعمت کو مکمل کرنے کا بھی ذکر ہے کیونکہ آیت تیمم غزوۃ المریسیع ٦ ھ میں نازل ہوئی ہے ۔ (الاسذکار جلد ٣ صفحہ ١٤١) اور غزوہ بدر ٢ ھ میں ہوا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment