حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر اعتراضات اور ان کے جوابات
محترم قارئینِ کرام : امیر المومنین حضرت سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے کئی بار جنت کی بشارت پانا ، بیررومہ کا وقف ِ عام فرما کر جنتی چشمہ کا مالک بننا ۔ غزوہ تبوک کے موقع پر عسر ت وتنگ دستی کے دور میں سب سے زیادہ فیاضی فرما کر لسانِ نبو ت سے دادِ تحسین حاصل کرنا او رسرکار کا اس موقع پر ان کی نذر کردہ رقم کو اچھالتے ہوئے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمانا ” ماعلی عثمان ماعمل بعد الیوم ” (آج کے بعد عثما ن پر کسی عمل کامواخذہ نہیں) ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو شہزادیوں کا یکے بعد دیگرے ان کے عقد میں آکر ذوالنورین کا خطاب پانا ، بیعتِ رضوان کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے دستِ کریم کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دے کر انہیں شاملِ بیعت فرمانا ، دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک مصحف پر جمع فرماکر ملتِ اسلامیہ کو بڑے افتراق وانتشار سے محفوظ فرمانا ، یہ وہ مناقبِ جلیلہ او ر اوصافِ حمیدہ ہیں جن کےلیے صرف حضرت امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ذاتِ والا کو چنا گیا ہے ۔ ان اعلیٰ اوصاف کے تناظر میں کوئی مسلمان ان بیہودہ او ر خود ساختہ الزامات کا حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ذات میں موجود گی کا تصور بھی نہیں کر سکتا جن کا ان کی ذات کومورد ٹھہرایا گیا ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی زندگی کایہ پہلو بڑا درد ناک ہے کہ جوبے بنیاد الزامات ان پر عائد کیے جا تے ہیں ان میں بیشتر الزامات وہ ہیں جو ان کی حیاتِ طیبہ میں ان کے روبر ولگائے گئے اور ان کے تشفی بخش جوابات خود حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے دیے ، چاہیے تو یہ تھا کہ سلسلہءِ اعتراضات ختم ہو جاتا مگر افسوس یہ سلسلہ آپ کی شہادت کے بعد بھی دورِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کرآج تک زور و شور سے جاری ہے ۔ مشکوۃ شریف میں صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بابت حضر ت عبدا للہ بن عمر اور ایک صاحب کے درمیان مکالمہ مذکو رہے جس کاخلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ ایامِ حج میں ایک صاحب نے حضرت عبداللہ بن عمر سے حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں تین سوال کیے : ⬇
پہلا یہ تھا کہ کیا عثما ن جنگِ احد میں بھاگے نہیں تھے ؟ ۔۔۔۔۔۔ آپ نے فرمایا !ہاں ۔۔۔۔۔۔ دوسراسوال یہ کہ کیا عثمان غنی جنگِ بدر میں غیر حاضر نہیں تھے ؟ ۔۔۔۔۔۔ آپ نے فرمایا ! ہاں ۔۔۔۔۔۔ اس کا تیسرا سوال یہ تھا کہ کیابیعتِ رضوان میں وہ غائب نہیں تھے ؟ ۔۔۔۔۔۔ آپ نے فرمایا !ہاں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس شخص نے یہ جان کرکہ میرے سوالات کا حضر ت ابنِ عمر نے اعتراف کیاہے ، خوش ہوکر اللہ اکبر کانعرہ لگایا ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا ان تینوں سوالوں کا جواب بھی لیتا جا ، پھر آپ نے اس کے سوالوں کاترتیب وار جواب دیا ۔ فرمایا !۔۔۔۔۔۔ جہاں تک جنگِ احد میں فرار کاتعلق ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں ان کی معافی کااعلان کرچکا ہے (یعنی جب اللہ تعالیٰ نے معافی کا اعلان فرمادیا تو اعتراض کیسا ۔۔۔۔۔۔؟) دوسرے سوال کے جواب میں فرمایا کہ وہ جنگِ بدر میں اس لیے حاضر نہیں ہوسکے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صاحبزادی او ر اپنی زوجہ محترمہ سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تیمارداری میں مصروف تھے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دو انعاموں سے نوازا ۔۔۔۔۔۔ انہیں مجاہدینِ بدر میں شامل فرماکر ان کےلیے اجر و ثواب کااعلان فرمایا اور انہیں غنیمت میں دوسرے مجاہدین کی طرح حصہ بھی عطا فرمایا ۔ او رتیسرے سوال کے جواب میں فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اہلِ مکہ کی جانب اپنا سفیر اور نمائندہ بنا کر ان کا زبردست اعزاز و اکرام فرمایا ان کے مکہ جانے کے بعد بیعتِ رضوان کامعاملہ پیش آیا پھر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بیعتِ رضوان کے خوش بخت لوگوں میں شامل فرمایا ، اپنا دایاں ہاتھ بلند کرکے فرمایایہ عثمان کاہاتھ ہے پھر اس اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر حضرت عثمان غنی کی بیعت لی ۔ حضرت ابنِ عمر نے جوابات سے فارغ ہوکر اس معترض سے فرمایا ”اذھب بھاالآن” ان جوابات کو اپنے ساتھ لیتاجا ، یعنی ان سوالات کے ذریعے تم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو نیچا دکھانا چاہتے تھے مگر تم نے دیکھ لیا کہ تینوں واقعات ان کی عظمت کے چمکتے ہوئے نشانات ہیں ۔ (مشکوۃ المصابیح مناقب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ،چشتی)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف اس طوفانِ بدتمیزی کا اصل سبب یہ ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اسلام کا بدخواہ ایک سازشی گروہ پیدا ہوچکا تھا جس کا قائد عبد اللہ بن سبا تھا جس نے بڑی تیزی کے ساتھ کوفہ ، بصرہ ، مصر اور بعض دوسرے شہروں میں لوگوں کو اپنا ہم نوابنایا اورسادہ لوح عوام کواپنے دام تزویرمیں پھنسا کرخلیفہ اسلام سے بد گمان کرکے ان کے خلاف ایک محاذ قائم کیا یہ بے بنیاد الزامات و اتہامات اسی گروہ کے تراشے ہوئے ہیں ۔ اس سبائی گروہ کی باقیات و نسل آج بھی ان خودساختہ الزامات کو بنیاد بناکرحضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کوہدفِ تنقید بنارہے ہیں ۔ اوراہلِ حق نے ہمیشہ ہر دور میں ان الزامات سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی براء ت ثابت کرکے ان کی پوزیشن واضح فرمائی ۔ لہٰذا مناسب ہوگاکہ ان سطو رمیں چند ایسے الزامات کامع جوابات کے ذکر کیا جائے جو شہرت کے ساتھ آپ کی ذات پر عائد کیے گئے ہیں : ⬇
(1) حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے بعض جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے مناصب سے معزول کر کے اپنے رشتہ داروں کو ان کی جگہ مقرر کیا ، چنا چہ حضر ت مغیرہ بن شعبہ کوفہ کی گورنری سے ہٹا کرحضرت سعد بن ابی وقاص کا تقرر کیا پھر انہیں معزول کیا اور ان کی جگہ ولید بن عقبہ کو گورنر بنایا ، اسی طرح حضر ت ابو موسیٰ اشعری کوبصرہ کی گورنر ی ہٹا کر عبد اللہ بن عامر کو بطورگور نرمقرر کیا ، یونہی حضر ت عمر وبن العاص کو مصر کی گورنر ی معزول کرکے عبد اللہ بن ابی سرح کو اس منصب پر بٹھایا ، ان تمام کاروائیوں کی اصل بنیاد اقربہ پروری ہے کیونکہ عبد اللہ بن ابنی سرح ، عبد اللہ بن عامر ، اور ولید بن عقبہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہم کے قریبی رشتہ دار تھے ۔
(2) بغیر کسی استحقاق کے اپنے اعزہ و اقارب کو بیت المال سے بڑی بڑی رقمیں دلائیں ۔
(3) حکم بن ابی العاص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے افشاء راز کے جرم میں طائف کی طرف جلاوطن کردیا تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد شیخین نے اس سزا کو برقرار رکھا ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جب خلیفہ ہوئے تو حکم کو مدینہ طیبہ بلا لیا اور یہ اس لیے تھا کہ وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے چچا تھے ۔
(4) باغیوں کا ایک وفد جو مصر ، کوفہ اور بصرہ کے لوگوں پر مشتمل تھا مدینہ طیبہ میں حضر ت علی ، حضر ت طلحہ اور حضرت زبیر وغیرہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے عزل کا مطالبہ کر رہا تھا ، جب ان بزگوں نے انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر واپس کردیا تو بعد میں بصری وفد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا انہوں نے ان کی واپسی کی وجہ پوچھی توانہوں نے بتایا کہ ہم نے ایک خط پکڑا ہے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے گورنر مصر کے نام لکھا ہے جس میں اسے حکم دیا گیا ہے کہ جب وفد تمہارے پاس پہنچے تو اسے قتل کر دینا ، اس خط پر حضرت عثمانِ غنی کی مہر لگی ہوئی تھی جب حضرت عثمان غنی سے اس خط کی بابت سوال کیا گیا ۔ توآپ نے لاعلمی کا اظہار کیا ، اس لیے لوگوں نے نتیجہ نکالا کہ پھر یہ خط مروان نے لکھا ہو گا جو حضرت عثمان کے چچازاد بھائی ان کے سیکریٹری ہیں سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی سازش پکڑے جانے کے باوجود حضرت عثمان نے مروان کو سزا کیوں نہ دی اور اس کے جرائم پرپردہ کیوں ڈالا گیا ۔
(5) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃالوداع میں منیٰ و عرفات میں نمازِ قصر ادا فرمائی اور شیخین کا عمل بھی اسی پر رہا مگر حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ منیٰ و عرفات میں اتمام کرتے تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور طریقہ شیخین کے خلاف تھا ۔
ان تمام اعتراضات کے اختصار کے ساتھ جوابات : ⬇
پہلے ، دوسرے اور پانچویں سوال اور بہت سے دیگر سوالات کے خود حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے جوابات دیے جو ھدیہ قارئین کیے جاتے ہیں ، چنانچہ تاریخِ اسلام مؤلفہ اکبر شاہ نجیب آبادی میں ہے : ایک شخص نے اٹھ کر سوال کیا کہ آپ اپنے رشتہ داروں کو ناجائز طور پر مال دیتے ہیں مثلاً عبد اللہ بن سعد کو آپ نے تمام مالِ غنیمت بخش دیا حضرت عثمانِ غنی نے جواب دیا کہ میں اس کو مالِ غنیمت کے خمس میں سے صرف پانچواں حصہ دیا ہے مجھ سے پہلے خلافتِ صدیقی ، فاروقی میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں ۔ اس کے بعد ایک اور شخص اٹھا اس نے کہا کہ تم نے اپنے عزیز و اقارب کو امارتیں اور حکومتیں دے رکھی ہیں مثلاً معاویہ بن سفیان جن کو تمام ملک ِشام پر امیر بنا رکھا ہے بصرہ کی امارت سے ابو موسیٰ اشعری کو معزول کر کے ان کی جگہ عبد اللہ بن عامر کو امیر بنایا ، کوفہ کی امارت سے مغیرہ بن شعبہ کوجدا کر کے ولید بن عقبہ کو اس کے بعد سعید بن العاص کو امیر بنایا ۔ یہ سن کر حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جن لوگوں کومیں نے امارتیں دے رکھی ہیں وہ سارے میرے اقارب نہیں اور وہ اپنے عہدوں کے کام کو بحسن و خوبی انجام دینے کی قابلیت رکھتے ہیں ۔ اگر آپ کی رائے کے مطابق امارت کے قابل نہیں ہیں اور مجھ پر ان کی بے جا رعایت کا الزام عائد ہوتا ہے تو میں ان لوگوں کی جگہ دوسروں کو مقرر کرنے کےلیے تیار ہوں ۔ چنانچہ میں نے سعید بن العاص کو ان کی امارت سے الگ کر کے ابو موسیٰ اشعر ی کو کوفہ کا گورنر بنایا ہے ۔ اس کے بعد ایک شخص نے کہا تم نے بلا استحقاق اور ناقابل رشتہ داروں کو امارتیں دی جوان امارتوں کے اہل نہ تھے مثلاً عبد اللہ بن عامر ایک نوجوان شخص ہیں ان کو والی نہیں بنانا چاہیے تھا حضرت عثمان نے جواب دیا کہ عبد اللہ بن عامر عقل و فراست ، دین داری اور قابلیت میں خاص طور پر ممتاز ہے محض نوجوان ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسامہ بن زید کو صرف 17 سال کی عمر میں کیوں امیر بنایا تھا ۔ اس کے بعد ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ آپ کو اپنے کنبے والوں سے بڑی محبت ہے آپ ان کو بڑے بڑے عطیا ت دیتے ہیں حضرت عثمانِ غنی نے جواب دیا کہ خاندان والوں سے محبت ہونا کوئی گناہ نہیں ہے میں اگر ان کو عطیا ت دیتا ہوں تو بیت المال سے نہیں بلکہ اپنے ذاتی مال سے دیتا ہوں بیت المال سے تو میں اپنے خرچ کیلئے بھی ایک کوڑی نہیں لی ، اپنے رشتہ داروں کےلیے بلا استحقاق کیسے لے سکتا ہوں اپنے ذاتی مال کا مجھے اختیار ہے چاہے جس کو بھی دوں ۔ اس کے بعد ایک شخص اٹھا او راس نے کہا کہ تم نے چراگاہ کو اپنے لیے مخصوص کرلیا ہے حضر ت عثما نِ غنی نے جواب دیا کہ میں جب خلیفہ نہ تھا تو مدینہ میں مجھ سے زیادہ نہ اونٹ کسی کے پاس نہ ہی بکریاں لیکن آج کل میرے پا س صرف دو اونٹ ہیں جو صرف حج کی سواری کےلیے ہیں میں ان کو چرائی پر بھی نہیں بھیجتا البتہ بیت المال کے اونٹوں کی چراگاہ مخصوص ضرور ہے اور وہ میرے زمانے میں نہیں بلکہ پہلے سے مخصوص چلی آ رہی ہے اس کا مجھ پر الزام نہیں لگایا جا سکتا ۔ پھر ایک شخص نے کہا کہ تم بتاؤکہ تم نے منیٰ میں پوری نمازکیوں پڑھی حالانکہ قصر کرنی چاہیے تھی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میرے اہل و عیال مکہ میں مقیم تھے لہٰذا میرے لیے نماز قصر نہ کرنا جائز تھا ۔ (تاریخ اسلام جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 341 ،چشتی)
گورنروں کے عزل و نصب کے سلسلے میں یہ با ت ذہن نشین ہونی چاہیے کہ تقرری اور برخاستگی کاسلسلہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِخلافت کے ساتھ مخصوص نہیں ۔ شیخین کریمین رضی اللہ عنہما کے دور میں جہاں عزل و نصب کی ضرور ت محسوس کی گئی ، عزل ونصب کیاگیا ۔ چنانچہ حضر ت عمر نے حضر ت ابو موسیٰ اشعری کوبصرہ کی گورنری سے علیحدہ کیا اسی طرح حضرت سعدبن ابی وقاص کوبھی بصرہ کی گورنری سے حضرت عمر نے معزول فرمایا تھا اورحضر ت خالد بن ولیدکی کمانڈر انچیف کی حیثیت سے برخاستگی مشہور و معروف ہے جس طرح حضرت عمر نے بعض حالات کے تحت بعض جلیل الشان صحابہ کو ان کے عہدوں سے الگ کیا اسی طرح حضر ت عثما نِ غنی رضی اللہ عنہ نے جن حضرات کو ان کے عہدوں سے الگ کیا اس کے معقول اسباب و وجوہ تھے ۔ اورجن حضر ت کا تقرر فرمایا وہ باصلاحیت لوگ تھے ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو زمانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، عہدِ شیخین میں کسی عہدہ پر فائز رہے تھے ۔ مثلاً ولید بن عقبہ فتح مکہ کے زور مسلمان ہوئے پھر انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بنو مصطلق کے صدقات کا عامل مقرر فرمایا او ر حضرت عمر نے انہیں عرب الجزیرہ کاعامل بنایا اسی طرح عبد اللہ بن ابی سرح فاتح افریقہ اور عبد اللہ بن عامر فاتحِ ایران و خراسان ہیں حضر ت عثمانِ غنی کی مردم شناس نگاہوں نے جن عظیم افراد کاانتخاب فرمایا وہ رشتہ داری کی بناء پر نہیں بلکہ خداداد صلاحیتوں کی بناء پر چنے گئے اور وہ مستقبل میں قوم کے ہیرو بنے جن کے کارناموں پر اسلام و اہلِ اسلام کو ناز ہے ۔
موجودہ زمانہ نسل عبداللہ ابن سباء حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر بےہودہ قسم کے الزمات لگاتی ہیں ، ان میں سے ایک الزام یہ بھی ہے ، کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جب خلافت پر متمکن ہوٸے ، تو آپ نے اپنے خاندان (بنوامیہ) کو حکومتی عہدوں سے نوازا ۔
پہلی بات کہ اگر افراد میں قابلیت ہو اور ان کا تعلق اپنے ہی خاندان کے ساتھ کیوں نا ہو ، تو ان کو حکومتی عہدوں سے نوازنا کوئی بری بات نہیں ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے جب لوگوں نے یہی اعتراض کیا تو آپ نے جواب ارشاد فرمایا : یہ بات کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ بنی امیہ کو ترجیح دیتے ہیں ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی قریش کو لوگوں پر ترجیح دیتے تھے ۔ (البدایہ والنہایہ جلد 7 صفحہ 227 مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی)
دوسری بات کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا جب وصال ہوا تو امام ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق آپ کے ٹوٹل عمال کی تعداد 21 تھی ۔ (تاریخ طبری جلد 3 صفحہ 480 مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی)
جبکہ ایک اور تحقیق کے مطابق 26 تھی ۔ اور اہم بات یہ ہے کہ ان تمام عمال میں بنو امیہ خاندان کے ساتھ تعلق رکھنے والے فقط تین افراد تھے ۔
(1)حاکم بصرہ سیدنا عبداللہ بن عامر کریز اموی ۔ (2) حاکم شام حضرت امیر معاویہ ۔ (3)حاکم مصر حضرت عبداللہ بن سعد اموی رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ اور ان تین افراد میں سے بھی آخر الذکر دو افراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہی اہم مناصب پر فائز تھے ۔
اسکے باوجود حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر اقرباء پروری کا الزام لگانا جہالت و تعصّب کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
جہاں تک تیسرے سوال کا تعلق ہے کہ حضر ت عثما نِ غنی رضی اللہ عنہ نے حکم بن ابی العاص کو طائف سے مدینہ طیبہ میں بلا لیا حضرت عثما نِ غنی نے ان کی واپسی کی وجہ خود بیا ن فرمائی کہ میں نے حکم بن ابی العاص کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سفارش کی جسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول فرماتے ہوئے ان کی واپسی کا مجھ سے وعدہ فرمایا ۔ اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ میں ہے : فلما ولیٰ عثمان رضی اللہ عنہ الخلافۃ ردہ وقال کنت قد شفعت فیہ الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوعدنی بردہ وتوفی فی خلافۃعثمان ۔
ترجمہ : پھرجب حضرت عثمان خلیفہ ہوئے تو آپ نے حکم بن ابی العاص کو مدینہ طیبہ میں بلا لیا او رفرمایا کہ میں نے ان کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سفارش کی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے ان کی واپسی کا وعدہ فرمایا ۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد دوم صفحہ ٥٣ مطبوعہ المکتبہ اسلامیہ تہران)
اور چوتھے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ خط نہ حضر ت عثمانِ غنی نے لکھا اور نہ اس کا حکم دیا اور نہ یہ آپ کی مہر تھی اور نہ ہی اس میں مروان ملوث تھا بلکہ یہ شیعہ مذھب کے بانی عبد اللہ بن سبا کی جماعت کی سازش تھی جنہوں نے حضرت عثمانِ غنی کو شہید کیا اس جماعت نے صرف حضر ت عثمانِ غنی کے نام سے جعلی خط نہیں لکھا بلکہ حضرت علی ، حضرت طلحہ ، حضر ت زبیر کے نام سے مختلف شہروں کے عوام کو جعلی خطوط لکھے گئے جن میں ان سے کہا گیا کہ تم لوگ مد ینہ طیبہ میں جمع ہوکر حضر ت عثمانِ غنی سے معزول ہونے کا مطالبہ کرو ، چنانچہ (حافظ ابن کثیر اس خط کے بارے میں حضر ت عثمانِ غنی کے تاثرات ان الفاظ میں تحریر فرماتے ہیں ”فو اللہ لاکتبت ولااملیت ولادریت بشیء من ذالک والخاتم قد یزورعلی خاتم ۔
ترجمہ : بخدا میں نے یہ خط نہ لکھوایا نہ اس کے بارے میں کچھ علم ہے اور انگوٹھی ۔۔۔۔۔۔ انگوٹھی توجعلی بھی بنائی جا سکتی ہے ۔ چند سطر بعد حافظ ابن کثیر ، ابن جریر کے حوالے سے لکھتے ہیں : ان الصحابۃ کتبو االی الافاق من المدینۃ یامرون باالنا س بالقدوم علی عثما ن لیقاتلوہ .وھذاکذب علی الصحابۃ .وانما کتبت کتبا مزورۃ علیھم کماکتبو من جھۃ علی وطلحۃ والزبیرالی الخوارج کتبا مزورۃ علیھم انکروھا وھکذا زورھذالکتاب علی عثمان ۔
ترجمہ : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مدینہ طیبہ سے باہر رہنے والوں کو خطوط لکھے جس میں انہیں مدینہ طیبہ میں آکر حضر ت عثما ن سے لڑائی کرنے کو کہا گیا تھا اور یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جھوٹا الزام ہے ، ان بزرگوں کی طرف سے جھوٹے لکھے گئے جیسے علی و طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم کی طرف سے جھوٹے خطوط لکھے گئے جس کا انہوں نے انکار کیا ، اسی طرح حضرت عثمانِ غنی کی طرف سے یہ جھوٹا خط لکھا گیا ۔ (کثیر البدایہ والنہایہ جلد ٧ صفحہ ١٧٥،چشتی)
رافضیوں و نیم رافضیوں کے اعتراض حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) نے قرآن جلانے کا حکم دے دیا ۔ (حوالہ بخاری) کا جواب : ⏬
جواب : یہ بھی رافضیوں و نیم رافضیوں کے اپنے مرض کا اظہار ہے ورنہ بخاری شریف میں قرآن پاک جلانے کا حکم ہے اور نہ ہی جلایا گیا مگر کیا کیا جائے ان مریضان باطل کا جو یہود کی روش (یُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ، لفظوں کے مطلب کو بدل دیتے ہیں) کو داڑھوں کے ساتھ مضبوط تھام کر کھڑے ہیں ۔ اور دھوکہ دینے کےلیے کبھی عبارت کا گھناؤنا مطلب تراش لاتے ہیں تو کبھی صاف صاف لفظوں کا معنی من گھڑت کرتے اور شور مچاتے ہیں کہ دیکھو فلاں گنده عقیده تو سنیوں کی کتابوں میں بھی موجود ہے ۔ غور فرمائیے بخاری شریف میں قرآن پاک جلانے کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حکم دیا ہو ۔ اس ترجمہ کا ایک لفظ بھی یہاں موجود نہیں ہے ۔
جس طرح اہل علم ہر شے کی تعریف کرتے ہیں قرآن پاک کی بھی تعریف ہے جس میں جنس اور فصل کے ذریعے قرآن پاک کا تعارف پیش کیا جاتا ہے اگر کسی کتاب میں مثلاً قرآن پاک کی آیات وغیرہ بطور دلیل وغیرہ کے لکھی ہوئی ہوں تو اگرچہ لکھی ہوئی آیت قرآن کی سی ہے مگر اس کتاب کا نام قرآن نہیں رکھا جاتا جیسے دینی کتب میں بہت کم ایسی ہوتی ہیں جن میں قرآنی آیت لکھی ہوئی نہ ہو مگر ان تمام دینی کتابوں کو قرآن نہیں کہا جاتا باوجود اس کے کہ ان کتابوں میں قرآن کی آیت وغیرہ موجود ہے اس لئے کہ قرآن کی تعریف ان کتابوں پر صادق نہیں آتی لہذا باوجود قرآنی آیت کی موجودگی کے وہ قرآن نہیں کہلاتی۔ بعینہ اسی طرح کچھ ایسے صحیفے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے لکھ کر اپنے پاس محفوظ کیے ہوئے تھے جن میں تفسیری نکات ، مختلف قرأتیں منسوخ شده آیات وغیرہ مختلف درج تھیں ۔ ان صحیفوں میں اگرچہ قرآن کی آیات بھی تھیں جیسے دیگر دینی کتابوں میں درج ہوتی ہیں مگر ان پر قرآن کی تعریف صادق نہیں آتی تھی لہٰذا اُن کوقرآن قرار دینا جن پر قرآن کی تعریف صادق نہ آئے ۔ صراحتاً جھوٹ ہے ۔
قرآن پاک جب نازل ہو رہا تھا اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قرآن پاک کے علاوہ کسی دوسری چیز (حدیث وغیره) لکھنے سے وقتی طور پر اس لیے روک دیا تھا کہ کہیں قرآن پاک اور حدیث پاک آپس میں خلط ملط نہ ہو جائیں جس کی وجہ سے قرآن پاک میں اختلاف ہونے لگے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حفاظت قرآن کی تمام تدبیریں اختیار کرنا از حد ضروری ہیں اگرچہ اس کی وجہ سے کچھ علمی نقصان بھی اٹھانا پڑے ۔ اسی حفظ قرآن کے پیش نظر حضرت عثمان ، حضرت علی دیگر اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان تمام کتابچوں اور صحیفوں کو تلف کرنے کا حکم جاری فرمایا جن میں قرآن پاک کی آیات کے ساتھ قرأت شاذه آیات منسوخہ ، تفسیری نکات اور فوائد وغیرہ لکھے ہوئے موجود تھے تا کہ اس سے اختلاف نہ پیدا ہو جائے اور غیر قرآن کو لوگ قرآن نہ جاننے لگ جائیں اسی واقعہ کو امام بخاری نے یہاں درج فرمایا ہے ۔ اب ایسے صحیفے جن میں مختلف تفسیری نکات لکھے ہوئے تھے گویا ان کی حیثیت دینی کتابوں کی سی تھی مگر چونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے لکھا تھا اس لئے اندیشہ تھا کہ بعد میں لوگ ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے لکھے ہوئے صحیفوں کو بھی قرآن نہ جاننے لگ جائیں ان کو تلف کرنے کا حکم دیا ۔
کتاب اللہ کی حفاظت اور اختلاف سے امت کو بچانے کا ایسا کارنامہ اللہ تعالی نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے صادر کروایا جو ان کی عظمت پر ہمیشہ کےلیے بطور نشان کے تابندہ رہے گا ۔ اکابرین امت نے اس عظیم الشان واقعہ پر انتہائی مسرت و خوشی کا اظہار فرمایا چنانچہ تفسیر برہان میں ہے : ولقد وقف الأمر العظيم و رفع الاختلاف و جمع الكلمة و اراح الأمة ۔
ترجمہ : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو الله تعالی نے اس عظیم خدمت کو سرانجام دینے ، اختلاف ختم کرنے اور امت کو ایک کلمہ پر جمع کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اہل اسلام کو (افتراق و انتشار کی مصیبت سے) راحت پہنچائی ۔ (تفسیر البرهان جزو اول صفحہ 339 طبع اول،چشتی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بعض دشمنانِ دین نے یہ بات پھیلائی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کے علاوہ صحیفوں کو جلا کر غلطی کی ہے ، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : يقول یا ایها الناس لا تغلوا في عثمان و لا تقولوا له الأخيرا في المصاحف و احراق المصاحف فوالله ما فعل الذي فعل في المصاحف الاعن ملامنا جميعاً ۔
ترجمہ : (سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سنا آپ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے) اے لوگو ! عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں غلو نہ کرنا (یعنی ان پر الزام تراشیاں مت کرنا) اور ان کے بارے میں خیر و بھلائی کے علاوہ کوئی بات نہ کہنا مصاحف اور احراق مصاحف کے بارے میں جو کچھ انہوں نے کیا وہ ہم لوگوں کی جماعت کے مشورہ کے بغیر ہرگز نہیں کیا ۔ (کتاب المصاحف لابی داؤد السجستانی صفحہ 22 ، 23،چشتی)(الاتقان جلد 1 صفحہ 129)
تھوڑا آگے چل کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی مذکورہ کتاب میں موجود ہے کہ اللہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے اگر میں بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جگہ حاکم ہوتا تو میں بھی وہی کرتا جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کیا ہے ۔ (کتاب المصاحف صفحہ 23) ۔ اسی طرح کا حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ارشاد تفسیر البرہان جلد 1 صفحہ 245 پر بھی موجود ہے ۔
ان گزارشات سے واضح ہوا کہ : ⏬
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن پاک جلانے کا حکم نہیں دیا تھا ۔
مصاحف کا ترجمہ قرآن کرنا صرف رافضی و نیم بیمار دماغوں کی کارستانی ہے حقیقت نہیں ۔
ان مصاحف میں تفسیری نکات وغیرہ بھی لکھے تھے جو بعد میں اختلاب کا باعث بن سکتے تھے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس اختلاف کی بنیاد مٹا ڈالی ۔
ان مصاحف کا تلف کرنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رائے اور مشورہ اور ان کی رضاء کے بغیرنہیں ہوا ۔
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بھی اس وقت کے حاکم ہوتے تو وہ بھی ان مصاحف کو تلف کر دیتے ۔
ان مصاحف کا تلف کرنا اتفاق امت کا سبب بنا ۔
اس نشر قرآن میں اور متفقہ قرات و لہجہ مرتب کرنے میں اکابرین صحابہ رضی اللہ عنہم پورے طور پر شریک تھے ۔
اس متفقہ متواتر مشہور قراءت پر مشتمل کلام اللہ کے علاوہ جو قراءت شاذہ وغیرہ مختلف مصاحف میں لکھی ہوئی تھیں ان کے تلف کرنے پر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم راضی تھے اور اس عمل میں آل رسول علیہم السلام پیش پیش تھے ۔
ان مختلف مصاحف کے تلف کیے جانے پر ان لوگوں نے اختلاف کیا جو حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے مذہب سے دشمنی رکھتے اور اختلاف رکھتے تھے ۔
اس واقعہ پر اختلاف کرنے والوں کی زبانیں بند کرنے کےلیے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے زور دار بیان فرمائے اور اختلاف کرنے والوں کو نصیحت فرمائی ۔
مگر افسوس صد افسوس کہ انتشار و اختلاف کے دلدادہ اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا نام لے کر دھوکہ دینے والوں کو حیدری نصحیت کا کچھ اثر نہ ہوا حتی کہ پندرہویں صدی میں بھی وہی اعتراض تحقیقی دستاویز میں داغ دیا جس کو حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے خود رفع فرما دیا تھا اور شیعہ لوگ اب تک وہی راگ الاپے جارہے ہیں جو نسلِ ابنِ سبا نے جاری کیے تھے ارباب انصاف خود ہی غور کر کے فیصلہ کر لیں کہ یہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی نصیحت سے روگردانی کرنے والے ان کے دوست ہیں یا دشمن ؟
مروان کو فدک حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے دیا رافضیوں و نیم رافضیوں کے جھوٹ کا جواب : ⏬
شیخ محقق حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :ظاہر یہ ہے کہ یہ معاملہ (یعنی فدک کے زمین کے ٹکڑے پر قبضہ) مروان کی حکومت کے دور میں ہوا ۔(اشعۃ المعات مترجم جلد نمبر 5 صفحہ 348،چشتی)
حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یعنی مروان ابن حکم نے اپنے دور حکومت میں باغ فدک پر اپنے آپ میں تقسیم کرلیا کہ کچھ حصہ اپنے پاس رکھا کچھ اپنے عزیزوں کو دیا یہ ہی صحیح ہے ۔ مرقات نے فرمایا کہ مروان کی یہ تقسیم خلافت عثمانی میں ہوئی محض غلط ہے ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حضرت عثمان و علی زندہ ہوں اور مروان کی یہ حرکت دیکھ کر خاموش رہیں اور حضرت علی اپنے دور حکومت میں اس کی یہ تقسیم قائم رکھیں مرقات نے یہ سخت غلطی کی ہے ۔ اشعۃ اللمعات نے یہ ہی فرمایا کہ مروان کی یہ حرکت اپنے دور حکومت میں تھی۔خیال رہے کہ مروان ابن حکم حضرت عمر ابن عبدالعزیز کا دادا ہے ، یہ زمانہ نبوی میں پیدا تو ہوا مگر حضور کے دیدار سے محروم رہا کیونکہ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کے باپ حکم کو مدینہ سے طائف نکال دیا تھا ، یہ اس وقت بہت کم سن تھا خلافت عثمان میں یہ مدینہ منورہ آیا لہٰذا مروان صحابی نہیں ۔ (مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 693 مطبوعہ نعیمی کتبخانہ گجرات،چشتی)
معاملاتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں راہ عافیت : ⬇
حضر ت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ پر اعداء دین کی طرف سے لگائے گئے الزام و اتہامات کی ایک طویل فہر ست ہے جن میں سے چند ایسے مطاعن جنہیں بہت زیادہ اچھالا جاتا ہے انتخاب کیا گیا اور پھر اختصار کے ساتھ ان کا جواب دیا گیا حق کے متلاشی کے لئے یہ چند سطو رکافی وشافی ہیں مگراس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ صحابہ کرام خصو صاًخلفائے راشدین علیھم الرضوان کی عدالت ایک مسلم امر ہے اور اپنی زبانوں کوان کے حق میں برائی سے روکنا عقائدِ اہلِسنت میں شامل ہے ۔ شرح عقائد میں ہے : ویکف عن ذکر الصحابۃ الابخیر ۔
ترجمہ : ذکرِصحابہ رضی اللہ عنہم سے زبان کو روکا جائے مگر بھلائی کے ساتھ او ریہ حقیقت بھی ملحوظ رکھنی چاہئے کہ قرآن کریم ان کی عظمتوں کی گواہی دے رہا ہے اور احادیث ان کے فضائل ومناقب سے مالامال ہیں ۔ یہ آیتیں ہمارے پیشِ نظر رہنی چاہییں ۔
یداللّٰہ فوق ایدیھم ،
ان کے ہاتھوں پر اللہ کاہاتھ ہے ۔
رضی اللّٰہ عنہ و رضو عنہ ،
اللہ ان سے راضی اوروہ اللہ سے راضی ہیں۔
کلا وعداللّٰہ الحسنیٰ ،
سب صحابہ سے اللہ تعالیٰ نے بھلائی (جنت )کاوعدہ فرمایا ہے ۔
اور یہ حدیثیں بھی ہمارے ذہن نشین رہنی چاہییں ۔
لایمس النا رمسلماًرأنی ، جس مسلمان نے میرا دیدارکیااسے آگ نہیں چھوئے گی ۔
اکرموااصحابی فانھم خیارکم ۔
میرے سارے صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تم سب میں بہترہیں ۔
لاتسبوااصحابی،میرے صحابہ کو گالی نہ دو ۔
اللّٰہ اللّٰہ فی اصحابی لاتتخذوھم غرضا ۔
میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈروانہیں طعن کانشانہ نہ بناؤ ۔
من سب اصحابی فعلیہ لعنۃاللّٰہ ۔
جومیرے صحابہ کو گالی دے اس پراللہ کی لعنت ۔
اذارأیتم الذین یسبون اصحابی فقولوالعنۃاللّٰہ علی شرکم ۔
جب تم ایسے لوگوں کودیکھوجو میرے صحابہ کو گالیاں دیتے ہیں توکہوتمہارے شرپر اللہ کی لعنت ہو ۔
خصوصاً حضر ت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے حق میں دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جاری ہونے والاپروانہ بشارت کبھی لوحِ قلب سے محو نہ ہو ۔ ماعلی عثمان ماعمل بعد الیوم ، آج کے بعد عثمان پرکسی عمل کامؤاخذہ نہیں ۔ اور یہ بات بھی ہر دم ملحوظ ہو کہ وہ ان دس خوش بختوں میں شامل ہیں جنہیں ان کی زندگی میں لسانِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نبوت سے نویدِ جنت ملی ۔ ان نصوص کے مقابلہ میں ان تاریخی کتب کی کیا حیثیت ہے جو ضعاف درکنار موضوعات سے بھری پڑی ہیں جب کتبِ احادیث موضو عات سے محفوظ نہ رہ سکیں تو کتبِ تاریخ کا کیا ٹھکانا ، لہٰذا راہِ احتیاط قرآن و سنت کو اپنا نے میں ہے تاریخی موضوعات و مہملات کو عقیدے کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا اور نہ ہی نصوصِ شرعیہ کے مقابلے میں تاریخی واقعات کواہمیت دی جاسکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ملتِ اسلامیہ کے قلوب و اذہان میں صحابہ واہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی محبت بسائے اور ان کی بارگاہ میں زبا ن درازی سے محفوظ فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment