Tuesday 9 July 2024

واقعہ کربلا حقائق و دلائل کی روشنی میں سمجھیں

واقعہ کربلا حقائق و دلائل کی روشنی میں سمجھیں

محترم قارئینِ کرام : آج کل کے یزیدی سادہ لوح مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ واقعہ کربلا دو شہزادوں کی جنگ تھی آیئے واقعہ کربلا کی حقیقت کو تعصب کی عینک اتار کر حقائق و دلائل کی روشنی میں سمجھیں : عام نظریہ یہ ہے کہ کربلائے معلی میں امام حسین رضی اللہ عنہ اور یزیدیوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی جنگ ہی نہیں تھی کیونکہ جنگ کےلیے جس طرح کی سروسامانی ، قوت و طاقت اور فوج کی ضرورت ہوتی ہے ۔ وہ ایک طرف تو تھی مگر امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف ان کے اہل و عیال کے علاوہ چند وفا پیشہ جاں نثار رفقاء تھے ، کیا کوئی شوق میں اپنی اہل وعیال کو قتل کے بھینٹ چڑھانا گوارا کرے گا ؟ در اصل کربلا کی تاریخ کا پورا پس منظر اس محور پر گردش کر رہا ہے کہ دورِ یزید پلید میں ایک ناقابلِ درست نظریہ (یعنی بیعتِ یزید) کو امام حسین رضی اللہ عنہ پر تھوپنے کی کوشش کی گئی اور امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس نظریہ کا سختی سے انکار کیا اور ہر موقع پر دانش مندی کا مظاہرہ کیا ۔ اس لیے کربلا کے حادثے کو فکر و نظر کی جنگ کا نتیجہ تو کہا جا سکتا ہے مگر اسے حقیقی جنگ نہیں قرار دیا جا سکتا ۔ چنانچہ جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور امارت میں والی مدینہ مروان بن حکم کو اہلِ مدینہ سے یزید کی ولی عہد کی بیعت لینے کا حکم دیا تو امام حسین ، عبداللہ بن زبیر ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم نے یزید کی ولی عہدی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس موقع پر عبدالرحمن بن ابی بکر نے مروان کو ایسا کرارا جواب دیا کہ بھاگ دوڑ تک نوبت پہنچ چکی تھی ۔ (البدایۃ والنہایۃ جلد 8 صفحہ 48 دارالحدیث القاہرہ 1998)


جب مروان کی دال نہیں گلی تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے شام ، مصر ، عراق اور دیگر شہروں میں یزید کی ولی عہدی کی زمین ہموار کرنے کے لئے امراء کو خفیہ احکام جاری فرمائے اور تقریباً ہر طرف سے زمین ہموار ہوچکی ۔ لے دے کر حجاز مقدس کی زمین بچی ہوئی تھی ، یہاں اسلام کی مقتدر ہستیاں تشریف فرما تھیں ۔ چنانچہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خود مدینہ آئے اور مدینہ کے باہر امام حسین ، عبداللہ بن عمر ، عبداللہ بن زبیر اور حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہم کو بلوایا ، لیکن امیر معاویہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سخت کلامی ہوگئی اور یزید کی ولی عہد کا معاملہ حل نہ ہو سکا اور یہ چاروں حضرات دل برداشتہ ہوکر مدینہ چھوڑ کر مکہ آگئے ۔ کچھ دنوں بعد پھر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مکہ آئے ۔ یہاں معاملہ بالکل برعکس نکلا ، حضرت امیر معاویہ نے ان چاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ انتہائی حُسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا ۔ سب کو تنہائی میں بلاکر امیر معاویہ نے فرمایا تم بیعت کر لو ۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے تین تجویز رکھیں ، مگر کوئی بھی منظور نہ ہو سکی ۔ یہاں سے یہ بات بھی صاف طور پر واضح ہوگئی کہ یزید کی خلافت و امارت کے استصواب پر اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اختلاف تھا ، اس لیے یزید پلید کی امارت متفق علیہ نہیں تھی ۔


امام حسین رضی اللہ عنہ کا سیاسی اور دینی تدبر : ⏬


60 ھجری میں جب یزید تخت نشین ہوا تو اس نے ولید بن عتبہ بن ابی سفیان سے کہا ! انہیں بیعت پر مجبور کرو اور پوری سختی کرو ، ولید نے حکم پورا کیا مگر اسے اپنے منہ کی کھانی پڑی ۔ امام حسین نے دانش مندی اور سیاسی تدبر سے جواب دیا کہ میرے ایسے شخص کی بیعت کو کافی نہ سمجھو گے ، جب یہ معاملہ مجمع عام میں رکھو گے تو مجھ سے مطالبہ کرنا (الطبری جلد 6 صفحہ 188)(الکامل جلد 3 صفحہ 264)(اردو دائرہ معارف اسلامیہ پنجاب جلد 8 صفحہ 326،چشتی)


دوسرے دن امام حسین رضی اللہ عنہ مدینہ سے مکہ تشریف لائے ، مکے میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا اثر و رسوخ ہونے کے باوجود لوگوں کا ہجوم آپ کے پاس اکھٹا ہوگیا ۔ حتی کہ لوگوں نے بیعت کےلیے پیشکش بھی کی مگر امام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ۔ کیونکہ وہ امت میں فساد نہیں چاہتے تھے ۔ اگر آپ بیعت کرلیتے تو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی جانب سے ردِ عمل سامنے آسکتا تھا ۔ اس لیے آپ نے یہاں بھی حسن تدبیر سے کام لیا اور خاموشی میں بہتری سمجھی ۔ (البدایہ جلد 8 صفحہ 143)


دوسری جانب کوفے میں یزید کے خلاف بدامنی پھیل گئی ۔ اہل کوفہ کی جانب سے پیہم خطوط آنا شروع ہو گئے ۔ انہوں نے آپ کو اپنا قائد ، امام تسلیم کرنے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے یہاں کئی چیزیں تھیں ، ایک طرف قوم خود بخود ظالم و جابر حکمران کے ظلم و زیادتی سے تنگ آکر دوسری قیادت و خلافت کا مطالبہ کررہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف کوفیوں کی سابقہ بدعہدی اور بے وفائی کی داستان بھی امام کے پیش نظر تھی ۔ اور ان کی بے وفائی کی وجہ سے صحابہ کرام بھی شدت کے ساتھ منع کر رہے تھے ۔ اس دوراہے پر امام حسین نے جس دانش مندی ، دوربینی اور سیاسی تدبر کا مظاہرہ کیا ہے ، دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کو نہ سیاسی اقتدار کی خواہش تھی اور نہ خلافت و بیعت کا شوق تھا ، ورنہ آپ مکے ہی میں لوگوں کی پیشکش قبول کر چکے ہوتے مگر ایسا نہیں کیا ۔ لیکن جب آپ کو یقین ہو گیا کہ امت فساد کا شکار ہو چکی ہے ، ان پر ظلم و زیادتی کی ایسی انتہا ہو چکی ہے کہ اب وہ بہ زبان خود دوسری قیادت کا مطالبہ کر رہی ہے ، اس لیے اس وقت امت کو شر و فساد سے محفوظ کرنے کے لئے کھڑا ہونا گویا واجب ہو چکا تھا اور تیسری طرف یزید کا کیا عالم تھا ، مندرجہ ذیل تصریحات پڑھیے : ⏬


ظہر فسق یزید عندالکافۃ من اہل عصرہ … (مقدمہ ابن خلدون صفحہ 180)

ترجمہ : یزید کا فسق وفجور تمام اہل زمانہ پر آشکارا ہو گیا ۔


یعنی مروی ہے کہ یزید سرور ونغمہ ، شراب نوشی اور سیروشکار کے لئے مشہور تھا ۔ نوعمر لڑکوں ، گانے والیوں اور کتوں کو اپنے گرد جمع رکھتا تھا ۔ لڑاکا مینڈھوں ، سانڈھوں اور بندروں کے درمیان لڑائی کا مقابلہ کرواتا تھا ۔ ہر دن صبح کے وقت مخمور رہتا تھا ۔ زین کسے ہوئے گھوڑوں پر بندروں کو اسی سے بندھوا دیتا تھا اور ادھر ادھر پھرواتا تھا ، بندروں اور نوخیز لڑکوں کو سونے کی ٹوپیاں پہناتا تھا ، گھوڑوں کے درمیان دوڑ کا مقابلہ کرواتا تھا اور جب کوئی بندر مرجاتا تو اس کا سوگ مناتا تھا ۔ (البدایہ والنہایہ ابن کثیر)


ابن کثیر مزید لکھتے ہیں : یزید کے اندر شہوتوں کی طرف میلان بھی زیادہ تھا اور بعض نمازیں ترک کرنے اور اکثر اوقات انہیں نذر غفلت کردینے کا عادی تھا۔ایسی رستہ خیز اور قیامت آشوب دور میں امام حسین کے لئے امت کو ایسی قیادت فراہم کرنا واجب ہوگیا تھا جو یزیدی عہد حکومت کے مفاسد کی اصلاح اور ملت کی تطہیر کا فریضہ انجام دیتی اور سلطان جائر (یزید) کے سامنے کلمہ حق کی آواز بلند کرتی اور اس قیادت کی سب سے زیادہ اہلیت آپ کے اندر تھی ۔ ابن کثیر لکھتے ہیں : لانہ السید الکبیر، وابن بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم فلیس علی وجہ الارض یومئذ احد یسامیہ ولایساویہ، ولکن الدولۃ الیزیدیۃ کانت کلھا تناوئہ ۔ (البدایۃ والنہایہ جلد 8 صفحہ 144،چشتی)


ابن خلدون رقم طراز ہیں : فاما الاہلیۃ فکانت کماظن وزیادۃ ۔ (ابن خلدون مقدمہ صفحہ 180)

ترجمہ : جہاں تک اہلیت و صلاحیت کا تعلق ہے تو وہ بلاشک و شبہ ان میں تھی جیسا کہ ان کا گمان بلکہ اس سے بھی زیادہ تھی ۔


خود امام حسین رضی اللہ عنہ نے قادسیہ کے راستے سے کربلا کی طرف پلٹتے وقت جو تاریخی خطبہ دیا ہے، اقدام کا پس منظر سمجھنے کے لئے خطبے کا حرف حرف ضمانت ہے : لوگو ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ جو شخص کسی ظالم بادشاہ کو دیکھے کہ اس نے خدا کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کر لیا ہے ۔ پیمانہ الٰہی کو توڑ رہا ہے ، سنت نبوی کی مخالفت کر رہا ہے ، اللہ کے بندوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کا معاملہ کرتا ہے ، ایسی صورت حال میں بھی وہ اپنے قول و عمل سے شر کو نہ مٹائے تو ﷲ کا حق ہے کہ وہ اس کو اس کے ٹھکانے تک پہنچادے ۔ (ابن اثیر الکامل فی التاریخ جلد 4 صفحہ 40،چشتی)


خبردار ہو جاؤ ! ان لوگوں (یزیدیوں) نے اپنے اوپر شیطان کی پیروی لازم کرلی ہے ۔ خدا کی عبادت ترک کردی ہے ، ہر طرف فساد برپا کر دیا ہے ، شرعی حدود کو معطل کردیا ہے ، سرکاری مال اپنے مفاد پر خرچ کررہے ہیں اور ﷲ کے حرام کو حلال اور اس کے حلال کوحرام کردیا ہے اور سن لو ! ان مفاسد اور شر کو مٹانے کا میں سب سے زیادہ حق دار ہوں ۔ گویا امام حسین کے سامنے پہلے نکتے کے تحت دوسری قیادت فراہم کرنے کے سارے شرعی و عصری تقاضے فراہم ہو چکے تھے ، مگر دوسری طرف کوفے والوں کی بدعہدی بھی ایک زمینی حقیقت تھی، اسی وجہ سے صحابہ کرام منع بھی کر رہے تھے اور بہت سے ان میں مجتہد بھی تھے ۔ چنانچہ امام حسین نے اسی پورے معاملے کی انکوائری کرنے کے تجرباتی طور پر مسلم بن عقیل کو اپنا نائب بنا کر کوفہ روانہ کیا تاکہ صحابہ کا گمان بھی غلط نہ ہو اور اقدام کے لئے اتمام حجت بھی ہوجائے ۔ چنانچہ امام مسلم بن عقیل کوفہ روانہ ہوگئے اور تقریبا 18 ہزار کوفیوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ، اس کے بعد امام مسلم بن عقیل نے کوفہ والوں کی وفائی کا توثیق نامہ لکھ کر امام حسین رضی اللہ عنہ کو تشریف لانے کی دعوت دی ۔ (البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 144،چشتی)


امام مسلم رضی اللہ عنہ کے خط سے گویا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ظاہری اطمینان بھی ہوگیا اور امام حسین رضی اللہ عنہ نے تجرباتی طور پر اتمام حجت بھی کرلی ، اس لیے خط ملتے ہی آپ اہل و عیال کے ساتھ کوچ کر گئے ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس اہلیت تو تھی ہی ساتھ ہی طاقت و شوکت بھی ان کے پاس تھی ، یہاں امام طبری نے ایک نہایت کچی بات کی ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس دنیاوی شوکت نہیں تھی ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ سے شرعی لغزش تو نہیں ہوئی ، جہاں تک قوت و شوکت کا تعلق ہے ، تو اس کے سمجھنے میں غلطی ہوئی ، اللہ ان پر رحم فرمائے ۔ (مقدمہ ابن خلدون صفحہ 181)


امام طبری کی بات کی ناپختگی کی وجہ یہ ہے کہ جن کوفیوں نے امام مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی انہوں نے تو دراصل امام حسین کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور وہ پوری فوج امام کی فوج تھی ۔ امام کے حکم پر کچھ بھی کرسکتی تھی ، اس لیے امام کو دنیاوی شوکت بھی حاصل تھی ۔ ممکن ہے طبری کو یہ غلط فہمی اس وجہ سے ہوئی ہو کہ جس وقت امام حسین خروج کررہے تھے ، ان کے پاس کوئی دنیاوی شوکت و طاقت نہیں تھی تو پہلی بات تو یہ ہے کہ امام کسی جنگ کے ارادے سے نکل ہی نہیں رہے تھے کہ ان کے پاس لشکر جرار ہونا ضروری تھا ورنہ ان کے ساتھ چند نفوس قدسیہ مع اہل خانہ نہیں ہوتے اور تاریخ یہ ثبوت پیش کرنے سے بھی قاصر ہے کہ انہوں نے مکے اور مدینے والوں میں کسی فرد کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی تھی اور اگر مان لیا جائے کہ یزید کی طرف سے ان سے جنگ بھی ہو سکتی تھی ، تو امام حسین رضی اللہ عنہ کے 18 ہزار کوفی وفادار دفاع کرنے کےلیے کافی تھے ۔ گویا امام کو اپنی دنیاوی شوکت کا بھرپور اندازہ تھا ۔ یہاں یہ نکتہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جنگ کےلیے قائد کا بذات خود وہاں موجود ہونا ضروری نہیں ۔ صرف اس کا حکم ہونا ضروری ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری فوجی طاقت تو دراصل قائد کی ہی ہوتی ہے ۔ ان نکات کو پیش نظر رکھ کر امام طبری کے نظریے کا تجزیہ کیجیے اور بے لاگ ہو کر فیصلہ کیجیے ۔


امام عالی مقام رضی اللہ عنہ مکہ سے کوفے کےلیے نکلے تھے مگر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت قادسیہ کے آگے مقام ذوحشم میں حر بن یزید نے امام رضی اللہ عنہ کو محاصرہ میں لے لیا اور کوفے کی بجائے کربلا تک پہنچادیا ۔ (اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 8 صفحہ 328)


مقام ذو حشم میں امام رضی اللہ عنہ نے حر وغیرہ کے سامنے یہ تجویز پیش کی تھی کہ میں تمہارے دعوتی خطوط پر آیا ہوں ، مجھے تمہارے قول و قرار پر یقین ہے ، اس لیے اطاعت کرلو ، ورنہ میں جہاں سے آیا ہوں مجھے جانے دو ، لیکن مجھے بیعت یزید ہرگز قبول نہیں ۔ (اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 8 صفحہ 328،چشتی)


اسی طرح کربلا تک لوگوں سے ملاقات رہی ، لوگوں نے سوالات کیے مگر امام رضی اللہ عنہ نے یہی جواب دیا کہ میں تمہارے دعوتی خطوط کی بنیاد پر آیا ہوں ۔ جب آپ رضی اللہ عنہ میدان کربلا پہنچے تو کوفے کا سارا نقشہ بدل چکا تھا ، جنہوں نے شیعانِ علی ہونے اور اپنی وفاداری کی قسمیں کھائی تھیں ، اب وہ اپنے قسموں کے پیمانے توڑ چکے تھے اور سامنے یزیدیوں کا ایک لشکر جرار موجود تھا ، عمر بن سعد کو ابن زیاد نے حکم دے دیا تھا کہ یا تو حسین سے بیعت کر لو یا انہیں قتل کردو ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کو صرف کربلا ہی میں نہیں راستے ہی میں یقین ہو چکا تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ، لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے ہر موقع پر امت کو یزید کے ظلم و جور سے بچانے کے لئے ان کے عہد ناموں کی یاد دہانی کرائی اور عزیمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہاں تشریف لائے مگر قوم نے ساتھ نہ دیا ۔ جب کربلا میں یہ امر واضح ہوگیا کہ ان پر جنگ مسلط کی جا چکی ہے اور عمرو بن سعد جبراً بیعت لینا چاہتا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اولا بیعت سے انکار کیا اور پھر اصول جنگ کے مطابق دو بنیادی تجویزیں پیش کیں : (1) یا تو وہ جہاں سے آئے ہیں وہیں جانے دیا جائے ۔ (2) یا انہیں چھوڑ دیا جائے کہ وہ وسیع و عریض زمین میں جہاں چاہیں نکل جائیں ۔(البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 166،چشتی)


مگر ان کی کوئی تجویز منظور نہیں کی گئی اور یہ جبر و اکراہ جنگ پر مجبور کیا گیا ۔


بعض مورخین نے یہاں امام حسین رضی اللہ عنہ کی تیسری تجویز یہ نقل کی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ کہا کہ مجھے یزید کے پاس جانے دیا جائے ، تاکہ میں اس کے ہاتھ پر بیعت کرلوں ، اس تجویز کی تردید و تضعیف کےلیے کربلا کے واقعات کے عینی شاہد ، امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے رفیق سفر اور تمام مورخین کے مستند راوی عقبہ بن سمعان کا صرف یہ قول نقل کر دینا کافی ہے : لقد صحبت الحسین من مکۃ الی حین قتل ، وﷲ مامن کلمۃ قالہا فی موطن الاوقد سمعتہا ، وانہ لم یسال ان یذہب الی یزید فیضع یدہ الی یدہ ولا ان یذہب الی ثغرمن الشغور ، ولکن طلب منہم احد امرین ، امام ان یرجع من حیث جائ، وامام ان یدعوہ ، یذہب فی الارض العریضۃ حتی ینظر یایصیر امر الناس الیہ ۔ (البدایۃ لابن کثیر جلد 8 صفحہ 166 دارالحدیث القاہرہ 1998،چشتی)


کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں کہ امام رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ سے جن نظریے کی تردید کی ہو ، وہ کربلا میں جاکر اسی کو گلے لگا لیا ؟ اگر یہ تجویز سامنے آچکی تھی تو یزیدیوں کا جنگ کےلیے تیار ہونا ، چہ معنی دارد ؟ کیوں کہ وہ تو اسی کےلیے لڑنے آئے تھے ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس پیش گوئی کے مطابق سن 60 ہجری میں قبیلہ قریش کی شاخ بنو امیہ کا اوباش نوجوان یزید بن معاویہ تخت نشین ہوا اور 61 ہجری کے ابتدائی دس دنوں میں سانحہ کربلا پیش آیا ۔


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد یزید تخت نشین ہوا ۔ اس کےلیے سب سے اہم اور بڑا مسئلہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی بیعت کا تھا کیونکہ ان حضرات نے یزید کی ولی عہدی قبول نہ کی تھی اس سلسلے میں یزید نے مدینہ کے گورنر ولید بن عقبہ کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر بھیجی اور ساتھ ہی یہ حکم نامہ بھیجا کہ : حضرت امام حسین ، حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم سے میرے حق میں بیعت لو اور جب تک وہ میری بیعت نہ کریں انہیں ہرگز مت چھوڑو ۔ (تاریخ طبری صفحہ 113)


ولید بن عقبہ رحمدل اور خاندان نبوت کی تعظیم و توقیر کرنے والا شخص تھا۔ اس نے اس حکم کی تعمیل پر گھبراہٹ محسوس کی اور اپنے نائب مروان کو صورت حال سے آگاہ کیا ۔ مروان سنگدل اور سخت انسان تھا۔ اس نے کہا میرے خیال میں تم ان حضرات کو اسی وقت بلا بھیجو اور انہیں بیعت کرنے کیلئے کہو اگر وہ بیعت کرلیں تو ٹھیک ہے ورنہ انکار کی صورت میں تینوں کا سر قلم کر دو ۔ (کامل ابن اثیر جلد 4 صفحہ 15)(البدایہ والنھایہ جلد 8 صفحہ 1417)


حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنی حفاظت کا سامان کر کے ولید کے پاس پہنچے ۔ اس نے آپ رضی اللہ عنہ کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر سنائی اور پھر یزید کی بیعت کےلیے کہا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے تعزیت کے بعد فرمایا : میرے جیسا بندہ اس طرح چھپ کر بیعت نہیں کر سکتا ، اور نہ ہی میرے لیے اس طرح چھپ کر بیعت کرنا مناسب ہے اگر آپ باہر نکل کر عام لوگوں کے ساتھ ہمیں بھی بیعت کی دعوت دیں تو یہ الگ بات ہے ۔ ولید جو کہ صلح پسند آدمی تھا اس نے کہا اچھا ! آپ تشریف لے جائیں ، اس پر مروان نے ولید سے کہا اگر اس وقت تم نے ان کو جانے دیا اور بیعت نہ لی تو تم کبھی بھی ان پر قابو نہ پاسکوگے تاوقتیکہ بہت سے لوگ قتل ہو جائیں ان کو قید کرلو ، اگر یہ بیعت کرلیں تو ٹھیک ہے ورنہ ان کا سر قلم کر دو ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ یہ سن کر اٹھ کھڑے ہو گئے اور فرمایا : ابن الزرقا ! تو مجھے قتل کرے گا ؟ خدا کی قسم تو جھوٹا اور کمینہ ہے ۔ یہ کہہ کر آپ گھر تشریف لے آئے ۔ (کامل ابن اثیر جلد 4 صفحہ 15 - 16،چشتی)


بعد ازاں کوفی شیعوں نے باہم مشاورت سے امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کو کوفہ آنے کی دعوت دی ۔ اہل کوفہ کے خطوط اور وفود کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو حالات سے آگاہی کے لئے کوفہ بھیجا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کی بے پناہ عقیدت و محبت کو دیکھتے ہوئے امام عالی مقام کو لکھ بھیجا کہ آپ رضی اللہ عنہ تشریف لے آئیں ، یہاں ہزاروں افراد آپ کی طرف سے میرے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں ۔ چنانچہ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے کوفہ جانے کا عزم صمیم کر لیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ مکہ معظمہ سے 8 ذی الحجہ کو کوفہ کیلئے روانہ ہوئے۔ راستے میں صفاح کے مقام پر عرب کے مشہور شاعر فرذدق سے آپ رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی ۔ وہ کوفہ سے آ رہا تھا ۔ فرذدق نے آپ رضی اللہ عنہ کو سلام عرض کیا اور دعا دیتے ہوئے کہا : اللہ تعالیٰ آپ کی مراد پوری کرے اور آپ کو وہ چیز عطا فرمائے جس کے آپ طلبگار ہیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تمہارے پیچھے لوگوں کا کیا حال ہے۔ اس نے کہا : لوگوں کے دل تو آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہیں مگر ان کی تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں ۔

فرزدق سے ملاقات کے بعد قافلہ حسینی کوفے کے حالات سے بے خبر کوفہ کی جانب رواں دواں تھا ۔ راستے میں ہر چراہ گاہ سے جس پر قافلے کا گزر ہوتا کچھ لوگ ہمراہ ہوجاتے۔ جب قافلہ حسینیہ ’’ثعلمیہ‘‘ کے مقام پر پہنچا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ اور ہانی بن عروہ کی شہادت کی خبر ملی ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنا سفر جاری رکھا اور جب آپ رضی اللہ عنہ ’’کوہ ذی حشم‘‘ کے مقام پر پہنچے تو حُر بن یزید جو کہ حکومت یزید کی طرف سے آپ رضی اللہ عنہ کو گرفتار کرنے کےلیے بھیجا گیا تھا ایک ہزار مسلح سواروں کے ساتھ پہنچ گیا اور آپ رضی اللہ عنہ کے مقابل آ کر کھڑا ہو گیا اور ابن زیاد کا حکم دیا کہ آپ کو لے کر اس کے پاس پہنچوں ۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں اور اہل و عیال کے ہمراہ 2 محرم الحرام 61 ہجری بروز جمعرات اپنے ساتھیوں اور اہل و عیال سمیت خیمہ زن ہوگئے۔ حر نے آپ کے مقابل خیمے نصب کر لئے۔ حر کے دل میں اگرچہ اہل بیت نبوت کی عظمت تھی یہاں تک کہ اس نے اپنی نمازیں بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پیچھے ہی ادا کیں تھیں مگر وہ ابن زیاد کے حکم سے مجبور تھا ۔

جس مقام پر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں اور اہل و عیال کے ہمراہ خیمہ زن ہوئے اس دشت و بیابان کی اداس و مغموم فضا کو دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا اس مقام کا نام کہاں ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ اس جگہ کو ’’کربلا‘‘ کہتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بس یہیں خیمے لگا لو، یہی ہمارے سفر کی آخری منزل ہے ۔

سرزمین کربلا پہنچتے ہی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ فرامین یاد آ رہے تھے جو انہوں نے بچپن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنے تھے کہ میرا بیٹا ، میرا حسین سرزمین طف (کربلا) میں شہید کر دیا جائے گا ۔ اس لئے جب آپ کو علم ہوا کہ یہی سرزمین کربلا ہے تو آپ نے حتمی فیصلہ دیتے ہوئے اسی مقام پر ٹھہرنے کا ارادہ فرمایا ۔ اس طرح قافلہ حسینی غریب الوطنی کے عالم میں کربلا کے میدان میں خیمہ زن ہوا ۔ دوسری طرف یزیدی حکومت ان نفوس قدسیہ پر قیامت برپا کرنے کی بھرپور تیاریوں میں مصروف تھی چنانچہ 3 محرم الحرام کو عمر بن سعد چار ہزار سپاہیوں کے ساتھ مقابلہ کےلیے کوفہ سے کربلا پہنچا ۔

عمر بن سعد نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس قاصد بھیجا کہ آپ کیوں تشریف لائے ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اہل کوفہ نے مجھے لکھا تھا کہ ان کے پاس آؤں ۔ اب اگر وہ مجھ سے بیزار ہیں تو میں واپس مکہ چلا جاتا ہوں ۔ جب ابن سعد کو یہ جواب ملا تو اس نے کہا کہ میری یہ تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی طرح مجھے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ سے بچا لے چنانچہ اس نے ابن زیاد کو یہ بات لکھ بھیجی کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کی ان سے بیزاری پر واپس مکہ جانا چاہتے ہیں لیکن ابن زیاد نے جواب دیا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں پر پانی بند کر دو اور حسین رضی اللہ عنہ سے کہو کہ وہ خود اور ان کے ساتھی یزید بن معاویہ کی بیعت کر لیں ۔ جب وہ بیعت کر لیں گے تو ہم سوچیں گے کہ اب کیا کرنا چاہئے؟ اس پر عمر بن حجاج کی قیادت میں ابن سعد کے آدمیوں نے سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قافلے پر پانی بند کر دیا ۔

9 محرم الحرام 61ھ کو ابن سعد کا دستہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے خیموں کی طرف آیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ذریعے ان سے آنے کا ارادہ معلوم کیا تو انہوں نے کہا کہ امیر ابن زیاد کا حکم ہے کہ تم اس کی اطاعت قبول کر لو ورنہ ہم تمہارے ساتھ جنگ کریں گے ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو کہا : ان لوگوں سے کہو کہ ہمیں ایک رات کی مہلت دے دیں تاکہ اس آخری رات ہم اچھی طرح نماز پڑھ لیں ، دعا مانگ لیں اور توبہ استغفار کر لیں ۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مجھے نماز ، تلاوت اور دعا و استغفار سے بڑا قلبی تعلق ہے ۔ (البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 175)


ابن سعد کے دستہ نے یہ بات مان لی اور قافلہ حسینی رضی اللہ عنہ نے رات اللہ تعالیٰ کی عبادت اور مناجات میں بسر کی ۔


رفقاء سے حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا خطاب

ابن سعد کے دستے واپس لوٹنے کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے رفقاء کو جمع کیا ۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب سے نہایت فصیح و بلیغ خطاب فرمایا کہ : میں کسی کے ساتھیوں کو اپنے ساتھیوں سے زیادہ وفادار اور بہتر نہیں سمجھتا اور نہ کسی کے اہل بیت کو اپنے اہل بیت سے زیادہ نیکوکار اور صلہ رحمی کرنے والا دیکھتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ تم سب کو میری طرف سے جزائے خیر عطا کرے گا ۔ اگر تم میں سے کوئی جانا چاہتا ہے تو رات کی تاریکی میں چلا جائے ۔ بے شک یہ لوگ میرے ہی قتل کے طالب ہیں جب مجھے قتل کریں گے تو پھر کسی اور کی ان کو طلب نہیں ہو گی مگر آپ رضی اللہ عنہ کے اصحاب اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے عرض گزار ہوئے ’’ اے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم آپ پر اپنی جانیں قربان کر دیں گے ، ہم اپنی گردنوں ، پیشانیوں ، ہاتھوں اور جسموں سے آپ رضی اللہ عنہ کا دفاع کریں گے ۔ جب ہم قتل ہو جائیں گے تو سمجھیں گے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے ۔ (البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 176 - 177،چشتی)


آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے جذبات سن کر انہیں اجازت مرحمت فرمائی اور پھر آپ رضی اللہ عنہ کے اصحاب نے آپ رضی اللہ عنہ کی معیت میں رات بھر نوافل ادا کیے اور بارگاہِ ایزدی میں عاجزی و انکساری کے ساتھ مغفرت کی دعائیں مانگیں ۔ (البدایہ والنہایہ جلد 8 / 177)(کامل ابن اثیر جلد 4 صفحہ 59)


10 محرم الحرام 61 ھ کا خونی آفتاب اپنی پوری خون آشامیوں کے ساتھ طلوع ہوا حسینی فوج کے 72 سپہ سالاروں نے یزیدی فوج کا ڈٹ کے مقابلہ کیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یزیدی فوج میدان چھوڑ کر بھاگ جائے گی۔ اس طرح مٹھی بھر جانثارانِ حسین رضی اللہ عنہ پروانہ وار شمع امامت پر قربان ہونے لگے۔ اس وقت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت سیدنا زین العابدین رضی اللہ عنہ علیل تھے۔ علالت کے باوجود اپنے والد گرامی سے اجازت طلب کی مگر آپ رضی اللہ عنہ نے سمجھایا کہ ایک تو آپ رضی اللہ عنہ علیل ہیں اور دوسرے آپ رضی اللہ عنہ کا زندہ رہنا ضروری ہے کیونکہ خانوادئہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر چراغ گل ہو چکا ہے، ہر پھول مرجھا چکا ہے، اب میری نسل میں فقط تو ہی باقی رہ گیا، مجھے تو شہید ہونا ہی ہے اگر تو بھی شہید ہو گیا تو میرے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل کیسے چلے گی۔ تجھے اپنے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل کی بقاء کےلیے زندہ رہنا ہے‘‘ پھر آپ کو کچھ نصیحتیں کیں اور یوں فرزند صاحب ذوالفقار حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر خود میدان کربلا میں اترے۔ مقابلے میں آپ رضی اللہ عنہ دیر تک یزیدیوں کو واصل جہنم کرتے رہے۔ پورے یزیدی لشکر میں کہرام مچ گیا۔ حیدر کرار کا یہ فرزند جس طرف تلوار لے کر نکلتا یزیدی لشکر خوفزدہ بھیڑوں کی طرح آگے بھاگنے لگتا ۔ اسی معرکہ کے دوران آپ رضی اللہ عنہ کو بہت پیاس لگی، آپ رضی اللہ عنہ نے پانی کے لئے دریائے فرات کا رخ کیا مگر دشمن سخت مزاحمت کرنے لگا، اچانک ایک تیر آپ رضی اللہ عنہ کے چہرہ مبارک پر لگا اور آپ رضی اللہ عنہ کا چہرہ مبارک زخمی ہو گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے تیر کھینچ کر نکالا پھر ہاتھ چہرے کی طرف اٹھائے تو دونوں چلو خون سے بھر گئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا خون آسمان کی طرف اچھال دیا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا : الٰہی میرا شکوہ تجھی سے ہے ، دیکھ تیرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کے ساتھ کیا برتاؤ ہو رہا ہے ۔ (تاریخ طبری جلد 6 صفحہ 33،چشتی)


حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ دن کا طویل حصہ میدان کربلا میں تنہا دشمن کا مقابلہ کرتے رہے اور دشمنوں میں سے ہر کوئی آپ رضی اللہ عنہ کے قتل کو دوسرے شخص پر ٹالتا رہا کیونکہ حسین رضی اللہ عنہ کا قتل کوئی بھی اپنے ذمہ نہ لینا چاہتا تھا۔ آخر شمر بن ذی الجوشن نے کہا : ’’تمہارا برا ہو کیا انتظار کر رہے ہو ؟ کام تمام کیوں نہیں کرتے؟ آپ رضی اللہ عنہ ہر طرف سے نرغہ ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پکار کر کہا : کیا میرے قتل پر ایک دوسرے کو ابھارتے ہو ؟ واللہ میرے بعد کسی بندے کے قتل پر اللہ تعالیٰ اتنا ناخوش نہیں ہو گا جتنا میرے قتل پر ۔ (کامل ابن اثیر جلد 4 صفحہ 78)


شمر لعین کے اکسانے پر یزیدی لشکر آپ رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑا ، زرعہ بن شریک تمیمی نے آگے بڑھ کر آپ رضی اللہ عنہ کے بائیں کندھے پر تلوار ماری جس سے آپ رضی اللہ عنہ لڑکھڑا گئے ۔ اس پر سب حملہ آور پیچھے ہٹے پھر سنان بن ابی عمرو بن انس نخفی نے آگے بڑھ کر آپ رضی اللہ عنہ کو نیزہ مارا جس سے آپ رضی اللہ عنہ گر پڑے۔ سنان نے سواری سے اتر کر آپ رضی اللہ عنہ کا سر تن سے جدا کر کے خونی یزید کے حوالے کر دیا ۔ (البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 188)


یوں نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، جگر گوشۂ بتول سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہما نے کربلا کے میدان میں جانثاری کی ایک نئی تاریخ رقم کر کے قربانی کی ایک لازوال مثال قائم کر دی اور رہتی دنیا تک یہ پیغام دے دیا کہ باطل کے خلاف حق کی سربلندی کےلیے اگر سر تن سے جدا بھی ہوتا ہے تو پرواہ نہ کی جائے اور قربانی سے دریغ نہ کیا جائے : ⏬


اس سانحہ کو قید زمین و مکاں نہیں

اک درس دائمی ہے شہادت حسین کی


یہ رنگ وہ نہیں جو مٹانے سے مٹ سکے

لکھی گئی ہے خون سے امامت حسین کی


آج جہاں ہم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ سیرتِ حسین رضی اللہ عنہ پر عمل پیرا ہوں ۔ اپنے ظاہر و باطن کو ان کی سیرت میں ڈھالنے کی کوشش کریں ۔ باہمی رنجشوں اور فرقہ واریت کو چھوڑ کر محبت و عمل کا نشان ، دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علمبردار اور اسلام کی خاطر مر مٹنے والے بن جائیں تاکہ روز حشر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے سامنے سرخرو ہو سکیں اور کہہ سکیں کہ اے حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگیاں دین کی سربلندی کی خاطر قربان کی ہیں ۔


محترم قارٸینِ کرام : آپ دور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے آغاز سے لے کر شہادت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ تک نظر ڈالیں تو فکر و نظر کی کشمکش ہر جگہ نظر آتی ہے ، مگر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے نظریاتی کشمکش صحیح و درست تھے کیونکہ وہ خود مجتہد تھے ۔ اس لیے ان کا اجتہاد بھی درست تھا مگر یزیدی دور میں یزید صالح و طاہر آدمی نہیں تھا بلکہ وہ فاسق معلن تھا اور امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کو اسی ظالم و جابر کی بیعت لینے پر مجبور کیا جاتا رہا ، مگر انہوں نے بھی اس باطل نظریے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ کیوں کیا ؟ گفتگو ہو چکی ہے اور اس نظریے کےلیے وہ آخر تک جدوجہد کرتے رہے ، اس کےلیے انہوں نے وفا پیشہ جاں نثاروں سمیت ریگزار کربلا پر اپنا آخری سجدہ کرنا گوارا تو کر لیا مگر ایک نادرست اور غیر اسلامی نظریے کے سامنے سجدہ ریز ہونے نہیں دیا ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کی یہ نظریاتی جیت دراصل اسلام ، ایمان اور یقین کی ایک فکری جیت تھی اور باطل فکر کی ایک ناقابل تردید شکست فاش ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

بریلوی اہل سنت و جماعت کی پہچان

بریلوی اہل سنت و جماعت کی پہچان محترم قارئینِ کرام : بے شک ’’بریلوی‘‘ اور مسلک اعلیٰحضرت سچے پکے اصلی اور حقیقی اہلسنت کی علامت و نشان و شنا...