Friday, 5 July 2024

آیتِ مباہلہ اور رافضیوں و نیم رافضیوں کے فریب کا جواب

آیتِ مباہلہ اور رافضیوں و نیم رافضیوں کے فریب کا جواب

محترم قارئینِ کرام اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَکُمْ وَ نِسَآءَ نَا وَ نِسَآءَکُمْ وَاَنۡفُسَنَا وَاَنۡفُسَکُمْ۟ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللہِ عَلَی الْکٰذِبِیۡنَ  ۔ (سورۃ آل عمران آیت نمبر 61)
ترجمہ : پھر اے محبوب جو تم سے عیسٰی کے بارے میں حجت کریں بعد اس کے کہ تمہیں علم آچکا تو ان سے فرما دو آؤ ہم تم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں ۔

سورہ آل عمران کی یہ آیت جو کہ آیت مباہلہ کے نام سے مشہور ہے اس آیت کو پیش کر کے شیعہ حضرات یہاں یہ بات ثابت کرنے کی بے جا کوشش کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صرف ایک صاحبزادی سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا ہی تھیں اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اور صاحبزادیاں ہوتیں تو وہ سب بھی اس روز مباہلہ میں شرکت کرتیں ۔ تو جناب گذارش یہ ہے کہ شیعہ حضرات کی تاریخ کی تمام معتبر کتابوں (ناسخ التوریخ اور کافی وغیرہ) میں موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی چار صاحبزادیاں تھیں اس دن خاتون جنت سلام اللہ علیہا کا تنہا تشریف لانا اس لیے تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی باقی صاحبزادیاں انتقال فرما چکی تھیں ۔ یہ واقعہ 10ہجری کا ہے جبکہ حضرت رقیہ 2 ہجری میں ، حضرت زینب 8 ہجری میں اور حضرت ام کلثوم نے 9 ہجری میں انتقال فرمایا ۔

ہم اہل تشیع اور روافض کی کتابوں سے حوالہ پیش کررہے ہیں جس سے روافض کی غلط بیانی کی نشاندہی ہو جائیگی کہ خود ان کے گھر کی معتبر کتابیں اس بات کی شہادت دیتیں ہیں کہ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی کل چار بیٹیاں تھیں ۔

شیعہ مذہب کی بنیادی کتابیں چار ہیں ۔ جنہیں ”صحاح اربعہ “ کہا جاتا ہے ۔ (1) اصول کافی ۔ (2) من لا یحضر الفقیة۔ (3) تهذيب الاحکام ۔ (4) الاستبصار ۔

ان چار میں سے سب سے زیادہ اہمیت ”اصول کافی“ کو دیجاتی ہے اس کتاب کو لکھنے والے معروف شیعہ عالم“ابوجعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی” ہیں ۔ کلینی 329ھ میں فوت ہوا ۔ محمد بن یعقوب کلینی نے اس کتاب کی " کتاب الحجہ باب مولد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم " میں ذکر کیا ہے کہ : وتزوج الخديجة وهو ابن بضع وعشرین سنة فولدہ منهاقبل مبعثه القاسم ورقیة وزینب وام کلثوم وولدلہ بعد المبعث الطیب والطاهر وفاطمةعليها السلام ۔ (اصول کافی ص439 طبع بازار سلطانی تہران۔ایران،چشتی)
ترجمہ : یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خدیجہ کے ساتھ نکاح کیا اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عمر بیس سال سے زیادہ تھی پھر خدیجہ سے جناب کی اولاد بعثت سے پہلے جو پیدا ہوئی وہ يہ ہے قاسم، رقیہ ، زینب اور ام کلثوم اور بعثت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اولاد طیب ، طاہر اور فاطمہ پیدا ہوئیں ۔

محترم قارئینِ کرام : اصول کا فی جو اصول اربعہ کی نمبر1 کتاب ہے اس نے مسئلہ بالکل واضح کر دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی چار صاحبزادیاں ہیں اور چاروں صاحبزادیاں حضرت خدیجہ الکبری سے متولد ہیں اور پھر اصول کافی کے تمام تر شارحین نے اس کی تشریح اور توضیح عمدہ طریقے پر کر دی ہے مثلاً مرآة العقول شرح اصول جو باقر مجلسی نے لکھی ہے اور ” الصافی شرح کافی “ ملا خلیل قزوینی نے لکھی ہے انہوں نے اس روایت کو بالکل درست کہا ہے ۔ آج چودہویں صدی کے شیعہ علماءاپنی عوام کو ”بدھو بنانے کے غرض سے يہ کہہ کرجان چھڑا لیتےہیں کہ يہ روایت ضعیف ہے مگر آج تک شیعہ برادری ضعيف روایت کی معقول وجہ پیش نہیں کر سکی اور نہ قیامت تک کر سکتی ہے ۔

اب شیعہ مذہب کی دوسری کتاب كا حوالہ ملاحظہ ہو ۔ مشہور شیعہ عالم ابو العباس عبداﷲ بن جعفری الحمیری اپنی کتاب " قرب الاسناد" لکھتے ہیں قال: وحدثني مسعدة بن صدقة قال: حدثني جعفر بن محمد، عن أبيه قال ولد لرسول الله صلى الله عليه وآله من خديجة: القاسم، والطاهر، وأم كلثوم، ورقية، وفاطمة، وزينب. فتزوج علي عليه السلام فاطمة عليها السلام، وتزوج أبو العاص بن ربيعة – وهو من بني أمية – زينب، وتزوج عثمان بن عفان أم كلثوم ولم يدخل بها حتى هلكت، وزوجه رسول الله صلى الله عليه وآله مكانها رقية. ثم ولد لرسول الله صلى الله عليه وآله – من أم إبراهيم – إبراهيم، وهي مارية القبطية، أهداها إليه صاحب الإسكندرية مع البغلة الشهباء وأشياء معها ۔ (کتاب قرب الاسناد الحميري القمي الصفحة ٩،چشتی)
ترجمہ : رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے جن کی پیدائش وہ قاسم، طاہر، ام کلثوم، رقیہ، فاطمہ اور زینب ہیں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی ، ابو العاص ابن ربیع رضی اللہ تعالی عنہ نے جو بنو میہ میں سے تھا حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے شادی کی، عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے شادی کی مگر وہ رخصتی سے پہلے انتقال کر گئیں تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے رقیہ رضی اللہ عنہا سے ان کی شادی کی ۔

اس روایت نے مسئلہ ہذا کو مزید واضح کر دیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حقیقی بیٹیاں چار ہی تھیں اور چاروں خدیجة الکبری کے بطن سے پیدا ہوئیں اور يہ اس کتاب کا حوالہ ہے جس کے مصنف کا دعوی ہے کہ میں جواب طلب مسئلہ ايک چٹھی پر لکھ کر درخت کی کھوہ میں رکھ دیتا تھا دو دن کے بعد جب جا کر ديکھتا تو اس پر امام غائب (شیعوں کے امام مہدی) کی مہر لگی ہوتی تھی چنانچہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کتاب کا اصل نام ”قرب الاسناد الی صاحب الامر“ ہے ۔ (تحفہ اثناعشریہ ص245)

ليجئے اب تو اس مسئلہ پر امام مہدی (جو شیعہ عقائد کے مطابق” روپوش“ ہیں اور قرب قیامت میں ظاہر ہونگے) اس کی مہر لگ گئی ہے نیز اسی کتاب کی اس روایت کو شیعہ مجتہدین نے اپنی اپنی تصا نیف میں بطور تائید نقل کیا ہے مثلاً باقر مجلسی نے حیات القلوب جلد نمبر2 ص718 میں اور عباس القمی نے ”منتھی الآمال جلد نمبر1 ص108 میں اور عبداﷲ مامقانی نے ” تنقیح المقال“ کے آخر میں تائیداً ذکر کیا ہے ۔ اب شیعہ حضرات خود فیصلہ صادر فرمائیں کہ ان کے سابق اکابر حضرات حق پر تھے یا يہ آج کل کے مجلس خوان ذاکر ؟

شیعہ مذہب کی نہایت قابل اعتماد عالم شیخ صدوق ابن بابويہ القمی نے اپنی مايہ ناز کتاب ”کتاب الخصال“ کےا ندر متعدد بار اس مسئلہ کو اٹھایا ہے چنانچہ ايک مقام پر قول نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : رسول خدا کی سات اولاد تھیں

شیعہ مذہب کا نہایت قابل اعتماد عالم شیخ صدوق ابن بابويہ القمی لکھتا ہے :

حدثنا أبي ، ومحمد بن الحسن رضي الله عنهما قالا: حدثنا سعد بن – عبد الله، عن أحمد بن أبي عبد الله البرقي، عن أبيه، عن ابن أبي عمير، عن علي بن – أبي حمزة، عن أبي بصير، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: ولد لرسول الله صلى الله عليه وآله من خديجة القاسم والطاهر وهو عبد الله، وأم كلثوم، ورقية، وزينب، وفاطمة. وتزوج علي ابن أبي طالب عليه السلام فاطمة عليها السلام، وتزوج أبو العاص بن الربيع وهو رجل من بني أمية زينب، وتزوج عثمان بن عفان أم كلثوم فماتت ولم يدخل بها، فلما ساروا إلى بدر زوجه رسول الله صلى الله عليه وآله رقية. وولد لرسول الله صلى الله عليه وآله إبراهيم من مارية القبطية وهي أم إبراهيم أم ولد ۔ (کتاب الخصال الشيخ الصدوق عربی جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 404،چشتی)(مترجم اردو کا صفحہ نمبر 223)

ترجمہ : امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی چھ اولاد تھیں قاسم ، طاہر کہ ان کا نام عبدالله تھا ، ام کلثوم ، رقیہ ، زینب اور فاطمہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی ، ابو العاص ابن ربیع رضی اللہ تعالی عنہ نے جو بنو میہ میں سے تھا حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے شادی کی ، عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے شادی کی مگر وہ رخصتی سے پہلے انتقال کر گئیں لہٰذا جب مسلمانوں نے بدر کی جانب رخ کیا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے رقیہ رضی اللہ عنہا سے اس کی شادی کی ۔

یہی شیخ صدوق ابن بابويہ القمی لکھتا ہے : ان خدیجة رحمها ﷲ و لدت منی طاهر وهو عبد ﷲ هو المطهر و ولدت منی القاسم وفاطمة ورقیة وام کلثوم وزینب ۔
ترجمہ : (رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا) ﷲ تعالی خدیجہ پر رحم فرمائے کہ اس کے بطن سے میری اولاد ہوئی طاہر جس کو عبد ﷲ کہتے ہیں اور وہی مطہر ہے اور خدیجہ سے ميرے ہاں قاسم ، فاطمہ، رقیہ، ام کلثوم او زینب پیدا ہوئيں ۔ (کتاب الخصال للصدوق عربی جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 405،چشتی)،(کتاب الخصال للصدوق مترجم اردو صفحہ نمبر 223)

گیارہویں صدی ہجری کے شیعوں کے جلیل القدر محدث سید نعمت ﷲ الجزائری اپنی معر ف کتاب ” انوار النعمانیة“ میں ذکر کرتے ہیں کہ : انما ولدت له ابنان واربع بنات زینب ورقیة وام کلثوم وفاطمة ۔
ترجمہ : حضرت خدیجہ الکبری رضی ﷲ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہاں دو صاحبزداے اور چار صاحبزدایاں پیدا ہوئیں ايک زینب دوسری رقیہ تیسری ام کلثوم اور چوتھے نمبر پر فاطمہ رضی اﷲ تعالی عنھن ۔

يہ نعمت اﷲ الجزائری صاحب وہ ہیں جنہوں نے ”متعے“ کی فضلیت پر بھی بہت کچھ لکھا ہے اس لئے کم ازکم شیعوں کو ” ان صاحب“ کی بات تو ضرور مان لینی چاہيے کیوں کہ انہوں نے ملت شیعہ پر احسان عظیم کیا ہے کہ" متعہ جیسی لذیذ" عبادت پر قلم چلایا ہے ۔

چودہویں صدی کا شیعوں کا مجتہد و محققِ اعظم شیخ عباس قمی لکھتا ہے : ورد في (قرب الاسناد) عن الامام الصادق (علیه السلام) انه ولد لرسول الله صلى الله عليه وآله من خديجة: القاسم، والطاهر، وأم كلثوم ، ورقية ، وفاطمة ، وزينب . فتزوج علي عليه السلام فاطمة عليها السلام ، وتزوج أبو العاص بن ربيعة ، وهو من بني أمية ۔ زينب ، وتزوج عثمان بن عفان أم كلثوم ولم يدخل بها حتى هلكت ، وزوجه رسول الله صلى الله عليه وآله مكانها رقية ۔ (منتهى الامال في تواريخ النبي والال عليهم السلام الشيخ ، عباس القمي جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 151،چشتی)
ترجمہ : حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے جن کی پیدائش وہ قاسم ، طاہر ، ام کلثوم ، رقیہ ، فاطمہ اور زینب ہیں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی ، ابو العاص ابن ربیع رضی اللہ تعالی عنہ نے جو بنو میہ میں سے تھا حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے شادی کی، عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے شادی کی مگر وہ رخصتی سے پہلے انتقال کر گئیں تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے رقیہ رضی اللہ عنہا سے ان کی شادی کی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں اور آج تک علی التواتر شیعہ مذہب کی ”امہات الکتب“ میں ان چاروں کے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ شیعہ مذہب کے ايک اور متبحر عالم اور مجتہد ملا باقر مجلسی اصفہانی اپنی کتاب حیات القلوب میں لکھتے ہیں : پس اول فرزند کہ از برائے او بہم رسید عبد ﷲ بود کہ اور بعبد ﷲ وطیب طاہر ملقب ساختند و بغد از قاسم متولد شدو بعضے گفتہ کہ قاسم ازعبد ﷲ بزرگ توبود چہار دختراز وبرائے حضرت آورد زینب و زقیہ ان کلثوم وفاطمہ ۔ (حیات القلوب ج2ص728طبع لکھنو،چشتی)
ترجمہ : یعنی حضرت خدیجہ رضی ﷲ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہاں پہلے فرزند عبد ﷲ پیدا ہوئے جس کو طیب اور طاہر کے ساتھ بھی ملقب کیا جاتا ہے اور اس کے بعد قاسم متولد ہوئے اوربعض علماء کہتے ہیں قاسم عبد ﷲ سے بڑے تھے اور چار صاحبزادیاں پیدا ہوئیں زینب رقیہ ام کلثوم اور فاطمہ رضی اﷲتعالی عنہن ۔

واضح ہو گیا کہ ملا باقر مجلسی نے بھی اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے صاف اقرار کیا کہ صاحبزادیاں چار ہی تھیں اور يہ باقرمجلسی وہ ہیں جن کے متعلق خود خمینی نے لکھا کہ ۔ کتاب ہائی فارسی راکہ مرحوم مجلسی برائی مردم پارسی زبان نوشتہ نجوائید ۔ (کشف الاسرار)
ترجمہ : وہ فارسی کتب جو مرحوم باقر مجلسی نے اہل فارس کےلئے لکھی ہیں انہیں پڑھو ۔

شیعہ مذہب کے قدیم مورخ عتمد مؤرخ احمد بن یعقوب بن جعفر جو تیسری صدی ہجری میں گذرا ہے وہ ”تاریخ یعقوبی“ میں لکھتا ہے : ولدت له قبل ان يبعث : القاسم , ورقية , وزينب ,وام كلثوم , وبعد ما بعث : عبد اللّه وهو الطيب والطاهر , لانه ولد في الاسلام وفاطمة ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بعثت سے پہلے قاسم رقیہ زینب اور ام کلثوم پیدا ہوئیں اور بعثت کے بعد عبد اللہ جو طیب اور طاہر بھی کہلاتے تھے اور فاطمہ پیدا ہوئیں ۔ (تأريخ اليعقوبي عربی أحمد بن يعقوب بن وهب جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 340،چشتی)(تأريخ اليعقوبي مترجم اردو أحمد بن يعقوب بن وهب جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 37 مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی)

ديگر کتابوں کی طرح اس تاریخ یعقوبی کو بھی شیعہ مذہب میں کافی اہمیت حاصل ہے اب ان تمام متعبر کتابوں کے حوالہ جات کے بعد آپ اس نتیجہ پر ضرور پہنچیں گے کہ تمام صاحبزادیوں کا حضرت خدیجہ الکبری رضی ﷲ عنہا سے متولدہونا شیعہ و سنی سب کے نزدیک مسلمہ امر ہے مگر آج کے شیعہ اپنی سابقہ کتب کی تکذیب پر ڈٹے ہوئے ہیں اگر شیعہ حضرات سنجیدگی کے ساتھ غور کریں تو کم ازکم اس اس مسئلہ پر تو اختلاف ختم ہو سکتا ہے مگر ان کی ہٹ دھرمی ديکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ شیعہ قوم کبھی بھی اس کےلئے تیار نہیں ہوگی ۔ وﷲ یھدی من یشاءالی صراط مستقیم ۔

شیعہ مذہب کے نزدیک حضرت علی المرتضی رضی ﷲ عنہ کے کلام کا مشہور ومستند مجموعہ کتاب ”نہج البلاغہ“ ہے حضرات علماء شیعہ کے نزدیک يہ کتاب انتہائی معتبر ہے اس کتاب میں حضرت علی المرتضی رضی ﷲ عنہ حضرت عثمان بن عفان رضی ﷲ عنہ کو خطاب کر کے فرماتے ہیں کہ اے عثمان رضی ﷲ عنہ آپ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے طرف حضرات ابو بکر و عمر رضی ﷲ عنہما سے قرابت اور رشتہ داری میں زیادہ قریب ہیں اور آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ دامادی کا شرف پایا ہے جس ابو بکرو عمر رضی ﷲ عنہما نہیں پاسکے ۔ ’’نہج البلاغہ“ کی عبارت ملاحظہ ہو ۔" وانت اقرب الی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم شیجته رحم منهما وقدنلت من صهره مالم ینا لا الخ " ۔ (نہج البلاغہ ص303جلد1مطبوعہ تہران،چشتی)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت علی کرم ﷲ وجہہ بھی حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حقیقی داماد قرار ديتے تھے وہ دامادی مشہورو معروف ہے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دو صاحبزادیاں يکے بعد دیگرے آپ رضی ﷲ عنہ کے نکاح میں آئیں ۔ ان واضح تائیدات کے باوجود بھی اگر شیعہ تین صاحبزادیو ں کا انکا رکریں تو يہ صرف اور صرف دروغ گوئی اورحضرت علی رضی ﷲ عنہ کے فرمان کی کھلی تکذیب ہے ۔

مشہور شیعہ عالم علی بن عیسیٰ ”ازبلی“ نے ساتوں ہجری میں ايک کتاب لکھی جس کو شیعہ مذيب میں بڑی مقبولیت ملی اس کا نام ”کشف الغمہ فی معرفتہ الائمہ“ اس میں لکھا ہے کہ : وکانت اول امراة تزوجها رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم و اولاد كلهم منها الاابراهيم فانه من مارية القبطية ۔ (کشف الغمہ)
ترجمہ : یعنی خدیجہ الکبری رضی ﷲ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سب سے پہلی زوجہ تھیں جن کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے شادی کی اور آنجناب کی تمام اولاد (صاحبزادے ، صاحبزادیاں) خدیجہ الکبری رضی ﷲ عنہا ہی سے متولد ہوئیں مگر ابراہیم ماریہ قبطیہ رضی ﷲ عنہا سے متولد ہوئے ۔

علماء شیعہ کے معروف عالم شیخ عبد ﷲ مامقانی اپنی مشہور تصنیف ”تنقیح المقال فی احوال الرجال“ رقمطراز ہیں : وولدت له اربع بنات كلهن ادرکن الاسلام وهاجرين وهن زینب وفاطمة ورقية وام کلثوم ۔ (تنقیح المقال ج3ص73طبع لنبان،چشتی)
ترجمہ:یعنی خدیجہ رضی ﷲ عنہا سے آنجناب کی چار صاحبزادیاں پیداہوئیں تمام نے دور اسلام پایا اور مدینہ کی طرف ہجرت بھی کی اور وہ زینب ، فاطمہ ، رقیہ اور ام کلثوم ہیں ۔

شیعوں کا شیخ الطائفہ ابی جعفر محمد بن حسن طوسی لکھتا ہے : زوج فاطمة عليها السلام عليا وهو أمير المؤمنين صلوات الله وسلامه عليه ، وأمها خديجة أم المؤمنين ، وزوج بنتيه رقية وأم كلثوم عثمان ، لما ماتت الثانية ، قال : لو كانت ثالثة لزوجناه إياها ، وتزوج الزبير أسماء بنت أبي بكر ، وهي أخت عايشة ، وتزوج طلحة أختها الأخرى ۔ (کتاب المبسوط الشيخ الطوسي جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 159،چشتی)
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی حضرت امیر المومنین علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کی اور ان کی والدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں اور اپنی دونوں بیٹیوں حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی شادی حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کی جب پہلی کا انتقال ہو گیا اور کہا کے اگر میری تیسری بیٹی بھی ہوتی تو تو میں اس کے نکاح میں دیتا حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا سے شادی کی اور یہ بہن تھیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اور حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کی دوسری بہن سے شادی کی ۔

شیعہ مذھب کا شیخ الطائفہ ابی جعفر محمد بن حسن طوسی یہ دعاء امام موسی کاظم علیہ السّلام سے منسوب کر کے لکھتا ہے : اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى الْقَاسِمِ وَ الطَّاهِرِ ابْنَيْ نَبِيِّكَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى رُقَيَّةَ بِنْتِ نَبِيِّكَ وَ الْعَنْ مَنْ آذَى نَبِيَّكَ فِيهَا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى أُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ نَبِيِّكَ وَ الْعَنْ مَنْ آذَى نَبِيَّكَ فِيهَا ۔
ترجمہ : اے الله جلّ جلالہ صلوات بھیج اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بیٹے قاسم اور طاہر پر ، اے الله جلّ جلالہ صلوات بھیج رقیہ پر جو تیرے نبی کی بیٹی ہے اور لعنت کر اس پر جس نے اس کے ذریعے تیرے نبی کو اذیت دی ، اے الله جلّ جلالہ صلوات بھیج ام کلثوم پر جو تیرے نبی کی بیٹی ہے اور لعنت کر اس پر جس نے اس کے ذریعے تیرے نبی کو اذیت دی ۔ (تهذيب الأحكام جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 120،چشتی)

شیخ طوسی اس کو اپنی کتاب تهذيب الأحكام میں لائے ہیں صحیح سند کے ساتھ ۔ تهذيب الأحكام ہماری کتب اربعہ میں سے ایک ہے ۔ اس میں ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دو بیٹیوں کا ذکر ہو رہا ہے ، رقیہ اور ام کلثوم ، سلام اللہ علیہا ۔
اس کی سند : محمد بن يعقوب عن علي بن إبراهيم عن أبيه عن ابن محبوب عن علي بن رئاب عن عبد صالح عليه السلام قال، ادع بهذا الدعاء في شهر رمضان مستقبل دخول السنة ۔
ترجمہ : محمد بن یعقوب ، جنہوں نے روایت کی علی بن ابراہیم سے اور انہوں نے اپنے والد سے ، ان کے والد نے محبوب سے اور انہوں نے علی بن رئاب سے ، جنہوں نے عبد صالح (امام موسى الكاظم) عليه السلام سے روایت کی جنہوں نے فرمایا کہ اس دعاء سے الله جلّ جلالہ کو پکارو آئندہ جب بھی نیا سال آئے ۔۔۔ پھر دعاء تعلیم فرمائی جس کا کچھ حصہ اوپر نقل کیا ہے ۔ سند کے تمام راوی معتبر ہیں ، علامہ مجلسی نے اس کی سند کو حسن کہا ہے ۔
أحمد بن محمد عن ابن أبي عمير عن حماد عن الحلبي عن أبي عبد الله عليه السلام ان أباه حدثه ان امامة بنت أبي العاص بن الربيع وأمها زينب بنت رسول الله صلى الله عليه وآله فتزوجها بعد علي عليه السلام ۔
ترجمہ : احمد بن محمد، جنہوں نے روایت کی ابن ابی عامر سے اور انہوں نے حماد سے جنہوں نے حلبی سے اور انہوں نے امام الصادق ععلیہ السّلام سے جنہوں نے فرمایا کہ ان کے والد (امام الباقر علیہ السّلام) نے ان سے بیان کیا تھا امامہ بنت ابی عاص بن ربیع جن کی والدہ زینب بنت رسول الله جلّ جلالہ تھیں نے علی علیہ السّلام کے بعد شادی کی ۔۔۔ الخ ۔ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا بھی رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بیٹی تھیں ۔ (تهذيب الأحكام جلد نمبر 8 صفحہ نمبر 258،چشتی)

شیعہ مذھب کا شیخ الطائفہ ابی جعفر محمد بن حسن طوسی یہ روایت بھی لکھتا ہے : وَ إِنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ النَّبِيِّ ص تُوُفِّيَتْ وَ إِنَّ فَاطِمَةَ ع خَرَجَتْ فِي نِسَائِهَا فَصَلَّتْ عَلَى أُخْتِهَا ۔
ترجمہ : زینب بنت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وفات ہوئی تو فاطمہ علیہا السّلام اپنی عورتوں کے ساتھ نکلیں اور اپنی بہن پر نماز پڑھی ۔ اس کی بھی سند معتبر ہے۔ (تهذيب الأحكام جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 333)

شیعوں کا محققِ و مجتہدِ اعظم ملاّں باقر مجلسی لکھتا ہے : معتبر سند کے ساتھ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے روایت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے اولاد جو ہوئی اُن کے نام یہ ہیں ، طاہر و قاسم ، فاطمہ ، ام کلثوم ، رقیہ اور زینب رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں ۔ (حیات القلوب مترجم اردو جلد دوم صفحہ نمبر 869،چشتی) ، (حیات القلوب فارسی جلد دوم صفحہ 559 ملا باقر مجلسی)

شیعوں کا علاّمہ ملاّں باقر مجلسی لکھتا ہے : ولدت خدیجة له صلی اللہ علیه وسلم زینب و رقیة و ام کلثوم و فاطمة القاسم وبه کان یکنی والاطاھر والطیب ۔ (مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول العلامة المجلسي جلد نمبر5 صفحہ نمبر 181،چشتی)
ترجمہ : حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے بچوں میں زینب ، رقیہ ، ام کلثوم ، فاطمہ ، طاہر، اور قاسم (رضی اللہ عنہم) پیدا ہوئے ۔

مشہور شیعہ عالم و محقق محمد کاظم قزوینی لکھتا ہے : بنات اربع : زینب و ام کلثوم و رقیة و فاطمة الزھراء ۔ بنات اربع : زینب و ام کلثوم و رقیة و فاطمة الزھراء
وھناک اختلاف بین المورخین والمحدثین حول بنتین الاولین فقیل انھما لیستا من بنات النبي والصحیح انھما من بناته وصلبه وسیاتي الکلام حول ذالک في المستقبل بالمناسبة باذن اللہ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی چار بیٹیاں ہیں ، زینب ، ام کلثوم ، رقیہ و فاطمۃ الزہرا (رضی اللہ عنہن) ۔ (کتاب فاطمة الزهراء عليها السلام من المهد الى اللحد كاظم القزويني الصفحة ٣١،چشتی)

محترم قارئینِ کرام : یہ چند حوالہ جات ہم نے شیعہ کتب سے پیش کیے ہیں جو دور حاضر کے روافض کی غلط بیانی کی پول کو کھولتے ہیں اورہدایت کے متلاشی کےلیے دلیلِ کافی ہیں ۔

کتب و تفاسیرِ اہلسنّت سے : ⬇

یہاں مباہلے کا ذکر ہورہا ہے اس کا معنیٰ سمجھ لیں ، مُباہَلہ کا عمومی مفہوم یہ ہے کہ دو مدمقابل افراد آپس میں یوں دعا کریں کہ اگر تم حق پر اور میں باطل ہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے ہلاک کرے اور اگر میں حق پر اور تم باطل پر ہو تواللہ تعالیٰ تجھے ہلاک کرے۔ پھر یہی بات دوسرا فریق بھی کہے ۔ اب واقعہ پڑھیے ۔  جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نجران کے عیسائیوں کو یہ آیت پڑھ کر سنائی اور مباہلہ کی دعوت دی تو کہنے لگے کہ ہم غور اور مشورہ کرلیں ، کل آپ کو جواب دیں گے۔ جب وہ جمع ہوئے تو انہوں نے اپنے سب سے بڑے عالم اور صاحب رائے شخص عاقب سے کہا کہ ’’ اے عبدُ المسیح ! مباہلہ کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ اس نے کہا : اے نصاریٰ کی جماعت ! تم پہچان چکے ہو کہ محمدنبی مُرْسَل تو ضرور ہیں ۔ اگر تم نے ان سے مباہلہ کیا تو سب ہلاک ہو جاؤ گے ۔ اب اگر نصرانیت پر قائم رہنا چاہتے ہو تو انہیں چھوڑ دو اور گھروں کو لوٹ چلو ۔ یہ مشورہ ہونے کے بعد وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گود میں تو امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ہیں اور دستِ مبارک میں امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کا ہاتھ ہے اور حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہا اور حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پیچھے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان سب سے فرما رہے ہیں کہ ’’ جب میں دعا کروں تو تم سب آمین کہنا ۔ نجران کے سب سے بڑے عیسائی پادری نے جب ان حضرات کو دیکھا تو کہنے لگا : اے جماعتِ نصاریٰ ! میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے پہاڑ کو ہٹا دینے کی دعا کریں تو اللہ تعالیٰ پہاڑ کو جگہ سے ہٹا دے ، ان سے مباہلہ نہ کرنا ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور قیامت تک روئے زمین پر کوئی عیسائی باقی نہ رہے گا ۔ یہ سن کر نصاریٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں عرض کیا کہ ’’ مباہلہ کی تو ہماری رائے نہیں ہے ۔ آخر کار انہوں نے جزیہ دینا منظور کیا مگر مباہلہ کےلیے تیار نہ ہوئے ۔ (تفسیر خازن سورہ اٰل عمران الآیۃ : ۶۱، ۱ / ۲۵۸،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ : اس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے ، نجران والوں پر عذاب قریب آ ہی چکا تھا ۔ اگر وہ مباہلہ کرتے تو بندروں اور سوروں کی صورت میں مسخ کردیے جاتے اور جنگل آگ سے بھڑک اٹھتا اور نجران اور وہاں کے رہنے والے پرند ے تک نیست و نابود ہو جاتے اور ایک سال کے عرصہ میں تمام نصاریٰ ہلاک ہوجاتے۔(تفسیر ابو سعود سورہ اٰل عمران الآیۃ : ۶۱، ۱ / ۳۷۳)

مباہلہ کس میں ہونا چاہیے : اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ مناظرہ سے اوپر درجہ مباہلہ کا ہے یعنی مخالف ِدین کے ساتھ بد دعا کرنی ۔ دوسرے یہ کہ مباہلہ دین کے یقینی مسائل میں ہونا چاہیے نہ کہ غیر یقینی مسائل میں لہٰذا اسلام کی حقانیت پر تو مباہلہ ہو سکتا ہے ۔ حنفی شافعی اختلافی مسائل میں نہیں ۔


نجران کے وفد کے سامنے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس پر دلائل پیش کئے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خدا ہیں نہ خدا کے بیٹے ہیں اور اس مسئلہ میں عیسائیوں کے تمام شبہات کو مکمل طور پر زائل کیا ‘ اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ دیکھا کہ وہ ہٹ دھرمی سے کسی دلیل کو نہیں مان رہے تو انہیں عاجز کرنے کےلیے اللہ تعالیٰ نے ان سے مباہلہ کرنے کا حکم دیا ۔ امام ابوالحسن علی بن احمد واحدی نیشا پوری متوفی ٤٥٨ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نجران کے وفد کو مباہلہ کرنے کےلیے بلایا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو گود میں اٹھائے ہوئے اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے نکلے اور حضرت فاطمہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما آپ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے اور آپ فرما رہے جب میں دعا کروں تو تم آمین کہنا نصاری کے سردار اسقف نے کہا اے نصاری کی جماعت میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ اللہ سے یہ دعا کریں کہ وہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا دے تو اللہ ان کی دعا قبول کرکے پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا دے گا سو تم ان سے مباہلہ نہ کرو ورنہ تم ہلاک ہوجاؤ گے اور قیامت تک روئے زمین پر کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا ‘ پھر انہوں نے جزیہ دینا قبول کرلیا اور اپنے علاقہ میں واپس چلے گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : قسم اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے اللہ کا عذاب اہل نجران کے نزدیک آچکا تھا اور اگر یہ مباہلہ کرتے تو انہیں بندر اور خنزیر بنادیا جاتا اور ان کی وادی میں آگ بھڑکتی رہتی اور اہل نجران کو ملیا میٹ کردیا جاتا حتی کہ درختوں پر پرندے بھی ہلاک ہوجاتے اور سال ختم ہونے سے پہلے تمام عیسائی فنا کے گھاٹ اتر جاتے ۔ (الوسیط ج ١ ص ٤٤٤‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)۔(المستدرک ج ٢ ص ٥٩٤‘ دلائل النبوۃ لابی نعیم ج ٢ ص ٢٩٨)(طبری ج ٦ ص ٤٨٢۔ ٤٧٨‘چشتی)(الدرالمنثور ج ٢ ص ٣٩۔ ٣٨)(کنزالعمال ج ٢ ص ٣٨٠)


امام حاکم نے لکھا ہے کہ یہ حدیث امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے ‘ اور امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ ‘ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا : اے اللہ ! یہ میرے اہل ہیں ۔ یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ (جامع ترمذی ص ‘ ٤٢٦‘ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)


قرآن مجید کی اس آیت میں حضرت حسن اور حضرت حسین (رض) پر اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بیٹوں کا اطلاق کیا ہے اور اس کی تائید اس حدیث میں ہے ۔ امام ترمذی روایت کرتے ہیں : حضرت اسامہ بن زید (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں ایک رات کسی کام سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم باہر تشریف لائے درآں حالیکہ آپ نے کسی کو چادر میں لیا ہوا تھا جس کا مجھے پتہ نہیں چلا جب میں اپنے کام سے فارغ ہوا تو میں نے پوچھا آپ نے چادر میں کس کو لیا ہوا ہے ؟ آپ نے چادر کھولی تو آپ کے زانو پر حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما بیٹھے ہوئے تھے آپ نے فرمایا یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں ۔ اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں ‘ سو تو بھی ان سے محبت کر اور تو اس سے بھی محبت کر جو ان دونوں سے محبت کرے۔ (جامع ترمذی ص ٥٣٩۔ مطبوعہ کراچی)


واضح رہے کہ آپ کی دیگر صاحبزادیوں رضی اللہ عنہن سے اولاد کا سلسلہ قائم اور جاری نہیں رہا ۔ آپ کی آل کے سلسلہ کا فروغ صرف نسب فاطمی سے مقدر تھا ۔ نیز آپ کی اولاد کی خصوصیت میں یہ دلیل ہے ۔ امام ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی ٣٦٠ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا قیامت کے دن ہر سبب اور نسب منقطع ہو جائے گا ماسوا میرے سبب اور نسب کے ۔ (المستدرک ج ٣ ص ١٤٢‘ سنن کبری ج ٧ ص ١١٤)(البدایہ والنہایہ ج ٧ ص ٨١‘چشتی)(تاریخ بغداد ج ١٠ ص ٢٧١)(المطالب العالیہ ج ٤ ص ١٧٧)(المعجم الکبیر ج ٣ ص ٣٦‘ ج ١١ ص ٢٤٣‘ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ )(مجمع الزوائد ج ٤ ص ٢٧٢‘ ٢٧١‘ مطبوعہ بیروت)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نبوت پر دلیل


مناظرہ اور مجادلہ میں مباہلہ کرنا حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کن امر ہے کیونکہ اس میں جھوٹے فریق پر لعنت ثابت ہوجاتی ہے اور اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نبوت پر دو دلیلیں ہیں اول یہ کہ اگر آپ کو اپنی نبوت پر یقین واثق نہ ہوتا تو آپ ان کو مباہلہ کی دعوت نہ دیتے اور ثانی یہ کہ فریق مخالف کے سردار عاقب نے مباہلہ کرنے سے انکار کردیا اور جزیہ دینے پر راضی ہوگیا اور وہ اس شرط پر واپس چلے گئے کہ ہر سال ایک ہزار حلے صفر میں اور ایک ہزار حلے رجب میں بھیجیں گے ۔


امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ عامر روایت کرتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان سے فرمایا اگر تم مباہلہ سے انکار کرتے ہو تو اسلام قبول کرلو جو حقوق مسلمانوں کے ہیں وہ تمہارے ہوں گے اور جو چیزیں ان پر فرض ہیں وہ تم پر فرض ہوں گی اور اگر تم کو یہ منظور نہیں ہے تو پھر ذلت کے ساتھ جزیہ ادا کرو اور اگر یہ بھی منظور نہیں ہے تو پھر ہم تمہارے ساتھ جنگ کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم عرب کے ساتھ جنگ کی طاقت نہیں رکھتے لیکن ہم جزیہ ادا کریں گے سو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان پر دو ہزار حلے مقرر کیے ایک ہزار صفر کے مہینہ میں اور ایک ہزار رجب کے مہینہ میں ۔ (جامع البیان ج ٣ ص ‘ ٣١١ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)


مباہلہ کا لغوی اور اصطلاحی معنی اور اس کا شرعی حکم


علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں : مباہلہ کا معنی ہے عاجزی کے ساتھ دعا کرنا ۔ (المفردات ص ‘ ٦٣‘ مطبوعہ المکتبۃ المرتضویہ ‘ ایران ‘ ١٣٤٢ ھ)


امام ابن جریر نے لکھا ہے ‘ مباہلہ کا معنی ہے فریق مخالف کےلیے ہلاکت اور لعنت کی دعا کرنا ۔ (جامع البیان ج ٣ ص ٢٠٩‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)


امام ابوالحسن علی بن احمد واحدی نیشا پوری متوفی ٤٥٨ ھ ساتھ لکھتے ہیں : لغت میں ابتہال کے دو معنی ہیں ۔ عاجزی کے ساتھ اللہ سے دعا کرنا ‘ اور لغت کرنا ‘ اور یہ دونوں قول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہیں ‘ کلبی سے روایت ہے بہت کوشش کے ساتھ دعا کرنا اور عطاء نے اس آیت کی یہ تفسیر کی ہے کہ ہم جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں ۔ (الوسیط ج ١ ص ٤٤٥‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)


مباہلہ کرنا اس شخص کےلیے جائز ہے جس کو اپنے حق پر ہونے کا یقین واثق ہو اور فریق مخالف کے کفر پر ہونے کا یقین واثق ہو اور فریق مخالف کے کفر پر ہونے کا یقین ہو کیونکہ مباہلہ میں یہ دعا کی جاتی ہے : اے اللہ ہم میں سے جو فریق جھوٹا ہو اس پر لعنت فرما ‘ اور لعنت صرف کافر پر جائز ہے ۔ اس میں بھی اختلاف ہے کہ آیا اب بھی مباہلہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ علامہ آلوسی نے لکھا ہے کہ امام عبد بن حمید نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کسی شخص سے اختلاف ہوا تو آپ نے اس کو مباہلہ کی دعوت دی اور یہ آیت پڑھی اور مسجد حرام میں حجراسود کے سامنے کھڑے ہو کر ہاتھ بلند کرکے دعا کی ‘ اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ اب بھی مباہلہ کرنا جائز ہے ۔ (تفسیر روح المعانی ج ٣ ص ‘ ١٩٠ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت)


فقیر چشتی کے استاذ غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کا ظمی قدس سرہ العزیز کا گوجرانوالہ کے مولوی عبدالعزیز سے علم غیب پر مناظرہ ہوا آپ نے مشکوۃ سے یہ حدیث پیش کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میرے دونوں شانوں کے درمیان اپنا دست قدرت رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینہ میں محسوس کی سو میں نے جان لیا جو کچھ تمام آسمانوں اور زمینوں میں ہے ‘ مولوی عبدالعزیز نے کہا مشکوۃ بےسند کتاب ہے میں اس کو نہیں مانتا حضرت نے جامع ترمذی سے یہ حدیث نکال کر دکھائی اس نے طیش میں آکر ترمذی شریف کو پھینک دیا ‘ حضرت نے فرمایا تم نے حدیث کی بے ادبی کی ہے اب میں تم سے مناظرہ نہیں کرتا مجھ سے مباہلہ کرلو ۔ پھر دونوں نے یہ الفاظ کہے کہ ہم میں سے جو فریق باطل ہو وہ دوسرے فریق کے سامنے ایک سال کے اندر خدا کے قہر و غضب میں مبتلا ہو کر مرجائے ‘ مولوی عبدالعزیز جب گوجرانوالہ پہنچے اور صبح کی نماز کے بعد قرآن مجید کا درس دینے بیٹھے اور بولنا چاہا تو الفاظ منہ سے نہ نکلے زبان باہر نکل آئی کافی دنوں تک علاج کی کوشش کی گئی لیکن ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ کوئی مرض ہو تو علاج کیا جائے یہ تو اللہ کا عذاب ہے بالآخر سال پورا ہونے سے پہلے ہی وہ عذاب میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوگیا ۔


الوہیت مسیح کے ابطال پر ایک عیسائی عالم سے امام رازی کا مناظرہ


امام فخر الدین محمد بن ضیاء الدین عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں : جن دونوں میں خوارزم میں تھا مجھے معلوم ہوا کہ ایک عیسائی بہت تحقیق اور تدقیق کا مدعی ہے ۔ ہم نے علمی گفتگو شروع کردی اس نے مجھ سے پوچھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نبوت پر کیا دلیل ہے ؟ میں نے کہا جس طرح ہم تک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کی خبر تواتر سے پہنچی ہے اسی طرح ہم تواتر سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے معجزات کی خبر پہنچی ہے ‘ سو جس طرح ہم اس خبر متواتر کی وجہ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نبی مانتے ہیں اسی طرح ہم اس خبر متواتر کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو نبی مانتے ہیں ۔ اس عیسائی عالم نے کہا لیکن میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نبی نہیں خدا مانتا ہوں میں نے کہا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق الوہیت کا دعوی متعدد وجوہ سے باطل ہے ۔ (١) خدا اس کو کہتے ہیں جو لذاتہ واجب الوجود ہو اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ نہ جسم ہو نہ کسی چیز میں ہو نہ عرض ہو ‘ اور وہ تغیر اور حدوث کی علامات سے منزہ ہو اور حضرت عیسیٰ جسم اور متحیز تھے وہ پہلے معدوم تھے پھر پیدا ہوئے ان پر بچپن ‘ جوانی اور ادھیڑ عمری کے جسمانی تغیرات آئے ‘ وہ کھاتے پیتے تھے ‘ بول وبراز کرتے تھے ‘ سوتے جاگتے تھے اور تمہارے قول کے مطابق ان کو یہودیوں نے قتل کردیا اور صلیب پر چڑھا دیا اور بداہت عقل اس پر شاہد ہے کہ جس شخص کے یہ احوال ہوں وہ خدا نہیں ہو سکتا ۔ (٢) تمہارے قول کے مطابق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یہودیوں سے چھپتے پھرے اور جب ان کو سولی پر چڑھایا گیا تو وہ بہت چیخے اور چلائے ۔ اگر وہ خدا تھے تو ان کو چھپنے کی کیا ضرورت تھی اور چیخنے چلانے کی کیا ضرورت تھی ؟ ۔ (٣) اگر حضرت عیسیٰ خدا تھے تو جب یہود نے ان کو قتل کردیا تھا تو بغیر خدا کے یہ کائنات کیسے زندہ رہی ؟ ۔ (٤) یہ تواتر سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بہت عبادت کرتے تھے جو شخص خود خدا ہو وہ عبادت کیوں کرے گا ؟ ۔ پھر میں نے اس عیسائی عالم سے پوچھا تمہارے نزدیک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خدا ہونے پر کیا دلیل ہے ؟ اس نے کہا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے بہت عجیب و غریب امور کا ظہور ہوا ۔ انہوں نے مردوں کو زندہ کیا ‘ مادر اندھوں اور برص کے مریضوں کو شفا دی ‘ میں نے اس سے کہا لاٹھی کو سانپ بنادینا عقل کے نزدیک مردہ کو زندہ کرنے سے زیادہ عجیب و غریب ہے کیونکہ مردہ آدمی کے بدن اور زندہ آدمی کے بدن میں مشاکلت ہوتی ہے جب کہ لاٹھی اور سانپ میں کوئی مشابہت نہیں ہے اور جب لاٹھی کو سانپ بنا دینے کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا خدا ہونا لازم نہیں آیا تو چار مردے زندہ کرنے سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا خدا ہونا کیسے لازم آئے گا ؟ ۔ (تفسیر کبیر جلد ٢ صفحہ ٤٦٤ ۔ ٤٦٣ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...