حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو بلا کر شہید کرنے والے کون ؟
محترم قارئینِ کرام : شیعوں کے مطابق سارا کوفہ شیعہ تھا اور شیعہ کمزور نہیں بلکہ بڑی طاقت و تعداد میں تھے ، چالیس ہزار اور ایک روایت کے مطابق ایک لاکھ کے قریب قریب شیعوں نے بیعت بھی کی ۔ ہزاروں اہل کوفہ شیعوں نے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو خطوط لکھے اور بلوایا اور حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے جوابی خطوط لکھے اور جلد کوفہ پہنچنے کا فرمایا ۔ ثبوت کتب شیعہ سے :
أن أهل الكوفة كتبوا إليه: انا معك مائة ألف، وعن داود بن أبي هند عن الشعبي قال: بايع الحسين عليه السلام أربعون ألفا من أهل الكوفة ۔
ترجمہ : بے شک کوفیوں نے امام حسین کی طرف خط لکھے بے شک ہم آپ کے ساتھ ہیں اور ہم ایک لاکھ کے قریب ہیں۔۔۔شعبی کی روایت کے مطابق چالیس ہزار کوفیوں نے امام حسین کی بیعت کی ۔ (شیعہ کتاب بحار الانوار 44/337)
ثم بايع الحسين من أهل العراق عشرون ألفا غدروا به وخرجوا عليه وبيعته في أعناقهم فقتلوه ۔
ترجمہ : پھر اہلِ عراق میں سے بیس ہزار افراد نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی بیعت کی ، انہیں لوگوں نے آپ کو دھوکہ دیا ، اور آپ کو چھوڑ کر،آپ کی بیعت کو اپنی گردنوں میں ڈالے چلے گئے اور پھر آپ کو مار ڈالا ۔ (شیعہ کتاب : اعیان الشیعة جلد ١ البحث الثالث صفحہ ٢٦ دار التعارف للمطبوعات بيروت)
وبايعه الناس حتى بايعه منهم ثمانية عشر ألفا فكتب إلى الحسين ع اما بعد فان الرائد لا يكذب أهله وان جميع أهل الكوفة معك وقد بايعني منهم ثمانية عشر ألفا فعجل الاقبال حين تقرأ كتابي هذا والسلام ۔
ترجمہ : (سیدنا مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہما کے ذریعے) اٹھارہ ہزار کوفیوں نے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور سیدنا مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہما نے امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا کے سارے کوفہ والے آپ کے ساتھ ہیں اور ان میں سے 18 ہزار نے میری بیعت کر لی ہے تو جب آپ کو یہ میرا خط ملے تو آپ جلدی تشریف لائیں وسلام ۔ (شیعہ کتاب اعیان الشیعۃ جلد 1 صفحہ 589،چشتی)
وتواترت الکتب حتی اجتمع فی نوب متفرقۃ اثنا عشر الف کتاب ۔
ترجمہ : کوفیوں کی طرف سے متواتر خطوط آئے یہاں تک کہ حضرت حسین کے پاس بارہ ہزار کے قریب خطوط جمع ہو گئے ۔ (شیعہ کتاب ناسخ التواریخ جلد 2 صفحہ 262)
شی۔عہ کی مستند کتاب میں ہے : ابن عباس نے امام حسین علیہ السلام سے کہا : اے برادرعم ! آپ ایسے لوگوں کے پاس جا رہے ہیں جنہوں نے آپ کے والد کو شہید کیا اور بھائی سے دغا بازی کی ۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ آپ کے ساتھ دغا بازی کرینگے ۔ میں آپ کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ یہاں سے نہ جائیں ۔ لیکن امام حسین علیہ السلام ان کی اس بات پر رضامند نہ ہوئے ۔ امام حسین علیہ السلام نے عبداللہ بن زبیر سے فرمایا : اہل کوفہ کے بزرگوں اور شیعوں نے مجھے خط لکھ کر وہاں آنے کی درخواست کی ہے ۔ یہ سن کر عبداللہ بن زبیر وہاں سے چلا گیا ۔ (شیعہ کتاب : مقتلِ ابی مخنف و قیام مختار صفحہ 52)
معلوم ہوا کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو خط لکھ کے کوفہ بلوانے والے اور انہیں دھوکا دینے والے اور کوئی نہیں بلکہ شیعہ ہی تھے ۔
شیعیوں نے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کو قتل کیا : ⏬
شیعہ کی مستند کتاب میں ہے : فقال : قال رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لعلي (ع) : هم شيعتك فسلم ولدك منهم أن يقتلوهم ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ : اپنے شیعوں سے اپنی اولاد کو بچانا یہ (شیعہ) تمہاری اولاد کو قتل کریں گے ۔ (روضة الکافی کتاب الروضہ جلد ٨ صفحہ ١٤٠ منشورات الفجر بیروت لبنان،چشتی)
حضرت امام علی بن حسین رضی اللہ عنہما نے جب کوفہ کے لوگوں کو ماتم و چیخ پکار کرتے دیکھا تو کہا کہ تم ہم پر ماتم و چیخ پکار کرتے ہو تو ہمیں قتل کس نے کیا ؟ ۔ (شیعہ کتاب : نفس المھموم صفحہ ٣٥٧ عباس قمی دار المحجة البيضاء دار الرسول الاكرم)
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا جواب : ⏬
من الحسين بن علي إلى الملأ من المؤمنين والمسلمين أما بعد فان هانيا وسعيدا قدما علي بكتبكم وكانا آخر من قدم علي من رسلكم وقد فهمت كل الذي اقتصصتم وذكرتم ومقالة جلكم انه ليس علينا امام فاقبل لعل الله يجمعنا بك على الحق والهدى وانا باعث إليكم أخي وابن عمي وثقتي من أهل بيتي مسلم بن عقيل فان كتب إلي انه قد اجتمع رأي ملئكم وذوي الحجى والفضل منكم على مثل ما قدمت به رسلكم وقرأت في كتبكم فاني أقدم إليكم وشيكا إن شاء الله تعالى ۔
ترجمہ : یہ خط حسین بن علی کا مومنوں ، مسلمانوں ، شیعوں کی طرف ہے امابعد ! بہت سے قاصدوں اور خطوط بیشمار آنے کے بعد جو تم نے مجھے خط ہانی وسعید کے ہاتھ بھیجا مجھے پہنچا تمہارے سب خطوط کے مضامین سے مطلع ہوا ۔ واضح ہو کہ میں بالفعل تمہارے پاس اپنے برادر و پسرعم و محل اعتماد مسلم بن عقیل کو بھیجتا ہوں ۔ اگر مسلم مجھے لکھیں کہ جو کچھ تم نے مجھے خطوط میں لکھا ہے بمشورۂ عقلا و دانایان و اشراف و بزرگان قوم لکھا ہے اس وقت میں ان شاء اللہ بہت جلد تمہارے پاس چلا آؤں گا ۔ (شیعہ کتاب اعیان الشیعۃ جلد 1 صفحہ589)
حتی بایعہ فی ذالک الیوم ثمانون الف رجل فلما رای مسلم کثرۃ من بایعہ من الناس کتب الی الحسین ان قد بایع ثمانون الف فعجل بالقدوم ۔
ترجمہ : حتی کہ اس ایک دن میں آٹھ ہزار کوفیوں نے امام مسلم کی بیعت کی جب امام مسلم بن عقیل نے دیکھا کہ لوگ کثرت سے بات کر رہے ہیں تو آپ نے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف خط لکھا کہ آٹھ نے بیعت کر لی ہے آپ جلدی تشریف لائیں ۔ (ناسخ التواریخ جلد 2 صفحہ 266،چشتی)
یزیدی پلیدوں کی دھمکیوں اور لالچوں نسلی تعصب و منافقت وغیرہ میں آ کر اہل کوفہ نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے نائب مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہما سے بے وفائی غداری کی اور امام مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہما کو شہید کرایا اور امام نے اسی بے وفائی غداری منافقت کا احوال امام حسین رضی اللہ عنہ کو بھیجنے کی وصیت کی ۔ یزید و ابن زیاد کی دھمکیوں لالچوں میں اکر کوفی شیعوں نے امام حسین کی بیعت توڑ دی : ولاینبغی علینا باغ فمن لم یفعل برئت منہ الذمۃ و ھلال لنا دمہ و مالہ…فلما سمع اہل الکوفۃ جعل ینظر بعضھم بعضا و نقضوا بیعۃ الحسین ۔
ترجمہ : ابن زیاد نے دھمکی دی کہ کہ ہم پر کوئی بغاوت نہ کریں اگر کسی نے بغاوت کی تو وہ اپنا خود ذمہ دار ہے اس کا خون ہمارے لیے حلال ہے اس کا مال ہمارے لیے حلال ہے ۔ پس جب اہل کوفہ نے یہ دھمکی سنیں تو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور انہوں نے حضرت حسین کی بیعت توڑ ڈالی ۔ (شیعہ کتاب ناسخ التواریخ جلد 2 صفحہ 273 ، 274)
شام تک صرف تیس شیعہ سیدنا مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہما کے ساتھ رہے : ⏬
فما زالوا يتفرقون ويتصدعون حتى أمسى ابن عقيل وما معه ثلاثون نفسا في المسجد حتى صليت المغرب فما صلى مع ابن عقيل الا ثلاثون نفسا ۔
ترجمہ : ابن زیاد کی دھمکی کے بعد کوفی شیعہ متفرق ہونے لگے اور بیعت توڑنے لگے یہاں تک کہ شام کے وقت حضرت مسلم بن عقیل کے ساتھ 30 تیس لوگ بچے جنہوں نے نماز مغرب پڑھی ۔ (شیعہ کتاب مقتل الحسین صفحہ 45)
شام کے بعد سیدنا مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک بھی کوفی شیعہ نہ تھا سب نے بے وفائی غداری کی اور اپنے گھر سے نکال دیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ایک انجان عورت کے گھر پناہ لی : فقام وقال : يا أمة الله ما لي في هذا المصر منزل ولا عشيرة، فهل لك في أجر ومعروف، لعلي مكافئك بعد اليوم، فقالت: يا عبد الله وما ذاك؟ قال: أنا مسلم بن عقيل كذبني هؤلاء القوم وغروني وأخرجوني ۔
ترجمہ : حضرت مسلم بن عقیل اٹھے اور ایک انجان گھر کی طرف آئے ایک عورت گھر سے نکلیں تو ان سے فرمایا میرا اس شہر انسا میں اب کوئی ٹھکانہ رہا کوئی خاندان نہ رہا تو کیا تم مجھے پناہ دے کر اجر اور نیکی کماؤں گی شاید کہ میں آج کے دن کا اچھ بدلہ تمہیں لوٹا دو ۔ عورت نے کہا کہ اللہ کے بندے آپ کون ہیں تو آپ نے فرمایا کہ میں مسلم بن عقیل ہوں ان کوفی شیعوں نے مجھے جھٹلا دیا ہے اور مجھے دھوکا دیا ہے اور مجھے در بدر کر دیا ہے ۔ (شیعہ کتاب الارشاد جلد 2 صفحہ 55،چشتی)
شہادت امام مسلم رضی اللہ عنہ اور ان کی وصیت امام حسین رضی اللہ عنہ کے لیے کہ کوفی شیعہ غدار مکار جھوٹے ہیں ان کی باتوں میں مت آئیے ، اگر کوفہ کی طرف روانہ ہیں تو واپس چلے جائیے ۔
ثم قال لمحمد بن الأشعث : يا عبد الله إني أراك ستعجز عن أماني، فهل عندك خير؟ أتستطيع أن تبعث من عندك رجلا على لساني يبلغ حسينا، فإني لأراه قد خرج إليكم اليوم مقبلا أو هو خارج غدا وأهل بيته معه، وإن ما ترى من جزعي لذلك، فيقول: إن مسلما بعثني إليك وهو في أيدي القوم أسير لا يرى أن يمسي حتى يقتل وهو يقول: إرجع بأهل بيتك ولا يغرك أهل الكوفة فإنهم أصحاب أبيك الذي كان يتمنى فراقهم بالموت أو القتل، إن أهل الكوفة قد كذبوك وكذبوني، وليس لمكذوب رأي، فقال محمد: والله لأفعلن ۔
ترجمہ : حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہما نے محمد بن اشعث سے کہا کہا کہ کیا آپ کسی قاصد یا خط کے ذریعے میرا پیغام امام حسین کی طرف پہنچائیں گےآپ نے فرمایا جی بالکل ۔ حضرت مسلم بن عقیل نے پیغام یہ دیا کہ امام حسین کی طرف پیغام بھیجو کہ بے شک خوفیہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے متعلق آپ کے والد صاحب نے کہا تھا کہ کہ میں مر جاؤں لیکن ان کا ساتھ نہ رہو بے شک یہ لفا انہوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے اور مجھے بھی جھٹلا دیا ہے تو آپ اہل کوفہ کے دھوکے میں مت آئیے واپس لوٹ جائے ۔ (شیعہ کتاب : ناسخ التواریخ ، ابصار العین صفحہ 83)
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو کوفیوں کی بے وفائی غداری منافقت کی خبر پہنچی تو کوفی شیعوں کی مذمت کی انہیں غدار بے وفا اپنا قاتل قرار دیا اور کوفی شیعہ لشکر یزیدی لشکر کے ساتھ مل کر امام حسین کے قاتل بنے بلکہ شیعہ کتب کے مطابق تو یزیدی فوج دور ٹہری رہی اور امام حسین کے مدمقابل وہی 80ہزار کوفی شیعہ تھے جنہوں نے عہد و وفا کے وعدے کرکے بلوانے کے بعد آپ سے غداری منافقت کرتے ہوئی اپ کے قتل کے لیے اپ کے سامنے تھے : ⬇
جب کوفیوں نےبےوفائی ، غداری کی ۔ مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہما کو شہید کیا ، جس کی خبر امام حسین رضی اللہ عنہ کو یہ خبر کربلا کے قریب ملی تو آپ نےفرمایا : قد خذلتنا شيعتنا ۔ ہمارے کہلانے والے شیعوں نے ہمیں رسوا کیا ، دھوکہ دیا ، بے وفائی کی ۔ (شیعہ کتاب : موسوعہ کلمات الامام الحسین صفحہ 422)
أني أقدم على قوم بايعوني بألسنتهم وقلوبهم، وقد انعكس الأمر لأنهم استحوذ عليهم الشيطان فأنسيهم ذكر الله، والآن ليس لهم مقصد إلا قتلي وقتل من يجاهد بين يدی ۔
ترجمہ : میں (امام حسین رضی اللہ عنہ) تو یہ سمجھ کر کوفیوں کے پاس جا رہا تھا کہ انہوں نے زبان اور دلوں سے میری بیعت کی ہے لیکن معاملہ اس کےالٹ نکلا ۔ ان کوفیوں پر شیطان نے غلبہ حاصل کر لیا ہے اور اللہ کی یاد سے بھلا دیا ہے اب ان کوفی شیعوں کا مقصد مجھے اور میرے ساتھیوں اہل بیت کو قتل کرنا ہی ہے ۔ (شیعہ کتاب : موسوعہ کلمات الامام الحسین صفحہ 483،چشتی)
ثابت ہوا کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے بھی انہی کوفی شیعوں کو اپنا قاتل کہا جنوں نے خطوط لکھے تھے ۔
شیعہ کتاب ناسخ التواریخ میں لکھا ہے کہ ابن زیاد سپہ سالار لشکرِ یزید جس نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا 80 ہزار کوفی شیعوں پر مشتمل تھا ملاحظہ ہو : ⬇
وابی مخنف لشکر ابن زیاد را ہشتاد ہزار سوار نگاشتہ و گوید ہمگاں کُوفی بودند و حجازی و شامی با ایشاں نہ بود ۔
ترجمہ : یعنی ابو مخنف نے ابن زیاد کا لشکر (جو امام حسین رضی اللہ عنہ سے لڑنے کے لیے سب سے آگے تھا) اسّی ہزار بتایا ہے اور کہا ہے کہ وہ سب کے سب کوفی شیعہ تھے ۔ ان میں نہ کوئی حجازی تھا اور نہ شامی ۔ (شیعہ کتاب ناسخ التواریخ فارسی جلد 2 صفحہ 183)
حتیٰ کہ قاتل غدار شمر بھی غدار کوفی شیعہ تھا شمر بھی پکا کوفی شیعہ تھا مگر اہل کوفہ کی طرح یہ بھی منافق غدار بے وفا ہو گیا اور شیعہ کے مطابق قاتلانِ حسین میں شمار کیا جاتا ہے : ⬇
شهد صفين معه شبث بن ربعي وشمر بن ذي الجوشن الضبابي ثم حاربوا الحسين ع يوم كربلاء ۔
ترجمہ : شبث بن ربعي اور شمر بن ذي الجوشن شیعان علی میں سے تھے حضرت علی کے ساتھ جنگ صفین لڑی لیکن پھر یہ غدار ہوگئے اور امام حسین سے جنگ لڑی کربلا کے دن ۔ (شیعہ کتاب اعیان الشیعۃ1/326)
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی شہادت سے پہلے سختی سے حکم دیا تھا کہ : لا تشقي علي جيبا، ولا تخمشي علي وجها، ولا تدعي علي بالويل والثبور ۔
ترجمہ : جب میں شہید ہوجاؤں تو اپنے کپڑے مت پھاڑنا ، اپنا چہرہ (سینہ، پیٹھ) زخمی مت کرنا (ماتم مت کرنا) اور یہ مت پکارنا کہ ہائے مصیبت ، ہائے ہم ہلاک ہوگئے (مطلب نوحے ماتم چیخ و پکار مت کرنا) ۔ (شیعہ کتاب بحار الانواز45/3،چشتی)
حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا و دیگر اہل بیت امام رضی اللہ عنہم کی تقریریں جس مین کوفی شیعون کو مکار منافق غدار اور قاتلانِ حسین کہا گیا ملاحظہ کیجیے : ⬇
حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی تقریر : اما بعد ، اے اہل کوفہ ! اے غدارو ، اے مکارو ، ابےحیلہ بازو تم ہم پر گریہ کرتے ہو اور خود تم نے ہم کو قتل کیا ہے ۔ ابھی تمہارے ظلم سے ہمارا رونا موقوف نہیں ہوا اور تمہارے ستم سے ہمارا فریاد و نالہ ساکن نہیں ہوا اور تمہاری مثال اس عورت کی ہے جواپنے رسّہ کو مضبوط بٹتی اور پھر کھول ڈالتی ہے ۔ تم ہم پر گریہ و نالہ کرتے ہو حالانکہ خود تم ہی نے ہم کو قتل کیا ہے ۔ سچ ہے وﷲ ! لازم ہے کہ تم بہت گریہ کرو اور کم خندہ ہو ۔ تم نے عیب و عارِ ابدی خود خرید کیا ۔اس عار کا دھبّہ کسی پانی سے تمہارے جامے سے زائل نہ ہوگا۔جگر گوشہ خاتم پیغمبران و سید جوانانِ بہشت کے قتل کرنے کا کس چیز سے تدارک کر سکتے ہو! ۔ اے اہل کوفہ! تم پر وائے ہو!! تم نے کن جگر گوشہ ہائے رسولؐ کو قتل کیا اور کن باپردے گان اہل بیت رسول کو بے پردہ کیا ؟ کس قدر فرزندانِ رسول کی تم نے خونریزی کی ، ان کی حرمت کو ضائع کیا ۔تم نے ایسے بُرے کام کیے جن کی تاریکیوں سے زمین و آسمان گھر گیا ۔ (شیعہ کتب ۔ جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل ۱۵صفحہ ۵۰۴-۵۰۳،چشتی)(ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحہ۲۴۳مطبوعہ لندن)
بعد ازاں حضرت سیدہ فاطمہ بنت امام حسین رضی اللہ عنہما نے بھی اہل کوفہ کو لعن طعن کی ہے لکھا ہے : ⬇
درودیوار سے صدا ئے نوحہ بلند ہوئی اور کہا اے دختر پاکان و معصومان ۔ خاموش رہو کہ ہمارے دلوں کو تم نے جلا دیا اور ہمارے سینہ میں آتش حسرت روشن کردی اور ہمارے دلوں کو کباب کیا ۔ (جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل ۱۵صفحہ۵۰۵)
اس کے بعد حضرت سیدہ ام کلثوم خواہر امام حسین رضی اللہ عنہما نے ہودج میں سے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی : ⬇
اے اہل کوفہ ! تمہارا حال اور مآل برا ہو اور تمہارے منہ سیاہ ہوں ! تم نے کس سبب سے میرے بھائی حسین رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کی مدد نہ کی اور انہیں قتل کرکے مال و اسباب ان کا لوٹ لیا؟اور ان کی پردیگان عصمت و طہارت کو اسیر کیا؟وائے ہو تم پر اور ۔ ہو تم پر ، کیا تم نہیں جانتے کہ تم نے کیا ظلم و ستم کیا ہے اور کن گناہوں کا اپنی پشت پر انبار لگایا اور کیسے خون ہائے محترم کو بہایا دخترانِ رسولِ مکرم کو نالاں کیا ؟ …… بعد اس کے مرثیہ سید الشہداء میں چند شعر انشاء فرمائے جس کے سننے سے اہل کوفہ نے خروش واویلا واحسرتا بلند کیا۔ ان کی عورتوں نے بال اپنے کھول دیے ۔ خاک حسرت اپنے سر پر ڈال کے اپنے منہ پر طمانچے مارتی تھیں اور واویلا وا ثبورا کہتی تھیں اور ایسا ماتم برپا تھا کہ دیدۂ روزگار نے کبھی نہ دیکھا تھا ۔ (شیعہ کتب : جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل ۱۵صفحہ ۵۰۵،۵۰۶،چشتی)(ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب نمبر۲ صفحہ ۲۴۶)
امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی تقریر : ⬇
حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ سے خطاب کیا اور فرمایا : میں تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں !تم جانتے ہو کہ میرے پِدر کو خطوط لکھے اور ان کو فریب دیا اور ان سے عہد و پیمان کیا اور ان سے بیعت کی۔آخر کار ان سے جنگ کی اور دشمن کو ان پر مسلط کیا۔پس ** ہو تم پر! تم نے اپنے پاؤں سے جہنم کی راہ اختیار کی اور بری راہ اپنے واسطے پسند کی۔ تم لوگ کن آنکھوں سے حضرت رسول کریم صلی الل علیہ و آلہ وسلّم کی طرف دیکھو گے جس روز وہ تم سے فرمائیں گے۔ تم نے میری عزت کو قتل کیا اور میری ہتک حرمت کی۔ کیا تم میری امت سے نہ تھے۔‘‘ یہ سن کر پھر صدائے گریہ ہر طرف سے بلند ہوئی۔آپس میں ایک دوسرے سے کہتا تھا ہم لوگ ہلاک ہوئے۔جب صدائے فغاں کم ہوئی ،حضرت نے فرمایا۔خدا اس پر رحمت کرے جو میری نصیحت قبول کرے سب نے فریاد کی کہ یا بن رسول ﷲ!ہم نے آپ کا کلام سنا۔ ہم آپ کی اطاعت کریں گے …… جو آپ سے جنگ کرے اس سے ہم جنگ کریں اور جو آپ سے صلح کرے اس سے ہم صلح کریں۔ اگر آپ کہیئیآپ کے ستمگاروں سے آپ کا طلبِ خون کریں۔حضرت نے فرمایا۔ہیہات ہیہات !! اے غدّارو!اے مکّارو!!اب پھر دوبارہ میں تمہارے فریب میں نہ آؤں گا اور تمہارے جھوٹ کو یقین نہ جانوں گا۔ تم چاہتے ہو مجھ سے بھی وہ سلوک کرو جو میرے بزرگوں سے کیا۔بحق خداوند آسمانہائے دوّار!میں تمہارے قول و قرار پر اعتماد نہیں کرتا اور کیونکر تمہارے دروغ بے فروغ کو یقین کروں،حالانکہ ہمارے زخم ہائے دل ہنوز تازہ ہیں،میرے پدر اور ان کے اہل بیت کل کے روز تمہارے مکر سے قتل ہوئے اور ہنوز مصیبت حضرت رسول و پدر و برادر و عزیزو اقرباء میں نہیں بھولا اور اب تک ان مصیبتوں کی تلخی میری زبان پر ہے اور میرے سینے میں ان محبتوں کی آگ بھڑک رہی ہے ۔ (شیعہ کتاب : جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل ۱۵صفحہ۵۰۶،۵۰۷،چشتی)
ایک دوسری روایت میں ہے : فَقَالَ عَلِیُّ ابْنُ حُسَیْنِ بِصَوْتٍ ضَعِیْفٍءَ تَنُوْحُوْنَ وَ تَبْکُوْنَ لِاَجْلِنَا فَمَنْ قَتَلَنَا ۔ سیّد سجاد بآواز ضعیف فرمود ، ہاں اے مردم بر ما گریند و برما نوحہ مے کنند۔پس کشندۂ ما کیست؟ مارا کہ کشت و کہ اسیر کرد ۔ (شیعہ کتاب ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحہ ۲۴۳) ۔ کہ امام زین العابدین نے کمزور آواز سے کہا تم ہم پر نوحہ و ماتم کرتے اور روتے ہو ۔تو پھر ہم کو قتل کس نے کیا ہے تمہی نے تو کیا ہے ۔
حضرت سیدہ اُم کلثوم رضی اللہ عنہا نے اہل کوفہ کی عورتوں کے رونے پر محمل پر سے کہا۔’’اے زنانِ کوفہ! تمہارے مردوں نے ہمارے مردوں کو قتل کیا ہم اہلِ بیت کو اسیر کیا ہے پھر تم کیوں روتی ہو؟ خداوند عالم بروز قیامت ہمارا تمہارا حاکم ہے۔‘‘(شیعہ کتب جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل ۱۵ صفحہ ۵۰۷)(ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحہ۲۴۸)
ان سب تقاریر سے دو باتیں ثابت ہیں : ⬇
(1) قاتلینِ امام حسین رضی اللہ عنہ کوفی شیعہ تھے اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مبایعین تھے ۔
(2) سب سے پہلے عالمگیر ماتم کرنے والے (یزید کے بعد) خود اہل کوفہ شیعہ قاتلینِ امام حسین رضی اللہ عنہ ہی تھے مگر اہل بیت رضی اللہ عنہم نے ماتم و چیخ و پکار کو ناپسند کیا ۔ ان سے ملتا جلتا عربی مواد ناسخ التواریخ جلد تین صفحہ 32 و مابعدہ میں موجود ہے ۔
لاکھوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اگر کچھ کی اولادیں نافرمان نکلیں تو اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر کوئی حرف نہیں آتا حتیٰ کہ حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا بھی اپنے والد کا نافرمان نکلا تھا اس سے حضرت نوح پر کوئی اعتراض و حرف نہیں آتا بلکہ جب مدینہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پتہ چلا کہ بے وفا غدار کوفی شیعوں نے یزیدی فوج کے ساتھ مل کر لختِ جگر امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا ہے تو اس پر اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت توڑ دی اور شدید مخالف ہو گئے اور امام حسین رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے لے لیے تیار ہونے لگے ۔ جب یزید کو پتہ چلا تو اس نے بہت ہی بڑا لشکر مدینہ بھیجا اور بے دردی سے کئ صحابہ کرام اور ان کی اولاد و خاندان رضی اللہ عنہم کو شہید کیا ۔ اس طرح صحابہ کرام اور ان کی اولادوں نے امام حسین رضی اللہ عنہم کی خاطر اور اسلام و حق کی خاطر شہادت تو قبول کی مگر کوفی شیعوں کی طرح بے وفائی غداری منافقت نہیں کی : ⬇
واقعہ کربلا کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مدینہ منورہ میں یزید کے خلاف آواز اٹھائی اور مقابلے کے تیار ہوگئے ، یزید نے ایک بڑا لشکر اہل مدینہ کی طرف بھیجا اور قتل عام کا حکم دیا..جس میں کئی صحابہ انصار و مہاجرین اور ان کی اولادین رضی اللہ عنہم شہید کی گئیں اس واقعہ کو واقعہ حرہ کہا جاتا ہے : ⬇
کل المورخین و اجمعوا علی ان اہل الشام قتلوا فی ھذہ الواقعۃ جمعا کبیرا من الصحابۃ و من ابناء المھاجرین و الانصار ۔
ترجمہ : یعنی تمام مورخین کا اجماع ہے کہ واقعہ حرہ میں صحابہ اور انصار و مہاجرین رضی اللہ عنہم کی اولاد کی ایک بری تعداد قتل کی گئی ۔(شیعہ کتاب : مقتل الحسین جلد 1 صفحہ 81)
فبلغ عدۃ قتلی الحرۃ یومئذ من قریش و الانصار و المھاجرین و وجوہ الناس الفا و سبع مائۃ ۔
ترجہ : یعنی واقعہ حرہ میں اس دن قریش مین سے اور انصار و مہاجرین صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے اور بڑے ذی شرف لوگوں مین سے ایک ہزار سات سو قتل ہوئے ۔ (شیعہ کتاب : بھج الصباغۃ شرح نھج البلاغۃ صفحہ 20)
ایک جاہلانہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ صحابہ کرام اور ان کی اولادیں رضی اللہ عنہم کربلا کے بعد تو یزید کے خلاف نکلے مگر کربلا سے پہلے امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیوں نا نکلے ؟
جواب : واضح رہے کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ جنگ کے لیے نہیں نکلے تھے کہ صحابہ کرام ان کی اولادیں اہل مکہ اہل مدینہ رضی اللہ عنہ بھی ساتھ جاتے ۔ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ تو جنگ کے لیے نہیں بلکہ بیعت کے لیے کوفہ جا رہے تھے کوفیوں کے بلانے پر ۔ شاید حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کوفی شیعوں کے کثیر تعداد میں خطوط لکھ کر بلانے پر کوفہ کو اپنا مرکز بنانا چاہتے تھے ۔ اسی لیے اپنے اہل و عیال رضی اللہ عنہم سمیت ہجرت کر کے کوفہ روانہ ہوئے ۔
حضرت امام علی بن حسین رضی اللہ عنہما نے جب کوفہ کے لوگوں کو ماتم و چیخ پکار کرتے دیکھا تو کہا کہ تم ہم پر ماتم و چیخ پکار کرتے ہو تو ہمیں قتل کس نے کیا ؟ ۔ (شیعہ کتاب : نفس المھموم صفحہ ٣٥٧ عباس قمی دار المحجة البيضاء دار الرسول الاكرم)
ثم بايع الحسين من أهل العراق عشرون ألفا غدروا به وخرجوا عليه وبيعته في أعناقهم فقتلوه ۔
ترجمہ : پھر اہلِ عراق میں سے بیس ہزار افراد نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی بیعت کی ، انہیں لوگوں نے آپ کو دھوکہ دیا ، اور آپ کو چھوڑ کر،آپ کی بیعت کو اپنی گردنوں میں ڈالے چلے گئے اور پھر آپ کو مار ڈالا ۔ (شیعہ کتاب : اعیان الشیعة جلد ١ البحث الثالث صفحہ ٢٦ دار التعارف للمطبوعات بيروت،چشتی)
وبا لجملہ اہل تشیع اہل کوفہ حاجت باقامت دلیل ندارد ۔ وسُنّی بودن کوفی الاصل خلافِ اصل محتاج بدلیل است ۔
ترجمہ : اہل کوفہ کا شیعہ ہونا محتاج دلیل نہیں بلکہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے ۔ ہاں کسی کوفی الاصل کو سُنی قرار دینے کےلیے دلیل کی ضرورت ہے ۔ (شیعہ کتاب : مجالس المومنین مجلس اوّل صفحہ ۳۵ مطبوعہ ایران)
.
مجالس المومنین میں حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : اَلَا اِنَّ لِلّٰہِ حَرَمًا وَھُوَ مَکَّۃُ وَاَلَااِنَّ لِرَسُولِ اللّہِ حَرَماً وَھُوَ الْمَدِیْنَۃُ واَلَااِنَّ لِاَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَمًا وَھُوَ الْکُوْفَۃُ ۔ (شیعہ کتاب : مجالس المومنین مجلس اول صفحہ۳۶)
کوفہ وہ زمین ہے جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت ابتدائے آفرینش سے قبول کی تھی ۔ (شیعہ کتاب : جلاء العیون ترجمہ اردو جلد ۱ باب۳ فصل ۲ بیان اخبار شہادت حیدر کرار صفحہ ۲۲۷)
اہل کوفہ سلیمان بن خرد خزاعی کے گھر جمع ہوئے تو ان کو مخاطب کرکے سلیمان بن خرد نے کہا ’’اَنْتُمْ شِیْعَتُہٗ وَشِیْعَۃُ اَبِیْہِ ۔ (شیعہ کتاب : ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب نمبر ۲ صفحہ ۱۳۰) ، کہ اے اہل کوفہ تم امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے باپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شیعہ ہو ۔
امام مسلم رضی اللہ عنہ کی اہل کوفہ میں سے ۸۰ ہزارآدمیوں نے بیعت کی ۔
(بر وایت ابو مخنف دیکھو ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲صفحہ۱۳۳)
کوفی شیعوں کا خط حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے نام : ⏬
جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا تو پہلے مکہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا۔(جلاء العیون مترجم اُردو مطبوعہ لکھنؤ جلد ۲باب ۵ فصل نمبر ۱۲ صفحہ ۴۲۶)
مگر شیعانِ کوفہ کی طرف سے مندرجہ ذیل عریضہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو پہنچا:بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔یہ عریضہ شیعوں اور فدایوں اور مخلصوں کی طرف سے بخدمت امام حسین بن علیؓ بن ابی طالب ہے ۔ اما بعد،بہت جلد آپ اپنے دوستوں، ہوا خواہوں کے پاس تشریف لائیے کہ جمیع مرد مانِ ولایت منتظر قدوم میمنت لزو م ہیں اور بغیر آپ کے دوسرے شخص کی طرف لوگوں کو رغبت نہیں ہے البتہ بہ تعجیل تمام ہم مشتاقوں پاس تشریف لائیے ۔ (شیعہ کتاب : جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل نمبر ۱۳ مترجم اُردوصفحہ۴۳۱)
اہل کوفہ کی طرف سے دعوت کے ۱۲ہزار خطوط حضرت امام حسین ؓ کو ملے تھے ۔ (شیعہ کتاب : ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲صفحہ ۱۳۱)
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا جواب : ⏬
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ : یہ خط حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا مومنوں ، مسلمانوں ، شیعوں کی طرف ہے امابعد ! بہت سے قاصدوں اور خطوط بیشمار آنے کے بعد جو تم نے مجھے خط ہانی وسعید کے ہاتھ بھیجا مجھے پہنچا تمہارے سب خطوط کے مضامین سے مطلع ہوا ۔۔۔ واضح ہو کہ میں بالفعل تمہارے پاس اپنے برادر و پسرعم و محل اعتماد مسلم بن عقیل کو بھیجتا ہوں۔اگر مسلم مجھے لکھیں کہ جو کچھ تم نے مجھے خطوط میں لکھا ہے بمشورۂ عقلا و دانایان و اشراف و بزرگان قوم لکھا ہے اس وقت میں ان شاء اللہ بہت جلد تمہارے پاس چلا آؤں گا ۔ (شیعہ کتب : جلاء العیون ترجمہ اردو صفحہ۴۳۱جلد ۲باب ۵ فصل نمبر۱۳)(ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب دوم صفحہ ۱۳۱)
امام مسلم بن عقیل اور عبداللہ بن یقطر رضی اللہ عنہما کی شہادت کی اطلاع ملنے سے قبل حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے مندرجہ ذیل خط اہل کوفہ کو لکھا : بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ یہ خط حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی طرف سے برادران مومن مسلم کو ہے ۔ تم پر سلام الہٰی ہو ۔ امابعد بدر ستیکہ خط مسلم بن عقیل کا میرے پاس پہنچا ۔ اس خط میں لکھا تھا کہ تم لوگوں نے میری نصرت اور دشمنوں سے میرا حق طلب کرنے پر اتفاق کیا ہے ۔ میں خدا سے سوال کرتا ہوں کہ اپنا احسان مجھ پر تمام کرے اور تم کو تمہارے حُسنِ نیت وکردار پر بہترین جزائے ابرار عطا فرمائے ۔ بدرستیکہ میں آٹھویں ماہ ذی الحجہ روز سہ شنبہ کو مکہ سے باہر آیا اور تمہاری جانب آتا ہوں ۔ جب میرا قاصد تم تک پہنچے لازم ہے کہ کمر متابعت مضبوط باندھو اور اسباب کا رزار آمادہ رکھو اور میری نصرت کے مہیا رہو کہ مَیں اب بہت جلد تم تک پہنچتا ہوں ۔ والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ (شیعہ کتاب : جلاء العیون مترجم جلد۲ باب۵ فصل نمبر۱۴ صفحہ ۴۴۹)
یزیدیوں کی دھمکیوں اور لالچوں نسلی تعصب و منافقت وغیرہ میں آ کر اہل کوفہ نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے نائب مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ سے بے وفائی غداری کی اور امام مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو شہید کرایا اور امام نے اسی بے وفائی غداری منافقت کا احوال امام حسین رضی اللہ عنہ کو بھیجنے کی وصیت کی : ⏬
امام حسین رضی اللہ عنہ کو خط لکھنے والے مرکزی شیعہ ہانی بن ہانی تھے مسلم بن عقیل ان ہی کے گھر ٹھرے اور کئی ہزار شیعوں سے بیعت کی مگر جب ابن زیاد کو اس کی خبر ہوئی اور ہانی کو طلب کیا تو اس نے صاف کہہ دیا کہ اگر حکم ہو تو مسلم بن عقیل کو ابھی گھر سے نکال دوں یہ بھی یاد رہے کہ اسی ہانی کی مکاری کی وجہ سے ابن زیاد مسلم بن عقیل کے ہاتھوں ان کے گھر میں قتل نہ ہو سکا ۔ (شیعہ کتاب : جلا ءالعیون صفحہ 196،198)
ابن زیاد ملعون نے اہل کوفہ کو ڈرایا دھمکایا تو اس کے بعد کی کیفیت کو شیعہ ملا باقر مجلسی نے ”اہل کوفہ“ کی بے وفائی کا عنوان دے کر بیان کیا اور لکھا کہ شام تک مسلم بن عقیل (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ صرف تیس شیعہ رہ گئے اور مسجد کے دروازے پر آنے تک ایک بھی کوفی شیعی آپ کے ہمراہ نہ رہا ۔ (شیعہ کتاب : جلاءالعیون صفحہ 200)
کوفی شیعوں کی اس بے وفائی کو دیکھ کر مسلم بن عقیل نے کہا : اہل کوفہ نے مجھے فریب دے کر آوارہ وطن کیا عزیز و اقارب سے چھوڑایا اور میری نصرت نہ کی بلکہ تنہا چھوڑ دیا ۔ (شیعہ کتاب : جلاءالعیون صفحہ 201)
امام مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ نے بوقت شہادت عمر بن سعد کو مخاطب کر کے مندرجہ ذیل وصیت کی : ⏬
تیسری وصیّت یہ ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کو اس مضمون کا خط لکھ کر کہ کوفیوں نے مجھ سے بے وفائی کی اور آپ کے پسر عم کی نصرت و یاوری نہ کی ۔ ان کے وعدوں پر اعتماد نہیں ہے آپ اس طرف نہ آئیں ۔ ( شیعہ کتاب : جلاءالعیون جلد ۲ باب ۵ فصل نمبر ۱۳ صفحہ ۴۴۲ ، ۴۴۳مترجم اردو)
شیعہ کتاب : ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲صفحہ۱۴۲میں ہے : وَالثَّالِثَۃُ اَنْ تَکْتُبُوْا اِلٰی سَیِّدِ الْحُسَیْنِ اَنْ یَرْجِعَ عَنْکُمْ فَقَدْ بَلَغَنِیْ اِنَّہُ خَرَجَ بِنِسَاءِ ہٖ وَ اَوْلَادِہٖ فَیُصِیْبُہُ مَا اَصَابَنِیْ ثُمَّ یَقُوْلُ اِرْجِعْ فِدَاکَ اَبِیْ وَ اُمِّیْ بِاَھْلِ بَیْتِکَ فَلَا یَغْرُرْکَ اَھْلُ الْکُوْفَۃِفَاِنَّھُمْ اَصْحَابُ اَبِیْکَ الَّذِیْ تَمَنّٰی فِرَاقُھُمْ بِالْمَوْتِ ۔
ترجمہ : میری تیسری وصیّت یہ ہے کہ تم میرے آقا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو لکھنا کہ وہ تمہارے پاس نہ آئیں کیونکہ میں نے سنا ہے کہ وہ مع عورتوں اور بچّوں کے تشریف لا رہے ہیں ۔ ایسا نہ ہو کہ ان کو بھی وہی مصیبت پہنچے جو مجھے پہنچی ہے ۔ پھر انہیں لکھنا کہ مسلم کہتا ہے کہ اے امام حسین رضی اللہ عنہ ! (میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں) اپنے اہل بیت سمیت واپس لوٹ جائیے اور اہل کوفہ کے وعدے آپ کو دھوکے میں نہ ڈالیں‘کیونکہ وہ آپ کے والد (حضرت علی رضی اللہ عنہ) کے وہی اصحاب ہیں جن سے جُدائی کےلیے آپ کے باپ نے موت کی خواہش کی تھی ۔
حضرت امام مسلم بن عقیل نے وصیت کی : امام حسین رضی اللہ عنہم کو اس مضمون کا خط لکھ کر کوفیوں نے مجھ سے بے وفائی کی اور آپ کے پسر عم کی نصرت و یاری نہ کی ان کے وعدوں پر اعتماد نہیں ہے آپ اس طرف نہ آئیں ۔ (شیعہ کتاب : جلاءالعیون صفحہ 204)
محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ خدمت حضرت میں حاضر ہوئے اور کہا اے برادر جو کچھ اہل کوفہ نے مکر و غدر آپ کے پدر و برادر کے ساتھ کیا آپ جانتے ہیں میں ڈرتا ہوں کہ کہیں آپ سے بھی ویسا ہی سلوک نہ کریں ۔(شیعہ کتاب : جلاء العیون صفحہ 207)
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو کوفیوں کی بے وفائی غداری منافقت کی خبر پہنچی تو کوفی شیعوں کی مذمت کی انہیں غدار بے وفا اپنا قاتل قرار دیا اور کوفی شیعہ لشکر یزیدی لشکر کے ساتھ مل کر امام حسین کے قاتل بنے بلکہ شیعہ کتب کے مطابق تو یزیدی فوج دور ٹہری رہی اور امام حسین کے مدمقابل وہی 80 ہزار کوفی شیعہ تھے جنہوں نے عہد و وفا کے وعدے کرکے بلوانے کے بعد آپ سے غداری منافقت کرتے ہوئی اپ کے قتل کےلیے اپ کے سامنے تھے : ⏬
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کوفہ کی طرف بڑھتے چلے آرہے تھے ۔ ان کو امام مسلم رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر مقام ثعلبیہ پر پہنچی ۔منزل زبالہ پر اپنے قاصد عبداللہ بن یقطر کی شہادت کی خبر بھی آپ کو ملی ۔ اس پر آپ نے اپنے تمام اصحاب کو جمع کر کے فرمایا : خبر پہنچی ہے کہ مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن یقطر کو شہید کیا ہے اور ہمارے شیعوں نے ہماری نصرت سے ہاتھ اُٹھا لیا ہے ۔ (شیعہ کتاب : جلاء العیون مترجم اردو جلد ۲ باب ۵ فصل نمبر ۱۴صفحہ ۴۵۲)
شیعہ کتاب : خلاصۃ المصائب میں ہے : بَلَغَنِیْ خَبَرُ قََتْلِ مُسْلِمَ وَ عَبْدَ اللّٰہِ ابْنِ یَقْطُرَ وَقَدْ َخذَ لَنَا شِیْعَتُنَا۔ (خلاصۃ المصائب مطبوعہ نو لکشور روایت ہفتم صفحہ ۵۶) ، کہ مجھے مسلم اور عبد اللہ بن یقطر کی شہادت کی خبر پہنچی ہے اور ہم کو ہمارے شیعوں نے ہی ذلیل و بیکس کیا ہے ۔
مذکورہ عبارت میں قَدْ خَذَ لَنَا شِیْعَتُنَا کے الفاظ خاص طور پر یاد رکھنے کے قابل ہیں کیونکہ حضرت امام حسین ؓ نے اپنی زبان سے فرما دیا ہے کہ ہماری ان تمام مصیبتوں اور قتل کا موجب ہمارے شیعوں کے سوا اور کوئی نہیں ۔
شیعہ کتاب : ناسخ التواریخ میں لکھا ہے کہ : ابن زیاد سپہ سالار لشکر یزید جس نے امام حسینؓ کو شہید کیا ۸۰ ہزار کوفی شیعوں پر مشتمل تھا : وابی مخنف لشکر ابن زیاد را ہشتاد ہزار سوار نگاشتہ و گوید ہمگاں کُوفی بودند و حجازی و شامی با ایشاں نہ بود ۔ (ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب نمبر۲ صفحہ ۱۷۴) ، یعنی ابو مخنف نے ابن زیاد کا لشکر اسّی ہزار بتایا ہے اور کہا ہے کہ وہ سب کے سب کوفی (شیعہ) تھے ۔ ان میں نہ کوئی حجازی تھا اور نہ شامی ۔
فَتَکَمَّلَ الْعَسْکَرُ ثَمَانُوْنَ اَلْفاً فَارِسَ مِنْ اَھْلِ الْکُوْفَۃِ لَیْسَ شَامِیٌ وَلَا حِجَازِیٌ ۔ (شیعہ کتاب : مرقع کربلا مطبوعہ ریاضی پریس امرویہ صفحہ ۲۰) ، کہ ابن زیاد کا لشکر سب کا سب ۸۰ ہزار کوفی سواروں پر مشتمل تھا۔ان میں نہ کوئی شامی تھا نہ حجازی ۔
علامہ مجلسی شیعہ لکھتا ہے کہ : کربلا میں جب وقتِ ظہر ہواتو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے خیمہ سے باہر تشریف لائے اور ابن زیاد کے لشکر کے درمیان کھڑے ہو کر ابن زیاد کے لشکر کو مخاطب کر کے فرمایا : اَیُّھَا النَّاسُ ! میں تمہاری طرف نہیں آیا مگر جب کہ تمہارے خطوط متواتر اور تمہارے قاصد پیاپے میرے پاس پہنچے ۔ تم نے لکھا کہ آپ ہمارے پاس تشریف لائیے کہ ہمارا امام و پیشوا کوئی نہیں ہے شاید خدا ہم کو اور آپ کو حق و ہدایت پر متفق کرے ،اگر تم اپنے عہد و گفتار پر برقرار ہو تو مجھ سے پیمان تازہ کرکے دل میرا مطمئن کرواور اگر اپنے گفتار سے پھر گئے ہو اور عہد و پیمان کو شکستہ کر دیا ہے اور میرے آنے سے بیزار ہو میں اپنے وطن واپس جاتا ہوں ۔ (شیعہ کتاب : جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل نمبر ۱۴صفحہ۴۵۳)
مذکورہ روایت سے ظاہر ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے نزدیک بھی آپ کے قاتلین بھی وہی تھے جنہوں نے کوفہ سے بیشمار خطوط بھیج کر اور بیعت مسلم رضی اللہ عنہ کر کے بلایا تھا ۔
شیعہ کتاب : ناسخ التواریخ میں ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے لشکر یزید کے قاصد قرہ بن قیس کو مخاطب کر کے فرمایا : تمہارے شہر کے لوگوں نے نامہ ہائے بیشمار مجھے لکھے ،بہت مبالغہ اور اصرار کر کے مجھے بلایا ۔ اگر میرا آنا اب منظور نہیں ہے تو مجھے واپس جانے دو ۔ (ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحہ ۱۷۵)
جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ دشت کربلا میں خیمہ زن تھے ، ایک عراقی مکّہ کو جارہا تھا ۔ دیکھا کہ خیمہ کے باہر کرسی پر بیٹھ کر خطوط کا مطالعہ فرما رہے تھے ۔ جب اس نے و جہ بے کسی و بے وطنی کی دریافت کی تو امام نے فرمایا : بنو امیہ مرابیم قتل دادند و مردم کوفہ مرا دعوت کردند ، اینک مکاتیبِ ایشاں است ، حالانکہ کشندۂ من ایشانند ۔ (شیعہ کتاب : ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحہ۱۵۹)
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا بنو امیہ نے مجھے قتل کی دھمکی دی اور کوفہ والوں نے مجھے بلایا ، یہ سب خطوط انہی کے ہیں اور ، حالانکہ میرے قاتل یہی (کوفی شیعہ) لوگ ہیں ۔
مذکورہ روایت میں تو خود حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے قتل اور واقعات کربلا کی تمام ذمہ داری اہل کوفہ پر رکھی ہے ۔
جب دوسرا دن ہوا عمر بن سعد مع چار ہزار منافقین داخل کربلا ہوا اور مقابل لشکر امام حسین رضی اللہ عنہ اترا ۔۔۔ ان میں سے اکثر وہی لوگ تھے جنہو ں نے خطوط لکھے اور حضرت کو عراق میں بلایا تھا ۔ (شیعہ کتاب : جلاءالعیون صفحہ 220)
اس حوالے میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کےلیے آنے والے اکثر وہی لوگ تھے جنہوں نے آپ کو خطوط لکھے ۔
شمر بھی پکہ کوفی شیعہ تھا مگر اہل کوفہ کی طرح یہ بھی منافق غدار بے وفا ہوگیا اور شیعہ کے مطابق قاتلانِ حسین میں شمار کیا جاتا ہے ۔۔۔۔
شھد صفین شیث بن ربعی و شمر بن ذی الجوشن الضابی ثم حاربو الحسین ( ع) یوم کربلاو ، شیث اور شمر جنگ صفین میں حضرت علی کے ساتھ تھے مگر پھر کربلا کے دن امام حسین رضی اللہ عنہ سے لڑے ۔ (شیعہ کتاب : فی رحاب ائمة اہلبیت جلد 1 صفحہ 9)
شیعہ کتاب : ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب نمبر۲صفحہ ۱۶۶میں بحوالہ کتاب نورالعین مرقوم ہے : حضرت سکینہ دختر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں اپنے خیمہ میں تھی ، ناگاہ رونے کی آواز سنائی دی ۔ میں چپکے سے اپنے پِدر بزرگوار کے پاس چلی گئی ،وہ رو رہے تھے اور اپنے اصحاب سے فرما رہے تھے : اے جماعت ! جس وقت تم میرے ساتھ باہر نکلے ، تم نے ایسا جانا کہ میں ایسی قوم میں جاتا ہوں جس نے دل و زبان سے میری بیعت کر لی ہے ۔ اب وہ خیال دگرگوں ہو گیا ہے ۔ شیطان نے ان کو فریفتہ کر لیا ، یہاں تک کہ خدا کو بھول گئے۔ ان کی ہمت اب اس پر لگی ہے کہ مجھ کو قتل کریں اور میرے مجاہدین کو قتل کریں ۔
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ انہی شیعوں کی مکاریوں سے دل برداشتہ ہوکر فرمایا تھا : بخدا اس جماعت سے میرے لیے معاویہ رضی اللہ عنہ بہتر ہے یہ لوگ دعوی کرتے ہیں کہ ہم شیعہ ہیں اور میرا ارادہ قتل کیا میرا مال لوٹ لیا قسم بخدا اگر معاویہ سے عہد لوں اور اپنا خون حفظ کروں اور اپنے اہل و عیال سے بے خوف ہوجاٶں اس سے بہتر ہے کہ یہ لوگ مجھے قتل کریں اور میرے اہل و عیال و عزیز و اقارب ضائع ہو جائیں قسم بخدا اگر میں معاویہ سے جنگ کروں یہی لوگ مجھے اپنے ہاتھ سے پکڑ کر معاویہ کو دے دیں ۔ (شیعہ کتاب : جلاءالعیون جلد 1 صفحہ 379 عباسی بک ایجنسی لکھنو انڈیا،چشتی)
لاکھوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اگر کچھ کی اولادیں نافرمان نکلیں تو اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر کوئی حرف نہیں آتا حتیٰ کہ حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا بھی اپنے والد کا نافرمان نکلا تھا اس سے حضرت نوح پر کوئی اعتراض و حرف نہیں آتا بلکہ جب مدینہ منورہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پتہ چلا کہہ بے وفا غدار کوفی شیعوں نے یزیدی فوج کے ساتھ مل کر لختِ جگر امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا ہے تو اس پر اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یزید کی بیعت توڑ دی اور شدید مخالف ہو گئے اور امام حسین رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے کےلیے تیار ہونے لگے ۔ جب یزید کو پتہ چلا تو اس نے بہت ہی بڑا لشکر مدینہ منورہ بھیجا اور بے دردی سے کئ صحابہ کرام اور ان کی اولاد و خاندان کو شہید کیا ۔ اس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور ان کی اولادوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ کی خاطر شہادت تو قبول کی مگر کوفی شیعوں کی طرح بے وفائی غداری منافقت نہیں کی : ⏬
واقعہ کربلا کے بعد اصحاب محمد نے مدینہ منورہ میں یزید کے خلاف آواز اٹھائی اور مقابلے کے تیار ہو گئے ، یزید نے ایک بڑا لشکر اہل مدینہ کی طرف بھیجا اور قتل عام کا حکم دیا ۔ جس میں کئی صحابہ انصار و مہاجرین اور ان کی اولادیں رضی اللہ عنہم شہید کی گئیں اس واقعہ کو واقعہ حرہ کہا جاتا ہے ، کل المورخین و اجمعوا علی ان اہل الشام قتلوا فی ھذہ الواقعۃ جمعا کبیرا من الصحابۃ و من ابناء المھاجرین و الانصار ۔ یعنی تمام مورخین کا اجماع ہے کہ واقعہ حرہ میں صحابہ اور انصار و مہاجرین کی اولاد رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد قتل کی گئی ۔ (شیعہ کتاب : قراءۃ فی مقتل الحسین جلد 1 صفحہ 81)
فبلغ عدۃ قتلی الحرۃ یومئذ من قریش و الانصار و المھاجرین و وجوہ الناس الفا و سبع مائۃ ۔ یعنی واقعہ حرہ میں اس دن قریش مین سے اور انصار و مہاجرین صحابہ میں سے اور بڑے ذی شرف لوگوں مین سے ایک ہزار سات سو قتل ہوئے ۔ (شیعہ کتاب : بھج الصباغۃ شرح نھج البلاغۃ صفحہ 20)
ایک احمقانہ اعترض کیا جات ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کربلا کے بعد تو یزید کے خلاف نکلے مگر کربلا سے پہلے امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیوں نا نکلے ؟
اس کا جواب واضح ہے کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ جنگ کےلیے نہیں نکلے تھے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی ساتھ جاتے ۔ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ تو جنگ کےلیے نہین بلکہ بیعت کےلیے کوفہ جا رہے تھے کوفیوں کے بلانے پر ۔ شاید حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کوفہ کو اپنا مرکز بنانا چاہتے تھے شاید اسی لیے اپنے اہل و عیال سمیت ہجرت کر کے کوفہ روانہ ہوئے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment