حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا عبرتناک انجام
محترم قارٸینِ کرام ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَ کَذَالِکَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضاً بِمَا کَانُوا یَکْسِبُوْنَ ۔ (پ۸ الانعام ۱۲۹)
ترجمہ : اور یوں ہی ہم ظالموں میں ایک کو دوسرے پر مسلط کرتے ہیں ۔ بدلہ ان کے کئے کا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : بے شک اللہ عزوجل اس دینِ اسلام کی مدد فاجِر یعنی بدکار آدمی کے ذریعہ سے بھی کرا لیتا ہے ۔ (صحیح بخار ج۲ ص۳۲۸ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وحی فرمائی کہ میں نے یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کے قتل کے عوض ستر ہزار افراد مارے تھے اور تمہارے نواسے کے عوض ان سے دُگنے (یعنی ڈبل) ماروں گا ۔ (المستدرک للحاکم جلد ۳ صفحہ ۴۸۵ حدیث نمبر ۴۲۰۸)
تاریخ شاہد ہے کہ حضرتِ یحییٰ بن زکریا علیہما الصلوۃ و السلام کے خونِ ناحق کا بدلہ لینے کےلیے اللہ تعالیٰ نے بختِ نصر جیسے ظالم کو متعین کیا جو خدائی کا دعویٰ کرتا تھا ۔ اِسی طرح حضرتِ امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خونِ ناحق کا بدلہ لینے کےلیے اللہ تعالیٰ نے مختار ثقفی جیسے کذاب کو مقرر فرمایا ۔ (شامِ کربلا ص۲۸۵،چشتی)
اللہ تعالیٰ کی مصلحتیں خود وہی جانتا ہے ۔ وہ اپنی مَشیّت سے ظالموں کے ذریعے بھی ظالموں کو ہلاک کرتا ہے ۔
بد بخت قاتلانِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے حالات ان لوگوں پر پوشیدہ نہیں ہوں گے جنہوں نے کتبِ تاریخ کا مطالعہ کیا ہے ۔ ہر وہ شخص جو کسی بھی طرح سے قتل امام حسین رضی اللہ عنہ میں شریک تھا یا اس پر راضی اور خوش تھا ۔ عذاب اخروی جس کا وہ مستحق ٹھہرا ، سے قطعِ نظر اس دنیائے ناپائیدار میں بھی اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچا ۔ ہر وہ شخص جو معرکۂ کربلا میں حضرت سید الشہداء کے مقابلہ کی غرض سے آیا تھا اس دنیا سے عذاب دیکھے بغیر اور اپنے کیے کی سزا پائے بغیر نہیں گیا۔بعض قتل کر دیے گئے ۔ کچھ نابینا ہو گئے ، بعض کا چہرہ سیاہ ہو گیا ، کچھ شدت پیاس سے ہلاک ہوئے اوربعض کی دولت و حکومت قلیل مدت میں جاتی رہی ۔ بعض دیگر عقوبات میں مبتلا ہوئے ۔
حضرت علامہ ابن جوزی نے سدّی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے ایک شخص کی دعوت کی مجلس میں یہ ذکر چلاکہ حضرت حسینؓ کے قتل میں جوبھی شریک ہوا اس کو دنیا ہی میں جلد سزا مل گئی اس شخص نے کہاکہ بالکل غلط ہے میں خود ان کے قتل میں شریک تھا میرا کچھ بھی نہیں ہوا،اتنا کہہ کریہ شخص مجلس سے اٹھ کر گھرگیا جاتے ہی چراغ کی بتی درست کرنے لگا اتنے میں اس کے کپڑوں میں آگ لگ گئی اوروہیں جل بھن کررہ گیا ۔ سدّی کہتے ہیں کہ میں نے خود اس کو صبح دیکھا تو کوئلہ ہوچکا تھا ۔(اسوۂ حسینی صفحہ ۱۰۱ ، ۱۰۲،چشتی)
یزید پلید کا عبرتناک انجام : ⏬
واقعہ کربلا کے کچھ ہی دنوں کے بعد یزید ایک ہلاکت خیز اور انتہائی مُوذِی مَرَض میں مبُتلا ہوا ، پیٹ کے دَرْد اورآنتوں کے زَخْموں کی ٹِیس (یعنی تکلیف) سے ماہیِ بے آب (یعنی جس طرح مچھلی پانی کے بغیر تڑپتی ہے) کی طرح تڑپتا رہتا تھا ، حِمْص میں جب اُسے اپنی مَوت کا یقین ہوگیا تو اپنے بڑے لڑکے مُعاویہ کو بِسْترِ مَرْگ پر بُلایا اور اُمورِ سَلْطَنَت کے بارے میں کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ بے ساخْتہ بیٹے کے مُنہ سے چیخ نکلی اور نہایت ذِلَّت و حقارت کے ساتھ یہ کہتے ہوئے باپ کی پیشکش کو ٹھکرا دِیا کہ جس تاج و تخت پر آلِ رسول کے خُون کے دَھبّے ہیں ، میں اُسے ہرگز قبول نہیں کر سکتا ، خُدا اِس منحوس سَلْطَنَت کی وِرَاثَت سے مجھے مَحْرُوم رکھے ، جس کی بنیادیں نواسَۂ رسول کے خُون پر رکھی گئی ہیں ۔یزیداپنے بیٹے کےمُنہ سے یہ اَلْفاظ سُن کر تڑپ گیا اور شِدّتِ رَنْج واَلَم سے بستر پر پاؤں پٹخنے لگا ، مَوت سے کچھ دن پہلے یزید کی آنتیں سڑ گئیں اور اُس میں کیڑے پڑ گئے ، تکلیف کی شِدّت سے خِنزیر کی طرح چیختا تھا ،پانی کا قَطرہ حَلْق سے نیچے اُترنے کے بعد نِشْتَر کی طرح چبھنے لگتا تھا ، عجیب قَہْرِ الٰہی کی مارتھی ، پانی کے بغیر بھی تڑپتا تھا اور پانی پاکر بھی چیختا تھا ، با لآخر اِسی دَرْد کی شِدّت سے تڑپ تڑپ کر اُس کی جان نکلی ، لاش میں ایسی ہولناک بدبُو تھی کہ قریب جانا مشکل تھا ، جیسے تیسے اُس کو سِپُردِ خاک کِیا گیا ۔ (تاریخ کربلا صفحہ ۳۴۵)
یزید پلید کی مَوت کا ایک سَبَب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک رُومیُّ النَّسْل لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوگیا تھا ، مگر وہ لڑکی اندرونی طور پر اُس سے نفرت کرتی تھی ، ایک دن رنگ رلیاں مَنانے کے بہانے اُس نے یزید کو دُور ویرانےمیں تنہا بُلایا ، وہاں کی ٹھنڈی ہواؤں نے یزید کو بَدمَسْت کر دِیا ، اُس دوشیزہ نے یہ کہتے ہوئے کہ جو بے غیرت و نابَکار (یعنی نِکَمّا) اپنے نبی کے نواسے کا غَدّار ہووہ میرا کب وفادارہو سکتا ہے ، خنجرِ آبدار (تیز دھار) کے پے در پے وار کر کے چِیْر پھاڑ کر اُس کو وہیں پھینک دِیا ۔ چند روز تک اُس کی لاش چِیْل کوّوں کی دعوت میں رہی ۔ بالآخر ڈُھونڈتے ہوئےاُس کے اَہالی مَوالی (یعنی نوکر چاکر) وہاں پہنچے اور گڑھا کھود کر اُس کی سڑی ہوئی لاش کو وہیں داب (دَفنا) آئے ۔ (امام حسین کی کرامات صفحہ ۴۷)
یزید کی قَبْر کا حال : ⏬
دِمِشْق کے پُرانے قَبْرِستان بابُ الصَّغِیْر کے کچھ آگے یزید کی قَبْر کا نشان تھا ، جس پر آج سے کئی سالوں پہلے لوگ اینٹیں پتّھر مارتے تھے اور اکثر اینٹوں کا ڈھیر لگا رہتا تھا ، وہاں اب شیشہ ، کانچ ، (اور) لوہا گَلانے کی بھَٹّی لگی ہوئی ہے ، اُس کارخانے میں شیشے کے برتن بنائے جاتے ہیں ، اُس لوہے اور کانچ کو گَلانے کی آگ والی بھٹی بالکل ٹھیک جس جگہ قَبْر تھی وہاں بنی ہوئی ہے ۔ گویا یزید کی قَبْر پر ہر وقت آگ جلتی رہتی ہے ۔ (شَہادت نواسۂ سید الابرار صفحہ ۹۱۸-۹۱۹)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : جس شخص نے میرے اہْلِ بَیْت پر ظُلم کِیا اور مجھے میری عِترَتِ پاک (یعنی اولاد) کے بارے میں اَذِیَّت دی ، اُس پر جنَّت حرام کر دی گئی ۔ (برکات آل رسول صفحہ ۲۵۹)
ایک اور حدیثِ پاک میں ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی شخص بَیْتُ اللہ شریف کے ایک کونے اور مقامِ ابراہیم کے درمیان کھڑے ہوکرنَماز پڑھے ، روزے رکھے اور پھر اہْلِ بَیْت رضی اللہ عنہم کی دشمنی پر مر جائے تو وہ جہنّم میں جائے گا ۔ (مُسْتَدْرَک ،کتاب معرفۃ الصحابۃ،مبغض اہل البیت یدخل النار ۔۔۔ الخ جلد ۴ صفحہ ۱۲۹-۱۳۰ حدیث نمبر ۴۷۶۶)
حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جن لوگوں نے حضرت امام حُسَیْن رضی اللہ عنہ کو قتل کِیا ہے ، اگر وہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے بخشے بھی جائیں تووہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا مُنہ دکھائیں گے ۔ اللہ عزوجل کی قسم ! اگر حضرت امام حُسَیْن رضی اللہ عنہ کے قتل میں میرا دَخْل ہوتا اور مجھے جنّت اور دوزخ کا اِخْتیار دِیا جاتاتو میں دوزخ اِخْتیار کرتا ، اِس خوف کے سبب کہ جنّت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کس منہ سے جاؤں گا ۔ (تنبیہ المغترین الباب الاوّل الحسن البصری وقتلۃ الحسین صفحہ ۵۴)
حضرت عمر بن عبدُ العزیز اموی رضی اللہ عنہ قاتِلِ حُسَیْن”یزید پلید“ کو خلیفہ نہیں تسلیم کرتے تھے ، چُنانچہ ایک بار دورانِ گُفتگو کسی نے یزید کو اَمِیْرُ المُومنین کہا تو (آپ سخت ناراض ہوئے اور) اُس سے فرمایا : تم یزید کو اَمِیْرُ المُومنین کہتے ہو ؟ پھر اُسے بیس (20) کوڑے مارنے کا حکم دِیا ۔ (تاریخ الخلفاء یزید بن معاویہ ابوخالد الاموی صفحہ ۲۰۹،چشتی)
اَعْلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں جب یزید کے بارے میں سوال کیا گیا کہ یزید کو پلید کہنا شرعاً جائز ہے یا نہیں ، نیز اُس کے نام کے ساتھ رحمۃ اللہ علیہ کہنا دُرُسْت ہے یانہیں ؟ تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : یزید بے شک پلید تھا ، اُسے پلید کہنا اور لکھناجائز ہے ، اور اُسے رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نہ کہے گا مگر ناصبی (یعنی اپنے سینے میں حضرت علی اور حَسَن و حُسَیْن رضی اللہ عنہم سے بُغْض و کِیْنہ رکھنے والاہے جو) کہ اَہْلِ بَیْتِ رسالت کا دُشمن ہے ، وَالْعِیَا ذُ بِاللہِ تَعَالٰی ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۱۴ صفحہ ۶۰۳)
حضرت علّامہ اِبْنِ حَجَر ہیتَمی مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت صالح بن احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے والد حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کی : (بابا جان) ایک قوم ہماری جانب یہ بات مَنْسُوب کرتی ہے کہ ہم یزید کے حِمایتی ہیں ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : يَابُنَیَّ وَهَل يَتَوَلّٰى يَزِيْدَ اَحَدٌ يُؤمِنُ بِاللهِ ، اے میرےبیٹے ! کیا اللہ تعالٰی پر ایمان رکھنے والا بھی یزید پلید کا حِمایتی ہو سکتا ہے ؟ ۔ (الصواعق المحرقۃ الباب الحادی عشر الخاتمہ فی بیان اعتقاد اہل السنۃ صفحہ ۲۲۲)
یزید کا بیٹا مُعاویہ جو کہ نیک و صالح تھا ،قتلِ امام حُسَیْن رضی اللہ عنہ کی وجہ سے اپنے باپ یزید غَدّار و مَکّار سے سخت نفرت کرتا تھا،چُنانچہ (اپنے باپ یزید پلید کے بارے میں) کہنے لگا : میرے باپ کو حکومت دی گئی ، وہ نالائق تھا ، نواسَۂ رسول سے لڑا ، اُس کی عُمْر کم کردی گئی اوراس کی نَسْل تَباہ کر دی گئی ، وہ اپنی قَبْر میں گُناہوں کے سبب گِروی رکھ دِیا گیا (یعنی تاقیامت مبُتلائے عذاب ہو گیا) ، پھر روتے ہوئے کہنے لگے : ہم پر سب سے زِیادہ گِراں اُس کی بُری مَوت اور بُرا ٹِھکانہ ہے ، اُس بَدبَخْت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اَولاد کو قتل کِیا ، شراب حلال کی اور کعبے کی بے حُرمتی کی ۔ (الصواعق المحرقۃ الباب الحادی عشر الخاتمہ فی بیان اعتقاد اہل السنۃ صفحہ ۲۲۴،چشتی)
صَدْرُ الشَّریعہ حضرت مُفتی محمد امجد علی اَعْظَمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یزید پلید فاسق ، فاجِر ، مُرتکبِ کبائر (یعنی گناہِ کبیرہ کرنے والا) تھا ، مَعَاذَ اللہ (عزوجل) اُس سے اور رِیْحانَۂ رسولُ الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیّدنا امام حُسَیْن رضی اللہ عنہ سے کیا نسبت ؟ آج کل جو بَعْض گمراہ کہتے ہیں کہ ہمیں اُن کے مُعامَلہ میں کیا دَخْل ؟ ہمارے وہ (یعنی امام حُسَیْن رضی اللہ عنہ) بھی شہزادے (ہیں) ، وہ (یزید پلید) بھی شہزادے (ہیں) ایسا بکنے والا مَردُود ، خارِجی ، ناصبی (یعنی اپنے سینے میں حضرت علی اور حَسَن و حُسَیْن رضی اللہ عنہم سے بُغْض و کینہ رکھنے والا ہے اور ) مُسْتَحِقِّ جہنّم ہے ۔ (بہار شریعت جلد ۱ صفحہ ۲۶۱ حصہ اوّل)
قہرِ الہٰی کی بھڑکائی ہوئی آگ : ⏬
روایت ہے کہ ایک جماعت آپس میں گفتگو کر رہی تھی کہ دشمنانِ حسین میں سے کوئی شخص ایسا نہیں دیکھا جو اس دنیا سے مصیبت و بلاء میں مبتلاء ہوئے بغیر چلا گیا ہو ۔ اس جماعت میں سے ایک بوڑھے نے کہا کہ میں بھی قتلِ حسین بن علی میں شریک تھا ۔ مجھ پر تو ابھی تک کوئی مصیبت نازل نہیں ہوئی ۔ ابھی یہ بات کر رہی رہا تھا کہ چراغ کے فتیلہ کو درست کرنے کے لیے اپنی جگہ سے اٹھا ۔اچانک شعلۂ چراغ نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس بری طرح سے جلا کہ اچھلتا کودتا واپس آیا اور چلانے لگا:میں جل گیا ۔ میں جل گیا ۔ یہاں تک کہ اس کی یہ سوزش اس درجہ بڑھی کہ اس نے اپنے آپ کو دریا میں ڈال دیا ۔ مگریہ آگ تو قہرِ الہٰی نے بھڑکائی تھی دریا اسے کیا ٹھنڈا کرتا؟وہ تو اس کےلیے تیل کا کام کر گیا اور وہ اس انداز سے جلا کہ اس کا وجود جہنم کا ایندھن بن گیا ۔ (تاریخ الخلفاء ، تارخِ کربلا ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
ایک پری چہرہ سیاہ رو ہو گیا : ⏬
مزید روایت ہے کہ ابن زیاد کے لشکریوں میں سے ایک شخص جس نے امام عالی مقام کے سر کو اپنے فتراک میں ڈالاتھا خوبصورتی کے اعتبار سے بہت زیادہ شہرت یافتہ تھا ۔ بعد میں جب اسے دیکھا گیا تو اس کا چہرہ سیاہ ہو چکاتھا۔اس سے پوچھا گیا : تو تو بڑا خوب رو اور صاحبِ حسن و جمال تھا ۔ کیا وجہ ہے کہ تیرے چہرے پرسیاہی اور کالک نے ڈیرہ جما لیا ہے ۔ کہنے لگا : جس روز میں نے حسین کے سر کو اپنے فتراک میں ڈالاتھا اسی دن سے روزانہ دو آدمی آتے ہیں مجھے دونوں بازؤں سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے آگ کے پاس لے جاتے ہیں اور پھر مجھے اس آگ پر الٹا لٹکا دیتے ہیں بعد ازاں اتار لاتے ہیں ۔ اس دن سے میرا چہرہ سیاہ اور حال تباہ ہے ۔ یہ شخص اسی عذاب میں مبتلا رہا یہاں تک کہ راہی جہنم ہوا ۔ (تاریخ الخلفاء ، تارخِ کربلا ، شھادت نواسہ سیّد الابرار،چشتی)
آنکھوں میں خون آلود سلائی پھیر دی گئی : ⏬
واقدی سے منقول ہے : مقتلِ حسین کے حاضرین میں سے ایک بوڑھا آدمی نابینا ہو گیاتھا۔جب اس سے نابینا ہونے کا سبب پوچھا گیاتو کہنے لگا: میں نے خواب میں رسالت پناہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھا : انہوں نے بازو تک آستین چڑھائی ہوئی تھی اور دستِ مبارک میں ننگی تلوار تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے رو بروزمین پر فرش بچھایا گیا تھا یہ فرش دس قاتلانِ حسین کو ذبح کر کے ان کے سروں پر بچھایا گیا تھا ۔جوں ہی آں جناب کی نظرمجھ پر پڑی ۔ آپ نے مجھے نفرین کی اور میری آنکھوں میں خون آلود سلائی پھیردی گئی جس کے سببمیں اندھا ہوگیا ۔ (تاریخ الخلفاء ، تارخِ کربلا ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
ڈاڑھی خنزیر کی دم بن گئی : ⏬
کہتے ہیں شام میں ایک شخص تھا جو قتلِ حسین میں شریک تھا اس کی داڑھی خنزیر کی دم بن کر لوگوں کےلیے نشانِ عبرت بن گئی تھی ۔ (تاریخ الخلفاء ، تارخِ کربلا ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
سینے میں آتش جہنم : ⏬
روایت ہے کہ وہ شخص جس نے حضرت عبد اللہ علی اصغر کے تشنہ حلقوم پر تیر چلایا تھاایک ایسے مرض میں مبتلا ہو گیا جس سے اس کے سینہ میں حرارت اور گرمی جب کہ پشت میں ٹھنڈک پیدا ہو گئی۔ہر چند کہ اس کے سامنے پنکھا جھلتے تھے اور اس کی پشت کی جانب آگ روشن کرتے تھے وہ واویلا کرتا تھا ۔ نہ تو اس کی آتشِ سینہ سرد ہوتی اور نہ ہی پشت کی ٹھنڈک کو افاقہ ہوتا تھا ۔ پیاس کی شدت اس درجہ بڑھ گئی کہ مٹکوں کے مٹکے پانی پی لیتا تھا اور پھر بھی ۔ العطش ۔ العطش ۔ کی صدائیں بلند کرتا۔یہاں تک کہ اس کا پیٹ پانی پی پی کر پھول گیا اور بالآخر پھٹ گیا ۔اسی عقوبت کی وجہ سے واصل جہنم ہوا ۔ (تاریخ الخلفاء ، تارخِ کربلا ، شھادت نواسہ سیّد الابرار،چشتی)
ابن سعدکا انجام : ⏬
جب مختار ثقفی نے کوفہ پر اپنے تسلط کو مضبوط کر لیا تو اس نے فرمان جاری کیا کہ وہ تمام لوگ جو ابن سعد کے لشکر میں شامل تھے اورحسین ؑ کے قتال میں شریک تھے ان کو ایک ایک کر کے میرے پاس لایا جائے چنانچہ چند سو لوگ لائے گئے جن تمام کی گردن مار کر انہیں سولی پر لٹکا دیا گیا ۔ مختار ثقفی نے اپنے خاص غلام کو حکم دیا کہ وہ ابن سعد کو حاضر کرے ۔حفص بن سعد حاضر ہوا ۔ مختار نے پوچھا تمہارا باپ کہاں ہے ۔ بولا گھر میں بیٹھا ہے ۔ مختار نے کہا : ’’اب وہ ’’رے‘‘ کی حکومت اور اس کے اختیارات سے دست بردار ہو کر کس طرح اپنے گھر میں بیٹھا ہوا ہے ۔ اس نے قتلِ حسین کے دن خانہ نشینی کیوں اختیار نہ کی‘‘ یہ کہہ کر حکم دیا کہ ابن سعد کا سر کاٹ لیا جائے اور اس کے بیٹے کو بھی قتل کر دیا جائے ۔ (تاریخ الخلفاء ، تارخِ کربلا ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
شمر ذی الجوشنکی گردن زدنی : ⏬
پھر شمر کو طلب کیا اور اس کی گردن زدنی کا حکم جاری کیا ۔ اس کے بعد مختارثقفی نے ان ملعونوں کے سروں کو محمد بن حنفیہ کے پاس بھیج دیااور حکم دیا کہ معرکہ کربلا میں ابن سعد کے ساتھ شریک ہونے والے باقی ماندہ لوگوں میں سے جس کو بھی پائیں قتل کر دیں۔جب لوگوں نے یہ دیکھا کہ مختارثقفی امام عالی مقام کا قصاص لے رہا ہے تو انہوں نے بصرہ بھاگ جانے کا ارادہ کر لیا۔لیکن مختار ثقفی کے لشکریوں نے ان کا تعاقب کیا اور جو جو دستیاب ہوتے انہیں قتل کر کے لاشوں کو جلا دیا جاتا اور ان کے گھروں کو مسمار کر دیا جاتا ۔ (تاریخ الخلفاء ، تارخِ کربلا ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
خولی بن یزید کا انجام : ⏬
جب خولی بن یزید کو اسیر کر کے مختار ثقفی کے سامنے لایا گیاتو اس نے حکم جاری کیا:پہلے اس کے دونوں ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے جائیں اور پھر اسے سولی پر چڑھا دیا جائے۔اس کے بعد اسے آگ میں جلادیا گیا۔اسی طرح دوسرے لشکریانِ ابن زیاد جو دستیاب ہوئے انہیں دردناک انداز میں قتل کر دیا گیا ۔ (تاریخ الخلفاء ، تارخِ کربلا ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
قتل ابن زیاد بد نہاد کی مزید تفصیلات : ⏬
مختصر یہ کہ جب مختار ثقفی ابن سعد ، شمراور خولی بن یزید علیہم اللعنۃ کے قتل سے فارغ ہو کر مطمئن ہوا تو ابن زیاد کے قتل کے درپے ہوا۔چناں چہ ابراہیم بن مالک اشتر کو سپاہیوں کی ایک جماعت کے ساتھ ابن زیاد کے مقابلہ کے لیے بھیجا۔جوں ہی ابراہیم موصل کی سرحد پر پہنچے ابن زیاد موصل سے پانچ فرسنگ کے فاصلے پر واقع ایک دریا کے کنارے اپنے لشکر کے ساتھ مقابلہ کےلیے تیار ہو گیا ۔ صبح کے وقت طرفین میں مقابلہ کا آغاز ہوا۔شام کے قریب ابراہیم بن مالک اشتر نے ابن زیاد کے لشکر کو شکست دی ۔ابن زیاد کی شکست خوردہ فوج نے راہِ فرار اختیار کی ۔ ابراہیم اپنی فوج کے ساتھ ان کے تعاقب میں روانہ ہوئے اور حکم جاری کیا کہ مخالف فوج میں سے کسی کو بھی پائیں تو زندہ نہ چھوڑیں۔چناں چہ ابن زیاد کے بہت سے ہم راہی جان سے گئے اور ابن زیاد بھی قتل کر دیا گیا۔اس کا سر کاٹ کر ابراہیم بن مالک اشتر کے سامنے پیش کیا گیا اور ابراہیم نے اسے مختار ثقفی کے پاس کوفہ بھیج دیا ۔ ابن زیاد کا سرجب کوفہ پہنچا تواسی وقت مختار ثقفی نے دارالامارۃ میں اہلیانِ کوفہ کو جمع کر کے ایک بزم آراستہ کی اور حکم جاری کیا کہ ابن زیاد کا سر پیش کیا جائے ۔ جب ابن زیاد کا سر پیش کیا گیا تو مختار ثقفی نے کہا : یہ ابن زیاد کا سر ہے ۔ اے کوفہ کے لوگو ! دیکھ لو کہ خونِ حسین کے قصاص نے ابن زیاد کو زندہ نہ چھوڑا ۔ (تاریخ الخلفاء ، تارخِ کربلا ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
مختار ثقفی نے قصاص میں ستر ہزار افراد کو قتل کیا : ⏬
مفتاح النجاء میں منقول ہے کہ مختار ثقفی کے واقعہ میں اہل شام کے ستر ہزار افراد قتل کیے گئے اور یہ واقعہ دس محرم ۶۷ ہجری (واقعۂ کربلا کے سال بعد) رونما ہوا ۔
ابن زیاد کے نتھنوں میں تین بار سانپ کا گھسنا : ⏬
روایاتِ صحیحہ میں مروی ہے کہ جب ابن زیاد اور اس کے دوسرے سرداروں کے سر مختار ثقفی کے سامنے لائے گئے تو اچانک ایک سانپ ظاہر ہوا اور سروں کے درمیان سے گزرتا ہوا ابن زیاد کے سر کے قریب آیا اور اس کے ناک کے سوراخ میں داخل ہو گیا ۔ کچھ دیر سر کے اندر رہا اور پھر منہ کے راستے باہر نکل آیااور غائب ہوگیا۔کہتے ہیں کہ اسی طرح یہ سانپ تین مرتبہ ظاہر ہوا اور ناک کے سوراخ سے داخل ہو کر منہ کے راستے باہر نکلا ۔ (تاریخ الخلفاء ، تارخِ کربلا ، شھادت نواسہ سیّد الابرار،چشتی)
دیگر اعیانِ یزیدپلید کا عبرتناک انجام : ⏬
بالجملہ ابن زیاد ، ابن سعد ، شمر ذی الجوشن ، عمر بن الحجاج ، قیس بن اشعث کندی ، خولی بن یزید ، سنان بن انس نخعی ، عبداللہ بن قیس ، حکم بن طفیل اور یزید بن مالک کے علاوہ دیگر اعیان یزیدکو طرح طرح کے عذاب دے کر ہلاک کیا گیااور ان کے لاشوں پر گھوڑے دوڑائے گئے ۔ یہاں تک کہ ان کی ہڈیاں چور چور ہو گئیں ۔ (تاریخ الخلفاء ، تارخِ کربلا ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
مخفی نہ رہے کہ کتب تاریخ میں اختلاف ہے ۔ بعض کتب میں ابن سعد اور شمر کا قتل ابن زیاد کی ہلاکت سے پہلے مذکور ہے اور بعض کتب میں ابن زیاد کے بعدذکر کیا گیا ہے۔اور جیسا کہ منتقم حقیقی کا وعدہ تھا جس کاذکر واقعہ کربلا سے متعلق روایات کے ضمن میں بہ روایت حاکم مذکور ہو چکا ہے پورا ہوا اور قاتلانِ حسین امام حسین رضی اللہ عنہ مختار ثقفی کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچے ۔ گو کہ آخر کار مختار ثقفی کے اعتقادات (مختار ثقفی نے بعد میں دعویٰ نبوت کر لیا تھا) میں بھی شقاوتِ ازلی کا ظہور ہوا ۔ جس کی تفصیل کتبِ تاریخ میں مسطور ہے ۔ (تاریخ الخلفاء ، تارخِ کربلا ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
بد بخت قاتلانِ حسین کے حالات ان لوگوں پر پوشیدہ نہیں ہوں گے جنہوں نے کتبِ تاریخ کا مطالعہ کیا ہے۔ہر وہ شخص جو کسی بھی طرح سے قتل حسین میں شریک تھا یا اس پر راضی اور خوش تھا ۔ عذاب اخروی جس کا وہ مستحق ٹھہرا ، سے قطعِ نظر اس دنیائے ناپائیدار میں بھی اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچا ۔ ہر وہ شخص جو معرکۂ کربلا میں حضرت سید الشہداء کے مقابلہ کی غرض سے آیا تھا اس دنیا سے عذاب دیکھے بغیر اور اپنے کیے کی سزا پائے بغیر نہیں گیا ۔ بعض قتل کر دیے گئے ۔ کچھ نابینا ہو گئے ، بعض کا چہرہ سیاہ ہو گیا ، کچھ شدت پیاس سے ہلاک ہوئے اوربعض کی دولت و حکومت قلیل مدت میں جاتی رہی ۔ بعض دیگر عقوبات میں مبتلا ہوئے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment