مادہ اشتقاق ’’نَبَا‘‘ کے اعتبار سے نبی کا ایک معنی ’’طریق‘‘ (راستہ) بھی ہے۔ تمام لغت کی کتب نے اسے بیان کیا ہے کہ : اَلنَّبِيّ هُوَ الطَّرِيْقُ وَالْاَنْبِيَاءُ طُرُقُ الْهُدٰی.
ترجمہ : نبی راستے کو کہتے ہیں، انبیاء وہ ذوات ہیں جو بھولے ہوؤں کو ہدایت کا راستہ دکھاتے ہیں۔
نبی کی ذات ایک نئی راہ اور نئی طرز دیتی ہے۔ جب لوگ بھولے ہوئے، بھٹکے ہوئے اور گمراہ ہوتے ہیں، انہیں نہ اپنی پہچان ہوتی ہے اور نہ اپنے خالق کی پہچان ہوتی ہے۔۔۔ نہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا ہے اور نہ دوسرے کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کی معرفت ہوتی ہے۔۔۔ وہ محظ گمراہی، لاعلمی، بے خبری، جہالت اور ضلالت میں ہوتے ہیں۔ لغت کے اس معنی کے اعتبار سے ان حالات میں نبی کی ذات خود راستہ ہوتی ہے۔ جب نبی مبعوث ہوتا ہے تو بھولے ہوئے انسانوں کو راستہ دکھا دیتا ہے۔ اس نبی کی ذات، سیرت، وجود، عمل، طور طریقے اور اسوہ و شعار میں خود ایک راستہ ہوتا ہے جو بھولے ہوؤں کو حق کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ نبی ایسا راستہ دکھاتا ہے کہ بندے کو نہ صرف اپنی بلکہ اپنے خالق و مالک کی پہچان بھی ہوتی ہے۔ اپنے اور دوسرے لوگوں کے درمیان رشتے کی نوعیت کی پہچان کے ساتھ ساتھ وہ اچھے برے کو بھی جان جاتا ہے۔ گویا ایک کامل ہدایت کا راستہ دے دینے والے اور انسانیت کے لئے خود راستہ بن جانے والے کو نبی کہتے ہیں۔
ابومعاذ النحوی نے قدیم لغتِ عرب کا ایک قول نقل کیا ہے کہ مَنْ يَضُلُّنِيْ النَّبِی اَيْ اَلطَّرِيْق. یعنی کسی نے پوچھنا ہو کہ میں بھولا ہوا ہوں، کوئی مجھے راستہ دکھا دے تو راستہ پوچھنے کے لئے کہتے: مَنْ يَضُلُّنِيْ عَلَی النَّبِی یعنی کوئی مجھے نبی دکھادے۔ نبی دکھانے کا مطلب یہ ہوتا کہ میں بھولا ہوا ہوں کوئی مجھے سیدے راستے پر چلادے۔ پس نبی کا وجود خود سیدھا راستہ ہوتا ہے۔
اسی لئے قرآن مجید نے کہا:اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ
ترجمہ اے اللہ ہمیں سیدھے راستے پر چلا ۔
الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ خود وجود مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ہے اور ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ ہے۔
نبی کی ذات ایک طرف تمام مخلوق میں سب سے بلند ہوتی ہے اور دوسری طرف نبی وہ ہے جس سے لوگ راستہ پائیں۔ اس کا معنی یہ بھی ہے کہ ایسا راستہ، طریقہ اور وسیلہ جو لوگوں کو اللہ تک لے جائے گویا لوگوں کو اللہ سے ملانے کے راستے اور واسطے کو بھی نبی کہتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment