Thursday, 8 December 2016

میرے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم کا خلق عظیم

انسانی معاشرے ہمیشہ تعلیم و تربیت اور اخلاق حسنہ سے عروج اور استحکام حاصل کرتے ہیں۔ معاشرہ کے امن، خوشحالی اور استحکام کا راز علم، عمل اور اخلاق میں پوشیدہ ہے۔ اسی طرح قیادتیں بھی علم، عمل اور اخلاق حسنہ سے تشکیل پاتیں اور ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ اخلاق حسنہ کی اہمیت کے پیش نظر ہی اللہ رب العزت نے اپنے محبوب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خلق عظیم کے اعلیٰ درجہ پر فائز کیا۔ ارشاد فرمایا:

اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ.(القلم : 4)’’بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)‘‘۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے حضرت سعد بن ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ آقا علیہ السلام کے اخلاق حسنہ جن کی تعریف قرآن مجید میں انک لعلی خلق عظیم کہہ کر کی گئی۔ وہ کیا ہیں؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا :

أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟’’ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے‘‘۔

انہوں نے عرض کیا کہ پڑھتا ہوں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ الْقُرْآن.’’حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کا خلق قرآن ہی تو ہے۔‘‘(صحيح، مسلم، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، 1 / 512، الرقم : 746)

یعنی قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اخلاق حسنہ، خصائل حمیدہ، فضائل کریمہ اور انسان کی عادات شریفہ کا جو جو ذکر، جز، گوشہ اور پہلو بیان کیا ہے، ان ساری خوبیوں کے عملی پیکر اتم کا نام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اللہ رب العزت کے بیان کردہ اخلاق کو اگر تعلیمات کی شکل میں دیکھنا ہو تو اس وجود کا نام قرآن ہے اور اللہ رب العزت کے تعلیم کردہ اخلاق اور خصائل حمیدہ کو اگر ایک انسانی پیکر اور شخصی اسوہ و ماڈل کی صورت میں دیکھنا ہو تو ان کا نام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اخلاق کی ترویج و فروغ کو اپنی منصبی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :

إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکَارِمَ الأَخَلَاقِ.’’مجھے مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے‘‘۔

(أخرجه البيهقي في السنن الکبري، 10 / 191، الرقم : 20571)

یعنی میری بعثت اس لئے کی گئی ہے کہ میں کائنات انسانی میں اخلاقی فضائل کو کمال اور عروج پر پہنچادوں۔ اخلاق (Morality) انسان کی خوبیوں اور اعلیٰ فضائل و خصائل میں سے ایک ایسا اعلیٰ مرتبہ، اعلیٰ رویہ، اعلیٰ طرز فکر، طرز عمل اور ایک ایسا عظیم خزانہ ہے جو دنیا کے تمام انسانی معاشروں میں بغیر انقطاع قائم و دائم رہا اور اس پر ہمیشہ سب کا عمل رہا۔ ہر دور میں اخلاق کی نہ صرف پذیرائی ہوئی بلکہ ہر دور کا انسان اخلاق کی عظمت سے متاثر ہوتے ہوئے اس کا معترف بھی ہوا۔ جوں جوں انسانی معاشرے، انسانی عقل، ادراک، نظریات اور تصورات ترقی کرتے جارہے ہیں، اسی طرح معاشرے کی ارتقاء پذیری کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار بھی بلند سے بلند تر ہوتی چلی گئی ہیں۔ بلاشک و شبہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت جہاں توحید، رسالت اور آخرت کی بنیادی تعلیمات پر مشتمل تھی وہاں ہر پیغمبر کی دعوت کا مرکزی نقطہ اخلاق حسنہ بھی تھا۔ ہر پیغمبر کی اپنی شخصیت اور اسوہِ مبارکہ کا مرکز و محور اخلاق حسنہ اور اعلیٰ اخلاقی اقدار تھے۔ جن سے انسانیت کو حسن کاملیت اور اپنے مراتب میں بلندی ملی۔

جب ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ چیز واضح نظر آتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اخلاق حسنہ کے ہزارہا گوشوں کی تعلیم دی، انہیں اپنی عملی زندگی میں سمویا اور ان کے ذریعے اپنے اسوہِ حسنہ اور شخصیت مقدسہ کو فکری، علمی اور عملی طور پر انسانیت کے سامنے رکھا۔ الغرض اخلاقِ حسنہ کا نمونہ کامل اور پیکر اتم بن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات خلق اور افق انسانیت پر ظہور پذیر ہوئے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اخلاق حسنہ پاکستان کے لئے بالخصوص اور پورے عالم اسلام و عالم انسانیت کے لئے بالعموم ناگزیر ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی انفرادی، اجتماعی، معاشرتی، سماجی، سیاسی، تہذیبی، ثقافتی، روحانی اور قومی زندگی حتی کہ بین الاقوامی تعلقات میں بھی اعلیٰ اخلاقی اقدار پیدا کریں، انہیں مضبوط و مستحکم کریں اور ہمیشہ فروغ دیں۔ اسی میں پاکستان، امت مسلمہ اور تمام انسانی معاشروں کی ترقی کا راز مضمر ہے۔ ذیل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے انہی گوشوں کا تذکرہ کیاجارہا ہے جن کے ذریعے ہم نہ صرف انفرادی سطح پر امن و سکون حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اجتماعی سطح پر بھی تحمل و برداشت اور عفو و درگزر کے رویے تشکیل پاسکتے ہیں۔ ( آنے والے مضامین اسی موضوع پر ہونگے ان شاء اللہ )

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...