زید بن سعنہ نامی یہودی آقا علیہ السلام کو دیئے گئے قرض کی قبل از وقت واپسی کا مطالبہ لے کر حاضر ہوا۔ اس وقت قرض کی ادائیگی کا اہتمام آقا علیہ السلام کے پاس نہ تھا لیکن وہ یہودی مزید مہلت دینے کے لئے تیار نہ ہوا۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ تم بیٹھ جاؤ میں تمہارے پاس ہی بیٹھا رہوں گا جب تک اللہ تعالیٰ تمہارے قرض کی واپسی کا سامان پیدا نہ فرمادے۔ نماز ظہر کا وقت تھا، اس دن کی ظہر سے لے کر اگلے دن کی فجر تک پانچ نمازوں کا وقت آقا علیہ السلام صرف اس کی تالیف قلب اور اطمینان کے لئے گھر نہ گئے، نہ آرام فرمایا، اس کے پاس بیٹھے رہے تاکہ اس کو یہ وہم نہ ہوکہ مجھے چھوڑ کر جارہے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کو طعن و تشنیع کرنے لگے اور برا بھلا کہنے لگے کہ اس نے کل سے آقا علیہ السلام کو روک رکھا ہے اور انہیں تکلیف میں مبتلا کیا ہے۔ اس پر آقا علیہ السلام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا خبردار میرے رب نے مجھے کسی غیر مسلم پر ظلم کرنے اور زیادتی کرنے سے منع کررکھا ہے۔ اس نے زیادتی کی ہے تو کوئی بات نہیں، میرا اخلاق اور میرا منصب اجازت نہیں دیتا کہ میں اس سے بداخلاقی کروں۔
اس نے آقا علیہ السلام کے جب یہ کلمات سنے اور آپ کا حسن اخلاق اور طرزِ عمل دیکھا تو اسی وقت کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوگیا اور کہا باخدا میں نے جو آپ کے ساتھ سلوک کیا اس کا ایک سبب تھا۔ میں یہودی ہوں، میں نے تورات میں پڑھ رکھا تھا کہ نبی آخرالزماں تشریف لائیں گے۔ ان کا نام محمد بن عبداللہ ہوگا۔ ان کا مولد شہر مکہ ہوگا، ان کی ہجرت گاہ شہر مدینہ ہوگی۔ ان کی حکومت ملک شام کی حدوں تک پھیل جائے گی۔ ان کا کردار یہ ہوگا کہ نہ تو ان کی زبان میں ترشی ہوگی، نہ ان کے دل میں سختی ہوگی، نہ ان کی گفتگو میں کوئی سختی ہوگی، نہ فحش گو ہوں گے، نہ بے ہودہ بات کریں گے، نہ کسی کی زیادتی کا جواب زیادتی سے دیں گے۔ میں نے چونکہ تورات میں یہ اوصاف پڑھے تھے لہذا اس پڑھی ہوئی روایت کا امتحان لینے آیا تھا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہی محمد بن عبداللہ اور وہی رسول آخرالزماں ہیں تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتحان لوں۔ میں نے آپ کو سچا پایا۔(تبريزی، مشکوٰة المصابيح، 3 : 268، 5832)
No comments:
Post a Comment