Thursday 8 December 2016

نبی کا ایک معنیٰ جدا ( علیحدہ ) بھی ہے

0 comments
لفظ اَلنَّبْوةُ، اَلنَّبَاوَة سے نبی کا ایک اور دلچسپ معنی بھی ہے۔ وہ معنی ہے اَلْجَفْوَہ ’’جدائی، علیحدگی‘‘۔ اس معنی کی رو سے نبی کا معنی ہے وہ ذات جو جدا اور علیحدہ ہو۔قرآن مجید میں ہے کہ : تَتَجَافٰی جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ.(السجدة: 16)

ترجمہ : ان کے پہلو اُن کی خوابگاہوں سے جدا رہتے ہیں ۔

اس آیت مبارکہ میں بستر سے جدا کے لئے تَتَجَافٰی کا لفظ استعمال کیا جو اَلْجَفْوٰی سے ہے۔ نبوت کا ایک معنی یہی اَلْجفوٰی ہے۔ اس معنی کی رُو سے نبی وہ ہے جو علیحدہ ہو، جو دوسروں سے جدا ہو۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی کس طرح دوسروں سے جدا ہوتا ہے؟ اس معنی کی رو سے جدائی دو طرح کی ہے:

( 1 ) ذاتی طور پر دوسروں سے جدا۔
( 2 )  معاشرتی رسوم و رواج سے علیحدہ۔

( 1 ) ۔ ذاتی طور پر دوسروں سے جدا : نبی کی اپنی ذات میں علیحدگی اور جدائی یہ ہے کہ وہ اپنی ذات میں پیکر بشریت ہوتا ہے مگر باقی بشروں سے جدا ہوتا ہے، عالم بشریت سے علیحدہ ہوتا ہے۔ نبی کے وجود انسانی اور پیکر بشریت میں خود ایک جدائی اور علیحدگی ہوتی ہے۔ یہ مقامِ نبوی جو انہیں دوسروں سے جدا کرتا ہے بایں طور ہے کہ بشری پیکر ہونے کے باوجود وہ بشریت کے وصف سے علیحدہ ہوتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیکر بشری تھا مگر سایہ نہ تھا، ہر بشری اور انسانی وجود کا سایہ ہوتا ہے، سائے کے بغیر کوئی وجود نہیں۔ جب پیکر بشری ہو مگر سایہ نہ ہو تو بشری پیکر رکھنے کے باوجود بشریت سے جدا ہوگئے۔۔۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسینہ آتا تھا مگر پسینے میں بدبو نہ تھی بلکہ خوشبو تھی، لہذا اپنے پیکر بشری میں دوسروں سے جدا ہوگئے۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جسم رکھتے تھے مگر اس پر مکھی نہ بیٹھتی تھی۔۔۔ انسانی جسم تھا، جسم کی ضرورتیں ہوتی ہیں مگر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلسل فاقوں سے ساری زندگی گزاری اور کبھی کمزوری نہ ہوئی۔۔۔ اس پیکر نبوت کی آنکھیں تھیں، آنکھیں صرف آگے دیکھنے کے لئے ہوتی ہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں جس طرح آگے دیکھتی تھیں اسی طرح پیچھے بھی دیکھتی تھیں۔۔۔ ہماری آنکھیں روشنی میں دیکھتی ہیں، اندھیرے میں نہیں دیکھ سکتیں مگر آقا علیہ السلام کا پیکر بشریت طیبہ ایسا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں اندھیرے میں اسی طرح دیکھتیں جس طرح اجالے میں دیکھتیں۔۔۔ تمام پیکران بشریت کے لعاب دہن سے امراض پیدا ہوتے ہیں، جراثیم پیدا ہوتے ہیں مگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جسے اپنا لعاب دہن لگا دیتے تو اس کو شفا مل جاتی، اندھے کو بینائی مل جاتی، بیماروں کی امراض دور ہوجاتیں۔

گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم بشریت سے تھے مگر بشری خصائص سے جدا اور علیحدہ ہوگئے تھے۔ بشری پیکر رکھ کر اس طرح بشری خصائل سے الگ ہوئے کہ عالم نور کے ملائکہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تلوؤں کے برابر نہ رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرشی ہوکر عرشیوں سے بھی اونچی شان کے حامل ہوگئے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی ذات کے اعتبار سے دوسروں سے علیحدگی اور جدائی کی شان ہے۔

( 2 ) ۔ معاشرتی رسوم و رواج سے علیحدہ : ایک علیحدگی اور جدائی کی شان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایسی بھی ہے جس کا تعلق اس اجتماع اور معاشرت کے ساتھ تھا جس میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رہتے تھے۔ وہ جدائی یہ ہے کہ جس معاشرے میں آقا علیہ السلام کی بعثت ہوئی، اس معاشرے کا عالم یہ تھا کہ لوگ قتل و غارتگری کرتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی بات پر نسلیں قتل ہوجاتی تھیں، پڑھنے لکھنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ جہالت، ظلم، جبر، بربریت مسلط تھی۔ نفرتیں عام تھیں، انسانیت کی کوئی قدر اور عزت نہ تھی۔ خون خرابہ اور دشمنی و عداوت عام تھی۔ قبیلوں میں اگر لڑائی ہوجاتی تو دو دو سو سال جنگیں چلتی تھیں اور ہزارہا لوگ مارے جاتے اور انسانی لاشوں کے ڈھیر لگ جاتے تھے۔

ایسے معاشرے میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ جدائی بایں طور سامنے آئی کہ آپ اس قتل و غارت کے معاشرے میں پیکر امن بن کر تشریف لائے۔ وہ معاشرہ جس میں انسان کی عزت و تکریم کا کوئی تصور نہ تھا، آقا علیہ السلام اس معاشرے میں رہے اور اس معاشرے کے برے رسم و رواج سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے انسان کی تکریم و عظمت کا سبق دیا۔۔۔ قتل و غارتگری سے منع کیا۔۔۔ ان پڑھوں کو پڑھنا لکھنا سکھایا۔۔۔ دشمنی کرنے والوں کو محبت کرنا سکھایا۔۔۔ خون خرابہ کرنے والوں کو خون کی حفاظت کرنا سکھایا۔۔۔ عزتیں لوٹنے والوں کو عزت بچانا سکھایا۔۔۔ پورے معاشرے میں جبر اور بربریت کرنے والوں کو رحمت کا طریقہ سکھایا۔ اس طرح معاشرے کی جو روش اور طریقہ تھا، آقا علیہ السلام اس طریقہ اور روش سے علیحدہ ہوتے ہوئے اس اجتماع اور معاشرے کی خصلتوں سے جدا ہوگئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی معاشرے میں پیدا ہوئے، اسی معاشرے میں بچپن، لڑکپن اور جوانی گزاری۔ اس معاشرے میں شب و روز گزارے جہاں طاقتور، کمزور کو غلام بنالیتے تھے، انہیں کوڑوں سے مارتے تھے، انہیں پتھروں کی سزا دیتے اور آگ میں جلادیتے، چھوٹی چھوٹی بات پر قتل کردیتے۔ پوری زندگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرب کے اس معاشرے میں گزاری۔ اس دور میں کوئی جدید تہذیب نہ تھی، کوئی ماڈرن کلچر نہ تھا، میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روم، مصر اور بابل نہیں گئے، وہ کتابوں اور انٹرنیٹ کا دور بھی نہ تھا۔ وہی معاشرہ ہی ہر ایک کا استاد تھا مگر اس معاشرے میں جنم لینے کے باوجود آقا علیہ السلام نے اس معاشرے کو اپنا استاد نہیں بنایا بلکہ خود اس معاشرے کے استاد بن گئے، اس معاشرے کے معلم، مرشد، ہادی اور رہبر بنے اور اس طرح معاشرے کی روش سے جدا ہوگئے۔ کردار، آئیڈیاز، فکر، سوچ، تعلیم اور عمل کی یہ جدائی اور علیحدگی بایں طور سامنے آئی کہ اس معاشرے کو امن اور رحمت کا مرکز بنا دیا۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔