Wednesday, 14 December 2016

التبشیر برد التحذیر : از قلم استاذی المکرم غزالی زماں سید احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ( حصّہ دوم )

 پیشکش ڈاکٹر فیض احمد چشتی

ایک اعتراض کا جواب : ’’الفرقان‘‘ وغیرہ میں کم فہمی یا مغالطہ کی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ ہمارا تمہارا دونوں کا متفق علیہ مسلک ہے کہ کسی کو کوئی کمال رسول کریم ﷺ کے واسطے کے بغیر نہیں ملا اور نبوت بھی کمال ہے۔ وہ حضور ﷺ کے واسطے کے بغیر کسی کو کیونکر مل سکتی ہے؟ لہٰذا مانا پڑے گا کہ ہر نبی کو وصف نبوت بواسطہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم دیا گیا اور بالذات اور بالعرض سے یہی مراد ہے۔

اس کے جواب میں گزارش کروں گا کہ یہ ایک عجیب قسم کا مغالطہ ہے جس سے جہلاء تو متاثر ہو سکتے ہیں مگر ذی علم انسان کی نظر میں اس کی کچھ حقیقت نہیں۔ نانوتوی صاحب نے حضور ﷺ کو وصف نبوت کے ساتھ بالذات موصوف مانا ہے جس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے تحذیر الناس میں لکھا ہے
’’تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ موصوف بالعرض کا قصہ موصوف بالذات پر ختم ہو جاتا ہے جیسے موصوف بالعرض کا وصف موصوف بالذات سے مکتسب ہوتا ہے۔ موصوف بالذات کا وصف جس کا ذاتی ہونا اور غیر مکتسب من الغیر ہونا لفظ بالذات ہی سے معلوم ہے کسی غیر سے مکتسب اور مستعار نہیں ہوتا۔‘‘ (تحذیر الناس ص ۳)

آگے چل کر لکھتے ہیں : ’’الغرض یہ بات بدیہی ہے کہ موصوف بالذات سے آگے سلسلہ ختم ہو جاتا ہے چنانچہ خدا کے لئے کسی اور خدا کے نہ ہونے کی وجہ اگر ہے تو یہی ہے۔‘‘(تحذیر الناس ص ۳)

ان دونوں عبارات سے صاف ظاہر ہے کہ نانوتوی صاحب کے نزدیک وصف ذاتی سے وہ وصف مراد ہے جس پر وصف عرضی کا قصہ ختم ہو جائے جیسا کہ انہوں نے خدا کے لئے کسی اور خدا کے نہ ہونے کی یہی وجہ بیان کی ہے۔

لیکن امت مسلمہ کے نزدیک حصول کمال میں حضور ﷺ کے واسطہ ہونے سے یہ مراد نہیں کیونکہ حضور ﷺ ہر کمال کے حصول میں واسطہ ہیں خواہ وہ نبوت ہو یا غیر نبوت۔ حتیٰ کہ حصول ایمان میں بھی حضور ﷺ واسطہ ہیں۔ نانوتوی صاحب بھی اسی کے قائل ہیں۔ چنانچہ انہوں نے تحذیر الناس میں ارقام فرمایا
’’اور یہ بات اس بات کو مستلزم ہے کہ وصف ایمانی آپ میں بالذات ہو اور مومنین میں بالعرض۔‘‘ (تحذیر الناس ص ۱۲)

مگر آج تک کسی نے نہیں کہا کہ معاذ اللہ ایمان، علم، عمل، ایقان، ہدایت و تقویٰ کا سلسلہ حضور ﷺ پر ختم ہو گیا اور حضور ﷺ کے بعد کوئی مومن نہیں ہوا نہ صالح نہ متقی نہ مہتد، العیاذ باللہ بلکہ یہ سب اوصاف و کمالات اب بھی جاری ہیں اور آئندہ بھی جاری رہیں گے اور نبوت کے جاری نہ ہونے کی یہ وجہ آج تک کسی نے بیان نہیں کی کہ حضور ﷺ کے علاوہ دیگر انبیاء علیہم السلام میں اس وصف کے عرضی ہونے کی وجہ سے موصوف بالعرض کا سلسلہ موصوف بالذات پر ختم ہو گیا بلکہ محض اس لئے کہ آیۂ کریمہ ’’وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ اور اسی طرح احادیث متواترۃ المعنی حضور ﷺ کے آخری النبیین ہونے پر دلالت قطعیہ کے ساتھ دال ہیں۔ ورنہ اگر وصف ذاتی کی بنا پر امت مسلمہ حضور ﷺ کی ذاتِ مقدسہ پر سلسلۂ نبوت ختم ہونے کی قائل ہوتی تو اسے بقیہ تمام اوصاف کو بھی اسی اتصاف ذاتی کی وجہ سے حضور ﷺ پر ختم کرنا پڑتا یعنی اس امر کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا کہ نبوت کے ساتھ ایمان و ایقان، عمل و ہدایت و تقویٰ وغیرہ تمام اوصافِ حسنہ بلکہ سب کمالات حضور ﷺ پر ختم ہو گئے۔ اب حضور ﷺ کے بعد معاذ اللہ نہ کوئی مومن ہے نہ متقی، نہ صالح نہ عالم۔ کیونکہ موصوف بالعرض کا قصہ موصوف بالذات پر ختم ہو گیا۔ مگر ایسی بات کا تسلیم کرنا تو درکنار اس کا تصور بھی اسلامی ذہن کے لئے ناقابل برداشت ہے۔

واسطہ کمال نبوت ہونا اور نبوت سے
بالذات متصف ہونا ایک بات نہیں
معلوم ہوا کہ امت مسلمہ کے مسلک کے مطابق حضور ﷺ کا واسطہ کمال نبوت ہونا اور صاحب تحذیر الناس کے قول کے مطابق حضور کا کمال نبوت سے متصف بالذات ہونا ایک بات نہیں، دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ نانوتوی صاحب کے قول پر نفس کمال نبوت میں تفضل کا قول کرنا پڑتا ہے جس کا بطلان ہم ابھی کتاب و سنت اور اقوال مفسرین و محدثین سے بیان کر چکے ہیں اور امت مسلمہ کے مسلک کی روشنی میں حضور کی ذات مقدسہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جس کی حقانیت پر آیۂ کریمہ ’’تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘‘ شاہد عدل ہے۔

الحمد للّٰہ! اس بیان کی روشنی میں ’’الفرقان‘‘ کا یہ اعتراض ھبایٔ منثورًا ہو گیا اور حقیقت واقعیہ واضح ہو کر سامنے آ گئی۔

موصوف بالذات کے لئے تاخر زمانی کا لزوم
البتہ اس مقام پر پرستارانِ تحذیر کو سوچنا پڑے گا کہ موصوف بالذات پر موصوف بالعرض کے سلسلہ کو ختم کر کے تاخر زمانی کے لزوم کا قول کیسے قبیح نتائج پر منتج ہوتا ہے۔ اس قول کی بنا پر سد باب نبوت ہی کے لزوم پر بات ختم نہیں ہوتی بلکہ ایمان و ایقان، علم و عمل، ہدایت و تقویٰ غرض ہر خوبی اور ہر کمال کا دروازہ بند ہونا لازم آتا ہے اور نبی کریم ﷺ کے بعد جس طرح کسی نبی کے آنے کے استحالہ کا لزوم مانا گیا ہے اسی طرح مومن صالح متقی مہتد کے وجود کو بھی حضور کے بعد محال ماننا پڑتا ہے کیونکہ تحذیر الناس کا بنیادی نکتہ ہی یہ ہے کہ موصوف بالذات کے لئے تأخر زمانی لازم ہے۔

اصل مبحث : تحذیر الناس کی متنازعہ عبارات کے مطالب کی توضیح کے لئے ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے یہ بتائیں کہ رسالہ تحذیر الناس کس مسئلہ پر لکھا گیا ہے۔ بنا بریں گزارش ہے کہ اس رسالہ تحذیر الناس کی بنیاد ایک استفتاء پر ہے جو قول منسوب الی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے متعلق نانوتوی صاحب کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے اور انہوں نے اس کے جواب میں رسالہ تحذیر الناس تحریر کیا۔ وہ قول مذکور حسب ذیل ہے
ان اللّٰہ خلق سبع ارضین فی کل ارض اٰدم کادمکم ونوح کنو حکم وابراہیم کابراہیمکم وعیسٰی کعیساکم ونبی کنبیکم۔ (تحذیر ص ۳)
(ترجمہ) بے شک اللہ تعالیٰ نے سات زمینیں پیدا کیں۔ ہر زمین میں آدم ہے تمہارے آدم کی طرح اور نوح ہے تمہارے نوح کی طرح اور ابراہیم ہے تمہارے ابراہیم کی طرح اور عیسیٰ ہے تمہارے عیسیٰ کی طرح اور نبی ہے تمہارے نبی کی طرح
(علٰی نبینا وعلیہم الصلٰوۃ والسلام ناقل)

کتاب اللہ کو تاویلات کا تختۂ مشق بنا ڈالا
اس قول سے صاف ظاہر ہے کہ ساتوں زمینوں میں ایک ایک نبی بلکہ خاتم النبیین پایا جاتا ہے۔ لہٰذا ہمارے رسول کریم خاتم النبیین کے علاوہ چھ خاتم بقیہ چھ زمینوں میں مزید ثابت ہوئے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے اس قول کی صحت میں علمائے محدثین کا اختلاف ہے۔ مگر صاحب تحذیر الناس نے اسے صحیح مان کر جواب لکھا ہے۔ چونکہ اس روایت کا مضمون آیۂ کریمہ ’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالکُمْ وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ کے خلاف ظاہر ہوتا تھا اس لئے صاحب تحذیر الناس نے اس بات کی کوشش کی کہ اس ظہور تخالف کو کس طرح دور کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے بجائے اس کے کہ وہ اس مختلف فیہ قول میں کوئی تاویل کرتے انہوں نے قرآن کریم کی آیۂ کریمہ اور کتاب اللہ کی نص صریح کو اپنی تاویلات کا تختۂ مشق بنا ڈالا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا
’’بعد حمد و صلوٰۃ کے قبل عرض جواب یہ گزارش ہے کہ اول معنی خاتم النبیین معلوم کرنے چاہئیں تاکہ فہم جواب میں کچھ دقت نہ ہو۔ سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ ﷺ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے بعد ہے اور آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہے کہ تقدم یا تأخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں ’’وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔ ہاں اگر اس وصف کو اوصافِ مدح میں سے نہ کہئے اور اس مقام کو مقام مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیت باعتبار تأخر زمانی صحیح ہو سکتی ہے۔ مگر میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہو گی کہ ا س میں ایک تو خدا کی جانب نعوذ باللہ زیادہ گوئی کا وہم ہے۔ آخر اس وصف میں اور قد وقامت و شکل و رنگ و حسب و نسب و سکونت وغیرہ اوصاف میں جن کو نبوت یا اور فضائل میں کچھ دخل نہیں، کیا فرق ہے جو اس کو ذکر کیا اوروں کو ذکر نہ کیا۔ دوسرے رسول اللہ ﷺ کی جانب نقصان قدر احتمال ہے کیونکہ اہل کمال کے کمالات کا ذکر کیا کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کے اس قسم کے احوال بیان کرتے ہیں۔ اعتبار نہ ہو تو تاریخوں کو دیکھ لیجئے۔ باقی یہ احتمال کہ دین آخری دین تھا اس لئے سد باب اتباع مدعیان نبوت کیا ہے جو کل جھوٹے دعوے کر کے خلائق کو گمراہ کریں گے۔ البتہ فی حد ذاتہ قابل لحاظ ہے۔ پر جملہ ’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ‘‘ اور جملہ ’’وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ میں کیا تناسب تھا جو ایک دوسرے کو عطف کیا اور ایک کو مستدرک منہ اور دوسرے کو مستدرک قرار دیا۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی بے ربطی اور بے ارتباطی خدا کے کلام معجز نظام میں متصور نہیں۔ اگر سد باب منظور ہی تھا تو اس کے لئے بیسیوں موقع تھے بلکہ بناء خاتمیت اور بات پر ہے جس سے تأخر زمانی اور سد باب مذکور خود بخود لازم آ جاتا ہے اور فضیلت نبوی دوبالا ہو جاتی ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ موصوف بالعرض کا قصہ موصوف بالذات پر ختم ہو جاتا ہے۔ جیسے موصوف بالعرض کا وصف موصوف بالذات سے مکتسب ہوتا ہے۔ موصوف بالذات کا وصف جس کا ذاتی ہونا اور غیر مکتسب من الغیر ہونا لفظ بالذات ہی سے مفہوم ہے کسی غیر سے مکتسب اور مستعار نہیں ہوتا۔‘‘ (تحذیر الناس ص ۳، ۴)

اس عبارت میں صاحب تحذیر الناس نے مندرجہ ذیل غلطیاں کی ہیں جن کا ارتکاب مضمون آیت کے بالکل خلاف اور اسلامی عقائد کے صریح منافی ہے۔

تحذیر الناس میں نانوتوی صاحب کی غلطیاں
غلطی نمبر ۱
نانوتوی صاحب نے ایک ایسی روایت کی حمایت میں جس کی صحت محدثین کی نظر میں محلّ نظر ہے اور اس کا ظاہر مفہوم بھی آیۂ قرآنیہ کے اجماعی مفہوم کے خلاف ہے، کلام الٰہی میں تاویلات فاسدہ کیں۔
غلطی نمبر ۲
قرآن میں لفظ خاتم النبیین کے معنی آخر النبیین مراد لینا عوام کا خیال بتایا۔
غلطی نمبر ۳
اہل فہم کے نزدیک تأخر زمانی کے وصف کو اس قابل نہ مانا کہ اسے مقام مدح میں ذکر کیا جائے۔
غلطی نمبر ۴
تأخر زمانی کی تقدیر پر آیۂ کریمہ کے دونوں جملوں کو غیر مربوط اور استدراک کو غیر صحیح قرار دیا جو اللہ تعالیٰ کے کلام معجز نظام میں متصور نہیں۔
غلطی نمبر ۵
آیۂ کریمہ میں لفظ خاتم النبیین کو بمعنی آخر النبیین تسلیم کرنے پر اللہ تعالیٰ کے حق میں معاذ اللہ زیادہ گوئی کا وہم پیدا کیا۔
غلطی نمبر ۶
آیۂ کریمہ میں لفظ خاتم النبیین سے آخر النبیین مراد لینے کی صورت میں معاذ اللہ رسول اللہ ﷺ کی جانب نقصان قدر کا احتمال قائم کیا۔
غلطی نمبر ۷
حضور ﷺ کے وصف آخر النبیین و دیگر اوصاف مثلاً حسب نسب اور سکونت وغیرہ میں کوئی فرق نہ جانا گویا نانوتوی صاحب کے نزدیک آخر النبیین ہونے کے وصف اور ہاشمی قریشی یا مکی مدنی ہونے کی صفت میں معاذ اللہ کوئی فرق نہیں حالانکہ ہاشمی قریشی یا مکی مدنی ہونے کی صفت تو بعض مشرکین کفار اور منافقین کے لئے بھی ثابت تھی مگر اس کے باوجود نانوتوی صاحب کو ان اوصاف اور خاتم النبیین ہونے کی صفت میں کوئی فرق نظر نہ آیا۔
غلطی نمبر ۸
آیۂ کریمہ ’’وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ میں بنائے خاتمیت ختم ذاتی کو قرار دیا اور تأخر زمانی کو مبناء خاتمیت تسلیم نہ کیا حالانکہ عہد رسالت سے لے کر آج تک کسی مفسر نے تاخر زمانی کے سوا کسی اور بات کو بنائے خاتمیت قرار نہیں دیا۔
غلطی نمبر ۹
نبوت کو بالذات اور بالعرض کی طرف تقسیم کیا۔ نانوتوی صاحب کی یہ اتنی بڑی جرأت ہے جو چودہ سو برس کے عرصہ میں کسی مسلمان نے نہیں کی۔
غلطی نمبر ۱۰
نانوتوی صاحب کے نزدیک کلام الٰہی ’’وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ کا سوق رسول اللہ ﷺ کے تاخر زمانی کے بیان کرنے کے لئے نہیں ہوا بلکہ سوق کلام خاتمیت ذاتیہ کے لئے ہوا جس کا مفاد یہ ہے کہ آیت کریمہ ’’وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ نانوتوی صاحب کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کے آخر النبیین ہونے کے معنی میں نص نہیں۔
غلطی نمبر ۱۱
نانوتوی صاحب کے نزدیک ختم زمانی کے لئے تاخر ذاتی لازم ہے حالانکہ یہ بات بداہۃً باطل ہے۔ جیسا کہ ان شاء اللہ اس پر تنبیہ کی جائے گی۔
غلطی نمبر ۱۲
نانوتوی صاحب نے آیۂ کریمہ ’’وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے خرق اجماع کیا اور وہ تقریر کی جس کی طرف علمائِ امت میں سے کسی کا ذہن منتقل نہ ہوا تھا۔
غلطی نمبر ۱۳
نانوتوی صاحب کے نزدیک ختم زمانی کے مقابلہ میں ختم ذاتی حضور ﷺ کے شایانِ شان ہے، ختم زمانی نہیں۔
غلطی نمبر ۱۴
اس بحث میں نانوتوی صاحب نے ایک دعویٰ کی دلیل بیان کرتے ہوئے ص ۵ پر لکھا کہ
’’انبیاء اپنی امت سے اگر ممتاز ہوتے ہیں تو علوم ہی میں ممتاز ہوتے ہیں باقی رہا عمل سو اس میں بسا اوقات بظاہر امتی مساوی ہو جاتے ہیں بلکہ بڑھ بھی جاتے ہیں۔‘‘

اس عبارت میں نانوتوی صاحب نے انبیاء علیہم السلام کا اپنی امت سے ممتاز ہونا صرف علم میں منحصر فرمایا ہے۔ باقی رہے اعمال تو ان میں امتی کے مساوی ہو جانے بلکہ بڑھ جانے کو بھی تسلیم کر لیا ہے اور لفظ ’’بظاہر‘‘ محض بظاہر ہے۔ کیونکہ لفظ ’’ہی‘‘ کے ساتھ حصر ہو چکا جس میں ماسوا مذکور کی نفی ہوتی ہے تو اس کے ضمن میں امتیاز فی العمل کی نفی ہو چکی۔ اب لفظ ’’بظاہر‘‘ سے کیا فائدہ ہوا؟ یہاں یہ لفظ ’’بظاہر‘‘ ایسا ہی مہمل اور بے معنی ہے۔ جیسا کہ ص ۳ کی عبارت میں لفظ ’’بالذات‘‘ بے معنی اور مہمل تھا۔

ہمیں الزام دینے والے اپنے گریباں میں منہ ڈالیں
لوگ ہم پر الزام عائد کرتے ہیں کہ یہ لوگ حضور ﷺ کے بارے میں حدود شرعی کتاب و سنت کے ارشادات و علمائے امت کی تصریحات سے بے نیاز ہو کر جو کچھ ان کے دل میں آتا ہے کہہ دیا کرتے ہیں اور کبھی اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ قرآن و حدیث اور سلف صالحین نے اس مسئلہ میں کیا فیصلہ کیا ہے لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ ہمیں موردِ الزام قرار دینے والے ذرا اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھیں کہ ان کے سب سے بڑے مقتدا (بزعم ایشاں قاسم العلوم والخیرات) نانوتوی صاحب نے کیا گل کھلائے ہیں۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ تحذیر الناس لکھتے وقت نانوتوی صاحب کے پیش نظر حضور ﷺ کے فضل و کمال کے اثبات سے زیادہ اپنے کمال علمی کا اظہار تھا جس کا نتیجہ ان اغلاط کی صورت میں ظاہر ہوا۔ پرستارانِ تحذیر کے اس ادعا سے اختلاف کرنے کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ نانوتوی صاحب نے یہ رسالہ حضور ﷺ کے کمالِ فضل کو ثابت کرنے کی غرض سے لکھا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ غرض پوری بھی ہوئی یا نہیں۔ میں عرض کروں گا کہ ہرگز یہ غرض پوری نہیں ہوئی۔ نانوتوی صاحب نے اپنے قیاساتِ فاسدہ کو معیار فضیلت سمجھا ہے جس کی بنا پر ختم ذاتی کی دور از کار تاویل میں انہیں جانا پڑا اور نبوت کی تقسیم بالذات اور بالعرض کی جرأت عظیمہ سے کام لینے پر وہ مجبور ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ فضیلت صرف اس وصف میں ہے جس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے موجب فضیلت قرار دیا۔ قرآن و حدیث کو لاکھ بار پڑھ جایئے ختم ذاتی اور نبوت بالذات کا کوئی ذکر آپ کو نہ ملے گا۔ نہ عہد رسالت سے لے کر آج تک کسی مفسر و محدث یا متکلم و مجتہد نے ان باتوں کا ذکر کیا۔ جس چیز کو قرآن و حدیث اور سلف صالحین نے فضیلت قرار نہیں دیا۔ نانوتوی صاحب اسے مدارِ فضیلت اور بنائے خاتمیت قرار دیتے ہیں۔ یہ کتاب و سنت و ارشادات سلف صالحین کی طرف سے آنکھیں بند کر کے حدودِ شرع سے تجاوز کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟

تحذیر الناس کی چودہ غلطیاں
سطحی نظر ڈالنے سے مذکورہ بالا چودہ غلطیاں سامنے آئیں۔ بنظر غائر دیکھنے سے نامعلوم اور کتنی اغلاط نکلیں گی اس کے بعد ہر غلطی پر اس کے مناسب روشنی ڈالتا ہوں تاکہ حقیقت حال بے نقاب ہو کر سامنے آ جائے۔
غلطی نمبر ۱
اس کے متعلق میں عرض کرتا ہوں کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت کو اگر صحیح مان لیا جائے تب بھی وہ ایک ظنی قول ہو گا جو آیۂ کریمہ ’’وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ کے ظاہر معنی کے منافی ہے اور آیۂ کریمہ قطعی ہے۔ ظنی کی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے قطعی میں تاویل کرنا کیونکر جائز ہو سکتا ہے؟ پھر تاویل بھی ایسی جو انتہائی رکیک بلکہ دلیل قطعی کے مدلول قطعی کے بالکل مخالف

محققین صوفیہ کی تاویل
محققین صوفیہ نے بھی روایت مذکورہ کو قولِ خداوندی ’’وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ کے ساتھ ملا کر دیکھا تو انہوں نے دونوں کی حیثیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے قولِ خداوندی میں تاویل کو جائز نہیں رکھا بلکہ اس روایت میں تاویل کی اور اسے عالم شہادت کی بجائے عالم مثال پر محمول کیا اور یہ کہا کہ جس آدم، نوح، ابراہیم، عیسیٰ اور نبی کریم علیہم الصلوٰۃ والتسلیم کا بقیہ چھ زمینوں میں ہونا اس روایت میں مذکور ہے وہ ہماری اس زمین کے آدم، نوح، ابراہیم، عیسیٰ، نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیہم اجمعین وبارک وسلم کے غیر نہیں بلکہ ان مقدسین کے حقائق مثالیہ ہیں اور یہ کہ یہاں کاف حرف تشبیہ زائد ہے جیسا کہ ’’لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَئ‘‘ میں کاف کے بارے میں ایک قول اس کے زائد ہونے کا کتب نحو میں مذکور ہے مگر نانوتوی صاحب کو اپنی جودت طبع کا مظاہرہ کرنا مقصود تھا اس لئے انہوں نے ظنی کے مقابلہ میں قطعی کو اپنی تاویلات کا تختۂ مشق بنا لیا۔
غلطی نمبر ۲
اس کے متعلق گزارش ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے بھی خاتم النبیین کی تفسیر میں ’’لا نبی بعدی‘‘ فرما کر لفظ خاتم النبیین کے معنی آخر النبیین متعین فرما دئیے۔ جیسا کہ احادیث صحیحہ میں بکثرت وارد ہے کہ ’’انا خاتم النبیین لا نبی بعدی‘‘ اور خلفائے راشدین اور صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سب بالاتفاق خاتم النبیین کے معنی آخر النبیین ہی سمجھتے رہے جس کا انکار ملحدین کے سوا کوئی کلمہ گو مدعی اسلام نہیں کر سکتا اور آج تک امت مسلمہ کا اجماع اسی بات پر ہے کہ قولِ خداوندی ’’وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے اور جو اس کا مفہوم ظاہری الفاظ سے سمجھ میں آتا ہے وہی بغیر کسی تاویل و تخصیص کے مراد ہے۔ جیسا کہ ’’ختم النبوۃ فی الاٰثار‘‘ مرتبہ مفتی محمد شفیع صاحب حال مقیم کراچی کے ص ۹ پر شفا قاضی عیاض سے نقل کر کے اس کا اردو ترجمہ بھی مؤلف نے خود ہی کر دیا ہے جو پرستارانِ تحذیر پر حجت قویہ ہے۔ دیکھئے وہ لکھتے ہیں
’’لانہ اخبر انہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم خاتم النبیین ولا نبی بعدہ واخبر عن اللّٰہ تعالٰی انہ خاتم النبیین واجمعت الامۃ علی حمل ہٰذا الکلام علی ظاہرہ وان مفہوم المراد بہ دون تاویل ولا تخصیص فلا شک فی کفر ہٰؤلاء الطوائف کلہا قطعًا اجماعًا سمعًا۔‘‘
(ترجمہ) اس لئے کہ آپ نے خبر دی ہے کہ آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دی ہے کہ آپ انبیاء کے ختم کرنے والے ہیں اور اس پر امت کا اجماع ہے کہ یہ کلام بالکل اپنے ظاہری معنوں پر محمول ہے اور جو اس کا مفہوم ظاہری الفاظ سے سمجھ میں آتا ہے وہ ہی بغیر کسی تاویل و تخصیص کے مراد ہے۔ پس ان لوگوں کے کفر میں کوئی شک نہیں جو اس کا انکار کریں اور یہ قطعی اور اجماعی عقیدہ ہے۔‘‘

ایسی صورت میں خاتم النبیین کے معنی آخر النبیین کو عوام کا خیال قرار دینا معاذ اللہ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ مقدسہ اور اس وقت تک ساری امت کو عوام میں شمار کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟

ایک عجیب قسم کا مغالطہ
اس مقام پر نانوتوی صاحب کی کسی دوسری کتاب سے حسب ذیل عبارت پیش کر کے ایک عجیب قسم کا مغالطہ دیا جاتا ہے۔ وہ عبارت یہ ہے
’’جز انبیاء کرام علیہم السلام یا راسخان فی العلم ہمہ عوام اند‘‘
’’مدیر الفرقان‘‘ نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے
’’باب تفسیر میں سوائے انبیاء علیہم السلام اور راسخان فی العلم کے سب عوام ہیں۔‘‘

لیکن اس کا مطلب صاف واضح ہے کہ تفسیر کے باب میں انبیاء علیہم السلام اور راسخین فی العلم کے سوا کسی کا قول معتبر نہیں۔ اس عبارت میں لفظ ’’عوام‘‘ انبیاء علیہم السلام اور راسخین فی العلم کے مقابلہ میں واقع ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ ان ہی دونوں کے اقوال مبارکہ باب تفسیر میں حجت ہیں اس لئے یہاں لفظ ’’عوام‘‘ سے قطعاً وہی لوگ مراد ہیں جن کا قول باب تفسیر میں لائق التفات نہیں۔ بخلاف عبارت تحذیر کے وہاں لفظ ’’عوام‘‘ اہل فہم کے مقابلہ میں لایا گیا ہے اس لئے اس کے معنی کم فہم اور نا سمجھ لوگوں کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتے۔ ’’الاشیاء تتبین باضدادہا‘‘ چیزیں اپنی ضد سے ظاہر ہوتی ہیں۔

عام محاورہ میں بھی لفظ ’’عوام‘‘ اگر حکومت کے مقابلہ میں بولا جائے تو اس سے صاف طور پر رعایا کے افراد مراد ہوں گے۔ عام اس سے کہ وہ افراد علماء و راسخین ہوں اور عارفین صالحین یا ان پڑھ جاہل اور اشرار و مفسدین لیکن یہی لفظ ’’عوام‘‘ اگر علماء کے مقابلہ میں بولا جائے تو اس سے صرف غیر عالم افراد مراد ہوں گے خواہ وہ لوگ ارباب حکومت ہوں یا ان کے ماسوا۔

پیش کردہ عبارت کا مفاد
بنا بریں اس پیش کردہ عبارت کا مفاد یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ لفظ ’’عوام‘‘ جس کلام میں بھی وارد ہو وہاں انبیاء کرام اور راسخین فی العلم کے ماسوا مراد ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ الفاظ کے معانی ان کے مقابلات سے واضح ہو جایا کرتے ہیں اور مقابلات کے بدل جانے سے مرادی معنی بدل جاتے ہیں لہٰذا ایک کا قیاس دوسرے پر قیاس مع الفارق ہے۔ معلوم ہوا کہ ص ۳ والی عبارت میں لفظ ’’عوام‘‘ سے محض ناسمجھ لوگ مراد ہیں اور بس۔ علاوہ ازیں میں عرض کروں گا کہ جب نانوتوی صاحب باب تفسیر میں انبیاء علیہم السلام اور راسخین فی العلم کے سوا سب کو عوام کہتے ہیں تو وہ خود بھی عوام میں شامل ہوئے ایسی صورت میں خاتم النبیین کی تفسیر میں نانوتوی صاحب کا ختم ذاتی کا قول کیونکر قابل التفات ہو سکتا ہے؟

نانوتوی صاحب کے نزدیک سب عوام ہیں
اس بیان سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی کہ نانوتوی صاحب کے نزدیک لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ کو ’’آخر النبیین‘‘ میں لینے والے ناسمجھ عوام ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ خاتم النبیین کو آخر النبیین کے معنی میں کس کس نے لیا تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ حسب زعم نانوتوی صاحب وہ ناسمجھ عوام کون لوگ ہیں؟ تو ہم ابھی عرض کر چکے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ و خلفائے راشدین صحابہ کرام اہل بیت اطہار ائمہ مجتہدین علماء راسخین سب نے لفظ خاتم النبیین کو آخر النبیین کے معنی میں لیا ہے۔ لہٰذا بمعیت رسول اللہ ﷺ تمام اخیار امت بلکہ کل امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والتحیۃ معاذ اللہ ناسمجھ عوام میں داخل ہو گئے۔

حیرت ہے کہ صاحب تحذیر الناس نے اس تاویل کے وقت اس بات کا بھی خیال نہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی بھی عوام میں شامل ہو جائے گی۔

ایک مغالطہ کا ازالہ
اس مقام پر ایک اور مغالطہ کا دور کرنا بھی ضروری ہے وہ یہ کہ ’’نانوتوی صاحب نے خاتم النبیین کے معنی آخر النبیین لینے کو عوام کا خیال نہیں کہا بلکہ لفظ خاتم النبیین کو آخر النبیین کے معنی میں منحصر کرنے کو عوام کا خیال کہا ہے۔‘‘ میں عرض کروں گا کہ اول تو عبارت تحذیر میں حصر کا کوئی کلمہ نہیں دوم یہ کہ رسول اللہ ﷺ سے لے کر آج تک کسی نے اس آیۂ کریمہ میں خاتم النبیین کے معنی آخر النبیین کے سوا کئے ہی نہیں۔ اس لفظ کے بس یہی ایک معنی منقول متواتر ہیں۔ جب تک کوئی اور معنی منقول ثابت نہ ہو جائیں ان ہی معنی میں آیۂ کریمہ کی قطعی مراد منحصر رہے گی اور کوئی ایسے معنی جو اس معنی یا اس کی قطعیت کے خلاف ہوں ہرگز صحیح نہ ہوں گے۔

لفظ خاتم النبیین کی توجیہات
ہاں یہ ممکن ہے کہ لفظ خاتم النبیین کی بے شمار ایسی توجیہات نکلتی رہیں جو اس کے مدلول قطعی معنی متواتر کی مؤید اور اس کے موافق ہوں۔ کیونکہ قرآن مجید کا ایک ایک حرف مطالب لا تعدو لا تحصیٰ کا حامل ہے لیکن معنی منقول متواتر کو عوام کا خیال قرار دے کر اس لفظ کو ایسے معنی پر حمل کرنا جو کتاب و سنت کی روشنی میں باطل ہیں کسی طرح جائز نہیں ہو سکتا۔

اگر نانوتوی صاحب لفظ خاتم النبیین کے معنی منقول متواتر آخر النبیین کو قطعی مان کر لفظ خاتم النبیین کی کوئی ایسی توجیہ کرتے جو فی الواقع معنی آخر النبیین کے منافی نہ ہوتی تو ہمیں نانوتوی صاحب سے قطعاً کوئی اختلاف نہ ہوتا۔ مگر افسوس کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس کی بجائے لفظ خاتم النبیین کے معنی آخر النبیین مراد لینے کو عوام کا خیال قرار دے کر دین کے معاملہ میں انتہائی بے باکی اور جرأت سے کام لیا ہے۔

1 comment:

  1. قادیانی حضرات مولانا محمد قاسم نانوتوی کی کتاب “تحذیر الناس” کا حوالہ دیا کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نبی آسکتا ہے اور یہ کہ یہ امر خاتم النبیین کے منافی نہیں، حالانکہ حضرت کی تحریر اسی کتاب میں موجود ہے کہ جو شخص خاتمیت زمانی کا قائل نہ ہو وہ کافر ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
    “سو اگر اطلاق اور عموم ہے تب تو خاتمیت زمانی ظاہر ہے، ورنہ تسلیم لزوم خاتمیت زمانی بدلالت التزامی ضرور ثابت ہے، ادھر تصریحات نبوی مثل:“انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی۔” او کما قال۔
    جو بظاہر بطرز مذکورہ اسی لفظ خاتم النبیین سے ماخوذ ہے، اس باب میں کافی، کیونکہ یہ مضمون درجہ تواتر کو پہنچ گیا ہے، پھر اس پر اجماع بھی منعقد ہوگیا۔ گو الفاظ مذکور بہ سند تواتر منقول نہ ہوں، سو یہ عدم تواتر الفاظ، باوجود تواتر معنوی یہاں ایسا ہی ہوگا جیسا تواتر اعداد رکعات فرائض و وتر وغیرہ۔ باجودیکہ الفاظ حدیث مشعر تعداد رکعات متواتر نہیں، جیسا اس کا منکر کافر ہے، ایسا ہی اس کا منکر بھی کافر ہوگا۔”
    (تحذیر الناس طبع جدید ص:۱۸، طبع قدیم ص:۱۰)
    اس عبارت میں صراحت فرمائی گئی ہے کہ:
    الف…خاتمیت زمانی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نبی ہونا، آیت خاتم النبیین سے ثابت ہے۔
    ب:…اس پر تصریحاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم متواتر موجود ہیں اور یہ تواتر رکعاتِ نماز کے تواتر کی مثل ہے۔
    ج:…اس پر امت کا اجماع ہے۔
    د:…اس کا منکر اسی طرح کافر ہے، جس طرح ظہر کی چار رکعت فرض کا منکر۔
    اور پھر اسی تحذیر الناس میں ہے:
    “ہاں اگر بطور اطلاق یا عموم مجاز اس خاتمیت کو زمانی اور مرتبی سے عام لے لیجئے تو پھر دونوں طرح کا ختم مراد ہوگا۔ پر ایک مراد ہو تو شایان شان محمدی صلی اللہ علیہ وسلم خاتمیت مرتبی ہے نہ زمانی، اور مجھ سے پوچھئے تو میرے خیال ناقص میں تو وہ بات ہے کہ سامع منصف انشاء اللہ انکار ہی نہ کرسکے۔ سو وہ یہ ہے کہ․․․․․”
    (طبع قدیم ص:۹، طبع جدید ص:۱۵)
    اس کے بعد یہ تحقیق فرمائی ہے کہ لفظ خاتم النبیین سے خاتمیت مرتبی بھی ثابت ہے اور خاتمیت زمانی بھی، اور “مناظرہ عجیبہ” میں جو اسی تحذیر الناس کا تتمہ ہے، ایک جگہ فرماتے ہیں:
    “مولانا! حضرت خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت زمانی تو سب کے نزدیک مسلّم ہے اور یہ بات بھی سب کے نزدیک مسلّم ہے کہ آپ اول المخلوقات ہیں ․․․․․․ “
    (ص:۹ طبع جدید)
    http://bazeecha-e-atfal.blogspot.com/2014/01/blog-post.html?m=1

    ReplyDelete

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...