پیشکش ڈاکٹر فیض احمد چشتی
اہل علم کے لئے مقام غور : اہل علم حضرات بنظر انصاف غور فرمائیں کہ صاحب روح المعانی علامہ محمود الوسی حنفی بغدادی علیہ الرحمۃ اور صاحب فتوحات الٰہیہ علامہ سلیمان بن عمر نے علماء محققین کے کلام کی روشنی میں آیۂ کریمہ ’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌاَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے کس خوبی کے ساتھ استدراک کی توجیہات فرمائی ہیں اور کیسے فاضلانہ انداز میں عطف بین الجملتین کی تقریر فرمائی اور کس شان سے کلام الٰہی میں ارتباط واضح کیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ آگے چل کر علامہ سلیمان موصوف علیہ الرحمہ نے ’’مَا کَانَ مُحَمَّد‘‘ میں نفی پر کلام کرتے ہوئے تفسیر خازن سے ایسی بات نقل فرمائی کہ جس نے حقیقت حال کو پوری طرح واضح کر دیا اور توجیہ سابق میں کسی ادنیٰ تردد کے لئے بھی گنجائش نہ چھوڑی۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں
(قولہ فلا یکون لہ ابن رجل بعدہ یکون نبیا) النفی فی الحقیقۃ متوجہ للوصف ای کون ابنہ رجلا وکونہ نبیا بعدہ والافقد کان لہ من الذکور اولاد ثلثۃ ابراہیم والقاسم والطیب ویقال لہ ایضًا الطاہر ولکنہم ما توا قبل البلوغ فلم یبلغوا مبلغ الرجال۔ ۱ھ (من الخازن جمل ص ۴۴۱ ج ۳)
یعنی اس آیت میں نفی فی الحقیقت وصف کی طرف متوجہ ہے۔ اس وصف سے مراد حضور ﷺ کے بیٹے کا مرد بالغ ہونا اور حضور کے بعد اس کا نبی ہونا ہے۔ ورنہ اس میں شک نہیں کہ حضور ﷺ کے تین بیٹے تھے۔ ابراہیم، قاسم اور طیب۔
طیب کو طاہر بھی کہا جاتا ہے لیکن وہ سب قبل البلوغ فوت ہو گئے اور ان میں سے کوئی ایک بھی مبلغ رجال کو نہ پہنچا۔ انتہیٰ خازن
اس عبارت سے اچھی طرح واضح ہو گیا کہ صحت استدراک و عطف بین الجملتین اور کلام الٰہی میں ارتباط اسی تقدیر پر ہے کہ خاتم النبیین میں ختم زمانی کو مراد لیا جائے۔
لٰـکن سے استدراک کی تیسری توجیہ : ’’وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ‘‘ میں استدراک کی تیسری توجیہ یہ بھی کی گئی ہے کہ جائز ہے کہ ’’لٰـکن‘‘ سے استدراک اس مقام پر اول کلام سے پیدا ہونے والے توہم کو رفع کرنے کے لئے نہ ہو جیسے ’’ما زید کریم لکنہ شجاع‘‘ میں ہے بلکہ یہاں استدراک کا مفاد یہ ہے کہ ’’ما بعد لکن‘‘ کے لئے وہ حکم ثابت کیا جائے جو اس کے ماقبل کے مخالف ہے جیسے عام طور پر کہا جاتا ہے ’’ما ہٰذا ساکن لکنہ متحرک‘‘ اور ’’ما ہٰذا ابیض لکنہ اسود‘‘ بعض آیاتِ قرآنیہ میں بھی اس قسم کا استدراک وارد ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ’’یَا قَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاہَۃٌ وَّلٰـکِنِّیْ رَسُوْلٌ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ کیونکہ نفی سفاہت انتفاء رسالت کا وہم پیدا نہیں کرتی نہ لوازماتِ رسالت مثلاً ہدایت و تقویٰ کے انتفاء کا وہم پیدا کرتی ہے۔ حتیٰ کہ اسے استدراک بالمعنی الاول قرار دیا جائے۔ (روح المعانی پ ۲۲ ص ۳۴)
استدراک اور عطف بین الجملتین پر علماء مفسرین کے ان روشن بیانات کو دیکھنے کے بعد پرستارانِ تحذیر تعصب کو چھوڑ کر انصاف فرمائیں کہ نانوتوی صاحب نے کلام الٰہی میں بے ربطی پیدا کی ہے یا جمہور امت مسلمہ نے؟
نانوتوی صاحب نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ قطعاً سبیل مومنین کے خلاف ہے۔ زیر نظر مضمون کو بغور پڑھنے کے بعد منصف مزاج علماء پر یہ حقیقت آفتاب سے زیادہ روشن ہو جائے گی۔
اس کے بعد یہ گزارش کئے بغیر ہم نہیں رہ سکتے کہ عہد رسالت سے لے کر آج تک جن مقدس حضرات نے لفظ خاتم النبیین کے معنی آخر النبیین کے ساتھ کئے، انہوں نے نانوتوی صاحب کے نزدیک کلام الٰہی کو بے ربط کر دیا اور بقول نانوتوی صاحب قرآن کریم میں ایسی بے ربطی پیدا کی جو اللہ تعالیٰ کے کلام معجز نظام میں قطعاً متصور نہیں۔ جس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ آج تک کسی نے خاتم النبیین کے معنی صحیح طور پر کئے ہی نہیں۔ چودہ سو برس کے بعد صرف نانوتوی صاحب کو یہ توفیق نصیب ہوئی کہ انہوں نے کتاب و سنت اور اجماعِ امت کے خلاف صحیح معنی کئے۔
ایں کا راز تو آید و مرداں چنیں کنند
غلطی نمبر ۵
پانچویں غلطی کے متعلق عرض ہے کہ اگر قرآن مجید میں لفظ خاتم النبیین کو بمعنی آخر النبیین تسلیم کرنے پر نانوتوی صاحب کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے حق میں معاذ اللہ زیادہ گوئی کا وہم پیدا ہوتا ہے تو اس کا واضح مفہوم یہ ہو گا کہ تمام مفسرین و محدثین صحابہ کرام و تابعین و متاخرین بلکہ امت مسلمہ کے جمیع علماء اعلام جنہوں نے آیت قرآنیہ میں لفظ خاتم النبیین کو بمعنی آخر النبیین تسلیم کیا ہے وہ سب کے سب (العیاذ باللہ) اللہ تعالیٰ کے حق میں زیادہ گوئی کے وہم میں مبتلا تھے۔ استغفر اللّٰہ ثم استغفر اللّٰہ
غلطی نمبر ۶
نقصان قدر کا احتمال باطل ہے
چھٹی غلطی کی بابت عرض ہے کہ ختم زمانی کی تقدیر پر نقصان قدر کا احتمال تو اس وقت ہو سکتا جب کہ حضور ﷺ کے کسی کمال کے لئے لفظ خاتم النبیین کے سوا کوئی اور دلیل قرآن مجید میں نہ پائی جائے اور ہر کمال کا ثبوت اس لفظ خاتم النبیین پر موقوف ہو۔ حالانکہ قرآن مجید میں بے شمار دلائل ایسے ہیں جو حضور ﷺ کے مجموعی کمالات پر روشن دلالت کرتے ہیں اور جن سے روزِ روشن کی طرح ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ جملہ کمالات علمی و عملی کے جامع اور تمام کائنات کے لئے مربی اور مفیض ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’وَمَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مفسرین کرام نے لکھا ہے کہ نبی کریم ﷺ تمام کائنات کے لئے وصول فیض کا واسطہ عظمیٰ اور وسیلۂ کبریٰ ہیں۔ (روح المعانی پ ۱۷ ص ۱۰۵)
نیز آیۂ کریمہ ’’اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ ہَدَاہُمُ اللّٰہُ فَبِہُدَاہُمُ اقْتَدِہ‘‘ کے تحت امام رازی نے تمام کمالاتِ نبوت کو رسول اللہ ﷺ کیلئے ثابت کیا ہے۔ دیکھئے تفسیر کبیر۔
لہٰذا ختم زمانی کی تقدیر پر حضور ﷺ کے حق میں نقصان قدر کا احتمال ساقط ہے۔
غلطی نمبر ۷
اس کے بارے میں میری معروضات یہ ہیں کہ نانوتوی صاحب کا حضور ﷺ کے وصف آخر النبیین کو حسب و نسب اور سکونت وغیرہ اوصاف کی طرح قرار دینا اور اس کا نبوت یا اور فضائل میں کچھ دخل نہ ماننا اس بات کو صاف ظاہر کرتا ہے کہ نانوتوی صاحب کے نزدیک حضور ﷺ کے آخر النبیین ہونے میں بالذات یا بالعرض کسی قسم کی کوئی فضیلت اصلاً نہیں۔ کیونکہ وہ وصف آخر النبیین و دیگر اوصاف مذکورہ مثلاً مکی مدنی یا قریشی ہاشمی کے مابین کوئی فرق نہیں سمجھتے جس کا خلاصہ یہ نکلا کہ قریشی ہاشمی ہونا اور آخر النبیین ہونا یکساں ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ آخر النبیین ہونا حضور ﷺ کا وصف خاص ہے اور مکی مدنی یا قریشی ہاشمی ہونے میں مسلمان کی بھی خصوصیت نہیں۔ سینکڑوں کافر، مشرک اور منافقین ساکنین مکہ و مدینہ ہوئے اور بے شمار کفار و مشرکین نسب قریش و بنی ہاشم میں پیدا ہوئے۔ اس کے باوجود نانوتوی صاحب کا وصف آخر النبیین اور اوصافِ مذکورہ میں فرق نہ کرنا درحقیقت دین کی بنیاد کو منہدم کرنا ہے۔
ہم تو وصف خاتم النبیین کو بلحاظ اضافت فضیلت جانتے ہیں اور اسی لئے مقام مدح میں اس کے ذکر کو بھی صحیح اور جائز سمجھتے ہیں مگر نانوتوی صاحب کا مسلک اس کے بالکل منافی ہے۔ ورنہ ان کے نزدیک اس وصف اضافی میں کسی قسم کی کوئی فضیلت ہوتی تو مقام مدح میں اس کے ذکر کو وہ ہرگز غیر صحیح قرار نہ دیتے۔
غلطی نمبر ۸
اس کے متعلق میری مختصر گزارش یہ ہے کہ نانوتوی صاحب ختم زمانی کی بجائے ختم ذاتی کو بنائے خاتمیت قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ نزول آیۂ کریمہ ’’وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ کے وقت سے لے کر اب تک بنائے خاتمیت تاخر زمانی کو قرار دیا جاتا رہا۔ ختم ذاتی کے تصور سے بھی سلف کے اذہان نا آشنا تھے۔ اب تیرہ سو برس کے بعد نانوتوی صاحب نے اثر عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما میں مزید چھ خاتم النبیین ملاحظہ فرما کر ایسی راہ نکالنے کی کوشش کی کہ چھ زمینوں کے چھ خاتم النبیین بھی برقرار رہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خاتم النبیین ہونا بھی برائے نام باقی رہے۔ اس کی صورت اس کے سوا اور کیا ہو سکتی تھی کہ بنائے خاتمیت کے لئے تاخر زمانی کے سوا کسی اور چیز کو تلاش کیا جائے لیکن جس طرح طلب مجہول مطلق محال ہے اسی طرح وجدان معدوم بھی مطلق ممتنع۔ نتیجہ ظاہر ہے۔
قرآن و حدیث، اجماع و قیاس میں کہیں کچھ ہاتھ نہ لگا تو بالآخر انتہائی کد و کاوش کے بعد خاتمیت کی تین شقیں پیدا کی گئیں اور ختم ذاتی کا ایک خود ساختہ مفہوم تراش کر اس کو بنائے خاتمیت قرار دے دیا گیا جس پر کتاب اللہ سنت رسول اللہ ﷺ و اقوال علماء مفسرین و محدثین کی روشنی میں ہم پوری وضاحت کے ساتھ رد کر چکے ہیں۔
غلطی نمبر ۹
ذاتی اور عرضی کی طرف نبوت کی تقسیم احداث فی الدین ہے
اس غلطی کے متعلق اتنی بات یاد رکھیں کہ درحقیقت نانوتوی صاحب کی تمام اغلاط کی بنیاد یہی غلطی ہے کہ انہوں نے نبوت کو بالذات اور بالعرض کی طرف تقسیم کر دیا اور میں کتاب و سنت سے ثابت کر چکا ہوں کہ یہ تقسیم عہد رسالت سے لے کر آج تک کسی نے نہیں کی۔ قرآن و حدیث اور اقوال علمائے راسخین کی روشنی میں یہ بات آفتاب سے زیادہ روشن ہو گئی کہ نبوت کی یہ تقسیم احداث فی الدین ہے۔
غلطی نمبر ۱۰
نانوتوی صاحب کے نزدیک آیۂ خاتم النبیین تاخر زمانی میں نہیں
اس کے متعلق گزارش ہے کہ نانوتوی صاحب نے جب خاتم النبیین کے معنی آخر النبیین کو عوام کا خیال قرار دے دیا اور بنائے خاتمیت کسی اور بات پر رکھ دی تو اب تاخر زمانی کے لئے سوق کلام متصور ہی نہیں رہا۔ ایسی صورت میں تاخر زمانی میں آیۂ کریمہ کیونکر نص قرار پا سکتی ہے؟ حالانکہ ساری امت کے نزدیک یہ آیۂ کریمہ رسول اللہ ﷺ کے آخر النبیین ہونے پر نص قطعی ہے۔
غلطی نمبر ۱۱
اتصاف ذاتی کے لئے تاخر زمانی کا لزوم باطل ہے
اس غلطی پر سابقاً تفصیل سے لکھا جا چکا ہے۔ یہاں صرف اتنا عرض کر دینا کافی ہے کہ اگر اتصاف ذاتی کے لئے تاخر زمانی لازم ہو تو حضور ﷺ کے بعد کوئی مومن نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ حضور ﷺ صرف نبوت سے متصف بالذات نہیں بلکہ نانوتوی صاحب کی تصریح کے مطابق وصف ایمان سے بھی بالذات متصف ہیں۔ لہٰذا جس طرح وہاں خود بخود تاخر زمانی لازم آیا یہاں بھی لازم آئے گا، ورنہ لزوم کا دعویٰ باطل ہو گا اور اس پر جو عمارت تحذیر الناس میں قائم کی گئی ہے وہ سب منہدم ہو کر رہ جائے گی لیکن کیا کوئی مسلمان ایسا ہے جو یہ تسلیم کرے کہ حضور ﷺ کے بعد جس طرح کوئی نبی نہیں ہو سکتا ایسے ہی مومن کا ہونا بھی محال ہے (معاذ اللہ ثم معاذ اللہ) معلوم ہوا کہ اتصاف ذاتی کے لئے تاخر زمانی کے لزوم کا قول بداہۃً باطل ہے۔
غلطی نمبر ۱۲
اس کی بابت ہم خود نانوتوی صاحب کا اعتراف تحذیر الناس سے پیش کئے دیتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں کچھ مزید لکھنے کی ضرورت نہیں۔ نانوتوی صاحب فرماتے ہیں
’’اگر بوجہ کم التفاتی بڑوں کا فہم کسی مضمون تک نہ پہنچا تو ان کی شان میں کیا نقص آ گیا اور کسی طفل نادان نے ٹھکانے کی بات کہہ دی تو کیا اتنی بات سے وہ عظیم الشان ہو گیا۔
گاہ باشد کہ کودک ناداں
بغلط برہدف زند تیرے
ہاں بعد وضوح حق اگر فقط اس وجہ سے کہ یہ بات میں نے کہی اور وہ اگلے کہہ گئے تھے میری نہ مانیں اور وہ پرانی بات گائے جائیں تو قطع نظر اس کے کہ قانونِ محبت نبوی ﷺ سے یہ بات بعید ہے۔ ویسے بھی اپنے عقل و فہم کی خوبی پر گواہی دیتی ہے۔‘‘ (تحذیر الناس ص ۲۵)
اے کاش! اگر نانوتوی صاحب خاتم النبیین کے معنی آخر النبیین کو عوام کا خیال قرار نہ دیتے اور بنائے خاتمیت تاخر زمانی کے سوا کسی اور چیز پر رکھتے تو ہمیں ان کی اس تاویل سے اختلاف کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔
غلطی نمبر ۱۳
اس کے متعلق بھی ہم تحذیر الناس سے نانوتوی صاحب کی ایک عبارت پیش کئے دیتے ہیں۔ ملاحظہ فرمایئے وہ فرماتے ہیں
’’ہاں اگر بطور اطلاق یا عموم مجاز اس خاتمیت کو زمانی اور رتبی سے عام لیجئے تو پھر دونوں طرح کا ختم مراد ہو گا۔ پر ایک مراد ہو تو شایانِ شان محمدی خاتمیت مرتبی ہے نہ زمانی۔‘‘ (تحذیر الناس ص ۸)
اس عبارت کے بعد بھی یہ کہنا کہ نانوتوی صاحب نے خاتمیت زمانیہ کا انکار نہیں کیا، کس قدر بے معنی اور مضحکہ خیز ہے۔
غلطی نمبر ۱۴
اس کی تفصیل تفصیل بیان ترتیب ہی کے ضمن میں ابتدایًٔ آ گئی۔ وہاں بغور ملاحظہ فرمائیں۔
ہر کمال کے لئے لفظ خاتم النبیین کو دلیل بنانا درست نہیں
اس بحث میں یہ امر خاص طور پر ملحوظ رہے کہ آقائے نامدار حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی اس فضیلت میں کسی مسلمان کے لئے مجال انکار نہیں ہو سکتی کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو ہر کمال کا مبداء اور تمام علمی و عملی خوبیوں کا جامع بنایا ہے اور تمام کائنات حضور ہی کے فیض سے مستفیض ہے۔ مگر اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ ہی کو دلیل بنایا جائے۔ اس دعویٰ پر کتاب و سنت میں بے شمار دلائل موجود ہیں۔
مولانا کشمیری کا صاحبِ تحذیر سے اختلاف : اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو نانوتوی صاحب کے پیشِ نظر اولاً و ابتدایًٔ حضور ﷺ کے فضائل کا اظہار نہیں بلکہ اثر عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بارے میں اپنے نظریہ کا اثبات ہے۔ انہوں نے اپنی بات کی تائید میں جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ اس میں ساری امت سے منفرد ہو گئے۔ خود علماء دیوبند میں ایسے حضرات پائے جاتے ہیں جنہوں نے اثر عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بارے میں نانوتوی صاحب کی روش سے اختلاف کیا۔ دیکھئے آپ کے مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیری نے بھی اس اثر عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما پر فیض الباری میں کلام فرمایا ہے اور اس کے متعلق ان کا مسلک آپ کے مولانا نوتوی صاحب سے بالکل مختلف نظر آتا ہے۔ نانوتوی صاحب اس اثر کو بالمعنی مرفوع اور سنداً صحیح قرار دیتے ہیں۔ جیسا کہ تحذیر الناس ص ۳۳ میں رقمطراز ہیں
’’تو بایں وجہ کہ بالمعنی مرفوع ہے اور باعتبار سند صحیح۔ بے شک تسلیم ہی کرنا پڑے گا۔‘‘
لیکن مولانا انور شاہ صاحب کشمیری اس کے خلاف ہیں۔ دیکھئے فیض الباری میں انہوں نے صاف طور پر لکھا
’’والظاہر انہ لیس بمرفوع واذا ظہر عندنا منشؤہ فلا ینبغی للانسان ان یعجز نفسہ فی شرحہ مع کونہ شاذا بالمرۃ۔‘‘(فیض الباری ج ۳ ص ۳۳۳)
(ترجمہ) اور ظاہر یہ ہے کہ یہ اثر مرفوع نہیں ہے اور جب اس کا منشاء ہم پر ظاہر ہو گیا کہ یہ محض عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی طرف منسوب کیا ہوا قول ہے۔ (ناقل) تو اب انسان کے لئے یہ بات لائق نہیں کہ وہ اس کی شرح میں اپنے آپ کو عاجز کر دے۔ باوجودیکہ وہ مُرَّہ (راوی) کی وجہ سے شاذ ہے۔ انتہیٰ
تحذیر الناس پر فیض الباری کی جرح : صرف یہی نہیں بلکہ مولانا انور شاہ صاحب نے فیض الباری میں اسی مقام پر مولانا نانوتوی صاحب کے رسالہ تحذیر الناس کا ذکر بھی کیا ہے اور عجیب انداز میں اس کے انداز پر جرح کی ہے۔ فرماتے ہیں
وقد الف مولانا النانوتوی رسالۃ مستقلۃ فی شرح الاثر المذکور سماہا تحذیر الناس عن انکار اثر ابن عباس وحقق فیہا ان خاتمیتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یخالف ان یکون خاتم اخر فی ارض اخری کما ہو مذکور فی اثر ابن عباس ویلوح من کلام مولانا النانوتوی ان یکون لکل ارض سماء ایضًا کما ہو لا رضنا والذی یظہر من القراٰن کون السمٰوٰت السبع کلہا لتلک الاریضۃ۔ ۱ ھ (فیض الباری ج ۳ ص ۳۳۳)
(ترجمہ) عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے اثر مذکور کی شرح میں مولانا نانوتوی نے ایک مستقل رسالہ ’’تحذیر الناس عن انکار اثر ابن عباس‘‘ لکھا ہے اور اس میں ثابت کیا ہے کہ اگر کوئی اور خاتم کسی دوسری زمین میں ہو تو محمد رسول اللہ ﷺ کی خاتمیت کے خلاف نہیں جیسا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے اس اثر میں مذکور ہے اور مولانا نانوتوی کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر زمین کے لئے بھی اسی طرح آسمان ہو جیسے ہماری زمین کے لئے ہے۔ قرآن مجید سے جو کچھ ظاہر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ساتوں آسمان اسی زمین کے لئے ہیں۔
مولانا انور شاہ صاحب کا نانوتوی صاحب پر طنز لطیف دیکھئے کس وضاحت کے ساتھ مولانا انور شاہ صاحب نے نانوتوی صاحب کے کلام کو قرآن مجید کے خلاف قرار دیا ہے۔ اس کے بعد مولانا انور شاہ صاحب نے اثر مذکور کے متعلق اپنا وہی مسلک بیان کیا ہے جو ہم بیان کر چکے ہیں اور ساتھ ہی شاہ صاحب نے نانوتوی صاحب پر نہایت لطیف انداز میں طنز کیا ہے۔ فرماتے ہیں
’’والحاصل انا اذا اوجدنا الاثر المذکور شاذ الا یتعلق بہ امر من صلٰوتنا وصیامنا ولا یتوقف علیہ شئ من ایماننا رأینا ان نترک شرحہ وان کان لابدلک ان تقتحم فی ما لیس لک بہ علم فقل علی طریق ارباب الحقائق ان سبع ارضین لعلہا عبارۃ عن سبعۃ عوالم وقد صح منہا ثلثۃ عالم الاجسام وعالم المثال وعالم الارواح۔ اما عالم الذرو عالم النسمۃ فقد ورد بہ الحدیث ایضا لکنالا ندری ہل ہو عالم برأسہ ام لا فہذہ خمسۃ عوالم واخرج نحوہا اثنین ایضا فالشئ الواحد لا یمر من ہٰذہ العالم الا ویاخذ احکامہ وقد ثبت عند الشرع وجودات للشئ قبل وجودہ فی ہٰذا العالم وحینئذ یمکن لک ان تلتزم کون النبی الواحد فی عوالم مختلفۃ بدون محذور۔‘‘ انتہٰی (فیض الباری ج ۳ ص ۳۳۴)
(ترجمہ) اور حاصل کلام یہ ہے کہ جب ہم نے اثر مذکور کو شاذ پایا اور اس کے ساتھ ہماری نماز اور روزے کا کوئی امر بھی متعلق نہیں، نہ اس پر ہمارے ایمان سے کوئی امر موقوف ہے تو ہم نے مناسب جانا کہ اس کی شرح کو ترک کر دیں اور (اے مخاطب) اگر تیرے لئے کوئی چارہ نہیں اور تو اس بات پر مجبور ہے کہ ایسی چیز میں دخل انداز ہو جس کے بارہ میں تجھے کچھ علم نہیں (یعنی اثر مذکور کے بارے میں تو ضرور کچھ کہنا چاہتا ہے) تو ارباب حقائق کے طریق پر تجھے یہ کہنا چاہئے کہ غالباً اثر مذکور میں سات زمینوں کے لفظ سے سات عالموں کو تعبیر کیا گیا ہے جن میں سے تین کا وجود تو صحت کے درجہ کو پہنچ چکا ہے۔ عالم اجسام، عالم مثال، عالم برزخ، پھر عالم ذر، عالم نسمہ۔ تو بیشک ان دونوں کے متعلق بھی حدیث وارد ہوئی ہے لیکن ہم نہیں جانتے کہ یہ دونوں عالم ہیں یا نہیں۔ پس یہ پانچ عالم ہیں اور انہیں پانچ کی طرح دو اور بھی نکال لے (تاکہ پورے سات ہو جائیں) تو ایک چیز اس عالم سے دوسرے عالم کی طرف نہیں گزرتی لیکن اس حال میں گزرتی ہے کہ اس عالم کے احکام لے لیتی ہے اور بے شک ایک شے کے لئے اس کے اس عالم میں آنے سے پہلے کئی وجود شرع مطہر میں ثابت ہو چکے ہیں اور اس وقت تیرے لئے بغیر کسی دشواری کے یہ ممکن ہے کہ تو مختلف عالموں میں ایک ہی نبی کے ہونے کا التزام کر لے۔ (فیض الباری ج ۳ ص ۳۳۴)
مولانا کشمیری کا تحذیر پر رد اور ہماری تائید : شاہ صاحب نے اس عبارت میں بیہقی کی تصحیح نقل کرنے کے باوجود اثر مذکور کی صحت کو تسلیم نہیں کیا اور اس کو محض لفظ شاذ سے تعبیر فرمایا۔ اسی طرح ’’والظاہر انہ لیس بمرفوع‘‘ کہہ کر اس کے مطلقاً مرفوع ہونے کی نفی کر دی اور کسی ایک جگہ بھی اس کے بالمعنی مرفوع ہونے کا قول نہیں کیا اور صاف کہہ دیا کہ ہمارے اعمال و عقائد میں سے کوئی شیٔ اس اثر عبد اللہ بن عباس سے متعلق نہیں اس لئے ہم اس کی شرح کو چھوڑتے ہیں۔ یہ نانوتوی صاحب پر ایک قسم کا لطیف طنز ہے۔
کیونکہ نانوتوی صاحب نے یہ تسلیم کر لینے کے باوجود کہ واقعی اثر عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اصول دین اور عقائد و اعمال سے قطعاً متعلق نہیں اس کی شرح میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ مزید برآں شاہ صاحب نے اثر مذکور میں کلام کرنے کو انتہائی طور پر ناپسند کیا اور فرمایا کہ اگر کوئی شخص اس میں کلام کرنے کے لئے اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے تو اسے (ـوہ بات نہیں کہنی چاہئے جو نانوتوی صاحب صاحب نے کہی بلکہ) ارباب حقائق کے طور پر کلام کرنا چاہئے اور وہ یہ کہ سات زمینوں سے سات عالم مراد لئے جائیں اور انبیاء مذکور میں سے ہر نبی کو ہر عالم میں تسلیم کیا جائے کیونکہ عند الشرع ایک شیٔ کے متعدد وجود ہوتے ہیں۔ لہٰذا ایک ہی نبی کا ساتوں عالموں میں پایا جانا دشوار نہیں۔
نانوتوی صاحب کے خلاف ایک اور شہادت : تفسیر روح البیان میں علامہ اسماعیل حقی آفندی رحمۃ اللہ علیہ نے علماء محققین سے ایک اور معنی نقل کئے ہیں۔ وہ اسی حدیث ’’اٰدم کاٰدمکم‘‘ کے تحت فرماتے ہیں
قالوا معناہ ان فی کل ارض خلقا للّٰہ لہم سادۃ یقومون علیہم مقام اٰدم و نوح و ابراہیم و عیسٰی فینا قال السخاوی فی المقاصد الحسنۃ حدیث الارضون سبع فی کل ارض من الخلق مثل ما فی ہٰذہ حتّٰی اٰدم کادمکم وابراہیم کابراہیمکم ہو مجہول (د) ان صح نقلہ عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما علی انہ اخذہ عن اسرائیلیات ای اقاویل بنی اسرائیل مما ذکر فی التوراۃ واخذ من علمائہم ومشائخہم کما فی شرح النخبۃ وذالک وامثالہ اذا لم یخبر بہ ویصح سندہ الی معصوم فہو مردود علی قائلہ انتہٰی کلام المقاصد مع تفسیر الاسرائیلیات وقال فی انسان العیون قد جاء عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما فی قولہ تعالٰی ’’وَمِنَ الْاَرْض مثلہن‘‘ قال سبع ارضین فی کل ارض نبی کنبیکم واٰدم کاٰدمکم و نوح کنوحکم وابراہیم کابراہیمکم وعیسٰی کعیساکم رواہ الحاکم فی المستدرک وقال صحیح الاسناد وقال البیہقی اسنادہ صحیح لکنہ شاذ بالمرہ ای لانہ لا یلزم من صحۃ الاسناد صحۃ المتن فقد یکون فیہ مع صحۃ اسنادہ ما یمنع صحتہ فہو ضعیف قال الجلال السیوطی ویمکن ان یؤل علی ان المراد بہم النذر الذین کانوا یبلغون الجن عن انبیاء البشر ولا یبعد ان یسمی کل منہم باسم النبی الذی یبلغ عنہ ہٰذا کلامہ وحینئذ کان لنبینا علیہ السلام رسول من الجن اسمہ کاسمہ ولعل المراد اسمہ المشہور وہو محمد فلیتأمل انتہٰی مافی انسان العیون۔(روح البیان ج ۱۰ پ ۲۸ مطبوعہ مصر ص ۴۴، ۴۵)
(ترجمہ) محققین نے کہا کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر زمین میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور اس کے سردار ہیں جو ان پر ہمارے آدم و نوح اور ابراہیم و عیسیٰ علیہم الصلوٰۃ والسلام کے قائم مقام ہو کر ان کی قیادت و سیادت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
علامہ سخاوی نے مقاصد حسنہ میں اس حدیث کو مجہول کہا۔ اگرچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اس کی نقل صحیح ہے۔ مجہول ہونا اس بات پر مبنی ہے کہ انہوں نے اسے اسرائیلیات یعنی بنی اسرائیل کی ان اقاویل سے لیا ہے جو توراۃ میں مذکور ہیں یا علماء و مشائخ بنی اسرائیل سے لیا ہے جیسا کہ شرح نخبہ میں ہے۔ یہ اور اسی قسم کی روایات جب اخبار اور سند کے اعتبار سے نبی معصوم ﷺ تک صحت کے ساتھ پایۂ ثبوت تک نہ پہنچی ہوں تو وہ اسی شخص پر رد کر دی جائیں گی جو ان کا قائل ہے۔ انتہیٰ
اور انسان العیون میں کہا کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے قول خداوندی ’’وَمِنَ الْاَرْض مثلہن‘‘ کی تفسیر میں حدیث ’’نبی کنبیکم و اٰدم کاٰدمکم‘‘ (الحدیث) مروی ہے اسے حاکم نے مستدرک میں روایت کیا اور اسے صحیح الاسناد بتایا اور بیہقی نے کہا اس کی اسناد صحیح ہے لیکن وہ مُرَّہ (راوی) کے ساتھ شاذ ہے یعنی اس لئے کہ صحت اسناد سے صحت متن لازم نہیں آتی کیونکہ کبھی باوجود صحت اسناد کے متن میں ایسی بات ہوتی ہے جو صحت متن سے مانع ہوتی ہے لہٰذا وہ ضعیف ہے۔
جلال الدین سیوطی نے کہا کہ اس روایت کی یہ تاویل ہو سکتی ہے کہ آدم و نوح اور ابراہیم و عیسیٰ وغیرہم علیہم السلام سے وہ پیغامبر مراد ہیں جو انبیاء بشر کی طرف سے جنات کو پیغام پہنچایا کرتے تھے اور یہ بعید نہیں کہ ان پیغامبروں میں سے ہر ایک اسی نبی کے نام سے موسوم ہو جس کا وہ پیغام رساں ہوتا تھا۔ یہ جلال الدین سیوطی کا کلام ہے۔ اس وقت یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کا ایک قاصد از قوم جن تھا جس کا نام نبی ﷺ کے نام کی طرح تھا اور شاید نام سے حضور کا مشہور نام مراد ہے جو ’’محمد‘‘ ہے۔
یہاں تامل کرنا چاہئے۔ انسان العیون کی عبارت ختم ہوئی۔‘‘(روح البیان ج ۱۰ پ ۲۸ ص ۴۴، ۴۵ طبع مصر)
روح البیان کی اس منقولہ عبارت کا مفاد حسب ذیل ہے
نمبر ۱ بقیہ چھ زمینوں میں جن حضرات کا ذکر اثر مذکور میں وارد ہے، درحقیقت وہ انبیاء اللہ نہیں بلکہ رسل انبیاء بشر ہیں اور آدم و نوح و ابراہیم و عیسیٰ علیہم السلام کے قائم مقام ہو کر ہر زمین میں خلق اللہ کی سیادت و قیادت کے امور انجام دیتے ہیں یعنی وہ خود انبیاء نہیں بلکہ وصف سیادت و قیادت میں انبیاء علیہم السلام کے مثل اور ان کے قائم مقام ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ مفہوم نانوتوی صاحب کی اس تشریح کے قطعاً خلاف ہے جس پر انہوں نے اپنے نظریات کی بنیاد قائم کی ہے۔ بقیہ چھ زمینوں میں جب کوئی نبی ہی نہیں بلکہ انبیاء کے قائم مقام ہیں تو نانوتوی صاحب کے اس اختراعی نظریہ کی بنیاد ہی ختم ہو گئی کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں یا حضور کے بعد کسی نبی کا پایا جانا حضور کی خاتمیت کے منافی نہیں۔
نمبر ۲ امام سخاوی کے نزدیک یہ حدیث مجہول ہے اور اس کا ماخذ اقاویل بنی اسرائیل کے سوا کچھ نہیں۔
نمبر ۳ بیہقی نے اس حدیث کی اسناد کو صحیح کہا لیکن اس کے باوجود اس کے متن کو ضعیف قرار دیا۔ نانوتوی صاحب نے بیہقی کے قول میں ’’اسنادہ صحیح‘‘ دیکھ کر یہ سمجھ لیا کہ بس یہ حدیث صحیح ہے اور یہ نہ دیکھا کہ صحت اسناد کے لئے صحت متن لازم نہیں۔ کیونکہ یہ ہو سکتا ہے کہ سند صحیح ہو اور متن میں کوئی ایسی علت قادحہ پائی جائے جو اس کی صحت سے مانع ہو اور اس بناء پر وہ متن ضعیف ہو۔ اس روایت میں بالکل یہی صورت پائی جاتی ہے کہ اگر تاویلات مأوِّلین سے قطع نظر کر لی جائے تو ظاہر معنی حدیث رسول اللہ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کے منافی ہے اور یہ منافات یقینا علت قادحہ ہے جس کی وجہ سے یہ روایت ضعیف قرار پائے گی۔
نانوتوی صاحب پر صاحب روح المعانی کا رد شدید : علامہ سید محمود الوسی حنفی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر روح المعانی میں اثر مذکور کے متعلق رقم طراز ہیں
’’قال الذہبی اسنادہ صحیح ولٰـکنہ شاذ بمرۃ لا اعلم لابی الضحٰی علیہ متابعًا‘‘
ذہبی نے کہا کہ اس کی اسناد صحیح ہے لیکن یہ شاذ بمرہ ہے ابو الضحیٰ کے لئے اس پر کسی متابعت کرنے والے کو میں نہیں جانتا۔
’’وذکر ابو حبان فی البحر نحوہ عن الحبر وقال ہٰذا حدیث لا شک فی وضعہ وہو من روایۃ الواقدی الکذاب واقول لا مانع عقلاً ولا شرعاً من صحتہ والمرادان فی کل ارض خلقا یرجعون الی اصل واحد رجوع بنی اٰدم فی ارضنا الٰی اٰدم علیہ السلام وفیہ افراد ممتازون علی سائرہم کنوح و ابراہیم وغیرہما فینا‘‘(روح المعانی پ ۲۸ ص ۱۴۳ طبع جدید ص ۱۲۵ طبع قدیم)
(ترجمہ) ابو حبان نے بحر میں اس کے ہم معنی روایت حبر الامۃ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ذکر کی ہے اس کے بعد فرمایا کہ اس حدیث کے موضوع ہونے میں کوئی شک نہیں اور وہ واقدی کذاب کی روایت سے ہے۔
اور میں کہتا ہوں کہ عقلاً و شرعاً اس حدیث کی صحت سے کوئی امر مانع نہیں۔ اس سے یہ مراد ہے کہ ہر زمین میں مخلوق ہے جو اصل واحد کی طرف رجوع کرتی ہے۔ جیسے ہماری زمین میں بنی آدم، آدم علیہ السلام کی طرف راجع ہیں اور ہر زمین میں کچھ ایسے افراد ہیں جو اپنے بقیہ افراد پر اسی طرح امتیازی شان رکھتے ہیں جیسے نوح اور ابراہیم وغیرہما علیہم السلام ہم میں ممتاز ہیں۔ انتہیٰ(روح المعانی پ ۲۸ ص ۱۴۳ طبع جدید ص ۱۲۵ طبع قدیم)
علامہ سید محمود الوسی نے بھی صحت حدیث کا مدار صرف اس امر پر رکھا کہ اس حدیث میں ہر زمین میں جن حضرات کا ذکر ہے وہ انبیاء اللہ نہیں بلکہ امتیازی شان میں ان کے مشابہ ہیں۔ یہ توجیہ صاحب روح البیان کی منقولہ توجیہ کے عین مطابق ہے اور دونوں کا مفاد یہی ہے کہ چھ زمینوں میں انبیاء اللہ نہیں پائے جاتے بلکہ سیادت و قیادت اور عظمت و امتیازی حیثیت میں انبیاء علیہم السلام سے مشابہت رکھتے ہیں اور ان کی قائم مقامی کے فرائض انجام دیتے ہیں اور ان دونوں بزرگوں کی یہ توجیہ نانوتوی صاحب کے خلاف ناقابل رد شہادت اور ان کے خود ساختہ مسلک کی تردید شدید ہے۔
اثر عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی سند و متن اور صحت و ضعف اور اس کی توجیہ و تاویل سے متعلق جن اہم امور کو نانوتوی صاحب نے عمداً یا خطاً چھوڑ دیا تھا ہم نے نہایت اختصار اور جامعیت کے ساتھ انہیں بیان کر دیا ہے جسے بغور دیکھنے کے بعد اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارئہ کار نہیں رہتا کہ اثر مذکور معلل و ضعیف ہے اور اگر بالفرض اس کی صحت کو تسلیم کر لیا جائے تو نانوتوی صاحب کی توجیہات کتاب و سنت کے قطعاً منافی ہیں۔
نیز اس بیان سے یہ حقیقت بھی واضح ہو گئی کہ مولانا انور شاہ صاحب کشمیری نانوتوی صاحب کی توجیہات سے بیزار ہیں اور انہوں نے بھی اسی توجیہ کو پسند فرمایا جسے ہم عرض کر چکے ہیں۔ والحمد للّٰہ علٰی احسانہٖ وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی حبیبہ محمد واٰلہٖ واصحابہٖ اجمعین ۔
No comments:
Post a Comment