توسل یعنی وسیلہ ایک ایسا موضوع ہے کہ جس پر علمائے سلف و خلف نے بے شمار کتابیں تخلیق فرمائی ہیں کہ جن سے اس کے بارے میں مفصل معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ لیکن آج کے دور میں اس کے بارے میں دو مختلف بنیادی نظریات پائے جاتے ہیں بوجہء عدم علم۔ ایک طبقہ وہ ہے کہ جو توسل کو سرے سے (کفر، شرک، بدعت) سے تعبیر کرتا ہے اور اس سے انکار کی تعلیم لوگوں کو دیتا نہیں تھکتا جبکہ اہلسنت وجماعت جو کہ (السواد الاعظم) کہلاتی ہے یعنی سب سے بڑا گروہ کہ جسکے جنتی ہونے کی بشارت متعدد احادیث میں وارد ہوئی ہیں وہ اسکو عین قرآنی حکم اور خیرالقرون کا عمل قرار دیتے ہیں ۔ اس موضوع پر میری کاوش یہ ہے کہ میں مستند کتابوں کو ان کے حوالوں کے ساتھ جس قدر ممکن ہوسکے ایک جگہ پر اکٹھا کروں تاکہ عوام الناس میں سے وہ لوگ کہ جن کی استطاعت تمام کتب تک رسائی اور کوشش کا فقدان ہے وہ اس سے کماحقہ مستفید ہوسکیں۔ اس موضوع پر تین طرح سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ پہلے قرآنی آیات سے اور سلف الصالحین وخیرالقرون کی تفسیرات سے اس پر مفصلاً ذکر کیا گیا ہے، اسکے بعد اسلام کے دوسرے بڑے مآخذ یعنی علم الحدیث سے مستند احادیث کا ذخیرہ اکٹھا کرنے کی سعی کی گئی ہے وہ بھی تمام تر حوالوں کے ساتھ تاکہ قارئین کو مکمل آگاہی مل سکے اور تیسرے خود مخالفین کی کتب سے اس موضوع پرانکی رائے کا رد اور اصل تفصیل بتائی جاسکے۔ اللہ رب العزت والعظمت سے میری دعا ہے کہ وہ اپنے حبیبِ کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے صدقہ میں، انکے مقدس مطہر معطر آلِ نبیصلی اللہ علیہ وسلم کے اور اصحاب نبی (رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین) کے صدقے میں میری اس کاوش کو اپنی بارگاہ ِ بے کس پناہ میں مقبول و منظور فرمائے اور جس کے نصیب میں ہدایت لکھی ہو، اللہ اسکے طفیل ہدایت عطا فرما کر اسکو بروز قیامت ہم سب کے لیئے شفاعت کا ذریعہ بنائے، اور مجھے میرے مرحوم والدین، دوست احباب، رشتہ داروں اور عام پڑھنے والوں سے لیکر صاحبانِ علم و عمل تک کے لیئے ایک ایسا ذریعہ بنائے کہ جس سے ہماری آخرت کا سدھار ہوسکے۔ بجاہ النبی آمین یارب العالمین۔
اس موضوع پر جیسے کہ پہلے بیان ہوا کہ سب سے پہلے لفظ (وسیلہ) کہ جس کو موجودہ دور میں چند عاقبت نااندیشوں نے (غیراللہ سے مدد) کا نام دے رکھا ہے، لغات العرب سے اسکے قرآنی معنی اور قدیم تفسیراتِ قرآنی سے دلائل کے طور پر بیان کیا جائے گا، اور پھر آیاتِ قرآنی ترجمہ و تشریحاتِ قرآنی، اس پر سلف کا بیان، احادیث کا ذخیرہ اورخاص کر صحابہ کرام علیہم الرضوان وخیرالقرون کے عمل سے ایسا بیان کیا جائے کہ جو دلوں کے زنگ اتارنے کا سبب ہو۔ اس مختصر تفصیل کے بعد بنا وقت ضائع کیئے اس پر بسم اللہ کرتے ہیں اور اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنا دین، اپنا عقیدہ اور اپنا عمل قرآن، سنت و سلف کے مطابق سمجھنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین۔
توسل وسیلہ کا لغات العرب میں معنی مفہوم اور مطالب
حضرت علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے اپنی تفسیر تبیان القرآن میں ماتحت سورہ الفاتحہ آیت ۴ وسیلہ کے لغوی معنی پر سلف الصالحین کے اقوال پیش کیئے ہیں جو کہ یہاں دیئے جارہے ہیں مزید تخریج کے ساتھ۔
امام ابی القاسم الحسین بن محمد المعروف بالراغب الاصفھانیؒ لکھتے ہیں؛۔
وسل: الوسیلۃ التوسل الی الشئٰ۔۔۔۔۔۔۔۔ الیٰ سرقۃ۔۔
ترجمہ عبارت؛۔ الوسیلۃ: کے معنی کسی چیز کی طرف رغبت کے ساتھ پہنچنے کے ہیں۔ چنانچہ معنی رغبت کو متضمن ہونے کی وجہ سے وصیلۃ سے اخص ہے۔ وابتغوالیہ الوسیلۃ (۳۵،۵) اور اسکا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرو۔ درحقیقت توسل الی اللہ، علم و عبارت اور مکارم ِ شریعت کی بجاآوری سے طریقِ الٰہی کی محافظت کا نام ہے اور یہی معنی تقرب الی اللہ کے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت کرنے والے کو واسل کہا جاتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے علاوہ توسل کے معنی چوری کرنا بھی آتے ہیں چنانچہ محاورہ ہے۔ اخذ فلاں اہل فلاں توسلا۔ اس نے فلا کے اونٹ چوری کرلیئے۔
حوالہ؛۔ المفردات فی غریب القرآن ۔ امام اللغت، راغب اصفھانیؒ ۔ کتاب الواو۔ صفحات ۵۲۳ و ۵۲۴ دارالمعرفۃ بیروت لبنان
علامہ ابن اثیر جزری لکھتے ہیں؛۔
ھی فی الاصل مایتوصل بہ الی الشیٗ و یتقرب بہ
جس چیز سے کسی شے تک رسائی حاصل کی جائے اور اس شے کا تقرب حاصل کیا جائے وہ وسیلہ ہے۔
نہایہ جلد ۵ ص ۱۸۵ مطبوعہ موسسۃ مطبوعاتی ایران۔ علامہ محمد بن اثیر جزریؒ)۔
لغات کے ایک اور امام حضرت علامہ ابن منظور افریقی ؒ لکھتے ہیں۔
الجوھری؛۔ الوسیلۃ ما یتقرب بہ الی الغیر۔ یعنی امام ِ لغت علامہ جوہری نے کہا ہے کہ جس چیز سے غیر کا تقرب حاصل کیا جائے وہ وسیلہ ہے۔
حوالہ؛۔ سید جمال الدین محمد بن مکرم ابن منظور الافریقی متوفی ۷۱۱ھ ، لسان العرب ج ۱۱ ص ۷۲۵ ۔ ۷۲۴، مطبوعہ نشر ادب الجوذہ ایران
علامہ ابن منظور افریقی اور علامہ زبیدی نے علامہ جوہری کی جس عبارت کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے۔
جس چیز سے غیر کا تقرب کیا جائے وہ وسیلہ ہے۔ (الصحاح ج ۵ ص ۱۸۴۱ مطبوعہ دارالعلم بیروت
لفظ وسیلہ کا اصل منبع (وسل) (و، س، ل) سے نکلا ہے اور ایک اور مشہور امام الغات ابن فارس لکھتے ہیں؛۔
الاولی الرغبۃ والطب ، یقال وَسَلَ، اِذا رَغَب، و الواسل: الراغب الی اللہ عزوجل ، وھو فی قول لبید (بلی کل ذی دین الی اللہ واسل)۔
یعنی اول معنی رغبت و طلب کے ہیں فرمایا۔ واسل (یعنی وسیلہ کرنے والا) اللہ کی طرف ذریعہ ہوتا ہے۔
(بحوالہ ؛ معجم المقابین اللغۃ ج ۶ ص ۱۱۰ لابی الحسین احمد بن فارس بن زکریا (متوفیٰ ۳۹۵ھ) دارالفکر للطاعۃ والنشر والتوزیع۔
ایسے ہی حضرت الامام شیخ محمد بن ابی بکر بن عبدالقادر الرازی نے اپنی مختار الصحاح میں لکھا ہے؛۔
و س ل ۔ (الوسیلۃ) مایتقرب بہ الی الغیر والجمع (الوسیل) و الوسائل) و(التوسیل) و (التوسل) واحد یقال: (وسل) فلان الی ربہ وسیلۃً بالتشدیدِ و (توسل) الیہ بوسلیۃ اذا تقرب الیہ بعمل۔
یعنی فلاں کا وسیلہ رب کی طرف پیش کرنا اور کسی کے ذریعہ سے کسی اور کا قرب چاہنا توسل کہلاتا ہے۔ (حوالہ مختار الصحاح، ص ۳۰۰، باب الواو۔ مکتبۃ لبنان دائرۃ المعاجم فی )۔
دکتور عبد اللہ عباس الندوی جو کہ جامعۃ ام القریٰ مکہ مکرمہ کے مدرس بھی ہیں انکی قاموس میں وسیلے کے متعلق کچھ یوں لکھا ہے؛۔
الوسیلۃ؛۔ (اسم) رسائی کے ذرائع ،اور وسائل۔ پینچ کا راستہ ۔ رسائی۔ اس فعل کا مصدری مادہ نہیں ہے۔
حوالہ؛۔ قاموس الفاظ القرآن الکریم ص ۴۵۰ مکتبہ دار الاشاعت کراچی پاکستان
المختار من صحاح اللغۃ تالیف محمد محی الدین عبدالحمید اور محمد عبداللطیف السبکی نے لکھا؛۔
و س ل ۔ الوسیلۃ : ما یتقرب بہ الی الغیر والجمع الوسیل، والوسائل۔ یعنی کسی کی طرف تقرب چاہنا، ذریعہ بنانا۔ باقی تمام معانی وہی ہیں جوامام رازی نے اپنی مختار الصحاح میں لکھے ہیں یعنی توسل کا مطلب ہے اللہ کی طرف ذریعہ واسطہ تلاش کرنا۔ جیسا کہ اعمال سے قرب حاصل کیا جاتا ہے۔
المختار من صحاح اللغۃ ص ۵۷۲ (زیر تحت و س ل) مکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ لمصر۔ ومطبعۃ الاستقامۃ بالقاھرہ۔
مصباح المنیر میں لکھا ہے؛۔
وسل (وسلت) الی اللہ بالعمل اسِل من باب وعد رغبت و تقربت ومنہ استقاق الوسیلۃ وھی ما یتقرب بہ الی الشیٗ والمجمع الوسائل والسیل قیل جمع وسیلۃ وقیل لغۃ فیھا وتوسل الی ربہ بوسیلۃ تقرب الی بعمل۔
یعنی وسلت سے مراد کسی شے کی طرف قربت ، واسطہ ذریعہ حاصل کرنا ہے۔ اسکی جمع الوسائل اور الوسیل ہے، اور کہا کہ جمع وسیلۃ ہے ، اور کہا لغت میں اس سے مراد اللہ کی طرف ذریعہ (واسطہ) حاصل کرنا ہے (قربت کے لیئے) ۔
المصباح المنیر ، ص ۲۵۳،العالم العلامۃ احمد بن محمد بن علی الفیومی المقری متوفیٰ ۷۷۰ھ طبعۃ بِلونین میسرۃ مکتبۃ لبنان۔
المنجد فی اللغۃ والادب والعلوم ، میں بھی وسیلہ کا معنی (کوئی ایسا عمل اختیار کرنا کہ اللہ تک رسائی ہوسکے) اور (المنزلۃ عند الملوک) یعنی بادشاہوں(اختیار والوں) تک رسائی چاہنے کو وسیلہ کہتے ہیں۔
المنجد فی اللغۃ والادب والعلوم ۔ لسنۃ تاسع عشر۔ ج ۱ ص ۹۰۰ المطبعۃ الکاثولیکیۃ بیروت۔
الاستاذ الطاھر احمد الزاوی لکھتے ہیں؛۔
وس ل۔ (الوسیلۃ) ۔ والواسلۃُ: المنزلۃ عند الملک، والدرجۃ والقربۃ ووسل الی اللہ تعالیٰ توسیلاً ۔ والواسل: الواجبُ۔ والراغبُ الی اللہ تعالیٰ: والتوسل: السرقۃ ۔ یعنی وہ راہ جو (بادشاہوں) تک رسائی کے لیئے قربت کے لیے حاصل کی جائے اور (شرعی معنی) کہ اللہ کی طرف رسائی کا ذریعہ پیش کیا جائے یعنی توسل کیا جائے اللہ کی جانب ۔
ترتیب القاموس المحیط علی طریقۃ المصباح المنیر واساس البلاغۃ ،ج ۴ باب الواو۔ صفحہ ۶۱۲۔دارالفکر بیروت
محیط المحیط میں بھی وسل یعنی وسلیۃ کے بارے میں وہی کچھ مندرج ہے جو اوپر بیان ہوچکا ۔
حوالہ ۔ محیط المحیط قاموس مطول للغۃ العربیۃ۔ تالیف۔ المعلم بُطرس البُستانی۔ ص ۹۶۹ مکتبۃ لبنان، ساحتہ ریاض الصلح بیروت
معجم النفائس الکبیر ، دارالنفائس صفحہ ۲۲۰۹ زیر تحت لفظ (وسل) وہی سب لکھا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ وسل الی اللہ بوسیلۃ وتوسل:(اللہ کی جانب رجوع بواسطہ وسیلہ)۔وہ عمل جو اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیئے کیا جائے یعنی وہ ذریعہ جو اللہ تک پہنچائےاسکے علاوہ وسیلہ نبی کا وہ بلند و ارفع درجہ ہے جو جنت میں ہوگا۔ (یعنی یہاں انکی مراد وہ وسیلہ بیان کرنا ہے جسکا حکم حدیث رسول میں بھی آیا ہے کہ نماز کے بعد دعا میں )۔
لغات کے ایک اور مشہور امام ، حضرت الامام جرجانیؒ نے لکھا ہے؛۔
الوسیلۃ؛ ھی ما یُتقرب بہ الی الغیر۔ (۱۹۷۰) صفحہ ۲۱۱معجم التعریفات۔ علامہ علی بن محمد السید الشریف الجرجانیؒ۔ دارالفضیلۃ۔
اسی طرح المعجم الوسیط عربی اردو ترجمہ میں لکھا ہے؛۔
وسل ۔ فلاں الی اللہ تعالیٰ۔ کوئی ایسا کام کرنا جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ اور ۔ فلان الی اللہ بالعمل۔ یعنی۔ عمل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب چاہنا۔ الی فلان بکذا۔ کسی سے بذریعہ قرابت تعلق چاہنا۔ (الواسل) واجب ، ضروری، لازمی (الواسلۃ) تانیث الواسل (۲) بادشاہ کے یہاں مقام و مرتبہ (۳) درجہ مقام و تقرب۔ (الوسیلۃ) الواسلۃ مقام و مرتبہ ، ۲ قربت ، تعلق، اور ۳ نبی کریم ﷺ کا جنت میں درجہ ۔
حوالہ؛۔ المعجم الوسیط ۔ صفحہ ۱۲۵۵ باب الواو ۔ مکتبہ رحمانیہ لاہور پاکستان۔
امام اللغت ابو الحسن احمد ابن الفارسؒ کی ایک اور تصیف میں لکھا ہے؛۔
وسل: الواسل: الراغب الی اللہ۔ جل ثناؤہ۔ باقی پہلے کی طرح جیسا پہلے بیان ہوا۔
حوالہ؛ مجمل اللغۃ۔ لابی الحسن احمد بن فارس بن زکریا اللغوی۔ متوفیٰ ۳۹۵ ھ۔ جز ۱ ص ۹۲۵ زیر تحت (وسل)۔موسسۃ الرسالۃ بیروت۔
مشہور امام اللغات مجدالدین فیروزآبادیؒ نے اپنی القاموس المحیط عربی میں وسیلہ کے وہی معنی دیئے ہیں جو متعدد بار اوپر بیان ہوچکے۔ حوالہ یہ رہا۔
القاموس المحیط۔(عربی) حرف الواو۔ لفظ (وسل) ۱۰۱۰۷۔ صفحات ۱۷۵۳ و ۱۷۵۴ دارالحدیث قاھرہ مصر۔
امام مجد الدین ابی السعادات المبارک بن محمد الجزری ابن الاثیرؒ لکھتے ہیں؛۔
فی حدیث الاذان: اللھم آتِ محمدا الوسیلۃ۔ ھی فی الاصل: مایتوصل بہ الی الشیٗ ویتقرب بہ ۔ والمراد بہ فی الحدیث القرب من اللہ۔تعالی۔ وقیل: ھی الشفاعۃ یوم القیامۃ۔ وقیل ھی منزلۃ من منازل الجنۃ کما جاٗ فی الحدیث۔
یعنی۔ اذان کی حدیث میں جو ذکر آیا ہے (یعنی اذان کے بعد کی دعا) وہ اس لفظ کی اصل ہے۔ اور اس کا مطلب ہے کسی شئے تک قربت رسائی حاصل کرنا۔ اور توسل سے مراد جیسا کہ حدیثِ قرب میں بیان ہوا ہے وہ اللہ کی جانب راہ کرنا ہے۔ اور فرمایا۔ اس سے مراد روزِ محشر شفاعت ہے (یعنی شفاعتِ کبریٰ) پھر فرمایا؛ یہ ایک درجہ ہے جنت کے درجوں میں جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے۔
حوالہ؛۔ النھایۃ فی غریب الحدیث والاثر۔ امام مبارک بن محمد الجزری ابن الاثیرؒ۔ صفحہ ۹۷۲۔ دارابن الجوزی۔
حافظ سید فضل الرحمٰن اپنی تصنیف لطیف معجم القرآن میں لکھتے ہیں؛۔
وسیلۃ؛ وسیلہ، قرب، نزدیکی، اسم ہے ،جمع وسائل۔ رغبت کے ساتھ کسی شئے کی طرف پہنچنا۔ بحوالہ المفردات۔ ۵۲۳۔و ۵،۳۵ و۵۷۔۱۷۔ صفحہ ۴۹۱ باب الواو۔ زوار اکیڈمی پبلی کیشنز۔ کراچی پاکستان۔
دیوبندیوں کے ایک مشہور عالم مولانا زین العابدین سجاد میرٹھی نے اپنی قاموس میں کچھ ایسے تحریر کیا ہے؛۔
وسیلۃ؛ نزدیکی، قرب ، وسیلہ۔ امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں الوسیلہ،التوصل الی الشیٗ برغبت (رغبت کے ساتھ کسی شے کی طرف پہنچنا)۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے۔ یا ایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ وابتغواالیہ الوسیلۃ وجاھدو انی سبیلہ لعلکم تفلحون۔اے ایمان والو اللہ سے ڈرتے رہو اور ڈھونڈو اسکی طرف وسیلہ اور جہاد کرو اسکے راستہ میں تاکہ تم فلاح پاو۔ اس آیت مبارکہ میں وسیلہ سے مراد علم، عبادت اور شریعت کے اعلیٰ اخلاق کو اختیار کرکے سبیل اللہ کی محافظت ہے اور وہ قربۃ و نزدیکی ہی کے معنیٰ میں ہے۔ (مفردات)۔ مشہور صوفی مشرف مفسر شیخ اسماعیل حقی صاحبِ روح البیان لکھتے ہیں؛۔ ای!طلبوا لانفسکم الی توابہ والزلفیٰ منہ القربۃ بالاعمال الصالحہ(یعنی طلب کرو اپنے لیئے نیک اعمال کے ذریعہ نزدیکی اللہ تعالیٰ کے ثواب اوراسکے مقام ِ قرب کی طرف) آگے لکھتے ہیں:۔ یہ فعلیۃ کے وزن پر ہے وسل الی کذا تقرب الیہ سے اور اسکے معنےٰ ہیں وہ کام جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیاجاسکے۔ اسکی جمع وسائل ہے۔ (روح البیان ج ۲ ص ۳۸۷)۔ پھر مولانا نے ایک لمبی تفصیل لکھی ہے جس میں انور شاہ کشمیری کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہوں نے اسکے متعلق (یعنی توسل) کے متعلق یہ لکھا ہے کہ توسل جس انداز پر ہمارے زمانہ میں معروف ہے۔ سلف میں نہیں تھا ۔ جب وہ کسی بزرگ کے ذریعہ سے توسل کرتے تھے تو اسکی صورت یہ ہوتی تھی کہ وہ انہیں اپنے ساتھ دعا مین شامل کرتے تھے اور پھر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے تھے اور اسی سے مدد طلب کرتے تھے اور ان بزرگ کی شمولیت کی برکت سے اپنی دعا کی قبول کی امید کرتے تھے۔ اور حدیث میں جو ضعفا وصالحین سے استعانت (مدد) ثابت ہوتی ہے وہ یہی ہے۔ جنانچہ حدیثِ استسقاٗ میں صحابہ کرام کا حضرت عباسؓ سے توسل اسی نوعیت کا ہے ۔ رہا بزرگوں کے ناموں سے توسل جیسا کہ ہمارے زمانے میں مروج ہے کہ ان بزرگوں کو اسکا علم بھی نہیں ہوتا۔بلکہ وہ زندہ بھی نہیں ہوتے۔ صرف انکے کاموں کے ذریعہ توسل کیا جاتا ہے یہ سمجھتے ہوئے کہ اللہ تعالی کے ہاں جو درجہ حاصل ہے انکو اسکی وجہ سے وہ ان کے ناموں کے ذکر کے سبب دعا مانگنے والوں کو محروم نہ رکھے گا۔ تو میں اسکی تفصیلات میں جانا ناپسند کرتا ہوں۔ پھر مولانا انور شاہ کے ہی حوالے سے لکھا ہے کہ علامہ ابن تیمیہ نےتو اسے حرام کہا ہے لیکن صاحب درمختار نے اسکی اجازت دی ہے۔ مگر سلف سے کوئی دلیل اس پر قائم نہیں کی۔
حوالہ؛۔ قاموس القرآن ۔ از مولانا زین العابدین میرٹھی۔ صفحات ۶۳۸ و۶۳۹ ۔دارالاشاعت کراچی۔
تبصرہ:۔ جہاں تک مولانا انور شاہ کشمیری کی اس بات کا تعلق ہے کہ اسکا سلف سے کوئی ثبوت نہیں تو یہ فقط ان کی یاوہ گوئی ہ ے کیونکہ مستند تفاسیر اور احادیث سے ہم ثابت کرچکے ہیں اور کررہے ہیں کہ سلف کے مطابق بھی انبیا و اولیا کا باقاعدہ نام لے کرپکارنا بالکل جائز ہے۔ ورنہ عمرؓ نے عباسؓ کے متعلق یوں نہ ارشاد فرمایا ہوتا کہ (ہم تیرے نبی کے چچا کا وسیلہ پیش کرتے ہیں) اور ایسے ہی حضرت معاویہؓ نے جو حضرت یزید بن الاسودؓ کا وسیلہ پیش کیا باقاعدہ ان سے التجا و ندا کی اسکے علاوہ انور شاہ کشمیری صاحب نے انتہائی بددیانتی کا ثبوت دیا ہے یہ کہہ کر کہ ابن تیمیہ نے اس کا مکمل انکار کیا ہے۔ وہ غالباً یہ بتانا بھول گئے تھے کہ اسی ابن تیمیہ کا خود تمام تر علمائے اسلام نے رد فرمایا ہے اور خود ابن تیمیہ نے بھی انہیں احادیث کو صحیح الاسناد مانا ہے تو پھر اس کا انکار فقط اپنی مذہبی دکانداریوں کو چمکانا ہے۔ نیز صاحب درمختار ہمارے لیئے ابن تیمیہ سے کروڑہادرجہ بلند ہیں کیونکہ حنفیت کو صاحبِ درمختار کے قول پر عمل واجب ہے نا کہ ابن تیمیہ، دیوبند یا وہابیت کے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اللہ کی طرف قربت تلاش کرنا ہی وسیلہ کا مفہوم ہے۔ جبکہ انہوں نے قرآنی آیت میں بھی ڈنڈی ماری ہے۔ کہ (ابتغوا الیہ الوسیلۃ بالاحسانہ) یعنی اللہ فرماتا ہے میری طرف وسیلہ ڈھونڈو بھلائی کے ساتھ۔ اور اللہ کی بارگاہ میں اسکے تمام محبوب بندے ہمارا وسیلہ واسطہ ار مددگار ہیں۔ اور دعا ہی میں شامل ہوتے ہیں۔ کوئی بھی سنی حنفی صوفی مسلمان کسی ولی کو یا نبی کو اللہ سمجھ کر نہیں پکارتا نا ہی ان شخصیات کو الوہیت اور اسکی صفات میں شمار کرکے ان کو مددگارِ مطلق سمجھ کر پکارتا ہے۔ بلکہ پکارنے سے مراد یہی ہوتی ہے کہ اللہ کے دربار میں انکی سفارش پیش کی جائے ہماری طرف سے تاکہ دعاوں کی قبولیت میں زیادتی کا امکان ہو۔ اللہ ہمیں ایسے ایمان کے راہزنوں سے بچائے۔
ان کے ہی ایک اور دیوبندی عالم نے اپنی قاموس الوحید میں وسیلہ کے معنوں میں تحریر کیا ہے کہ۔۔۔ الوسیلۃ؛ ذریعہ، واسطہ ، مقام ومرتبہ۔ قرب و تقرب۔ جنت میں رسول اللہ ﷺ کا درجہ ومقام۔ ۔ یعنی انورشاہ کشمیری وپارٹی کے اپنے الفاظ کی تردید انکے اپنے ہی علمائے کرام سے موجود ہے۔
(حوالہ؛۔ القاموس الوحید۔ صفحہ ۱۸۵۰ تالیف؛ مولانا وحید الزماں قاسمی کیرانوی۔ استاذ حدیث و ادب عربی و معاون مہتمم دارالعلوم دیوبند۔ ادارہ اسلامیات لاھور کراچی پاکستان۔
امام جوھری ؒ کی الصحاح تاج اللغۃ وصحاح العربیۃ کا ایک اور حوالہ و ایڈیش یہ رہا۔ صفحہ ۱۲۴۵ حرف الواو۔ دارالحدیث قاھرہ مصر۔
ائمہ لغت کی ان تین بنیادی تصریحات سے واضح ہوگیا کہ جس چیز سے غیر کا تقرب حاصل کیا جائے وہ وسیلہ ہے، اللہ تعالیٰ کا تقرب اعمالِ صالحہ اور عبادات سے ہوتا ہے، تاہم انبیا علیھم السلام اور اولیائے کرام کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جو عزت اور وجاہب حاصل ہے، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت دعا کے لیئے اس عزت و وجاہت کو پیش کرنا اور ان سے دعا کی درخواست کرنا بھی جائز ہے، زندگی میں اور بعد از وفات بھی۔
انبیائے کرام علیھم السلام اور اولیائے عظام کی ذوات سے توسل کے متعلق فقہاٗ اسلام کی عبارات؛۔
امام محمد بن جزری آداب دعا میں لکھتے ہیں؛۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انبیاٗ علیھم السلام اور صالحین کا وسیلہ پیش کرے۔(بحوالہ؛۔ حصن حصین مع تحفۃ الذاکرین ص ۳۴ مطبوعہ مطبع مصطفےٰ البابی مصر)۔
حضرت الامام ملا علی قاری علیہ الرحمتہ الباری اسکی شرح میں لکھتے ہیں؛۔
مصنف نے کہا دعا میں انبیاٗ اور صالحین کا وسیلہ پیش کرنا امور مستحبہ میں سے ہے کیونکہ (صحیح بخاری) کی کتاب الاستسقاٗ میں ہے:
حضرت عمرؓ نے فرمایا: پہلے ہم اپنے نبی ﷺ کے وسیلہ سے دعا کرتے تھے تو (اے اللہ!) تو بارش نازل فرماتا تھا، اب ہم اپنے نبی ﷺ کے عم محترم کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں،تو ہم پر بارش نازل فرما، پھر ان پر بارش ہوجاتی ، اور جیسا کہ نابینا کی حدیث (حدیثِ ضریر) میں نبی کریم ﷺ کے وسیلہ سے دعا کا ذکر ہے جس کو امام حاکم نے اپنی (مستدرک) میں روایت کیا ہے اور یہ کہا کہ یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے، اور امام ترمذی نے کہا: یہ حدیث صحیح، غُریب ہے اور ہم نے اسکو (حصن) میں ذکر کیا ہے اور حدیثِ ابوامامہ کی بنا پر جس کو ہم نے صبح کی دعاوں میں ذکر کیا ہے، اس حدیث کو امام طبرانی نے معجم الکبیر اور کتاب الدعاٗ میں ذکر کررکھا ہے۔ (الحرزالثمین ۱۷۶ مطبعہ امیریہ مکہ مکرمہ)
امام جزری نے حضرت ابو امامہؓ کی جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے:
اسئلک بنور وجھک الذی اشرقت لہ السمٰوات والارض وبکل حق ھو لک وبحق السائلین علیک۔
اے اللہ ! میں تجھ سے تیری ذات کے اس نور کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں جس سے آسمان اور زمین روشن ہیں اور تیرے ہر حق کے وسیلہ سے اور جو سوال کرنے والوں کا تجھ پر حق ہے اس کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں۔(حصن حصین ص ۶۸)۔
اسی کی تشریح میں ملا علی قاری ؒ نے فرمایا؛۔
سوال کرنے والوں کا اللہ پراسلیئے حق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (اپنے کرم سے) ان کی دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، گویا کہ بندے نے اللہ تعالیٰ سے بندوں پر اس حق کے وسیلہ سے، اور سائلین کا اللہ پر جو حق ہے اسکے وسیلہ سے سوال کیا، اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ بندے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں، اسکی حمدوثناٗ کریں، اسکے احکام پر عمل کریں، اور اسکی منع کی ہوئی چیزوں سے رکیں، اور بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق ان کو ثواب عطا کرے، کیونکہ اسکے وعدہ کا پورا ہونا واجب ہے، کہ اسکا وعدہ حق ہے اور اسکی خبر صادق ہے۔ (الحرز الثمین ص ۱۷۶)۔
ابن تیمیہ نے لکھا ہے؛۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے والا یہ کہتا ہے کہ میں تجھ سے فلاں کے حق اور فلاں فرشتے اور انبیاٗ اور صالحین وغیرہم کے حق سے سوال کرتا ہوں یا فلاں کی حرمت اور فلاں کی وجاہت کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں، اس دعا کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انکے درجات بلند کرے، اور ان کی قدر افزائی کرے اور جب یہ شفاعت کریں تو انکی شفاعت قبول کرے، حالانکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کون اس سے شفاعت کرسکتا ہے۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ ج ۱ ص ۲۱۱ مطبوعہ فہد بن عبدالعزیز)۔
غیرمقلد عالم قاضی شوکانی نے لکھا ہے؛۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ پر سائلین کے حق سے مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ ان کی دعا کو مسترد نہ کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ وعدہ فرمایا ہے: مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا کو قبول کروں گا۔ مزید لکھا ہے؛۔ میں کہتا ہوں کہ انبیائے کرام علیھم السلام کے وسیلہ کے جواز پر وہ حدیث دلیل ہے جس کو امام ترمذی نے روایت کرکے کہا: یہ حدیث حسن، صحیح اور غریب ہے۔ امام نسائی، امام ابن ماجہ، اور امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں اور امام حاکم نے اسکو روایت کرکے کہا: یہ حدیث امام بخاری ومسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔ حضرت عثمان بن حنیفؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا صحابی نبی ﷺ کے پاس آیا ۔۔۔۔۔(اور پھر مشہور حدیث ضریر بیان کی)۔۔۔۔۔۔۔ شوکانی نے لکھا ہے۔۔۔۔حصن حصین کے باب صلوٰہ الحاجۃ میں اس حدیث کا ذکر آئے گا، اور صالحین کے توسل کے جواز پر وہ حدیث دلیل ہے جو صحیح بخاری میں ہے کہ صحابہ نے رسول اللہ ﷺ کے عم محترم یعنی چچا حضرت عباسؓ کے وسیلہ سے بارش کی دعا کی اور حضرت عمرؓ نے کہا: اے االلہ! ہم تیرے نبی کے چچا کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں۔
حوالہ تحفۃ الذاکرین ص ۳۷، مصطفےٰ البابی واولادہ مصر۔
وسیلہ (توسل) (استعانت) کا قرآن سے ثبوت؛۔
اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے ان کی ذات۔ ان کا نام ۔ ان کے تبرکات مخلوق کا وسیلہ ہیں۔ اس کا ثبوت قرآنی آیات ہیں۔ احادیثِ نبویہ ، اقوالِ بزرگان اجماع امت اور دلائل عقلیہ بلکہ خود مخالفین کے اقوال سے ثبوت موجود ہیں۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے:۔
ولو انھم اذ ظلمو ا انفسھم جآءوک فاستغفرواللہ واستغفرلھم الرسول لوجد واللہ تواباً رحیما ۔ (سورۃ النسآء پارہ ۵ آیت ۶۴)۔
ترجمہ؛ ۔ اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرکے آپ کے آستانہ پر آجاویں اور اللہ سے معافی چاہیں اور آپ بھی یارسول اللہ ان کی سفارش کریں تو بے شک یہ لوگ اللہ کو توبہ قبول کرنے والامہربان پائیں گے۔
مخالفین کے علمائے کرام کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ وہابیہ کے مشہور مولانا جونا گڑھی اپنے ترجمہ (مطبع شاہ فہد قرآن کمپلیکس سعودی عرب) میں لکھتے ہیں؛
ترجمہ:۔ ہم نے ہر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صرف اس لئے بھیجا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی فرمانبرداری کی جائے اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آجاتے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے لئے استغفار کرتے (١) تو یقیناً یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے۔
وہابیہ ہی کے فتح محمد کی ترجمہ ابن کثیر میں کچھ یوں لکھا ہے؛۔
ترجمہ آیت؛۔ اور ہم نے جو پیغمبر بھیجا ہے اس لئے بھیجا ہے کہ خدا کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے اور یہ لوگ جب اپنے حق میں ظلم کر بیٹھتے تھے اگر تمہارے پاس آتے اور خدا سے بخشش مانگتے اور رسول (خدا) بھی ان کے لیے بخشش طلب کرتے تو خدا کو معاف کرنے والا (اور) مہربان پاتے
وہابیہ دیابنہ کے مولانا اسحاق مدنی کے ترجمہ میں لکھا ہے؛۔
ترجمہ آیت؛۔ اور ہم نے جو بھی کوئی رسول بھیجا اس لئے بھیجا کہ اس کی اطاعت (فرمانبرداری) کی جائے اللہ کی اذن سے، اور اگر یہ لوگ (جنہوں نے یہ حماقت کی تھی) جب ظلم کر بیٹھے تھے اپنی جانوں پر، تو سیدھے آجاتے آپ کے پاس، اور اللہ سے معافی مانگتے (اپنے جرم کی) اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کیلئے (اپنے رب کے حضور) معافی کی درخواست کرتا، تو یقینا یہ لوگ اللہ کو پاتے بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا، انتہائی مہربان ۔
دیوبندیوں کے مولانا عاشق الٰہی میرٹھی نے اپنے ترجمہ انوارالبیان میں اسی آیت کے ماتحت لکھا؛۔
ترجمہء آیت؛۔ اور ہم نے پیغمبر نہیں بھیجے مگر اسی لیے کہ بحکم خداوندی ان کی فرمانبر داری کی جائے اور جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا آپ کے پاس آتے پھر اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول ان کے لیے استغفار کرتا تو ضرور اللہ کو توبہ قبول کرنے والے اور مہربانی فرمانے والے پاتے۔
ایک اور مفتی دیوبند تقی عثمانی نے اپنے ترجمہ آسان قرآن میں لکھا ؛۔
ترجمہء آیت؛۔ اور ہم نے کوئی رسول اس کے سوا کسی اور مقصد کے لیے نہیں بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ اور جب ان لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، اگر یہ اس وقت تمہارے پاس آکر اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو یہ اللہ کو بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان پاتے۔
ڈاکٹر اسراراحمد نے اپنے ترجمہ بیان القرآن میں یوں ترجمہ کیا ہے؛۔
ترجمہ ء آیت؛۔ ہم نے نہیں بھیجا کسی رسول کو مگر اس لیے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے حکم سے اور اگر وہ ‘ جبکہ انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا ‘ آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور اللہ سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے لیے استغفار کرتے تو وہ یقیناً اللہ کو بڑا توبہ قبول فرمانے والا اور رحم کرنے والا پاتے
وہابیہ کے ترجمہ القرآن الکریم میں حافظ عبدالسلام بھٹوی نے لکھا ہے؛۔
ترجمہ آیتِ ہٰذا؛۔ اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی فرماں برداری کی جائے اور اگر واقعی یہ لوگ، جب انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آتے، پھر اللہ سے بخشش مانگتے اور رسول ان کے لیے بخشش مانگتا تو اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان پاتے۔
ترجمہ تیسیر القرآن میں وہابیہ کے مولانا عبدالرحمٰن کیلانی نے لکھا ہے؛۔
ترجمہء آیت ؛۔ اور (انہیں بتلائیے کہ) ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اس لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے حکم کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے اور جب انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کرلیا تھا، تو اگر وہ اس وقت آپ کے پاس آجاتے اور اللہ سے بخشش طلب کرتے اور رسول بھی ان کے لیے بخشش طلب کرتا تو یقینا اللہ کو توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا پاتے ۔
وہابیہ کے ترجمہ عبدالکریم اثری میں مولوی عبدالکریم اثری نے بھی لکھا ہے؛۔
ترجمہ آیت؛۔ اور ہم نے جس کسی کو بھی منصب رسالت دے کر دنیا میں کھڑا کیا اس لیے کیا کہ ہمارے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور جب ان لوگوں نے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کرلیا تھا تو اگر اس وقت تمہارے پاس حاضر ہوجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے پھر اللہ کا رسول بھی ان کیلئے بخشش طلب کرتا تو یہ لوگ دیکھ لیتے کہ اللہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور رحمت رکھنے والا ہے
دیوبندیوں کے ترجمہ معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع نے لکھا ہے؛۔
ترجمہ آیت:۔ اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی واسطے کہ اس کا حکم مانیں اللہ کے فرمانے سے اور اگر وہ لوگ جس وقت انہوں نے اپنا برا کیا تھا آتے تیرے پاس پھر اللہ سے معافی چاہتے اور رسول بھی ان کو بخشواتا تو اللہ کو پاتے معاف کرنے والا مہربان۔
ترجمہ حقانی ابومحمد عبدالحق حقانی نے تحریر کیا؛۔
ترجمہء آیت؛۔ اور ہم نے ہر ایک رسول کو اسی لئے بھیجا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کا حکم مانا جاوے اور کاش وہ لوگ جنہوں نے اپنا برا کیا ہے آپ کے پاس آتے (اور) پھر خدا سے معافی مانگتے اور رسول (بھی) ان کے لئے معافی مانگتا تو البتہ وہ اللہ کو (بھی) معاف کرنے والا مہربان پاتے
دیوبند، وہابیہ کے ایک اور بزرگ مولوی احمد علی نے اپنے ترجمہ قرآن میں کچھ یوں ترجمہ کیا؛
ترجمہ آیت؛۔ اور ہم نے کبھی کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی واسطے کہ اللہ کے حکم سے اس کی تابعداری کی جائے اور جب انہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا تھا تیرے پاس آتے پھر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کی معافی کی درخواست کرتا تو یقیناً یہ اللہ کو بخشنے والا رحم کرنے والا پاتے
دیوبند ہی کے مولانا محمودالحسن نے ترجمہ عثمانی میں لکھا ہے؛۔
ترجمہ آیت؛۔ اور ہم نے کوئی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں بھیجا مگر اسی واسطے کہ اس کا حکم مانیں اللہ کے فرمانے سے اور اگر وہ لوگ جس وقت انہوں نے اپنا برا کیا تھا آتے تیرے پاس پھر اللہ سے معافی چاہتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کو بخشواتا تو البتہ اللہ کو پاتے معاف کرنے والا مہربان ف ٤
دیوبند کے ہی مولوی اشرف علی تھانوی نے بیان القرآن میں لکھا ہے؛۔
اور ہم نے تمام پیغمبروں کو خاص اسی واسطے معبوث فرمایا ہے کہ بحکم خداوندی ان کی اطاعت کیجاوے اور اگر جس وقت اپنانقصان کر بیٹھتے تھے اس وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے پھر الله تعالیٰ سے معافی چاہتے اور رسول بھی ان کے لیے الله تعالیٰ سے معافی چاہتے اور ضرور الله تعالیٰ کو تو بہ قبول کرنے والا اور رحمت کرنے والا پاتے۔ (ف ٢)
دیوبندیوں کے ہی ترجمہ شاہ عبدالقادر میں عبدالقادر نے لکھا ہے؛۔
ترجمہ آیت؛۔ ٦٤۔ اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس واسطے کہ اس کا حکم مانئے (اطاعت کریں اس کی) اللہ کے فرمان سے۔ اور اگر ان لوگوں نے جس وقت اپنا برا کیا تھا، آتے تیرے پاس، پھر اللہ سے بخشواتے اور رسول ان کو بخشواتے، (یقیناً ) اللہ کو پاتے معاف کرنے والا مہربان۔
علمائے اہلسنت وجماعت ،بمع مجدد دین و ملت اعلیٰ حضرت شاہ احمد رضا خان قادری ماترید ی الہندی البریلوی نے اپنی معرکۃ الآراء ترجمہ قرآن کنزالایمان شریف میں یوں اس آیت کا ترجمہ تحریر فرمایا؛۔
ترجمہ آیت از کنزالایمان شریف؛۔ اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے (ف ١٧٥) اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں (ف ١٧٦) تو اے محبوب ! تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں (ف ١٧٧)
اہلسنت وجماعت کے ایک اور مشہور عالم دین ترجمہ ضیاء القرآن میں جسٹس پیر کرم شاہ الازھری صاحب نے لکھا ہے؛
ترجمہ آیت؛۔ اور نہیں بھیجا ہم نے کوئی رسول مگر اس لیے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے اذن سے اور اگر یہ لوگ جب ظلم کربیٹھے تھے اپنے آپ پر حاضر ہوتے آپ کے پاس اور مغفرت طلب کرتے اللہ تعالیٰ سے نیز مغفرت طلب کرتا ان کے لیے رسول (کریم) بھی تو وہ ضرور پاتے اللہ تعالیٰ کو بہت توبہ قبول فرمانے والا نہایت رحم کرنے والا۔
سرخیلِ سلف الصالحین حضرت علامہ حافظ جلال الدین ابوبکر السیوطی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی مشہور ترجمہ درمنثور میں یوں لکھا ہے؛۔
ترجمہ آیت؛۔ اور ہم نے پیغمبر نہیں بھیجے مگر اسی لئے کہ بحکم خداوندی ان کی فرمانبرداری کی جائے اور جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا آپ کے پاس آتے پھر اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول ان کے لئے استغفار کرتا تو ضرور اللہ کو توبہ قبول کرنے والا اور مہربانی فرمانے والا پالیتے۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر مجرم کے لیئے ہروقت تاقیامت وسیلہٗ مغفرت ہیں۔ ظلموا میں کوئی قید نہیں اور اذنِ عام ہے یعنی ہر قسم کا مجرم ہمیشہ آپ کے پاس حاضر ہو۔
قرآن کی سورت المائدہ پارہ ۶ آیت ۳۵ میں اللہ رب العزت فرماتا ہے؛۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَابْتَغُوْٓا اِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ وَجَاهِدُوْا فِيْ سَبِيْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔
ترجمہ ؛۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور رب کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اسکی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ اعمال کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں کا وسیلہ ڈھونڈنا ضروری ہے۔کیونکہ اعمال تو اتقوااللہ میں آگئےاور اسکے بعد وسیلہ کا حکم فرمایا ۔ معلوم ہوا کہ یہ وسیلہ اعمال کے علاوہ ہے۔
ذیل میں مختصراً قرآنِ کریم کی آیات بطور سند پیش کی جارہی ہیں ۔ وسیلہ (جسکا لغوی معنی تقرب حاصل کرنا۔ یا کسی بڑے ذریعہ تک پہنچنے کا راستہ ہوتا ہے، بحوالہ لغات العرب، لسان العرب و تاج العروس)قرآن حکیم میں متعدد بار آیا ہے اور اس حکم کا ذکر ان مندرجہ ذیل آیات میں موجود ہے۔
سورۃ التوبہ ۔ پارہ ۱۱۔ سورہ جمعہ پارہ ۲۸ آیت ۲۔ پارہ اول سورہ البقرہ ۔ آیت نمبر ۸۹ ۔و۔ ۳۷۔ پارہ دوئم ۲۔ سورہ بقر آیت نمبر ۱۴۴۔
ان تمام آیتوں سے معلوم ہوا کہ نبی ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے اہل کتاب آپ کے نام کے وسیلہ سے جنگوں میں دعائے فتح کرتے تھے اور قرآن کریم ان کے فعل پر اعتراض نہیں کرتا بلکہ تائید کرتا ہے اور فرمایا گیا کہ ان کے نام کے وسیلہ سے تم دعائیں مانگا کرتے تھے ۔ اب ان پر ایمان کیوں نہیں لاتے۔ پھر دوسرے حوالے کے مطابق۔ آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی طرف سے کچھ کلمے پائے جن کے وسیلہ سے دعا کی اور رب نے انکی دعا قبول فرمائی۔ بہت سے مفسرین ِ کرام فرماتے ہیں کہ آدم ؑ نے جب نبی کریم ؑ کے نام کے وسیلہ سے دعا کی جو مقبول ہوئی ۔ معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺانبیائے کرام کابھی وسیلہ ہیں۔ پھر قرآن حکیم میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ ۔ ہم آپ کے چہرے کو آسمان کی طرف پھرتے دیکھ رہےہیں۔ اچھا ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیرے دیتے ہیں جس سے آپ راضی ہیں۔ ۔ یعنی معلوم ہوا کہ تبدیلیٗ قبلہ صرف اسی لیئے ہوئی کہ نبی کریم ﷺ کی یہ خواہش تھی ۔ یعنی مکہ معظمہ حضور علیہ السلام کے وسیلے ہی سے تو قبلہ بنا ۔ جب کعبہ نبی کریم ﷺ کے وسیلے کا محتاج ہے تو ماوشما کا کیا پوچھناہے۔
قرآن ہی میں فرمایا گیا ؛۔
وکان ابوھما صالحاً فارادربک ان یبلغا اشدھما ویستخرجا کنزھما۔
ترجمہ؛۔ حضرت خضر(علیہ السلام) نے دیوار بنا کر موسی ٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ اس دیوار کے نیچے دو یتیم بچوں کا سرمایہ ہے ان کا باپ نیک تھا اس لیئے رب نے چاہا کہ ان کا خزانہ محفوظ رہے اوریہ جوان ہوکر اپنا خزانہ نکال لیں۔ (بحوالہ پارہ ۱۶ سورہ الکہف۔ آیت نمبر ۸۲)۔
معلوم ہوا کہ ان یتیم بچوں پر رب کا یہ کرم ہوا کہ ان کی شکستہ دیوار بنانے کے لیئے دومقبول بندے بھیجے گئے اسکی وجہ یہ تھی کہ ان کا باپ نیک آدمی تھا۔ یعنی نیک باپ کے وسیلہ سے اولاد پر اللہ تعالیٰ کا کرم ہوتا ہے۔
اولئک الذین یدعون یبتغون الی ربھم الوسیلۃ ایھم اقرب ویرجون رحمتہ ویخافون عذابہ۔
ترجمہ؛۔ وہ مقبول بندے جن کی بت پرست پوجا کرتے ہیں وہ خود اپنے رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے اسکی رحمت کی ماید رکھتے ہیں اور اسکے عذاب سے ڈرتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ جن نیک بندوں کی کفار پوجا کرتے ہیں ان میں سے ہرایک اللہ سے زیادہ قرب والے کا وسیلہ تلاش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس تلاشِ وسیلہ پر اعتراض نہیں فرمایا۔ نا ہی کہیں پر یہ لکھا کہ وسیلہ کرنا (غیراللہ سے مدد ہے یا کفر شرک یا بدعت کہلائے گا)۔ پھر فرمایا؛۔
ولولا رجال مومنون ونساء مومنات لم تعلموھم ان تطاھم فتصیبکم منھم معرۃ بغیر علم لیدخل اللہ فی رحمتہ من یشآء لو تزیلو العذبنا الذین کفروا منھم عذاباً الیما۔
ترجمہ؛۔ اگر کچھ مسلمان مرد اور کچھ مسلمان عورتیں جن کو تم نہیں جانتے ( اگر اس امر کا اندیشہ نہ ہوتا) کہ تم ان کو پیس ڈالتے پھر تم پر خرابی آپڑتی ان کی طرف سے بے خبری میں (فتح توہوجاتی) لیکن اس میں دیر اسلیئے ہوئی تاکہ اللہ جس کو چاہے اپنی رحمت میں داخل فرمائے۔ اگر وہ مسلمان کفارِ مکہ سے جدا ہوجاتے تو ہم کافروں کو دردناک عذاب کی سزا دیتے۔
معلوم ہوا کہ کفارِ مکہ کے عذاب سے محفوظ رہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے کچھ مسلمان رہ گئے تھے ۔ یعنی شہر میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا ہونا بے دینوں کے امن کا وسیلہ ہوتا ہے۔
وقال الذین غلبوا علی امرھم لنتخذن علیھم مسجدا۔
ترجمہ؛۔ غالب آنے والے لوگ بولے کہ ہم اصحاب کہف پر مسجد بنائیں گے۔ (پار ہ ۱۵ سورہ الکہف آیت ۲۱)۔
قرآن مجید فرقانِ حمید کی اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ بزرگوں کی قبروں کے پاس مسجد بنانا تاکہ ان کے وسیلہ سے نماز میں برکت ہو اور زیادہ قبول ہو ہمیشہ سے مسلمانوں کا دستور رہا ہے۔ قرآن کریم نے اصحاب کہف کی قبر کے پاس نماز کے لیئے مسجد بنانے کا ذکر کیا اور اسکی تردید نہیں کی جس سے پتہ لگا کہ ان کا یہ کام اللہ تعالیٰ کو پسند ہوا۔
اذھبوا بقمیصی ھذا فالقوہ علی وجہ ابی یات بصیرا۔ (پارہ ۱۲ سورہ یوسف)۔
ترجمہ؛۔ یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں سے فرمایا کہ میری قمیص لے جاو اور میرے والد ماجد کے چہرے پر ڈال دو ۔ ان کی آنکھیں بینا ہوجائیں گی۔
معلوم ہوا کہ بزرگوں کے لباس کے وسیلہ سے دکھ درد دور ہوجاتے ہیں اور شفا ملتی ہے۔ یعنی تبرکاتِ بزرگ (کفر شرک یا تبلیغیوں کی متعارف کردہ بدعت نہیں )۔
لا اقسم بھذا البلد۔ وانت حل بھذا البلد۔ ترجمہ۔ میں قسم فرماتا ہوں اس شہرِ مکہ کی کہ اے محبوب! اس میں تم تشریف فرما ہو ۔ معلوم ہوا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلہ سے مکہ مکرمہ کو یہ فضیلت ملی کہ رب نے اسکی قسم فرمائی (سورہ البلد۔ پارہ ۳۰۔ آیت نمبر ا تا ۲)۔
قرآن حمید میں ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
والتین والزیتون وطور سینین وھذا البلد الامین۔ ترجمہ۔ یعنی قسم ہے انجیر زیتون اور طور کی اور اس امانت والے شہر کی۔ (پارہ ۳۰ سورۃ التین آیت نمبر ۱تا ۲)۔
اس سے معلوم ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کے وسیلہ سے انجیر اور طور کے پہاڑ کو عزت ملی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے مکہ شریف کو ایسی برکت حاصل ہوئی کہ اس کی قسم رب نے فرمائی ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وسیلہ کا نفع بے جان چیزوں کو بھی پہنچ جاتا ہے۔
ان ایۃ ملکہ ان یاتیکم التابوت فیہ سکینۃ من ربکم وبقیۃ مما ترک ال موسی و ال ھرون تحملہ الملٰئکۃ۔ (پارہ ۲ سورہ البقرۃ)۔
شموئیل علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ طالوت کی بادشاہت کی دلیل یہ ہے کہ ان کے پاس تابوتِ سکینہ آئے گا جس میں حضرت موسیٰ وہارون علیھما السلام کے تبرکات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو یہ صندوق دیا تھا جس میں موسیٰ علیہ السلام کا نعلین مبارک اور ہارون علیہ السلام کی دستار مبارک اور دیگر تبرکات تھے جسے بنی اسرائیل جنگ میں اپنے آگے رکھتے تھے جس کی مدد وسیلہ اور برکت سے دشمنوں پر فتح پاتے تھے۔ اس سے پتہ چلا کہ بزرگوں کے تبرکات کے وسیلہ سے بھی آفات دور ہوتی ہیں مشکلات حل ہوتی ہیں ۔ اور کہیں بھی ایسے وسلیے کو کسی نے (غیراللہ سے مدد) کا گھٹیا نام نہیں دیا۔
انی اخلق لکھم من الطین کھیئۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیراً باذاللہ۔ (پارہ ۳۔ سورہ آل عمران)
ترجمہ؛۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں مٹی سے پرندے کی شکل بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں۔ جس سے وہ باذنِ پروردگار پرندہ بن جاتا ہے۔
یعنی پتہ یہ چلا کہ بزرگوں کے دم کے وسیلہ سے مٹی میں جان پڑجاتی ہے اور بیماروں کو شفا ملتی ہے۔
فقبضت قبضۃ من اثر الرسول فنبذتھا وکذلک سولت لی نفسی۔
ترجمہ؛۔ سامری بولا کہ میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کی گھوڑی کی ٹاپ کے نیچے سے ایک مٹھی مٹی لی اور سونے کے بچھڑے کے منہ میں دی (اوربچھڑا آواز دینے لگا)۔ (سورہ طٰہٰ آیت نمبر ۹۶)۔
پتہ لگا کہ جبرائیل امین علیہ السلام کی گھوڑی تک کے پاوں کی خاک کے وسیلہ سے سونے کے بے جان بچھڑے میں جان پڑگئی۔
قال یتوفا کم ملک الموت الذی وکل بکم۔ ترجمہ۔ فرمادو کہ تم کو ملک الموت وفات دیں گے جو تم پر مقرر کئے گئے ہیں معلوم ہوا کہ حضرت ملک الموت کے وسیلہ سے جان نکلتی ہے۔ (پارہ ۲۱ سورہ السجدہ)۔
قل انما انا رسول ربک لاھب لک غلاماً زکیا۔ (پارہ ۱۶ سورہ مریم آیت نمبر ۱۹)۔
ترجمہ؛۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میں تمہارے رب کا قاصد ہوں اسلیے آیا ہوں کہ تمہیں ستھرا بیٹا بخشوں۔
یعنی پتہ چلا کہ حضرت جبریل علیہ السلام کے وسیلہ سے اللہ کی عطا سے لڑکا ملا۔
وماکان اللہ لیعذبھم وانت فیھم ۔ ترجمہ۔ اللہ انہیں عذاب نہ دیگا حالانکہ آپ ان میں تشریف فرما ہیں۔ (پارہ ۹ سورہ الانفال)۔
یعنی اہل مکہ عذاب سے اسلیئے بچے ہوئے ہیں کہ ان پر آپ جلوہ گر ہیں معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ کی ذاتِ بابرکات عذابِ الٰہی سے امن کا وسیلہ ہے۔
واذ قلتم یاموسیٰ لن نصبر علی طعام واحد فادع لنا ربک یخرج لنا مماتنبت الارض من بقلھا۔ (پارہ ۱ سورہ البقرہ)۔
ترجمہ؛۔ اور جب تم (بنی اسرائیل) نے کہا اے موسیٰ ہم ایک کھانے (یعنی من و سلویٰ) پر ہرگز صبر نہ کریں گے اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار نکالے۔
یعنی بنی اسرائیل جب کوئی بات رب سے عرض کرنا چاہتے تو پہلے موسیٰ علیہ السلام کے پاس حاضر ہوتے اور پھر ان کے ذریعے مدد استعانت وسیلہ کے بل پر دعا کرتے جو کہ مقبول ہوجاتی۔
ھنالک دعا زکریا ربہ۔ ترجمہ۔ یعنی حضرت مریم رضی اللہ عنہا کو بے موسم پھل کھاتے ہوئے دیکھ کر زکریا علیہ السلام نے مریم رضی اللہ عنہا کے پاس کھڑے ہوکر فرزند کے لیئے دعا مانگی۔ (پارہ ۳ سورہ آلِ عمران)۔
پتہ چلا کہ بزرگوں کے پاس دعا مانگنا زیادہ باعثِ قبولیت ہے اگرچہ دعا مانگنے والا زیادہ بزرگ ہو۔
جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ قرآن مجید کی سورہ النسا کی آیت ۶۴ ایک واضح دلیل ہے اور اس پر ابن کثیر کا یہ قول بھی دیا گیا کہ حافظ عماد الدین اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفیٰ ۷۷۴ھ نے لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں عاصیوں اور گنہگاروں کو یہ ہدایت دی ہے کہ جب ان سے خطا اور گناہ ہوجائے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوں اور آپ علیہ السلام کے پاس آکر استغفار کریں اور رسول کریم علیہ السلام سے یہ گزارش کریں کہ آپ بھی ان کے لیئے اللہ دے سفارش فرمائیں اور جب وہ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ کو قبول فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا اور بہت مہربان پائیں گے۔ مفسرین کی ایک جماعت نے بیان کیا ان میں شیخ ابومنصور الصباغ بھی شامل ہیں ، انہوں نے اپنی کتاب الشامل میں عتبی کی یہ مشہور حکایت بھی تحریر فرمائی کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ انور یعنی (قبر نبی) کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک اعرابی نے آکر کہا (السلام علیک یارسول اللہ، میں نے اللہ عزوجل کا یہ ارشاد سنا ہے: ولو انھم اذ ظلموا انفسھم جاوک ۔۔۔۔الی الآخر) اور میں آپ کے پاس آگیا ہوں اور اپنے گناہ پر اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور اپنے رب کی بارگاہ میں آپ سے شفاعت طلب کرنے والا ہوں، پھر اس نے دو شعر پڑھے:۔
یا خیر من دفنت بالقاع اعظمہ ۔ فطاب من طیبھن القاع الاکم
نفسی الفداء لقبر انت ساکنہ ۔ فیہ العفاف وفیہ الجود والکرم
ترجمہ؛۔ اے وہ جو زمین کے مدفونین میں سب سے بہتر ہیں ۔ جن کی خوشبو سے زمین اور ٹیلے خوشبودار ہوگئے
میری جان اس قبر پر فدا ہو جس میں آپ ساکن ہیں ۔ اس مین عفو ہے اس میں سخاوت ہے اور لطف و کرم ہے
امام ابن کثیر آگے لکھتے ہیں ۔
تم انصرف الاعرابی ، فغلبتنی عینی ، فرایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی النوم فقال: (یا عتبی الحق الاعرابی فبشرہ ان اللہ قد غفرلہ)۔
یعنی پھر وہ اعرابی چلا گیا ، عتبی بیان کرتے ہیں کہ مجھ پر نیند غالب آگئی ، میں نے خواب میں سرورکائنات ﷺ کی زیارت کی اور آپ نے فرمایا اے عتبی! اس اعرابی کے پاس جاکر اس کو خوشخبری کی نوید دو کہ اللہ نے اسکی مغفرت کردی ہے۔
حوالہ؛ تفسیر ابن کثیر جلد ۴ زیر تحت سورہ النسا آیت ۶۴ صفحہ ۱۴۰ مطبعہ الفاروق الحدیثۃ للطاعۃ والنشر ھاتف۔ القاھرہ۔
ایسا ہی بیان الجامع الاحکام القرآن ج ۵ ص ۲۶۵، تفسیر البحر المحیط ج ۳ ص ۲۹۴ ، تفسیر مدارک التنزیل علی ہامش الخازن ج ۱ ص ۳۹۹ پر بھی موجود ہے۔ اور احادیث کے باب میں مزید اسی حدیث پر تحقیق پیش کی جائے گی وہاں سے استفادہ کیجئے۔
مخالفین کے مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:۔
یہ آیت اگرچہ خاص منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، لیکن اس کے الفاظ سے ایک عام ضابطہ نکل آیا کہ جو شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوجائے اور آپ اسکے لیئے دعا مغفرت کردیں اسکی مغفرت ضرور ہوجائے گی اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضری جیسے آپ کی دنیاوی حیات کے زمانہ میں ہوسکتی تھی اسی طرح آج بھی روضہ اقدس پر حاضری اسی حکم میں ہے، اسکے بعد مفتی صاحب نے بھی عتبی کی مذکورالصدر حکایت بیان کی ہے۔ (بحوالہ تفسیر معارف القرآن ج ۲ صفحات ۔ ۴۵۹ اور ۴۶۰ ، مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی)۔
دیوبندیوں کے ایک اور مشہور عالم محمد سرفراز گکھڑوی نے لکھا ہے؛۔
عتبی کی حکایت اس میں مشہور ہے اور تمام مذاہب کے مصنفین نے مناسک کی کتابوں میں اور مورخین نے اسکا ذکر کیا ہے اور سب نے اس کو مستحسن قرار دیا ہے اسی طرح دیگر متعدد علماء کرام نے قدیماً و حدیثاً اس کو نقل کیا ہے اور حضرت تھانوی لکھتے ہیں کہ مواہب میں بہ سند امام ابومنصور صباغ اور ابن النجار اور ابن عساکر اور ابن الجوزی رحمہم اللہ تعالیٰ نے محمد بن حرب ہلالی سے روایت کیا ہے کہ میں قبرمبارک کی زیارت کرکے سامنے بیٹھا تھا کہ ایک اعرابی ۤیا اور زیارت کرکے عرض کیا کہ یا خیرالرسل، اللہ تعالیٰ نے آپ پر ایک سچی کتاب نازل فرمائی جس میں ارشاد ہے ولو انھم اذ ظلموا انفسھم جاء وک فاستغفرواللہ واستغفرلھم الرسول لوجدوا اللہ تواباً رحیما اور میں آپ کے پاس اپنے گناہوں سے استغفار کرتا ہوں اور اپنے رب کے حضور میں آپ کے وسیلہ سے شفاعت چاہتا ہوا آیا ہوں پھر دو شعر پڑھے۔ اور اس محمد بن حرب کی وفات ۲۲۸ھ میں ہوئی ہے، غرض زمانہ خیرالقرون کا تھا اور کسی سے اس وقت نکیر منقول نہیں، پس حجت ہوگیا (بحوالہ نشر الطیب ص ۲۵۴) اور حضرت مولانا تھانوی یہ آیت کریمہ لکھ کر فرماتے ہیں؛( کیونکہ اس میں کسی کی تخصیص نہیں آپ کے ہم عصر ہوں یا بعد کے امتی ہوں، اور تخصیص ہو تو کیونکر ہو آپ کا وجود تربیت تمام امت کے لیئے یکساں رحمت ہے کہ پچھلے امتیوں کا آپ کی خدمت میں آنا اور استغفار کرنا اور کرانا جب ہی متصور ہے کہ قبر میں زندہ ہوں(بحوالہ آب حیات ص ۴۰) اور حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی یہ سابق واقعہ ذکر کرکے آخر میں لکھتے ہیں: پس ثابت ہوا کہ اس آیت کریمہ کا حکم آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد بھی باقی ہے۔ (بحوالہ اعلا السنن ج ۱۰ ص ۳۳۰)۔
یعنی منکرینِ توسل کے اپنے ان اکابرین کے بیان سے بھی معلوم ہوگیا کہ قبر پر حاضر ہوکر شفاعت مغفرت کی درخواست کرنا قرآن کریم کی آیت کے عموم سے ثابت ہے، بلکہ امام سبکی ؒ فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ اس معنی میں صریح ہے۔ (بحوالہ شفا السقام ص ۱۲۸) اور خیرالقرون میں یہ کاروائی ہوئی، مگر کسی نے انکار نہیں کیا جو اسکے صحیح ہونے کی واضح دلیل ہے۔ (تسکین الصدور ص ۳۵۶ و ۳۶۶ ملخصاً مطبوعہ ادارہ نصرت العلوم گوجرانوالہ)۔
تفسیر ضیا القرآن جلد ۱ ص ۳۵۹ و ۳۶۰ زیر تحت اسی آیت حضرت جسٹس کرم شاہ الازھری تحریر فرماتے ہیں؛۔
یعنی اےرحمتِ مجسم ! اگر یہ دنیا بھر کے قصور کرکے اور اپنی جانوں پر طرح طرح کے ظلم توڑنے کے بعد بھی نادم و تائب ہوکر تیرے حضور میں حاضر ہوتے ہوں تو ان پر اپنا درِ کرم باز رکھ۔ جب ان کی شفاعت و بخشش و رستگاری کے لیئے تیرا ہاتھ میری بارگاہ ِ جودوعطا میں اٹھے گا تو خواہ وہ کتنے گنہ گار رُوسیاہ اور بدکار کیوں نہ ہوں تیرے رب کی رحمت ان کو مایوس نہیں کرے گی بلکہ ان کی توبہ قبول کرلی جائے گی اور ان بیگانوں کو اپنا بنا لیا جائے گا۔ حصورِ اکرم شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ برکت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری زندگی تک محدود نہ تھی بلکہ تاابد ہے ۔ اہل دل اور اہل نظر ہرلمحہ اور ہرآن اسکا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے مروی ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے تین روز بعد ایک اعرابی ہمارے پاس آیا اور (فرطِ رنج و غم سے) مزارِ پرانوار پر گرپڑا اورصلی اللہ علیہ وسلم خاکِ پاک کو اپنے سر پر ڈالا۔ اور عرض کرنے لگا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو آپ نے فرمایا ہم نے سنا، جو آپ نے اپنے رب سے سیکھا وہ ہم نے آپ سے سیکھا اور اسی میں یہ آیت بھی تھی ولو انھم اذ ظلموا انفسھم (الخ) میں نے اپنی جان پر بڑے بڑے ستم کیئے ہیں۔ اب آپکی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں۔ اے سرابا شفقت و رحمت ! میری مغفرت کے لیئے دعا فرمائیے۔ فنودی من القبر انہ قد غفرلک۔ (القرطبی) تو مرقد منور سے آواز آئی تجھے بخش دیا گیا۔
(بحوالہ تفسیر قرطبی جلد ۳ پارہ ۵ سورہ النسا آیت ۶۴اردو ص ۲۶۹ ضیا القرآن پبلیکیشنز لاھور و تفسیر الجامع لاحکام القرآن للقرطبی عربی جلد ۶ ص ۴۳۹ موسسۃ الرسالۃ بیروت پبلشرز)۔
تفسیر مدارک اور خازن میں بھی یہی مندرج ہے اور اسی کو تفسیر نعیمی میں بھی صفحہ ۱۹۴ پر درج کیا گیا ہے اور فرماتے ہیں؛۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاجات عرض کرنے کے لیئے اسکے مقبول بندوں کو وسیلہ بنانا کامیابی کا ذریعہ ہے قبر پر حاجت کے لیئے جانا بھی جاوک میں داخل ہے اور زمانہ صحابہ میں مروج تھا۔ مقبولانِ خدا کو (یا) کہہ کر پکارنا جائز ہے ، رب کے مقبول بندے بعد وفات بھی مدد کرتے ہیں اور ان کی دعا سے حاجتیں پوری ہوتی ہے۔ (خزائن العرفان)۔ چھٹا فائدہ : حضور کی بارگاہ میں حاضری کے لیئے مدینہ پاک جانا ضروری نہیں۔ جہاں سے رہ کر بھی ان کا توسل کیا جائے تو بھی حاضری میسر ہوجاتی ہے دیکھو یہاں جاٗوک تو فرمایا مگر فی المدینۃ کی قید نہ لگائی۔ (بحوالہ اشرف التفاسیر تفسیر نعیمی از حضرت حکیم الامت مولانا مفتی احمد یارخاں نعیمی بدایونی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ مکتبہ اسلامیہ ۴۰ اردو بازار لاھور)۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش مدد استعانت کا یہی عقیدہ صفحہ ۱۷۵ و ۱۷۶ پر بیان کیا گیا ہے کہ آپ کی سفارش کے بنا کسی کی توبہ بھی مقبول نہیں اور یہ کہ خالص صدق دل سے توبہ اسی وقت مقبول ہوتی ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفارش فرمادیں اور اللہ کے نزدیک آپ کی سفارش کا درجہ عظیم ہے
(مکمل حوالہ ۔ تفسیر حدائق الروح والریحان فی روابی علوم القرآن۔ للشیخ علامہ محمد الامین بن عبداللہ الارمی العلوی الھرری الشافعی ، مکہ المکرمہ جلد ۶ دارطوق النجاۃ)۔
تفسیر الجیلانی میں بھی لکھا ہے کہ ؛۔
جاٗوک ۔ تائبین معتذرین مما صدر عنھم (فاستغفراللہ) مخلصین نادمین (واستغفرلھم الرسول) ایضاً بالاستشفاع والاستدعاٗ من اللہ بالقبول بعدما جا وا معتذرین (لوجدوا اللہ) وصادقوہ مفضلاً کریماً (تواباْ) یقبل توبتھم (رحیما) ۔ لھم یفقھم علیھا۔
یعنی گنہ گاروں تائبین کے لیئے ضروری ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں استغفار کریں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی سفارش فرمائیں تو بے شک اللہ انکی توبہ قبول فرمانے والا ہے۔ ، شیخ نے (واستغفرلھم الرسول) کے بارے میں فرمایا کہ (من وجودھم مع الیٰ الآخر) یعنی رسول کریم علیہ السلام کا سفارش فرمانا انکے انقلابِ قلب کی دلالت ہے اور ان کی شہادت کے بنا توبہ کا حصول اصل کے بنا ہے۔
(حوالہ؛ تفسیر الجیلانی الغوث الربانی والامام الصمدانی ۔ للشیخ سیدی محی الدین عبدالقادر الجیلانیؓ المتوفیٰ ۷۱۳ھ۔تحقیق شیخ احمد فرید المزیدی، جلد ۱ صفحات ۳۷۲ و ۳۷۳المکتبۃ المعروفیہ کوئٹہ پاکستان عربی تفسیر)۔
اب ذیل میں چند دیگر مشہور قدیم تفسیراتِ قرآنی کے صرف حوالے درج کیئے جارہے ہیں کہ جس میں فرداً فرداً یہی سب جو کچھ اوپر بیان ہوچکا موجود ہے
تفسیر الکشاف عن حقائق التنزیل ، تالیف ابی القام امام جاراللہ محمود بن عمر الزمخشری الخوارزمی ویلیہ الکافی الشٰاف فی تخریج احادیث الکشاف از امام الحافظ احمد بن حجر العسقلانی، زیر تحت سورہ النسا صفحہ آیت ۶۴ صفحہ ۲۷۷ و ۲۷۸جلد ۱ دارالمعرفۃ بیروت لبنان
تفسیر القاسمی ، المسمی محاسن التاویل تالیف العلامۃ الشام محمد جمال الدین القاسمی ۔طبعۃ محمد فواد عبدالباقی صفحات ۱۳۶۰ و ۱۳۶۰ (استغفارالرسول صارت مستحقۃ للقبول) باب تنبیہات۔ وجہ نمبر ۷۔
انوار التنزیل المعروف بتفسیر البیضاوی تالیف ناصر الدین ابی الخیر عبداللہ بن عمر بن محمد الشیرازی الشافعی البیضاوی (ت ۶۹۱ھ) ، ص ۸۱ ج ۲ دار احیاٗ التراث العربی ، و، موسستہ التاریخ العربی بیروت
تفسیر حاشیۃ محی الدین شیخ زادہ علیٰ تفسیر القاضی البیضاوی۔ محمد بن مصلح الدین مصطفیٰ القوجوی الحنفی جز ۳ ص۳۵۳ و ۳۵۶، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان
تفسیر تیسیر الکریم المنان ، ص ۳۱۹ (زندگی اور موت دونوں میں آپ کی مدد کا حکم) از عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی، دار ابن الجوزی
امام نسفی لکھتے ہیں؛۔
بلتحاکم الی الطاغوت (جآءوک) تائبین من النفاق، معتذرین عما ارتکبوا من الشقاق (فاستغفراللہ) من النفاق والشقاق (واستغفرلھم الرسول) بالشفاعہ لھم۔ والعامل فی (از ظلموا) خبر ان وھو (جاؤوک) والمعنی : ولو وقع مجیئھم فی وقت ظلمھم مع استغفارھم واستغفار الرسول۔ (لوجدوا اللہ توبا) لعلموہ تواباً، ای : لتاب علیھم ، ولم یقل : استغفرت لھم، و عدل عنہ الی طریقۃ الالتفات تفخیماً لشانہ صلی اللہ علیہ وسلم و تعظیماً لاستغفارہ، وتنبیھاً علی ان شفاعتہ من اسمہ الرسول من اللہ بمکان۔ (رحیما) بھم۔ قیل: جاء اعرابی بعد دفنہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمی بنفسہ علی قبرہ، وحثا من ترابہ علی راسہ، وقال: یارسول اللہ! قلت فسمعنا ، وکان فیما انزل علیک (ولو انھم از ظلموا انفسھم۔۔۔) الآیۃ وقد ظلمت نفسی ، وجئتک استغفراللہ من ذنبی ، فاستغفر لی من ربی ۔ فنودی من قبرہ: قد غفرلک!۔
ترجمہ؛۔ وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ (نہیں بھیجا ہم نے کوئی رسول کبھی بھی مگر اسلیئے تاکہ اسکی اطاعت کی جائے اللہ تعالیٰ کے اذن سے) باذن اللہ کا مطلب۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی اطاعت کی توفیق بخشی اور اس میں آسانی فرمائی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عربی کا ترجمہ۔۔۔۔۔اور جبکہ انہوں نے طاغوت کے پاس فیصلہ کرانے کے لیئے جانے کے سبب اپنے نفسوں پر ظلم کرلیا تھا (جآءوک) (آپ کے پاس آجاتے) نفاق ے سچی توبہ کرکے اور رسول ﷺ کی مخالفت کرنے کی معذرت کرلیتے۔ فاستغفراللہ (پھر نفاق شقاق سے سچی توبہ کے بعد اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیتے) واستغفرلھم الرسول (اور رسول اللہ ﷺ بھی ان کے لیئے استغفار فرماتے) ان کی معافی کی سفارش کرکے (لوجدوا اللہ تواباً) وہ ضرور اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا (رحیما) (مہربان پاتے)۔ جاٗوک پھر مزید تفسیر میں فرمایا ہے۔ اگر ان کی آمد اس ظلم کے وقت میں استغفارِ ذاتی اور شفاعت رسول کے ساتھ ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرما لیتا۔ استغفرت لھم نہیں فرمایا بلکہ اسکی بجائے استغفرلھم الرسول فرمایا اس سے آپ کی عظمتِ شان اور آپ کے استغفار کا مقام و مرتبہ ظاہر فرمانا مقصود ہے۔ اور اس پر متنبہ فرمایا کہ جس ہستی کو رسول کہتے ہیں ان کی شفاعت کا بارگاہ الٰہی مین بڑا مرتبہ ہے۔ پھر فرماتے ہیں۔ ایک بدو آپ ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے اورآپ ﷺ کے دفن ہونے کے بعد آپ ﷺ کی قبر مبارک پر آیا ۔۔۔۔۔ (پھر وہی حدیث بیان کی اور آخر میں لکھا ہے) آپ ﷺ کی قبر انور سے صدا آئی اللہ تعالیٰ نے تمہیں بخش دیا ۔ (حوالہ ؛ مدارک التنزیل وحقائق التاویل جلد ۱ ص ۳۷۰ از ابی البرکات عبداللہ بن احمد بن محمود النسفی ۔ دارالکلم الطیب بیروت۔ جبکہ اسی کی اردو ترجمہ صفحہ ۶۲۸ جلد ۱ پر خوارج کے مترجم نے ایک بریکٹ میں یہ شوشا چھوڑا ہے اور تفسیر میں اپنے الفاظ کو امام سے نتھی کرنے کی ایسے کوشش کی ہے کہ بریکٹ میں لکھا ہے۔ ۔۔۔۔ (احادیث کی معتبر کتابوں میں اس روایت کا ثبوت نہیں ملتا۔ اسی لیئے علامہ نسفی نے قیل کے کمزور الفاظ سے ذکر کیا ہے)۔ صحابہ کرامؓ نے اسکو قبر مبارک کے پاس اسطرح کیونکر چھوڑا ہوگا۔ (معاذ اللہ یہ تحریف اور جاہلانہ بکواس صفحہ ۶۲۸ پر مولانا شمس الدین کا کارنامہ ہے اور اس بیہودہ اور غلط چیز کو چھاپنے والا ان کا اپنا ادارہ مکتبۃ العلم لاہور پاکستان ہے۔
یعنی آپ سوچیں کہ شروع اسلام سے جو چیز قرآن کا حکم، شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت، صحابہ کا عملِ حجت اور سلف الصالحین کے مطابق مستند ترین روایت ہے جسکا آگے ذکر احادیث کے باب میں جرح و تعدیل کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اور جس کو امام الشیخ ابوالبرکات عبداللہ بن احمد بن محمود النسفی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی مشہور تفسیر میں دیگر سلف الصالحین کی تفسیرات کے مطابق ذکر کیا ہے اس سے اپنے دلی بغض اور انکار کا اظہار وہ دورجدید کا گمراہ مُلا کررہا ہے جس کو استاذ التفسیر والحدیث کے لقب دے کر انہوں نے یہ تحریف شدہ کام سرانجام دیا ہے۔ اللہ ایسے ایمان کے راہزنوں سے ہم کو محفوظ فرمائے اور ان کو ہدایت کا راستہ عطا کرے۔ یہ تو ان کی کل بساط و اوقات ہے اور اسی کے بل پر ان لوگوں کی مذہبی دکانداری چمک رہی ہے اور عوام گمراہ ہوتی ہے۔ میرے پاس اسی تفسیر کا مخطوطہ اور اسکے عکس محفوظ ہیں اس میں ایسا کوئی انکار نہیں لکھا گیا۔ حوالہ مخطوطہ ۔ مکتبۃ جامعۃ الملک سعود (کنگ سعود یونیورسٹی ریاض) قسم المخطوطات۔ الرقم ۴۹۲۳ ف ۱۱۰۷۳۔موجود ہے۔ جو کہ آخر میں دیئے گئے ویب سائٹ لنکس میں بھی پڑھا اور ڈاونلوڈ کیا جاسکتا ہے۔
عتبی والی حدیث کا یعنی اسی حدیث کا ذکر ایک اور سلف الصالح امام سخاوی نے بھی فرمایا ہے اور اشعار بھی لکھے ہیں ان کی تفسیر کے صفحہ ۱۸۷ و ۱۸۸ پر رسول اللہ علیہ السلام سے یہ روایت بھی کی گئی ہے کہ انہوں نے زبیرؓ سے بھی دعا کروانے کی روایت لکھی ہے۔ بحوالہ تفسیر القرآن العظیم ۔ علامہ ابی الحسن علی بن محمد السخاوی المصری الشافعی ؒ جلد ۱ دار النشر للجامعات ۔ دار ابن حزم قاھرہ۔
تفسیر السمرقندی المسمیٰ بحر العلوم ص ۳۴۰ و ۳۴۱ جلد ۱ دارالفکر بیروت۔ تالیف الامام الفقیہہ المحدث الصوفی نصر بن محمد بن احمد ابواللیث السمرقندی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ میں بھی زبیر رضی اللہ عنہ والی حدیث کا ذکر ہے۔اور توسل پر یہی کچھ تحریر ہے جو پہلے بیان ہوچکا۔
اسی طرح جیسے کہ پہلے ذکر ہوا کہ توسل کا ذکر مختلف معنوں میں اور واقعات میں قرآن مجید فرقان حمید میں بارہا آیا ہے جیسے کہ سورۃ آلِ عمران کی آیت ۵۲ ہے:۔
فَلَمَّآ اَحَسَّ عِيْسٰى مِنْھُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ ۚ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ ۚ وَاشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ (آل عمران آیت ۵۲)۔
ترجمہ کنزالایمان شریف:۔ پھر جب عیسیٰ نے ان سے کفر پایا (ف ١٠٦) بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف ، حواریوں نے کہا (ف ١٠٧) ہم دین خدا کے مددگار ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے ، اور آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں (ف ١٠٨)
ترجمہ درِ منثور از امام جلال الدین سیوطیؒ:۔
پھر جب عیسیٰ نے ان کی طرف سے انکار دیکھا تو کہنے لگے کہ کون ہیں جو میرے مددگار ہوجائیں اللہ کی طرف، حواریوں نے کہا ہم اللہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہوجائیے کہ ہم فرمانبردار ہیں۔
ترجمہ ضیاٗ القرآن از پیر کرم شاہ الازھریؒ:۔
پھر جب محسوس کیا عیسیٰ ( علیہ السلام) نے ان سے کفر (و انکار) (تو) آپ نے کہا کون ہے میرے پروردگار کی راہ میں ؟ ( یہ سن کر) کہا حواریوں نے کہ ہم مدد کرنے والے ہیں اللہ (کے دین) کی ہم ایمان لائے ہیں اللہ پر اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ گواہ ہو جائیو کہ ہم (حکمِ الٰہی کے سامنے) سر جھکائے ہوئے ہیں۔
ترجمہ عرفان القرآن از ڈاکٹر طاہر القادری:۔
پھر جب عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا کفر محسوس کیا تو اس نے کہا : اللہ کی طرف کون لوگ میرے مددگار ہیں ؟ تو اس کے مخلص ساتھیوں نے عرض کیا : ہم اللہ (کے دین) کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں، اور آپ گواہ رہیں کہ ہم یقیناً مسلمان ہیں
ترجمہ وہابیہ؛ از عبدالکریم اثری:۔
پھر عیسیٰ نے بنی اسرائیل میں کفر دیکھا تو وہ پکار اٹھا کون ہے جو اللہ کی راہ میں میرا مددگار ہو ؟ اس پر اس کے چند حواریوں نے اس کی دعوت قبول کرتے ہوئے جواب دیا کہ ہم اللہ کے دین کے مددگار ہیں ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور تم گواہ رہو کہ ہم اس کی فرمانبرداری میں مکمل طور پر داخل ہو گئے
ترجمہ تیسیر القرآن مولانا عبدالرحمٰن کیلانی دیوبندی:۔
پھر جب عیسیٰ کو ان کے کفر و انکار کا پتہ [٥١] چل گیا تو کہنے لگے : کوئی ہے جو اللہ (کے دین) کے لیے میری مدد کرے ؟” حواری [٥٢] کہنے لگے : ہم اللہ (کے دین) کے مددگار ہیں۔ ہم اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور گواہ رہئے کہ ہم مسلمان (اللہ کے فرمانبردار) ہیں
ترجمہ سلفی: فہم القرآن از میا محمد جمیل:۔
پھر جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی طرف سے کفر محسوس کیا تو کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون ہوگا ؟ حواریوں نے جواب دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے مددگار ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور گواہ رہیے کہ ہم تابعدار ہیں
ترجمہ وہابیہ: از حافظ عبدالسلام بھٹوی:۔
پھر جب عیسیٰ نے ان سے کفر محسوس کیا تو اس نے کہا کون ہیں جو اللہ کی طرف میرے مددگار ہیں ؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لائے اور گواہ ہوجا کہ بیشک ہم فرماں بردار ہیں۔
ترجمہ وہابیہ سلفیہ؛ بیان القرآن از ڈاکٹر اسرار احمد:۔
پس جب عیسیٰ ( علیہ السلام) نے ان کی طرف سے کفر کو بھانپ ‘ لیا تو انہوں نے پکار لگائی کہ کون ہے میرا مددگار اللہ کی راہ میں ؟ کہا حواریوں نے کہ ہم ہیں اللہ کے مددگار ہم ایمان لائے اللہ پر اور آپ ( علیہ السلام) بھی گواہ رہیے گا کہ ہم اللہ کے فرماں بردار ہیں
ترجمہ آسان قرآن از مفتی تقی عثمانی دیوبندی:۔
پھر جب عیسیٰ نے محسوس کیا کہ وہ کفر پر آمادہ ہیں، تو انہوں نے (اپنے پیرووں سے) کہا : کون کون لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں میرے مددگار ہوں ؟ حواریوں (٢٢) نے کہا : ہم اللہ ( کے دین) کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لاچکے ہیں، اور آپ گواہ رہیے کہ ہم فرمانبردار ہیں۔
ترجمہ انوارالبیان از مولانا عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی:۔
پھر جب عیسیٰ نے ان کی طرف سے انکار دیکھا تو کہنے لگے کہ کون ہیں جو میرے مددگار ہوجائیں اللہ کی طرف، حواریوں نے کہا ہم اللہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہوجائیے کہ ہم فرمانبر دار ہیں
ترجمہ مدنی (وہابیہ) مولانا اسحاق مدنی:۔
پھر جب عیسیٰ نے ان کی طرف سے کفر ہی محسوس کیا، تو کہا کون ہے جو میرا مددگار ہو اللہ کی راہ میں ؟ تو آپ کے حواریوں نے (جو کی آپ کے خاص ساتھی تھے، انہوں نے) کہا کہ ہم ہیں مددگار اللہ (کے دین) کے، ہم (سچے دل سے) ایمان لائے اللہ پر، اور آپ گواہ رہیے کہ ہم پکے فرمانبردار ہیں
ترجمہ ابن کثیر (فتح محمد) وہابیہ:۔
جب عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی طرف سے نافرمانی (اور نیت قتل) دیکھی تو کہنے لگے کہ کوئی ہے جو خدا کا طرفدار اور میرے مددگار ہو حواری بولے کہ ہم خدا کے (طرفدار آپکے) مددگار ہیں ہم خدا پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہیں کہ ہم فرمانبردار ہیں
ترجمہ مکہ از مولوی جونا گڑھی (وہابیہ سلفیہ، مطبع شاہ فہد کمپلیکس ریاض)۔
مگر جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا کفر محسوس کرلیا (١) تو کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے (٢) حواریوں (٣) نے جواب دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہیے کہ ہم تابعدار ہیں۔
ترجمہ عثمانی از مترجم مولانا محمود الحسن دیوبندی:۔
پھر جب معلوم کیا عیسیٰ نے بنی اسرائیل کا کفر ف ١ بولا کون ہے کہ میری مدد کرے اللہ کی راہ میں ف ٢ کہا حواریوں نے ہم ہیں مدد کرنے والے اللہ کے ف ٣ ہم یقین لائے اللہ پر اور تو گواہ رہ کہ ہم نے حکم قبول کیا ف ٤
ترجمہ بیان القرآن از مولانا اشرف علی تھانوی دیوبندی:۔
سو جب حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے ان سے انکار دیکھا تو آپ نے فرمایا کوئی ایسے آدمی بھی ہیں جو میرے مددگار ہوجاویں الله کے واسطے حواریین بولے کہ ہم ہیں مددگار الله (کے دین) کے ہم الله تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ اس کے گواہ رہئیے کہ ہم فرمابردار ہیں۔
ترجمہ قرآن از شاہ عبدالقادر(دیوبندی وہابی):۔
٥٢۔ پھر جب معلوم (محسوس) کیا عیسیٰ نے بنی اسرائیل کا کفر، بولا، کون ہے کہ میری مدد کرے اللہ کی راہ میں ؟ کہا حواریوں نے، ہم ہیں مدد کرنے والے اللہ کے، ہم یقین لائے اللہ پر اور تو گواہ رہ کہ ہم نے حکم قبول کیا۔
تفسیر روح القرآن ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی اس آیت کے ماتحت لکھتے ہیں؛۔
(اور جب عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی طرف سے کفر کو بھانپ لیاتو آپ نے دعوت دی کہ کون ہے جو میرا مددگار بنے اللہ کی راہ میں ؟ حواریوں نے جواب دیا ہم ہیں اللہ کے مددگار اور ہم ایمان لاتے ہیں اللہ پر اور آپ گواہ رہئے کہ ہم مسلم ہیں۔ اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لائے اس چیز پر جو تو نے اتاری اور ہم نے رسول کی پیروی کی، سو تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ) (٥٢ تا ٥٣)
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے قوم کے قابل ذکر اور با اثر لوگوں سے مایوس ہو کر عام لوگوں کی طرف رخ فرمایا۔ اس سے ہمیں پیغمبروں کی سنت سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے اور حکمت تبلیغ کو جاننے کی بھی۔ پیغمبروں کی سنت ہمیشہ یہ رہی ہے کہ وہ دعوت تو سب کے سامنے پیش کرتے ہیں لیکن اپنا خصوصی ہدف ان لوگوں کو بناتے ہیں، جن کے بارے میں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر یہ لوگ راہ راست پر آجائیں تو ان کے زیر اثر لوگ ان کی اس نئی تبدیلی کی پیروی کریں گے کیونکہ لوگوں میں ہمیشہ یہ کمزوری رہی ہے کہ اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مَلُوْکِہِمْ (لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں) کسی بھی قوم کا فیڈ کرنے والا طبقہ بالعموم وہی لیڈ بھی کرتا ہے۔ جن باتوں کو وہ قبول کرلیتے ہیں وہی باتیں عام لوگوں کا معمول بن جاتی ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جو پیغمبروں کی دعوت میں ہمیشہ پیش نظر رہی ہے۔ مدینہ طیبہ میں حضرت اسعد بن زرارہ نے، حضرت مصعب بن عمیر کو اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی، چنانچہ ان کی کوششوں نے عام لوگوں سے پہلے اسید بن حضیر اور سعد بن معاذ کو اپنا ہدف بنایا اور ان کے واسطے سے چند ہی دنوں میں ان کے قبیلوں کے بیشتر لوگوں کو مسلمان کردیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اسی حکمت کے پیش نظر اشرافِ قریش کو اپنی توجہات کا مرکز بنانا چاہتے تھے۔ لیکن سورة عبس و تولی اور بعض دوسری آیات میں آپ کو توجہ دلائی گئی کہ ان تلوں میں تیل نظر نہیں آتا، آپ عام لوگوں کو اپنی توجہات کا مرکز بنایئے۔
وہابیہ کی تفسیر مدنی میں مولانا اسحٰق مدنی نے کچھ یوں تحریر کیا:۔
یعنی جب حضرت عیسیٰ نے بنی اسرائیل میں کفر و انکار، اور بغض وعناد، ہی محسوس کیا، اور آپ نے دیکھا کہ یہ بدبخت لوگ ایمان و اطاعت کے بجائے الٹا آپ کے قتل اور ایذاء رسانی کے درپے ہوگئے ہیں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان فرمایا کہ کون ہے جو اللہ کی راہ میں میرا معاون و مددگار ہو، انصار جمع ہے نصیر کی، جیسے اشراف جمع ہے شریف کی اور اس سے مراد ہے انتہائی ہمدرد مددگار، اور حواریوں جمع ہے حواری کی جس کے معنی ہوتے ہیں انتہائی مخلص اور خیر خواہ ساتھی۔ یہ حضرت عیسیٰ کے خاص ساتھیوں کا لقب اور وصف تھا۔ سو انہوں نے اپنے صدق و اخلاص کی بناء پر حضرت عیسیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کہا کہ ہم ہیں اللہ کے مددگار، ہم سچے دل سے ایمان لے آئے اور آپ گواہ رہیں کہ ہم آپ کے فرمانبردار ہیں
وہابیہ کی ہی تفسیر کبیر مولانا اسحٰق مدنی میں لکھا ہے:۔
حضرت عیسیٰ کی پکار حق کی نصرت و امداد کے لیے : سو حضرت عیسیٰ نے فرمایا ” کون ہے جو میرا مددگار ہو اللہ کی راہ میں ؟ سو اس طرح حضرت عیسیٰ نے اللہ کی راہ میں نکلنے والے مددگاروں کیلئے اعلان فرمایا تاکہ وہ راہ حق میں ان کا ساتھ دیں۔ یعنی ایسا مددگار جو اللہ کی راہ میں میرے ساتھ نکلے اور ان ناہنجاروں اور ظالموں کے مقابلے میں راہ ِحق میں میرا ساتھ دے، جو کہ مجھ پر ایمان لانے کی بجائے میرے قتل کے در پے ہوگئے ہیں۔ یہاں پر ” الی اللہ ” کے کلمہ سے یہ مضمون نکلتا ہے کہ میں تو اللہ کی راہ میں بہرحال چل رہا ہوں اب تم میں سے کون ایسا ہے جو اس راہ میں میرا ساتھ دے۔ یہ آپ نے اس وقت فرمایا جبکہ آپ نے اپنی قوم کے بارے میں یہ محسوس کرلیا کہ اب یہ حق کو قبول کرنے والے نہیں بلکہ اب یہ لوگ الٹا میری جان ہی کے دشمن ہوگئے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو حضرت عیسیٰ نے جب بنی اسرائیل کے علماء اور سرداروں کے رویے سے یہ محسوس کرلیا تو آپ نے ان سے منہ پھیر کر ساری توجہ اپنے ان غریب ساتھیوں کی طرف کردی جو اگرچہ دنیاوی جاہ و منصب نہیں رکھتے تھے لیکن صدق واِخلاص اور دولت ایمان سے سرشار ومالا مال تھے
وہابیوں ہی کی تفسیر دعوۃ القرآن از ابونعمان سیف اللہ خالد میں لکھا ہے:۔
سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو پوری طرح معلوم ہوچکا تھا کہ یہود اور ان کے علماء دلائل کے میدان میں مات کھا کر اب ان کی زندگی کے درپے ہوچکے ہیں اور اس کام کے لیے سازشیں تیار کر رہے ہیں تو اب انھیں فکر تھی تو یہ کہ دین کی اشاعت و تبلیغ کا کام نہیں رکنا چاہیے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے پیروکاروں سے پوچھا کہ کون ہے جو اس سلسلہ میں میری مدد کرے۔ قوم کے اکثر لوگوں نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا، البتہ چند لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے کی توفیق دی، وہ ایمان لائے اور پوری تندہی اور جانفشانی سے عیسیٰ (علیہ السلام) کی مدد کرتے رہے۔ یہی وہ لوگ تھے جو بعد میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے خاص الخاص جاں نثار اور مددگار یعنی حواری کہلائے۔
دیوبندی مولانا عاشق الٰہی کی تفسیر انوار البیان میں لکھا ہے:۔
عامۃً بنی اسرائیل کا کفر اختیار کرنا اور حواریوں کا حضرت عیسیٰ کی مدد کے لیے کھڑا ہونا
سیدنا عیسیٰ ( علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو اپنے اتباع اور اطاعت کی دعوت دی اور انجیل پر ایمان لانے کا حکم فرمایا اور ان کو بتایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں تم میری اطاعت و فرمانبر داری کرو۔ لیکن بنی اسرائیل نے عناد اور ہٹ دھرمی پر کمر باندھ لی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یہود سے خطاب فرماتے اور حق کی دعوت دیتے تھے اور وہ لوگ ان کا مذاق بناتے تھے ان کے انکار اور ہٹ دھرمی میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے محسوس فرما لیا کہ بنی اسرائیل ایمان لانے والے نہیں ہیں لہٰذا انہوں نے پکارا کہ کون ہے جو میرا مددگار بنے ؟ اس پر بنی اسرائیل کی ایک جماعت نے ایمان قبول کیا اور ایک جماعت نے کفر اختیار کیا جیسا کہ سورة صف کی آخری آیت میں مذکور ہے وہیں پر حواری بھی موجود تھے انہوں نے کہا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں۔
ڈاکٹر اسرار احمد کی تفسیر بیان القرآن میں لکھا ہے:۔
یہاں پھر درمیانی عرصے کا ذکر چھوڑ دیا گیا ہے۔ بنی اسرائیل کو دعوت دیتے ہوئے حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو کئی سال بیت چکے تھے۔ اس دعوت سے جب علماء یہود کی مسندوں کو خطرہ لاحق ہوگیا اور ان کی چودھراہٹیں خطرے میں پڑگئیں تو انہوں نے حضرت مسیح ( علیہ السلام) کی شدید مخالفت کی۔ اس وقت تک یہودیوں پر ان کے علماء کا اثر ورسوخ بہت زیادہ تھا۔ جب آپ ( علیہ السلام) نے ان کی طرف سے کفر کی شدت کو محسوس کیا کہ اب یہ ضد اور مخالفت پر تل گئے ہیں۔ تو آپ ( علیہ السلام) نے ایک پکار لگائی ‘ ایک ندا دی ‘ ایک دعوت عام دی کہ کون ہیں جو اللہ کی راہ میں میرے مددگار ہیں ؟ یعنی اب جو کشاکش ہونے والی ہے ‘ جو تصادم ہونے والا ہے اس میں ایک حزب اللہ بنے گی اور ایک حزب الشیطان ہوگی۔ اب کون ہے جو میرا مددگار ہو اللہ کی راہ میں اس جدوجہد اور کشاکش میں ؟ دین کا کام کرنے کے لیے یہی اصل اساس ہے۔ اسی بنیاد پر کوئی شخص اٹھے کہ میں دین کا کام کرنا چاہتا ہوں ‘ کون ہے کہ جو میرا ساتھ دے ؟ یہ جماعت سازی کا ایک بالکل طبعی طریقہ ہوتا ہے۔ ایک داعی اٹھتا ہے اور اس داعی پر اعتماد کرنے والے ‘ اس سے اتفاق کرنے والے لوگ اس کے ساتھی بن جاتے ہیں۔
سلفیوں وہابیوں کے ہی میاں محمد جمیل نے اپنی تفسیر فہم القرآن میں لکھا:۔
حالات اس قدر نازک صورت حال اختیار کرگئے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے باہر نکلنا بھی مشکل ہوگیا۔ اس صورت حال میں انہوں نے ہر جگہ لوگوں کو بتلایا اور سمجھایا کہ میری دعوت قبول کرو اسی میں تمہاری دنیا و آخرت کی کامیابی ہے لیکن حکومت کے خوف، یہودیوں کے الزامات اور سازشوں کے ڈر سے لوگ ان سے دور بھاگ گئے۔ بالآخر انہوں نے اپنے شاگردوں کو اللہ کے نام پر دہائی دی کہ کون ہے جو اللہ کے لیے میرا ساتھ دے ؟ ہزاروں شاگردوں میں سے صرف بارہ آدمیوں نے موت کی پروا کیے بغیر کہا کہ ہم ہیں اللہ کی خاطر آپ کی نصرت وحمایت کرنے والے اور اللہ پر ایمان لانے والے ہیں۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یقین دلایا اور کہا کہ گواہ رہنا کہ ہم اسلام پر مرتے دم تک قائم رہیں گے۔
سلفیوں کے ہی محمد لقمان سلفی نے تیسیر الرحمٰن لبیان القرآن میں لکھا ہے:۔
پس عیسیٰ نے ان کی جانب سے کفر کو بھانپ لیا، تو کہا کہ اللہ کی خاطر میری کون مدد کرے گا ؟ حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لے آئے ہیں، اور (اے عیسی) آپ گواہ رہئے کہ ہم لوگ مسلمان ہیں
تفسیر تبیان القرآن (سنیِ حنفی) میں مولانا غلام رسول سعیدی صاحبؒ لکھتے ہیں؛۔
آپ نے اپنے حواریوں سے فرمایا اللہ کے دین میں تم میں سے کون میری مدد کرے گا ؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کے دین کی مدد کریں گے ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔
وہابیوں کی تفسیر عروۃ الوثقی میں لکھا ہے؛۔
دوسری طرف اس بات کی بھی وضاحت ہو گئى کہ اہل دین کی نصرت کے لیے معاونت طلب کرنا تو کل کے خلاف نہیں ہے۔ ہاں ! معاونت کرنے والا کوئى نہ ہو تو دین سے منحرف ہونا توکل کے بھی خلاف ہے اور ایمان کے بھی۔ ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ کسی حال میں بھی اس سے انحراف نہ ہو کیونکہ وہ جان سے زیادہ عزیز چیز ہے۔
یہاں یہ بتانا ازحد ضروری ہے کہ جیسا آپ نے تراجم میں اور تفسیراتِ قرآنی میں پڑھا کہ منکرین و خوارج کے اپنا مولوی حضرات بھی وہی تحریر کررہے ہیں جو سنی علمائے کرام نے بیان فرمایا لیکن بعض معدودے چند ایسے لوگ بھی ان منکرین میں پائے جاتے ہیں جو کہ اپنی خودساختہ تفسیرات میں اپنے الفاظ گھسیڑ کر اسکے معنی کو کچھ سے کچھ بیان کرتے ہیں اور پھر اسی کے تناظر میں اپنی فطری خباثت کا مظاہرہ کرکے وہ تفسیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو سلف میں سے کسی نے نہیں کی۔ یعنی تحریفِ تفسیر جیسا کہ تفسیر مکہ میں وہابیوں کے مولوی صلاح الدین یوسف نے اپنی فطرت کے مطابق تفسیر کرتے ہوئے کچھ یوں لکھا ہے:۔
بہت سے نبیوں نے اپنی قوم کے ہاتھوں تنگ آ کر ظاہری اسباب کے مطابق اپنی قوم کے با شعور لوگوں سے مدد طلب کی ہے۔ جس طرح خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ابتداء میں جب قریش آپ کی دعوت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے تو آپ موسم حج میں لوگوں کو اپنا ساتھی اور مددگار بننے پر آمادہ کرتے تھے تاکہ آپ رب کا کلام لوگوں تک پہنچا سکیں جس پر انصار نے لبیک کہا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انہوں نے قبل ہجرت مدد کی۔ اس طرح یہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے مدد طلب فرمائی یہ وہ مدد نہیں ہے جو مافوق الاسباب طریقے سے طلب کی جاتی ہے کیونکہ وہ تو شرک ہے اور ہر نبی شرک کے سدباب ہی کے لئے آتا رہا ہے پھر وہ خود شرک کا ارتکاب کس طرح کرسکتے تھے۔ لیکن قبر پرستوں کی غلط روش قابل ماتم ہے کہ وہ فوت شدہ اشخاص سے مدد مانگنے کے جواز کے لیے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قول مَن انصاری الی اللہ سے استدلال کرتے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب فرمائے
آپ نے ملاحظہ کیا کہ ان کی تفسیر میں قبر پرستوں کی طرف اشارہ کیا گیا جو کہ وہابی دھرم میں عامۃ المسلمین کو کہا جاتا ہے جو کہ سب سے بڑی اکثریت ہیں یعنی اہلسنت و جماعت کی دلیلِ قرآنی کو رد کرنے کی خاطر مولوی صاحب نے ڈینگ ماردی اور تفسیر میں اپنی خودساختہ تشریح دے ڈالی اور اسطرح تین جرائم کے مرتکب ہوئے۔ اول۔ قرآن کی تفسیر جو سلف الصالحین کرتے آئے ہیں اور کسی نے کسی قبرپرست کا نام تک نہیں لیا نا ہی اسکو نتھی کرنے کی کوشش کی۔ افسوس مولوی صاحب نے اپنا مذہبی کاروبار چمکانے کی خاطر یہ تحریف کی۔ دوم یہ کہ قرآن کی تفسیر اگر ہر ایرا غیرا نتھوخیرا خوارج کا پرروردہ کرے گا تو یہی انجام ہوتا ہے اور سوئم۔ ان کے دلی بغض کا اظہار بھی یہاں پر ہوجاتا ہے کہ پوری اسلامی دنیا اور اسلامی لٹریچر میں کسی نے اس پر اعتراض نہ کیا لیکن اس کو کوئی اور رخ دینے کی خاطر مولوی صاحب نے یہ کارنامہ سرانجام دیا۔ واقعی اللہ ان کو ہدایت دے (اگر ان کے نصیب میں ہو تو)۔ میرا بہت کچھ لکھنے کو دل کرتا ہے یہاں لیکن میرا خیال ہے کہ ان کی تفسیر ہی کافی ہے انکی دلی حالت کا اور اصلیتِ خوارج کا پتہ بتانے کے لیئے۔ نیز آپ دیکھیئے کہ خود شروع میں لکھتے ہیں کہ بہت سے نبیوں نے اپنی قوم کے ہاتھوں تنگ آکر ظاہری اسباب کے مطابق اپنی قوم کے باشعور لوگوں سے مدد طلب کی۔۔۔۔ یہ الفاظ انہیں مولوی صاحب کے ہیں۔ اب سوال تو یہ بنتا ہے کہ کوئی ان کو پوچھے کہ حضت یہ تو بتائیے کہ انبیائے کرام کی سنت پر عمل کرنا ہی دین کہلاتا ہے یا نہیں؟۔ کوئی ان سے یہ بھی پوچھتا کہ حضت قوم کے باشعور لوگوں سے مدد طلب کرنا (کفر شرک بدعت قبر پرستی یا بریلویت) کیوں نہیں لکھی انہوں نے؟۔ قوم کے باشعور لوگوں سے مدد طلب کرنا کیا غیراللہ سے مدد طلب کرنا نہیں کہلائے گا؟۔ ظاہر ہے یہ توسل ہی ہے اور قرآن نے جس کو قبر پرستی نہیں کہا مولوی صاحب کی فطری خباثت نے تفسیر میں تحریف و ردوبدل کرکے خودساختہ معنی پہنا دیئے۔ واقعی اللہ ہی ہدایت دے (اگر خوارج کے نصیب میں ہو تو)۔
دیوبند کی تفسیر احسن البیان میں اسی آیت کے ماتحت لکھا ہے؛
احس (اس نے محسوس کیا ۔ اس نے دیکھا ۔ احساس سے ماضی) ۔ انصاری (میرے مددگار ۔ مجھے مدد دینے والے ۔ یہ جمع ہے ۔ نصیر و ناصر واحد) ۔ الحواریون (حواری ۔ اصحاب ۔ واحد حواری) ۔
تشریح :۔ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کی طرف سے اپنی تکذیب اور کفر یہ کلمات سنے اور ان لوگوں کی ضد اور ہٹ دھرمی کا احساس ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے میں میرا ہاتھ بٹائے اور میری مدد کرے ؟ ۔
اب ذرا سلف الصالحین اور قدیم تفسیرات سے بھی ذکر کردیا جائے تاکہ کسی کے ذہن میں ابہام نہ رہے؛۔
الجامع الاحاکم القرآن یعنی تفسیر ِ قرطبیؒ میں اسی آیت کے ماتحت درج ہے؛۔
قال من انصاری الی اللہ۔۔۔۔۔ استنصر علیھم ۔ قال السدی والثوری وغیرھما۔ المعنی: مع اللہ، و (الی) بمعنی مع، کقولہ تعالیٰ (ولا تاکلوا اموٰلھم الی اموٰلکم ۔ النساٗ آیت ۲)۔ ای : مع واللہ اعلم۔
ترجمہ؛۔ فرمایا: کون ہے وہ جس سے میں ان کے خلاف مدد طلب کروں؟۔ سدی اور ثوری وغیرہما نے کہا: یہاں الی اللہ بمعنی مع اللہ ہے۔ یعنی الی بمعنی مع ہے۔ جیسا کہ ارشاد میں ہے (النساٗ ایت ۲) یعنی تم اپنے مالوں کے ساتھ ان کے مال نہ کھاو۔ واللہ اعلم
حوالہ؛ الجامع لاحکام القرآن ۔ از ابی عبداللہ محمد بن احمد بن ابی بکر القرطبیؒ۔ جلد ۵ صفحہ ۱۴۸ موسسۃ الرسالۃ بیروت ایڈیشن
یعنی ثابت ہوا کہ سلف کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام نے خود فرمایا کہ کون ہے وہ جس سے میں ان کے خلاف مدد طلب کرو۔ ممکن ہے اگر ان کے دور میں (وہابی دیوبندی طائفہ) ہوتا تو وہ فوراً عیسیٰ علیہ السلام پر (کفر شرک بدعت یا بریلویت) کا الزام دھر دیتے کہ انہوں نے تو ایسا کہا اور اللہ کو چھوڑ کر غیراللہ سے مدد مانگی۔ اللہ ہی ان جہلاٗ کو ہدایت دے جنہوں نے دین کا تماشہ بنا کر رکھ دیا فقط اپنی مذہبی دکانداری کی خاطر۔ یہ وہ تاجر ہیں جنہوں نے دنیا بھی گنوا دی اور ایمان بھی۔
امام ابن کثیر شافعیؒ جن پر وہابیوں کو بڑا اعتماد ہے وہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں؛۔
ترجمہٗ تفسیرِ عربی از پیر کرم شاہ الازھریؒ ؛۔ پھر جب عیسیٰ نے یہ محسوس کیا کہ وہ کفر اور گمراہی پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا اللہ کی راہ میں کون میرا مددگار ہے؟۔ مجاہد فرماتے ہیں کہ اسکا معنی یہ ہے کہ اللہ کے لیئے میری کون اتباع کرتا ہے۔ حضرت سفیان الثوریؒ وغیرہ فرماتے ہیں اللہ کی معیت میں میرا کون مددگار ہے۔ مجاہد کا قول ہی زیادہ واضح ہے۔ کیونکہ ظاہر یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہی ارادہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے میں میرا مددگار کون ہے۔ جیسا کہ مدینہ طیبہ ہجرت کرنے سے پہلے نبی کریم ﷺ حج کے موقع پر فرمایا کرتے تھے۔ کون ہے؟ جو مجھے پناہ دے تاکہ میں اپنے رب کے پیغام کو پہنچاوں کیونکہ قریش نے مجھے اپنے رب کا پیغام پہنچانے سے روک دیا ہے۔ حتیٰ کہ انصارِ مدینہ اس کام کے لیئے کمر بستہ ہوگئے۔ انہوں نے آپ کو پناہ و نصرت دینے کا وعدہ کیا۔ تو آپ ہجرت کرکے مدینہ کے لیئے تشریف لے گئے۔
حوالہ؛ تفسیر ابن کثیر۔ از حافظ عماد الدین ابی الفداٗ اسماعیل بن کثیر الدمشقی الشافعی۔ جز ۳ صفحہ ۶۷۔ ط۔ موسسۃ قرطبۃ نشر و توزیع۔ جیزہ۔ و مکتبہ اولاد الشیخ للتراث۔ عمرانیہ غربیہ جیزہ۔
یعنی ان مشہور تفاسیر سے معلوم ہوا کہ (غیراللہ سے مدد) اللہ کے اسباب سمجھ کر اس تک رسائی کا ذریعہ سمجھ کر مانگنا اور توسل کرنا کوئی (کفر شرک بدعت) نہیں بلکہ اس کو ایسا کہنا فقط خوارج کا طریقہ ہے اور دین میں اپنی من مانی کرنے کے مترادف ہے۔
ایسے ہی قرآن مجید فرقان حمید کی سورۃ محمد آیت ۷ کہتی ہے؛۔
ان تنصرواللہ ینقرکم۔۔۔ ترجمہ ۔۔۔ اگر تم مدد کروگے اللہ (کے دین کی) مدد کرے گا وہ تمہاری۔
یہاں رب کریم نے جو خود غنی ہے اپنے بندوں سے مدد طلب کی ہے۔ یعنی ان کو ارشاد فرمایا ہے کہ میرے دین کی راہ میں مدد کرنے پر میں تمہاری مدد کروں گا۔
ایسے ہی سورۃ البقرہ کی آیت ۱۵۳ ہے کہ استعینوا بالصبر والصلوٰۃ؛۔ یعنی مدد طلب کرو صبر اور ساتھ نماز کے۔
یہاں پر جیسا کہ توسل کی اقسام میں ذکر آئے گا۔ اس توسل کا ذکر ہے جو کہ اعمال کے ذریعے اللہ سے طلب کیا جاتا ہے۔ نماز اور صبر دونوں اعمال میں سے ہیں اور اعمال مخلوق الٰہی ہے یعنی (مخلوق) اور (غیراللہ) ہیں جبکہ ان مخلوقات (یعنی اعمال) کے ذریعے یعنی توسل سے اللہ خود مومنوں کو ارشاد فرما رہا ہے اس تعلیم کا کہ نماز اور صبر کے ساتھ مدد طلب کرو۔
سورہ الکہف کی آیت ۹۵ (فاعینونی بقوۃِِ) یعنی میری مدد کرو انفرادی قوت کے ساتھ:۔ یہاں حضرت ذوالقرنین نے آہنی دیوار بنانے کے لیئے (غیراللہ) یعنی (مخلوق) یعنی لوگوں سے مدد طلب کی۔ اور قرآن کریم خود اسکو بیان فرمارہا ہے۔ الغرض آپ قرآن کریم کو اگر پرانی تفاسیر اور صحابہ و سلف الصالحین کے بیان کے مطابق پڑھیں گے اور سمجھنے کی کوشش کریں گے تو جو کچھ ہم نے یہاں لکھا اور جو کچھ اگلے ابواب میں بیان ہوگا وہ سب کا سب دین ِ اسلام اور اسلامی تعلیمات ہیں جنکے منکر ہی توسل کے منکر ہیں اور جنکا خود کا وجود نامسعود ایک بدعت ہے کیونکہ ۱۳۰۰ سال کی اسلامی تاریخ میں ان چیزوں پر سوائے ابن تیمیہ اور بعد میں اسکے پیروکاروں یعنی (وہابیہ دیوبندیہ) کے علاوہ کسی پرانے خوارجی نے بھی انکار نہ کیا تھا۔ اس عمل یعنی (مدد) مانگنے کو (غیراللہ کی مدد یا کفر شرک بدعت) کہنا فقط انکی دین سے لاعلمی ، مکمل طور پر بے راہ روی اور تشدد کی علامت ہے۔
Thursday, 29 December 2016
Friday, 16 December 2016
اثبات المولد و القیام : تحریر: ۔ حضرت شاہ احمدسعید مجددی دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
اثبات المولد و القیام : تحریر: ۔ حضرت شاہ احمدسعید مجددی دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
(یہ رسالہ مولوی اسماعیل دہلوی کے عقائد اور مولوی محبوب جعفری کی گمراہ کتاب کے رد میں تیرہویں ہجری میں تالیف فرمایا) (پیشکش ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاہور پاکستان )
محب تو ذکر محبوب سننے کیلئے مال، اولاد ، ازواج، جان سب کچھ قربان کردیتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ ں کا طریقہ تھا لہٰذا جس کا دل چاہے اللہ کی فوج میں شامل ہوجائے اللہ کی فوج یقینا کامیاب ہے اور جس کا دل چاہے شیطانی ٹولے میں شامل ہوجائے شیطانی ٹولہ خسارے میں ہے۔ اب ہم اشرار کے علی الرغم اکابر کی پیش کردہ خاص دلیلیںبھی ذکر کرتے ہیں ۔ حافظ ابو الفضل ابن حجر نے حدیث سے ایک ضابطہ کا استخراج فرمایا ہے فرماتے ہیں کہ:''حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ شریف تشریف لائے تو وہاں کے یہودیوں کو عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا تو ان سے دریافت فرمایا کہ تم عاشورہ کا روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا یہ دن نہایت مقدس ہے مبارک ہے اسی دن اللہ تعالیٰ نے فرعون کو غرق فرمایا اور موسیٰ کو نجات بخشی اور ہم تعظیماً اس دن کا روزہ رکھتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہم موسیٰ کا دن منانے میں تم سے زیادہ حقدار ہیں پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔'' معلوم ہوا جس دن اللہ تعالیٰ کی کسی خاص نعمت کا نزول ہو یا کسی مصیبت سے نجات ہو نہ صرف اسی دن بلکہ ہر سال اس تاریخ کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر بجالانے کے مختلف طریقے ہیں، عبادت، قیام، سجود، صدقہ اور تلاوت وغیرہ اور یومِ میلاد شریف وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمتِ عظمیٰ اور رحمت عطا ہوئی لہٰذا قصہ موسیٰ کے ساتھ مطابقت کے لئے ہر سال یومِ میلاد کا اہتمام کرنا چاہئے۔ اور کہا ہمارے شیخ شیخ الاسلام علامہ جلال الدین سیوطی نے کہ حافظ ابو الفضل کی دلیل کے علاوہ بھی میرے پاس دلیل ہے اور وہ یہ کہ امام بہیقی نے حضرتِ انس سے روایت کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عقیقہ اعلانِ نبوت کے بعد خود کیا ، حالانکہ آپ کے دادا عبدالمطلب آپ کی ولادت کے ساتویں روز آپ کا عقیقہ کر چکے تھے اور عقیقہ بار بار نہیں ہوتا ایک ہی دفعہ ہوتا ہے معلوم ہوا کہ ایسا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ادائے شکر کے طور پر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمۃ اللعالمین بنایا اور ہمیں آپ کی امت ہونے کا شرف بخشا جس طرح آپ کے میلاد کی خوشی میں جلسہ کریں ، کھانا کھلائیں، اور دیگر عبادات اور خوشی کے جو طریقے ہیں کے ذریعے شکر بجالائیں۔ شرح سنن ابنِ ماجہ میں اس یوم کی تصریح بھی ہے اور امام جلال الدین نے فرمایا کہ میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم معظم اور مکرم ہے آپ کا یوم ولادت مقدس و بزرگ اور یومِ عظیم ہے آپ کا وجود عشاق کے لئے ذریعہ نجات ہے جس نے نجات کے لئے ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی کا اہتمام کیا اس کی اقتداء کرنے والے پر بھی رحمت و برکت کا نزول ہوگا ۔ یومِ ولادت اس سے جمعہ کے مشابہ ہے کہ جمعہ والے دن جہنم میں آگ نہیں بھڑکائی جاتی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یونہی مروی ہے اظہارِ خوشی اور اپنی بساط کے مطابق خرچ کرنا اور جو دعوتِ ولیمہ دے اس کی دعوت قبول کرنا بہت اچھا ہے ۔ امام ابو عبدا بن الحاج نے اس ماہ کی یوں فضیلت بیان فرمائی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کو فضیلت عطا فرمائی۔ سید الاولین و آخرین کی تشریف آوری اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت عظمی کا شکر بجالاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ عبادات اور نیکی کی جائے اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ میں معمول سے زیادہ کچھ نہیں کیا کرتے تھے یہ آپ کی امت پر مہربانی اور شفقت تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کام اس لئے بھی چھوڑ دیتے تھے کہ کہیں امت پر فرض نہ ہوجائے ایسا امت پر شفقت کی وجہ سے تھا لیکن آپ نے اس ماہ کی فضیلت بیان فرمائی ہے ، ایک سائل نے بروز پیر روزہ رکھنے کے متعلق آپ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا ، یہ وہ دن ہے جس دن میں پیدا ہوا، آپ کا یومِ ولادت ربیع الاول کی شرافت کو مستلزم ہے ہمیں چاہئے کہ اس ماہ کا سخت احترام کریں ، اس مہینے کو ان تمام مہینوں ، زمانوں اور امکنہ سے زیادہ سمجھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بعض عبادات کیلئے خاص کیا ہے طاہر ہے کسی جگہ یا زمانہ کو بذات کوئی فضیلت نہیں فضیلت صرف ان واقعات کی وجہ سے ہے جو کسی جگہ یا زمانہ میں رونما ہوئے، ذرا غور کرو! ربیع الاول میںپیر کے دن کون تشریف لایا؟ کیا تمہیں معلوم نہیں؟ پیر والے دن روزہ رکھنا صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کی وجہ سے عظیم فضیلت رکھتا ہے ، ہمیں چاہئے کہ جب ربیع الاوال کی تشریف آوری ہو ، اول سے آخر تک انتہائی تعظیم و تکریم کا مظاہر کیا جائے اور یہ آپ کی سنت ہے کیونکہ آپ اس دن نیکی اور خیرات زیادہ کیا کرتے تھے جس دن کوئی فضیلت والا واقعہ پیش آتا۔ شیخ احمد بن خطیب قسطلانی مواہب لدنیہ میں فرماتے ہیں۔ '' اللہ تعالیٰ نے جمعہ میں ایک ایسی گھڑی کہ ہر دعا اس میں قبول ہوتی ہے صرف اس لئے رکھی گئی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جمعہ کو پیدا ہوئے اور پیر جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت ہے کی کیا شان ہوگی؟''
(شاید کوئی یہ وہم کرے کہ) جس دن حضرت آدم علیہ السلام تشریف لائے اس دن سے خطبہ اور جماعت وغیرہ لازم کردیئے گئے۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت جس دن ہوئی کوئی چیز لازم کیوں نہیں ہوئی؟
جواب: یہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اعزاز ہے آپ رحمۃ اللعالمین ہیں اور کسیعبادت کا لازم نہ ہونا بھی آپ کی رحمت اور سخاوت کی دلیل ہے۔ حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر کو روزہ رکھنے کے بارے میںسوال کیا گیا آپ نے فرمایا اس دن ہی میں پیدا ہوا ہوں اور اسی دن مجھ پر نبوت نازل ہوئی (مسلم) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیر کو پیدا ہوئے اور پیر کو ہی آپ مبعوث ہوئے ، اور پیر کو ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی ، پیر کو ہی آپ مدینہ منورہ میں داخل ہوئے اور پیر کو ہی حجاب اٹھائے گئے۔ (مسند)
حافظ ابو شامہ شیخ النووی اپنی کتاب ''الباعث علی انکار البدع والحوادث'' میں فرماتے ہیں ''ایسے اچھے کاموں کی دعوت دینی چاہئے اور اہتمام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اور تعریف کرنی چاہئے'' شیخ امام عالم علامہ نصیر الدین مبارک اپنے قلمی فتویٰ میں فرماتے ہیں ۔ ''یہ جائز ہے ، خلوص نیت سے ایسا کرنے والے کو ثواب ہوگا۔'' امام ظہیر الدین فرماتے ہیں۔ ''یہ حَسن ہے جب کہ اہتمام کرنے والے کا مقصد صحابہ کو جمع کرنا نبی امین کی بار گاہ میں ہدیہ صلوٰۃ پیش کرنا اور غرباء و مساکین کو کھانا کھلانا ہو، مذکورہ شرط کے ساتھ اس حد تک ایسے کام ہر وقت موجب ثواب ۔'' شیخ نصیر الدین فرماتے ہیں، ''یہ عمدہ اجتماع ہے جس کے انعقاد پر ثواب ملے گا نیک لوگوں کو کھانا کھلانے اور اللہ کا ذکر کرنے کیلئے اور بارگاہ رسالت میں ہدیہ درود پیش کرنے کے لئے جمع کرنا عبادات کے اجرو ثواب کی زیادتی کا سبب ہے۔'' امام ابو محمد عبدالرحمن بن اسماعیل کا ارشاد گرامی ہے، ''ہمارے زمانے کا بہترین نیا کام ہر سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے دن صدقات خیرات کرنا، زیب و زینت اور مسرت کا اظہار ہے ، کیونکہ اس میں فقراء پر احسان بھی ہے اور محفل میلاد کرنے والے کے دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور تعظیم و تکریم کی علامت بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کے احسان کا شکر ہے کہ اس نے تمام جہانوں کیلئے باعث رحمت اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا فرمایا ، جمیع الانبیاء و المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ''
اسی طرح شیخ امام صدر الدین موہب بن عمر الجزری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا ہے ۔ ''یہ تمام عبادات سیرت شامیہ سے منقول ہیں''
اے سائل! تونے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ کے متعلق کہا ہے ''آپ محفل میلاد سے منع فرماتے تھے'' تیرا یہ قول قطعاً غلط ہے ہمارے امام اور قبلہ نے گانے کی مجلس میں حاضر ہونے سے منع کیا ہے اگرچہ اس مجلس میں قرآن کی تلاوت و نعتیہ قصائد پڑھے جائیں، حضرت امام ربانی نے قرآن و حدیث کے پڑھنے سے منع نہیں فرمایا، جیسا کہ حضرت امام ربانی کی مراد سے بے خبر لوگوں نے گمان کرلیا ہے اس قسم کی بات حضرت امام ربانی پر بہت بڑا بہتان ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہیںنصیحت فرماتاہے کہ ''تم ایسا کام کبھی نہ کرو اگر تم ایمان دار ہو'' حضرت امام ربانی کے مکاتیب کا بنظر انصاف مطالعہ کرو مکتوب ٢٦٦ جلد اول میں حضرت امام ربانی فرماتے ہیں۔ ''جان لو سماع اور رقص در حقیقت لہو و لعب میں داخل ہیں۔''
آیۃ کریمہ: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ (سورۃ لقمان)
(ترجمہ) اور لوگوں میں (کوئی) ایسا بھی (نالائق ) ہے جو واہیات (خرافات) قصے کہانیاں مول لے لیتا ہے۔
سردو کی ممانعت میں نازل ہوئی ،مجاہد ،جو ابن عباس کے شاگر د اور کبائر تابعین سے ہیں فرماتے ہیں ''لہوالحدیث سے مراد سرود ہے '' (اس مسئلہ کی مزید تحقیق مطلوب ہو تو امام اہلسنت مولانا احمد رضا خان علیہ الرحمۃ کا رسالہ '' اقامۃ القیامہ'' دیکھیں ۔۔مترجم) حضرت مجاہد اللہ تعالیٰ کے قول لَا یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ (زور میں حاضر نہیں ہوتے)کی تفسیر بیان فرماتے ہیں ، ''یعنی سرود و سماع میں حاضر نہیں ہوتے۔'' پس خیال کرنا چاہئے کہ مجلس سماع و رقص کی تعظیم کرنا بلکہ عبادت و طاعت جاننا کتنا برا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے ہمارے بزرگ خود بھی اس امر میں مبتلا نہیں ہوئے اور ہمیں بھی اس امر کی تقلید سے رہائی عطا فرمائی ، سنا ہے مخدوم زادے سرود کی طرف رغبت کرتے ہیں اور سرود قصیدہ خوانی کی مجلس جمعہ کی راتوں میں منعقد کرتے ہیں اور اکثر احباب اس امر میں موافقت کرتے ہیں بڑے تعجب کی بات ہے کہ دوسرے سلسلوں کے مرید تو اپنے پیروں کے عمل کا بہانہ بنا کر اس عمل کے مرتکب ہوتے ہیں اور شرعی حرمت کو مشائخ کے عمل سے دفع کرتے ہیں اگر چہ اس امر میں حق پر نہیں لیکن سلسلہ مجددیہ کے احباب اس امر کے ارتکاب میں کون سا عذر پیش کریںگے؟ ایک طرف حرمت شرعی اور دوسری طرف اپنے مشائخ کی مخالفت (بالفرض) حرمت شرعی نہ بھی ہوتی پھر بھی آئین طریقت میں کسی نئے امر کا پیدا کرنا قبیح ہے اور جب حرمت شرعی بھی ساتھ جمع ہوجائیں تو ایسے امر کیوں قبیح نہ ہوں؟ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ مکتوبات کی تیسری جلد میں فرماتے ہیں'' اچھی آواز سے صرف قرآن مجید اور نعت و منقبت کے قصائد پڑھنے میں کیا حرج ہے؟ منع تو یہ ہے کہ قرآن کے حروف کو تبدیل و تحریف کیا جائے اور مقامات نغمہ کا التزام کرنا اور الحان کے طریق سے آوازکو پھیرنا اور اس کے مناسب تالیاں بجانا جو کہ شعر میں بھی ناجائز ہیں اگر ایسے طریقہ سے مولود پڑھیں کہ قرآنی کلمات میں تحریف واقع نہ ہو اور قصائد پڑھنے میں شرائط مذکورہ متحقق نہ ہوں اور اس کو بھی صحیح غرض سے تجویز کریں تو پھر کون سی رکاوٹ ہے؟''پس معلوم ہوا کہ حضرت مجدد کی جو عبارات میلاد کے منکر بطور دلیل پیش کرتے ہیں اس عبارت سے حضرت مجدد کی مراد یہ ہے کہ ، ''قصائد و نعت خوانی میں نغمہ کا التزام کرنا الحان کے طریق سے آواز کو پھیرنا اور اس کے مناسک تالیاں بجانا منع ہے۔'' جیسا کہ حضرت کی مذکورہ عبارت سے بالکل ظاہر ہے ، مخالفین نے غلط سمجھاہے ۔ حضرت امام نے مطلقاً محفل میلاد کو منع نہیں فرمایا پس حق ثابت ہوگیا۔ سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے اورپنا کھوٹا سکہ رائج کرنے کیلئے اس فرقہ باطلہ نے ایک نیا طریقہ نکالا ہے ہمارے بزرگوں کو بدنام کرتے ہیں کہتے ہیں فلاں بزرگ نے یوں لکھا ، فلاں نے لکھا اللہ تعالیٰ ان جھوٹ سے پاک ہے ، رہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرہ ولادت کے وقت کھڑا ہونے کا مسئلہ تو آپ کی حیات طیبہ میں آپ کی تعظیم کیلئے کھڑے ہونا صحابہ کرام سے ثابت ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ، ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں باتیں کیا کرتے تھے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے تو ہم بھی کھڑے ہوجاتے تا وقت یہ کہ حضورا اپنی کسی زوجہ محترمہ کے حجرہ میں داخل ہوجاتے۔ اور جان لو ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر جس طرح حیات طیبہ میں لازم تھی اسی طرح بعد از وصال بھی لازم ہیں اور حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اس وقت ہوگی جب آپ کا ذکر کریں، حدیث بیان کریں، آپ کی سنت بیان کریں یا آپ کا اسم شریف اور سیرت پاک سنیں۔ شفانے اس روایت سے استنباط کیا کہ آپ کی موت و حیات، تعظیم و توقیر کے لحاظ سے برابر ہے۔ اور اس کی صورت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرآپ کی حدیث و سنت کا بیان ادب و احترام سے کریں اور آپ کا اسم شریف اور سیرت پاک خضوع و خشوع سے سنیں اور آپ کے اہل بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کی تعظیم کریں ۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ آپ کی حیات مبارکہ میں اور وصال کے بعد تعظیم و توقیر یکساں ہے۔ لہٰذا اگر کوئی عالمِ ارواح سے اس دنیا میں آپ کی تشریف آوری کی تعظیم بجالائیں تو کیا حرج ہے؟ حرمین شریفین کے علماء کرام اور مذاہب اربعہ مفتیانِ عظام اس کے مستحب ہونے کا فتویٰ دے چکے ہیں بلکہ ایک حنبلی مفتی نے تو اس کے وجوب کا قول کیا ہے۔ مکہ مکرمہ کے یکتائے روز گار مفسر، محدث مولانا عبداللہ سراج حنفی جن کے حلقہ درس میں اس نو مولود فرقہ کا سردار نہ صرف با زانوئے ادب حاضر ہوا کرتا تھا بلکہ آپ کی جامعیت کا معترف بھی تھا، نے بھی قیام کے مستحسن ہونے کا فتویٰ دیا ہے آپ کا مہر زدہ فتویٰ راقم کے پاس موجود ہے ، جو چاہے دیکھ سکتا ہے۔
اما م سید جعفر برزنجی قدس سرہ، العزیز اپنے رسالہ عقد الجوہر میں فرماتے ہیں:۔ ''بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر ولادت کے وقت قیام کرنا ان اماموں نے مستحسن سمجھا جو صاحب روایت و درایت تھے اس شخص کو مبارک ہوجس کا مقصد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ہے۔'' اب ہم علماء مذکورین کے فتویٰ نقل کرتے ہیں جو بغور سننے کے قابل ہیں۔
سوال: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت اور مولود مبارک پڑھتے وقت عرب و عجم کے علماء و صلحاء کے درمیان مروج قیام کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟واجب ہے؟ یا مستحب ہے؟ یا مباح ہے؟ مدلل شافی کافی جواب ارشاد فرمائیں اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطافرمائے۔
جواب: عبداللہ سراج مکی مفتی حنفیہ فرماتے ہیں:
''یہ قیام مشہور اماموں میں برابر چلا آتا ہے اور اسے آئمہ و حکام نے برقرار رکھا ہے اور کسی نے رد و انکار نہیں کیا لہٰذا مستحب ٹھہرا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کون مستحق تعظیم ہے اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، کی حدیث کافی ہے کہ جس چیز کو مسلمان بہتر سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بہتر ہے۔''
مشہور فقیہہ عثمان بن حسن دمیاتی شافعی اپنے رسالہ اثبات قیام میں فرماتے ہیں:۔
''حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر ولادت کے وقت قیام کرنا ایک ایسا امر ہے جس کے مستحب و مستحسن و مندوب ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور قیام کرنے والے کو ثواب کثیر اور فضل کبیر حاصل ہوگا کیونکہ یہ قیام تعطیم ہے، کس کی؟ اس نبی کریم صاحب خلق عظیم علیہ التحیۃ والتسلیم کی جن کی برکت سے اللہ تعالیٰ ہمیں ظلمات کفر سے ایمان کی طرف لایا اور ان کے سبب ہمیں دوزخ سے بچا کر بہشت معرفت و یقین میں داخل فرمایا تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں خوشنودی رب العالمین کی طرف دوڑنا ہے اور قوی ترین شعائر دین کا آشکار کرنا اور جو تعظیم کرے شعائر خدا کی تو وہ دلوں کی پرہیزگاری ہے اور خدا کی حرمتوں کی تعظیم کرنے والا اللہ تعالیٰ کے یہاں بہتر ہے۔''
اس کے بعد دلائل نقل کرکے فرمایا:''ان سب دلائل سے ثابت ہوا کہ ذکر ولادت شریفہ کے وقت قیام مستحب ہے کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ہے'' ۔ یہ خیال نہ کیا جائے کہ یہ قیام بدعت ہے اس لئے کہ ہم کہتے ہیں ہر بدعت بری نہیں ہوتی جیسا کہ یہی جواب امام محقق ولی ابو ذرعہ عراقی نے دیا جب ان سے مجلس میلاد کے متعلق پوچھا گیا تھا کہ مستحب ہے یا مکروہ؟ اور اس میں کچھ وار د ہوا ہے یا کسی پیشوانے کیا ہے تو جواب میں فرمایا۔ ''ولیمہ کھانا ہر وقت مستحب ہے پھر اس صورت کا کیا پوچھنا جب اس کے ساتھ اس ماہِ مبارک میں ظہورِ نبوت کی خوشی مل جائے اور ہمیں یہ امر سلف سے معلوم نہیں نہ بدعت ہونے سے کراہت لازم کہ بہت سی بدعتیں مستحب بلکہ واجب ہوتی ہیں جب ان کے ساتھ کوئی خرابی مضموم نہ ہو اور اللہ تعالیٰ توفیق دینے والا ہے۔'' اس کے بعد آگے چل کر پھر ارشاد فرماتے ہیں ''بے شک امتِ مصطفیا کے اہل سنت و الجماعت کا اجماع و اتفاق ہے کہ قیام مستحسن ہے اور بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوتی۔''
امام علامہ مدالقی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں ۔ '' قوم کی عادت جاری ہے کہ جب مدح خواں ذکر میلاد حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے تو لوگ کھڑے ہوجاتے ہیں یہ بدعت مستحب ہے اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر خوشی اور حضور کی تعظیم کا اظہار ہے۔''
امام صر صر حنبلی فرماتے ہے:قلیل لمدح الصطفیٰ الحظ بالذہب ٭علی فضیۃ من خط احسن من کتب و ان ینہض الاشراف عنہ سماعہ ٭قیام ما صفو فا اوجثیا علیٰ الرکب۔
''مدح مصطفی کے لئے یہ بھی تھوڑا ہی ہے کہ جو سب سے اچھا خوش نویس ہو اس کے ہاتھ سے چاندی کے پتّر پر سونے کے پانی سے لکھی جائے اور جو لوگ شرف دینی رکھتے ہیں و ہ ان کی نعت سن کر صف باندھ کر سرو قد یا گھٹنوں کے بل کھڑے ہوجائیں۔''
جس کو اللہ تعالیٰ توفیق اور ہدایت دے اس کے لئے اس قدرکافی ہے ۔ وصلی اللہ علیٰ سیدنا محمد و آلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا۔ یہ (فتویٰ) عثمان حسن ومیاطی شافعی خادم طلباء مسجد حرام و سابق مدر جامع ازہر نے دیا ہے اور املاء کرایا ہے۔
عبداللہ بن محمد المیر الحنفی مفتی مکہ مکرمہ فرماتے ہیں الحمدللہ عز شانہ رب زدنی علماً(اے اللہ میرا علم زیادہ فرما) ''سید الاولین و آخرین اکی ولادت مبارکہ کے ذکر کے وقت قیام کو بہت علماء نے پسند کیا ہے ۔ واللہ اعلم
حسین بن ابراہیم مفتی مالکیہ بمکہ فرماتے ہیں:
''الحمدللہ وحدہ اللھم ہدایۃ اللصواب ، ہاں ذکر ولادت کے وقت قیام بہت علماء نے پسند کیااور یہ قیام حسن ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم واجب ہے ۔ واللہ اعلم۔''
محمد عمرابن ابی بکر مفتی شافیعہ مکہ مکرمہ کا ارشاد ہے ۔ ''حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے ذکر کے وقت قیام واجب ہے کیونکہ روح اقدس حضور معلیا جلوہ فرما ہوتی ہے تو اس وقت تعظیم و قیام لازم ہوا ، جید علماء اسلام و اکابر نے قیام مذکور کو پسند فرمایا ہے۔''
محمد بن یحییٰ مفتی حنابلہ مکہ مشرفہ نے بھی ذکر ولادت کے وقت قیام کے استحباب و استحسان کی تصریح فرمائی ہے رہا تمہارا سوال کہ ''ہم نے ربیع الاول شریف میں ایک اپنی طرف سے ''تیسری عید '' بنالی ہے۔'' تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم مسلمانوںکو لازم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف کے مہینہ کی نہ صرف ایک ہی رات بلکہ سب راتوں کو عید منائیں علمائے کبار اور محدثین کی تصریحات موجود ہیں۔
امام احمد بن خطیب العسقلانی نے اپنی کتاب مواہب اللدنیہ میں ذکر کیا ہے ۔ ''ابو لہب کی آزادکردہ لونڈی ثوبیہ جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا، نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت بہ سعادت کیابو لہب کو جب یہ خوشخبری سنائی تو اس نے ثوبیہ کو آزاد کردیا ، جب ابولہب مر گیا تو کسی نے اسے خواب میں دیکھا پوچھا کیا گذری؟ ابو ہب نے کہا آگ میں جل رہاہوںہاں اتنی بات ضرور ہے کہ ہر پیر کی رات مجھ سے عذاب ہلکا کیا جاتا ہے۔ اور ابہام و سبابہ کے درمیانی مغاککی مقدار مجھے پانی مل جاتا ہے جسے میں انگلیوں سے چوس لیتا ہوں۔ اور اس لئے کہ میں نے حضرت کی ولادت کی خوشی میں اپنی لوڈی ثوبیہ کو آزاد کردیا تھا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا۔ ابن جوزی نے کہا۔''ابو لہب ایسا کافر جس کی مذمت میں قرآن پاک کی پوری سورۃ ''تبت یدا ابی لہب'' نازل ہوئی کوعذاب جہنم کی تخفیف کا فائدہ ہوا، صرف اس لیے کہ اس نے ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی منائی جب ایککافر کو یہ فائدہ پہنچا تو اس موحد غلام کا کیا حال ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے مسرور ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں بقدر طاقت خرچ کرتا ہے۔''میری جان کی قسم اللہ کریم کی طرف سے اس کی یہی جزا ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل عمیم سے جنات نعیم میں داخل فرمائے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے مہینہ میں اہل اسلام مہینہ سے میلاد کی محفلیں منقعد کرتے چلے آئے ہیں اور خوشی کے ساتھ کھانا پکاتے اور دعوتیں کرتے ہیں اور خوشی و مسرت کا اظہار کرتے اور نیک کاموںمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور آپ کے میلاد شریف کے پڑھنے کا خاص اہتمام کرتے ہیں چنانچہ ان پر اللہ کے فضل عمیم اور برکتوں کا ظہور ہوتا اور میلاد شریف مسلمانوں کیلئے حفظ و امان کا سال ہوجاتا ہے ۔ اور میلاد شریف کرنے سے دلی مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس شخص پر بہت رحمتیں نازل فرمائے جس نے ولادت کی مبارک روتوں کو خوشی و مسرت کی عیدیں بنالیا تاکہ یہ میلاد مبارک کی عیدیں سخت تریں علت و مصیبت ہوجائیں اس پر جس کے دل میں مرض و عناد ہے۔ بے شک میلاد، شب قدر سے بھی افضل ہے اس لئے کہ شب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی گئی جب کہ شب میلاد خود آپ کے ظہور کی رات ہے اور ظاہر ہے جس رات کو ذات اقدس سے شرف والی ہے اور اسمیں کوئی نزاع نہیں لہٰذا شب میلاد شب قدر سے صلی اللہ علیہ وسلم فضل ہوئی نیز لیلۃ القدر نزول ملائکہ کیوجہ سے مشرف ہوئی اور لیلۃ المیلاد بنفس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور مبارک سے شرف یاب ہوئی۔
(تیسری وجہ ) شب قدر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر فضل و احسان ہے اور شب میلاد میںتمام موجوداتِ عالم پر فضل و احسان ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضورکو رحمت اللعالمین بنایا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے اللہ کی نعمتیں آسمان و زمین کی ساری مخلوق پر عام ہوگئیں۔ لہٰذا شب میلاد افضل ہے۔ یہ کچھ ذکر کیا گیا ہے ہمارے کثیر دلائل کا ایک حصہ ہے اللہ تعالیٰ جس کو ہدایت دے اس کے لئے اس قدر کافی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ''اور اندھوں کو تم گمراہی سے ہدایت کرنے والے نہیں تمہارے سنائے تو وہی سنتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں اور وہ مسلمان ہیں۔'' (٨١/٢٧) رہا تمہارا یہ الزام کہ ہم کسی نئے مذہب کے مدعی ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم بحمدہ تعالیٰ دین اسلام پر قائم ہیں سلف و خلف میں مشہور ہیں اگرچہ ناسمجھوں پر مخفی رہے حضرت سعدی نے کیا خوب کہا ہے کہ :'' گر نہ بیند بروز شپر٭چشمہ آفتاب راچہ گناہ''اگر کوئی اندھا ہے تو اس میں سورج کا کیا گناہ ہے ؟ اگر الو دن کو نہ دیکھ سکتے تو سورج کے چشمہ کا کیا گناہ ہے؟'' ہمارا اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد ہے نہ اس کا کوئی شریک ہے نہ مثل ہے نہ اس کی ضد ہے نہہمسر، اس کے شایان شان وہی اوصاف ہیں جو اس نے خود بیان فرمائے ، اس کے مناس وہی اسماء ہیں جو خود اس نے اپنی ذات کے لئے تجویز فرمائے ۔ وہ نہ جسم نہ جوہر نہ مکین بلکہ مکین و مکان کا خالق ہے۔ وہ نہ عرض نہ اس کیلئے اجتماع نہ افتراق ، نہ اس کے اجزاء نہ اس کو ذکر تھکا سکتا ہے نہ پریشانی لاحق ہو سکتی ہے الفاظ و عبارات اس کی حقیقت بیان کرنے سے قاصر، اشارات اس کا تعین کرنے سے عاجز افکار احاطہ نہیں کرسکتے آنکھیں ادارک نہیں کرسکتیں۔ ہر چیز کی اس کے نزدیک ایک خاص مقدار ہے وہ وہم و فہم سے بالا ہے ۔ اگر تو کہے ''کب''؟ تو وقت اس کے وجود سے پہلے ہو جائے گا، اگر کہے ''کس جگہ'' تو مکان پہلے ہوگا۔ وہ ہر مصنوع کیلئے علت ہے اس کے فعل کی کوئی علت نہیں اس کی ذات اور فعل کیفیت سے پاک ہے جس طرح آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں عقل اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اس کی ذات دیگرذوات جیسی اور اس کیصفات دیگر صفات جیسی نہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت ہے ۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے
لَیْسَ کَمِثْلِہ شَیئٌ وَ ہُوَا السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
''اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سمیع اور بصیر ہے''
ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جنت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا اور احادیث مبارکہ کے مطابق جنت ، دوزخ ، لوح ، قلم، حوض، پل صراط، شفاعۃ، میزان اور صور، عذاب قبر ، منکر نکیر کے سوال، شفاعت کرنے والوں کی شفاعت سے ایک قوم کو آگ سے نکالنے، مرنے کے بعد زندہ ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔ نیز ہمارا عقیدہ ہے جنت دوزخ ہمیشہ رہیں گے جنتی ہمیشہ جنت میں اور دوزخی ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے مگر مومنین مرتکب کبائر ہمیشہ دوزخ میں نہیں رہیں گے، اور اللہ تعالیٰ کے قول ''واللّٰہ خلقکم وما تعملون'' کے مطابق اللہ تعالیٰ بندوں کے افعال کا خالق ہے جیسے کہ ان کی ذات کا خالق ہے ہمارا عقیدہ ہے کہ تمام مخلوق اپنے مقررہ وقت پر مرجائے گی اور شرک اور تمام گناہ اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر سے ہیں لیکن مخلوق کا کوئی فرد اللہ تعالیٰ پر حجت قائم نہیں کر سکتا ۔ غالب حجت اللہ تعالیٰ ہی کی ہے اور وہ اپنے بندوںسے کفر اور گناہ کو پسند نہیں فرماتا۔ رضا اور ارادہ دو الگ الگ صنعتیں ہیں۔ ہم ہر مسلمان کے پیچھے نماز جائز سمجھتے ہیں نیک ہو یا بد۔ ہم کسی اہل قبلہ کو قطعی طور پر جنتی قرار نہیں دیتے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ خلافت قریش ہی کا حق (مسئلہ خلافت کی تحقیق کیلئے امام احمد رضا علیہ الرحمۃ کا رسالہ ''دوام العیش فی الائمۃ من قریش'' دیکھیں نیز خلفاء اربعہ قریش ہی ہیں) ہے ، خلافت میں کسی دوسرے کے لئے قریش کے ساتھ جھگڑا کرنا جائز نہیں۔ ہم ظالم جابر حکمرانوں کے خلاف بھی بغاوت جائز نہیں سمجھتے(لیکن جابر حکمرانو کے سامنے کلمہ حق افضل جہاد ہے) جب تک مسلمان ہو اور ہم تمام آسمانی کتابوںاور انبیاء و رسل پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء افضل البشر ہیں لیکن نبی کریم افضل الابنیاء اور خاتم النبیینا ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ بعد از انبیاء حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ افضل بشر ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور عشرہ مبشرہ، پھر وہ حضرات جن کی کے جنتی ہونے کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گواہی دی اور پھر وہ حضرات جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور پھر باعمل علماء۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ رسل خاص ملائکہ سے افضل ہیں اور خاص ملائکہ عام انسانوں سے افضل ہیں اور عام پرہیزگار مسلمان عام ملائکہ سے افضل ہیں ملائکہ کے بھی آپس میں درجات ہیں جس طرح مومنین کے مختلف ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ کامل مومن وہ ہے جو زبان سے اقرار بھی کرے، دل سے تصدیق بھی کرے اور ہاتھ پاؤں وغیرہ سے عمل بھی کرے۔ وہ جو اقرار نہیں کرتا وہ کافر ہے ، جو تصدیق نہیں کرتا وہ منافق ہے اقر جو بے عمل ہے وہ فاسق ہے۔ جو سنت کی پیروی نہیں کرتا وہ بدعتی ہے لو گ ایمان ثمرات کے لحاظ سےمختلف ہیں دل کی معرفت مفید نہں تا وقت یہ کہ زبان سے اقرار اور توحید و رسالت کی گواہی نہ دے الّا یہ کہ وہ شرعاً معذور ہو۔ بندوں کے افعال نہ سعادت کا سبب ہیں اور نہ شقاوت کا سعید اپنی ماںکے پیٹ سے سعید ہے اور شقی رحم ماد ر سے شقی ہے۔ عبادت پر ثواب محض اللہ کا فضل ہے، گناہ پرعذاب اللہ تعالیٰ کا عدل ہے۔ اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز واجب نہیں وہ جو چاہے کرتا ہے اور جو ارادہ فرمائے فیصلہ فرماتا ہے کوئی اس کا حکم مؤخر نہیں کرسکتا اور کوئی اسکے فیصلہ کو بدل نہیں سکتا۔ رضا اور ناراضگی دو قدیم صفتیں ہیں۔ بندوںکے افعال سے معتبر نہیں ہوسکتیں اللہ تعالیٰ جس پر راضی ہو اس سے جنتیوں والے کام لیتا ہے۔ا ور جس پر ناراض ہو جہنمی والے کام کرواتا ہے۔ کسی پر راضی اور کسی پر ناراض ہونے کی وجہ اور کلمہ کوئی نہیں جاسکتا اس لئے کسی نے کہا ہے کہ مجھے مسئلہ قضا و قدر نے قتل کردیا اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور قضا پر راضی رہنا مشکلات پر صبر کرنا نعمتوں پر شکر کرنا لوگوں پر واجب ہے۔ حدیث قدسی ہے کہ جو میری قضاء پر راضی نہیں اور میری طرف سے آئی ہوئی مصیبت پر صابر نہیں اور میری نعمتوں کا شکر ادا نہیںکرتا تو میرے سوا کوئی دوسرا رب تلاش کرے اور خوف و امید آدمی کیلئے لگام کا کام کرتی ہے اور اسے بے ادب ہونے سے روکتی ہیں اور ہر وہ دل جو ان دونوںسے خالی ہے وہ خراب ہے اور امر و نہی اور عبودیت کے احکام آدمی کیلئے لازم ہیںجب تک کہ وہ عاقل ہے ہاںجب اس کا دل اللہ کے ساتھ صاف ہو تو اس سے احکام تکلیفیہ کی مشقت ساقط ہو جاتی ہے نہ کہ نفس و جوب، اور بشریت کسی آدمی سے زائل نہیں ہوتی اگر چہ وہ ہوا میں اڑے البتہ بشریت کبھی ضعیف ہوتی ہے اورکبھی قوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بری صفات عرفا سے ختم ہوجاتی ہیں اور بندہ مختلف احوال سے گزر کر اہل روحانیت کی صفات پالیتا ہے اس کے لئے زمین سمٹ جاتی ہے وہ پانی پر چلتا ہے، ہوا میں اڑتا اور کبھی اپنی جگہ کے علاوہ کسی دوسری بستی یا صحرا میں نظر آتا ہے ۔ اللہ کیلئے محبت اور اللہ کیلئے بغض اعلیٰ ایمانی صفت ہے اپنی طاقت کے مطابق نیکی کی طرف دعوت اور برائی سے روکنا ہر شخص پر فرض ہے اولیائے کرام کی کرامات بالکل حق ہیں۔ اور کرامات معجزات انبیاء علیہم السلام کا ہی ایک حصہ ہیں کیونکہ پیرو کار کے کمال کی دلیل ہیں جبکہ پیروکار کا کمال اصل میں متبوع کا ہی کمال ہے کامل تر اورافضل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ آپ شفاعت کبریٰ اور وسیلہ عظمیٰ کے مالک ''قاب قوسین او ادنیٰ'' کے تاج والے ''دنیٰ وفتدلیٰ'' کے رموز و اسرار سے واقف ، اللہ تعالیٰ بے شمار رحمتیں اور برکتیں اور سلام آپ پر آپ کے مقدس مطہر آل اور صحابہ کرام پر نازل فرمائے (آمین ثم آمین)
Subscribe to:
Posts (Atom)
حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ
حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...