Monday 29 July 2024

مرتد ، زندیق و عام کافر میں فرق اور قادیانیوں سے تعلق و میل جول رکھنا

مرتد ، زندیق و عام کافر میں فرق اور قادیانیوں سے تعلق و میل جول رکھنا

محترم قارئینِ کرام : فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے مختلف لبرلز کے مضامین پڑھے اور مختلف ٹی وی پروگرامز سنے جن میں کچھ نام نہاد اسکالرز قادیانیوں کی حمایت کر رہے تھے کہ وہ بھی ایک اقلیت ہیں ان کے بھی حقوق ہیں جی ہاں اسلام میں اقلیتوں کے حقوق کا بہت خیال رکھا گیا ہے مگر عام کافر اور قادیانی مرتدوں و زندیقوں میں فرق ہے اس سے قبل فقیر ایک مضمون لکھ چکا ہے بنام (قادیانی اور عام کافر میں فرق) اب پیشِ خدمت ہے ان جدید لبرلز و دیسی لبرلز کے مغالطوں کا جواب اہلِ ایمان سے گذارش ہے ایک بار ضرور پڑھیں بڑی محنت سے یہ مضمون تیار کیا گیا ہے اہل علم اصلاح فرمائیں : ⏬

فتاویٰ شامی میں ہے : کافر وہ شخص ہےجودین اسلام کو ظاہراً و باطناً ماننے والانہ ہو ۔ زندیق وہ شخص ہے جوزبان سےتو مسلمان ہونے کا اقرار کر رہا ہو لیکن احکامِ اسلام کی باطل تاویل کرتاہو ۔ مرتد وہ شخص ہےکہ اپنی مرضی اور رضا مندی سے اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام سے پھر جائے ۔ ملحد لغوی تعریف کے اعتبار سےتو کفر کی تمام اقسام کو شامل ہے اور اصطلاحی معنی کے اعتبار سےاس شخص کو کہا جاتا ہے جو   بظاہر تو دین حق کا اقرار کرتا ہے، لیکن ضروریات دین میں سے کسی امر کی ایسی تعبیر و تشریح کرتا ہے جو صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم نیز اجماعِ امت کے خلاف ہو ۔ اور منافق اس کو کہا جاتا ہے جو  زبان سے تو دین حق کا  اقرار کرتا ہے ، مگر دل سے  اس کا منکر ہو ۔ (فتاوی شامی جلد ۴ صفحہ ۳۴۱ مطبوعہ ایچ ایم سعید کراچی)

زندیق شرعاً اس شخص کو کہا جا تا ہے جو نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلّم کی نبوت کا اقرار کرتا ہو اور شعائر اسلا م کا اظہار کرتا ہو مگر کسی کفریہ عقیدہ پر ڈٹا ہو اہو ۔ زندیق اور ملحد جو بظاہر اسلام کا کلمہ پڑھتا ہو مگر خبیث عقائد رکھتا ہو اور غلط تاویلات کے ذریعے اسلامی نصوص کو اپنے عقائد خبیثہ پر چسپاں کرتا ہو۔ اس کی حالت کافر اور مرتد سے بھی بدترہے کہ کافر اور مرتدکی توبہ بالا تفاق قابل قبول ہے مگر بقول علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ زندیق کا نہ اسلام معتبر ہے نہ کلمہ ، نہ اس کی توبہ قابل التفا ہے ۔ الایہ کہ وہ اپنے تمام عقائد خبیثہ سے برأت کا اعلان کرے ۔
حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ زندیق کا معنی بیان کر تے ہیں : وہ جو کفر کو چھپاتا ہو اور ایمان کو ظا ہر کر تا ہو ۔ (مرقات جلد ۷ صفحہ ۱۰۴)

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں کہ : زندیق ملمع سازی کر کے اپنے کفر کو پیش کرتا ہے فاسد عقید ہ کی ترویج کر تا ہے اور اس کو صحیح صورت میں ظا ہر کر تاہے اور کفرکے چھپانے کا یہی مطلب ہے ۔ (فتاویٰ شامی جلد ۳ صفحہ ۳۲۴،چشتی)

زندیق کی تعریف میں جو عقائد کفریہ کا دل میں رکھنا ذکر کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مثل منافق کے اپنا عقیدہ ظاہر نہیں کرتا ۔ بلکہ یہ مراد ہے کہ اپنے عقائد کفریہ کو ملمع کرکے اسلامی صورت میں ظاہر کرتا ہے ۔

مرتد وہ شخص ہے کہ اسلام کے بعد کسی ایسے اَمر کا انکار کرے جو ضَرور يا تِ دین سے ہو یعنی زَبان سے (ایسا)کلِمۂ کفر بکے جس میں تاویلِ صحیح کی گنجائش نہ ہو۔ یونہی بعض افعال بھی ایسےہوتے ہیں جن سے کافر ہوجاتا ہے مَثَلاً بُت کو سجدہ کرنا ۔ مُصحَف شریف (قرآن پاک) کو نَجاست کی جگہ پھینک دینا ۔ (بہار شریعت حصہ 9 صفح 173)

مُرتَد کی دُنیا میں سزا : ⏬

بہارِ شریعت حصّہ 9 صَفْحَہ 174 تا 175 پر صدرُ الشَّریعہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو شخص مَعاذَاللہ عَزَّوَجَلَّ مُرتَد ہو گیا تو مُستَحَب ہے کہ حاکمِ اسلام اُس پر اسلام پیش کرے اور اگر وہ کچھ شُبہ بیان کرے تو اُس کا جواب دے اور اگرمُہلَت مانگے تو تین دن قید میں رکھے اور ہر روز اسلام کی تلقین کرے ۔ یوہیں اگر اُس نے مُہْلَت نہ ما نگی مگر امّید ہے کہ اسلام قَبول کر لے گا جب بھی تین دن قید میں رکھا جائے ۔ پھر اگر مسلمان ہو جائے فَبِہا(یعنی بَہُت بہتر)ورنہ قتل کر دیا جائے ۔ بِغیر اسلام پیش کیے اُسے قتل کر ڈالنا مکر وہ ہے ۔ (دُرِّمُختار جلد 6 صفحہ 346۔349،چشتی)

کیا مُرتَد کو ہرکوئی قَتل کر سکتا ہے ؟ : ⏬

جی نہیں ۔ یہ صرف بادشاہِ اسلام کا کام ہے ۔ چُنانچِہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مُرتَد کو قید کرنا اور اسلام نہ قبول کرنے پر قتل کر ڈالنا بادشاہِ اسلام کا کام ہے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ ایسا شخص اگر زندہ رہا اور اس سے تَعَرُّض نہ کیا گیا (یعنی روک ٹوک نہ کی گئی ) تو ملک میں طرح طرح کے فساد پیدا ہو نگے اور فتنہ کا سلسلہ روز بروز ترقّی پذیر ہو گا ، جس کی وجہ سے اَمْنِ عامّه میں خَلل پڑیگا ، لہٰذا ایسے شخص کو ختم کر دینا ہی مُقتَضائے حکمت (یعنی مَصلَحت کا تقاضا) تھا ۔ اب چُونکہ حکومتِ اسلام ہندوستان میں باقی نہیں ، کوئی روک تھام کرنے والا باقی نہ رہا ، ہر شخص جو چاہتا ہے بکتا ہے اور آئے دن مسلمانوں میں فَساد پیدا ہوتا ہے ، نئے نئے مذہب پیدا ہوتے رہتے ہیں ، ایک خاندان بلکہ بعض جگہ ایک گھر میں کئی مذہب ہیں اور بات بات پر جھگڑے لڑائی ہیں، ان تمام خرابیوں کا باعِث یِہی نیا مذہب ہے۔ ایسی صورت میں سب سے بہتر ترکیب وہ ہے جو ایسے وقت کے لیے قراٰن و حدیث میں ارشاد ہوئی، اگر مسلمان اُس پر عمل کریں تمام قِصّوں سے نَجات پائیں دنیا و آخِرت کی بھلائی ہاتھ آئے۔ وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے بالکل مَیل جُول چھوڑ دیں، سلام کلام ترک کر دیں، ان کے پاس اُٹھنا بیٹھنا، اُن کے ساتھ کھانا پینا، اُن کے یہاں شادی بیاہ کرنا غَرَض ہر قسم کے تعلُّقات ان سے قَطع کر دیں گویا سمجھیں کہ وہ اب رہا ہی نہیں ۔ (بہارِ شریعت حصّہ 9 صفحہ 175)

عورت یا بچّہ مُرتَد ہو تو سزا : ⏬

علامہ مولیٰنا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : عورت یا نابالِغ سمجھ وال(یعنی سمجھدار )بچّہ مُرتَد ہو جائے تو قتل نہ کرینگے ۔ بلکہ قید کرینگے یہاں تک کہ توبہ کرے اور مسلمان ہو جائے ۔ (بہارِ شریعت حصّہ 9 صفحہ 175،چشتی)(عالمگیری جلد 2 صفح 254)

مُرتَد کی اولاد حرامی ہوتی ہے : ⏬

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ فُقَہائے کرام رَحِمَھُمُ اللہُ علیہم سے نَقل فرماتے ہیں : جو شخص معاذَاللہ مُرتَد ہو جائے اُس کی عورت حرام ہو جاتی ہے ، پھر اسلام لائے تو اُس سے جدید نکاح کیا جائے ۔ اس سے پہلے اس کلِمۂ کفر کے بعد کی صُحبت سے جو بچّہ ہو گا حرامی ہو گا اور یہ شخص اگر عادت کے طور پر کلمهٔ شہادت پڑھتا رہے کچھ فائدہ نہ دے گا جب تک اپنے اس کُفر سے توبہ نہ کرے کہ عادت کے طور پرمُرتَد کے کلمہ پڑھنے سے اس کا کُفر نہیں جاتا ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 14 صفحہ 299 ۔300،چشتی)

کیا مُرتد کے تمام اعمال ضائِع ہو جاتے ہیں ؟ : ⏬

کُفْر قَطْعی بک کریا اِس طرح کا فِعلِ کفر کر کے جو کافر ومُرتَدہوا اس کے تمام اَعْمال برباد ہو جاتے ہیں ۔ پارہ 2 سُورَۃُ الْبَقَرَہ آیت نمبر217 میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے : وَمَنۡ یَّرْتَدِدْ مِنۡکُمْ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَیَمُتْ وَہُوَکَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمٰلُھُمْ فِی الدُّنْیَا وَالۡاٰخِرَۃِۚ وَ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ ھُمْ فِیۡھَا خٰلِدُوۡنَ ۔
ترجمہ : اورتم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے پھر کافر ہو کر مرے توان لوگوں کا کیا اکارت گیادنیا اور آخِرت میں اور وہ دوزخ والے ہیں انہیں اس میں ہمیشہ رہنا ۔ (پارہ 2 سورہ البقرۃ آیت نمبر 217)

کُفْر بکنے والے کی ہاں میں ہاں ملانے والے کا حکم : ⏬

اگر فِقہی و لُزومی کفر بکا ہے تو بکنے والا اور ہاں میں ہاں ملانے والا اسلام سے خارِج نہ ہوئے اور سابِقہ نیک اَعمال بھی برباد نہ ہوئے۔ البتّہ توبہ و تجدید ِایمان فرض ہے اور بیوی والے کو تجدیدِ نکاح کا حکم دیا جائے گاالبتّہ بِلا اِکراہِ شَرعی ہوش و حَواس میں صریح کُفر بکنے والا ، ایسے ہی صریح کلمهٔ کفر کے معنیٰ سمجھنے کے باوُجود ہاں میں ہاں ملانے والا اور تائید میں سرہِلانے والا بھی کافِر و مُرتد ہو جاتا ہے اور شادی شدہ تھا تونِکاح ٹوٹ جاتا، کسی کا مُرید تھا تو بَیعت ختم ہو جاتی اور زندَگی بھر کے نیک اعمال برباد ہو جاتے ہیں ، اگر حج کر لیا تھا تو وہ بھی گیا ، اب بعدِ تجدِید ایمان صاحِبِ استِطاعت ہونے پر نئے سِرے سے حج فرض ہو گا ۔

مُرتَد دوبارہ ایمان لائے تو نَماز روزے کے مسائل : ⏬

مُرتد ہوتے ہی اُس کے پچھلے تمام نیک اَعمال بَشُمُول نَماز، روزہ، حج وغیرہ ضائِع ہو گئے ۔ دوبارہ ایمان لانے کے بعد یہ ہے کہ جونَمازیں زمانۂ اسلام میں قَضا ہوئی تھیں اُن کی قَضا ایمان لانے کے بعد بھی باقی ہے اور یِہی حکْم روزۂ رمضان کا ہے ۔ چُنانچِہ دُرِّمُختار میں ہے : اور زمانۂ اسلام میں جو عبادتیں ترک کیں ، اِرتِدَاد یعنی دین سے مُنْحَرِف ہونے (دین سے پھر جانے) کے بعداز سرِ نو مسلمان ہونے پر ان کو دوبارہ ادا کرے ، کیونکہ نَماز اور روزہ کا ترک گُناہ ہے اور اِرتِدَاد کے بعد (اگر چِہ نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں مگر) گناہ باقی رہتے ہیں ۔ اگر (پہلے حج کر لیا ہو تب بھی) صاحِبِ استِطاعت ہونے پر حج نئے سِرے سے فرض ہوگا ۔ (دُرِّمختار جلد 6 صفحہ 383 ۔ 385)

ہاں زمانہ ٔاِرتدِاد میں رہ جانے والی نَمازوں اور دیگر عبادتوں کی قضاء نہيں ہے اور اس دوران جو عبادَتیں کی ہیں وہ مقبول بھی نہیں ۔

مُرتَدین کی صُحبت سے ایمان برباد ہو سکتا ہے : ⏬

یہ یاد رہے کہ بِغیر دلیلِ قَطعی صِرف شک کی بنا پر کسی کو مُرتَد نہیں بول سکتے۔مُرتَدین کے ساتھ نِشَست و بَرخاست (یعنی اٹھنے بیٹھنے) کے مُتَعَلِّق کئے جانے والے ایک سُوال کے جواب میں میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ جلد 21 صَفْحَہ 278 پر فرماتے ہیں:ان کے پاس نِشَست و بَرخاست حرام ہے اُن سے مَیل جُول حرام ہے اگر چِہ اپنا باپ یا بھائی بیٹے ہوں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے : وَ اِمَّا یُنۡسِیَنَّکَ الشَّیۡطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیۡنَ ۔
ترجَمہ : اورجو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ ۔ (پ7 الانعام 68)
اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے : لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوۡنَ بِاللہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوۡنَ مَنْ حَآدَّ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَوْ کَانُوۡۤا اٰبَآءَھُمْ اَوْ اَبْنَآءَھُمْ اَوْ اِخْوَانَھُمْ اَوْ عَشِیۡرَتَھُمْ ؕ
ترجَمہ : تم نہ پاؤ گے ان لوگوں کوجو یقین رکھتے ہیں اللہ (عَزَّوَجَلَّ) اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں اُن سے جنہوں نے اللہ (عَزَّوَجَلَّ) اور اس کے رسول (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )سے مخالَفَت کی اگر چِہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یاکُنبے والے ہوں ۔ (پ28المجادلہ22)
فتاوٰی رضویہ جلد 14صَفْحَہ 328 پر ہے : مُرتَدّوں میں سب سے بد تر مُرتَد''مُنافِق ''ہے ۔ یِہی وہ ہے کہ اِس کی صحبت ہزار کافِر کی صُحبت سے زیادہ مُضِر (نقصان دِہ) ہے کہ یہ (بظاہِر) مسلمان بن کر کفر سکھاتا ہے ۔

مُرتَد کی نَمازِ جنازہ کا حُکمِ شَرعی : ⏬

مرتد اور کافر کے جنازے کا ایک ہی حکم ہے ۔ مذہب تبدیل کر کے عیسائی (کرسچین) ہونے والے کا جنازہ پڑھنے والے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سیِّدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت ،مجدددین و ملت ، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوٰی رضویہ جلد 9 صَفْحَہ 170 پرارشاد فرماتے ہیں : اگر بہ ثُبوتِ شرعی ثابِت ہو کہ میِّت عِیاذاً باللہ (خدا کی پناہ) تبدیلِ مذہب کرکے عیسائی (کرسچین) ہو چکا تھا تو بیشک اُس کے جنازہ کی نماز اور مسلمانوں کی طرح اس کی تَجہیز وتکفین سب حرام قَطعی تھی ۔ قالَ اللہ تعالیٰ(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے)
وَلَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنْہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَاتَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ ؕ ۔
ترجَمہ : اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑ ے ہونا ۔ (پ 10 التوبہ 84)
مگر نماز پڑھنے والے اگر اس کی نصرانیت (یعنی کرسچین ہونے)پر مطلع نہ تھے اور بربِنائے علمِ سابِق (پچھلی معلومات کے سبب) اسے مسلمان سمجھتے تھے نہ اس کی تجہیز وتکفین ونَماز تک اُن کے نزدیک اس شخص کا نصرانی (کرسچین) ہو جانا ثابت ہوا ، توان اَفعال میں وہ اب بھی معذور و بے قُصُور ہیں کہ جب اُن کی دانِست(معلومات) میں وہ مسلمان تھا، اُن پر یہ اَفعال بجالانے بَزُعْمِ خود شرعاً لازم تھے ، ہاں اگر یہ بھی اس کی عیسائیت سے خبردار تھے پھر نماز و تجہیز وتکفین کے مُرتکب (مُر۔تَ ۔ کِب ) ہوئے قطعاً سخت گنہگار اور وبالِ کبیرہ میں گرفتار ہوئے ، جب تک توبہ نہ کریں نماز ان کے پیچھے مکروہ ۔ مگرمُعامَلۂ مُرتَدین پھر بھی برتنا جائز نہیں کہ یہ لوگ بھی اس گناہ سے کافر نہ ہوں گے ۔ ہماری شَرعِ مُطَہَّر صراطِ مُستقیم ہے ، اِفراط و تفریط (یعنی حد اعتدال سے بڑھانا گھٹانا) کسی بات میں پسند نہیں فرماتی ، البتّہ اگر ثابت ہو جائے کہ اُنہوں نے اُسے نصرانی جان کر نہ صرف بوجِہ حَماقت وجَہالت کسی غَرَضِ دُنیوی کی نیّت سے بلکہ خود اسے بوجہِ نصرانیّت مستحقِ تعظیم وقابل تجہیز وتکفین ونَمازِ جنازہ تصوُّر کیا تو بیشک جس جس کا ایسا خیال ہوگا وہ سب بھی کافِر ومُرتَد ہیں اور ان سے وُہی مُعامَلہ برتنا واجِب جو مُرتدین سے برتا جائے!اوران کی شرکت کسی طرح روا نہیں ، اور شریک ومعاون سب گنہگار ۔ واللہ تعالٰی اعلم ۔

کافِر کو مرحوم کہنا کیسا ؟ : ⏬

اِرتدِاد کا علم ہونے کی صُورت میں مرحوم کہنا کُفر ہے ۔ صدرُالشَّرِیْعَہ ، بَدْرُ الطَّريقہ حضرتِ مفتی محمد امجَد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : جو کسی کافِر کےلیے اس کے مرنے کے بعد مغفِرت کی دُعا کرے یا کسی مُردہ مُرتد کو مرحوم (یعنی رحمت کیا جائے) یا مغفور (یعنی مغفرت کیا جائے) یا کسی مر ے ہوئے ہندو کو بَیْکُنْٹھ (بے ، کُنْ ، ٹھ ) باشی (یعنی جنّتی) کہے وہ خود کافِر ہے ۔ (بہارِ شريعت حصّہ1 صفحہ 97،چشتی)

خاندان کا کوئی فرد بِالفرض کافِر ہو تو ؟ : ⏬

ماں باپ یا خاندان کاکوئی فرد اگر مَعاذَاللہ کافر یا مُرتد ہو تو واقِعی سخت آزمائش ہوتی ہے ، مگر کسی صورت شریعت کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے ۔ ذَیل میں دی ہوئی آیت اور اس کے تحت دیا ہوا مضمون پڑھیں گے تو اِن شاءَ اللہ استِقامت ملنے کے ساتھ ساتھ معلومات کا خزانۂ لاجواب ہاتھ آئے گا ۔ چُنانچِہ پارہ28 سورۂ مُجادَلہ آیت نمبر22میں ارشادِ ربُّ العباد ہے : لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوۡنَ بِاللہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوۡنَ مَنْ حَآدَّ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَوْ کَانُوۡۤا اٰبَآءَھُمْ اَوْ اَبْنَآءَھُمْ اَوْ اِخْوٰنَھُمْ اَوْ عَشِیۡرَتَھُمْ ؕ ۔
ترجَمہ : تم نہ پاؤ گے ان لوگوں كو جو یقین ركھتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر كہ دوستی كریں ان سے جنہوں نے اللہ اور اس كے رسول سے مخالَفَت كی اگرچہ وہ ان كے باپ یا بیٹے یا بھائی یا كُنبے والے ہوں ۔ (پ 28المجادلہ 22)

مسلمان کی پہچان : ⏬

حکیم الامت حضر تِ مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ ، شانِ حبیبُ الرحمن صَفْحَہ 235 تا 236 پر فرماتے ہیں : یہ آیتِ کریمہ بھی حُضور عَلَیْہِ السَّلام کی نعت ہے اور مسلمانوں کی پہچان ہے ۔ اس میں مسلمانوں کی نشانی یہ بتائی گئی کہ مومِن ہرگز ایسا نہیں کر سکتا کہ اللہ و رسول عَلَیْہِ السَّلام کے دشمنوں سے مَحَبَّت رکھے اگر چِہ وہ اس کے خاص اہلِ قَرابت ہی ہوں ۔ جس سے معلوم ہوا کہ اگر چِہ ماں باپ کا بَہُت بڑا حق ہے، مگر حقِّ مصطَفٰے عَلَیْہِ السَّلام کے مقابلہ میں کسی کا کچھ حق نہیں ۔

ماں باپ اگر کافِر ہوں تو ان سے مَحَبَّت حرام ہے : ⏬

حضور عَلَیْہِ السَّلام کا حکم ہے کہ داڑھی رکھو ۔ ماں یا باپ یا یار دوست کہیں کہ داڑھی مُنڈواؤ ہرگز جائز نہیں کہ مُنڈائے ۔ رب کا حکم ہے کہ نَماز پڑھو اور روزہ رکھو ۔ ماں کہے یہ کام نہ کر۔ ماں کی بات ہرگز نہ مانی جاویگی ۔ کیوں کہ اللہ و رسول عَلَیْہِ السَّلام کا حق سب پر مُقَدَّم (یعنی سب سے بڑھ کر) ہے ۔ اسی طرح اگر کسی کا بیٹا یا بھائی یا باپ یا ماں کافر ہوں ، تو ان سے مَحَبَّت ، دوستی تمام کی تمام حرام ہیں ۔
صَحابہ رضی اللہ عنہم نے جنگ میں کافر رشتے داروں کو قَتْل کیا
اِس آیت کی تفسیر صَحابہ کرام (علیھم الرضوان) کی زِندگی ہے ۔ چُنانچِہ حضرتِ ابو عُبَیدہ بِن جَرّاح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگِ اُحُد میں اپنے والِد''جَرّاح ''کو قتل کیا ، حضرتِ سیِّدُنا ابو بکرصِدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے فرزند عبدالرحمن کو جو اُس وَقت کافِر تھے مقابلہ کے لئے بلایا کہ عبدالرحمٰن آؤ!آج باپ بیٹے دو دو ہاتھ ہو جائیں ! لیکن حُضور عَلَیْہِ السَّلام نے ان کو روک دیا (حضرتِ سیِّدُنا عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بعد میں مسلمان ہو گئے ) حضرت مُصعَب بِن عُمَیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بھائی عبدُ اللہ بن عُمَیر کو قتل کیا جو کافِر تھا اور حضرتِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ماموں عاص بِن ہَشّام بن مُغِیرہ کو قتل کیا جو کافر تھا ، اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حَمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رَبِیعہ کے لڑکوں عُتبہ اورشَیبہ کو جنگِ بدر میں قتل کیا جو ان کے قَرابت (رشتہ دار) تھے ، خدا اور رسول پر ایمان لانے والوں کو (جِسمانی) رشتہ داری کا کیا پاس ۔ (تفسیر روحُ البیان جلد 9 صفحہ 412،چشتی)(خزائن العرفان صفحہ 870)

سانپ جان اور بُرا دوست ایمان لیتا ہے : ⏬

تاتُوانی دُور شَو اَز یارِ بد مارِ بد تنہا ہمیں برجاں زَنَد
یارِ بد بدتر بُوَد اَز مارِ بد یارِ بد بَر دین و بَرایماں زَنَد
مثنوی شریف کے ان دو اشعار کا خلاصہ ہے کہ : جہاں تک ہوسکے بُرے دوست سے دُور رہو کہ بُرا دوست سانپ سے بھی زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ سانپ تو صرف جان لیتا ہے جبکہ بُرا یار ایمان لیتا ہے ۔
دولت مند (اگر) ڈاکو سے مَحَبَّت رکھے تو ایک دن (اُسی ڈاکو کے باعث)اپنی دولت برباد کر دے گا ۔ اِسی طرح دولتِ ایمان رکھنے والا اگر بے ایمانوں سے مَحَبَّت رکھے ، تو ایک دن اپنا ایمان کھو دیگا۔ آج بَہُت سی ایسی مِثالیں موجود ہیں کہ بُروں کی صحبت میں بیٹھ کر بد مذہب بن گئے ۔ (شانِ حبیب الرحمن صفحہ 235 ۔ 236)

قادِیانی کافِر ہیں : ⏬

مِرزائیوں (قادیانیوں)کے کفر پر مُطَّلع ہوکر انہیں کافِر نہ سمجھنے والا خود کافِر مرتد ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 14 صفحہ 321 )

اس میں قادیانیوں کے تمام گُروہ شامِل ہیں ۔ وہ قادِیانی بھی جو مرزا غلام احمد کو نبی مانیں اور وہ بھی جو مرزا کو مُجدِّد یا مسیح مانیں اور وہ بھی جو ان میں سے تو کچھ نہ مانیں مگر اس کو محض مسلمان مانیں بلکہ وہ بھی کافِر و مُرتَد ہیں جو اس کے عقائد کو جاننے کے باوُجُود اس کے کافِر ہونے پر شک کریں ۔ قادِیانی عقائد کی تفصیل امام اَحمد رَضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے رسائل میں موجود ہے جو ردِّ مِرزائیت کے نام سے مل سکتے ہیں ۔

فرقہ قادیانیہ جو غلام احمد قادیانی کو نبی یا مصلح و مرشد مانتا ہے ، یہ فرقہ زمانہ حال کے زنادقہ کبار میں سے ہے اور کسی اسلامی مملکت میں بحکم شرع اسے رہائش ، اقامت کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ قادیانی ختم نبوت کے منکر ہیں اور ختم نبوت کا عقیدہ ضروریات دین اسلام میں سے ہے ۔ کسی اسلامی مملکت میں یہ فر قہ جزیہ ادا کر کے بطور ذمی بھی سکونت نہیں کر سکتا کیو نکہ ان میں سے جو لوگ مسلمان تھے اور پھر قادیانی ہو گئے وہ مرتد ہیں ۔ مرتد ذمی نہیں بن سکتا ۔ اسی طرح یہ لوگ مرتد ہو نے کے علاوہ زندیق بھی ہیں لہذا ان میں جو اشخاص قادیانیت کے مبلغ و داعی ہوں ان کی توبہ قضاء مقبول نہیں ہے اور وہ زندقہ کی وجہ سے واجب القتل ہیں (مگریہ اسلامی حکومت وقت پر فرض ہے کہ شرعی سزا نافذ کر کے ان کے قتل کا حکم دے ، عوام کو اس کا اختیار نہیں) ۔ جیسا کہ اباحیہ و روافض و قرامطہ و زنادقہ فلاسفہ کی تو بہ مقبول نہیں اور وہ واجب القتل ہیں ۔ اس سے بڑھ کر اور زندقہ کیا ہو گا کہ وہ اسلام کے اندر ہمارے نبی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد کسی کی نبوت کے قائل ہیں ۔ اور جو قادیانی پیدائشی قادیانی ہوں یعنی قادیانی خاندان میں پیدا ہوئے اور پھر اسی عقیدہ پر قائم رہتے ہوئے بڑے ہو گئے وہ بھی کسی اسلامی مملکت میں ازروئے شریعت اسلامیہ سکونت و اقامت کے مجاز نہیں ہو سکتے ۔ اور وہ جزیہ ادا کر کے ذمی بھی نہیں بن سکتے بلکہ وہ زندیق ہیں ۔ اگر وہ قادیانیت کے داعی و مبلغ ہوں تو ان کی تو بہ قضاء مقبول نہیں ہو سکتی اور اگر داعی و مبلغ نہ ہوں تو ان کی تو بہ قبول ہو سکتی ہے ۔

قادیانیوں سے تعلق اور میل جول رکھنا کیسا ؟ : ⏬

قادیانی باِجماع امت کافر اور زندیق ہیں ان سے تعلقات اور میل جول رکھنا جائز نہیں ، اسی طرح ان سے خندہ پیشانی سے پیش آنا ، مصافحہ کرنا ، ملنا جلنا ، اور ان کے ساتھ کھانا پینا ناجائز اور ممنوع ہے ، قال اللہ تعالی: وَلَا تَرْکَنُوْا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ الآیة، وفي الجلالین : ولا ترکنوا تمیلوا إلی الذین ظلموا بموادة أو مداہنة أو رضي بأعمالہم فتمسّکم تصبکم النار ۔ (تفسیر جلالین جلد ۱ صفحہ ۱۸۹،چشتی)(تفسیر الکشّاف: والنہي تناول للانحطاط في ہواہم والانقطاع إلیہم ومصاحبتہم ومجالستہم وزیارتہم ومداہنتہم والرضی بأعمالہم والتشبہ لہم والتزي بزیہم ومدّ العین إلی زہرتہم وذکرہم بما فیہ تعظیم لہم ۔ کشاف جلد ۲ صفحہ ۹۵)

قادیانی چونکہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں جس سے بسا اوقات ان کے کفریہ عقائد مخفی رہ جاتے ہیں اور ساتھ رہنے والا ان کو حق پر سمجھنے لگتا ہے جس سے اس کے عقائد کے خراب ہوجانے کا قوی اندیشہ رہتا ہے ، اس لیے ان سے زندگی کے ہرمعاملات میں تعلق قائم کرنے سے احتراز ضروری ہے ۔ (گو غیرمسلموں سے دنیاوی معاملات کرنے میں کوئی حرج نہیں) مگر ان کا معاملہ غیرمسلموں سے بھی سخت ہے ۔

یاد رکھیے کہ یوں تو "کفر" کی بہت سی قسمیں ہیں مگر کفر کی یہ قسمیں بالکل ظاہر ہیں ۔

مطلق کافر : وہ کافر ہے جو ظاہر و باطن سے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا منکر ہو یا اعلانیہ کفر کا مرتکب ہو۔ اس قسم کے کافر کو مُطلق (کھلا) کافر کہتے ہیں ۔ اس میں یہودی ، عیسائی ، ہندو وغیرہ سب داخل ہیں ۔ مشرکین مکہ بھی داخل تھے اور واضح کافر تھے ۔

مرتد : وہ کافر ہوتا ہے جو اسلام کو ترک کر کے کوئی اور مذہب اختیار کر لے ۔

منافق : وہ کافر ہے جو زبان سے ''لا الہ الا اللہ'' کہتا ہے مگر دل کے اندر کفر چھپاتا ہے ۔

زندیق : ان منافقوں سے بڑھ کر اس قسم والوں کا "کفر" ہے کہ یہ کافر تو ہیں مگر اپنے " کفر" کو "اسلام" کہتے ہیں ۔ اور اسلام کو "کفر"۔

یہ قادیانی ہیں جو نہ صرف اپنے "خالص کفر کو اسلام کے نام سے" پیش کرتے ہیں بلکہ قرآن کریم کی آیات ، احادیث طیبہ، صحابہ کے ارشادات اور بزرگانِ دین کے اقوال سے توڑ موڑ کر "اپنے کفر کو اسلام ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں"۔ ایسے لوگوں کو شریعت کی اصطلاح میں ''زندیق'' کہا جاتا ہے ۔

تو تمام قادیانی "زندیق" ہیں ۔ قادیانیوں کی سو نسلیں بھی بدل جائیں تو ان کا حکم زندیق اور مرتد کا رہے گا ۔ مطلق کافر کا حکم نہیں ہوگا کیوں ؟ اس لیے کہ ان کا  جرم "اپنے" کفریہ مذہب کو اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اسلام کو کفر کہنا" ان کی آئندہ نسلوں میں بھی پایا جاتا ہے ۔ الغرض قادیانی جتنے بھی ہیں خواہ وہ اسلام چھوڑ کر مرتد ہوئے ہوں ، یا وہ ان کے بقول ''پیدائشی قادیانی'' ہوں قادیانیوں کے گھر میں پیدا ہوئے ہوں , یا "کفر" ان کو ورثے میں ملا ہو ، ان سب کا ایک ہی حکم ہے یعنی پہلے والے مرتد اور دوسرے والے زندیق ۔

اس مسئلہ کو خوب سمجھ لیجیے ۔ بہت سے لوگوں کو تشویش ہوتی ہے کہ قادیانیوں کو دیگر کفار کی طرح کیوں نہیں سمجھا جاتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے تمام کافر اپنے "کفر" کا اعتراف کرتے ہیں اور اپنے آپ کو غیر مسلم کہتے اور مسلمانوں سے الگ قرار دیتے ہیں ، جبکہ قادیانی اپنے کفریہ عقائد پر ملمع سازی کرکے اس کو "اسلام" کہتے ہیں ۔ اور اسلام کو کفر کہتے ہیں. یوں مسلمانوں بلکہ ساری دنیا کو دھوکا دیتے ہیں ۔ لہٰذا یہ زندیق ہیں ۔ اس کی چند امثال مرزا کی کتب سے ملاحظہ کیجیے ۔

مرزا غلام احمد قادیانی اپنے متعلق لکھتا ہے : جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے ۔ (تذکرہ صفحہ نمبر 280)

کُل مسلمانوں نے مجھے قبول کر لیا اور میری دعوت کی تصدیق کر لی مگر کنجریوں اور بدکاروں کی اولاد نے مجھے نہیں مانا ۔ (آئینہ کمالات صفحہ ٥٤٧)

جو دشمن میرا مخالف ہے. وہ عیسائی ، یہودی ، مشرک اور جہنمی ہے ۔ (نزول المسیح صفحہ ٤)(تذکرہ صفحہ ٢٢٧)

میرے مخالف جنگلوں کے سؤر ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں ۔ (نجم الہدیٰ صفحہ ٥٣ مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)

جو ہماری فتح کا قائل نہ ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں ۔ (انوارالاسلام صفحہ ٣٠ مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)

جو شخص مجھ پر ایمان نہیں رکھتا وہ کافر ہے ۔ (حقیقت الوحی نمبر ١٦٣، از مرزا غلام احمد قادیانی )

اسی طرح مرزا بشیر احمد (مرزا غلام احمد قادیانی کا بیٹا).غلام احمد قادیانی کے نہ ماننے والوں کے بارے میں لکھتا ہے : کُل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے ۔ خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کا نام بھی نہیں سنا ۔ وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔ (آئینہ صداقت صفحہ نمبر ۳۵،چشتی)

مرزا بشیر احمد ایک اور کتاب میں لکھتا ہے : ہرایک ایسا شخص جو موسیٰ کو تو مانتا ہے مگر عیسیٰ کونہیں مانت, یا عیسیٰ کو مانتا ہے مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتا, اور یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کومانتا ہے پر مسیح موعود (مرزاقادیانی) کو نہیں مانتا. وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ (کلمہ الفصل صفحہ 110)

ملاحظہ کیجیے کہ مرزائی "اپنے دین کا نام اسلام اورہمارے دین کا نام کفر رکھتے ہیں ۔ اور مرزا پر ایمان نہ لانے والی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ساری امت کو "کافر" قرار دیتے ہیں ۔ یہ ہے "زندقہ" کہ اپنے خالص کفر کو اسلام کا نام دینا ، مرزا قادیانی کے دو بڑے جرم ہوئے ۔ ایک یہ کہ نبوت کا دعویٰ کر کے ایک نیا دین ایجاد کیا اور اس کا نام اسلام رکھا ۔ دوسرا جرم یہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لائے ہوئے دین کو کُفر کہا ۔ آپ بتائیے کہ کیا کسی یہودی ، عیسائی ، ہندو ، سکھ ،  پارسی یا مجوسی نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے ؟ ۔ کیا انہوں نے اپنے مذہب کو اسلام کہا ہے ؟ ۔ اب تو آپ کی سمجھ میں آگیا ہوگا کہ مرزاقادیانی اورمرزائیوں کا کفر اس قدر بدترین کیوں ہے ۔ اور یہ دنیا بھر کے کافروں سے بدتر کافر و زندیق کیوں ہیں ۔ صرف یہی نہیں بلکہ مرزائی قادیانی بد ترین گستاخان رسول بھی ہیں ۔  کیونکہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالا ہے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد ایک اور نبی گھڑ لیا ہے ۔ اس کے علاوہ مرزا نے اپنی کتب میں جابجا اللہ کے مقرب نبی مسیح (عیسیٰ بن مریم) علیہ السلام کو گندی ننگی گالیاں دی ہیں ۔ چند نمونے ملاحظہ کیجیے : ⏬

مرزا قادیانی بکتا ہے کہ : ایک دفعہ مجھے ایک دوست نے صلاح دی کہ ذیابیطس کے لئے افیون مفید ہوتی ہے پس علاج کی غرض سے مضائقہ نہیں کہ افیون شروع کر دی جائے ، میں نے جواب دیا کہ آپ نے مہربانی کی کہ ہمدردی فرمائی لیکن اگر میں ذیابیطس کے لئے افیون کھانے کی عادت کر لوں تو میں ڈرتا ہوں کہ لوگ ٹھٹھا کرکے یہ نہ کہیں کہ پہلا مسیح (عیسیٰ علیہ السلام) تو شرابی تھا اور دوسرا (مرزا قادیانی) افیونی ہوا ۔ (خزائن جلد 19 صفحات 434 تا 435،چشتی)

مزید بکتا ہے کہ : ایک دفعہ حضرت عیسیٰ زمین پر آئے تھے تو اس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ کئی کروڑ لوگ دنیا میں مشرک ہوگئے ۔ دوبارہ آکر کیا بنائیں گے کہ لوگ ان کے آنے کی خواہشمند ہیں ۔ (اخبار بدر ۔ قادیان ، مورخہ 9 مئی 1907ء جلد 6 نمبر 19 صفحہ 5)

قادیانی اور عام کافر میں فرق : ⏬

محترم قارئینِ کرام : قادیانی اور دوسرے غیر مسلموں میں فرق ہے اسی فرق کی بنا پر دوسرے غیر مسلموں کے ساتھ میل ملاپ اورضروری تعلقات کی اجازت ہے اور قادیانیوں کے ساتھ ایسے کسی تعلق کی اجازت نہیں ہے ۔

قادیانی مرتد اور زندیق ہیں ، مرتد وہ ہوتا ہے جو اسلام کو ترک کر کے کوئی اور مذہب اختیار کر لے اور زندیق وہ ہوتا ہے جو اپنے کفریہ عقائد کو اسلام کا نام دے ، لہذا یہ لوگ اسلام کے باغی ہیں ، اور جس طرح کسی ملک کاباغی کسی رو رعایت کا مستحق نہیں ہوتا بلکہ جو لوگ ان لوگوں کے ساتھ میل جول رکھیں وہ بھی قابل گرفت ہوتے ہیں ، ٹھیک اسی طرح چونکہ قادیانی بھی زندیق اور مرتد ہیں تو اسلامی تعلیمات کے رو سے کسی رو رعایت اور میل ملاپ کے مستحق نہیں ، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہود و نصاریٰ کے ساتھ تعلق رکھا اور معا ہد ہ بھی کیا، مگر مدعیان نبوت (اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب) کے ساتھ نہ صرف تعلقات کو ناجائز قرار دیا، بلکہ حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ اسود عنسی کا کام تمام کرایا اور مسیلمہ کذاب کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ٹھکانے لگایا ۔

اس لیے کہ دوسرے کافر اپنے کفر کا اعتراف کرتے ہیں اور اپنے آپ کو غیر مسلم اور مسلمانوں سے الگ قرار دیتے ہیں، جبکہ قادیانی عقائد پر ملمع سازی کرکے مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہیں اور ان ہر دوکو ایک مثال سے پیش کرتا ہوں۔سب کومسئلہ معلوم ہے کہ شریعت میں شراب ممنوع ہے ۔

شراب کا پینا ، اس کا بنانا ، اس کا بیچنا تینوں حرام ہیں اور یہ بھی معلوم ہیں کہ شریعت میں خنزیر حرام اور نجس العین ہے ۔ اس کا گوشت فروخت کرنا، لینا دینا، کھانا پیناقطعی حرام ہے۔ اب ایک آدمی وہ ہے جو شراب فروخت کرتا ہے یہ بھی مجرم ہے، اور ایک دوسرا آدمی ہے جو شراب فروخت کرتا ہے اور مزید ستم یہ کرتا ہے کہ شراب پر زمزم کا لیبل چپکاتا ہے یعنی شراب بیچتا ہے اس کو زم زم کہہ کر، مجرم دونوں ہیں لیکن ان دونوں مجرموں کے درمیان کیا فرق ہے؟ وہ آپ خوب سمجھتے ہیں ۔

اسی طرح آدمی خنزیر فروخت کرتا ہے مگر اس کو خنزیر کہہ کر فروخت کرتا ہے ۔ وہ صاف صاف کہتا ہے کہ یہ خنزیر کا گوشت ہے جس کو لینا ہے لے جائے اور جو نہیں لینا چاہتا وہ نہ لے ۔ یہ شخص بھی خنزیر بیچنے کا مجرم ہے لیکن اس کے مقابلے میں ایک اور شخص ہے جو خنزیر اور کتے کا گوشت فروخت کرتا ہے بکری کا گوشت کہہ کر۔ مجرم وہ بھی ہے اور مجرم یہ بھی ۔ دونوں مجرم ہیں لیکن ان دونوں کے جرم کی نوعیت میں زمین و آسمان کافرق ہے۔ ایک حرام کو بیچتا ہے۔ اس حرام کے نام سے ، جس کے نام سے بھی مسلمان کو گھن آتی ہے اور دوسرا اسی حرام کو بیچتا ہے ۔ حلال کے نام سے، جس سے ہر شخص کو دھوکہ ہوسکتا ہے اور وہ اس کے ہاتھ سے خنزیر کا گوشت خرید کر اوراسے حلال اور پاک سمجھ کر کھاسکتا ہے۔ پس جو فرق خنزیر کو خنزیر کہہ کر بیچنے والے کے درمیان اور خنزیر کو بکری یا دنبہ کہہ کر بیچنے والے کے درمیان ہے۔ ٹھیک وہی فرق یہودیوں، عیسائیوں، ہندوؤں، سکھوں کے درمیان اور قادیانیوں کے درمیان ہے۔ کفر ہر حال میں کفر ہے۔ اسلام کی ضد ہے لیکن دنیا کے دوسرے کافر اپنے کفرپر اسلام کا لیبل نہیں چپکاتے اور لوگوں کے سامنے اپنے کفر کو اسلام کے نام سے پیش نہیں کرتے مگر قادیانی اپنے کفر پر اسلام کا لیبل چپکاتے ہیں اور مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہیں کہ یہ اسلام ہے ۔

مِرزائیوں (قادیانیوں) کے کفر پر مُطَّلع ہوکر انہیں کافِر نہ سمجھنے والا خود کافِرمرتد ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد نمبر ۱۴صفحہ نمبر ۳۲۱،چشتی) ۔ اس میں قادیانیوں کے تمام گُروہ شامِل ہیں ۔ وہ قادِیانی بھی جو مرزا غلام احمد کو نبی مانیں اور وہ بھی جو مرزا کو مُجدِّد یا مسیح مانیں اور وہ بھی جو ان میں سے تو کچھ نہ مانیں مگر اس کو محض مسلمان مانیں بلکہ وہ بھی کافِر و مُرتَد ہیں جو اس کے عقائد کو جاننے کے باوُجُود اس کے کافِر ہونے پر شک کریں ۔

برصغیر پاک و ہند میں امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے خانوادے نے منکرین ختم نبوت اور قادیانیت کا رد کیا ۔ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے مرزا قادیانی کو صرف کافر ہی نہیں قرار دیا بلکہ اس کو مزید منافق بھی کہا ہے اور اپنے فتوؤں میں اس کو اس کے اصلی نام کے غلام قادیانی کے نام سے تعبیر کیا ہے ۔ مرتد و منافق وہ شخص ہے جو کلمہ اسلام پڑھتا ہے ۔ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے ۔ اس کے باوجود ﷲ تعالیٰ یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یا کسی نبی یا رسول کی توہین کرتا ہے‘ یا ضروریات دین سے کسی شے کا منکر ہے ۔ اس کے احکام کافر سے بھی سخت تر ہیں ۔ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے مرزا غلام قادیانی اور منکرین ختم نبوت کو رد ابطال میںمتعدد فتویٰ کے علاوہ جو مستقل رسائل تصنیف کئے ہیں‘ ان کے نام یہ ہیں ۔

(1) جزاء ﷲ عدو بآباہ ختم النبوۃ: یہ رسالہ 1317ھ میں تصنیف ہوا ۔ اس میں عقیدہ ختم نبوت پر 120 حدیثیں اور منکرین کی تکفیر پر جلیل القدر ائمہ کرام کی تیس تصریحات پیش کی گئی ہیں ۔

(2) السوء والعقاب علی المسیح الکذاب : یہ رسالہ 1320ھ میں اس سوال کے جواب میں تحریر ہوا کہ اگر ایک مسلمان مرزائی ہوجائے تو کیا اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل جائے گی ؟ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے دس وجوہات سے مرزا غلام قادیانی کا کفر ثابت کرکے احادیث کے نصوص اور دلائل شرعیہ سے ثابت کیا کہ سنی مسلمہ عورت کا نکاح باطل ہوگیا ۔ وہ اپنے کافر مرتد شوہر سے فورا علیحدہ ہوجائے ۔

(3) قہرالدیان علی فرقہ بقادیان : یہ رسالہ 1323ھ میں تصنیف ہوا ۔ اس میں جھوٹے مسیح قادیان کے شیطانی الہاموں‘ اس کی کتابوں کے کفریہ اقوال سیدنا عیسٰی علیہ الصلواۃ والسلام اور ان کی والدہ ماجدہ سیدہ مریم رضی اﷲ عنہا کی پاک و طہارت اور ان کی عظمت کو اجاگر کیا گیا ہے ۔

(4) المبین ختم النبین : یہ رسالہ 1326ھ میں اس سوال کے جواب میں تصنیف ہوا کہ ’’خاتم النبین میں لفظ النبین پر جو الف لام ہے‘ وہ مستغرق کا ہے ۔ یہ عہد خارجی کا ہے ۔ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل کثیرہ واضح سے ثابت کیا ہے کہ اس پر الف لام استغراق کا ہے اور اس کا منکر کافر ہے ۔

(5) الجزار الدیان علی المرتد القادیان : یہ رسالہ 3محرم الحرام 1340ھ کو ایک استثنیٰ کے جواب میں لکھا گیا اور اس سال 25 صفر المظفر 1340ھ کو آپ کا وصال ہوا ۔

(6) المعتقد : امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے مستند افتاء سے ہندوستان میں جو سب سے پہلا رسالہ قادیانیت کی رد میں شامل ہوا‘ وہ ان کے صاحبزادے مولانا مفتی حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے 1315ئ/1896ء الصارم الربانی علی اسراف القادیانی کی نام سے تحریر کیا تھا جس میں مسئلہ حیات عیسٰی علیہ السلام کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور غلام قادیانی کذاب کی مثیل مسیح ہونے کا زبردست رد کیا گیا ہے ۔ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے خود اس رسالے کو سراہا ہے ۔ مذکورہ بالا سطور سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ منکرین نبوت اور قادیانیوں کی رد میں امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کس قدر سرگرم‘ مستعد متحرک اور فعال تھے ۔ وہ اس فتنے کے ظہور ہوتے ہی اس کی سرکوبی کے درپے تھے ۔ اس فتنے کی رد میں امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کی مساعی جمیلہ اس قدر قابل ستائش اور قابل توجہ ہے کہ ہر موافق و مخالف نے انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے ۔ (روزنامہ جنگ ہفتہ 28جمادی الثانی 1423ھ ‘ 7دسمبر 2002) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Saturday 27 July 2024

ملعون مختار بن عبید ثقفی کا دعویٰ نبوت

ملعون مختار بن عبید ثقفی کا دعویٰ نبوت







محترم قارئینِ کرام : مختار بن عبید ثقفی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا اور حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما سے جنگ میں مارا گیا : وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : فِي ثَقِيفٍ كَذَّابٌ وَمُبِيرٌ ۔ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِصْمَةَ يُقَالُ : الْكَذَّابُ هُوَ الْمُخْتَارُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ وَالْمُبِيرُ هُوَ الْحَجَّاجُ بْنُ يُوسُفَ وَقَالَ هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ : أَحْصَوْا مَا قَتَلَ الْحَجَّاجُ صَبْرًا فَبَلَغَ مِائَةَ ألفٍ وَعشْرين ألفا ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ ۔

ترجمہ : روایت ہے حضرت ابن عمر سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے کہ ثقیف میں ایک جھوٹا ہوگا اور ایک ہلاک کرنے والا ، عبدالله ابن عصمہ نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ جھوٹا تو مختار ابن ابی عبید ہے اور ہلاک کرنے والا حجاج ابن یوسف ہے ہشام ابن حسان نے کہا کہ انہیں گنو جنہیں حجاج نے باندھ کر قتل کیا ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ہے ۔ (جامع ترمذی ، مشکوۃ المصابیح حدیث نمبر 5993)


مختار بن عبید ثقفی نے حضرت امام حسین علیہ السّلام کے قاتلین کے بارے میں بڑا شاندار کارنامہ انجام دیا لیکن آخر میں وہ دعویٔ نبوت کر کے مرتد ہو گیا ۔ (العیاذ باﷲ تعالیٰ) کہنے لگا کہ میرے پاس جبریل امین آتا ہے اور مجھ پر خدائے تعالیٰ کی طرف سے وحی لاتا ہے میں بطور نبی مبعوث ہوا ہوں ۔ مختار ثقفی ایک جلیل القدر صحابی حضرت ابوعبید ابن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ کا بیٹا تھا دعویٰ نبوت کے بعد یہ ملعون مرتد ہو گیا جس طرح یزید ملعون قاتل اہلبیت ہو کر ملعون ٹھہرا اور اسے عظیم المرتبت صحابی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا بیٹا ہونا کوئی فائدہ نہ دے سکا اسی طرح مختار ثقفی بھی ملعون و مرتد ٹھہرا جب اس نے دعویٰ نبوت کیا تو اسے جلیل القدر صحابی حضرت ابوعبید ابن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ کا بیٹا ہونا کوئی فائدہ نہ دے سکا مگر آج کل بعض سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی اس ملعون و مرتد کو اپنا رہنما مانتے ہیں ان کےلیئے وہی حکم ہے جو مرزا غلام احمد قادیانی جھوٹے نبوت کے دعوے دار کے پیروکاروں کا ہے آیئے اب ہم مختار ثقفی ملعون کے بارے میں تفصیل دلائل کے ساتھ پڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کے فتنوں سے بچائے آمین ۔


امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حضرت عبد ﷲ بن زبیر رضی ﷲ عنہما کے دور میں مختار ثقفی ملعون نے دعویٰ نبوت کیا تو آپ کو جب اس کے دعویٔ نبوت کی خبر ملی تو آپ نے اس کی سر کوبی کیلئے لشکر روانہ فرمایا جو مختار پر غالب ہوا اور ماہ رمضان67 ہجری میں یہ بد بخت ملعون و کذاب مارا گیا ۔ (تاریخ الخلفاء مترجم اردو صفحہ نمبر 215 مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی،چشتی)


امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ میزان الاعتدال میں تحت الترجمۃ مختار بن ابو عبید ثقفی لکھتے ہیں کہ یہ کذاب ہے ، ایسے شخص سے کوئی بھی روایت نقل کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ نا صرف خود گمراہ شخص تھا بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرنے والا تھا ۔ یہ کہتا تھا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام اس پر نازل ہوئے تھے ۔ ( میزان الاعتدال جلد ششم تحت الترجمہ مختار بن ابو عبید ثقفی)


تفسیر ابن ابی حاتم میں جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 1379 میں قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ : وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ کی تفسیر کے تحت امام ابن ابی حاتم سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا صحیح سند سے قول لائے ہیں : حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لابْنِ عُمَرَ: إِنَّ الْمُخْتَارَ يَزْعُمُ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ. قَالَ : صَدَقَ فَتَلا هَذِهِ الآيَةَ: وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ ۔

ترجمہ : ابو اسحاق نے کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک بندے نے کہا کہ مختار اس غلط فہمی میں ہے کہ اس پر وحی آتی ہے ، اس پر عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا مختار سچ کہہ رہا ہے اور ساتھ یہ آیت بھی پڑھی کہ شیاطین اپنے ساتھیون پر وحی کرتے ہیں ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : اِنَّ فِی ثَقِیفَ کَذَّابًا وَمُبِیرًا ۔

ترجمہ : بے شک قبیلۂ ثقیف میں ایک بڑا جھوٹا اور ایک ظالم ہو گا ۔ (صحیح مسلم)


کذاب سے مراد مختار بن ابی عبید ثقفی ہے جس نے نبوت والوہیت وغیرہ کا دعوی کیا تھا جبکہ مبیر(ظالم) سے مراد حجاج بن یوسف ہے جیساکہ اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے ۔


جامع ترمذی حدیث نمبر حدیث نمبر : 2220 باب مَا جَاءَ فِي ثَقِيفٍ كَذَّابٌ وَمُبِيرٌ

باب : قبیلہ بنو ثقیف میں ایک جھوٹا اور ایک ہلاک کرنے والا ہو گا ۔


حدثنا علي بن حجر، حدثنا الفضل بن موسى، عن شريك بن عبد الله، عن عبد الله بن عصم، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " في ثقيف كذاب ومبير "، قال ابو عيسى: يقال الكذاب: المختار بن ابي عبيد، والمبير: الحجاج بن يوسف، ۔

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ”بنو ثقیف میں ایک جھوٹا اور ہلاک کرنے والا ہو گا ۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کہا جاتا ہے کذاب اور جھوٹے سے مراد مختار بن ابی عبید ثقفی اور ہلاک کرنے والا سے مراد حجاج بن یوسف ہے ۔ (تحفة الأشراف: 7283 ، صحیح ،چشتی)


مختار بن ابوعبید بن مسعود ثقفی کی شہرت اس وقت ہوئی جب اس نے شہادتِ امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے بعد ان کے خون کا بدلہ لینے کا اعلان محض اس غرض سے کیا کہ لوگوں کو اپنی جانب مائل کر سکے ، اور امارت (حکومت) کے حصول کا راستہ آسان بنا سکے ، علم و فضل میں پہلے یہ بہت مشہور تھا ، آگے چل کر اس نے اپنی شیطنت کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ اس کے عقیدے اور دین کا بگاڑ لوگوں پر واضح ہو گیا ، یہ امارت اور دنیا کا طالب تھا ، بالآخر 67 ہجری میں حضرت مصعب بن زبیر رضی الله عنہما کے زمانے میں مارا گیا ۔ حجاج بن یوسف ثقفی اپنے ظلم ، قتل ، اور خون ریزی میں ضرب المثل ہے ، یہ عبدالملک بن مروان کا گورنر تھا ، حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی الله عنہما کا اندوہناک حادثہ اسی کے ہاتھ پیش آیا ۔ مقام واسط پر 75 ہجری میں اس کا انتقال ہوا ۔


جامع ترمذی حدیث نمبر حدیث نمبر : 3944 باب مَا جَاءَ فِي ثَقِيفٍ كَذَّابٌ وَمُبِيرٌ ۔ حدثنا علي بن حجر، اخبرنا الفضل بن موسى، عن شريك، عن عبد الله بن عصم، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " في ثقيف كذاب ومبير ۔

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ثقیف میں ایک جھوٹا اور ایک تباہی مچانے والا ظالم شخص ہو گا ۔


مشکوۃ شریف جلد پنجم ۔ قریش کے مناقب اور قبائل کے ذکر سے متعلق حدیث 593 بنوثقیف کے دو شخصوں کے بارے میں پیش گوئی : وعن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " في ثقيف كذاب ومبير " قال عبد الله بن عصمة يقال : الكذاب هو المختار بن أبي عبيد والمبير هو الحجاج بن يوسف وقال هشام بن حسان : أحصوا ما قتل الحجاج صبرا فبلغ مائة ألف وعشرين ألفا . رواه الترمذي وروى مسلم في " الصحيح " حين قتل الحجاج عبد الله بن الزبير قالت أسماء : إن رسول الله صلى الله عليه و سلم حدثنا " أن في ثقيف كذابا ومبيرا " فأما الكذاب فرأيناه وأما المبير فلا إخالك إلا إياه . وسيجيء تمام الحديث في الفصل الثالث ۔

ترجمہ : اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا " قبیلہ ثقیف میں انتہادرجہ کا جھوٹا شخص پیدا ہوگا اور ایک انتہا درجہ کا مفسد وہلاکو " حضرت عبداللہ عصمہ تابعی (اس جھوٹے شخص کے تعین کے بارے میں ) کہتے ہیں کہ علماء کا کہنا ہے " جھوٹے شخص سے مراد مختار ابن عبید اور مفسدوہلاکو" سے مراد حجاج ابن یوسف (مشہور ظالم ') ہے ۔" اور ہشام ابن حسان (جو اونچے درجہ کے فقیہہ اور علم حدیث میں زبردست ادرک ومہارت رکھنے والے ایک مشہور متقی وبزرگ ہیں اور جن کا شمار ائمہ حدیث میں ہوتا ہے) کا بیان ہے کہ حجاج ابن یوسف نے جس قدر لوگوں کو (جنگ ومعرکہ میں نہیں بلکہ) یوں ہی پکڑ پکڑ کر قید خانہ میں ڈال کر قتل کیا ہے ان کی تعداد لوگوں نے شمار کی ہے جو ایک لاکھ بیس ہزار ہے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور امام مسلم نے اپنی صحیح میں یہ روایت نقل کی ہے کہ : حجاج ابن یوسف نے حضرت عبد اللہ ابن زبیر کو شیہد کردیا تو حضرت اسماء نے ( جو حضرت عبداللہ ابن زبیر کی والدہ اور حضرت ابوبکر صدیق کی بیٹی ہیں رضی اللہ عنہم) کہا ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بیان کیا ہے کردیا تھا کہ قبیلہ ثقیف میں ایک انتہادرجہ کا جھوٹا شخص پیدا ہوگا اور ایک بڑا مفسد وہلاکو پس جہاں تک جھوٹے شخص کا تعلق ہے تو اس کو دیکھ چکے اب رہی مفسد و ہلاکو کی بات ، تو میرا خیال ہے کہ اے حجاج وہ مفسد و ہلاکو تو وہی ہے یہ پوری حدیث فصل میں آرہی ہے ۔


مختار ثقفی ایک جلیل القدر صحابی حضرت ابوعبید ابن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ کا بیٹا تھا مختار ثقفی کی ولادت ہجرت کے پہلے سال ہوئی اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت وروایت یعنی صحابیت کا شرف حاصل نہیں ہوا ، ابتدا میں یہ شخص علم وفضل اور نیکی وتقوی کے ساتھ مشہور تھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ خبث باطن کا شکار ہے اور محض دنیا سازی کے لئے علم وتقوی کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھا پہلے یہ شخص اہل بیت نبوت سے سخت بغض وعناد رکھتا تھا پھر اچانک اس میں ایسا انقلاب آیا کہ اہل بیت نبوت کی محبت کا دم بھرنے لگا اور اس بارے میں صحیح فکر وعقیدے کا حامل نظر آنے لگا اہل بیت کے تئیں اس کی یہ ظاہری محبت اتنی بڑھی کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد یزیدیوں کا کھلم کھلا دشمن ہوگیا اور ان میں سے بہت لوگوں کو اس نے خون حسین کے قصاص میں موت کے گھاٹ بھی اتارا ، غرضیکہ اس نے طلب دنیا اور حب جاہ میں بہت چولے بدلے ، اپنی نت نئی حرکتوں سے طرح طرح کے فتنے جگائے حضرت عبداللہ ابن زبیر کے خلاف عراق میں علم بغاوت بلند کیا مکروفریب اور عیاریوں کے ذریعہ جاہل اور کمزور عقیدہ لوگوں پر اپنی نام نہاد روحانی بزرگی و کر امت کا ایسا سکہ جمایا کہ اس کے حامیوں کی اور معتقدوں کی ایک بہت بڑی جماعت اس کے گرد جمع ہوگئی اس کا حلقہ اثر جوں جوں بڑھتا گیا اتنا ہی وہ عقیدہ کی خرابی رائے وخیال کی گمراہی اور نفس کی خواہشات کا شکار ہوتا گیا جھوٹ اور فریب کاری کے سہارے اس نے پوری خلافت اسلامیہ پر قبضہ کر لینے کا منصوبہ بنایا اور اپنی فتنہ انگیزیوں کے ذریعہ کوفہ پر قابض بھی ہوگیا ، نبوت کا مدعی بھی بنا اور اس بات کا دعویٰ کرنے لگا کہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس وحی لے کر آتے ہیں آخر کار حضرت مصعب ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے جو حضرت عبداللہ ابن زبیر کی طرف بصرہ کے گورنر تھے اپنی فوج لے کر کوفہ پر چڑھائی کی مختار نے بھی مقابلہ کیا مگر شکست کھا گیا اور مقتول ہوا مختار کے انہی فریب اور جھوٹ سے بھرے حالات کی بناء پر علماء نے اس کو کذابوں میں سے ایک بڑا کذاب شمار کیا ہے اور حدیث کے الفاظ یخرج من ثقیف کذاب ومبیر (قبیلہ ثقیف میں ایک انتہا درجہ کا جھوٹا اور ایک انتہادرجہ کس مفسد وہلاکو کو پیدا ہوگا ) کا مصداق ومحمول مختار اور حجاج کو قرار دیا ہے ۔


محترم قارئین : دور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اخیر میں مختار بن ابی عبید ثقفی نے دعویِ نبوت کیا تو حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اس سے جنگ کی اور اسے اور اس کے اتباع کو موت کے گھاٹ اتروا دیا ۔ (البدایۃ۸/۲۸۹)


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد ہر دور میں مدعیانِ نبوت کے ساتھ امت کا معاملہ ایسا ہی رہا ، مدعیانِ نبوت میں جن لوگوں میں بھی انہوں نے سنجیدگی محسوس کی انہیں کیفر کردار کو پہنچا دیا ۔


حضرت امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ بنی ثقیف میں مختار ابن عبید ابن مسعود ثقفی ہوا ہے جو واقعہ کربلا کے بعد شہداء کربلا کا بدلہ لینے کے بہانہ اٹھا لشکر عظیم اس کے ساتھ ہوگیا ، اس نے عبدالله ابن زیاد کو قتل کیا پھر دعویٰ نبوت کیا اور عبدالملک ابن مروان کے زمانہ میں مارا گیا اسی مختار کی قبر کوفہ میں ہے شیعہ لوگ اس قبر کا بڑا احترام کرتے ہیں مگر یہ مرا ہے مرتد ہو کر ۔ مختار کا باپ صحابی تھا، مختار ہجرت کے سال پیدا ہوا،۷۲ بہتّر میں اسے مصعب ابن عمیر نے قتل کیا سولہ مہینے حکومت کی ۔ (مرقات المفاتیح)


حجاج ابن یوسف بادشاہ عبدالملک ابن مروان کی طرف سے عراق اور خراسان کا حاکم تھا ، یہ واسط میں ہلاک ہوا شوال 75 ہجری پچھتر میں مرا عمر چون 54 سال ہوئی ۔ جن مسلمانوں کو حجاج نے قتل کیا ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ہے اور جو مسلمان معرکہ جنگ میں شہید ہوئے ان کی تعداد پچاس ہزار ہے ۔ (اشعۃ المعات شرح مشکوٰۃ) ۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ظالم ہوا ہو ۔ اللہ کی پناہ ۔


مشکوۃ المصابیح حدیث نمبر 5994 وَرَوَى مُسْلِمٌ فِي «الصَّحِيحِ» حِينَ قَتَلَ الْحَجَّاجُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ قَالَتْ أَسْمَاءَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا «أَن فِي ثَقِيف كذابا ومبيرا» فَأَما الْكذَّاب فَرَأَيْنَاهُ وَأَمَّا الْمُبِيرُ فَلَا إِخَالُكَ إِلَّا إِيَّاهُ. وَسَيَجِيءُ تَمام الحَدِيث فِي الْفَصْل الثَّالِث ۔

ترجمہ : مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کی کہ جب حجاج نے عبدالله ابن زبیر کو قتل کیا تو بی بی اسماء نے کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ہم کو خبر دی کہ ثقیف میں ایک جھوٹا ہے اور ایک ہلاک کرنے والا جھوٹے کوتو ہم نے دیکھ لیا لیکن مہلک کو تو میں تجھے نہیں خیال کرتی مگر وہ ہی ۔


حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق  حضرت زبیر کی بیوی اور عبد الله ابن زبیر کی والدہ عائشہ صدیقہ ام المؤمنین کی بہن ہیں رضی الله عنہم ۔


مسیلمہ کذاب جس نے جھوٹا دعویٰ نبوت کیا بہت لوگوں کو گمراہ کیا آخر وحشی کے ہاتھوں خلافت صدیقی میں مارا گیا تواریخ اس واقعہ سے بھری ہوئی ہیں ۔


حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس ظالم کا نام نہیں بتایا مگر تیرے کام بتا رہے ہیں کہ تو وہی ہے کہ تو نے امت رسول کو بہت ہی قتل کیا ۔


 امام الوہابیہ نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں : یزید ،حجاج اور مختار ثقفی فاسق اور منافق تھے ۔ (مجموعہ رسائل جلد سوم صفحہ نمبر 119)


 مختار ثقفی وہ انسان ہے جس کی بابت امام ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ میزان الاعتدال میں تحت الترجمۃ مختار بن ابو عبید ثقفی لکھتے ہیں کہ یہ کذاب ہے ، ایسے شخص سے کوئی بھی روایت نقل کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ نا صرف خود گمراہ شخص تھا بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرنے والا تھا ۔ یہ کہتا تھا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام اس پر نازل ہوئے تھے ۔ ( میزان الاعتدال جلد ششم تحت الترجمہ مختار بن ابو عبید ثقفی)


تفسیر ابن ابی حاتم ۔ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ : وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ کی تفسیر کے تحت امام ابن ابی حاتم سیدنا عبداللہ بن عمر رض کا صحیح سند سے قول لائے ہیں : حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لابْنِ عُمَرَ: إِنَّ الْمُخْتَارَ يَزْعُمُ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ. قَالَ: صَدَقَ فَتَلا هَذِهِ الآيَةَ: وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ ۔

ترجمہ : ابو اسحاق نے کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک بندے نے کہا کہ مختار اس غلط فہمی میں ہے کہ اس پر وحی آتی ہے ، اس پر عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا مختار سچ کہہ رہا ہے اور ساتھ یہ آیت بھی پڑھی کہ شیاطین اپنے ساتھیون پر وحی کرتے ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم میں جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 1379،چشتی)


امام زین العابدین رضی اللہ عنہ مختار بن ابی عبید ثقفی پر لعنت کیا کرتے تھے


امام ابو عبداللہ محمد بن اسحٰق بن العباس المکی الفاکہی علیہ الرحمہ ( المتوفی 272ھ) روایت کرتے ہیں : حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: ثنا أَبُو الْمُنْذِرِ إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: ثنا عِيسَى بْنُ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: إِنَّ عَلِيَّ بْنَ حُسَيْنٍ قَامَ عِنْدَ بَابِ الْكَعْبَةِ يَلْعَنُ الْمُخْتَارَ بْنَ أَبِي عُبَيْدٍ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا أَبَا الْحَسَنِ لِمَ تَسُبَّهُ وَإِنَّمَا ذُبِحَ فِيكُمْ؟ فَقَالَ: " إِنَّهُ كَذَّابٌ عَلَى اللهِ تَعَالَى وَعَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔

ترجمہ : سید نا امام محمد بن علی الباقر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا علی ابن الحسین زین العابدین رضی اللہ عنہم (ایک دن ) کعبہ کے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر مختار بن ابی عبید پر لعنت کر رہے تھے تو آپ (رضی اللہ عنہ) سے ایک مرد نے کہا : اے ابوالحسن ( امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی کنیت) آپ کیوں اس پر سب کرتے ہیں جب کہ وہ آپ لوگوں کےلیے ہی تو ذبح ( قتل) ہوا ہے ؟ تو اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بے شک وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر بہت زیادہ جھوٹ بولتا تھا ۔ (أخبار مكة في قديم الدهر وحديثه جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 232 رقم الحدیث426)(اس روایت کی سند حسن صحیح ہے)


اس روایت کی سند کی تحقیق مندرجہ ذیل ہے : اس روایت کی سند کا پہلا راوی امام عبداللہ بن محمد بن عباس المکی الفاکہی ہے جن کے بارے میں امام ذہبی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:الإِمَامُ، أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللهِ بنُ مُحَمَّدِ بنِ العَبَّاسِ المكِّيُّ، الفَاكِهِيُّ ۔ (سیر اعلام النبلاء ج16 ص 44 رقم 29)


امام ذہبی علیہ الرحمہ کے نزدیک لفظ "امام" اعلی درجہ کی توثیق میں سے ہے۔ ملاحظہ ہو ۔ (الموقظۃ للذہبی ص 76)


اس سند میں دوسرا راوی یحیی بن ابی طالب جعفر بن الزبرقان ہے جن کی توثیق مندرجہ ذیل ہے : وقال ابن أبي حاتِم: كتبتُ عَنْهُ مَعَ أبي، وسألتُ أبي عَنْهُ، فقال: محله الصدق ۔ (تاریخ بغداد ج 16 ص 323 رقم 7464)


وَقَالَ البَرْقَانِيّ: أَمرنِي الدَّارَقُطْنِيّ أَنْ أُخَرِّجَ لِيَحْيَى بنِ أَبِي طَالِبٍ فِي الصَّحِيْحِ ۔ (سیر اعلام النبلاء ج 12 ص 620 رقم 242)


وثقه الدارقطني ۔ (لسان المیزان ج 8 ص 452 رقم 8475)


قال الدارقطني : لم يطعن فيه أحد بحجة، وَلا بأس به عندي ۔ (تاریخ بغداد ج 16 ص 323 رقم 7464)


وقال مسلمة بن قاسم: ليس به بأس تكلم الناس فيه ۔ (لسان المیزان ج 8 ص 452 رقم 8475)


اس راوی پر ایک جرح ہے جس کی نوعیت بھی امام ذہبی علیہ الرحمہ نے بتا دی ہے امام ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : وقال موسى بن هارون: أشهد أنه يكذب. عني في كلامه ولم يعن في الحديث , فالله أعلم , والدارقطني فمن أخبر الناس به ۔

اور موسی بن ہارون نے کہا : میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ یہ جھوٹ بولتا ہے ، (اس کے بعد امام ذہبی کلام کرتے ہیں ) اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی گفتگو میں جھوٹ بولتا ہے ، اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ حدیث بیان کرتے وقت جھوٹ بولتا ہے ، باقی اللہ بہتر جانتا ہے ۔ اور امام دارقطنی علیہ الرحمہ تو اس کے بارے میں سب سے زیادہ واقف تھے ۔ (میزان الاعتدال ج 4 ص 387 رقم 9547،چشتی)


امام دارقطنی علیہ الرحمہ نے توثیق کر دی ہے لہذا اب توثیق ہی راجح ہے۔ واللہ اعلم ، اس کے علاوہ الکنیٰ والاسماء للدولابی (ج 2 ص 464 رقم الحدیث 835) میں اسی روایت میں اس راوی کی متابعت ثقہ راوی ابوالحسن علی بن معبد بن نوح البغدادی نے کر رکھی ہے اور حافظ دولابی حنفی بھی صدوق اور حسن الحدیث ہے ان پر جو جرحیں ہیں وہ ساری مبہم اور تعصب پر مبنی ہیں ۔ (واللہ اعلم)


اس روایت کے تیسرے راوی ابوالمنذر اسماعیل بن عمر الواسطی ہیں جو صحیح مسلم کے راوی بھی ہیں جن کے بارے میں خطیب بغدادی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : وكان ثقة ۔ (تاریخ بغداد ج 6 ص 241 رقم 3279)


امام یحیی بن معین علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : من تجار أهل واسط، ليس به بأس، وهو إسماعيل بن عمر ۔ (تاریخ بغداد ج 6 ص 241 رقم 3279)


اس روایت کی سند میں چوتھے راوی عیسیٰ بن دینار الخزاعی ہے جس کی توثیق مندرجہ ذیل ہے :


امام یحیی بن معین علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ليس به بأس ۔ (سوالات ابن الجنید ص 427 رقم 640)


عيسى بن دينار ثقة (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج 6 ص 275 رقم 1527)


امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں : عِيسَى بْن دِينَار لَيْسَ بِهِ بَأْس (العلل و معرفۃ الرجال ج 2 ص 339 رقم 2508)


امام ابوحاتم الرازی فرماتے ہیں : عيسى بن دينار فقال صدوق عزيز الحديث (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج 6 ص 275 رقم 1527)


اس روایت میں پانچویں راوی امام محمد بن علی بن الحسین الباقر علیہ الرحمہ ہیں ویسے یہ بزرگ ہستی توثیق کی محتاج نہیں پھر بھی امام ذہبی سے آپ کی ادنیٰ سی توثیق پیش کر دیتا ہوں ۔


امام ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : هُوَ السَّيِّدُ، الإِمَامُ، أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بنُ عَلِيِّ بنِ الحُسَيْنِ بنِ عَلِيٍّ العَلَوِيُّ، الفَاطِمِيُّ، المَدَنِيُّ، وَلَدُ زَيْنِ العَابِدِيْنَ ۔ (سیر اعلام النبلاء ج 4 ص 401 رقم 158)


امام دارقطنی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : وَأَبُو جَعْفَرٍ وَإِنْ كَانَ مِنَ الثِّقَاتِ ۔ (سنن الدارقطنی ج 5 ص 243 رقم الحدیث 4260)


اس روایت کی سند میں سب سے آخری راوی اور بزرگ ہستی حضرت امام علی بن الحسین بن علی زین العابدین علیہ الرحمہ کی ہے ویسے یہ بزرگ ہستی بھی توثیق کی محتاج نہیں پھر بھی ادنی سی توثیق پیش کر دیتا ہوں ۔


امام ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : وَكَانَ عَلِيُّ بنُ الحُسَيْنِ ثِقَةً، مَأْمُوْناً، كَثِيْرَ الحَدِيْثِ، عَالِياً، رَفِيْعاً، وَرِعاً ۔ (سیر اعلام النبلاء ج 4 ص 387 رقم 157،چشتی)


رواۃ کی تحقیق سے واضح ہو گیا کہ اس روایت کی سند حسن صحیح ہے ۔


محترم قارئینِ کرام : یہ شخص یعنی مختار بن عبید ثقفی شیعوں کے ملحد فرقے کیسانیہ کا بانی تھا جن کا ماننا تھا کہ امام معصوم اور گناہوں سے پاک ہوتا ہے ۔ یہ فرقے کے لوگ برخلاف اثنا عشریہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے بعد جناب محمد بن علی الحنفیہ رضی اللہ عنہ کو امام معصوم مانتے تھے اور ان کے متعلق رجعت کا عقیدہ رکھتے تھے ۔ اس کے علاوہ اس فرقے کے بنیادی عقائد میں بداء کا عقیدہ بھی شامل ہے یعنی اللہ جھوٹ بھی بول سکتا ہے اور نئے حالات کے پیش نظر قضائے الہٰی بدلتی رہتی ہے ۔ علامہ شہرستانی لکھتے ہیں کہ مختار ثقفی نے بداء کا عقیدہ اس لیے اختیار کیا تھا کہ وہ خود پر نازل ہونے والی وحی کے زیر اثر یا امام کے پیغام کی وجہ سے اپنے متبعین کے سامنے ہونے والے واقعات کا دعویٰ کرتا ہے اور اگر وہ واقعات اسی طور سے ظہور پذیر ہو جاتے ہیں تو وہ انہیں اپنے دعویٰ کی دلیل قرار دیتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو کہتا تھا کہ اللہ نے اپنا ارادہ بدل لیا ۔ (المحلل و النحل)


اس کے علاوہ مختار تناسخ ارواح کا بھی قائل تھا اور کہتا تھا کہ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی روح جناب محمد بن علی الحنفیہ رضی اللہ عنہما میں حلول کر گئی ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت سیدنا امامِ حسن کی ازواج و اولاد رضی اللہ عنہم اور شہادت

حضرت سیدنا امامِ حسن کی ازواج و اولاد رضی اللہ عنہم اور شہادت

محترم قارئینِ کرام : سردارِ امّت ، حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ کی ولادتِ باسعادت  15 رمضان المبارک 3 ہجری  کو مدینہ طیبہ میں ہوئی ۔ (البدايۃوالنہایہ جلد 5 صفحہ 519)


حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے ، حضرت سیدتنا فاطمہ اور حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنھہما کے بیٹے ، حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ چوتھے خلیفہ و امام ہیں جنہوں نے اپنے وقت میں امامت کا حق ادا کیا اور اُس کے بعد حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ و امام بنے مگر انہوں نے خلافت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سُپرد کی ۔ اس کے علاوہ حضرات امامِ حُسین ، امامِ زین العابدین ، امامِ باقر ، امامِ جعفر صادق ، امامِ موسی کاظم ، امامِ علی رضا ، امامِ محمد تقی ، امامِ علی نقی ، امامِ حسن عسکری رضی اللہ عنہم حکمرانی کرنے والے خلیفہ یا امام نہیں بنے ۔ حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ نے ایک سے زیادہ نکاح کیے ۔ مختلف اوقات میں آپ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں رہنے والی ازواج کی کل تعداد دس کے قریب ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی زوجات میں خولہ بنت منظور ، ام بشر بنت ابی مسعود ، ام اسحاق بنت طلحہ اور جعدہ بنت اشعث مشہور ہیں ۔ آپ کے آٹھ بیٹے امام حسن مثنیٰ ، امام زید ، امام عمرو ، امام قاسم ، امام ابوبکر ، امام عبدالرحمن ، امام حسین اور امام طلحہ ہیں ۔ آپ کی نسل دو بیٹوں سے چلی ہے جن میں امام حسن مثنیٰ اور امام زید بن حسن شامل ہیں ۔ آپ کی پانچ صاحبزادیاں حضرت سیدہ فاطمہ ، حضرت سیدہ رقیہ ، حضرت سیدہ ام سلمی ، حضرت سیدہ ام عبداللہ اور حضرت سیدہ ام الخیر ہیں ۔ رضی اللہ عنہم اجمعین ۔


تاریخ میں حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ سے انتہائی غلط طور پر کثرتِ ازواج منسوب کی جاتی ہے اور بدطینت دشمنانِ اہلِ بیت نے کبھی آپ رضی اللہ عنہ سے 70 کبھی 100 کبھی 150 یا 300 ازواج منسوب کی ہیں حالانکہ یہ بالکل ناممکن بات ہے ۔ اوّل تو اتنی ازواج کی موجودگی میں اولاد کی تعداد صرف 17 ہونا ممکن نہیں ۔ دوسرے اتنی ازواج کےلیے کثرت سے طلاق جیسا مکروہ فعل بار بار دہرانے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک وقت میں چار سے زائد ازواج جائز نہیں ۔ آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسے افعال کو منسوب کرنے کا خیال بھی مکروہ معلوم ہوتا ہے ۔ یہ وہ پاکیزہ ہستی ہیں جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے باغ کے پھول اور جنت کے نوجوانوں کے سردار قرار دیا ہے ۔ اگر ہم ان جیسے اعمال کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تو کم از کم ان کے متعلق بدگمانیاں دلوں میں پال کر دلوں کو مزید غلاظت میں مبتلا تو نہ کریں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوبین کی صرف محبت و عقیدت ہی قلوب کو تقویت بخشتی ہے اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا باعث ہوتی ہے ۔


حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ کی زوجہ اور اولاد کے نام یہ ملتے ہیں : ⏬


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت فضل رضی اللہ عنہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد از وصال غسل دینے والوں میں شامل تھے ، اُن کی بیٹی ”ام کلثوم“ رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا ۔


خولہ بنت منظور سے نکاح ہوا جس سے حسن مثنی پیدا ہوئے ۔ خولہ پہلے حضرت طلحہ کے بیٹے محمد کے نکاح میں تھیں جو  جمل کی لڑائی میں شہید ہو گئے اس کے بعد حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا ۔


ام بشیر بنت ابی مسعود انصاری سے نکاح ہوا جس سے زید ، ام الحسن و ام الحسین پیدا ہوئے ۔


ام اسحاق بیٹی طلحہ بن عبید اللہ (عشرہ مبشرہ) سے طلحہ ، حسین (لقب اَثرَم) و فاطمہ پیدا ہوئے ۔ حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا ۔


ام ولد یا رملہ جن سے حضرت ابوبکر بن حسن پیدا ہوئے اور کربلہ میں شہید ہوئے ۔


ام فروہ سے قاسم پیدا ہوئے یہ بھی کربلہ میں شہید ہو گئے ۔


عائشہ بنت خلیفہ خثعمیہ ، جعدہ بنت اشعث ، ہند بنت سہیل بن عمرو ، ام عبداللہ بنت سلیل بن عبداللہ سے نکاح ہوا ۔ بعض دیگر ازواج سے عبداللہ ، عبدالرحمن ، ام عبداللہ ، ام سلمہ و رقیہ پیدا ہوئے ۔ رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ 


امام ابن جوزی ، ابن ہشام اور واقدی علیہم الرحمہ کے نزدیک حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد کی تعداد میں 15 بیٹے اور 8 بیٹیاں ہیں ۔ کربلہ میں حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ کے تین بیٹے حضرت قاسم ، ابوبکر اور عبداللہ شہید ہوئے ۔ حضرت حسن مثنی کا نکاح حضرت سیدنا امامِ حُسین رضی اللہ عنہ کی بیٹی فاطمہ سے ہوا جن سے عبداللہ ، ابراہیم ، حسن و زینب رضی اللہ عنہم پید ا ہوئے ۔ حسنی سادات کہلانے والے حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہیں جیسے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة اللہ علیہ ۔ اس لیے اہلتشیع ان سے بہت نفرت کرتے ہیں کیونکہ وہ اہلسنت ہیں ۔ دوسری نسل حضرت زید بن حسن سے زیدی حسنی نسل چلی ہے مگر سیدنا امامِ حسن مثنی اور سیدنا امامِ زید بن حسن رضی اللہ عنہم اہلتشیع کے نزدیک امام شمار نہیں کیے جاتے ۔ یا للعجب ۔


شہادت حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ اور زہر کس نے دیا


محترم قارئینِ کرام : حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت عظمی پانچ (5) ربیع الاول 50 ہجری اور ایک روایت کے مطابق 49 ہجری  ، مدینہ منورہ میں ہوئی ، آپ کو زہر دے کر شہید کیا گيا ، آپ کا مزار مقدس جنت البقیع شریف میں ہے ۔ توفي رضي الله عنه بالمدينة مسموماً ۔ وكانت وفاته سنة تسع وأربعين وقيل في خامس ربيع الأول سنة خمسين ۔ (تاریخ الخلفاء جلد 1 صفحہ 78)


کسی کے زہر کھلا دینے کی وجہ سے حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ نے 5 ربیع الاول 49 ہجری کو مدینۂ منورہ میں شہادت کا جام نوش فرمایا ۔ ایک قول50 ہجری کا بھی ہے ۔ (المنتظم جلد 5 صفحہ226)(صفۃ الصفوة جلد 1 صفحہ 386)


صدرالافاضل حضرت علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ نے پانچویں ربیع الاول 49 ھجری کو اس دارنا پائیدار سے مدینہ طیبہ میں رحلت فرمائی ۔ (سوانح کربلا بحوالہ تاریخ الخلفاء باب الحسن بن علی بن ابی طالب صفحہ 152)


فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی محمد جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پینتالیس 45 سال چھ ماہ چند روز کی عمر شریف میں بمقام مدینہ طیبہ 5 ربیع الاول شریف 49 ھجری میں آپ نے وفات پائی اور جنت البقیع میں حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پہلو میں مدفون ہوۓ ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون ۔ (خطبات محرم صفحہ 278)


بعض نے 28 صفر لکھی لیکن صحیح تاریخ شہادت 5 ربیع الاول ہی ہے ۔


نمازِ جنازہ حضرت سعید بن عاص رضی اللہ عنہ نے پڑھائی ۔ جنت البقیع میں اپنی والدہ رضی اللہ عنہا کے پہلو میں مدفون ہوئے ۔


حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے بوقت وصال امام حسین رضی اللہ عنہ کے اصرار کے باوجود زہر دینے والے کا نام نہیں بتایا حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : جب آپ کو زہر دیا گیا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ آپ کے پاس تشریف لائے اور آپ کے پاس بیٹھ کر پوچھنے لگے اے بھائی آپ کے ساتھ یہ کام کس نے کیا ہے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم اس کو قتل کرنا چاہتے ہو امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں آپ نے فرمایا اگر میرے ساتھ کام کرنے والا وہی ہے جو میرے خیال میں ہے تو اللہ اس کو سخت سزا دے گا اگر وہ نہیں ہے تو میں نا پسند کرتا ہوں تو میرے بدلے میں ایک بے گناہ کو قتل کرے ۔ (تاریخ ابن کثیر جلد 8 صفحہ 62،چشتی)


مزید اسی روایت میں ہے : میرے بھائی اس کو چھوڑ دو حتی کہ میں اور وہ اللہ سے ملاقات کریں آپ نے اس کا نام بتانے سے انکار کر دیا ۔ (تاریخ ابن کثیر جلد 8 صفحہ 62)


صاحب ناسخ التواریخ شیعہ نے لکھا ہے : حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے جب حضرے امام حسین رضی اللہ عنہ نے زہر دینے والے کا نام پوچھا تو آپ نے منع کردیا ۔ (ناسخ التواریخ جلد 2 ص 146) ۔ ابن اشہر اشوب شیعہ نے بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے ۔ (مناقب آل ابی طالب جلد 4 صفحہ 42 بحوالہ تحفہ جعفریہ جلد 5 صفحہ 217)


ان حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ حضرت امام حسن پاک رضی اللہ عنہ کو زہر حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے دیا بالکل بے بنیاد ہے بلکہ حضرت امام حسن پاک رضی اللہ عنہ نے نام بتانے سے صاف انکار کردیا نہ جانے رافضیوں اور نیم رافضیوں کو کس نے بتادیا ؟


حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سالانہ وظیفہ مقرر کیا تھا اور نہایت اکرام کرتے تھے اس کے باوجود یہ کہنا کہ آپ نے زہر دیا انتہائی بغض اور صریح الزام تراشی ہے ۔ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دینا عقل بھی تسلیم نہیں کرتی ہے کیونکہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے آپ کو خلافت بھی سونپ دی تھی اگر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے زہر دینا تھا تو امام حسین رضی اللہ عنہ کو دیتے کہ وہ ذی جلال اور حق کے سامنے ڈٹ جانے والے تھے جبکہ امام حسن رضی اللہ عنہ درگذر فرمانے کی طبیعت کے مالک تھے ۔


حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف زہر دینے کی نسبت کرنے والی روایتوں کو محدثین علیہم الرحمہ نے باطل قرار دیا چنانچہ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : میرے نزدیک زہر دینے کی نسبت یزید کی طرف صحیح نہیں اور ان کے والد حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف نسبت کی صحت تو بالکل درست نہیں ہے ۔ (تاریخ ابن کثیر جلد 8 صفحہ 62)


علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں : حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے امام حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دیا یہ من گھڑت اور شیعہ کی گھڑی ہوئی بات ہے اللہ پناہ دے سیدنا امیر معاویہ اس سے بری ہیں ۔ (تاریخ ابن خلدون جلد 2 صفحہ 182،چشتی)


ان تمام حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کو زہر حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے دیا جھوٹ ہے جس پر اہلسنت و جماعت اور رافضیوں کی کتب گواہ ہیں ۔ حتٰی کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کو بھی معلوم نہ ہو سکا کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو کس نے قتل کیا ہے ، تو کس طرح دوسروں کو معلوم ہو گیا کہ امام حسن رضی اللہ عنہ کو  نعوذ باللہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قتل کیا ہے ؟


قال بن سعد أخبرنا إسماعيل بن إبراهيم أخبرنا بن عون عن عمير بن إسحاق دخلت أنا وصاحب لي على الحسن بن علي فقال لقد لفظت طائفة من كبدي وإني قد سقيت السم مرارا فلم أسق مثل هذا فأتاه الحسين بن علي فسأله من سقاك فأبى أن يخبره رحمه الله تعالى ۔

ترجمہ : عمیر بن اسحق کہتے تھے کہ میں اور میرے ایک ساتھی حسن رضی اللہ عنہ کے پاس گئے انہوں نے کہا کہ میرے جگر کے کچھ ٹکڑے گرچکے ہیں اورمجھے کئی مرتبہ زہر پلایا گیا ؛ لیکن اس مرتبہ کہ ایسا قاتل کبھی نہ تھا اس کے بعد حسین رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور پوچھا کس نے پلایا، لیکن انہوں نے بتانے سے انکار کیا ۔ (الإصابة في تمييز الصحابة جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۷۳،چشتی)


عمیر بن اسحاق کہتے ہیں : دخلت أنا ورجل علی الحسن بن علی نعودہ ، فجعل یقول لذلک الرجل: سلنی قبل أن لا تسألنی ، قال: ما أرید أن أسألک شیئا ، یعافیک اللّٰہ ، قال: فقام فدخل الکنیف ، ثمّ خرج إلینا ، ثمّ قال: ما خرجت إلیکم حتی لفظت طائفۃ من کبدی أقلبہا بہذا العود ، ولقد سقیت السمّ مرارا ، ما شیء أشدّ من ہذہ المرّۃ ، قال: فغدونا علیہ من الغد ، فإذا ہو فی السوق ، قـال : وجاء الحسین فجلس عند رأسہ ، فقال: یا أخی ، من صاحبک ؟ قال : ترید قتلہ ؟ قال: نعم ، قال: لئن کان الذی أظنّ ، للّٰہ أشدّ نقمۃ ، وإن کان بریئا فما أحبّ أن یقتل برئی ۔

ترجمہ : میں اور ایک آدمی سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما پرعیادت کے لیے داخل ہوئے ۔ آپ رضی اللہ عنہما اس آدمی سے کہنے لگے : مجھ سے سوال نہ کر سکنے سے پہلے سوال کرلیں ۔ اس آدمی نے عرض کیا: میں آپ سے کوئی سوال نہیں کرنا چاہتا ۔ اللہ تعالیٰ آپ کوعافیت دے ۔ آپ رضی اللہ عنہماکھڑے ہوئے اور بیت الخلاء گئے ۔ پھر نکل کر ہمارے پاس آئے ، پھرفرمایا : میں نے تمہارے پاس آنے سے پہلے اپنے جگر کا ایک ٹکڑا (پاخانے کے ذریعہ) پھینک دیاہے۔ میں اس کو اس لکڑی کے ساتھ الٹ پلٹ کر رہا تھا ۔ میں نے کئی بار زہر پیا ہے ، لیکن اس دفعہ سے سخت کبھی نہیں تھا ۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم ان کے پاس اگلے دن آئے تو آپ رضی اللہ عنہماحالت ِ نزع میں تھے ۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے اور آپ کے سر مبارک کے پاس بیٹھ گئے اورکہا : اے بھائی!آپ کو زہر دینے والا کون ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہمانے فرمایا : کیا آپ اسے قتل کرنا چاہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ! فرمایا : اگر وہ شخص وہی ہے جو میں سمجھتا ہوں تو اللہ تعالیٰ انتقام لینے میں زیادہ سخت ہے ۔ اوراگر وہ بری ہے تو میں ایک بری آدمی کوقتل نہیں کرنا چاہتا ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ جلد ۱۵ صفحہ ۹۳،۹۴)(کتاب المحتضرین لابن ابی الدنیا صفحہ ۱۳۲)(المستدرک للحاکم جلد ۳ صفحہ ۱۷۶،چشتی)(الاستیعاب لابن عبد البر جلد ۳ صفحہ ۱۱۵)(تاریخ ابن عساکر جلد ۱۳ صفحہ ۲۸۲، وسندہٗ حسنٌ)


اسی طرح اہل تشیع کی مشہور کتاب بحار الانوار میں علامہ مجلسی نے مروج الذہب للمسعودی الشیعی سے مندرجہ زیل روایت نقل کی ہے : عن جعفر بن محمد، عن أبيه، عن جده علي بن الحسين عليهم السلام قال: دخل الحسين على عمي الحسن حدثان ما سقي السم فقام لحاجة الانسان ثم رجع فقال: سقيت السم عدة مرات، وما سقيت مثل هذه، لقد لفظت طائفة من كبدي ورأيتني أقلبه بعود في يدي، فقال له الحسين عليه السلام: يا أخي ومن سقاك؟ قال: وما تريد بذلك؟ فإن كان الذي أظنه فالله حسيبه، وإن كان غيره فما أحب أن يؤخذ بي برئ، فلم يلبث بعد ذلك إلا ثلاثا حتى توفي صلوات الله عليه ۔

ترجمہ : علی بن حسین بن علی بن ابی طالب (زین العابدین) رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ حسین میرے چچا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے پاس ان کے زہر پلانے کے وقت گئے تو حسن رضی اللہ عنہ قضائے حاجت کے لئے گئے وہاں سے لوٹ کر کہا کہ مجھے کئی مرتبہ زہر پلایا گیا ، لیکن اس مرتبہ کے ایسا کبھی نہ تھا اس میں میرے جگر کے ٹکڑے باہر آگئے تم مجھے دیکھتے کہ میں ان کو اپنے ہاتھ کی لکڑی سے الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا ، حسین رضی اللہ عنہ نے پوچھا بھائی صاحب کس نے پلایا ؟ حسن رضی اللہ عنہ نے کہا، اس سوال سے تمہارا کیا مقصد ہے ، اگر زہر دینے والا وہی شخص ہے جس کے متعلق میرا گمان ہے تو خدا اس کے لئے کافی ہے اور اگر دوسرا ہے تو میں یہ نہیں پسند کرتا کہ میری وجہ  سے کوئی ناکردہ گناہ پکڑا جائے ، اس کے بعد حسن رضی اللہ عنہ زیادہ نہ ٹھہرے اور تین دن کے بعد انتقال کر گئے ۔ (بحار الأنوار مجلسی شیعہ جلد ٤٤ صفحة ١٤٨)


پس معلوم ہوا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر لگایا جانے والا یہ الزام کوئی بنیاد نہیں رکھتا ، یہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دشمنوں کا اپنا ایجادکردہ الزام ہے ۔


علامہ ابن خلدون رحمۃ اللہ علیہ اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں : وما ينقل من ان معاوية دس إليه السم مع زوجه جعدة بنت الاشعث فهو من أحاديث الشيعة وحاشا لمعاوية من ذلك ۔

ترجمہ : اوریہ روایت کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان (امام حسن رضی اللہ عنہ) کی بیوی سے مل کر زہر دلایا شیعوں کی بنائی ہوئی ہے حاشا معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذات سے اس  کاکوئی تعلق نہیں ۔ (تاریخ ابن خلدون جلد ۲ صفحہ ١۸۷،چشتی)


علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : وأما قوله : إن معاوية سم الحسن ، فهذا  مما ذكره بعض الناس ، ولم يثبت ذلك ببينة شرعية ، أو إقرار معتبر ، ولا نقل يجزم به ، وهذا مما لا يمكن العلم به ، فالقول به قول بلا علم ۔

ترجمہ : بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ حسن کو معاویہ رضی اللہ عنہ نے زہر دیا تھا کہ کسی شرعی دلیل اور معتبر اقرار سے ثابت نہیں ہے اورنہ کوئی قابل وثوق روایت سے اس کی شہادت ملتی ہے اوریہ واقعہ ان واقعوں میں ہے جس کی تہ تک نہیں پہنچا جا سکتا اس لیے اس کے متعلق کچھ کہنا بے علم کی بات کہنا ہے ۔ (منہاج السنہ جلد ۴ صفحہ ۴٦۹)


علامہ حافظ ابن کثیر اس کے متعلق لکھتے ہیں : وعندي أن هذا ليس بصحيح ، وعدم صحته عن أبيه معاوية بطريق الأولى ۔

ترجمہ : میرے نزدیک تو یہ بات بھی صحیح نہیں کہ یزید نے سیدنا امام حسن کو زہر دے کر شہید کر دیا ہے۔ اور  اس کے والد ماجد سیدنا امیر معاویہ کے متعلق یہ گمان کرنا بطریق اولٰی غلط ہے ۔ (البدایہ والنہایہ جلد ۸ صفحہ ۴۳)


امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تاریخ میں فرماتے ہیں : قلت : هذا شيء لا يصح فمن الذي اطلع عليه ۔ ترجمہ : میں کہتا ہوں کہ یہ بات صحیح نہیں ہے، اور اس پر کون مطلع ہو سکا ہے ۔ (تاریخ اسلام صفحہ ۴۰،چشتی)


حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی تایخ وصال میں مور خین کا اختلاف ہے،ایک قول یہ ہے کہ سن 49/ہجری میں آپ کا وصال ہوا ۔اور ایک قول یہ ہے کہ سن ۵۰/ہجری میں ہوا،اور سن ۵۱/ہجری کا بھی قول کیا گیا ہے۔لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔آپ کی وفات کاسبب یہ ہوا کہ دشمنوں کی سازش سے آپ کو زہر پلا دیا گیا ،جس کی وجہ سے آپ چالیس دن تک بیمار رہے پھر آپ کا وصال ہو گیا۔ جب بیماری زیادہ بڑھی  تو آپ نے اپنے چھوٹے بھائی سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے فر مایا کہ:مجھے تین بار زہر دیا گیا لیکن اس بار سب سے زیادہ شدید زہر تھا جس سے میرا جگر کٹ رہا ہے ۔سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے پو چھا کہ آپ کو کس نے زہر دیا ہے؟تو آپ نے فر مایا:یہ سوال کیوں پوچھتے ہو؟کیا تم ان سے جنگ کروگے۔میں ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں ۔


کچھ لوگوں سے یہاں پر سخت غلطی واقع ہو ئی ، وہ کہتے ہیں کہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ  کی بیوی “جعدہ بنت الاشعث” کو دشمنوں نے بہلا پھسلا کر اپنی سازش کا حصہ بنا لیا اور وہ دشمنوں کے جھانسے میں آکر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو دھوکے میں زہر پلادی ۔ یہ بات بالکل جھوٹ اور افترائے محض ہے ۔ کیو نکہ تمام مور خین نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ جب حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ سے زہر پلانے والے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کسی کا نام نہ بتایا اور صرف اتنا کہا کہ:میں ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں ۔ تو جب انہوں نےنام نہیں بتایا یہاں تک کہ کسی کے بارے میں اپنی شک کا اظہار بھی نہ فر مایا۔جس کی وجہ سے اس وقت کسی سے قصاص نہ لیا جا سکا تو پھر دوسروں کو کیسے اس کا علم ہوا؟اس لئے  ایک ایسے مقدس امام  جن سے اپنا رشتہ جوڑنے پر اس زمانے کی عورتیں ہر دکھ گوارا کرنے کو تیار رہتی تھی ، پھر جنہیں نوجوانا ن جنت کی سردار کی بیوی بننے کا شرف حاصل ہوا ۔ ان  کے بارے میں ایسا خیال ر کھنا اپنی تباہی اور بر بادی کو دعوت دینا ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو صراط مستقیم پر قائم رکھے اور اپنے ان نیک بندوں کے صدقے دارین کی سر خروئی نصیب فر مائے ۔


خلیفہ اعلیٰ حضرت صدر الافاضل حضرت علامہ سیّد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ سوانح کربلا میں فرماتے ہیں : مؤرخین نے زہر خورانی کی نسبت جعدہ بنت اشعث ابن قیس کی طرف کی ہے اور اس کو حضرت امام کی زوجہ بتایا ہے اوریہ بھی کہا ہے کہ یہ زہر خورانی باغوائے یزید ہوئی ہے اور یزید نے اس سے نکاح کا وعدہ کیا تھا ۔ اس طمع میں آکر اس نے حضرت امام کو زہر دیا ۔ (تاریخ الخلفاء باب الحسن بن علی بن ابی طالب صفحہ ۱۵۲) ۔ لیکن اس روایت کی کوئی سندِ صحیح دستیاب نہیں ہوئی اور بغیر کسی سندِ صحیح کے کسی مسلمان پر قتل کا الزام اور ایسے عظیم الشان قتل کا الزام کس طرح جائز ہو سکتا ہے ۔


قطع نظر اس بات کے کہ روایت کےلیے کوئی سند نہیں ہے اور مؤرخین نے بغیر کسی معتبرذریعہ یا معتمدحوالہ کے لکھ دیا ہے ۔ یہ خبر واقعات کے لحاظ سے بھی ناقابل اطمینان معلوم ہوتی ہے ۔ واقعات کی تحقیق خود واقعات کے زمانہ میں جیسی ہو سکتی ہے مشکل ہے کہ بعد کو ویسی تحقیق ہو خاص کر جب کہ واقعہ اتنا اہم ہو مگر حیرت ہے کہ اَہل بیتِ اَطہار کے اس امامِ جلیل کا قتل اس قاتل کی خبر غیر کو تو کیا ہوتی خود حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو پتہ نہیں ہے یہی تاریخیں بتاتی ہیں کہ وہ اپنے برادر ِمعظم سے زہر دہندہ کا نام دریافت فرماتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو زہر دینے والے کا علم نہ تھا ۔ اب رہی یہ بات کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کسی کانام لیتے ۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا تو اب حضرت جعدہ رضی اللہ عنہا کو قاتل ہونے کےلیے معین کرنے والا کون ہے ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو یا امامین کے صاحبزادوں میں سے کسی صاحب کو اپنی آخر حیات تک جعدہ کی زہر خورانی کا کوئی ثبوت نہ پہنچانہ ان میں سے کسی نے اس پر شرعی مواخذہ کیا ۔ ایک اور پہلو اس واقعہ کاخاص طور پر قابلِ لحاظ ہے وہ یہ کہ حضرت امام رضی اللہ عنہ کی بیوی کو غیر کے ساتھ ساز باز کرنے کی شنیع تہمت کے ساتھ متہم کیا جاتا ہے یہ ایک بدترین تبرا ہے ۔ عجب نہیں کہ ا س حکایت کی بنیاد خارجیوں کی افتراءات ہوں جب کہ صحیح اور معتبر ذرائع سے یہ معلوم ہے کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کثیر التزوج تھے اور آپ نے سو (یہ بات درست نہیں ہے چشتی غفرلہ) کے قریب نکاح کیے اور طلاقیں دیں ۔ اکثر ایک دو شب ہی کے بعد طلاق دے دیتے تھے اور حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم باربار اعلان فرماتے تھے کہ امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادت ہے ، یہ طلاق دے دیا کرتے ہیں ، کوئی اپنی لڑکی ان کے ساتھ نہ بیاہے ۔ مگر مسلمان بیبیاں اور ان کے والدین یہ تمنا کرتے تھے کہ کنیز ہونے کا شرف حاصل ہو جائے اسی کا اثر تھا کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن عورتوں کو طلاق دیدیتے تھے ۔ وہ اپنی باقی زندگی حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت میں شیدایانہ گزار دیتی تھیں اور ان کی حیات کا لمحہ لمحہ حضرت امام رضی اللہ عنہ کی یاد اور محبت میں گزرتا تھا ۔ (تاریخ الخلفاء باب الحسن بن علی بن ابی طالب صفحہ ۱۵۱) ۔ ایسی حالت میں یہ بات بہت بعید ہے کہ امام کی بیوی حضرت امام کے فیض صحبت کی قدر نہ کرے اور یزید پلید کی طرف ایک طمعِ فاسد سے اما م جلیل رضی اللہ عنہ کے قتل جیسے سخت جرم کا ارتکاب کرے ۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِحَقِیْقَۃِ الْحَال ۔


امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو زہر دے کر شہید کیا گیا اور مشہور ہے کہ زہر دینے والی آپ کی بیوی جعدہ بنت اشعث رضی اللہ عنہا تھی ۔ بعض علما نے بھی زہر خورانی کی نسبت جعدہ بنت اشعث رضی اللہ عنہا کی طرف کی ہے لیکن علما و محققین نے اس کو ناقابل قبول اور حقیقت کے خلاف بتایا ہے ۔ سب سے پہلے ہم ان علما میں سے چند کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے زہر دینے کی نسبت حضرت جعدہ بنت اشعث رضی اللہ عنہا کی طرف کی ہے : ⏬


شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ ۔ (سر الشھادتین صفحہ 14 ، 25)


امام جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 192)


امام ابن حجر ہیتمی رحمة اللہ علیہ  (الصواعق المحرقہ صفحہ 141) 


علامہ حسن رضا خان بریلوی رحمة اللہ علیہ ۔ (آئینۂ قیامت صفحہ 21) 


اور مفتی اعظم ہند، علامہ مصطفی رضا خان رحمة اللہ علیہ نے اسی کو درست قرار دیا ہے ۔ (فتاوی مفتی اعظم ہند جلد 5 صفحہ 306 تا 310)


اب ان علما کے اقوال پیش کیے جاتے ہیں جن کا موقف اس کے خلاف ہے : ⏬


حضرت علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی رحمة اللہ علیہ اس بابت لکھتے ہیں کہ : مؤرخین نے زہر خورانی کی جعدہ بنت اشعث کی طرف کی ہے لیکن اس روایت کی کوئی سند صحیح دستیاب نہیں ہوئی اور بغیر دلیل کسی مسلمان پر قتل کا الزام کس طرح جائز ہو سکتا ہے ۔ تاریخیں بتاتی ہیں کہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بھائی سے زہر دینے والے کے متعلق دریافت کیا اور اس سے ظاہر ہے کہ امام حسین کو زہر دینے والے کا علم نہ تھا۔ امام حسن نے بھی کسی کا نام نہیں لیا تو اب ان کی بیوی کو قاتل معین کرنے والا کون ہے ۔ (سوانح کربلا صفحہ 101 ، 102) ۔ فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمة اللہ علیہ ، شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد المصطفی اعظمی رحمة اللہ علیہ ، حکیم الامت، حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمة اللہ علیہ ، حضرت علامہ محمد شبیر کوٹلی رحمة اللہ علیہ ، حضرت علامہ عبد السلام قادری رحمة اللہ علیہ ، حضرت علامہ مفتی غلام حسن قادری اور حضرت علامہ قاری محمد امین القادری نے یہی موقف اختیار کیا ہے ۔ (فتاوی فقیہ ملت جلد 2 صفحہ 406 ، 407،چشتی)(خطبات محرم صفحہ 279 ، 280)(حقانی تقریریں صفحہ 226)(حضرت امیر معاویہ پر ایک نظر صفحہ 69)(شہادت نواسۂ سید الابرار صفحہ 288)(تاریخ کربلا صفحہ 195 تا 197)(کربل کی ہے یاد آئی صفحہ 89 ، 90) 


یہی دوسرا قول زیادہ صحیح ہے اور احتیاط کے قریب ہے ۔ محض مشہور ہونے کی بنا پر امام حسن رضی اللہ عنہ کی بیوی پر الزام لگانا درست نہیں ہے ۔


ابن سعد نے عمران ابن عبداللہ ابن طلحہ سے روایت کی کہ کسی نے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوخواب میں دیکھا کہ آپ کے دونوں چشم کے درمیان : قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ ۔ لکھی ہوئی ہے ۔ آپ کے اہل بیت میں اس سے بہت خوشی ہوئی لیکن جب یہ خواب حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے بیان کیاگیاتو انہوں نے فرمایا کہ واقعی اگر یہ خواب دیکھا ہے ۔ توحضرت امام رضی اللہ عنہ کی عمر کے چند ہی روز رہ گئے ہیں ۔ 


یہ تعبیر صحیح ثابت ہوئی اور بہت قریب زمانہ میں آپ کو زہر دیا گیا ۔ زہر کے اثر سے اِسْہالِ کَبِدی لاحِق ہوا اور آنتوں کے ٹکڑے کٹ کٹ کر اِسہال میں خارج ہوئے ۔ اس سلسلہ میں آپ کو چالیس روز سخت تکلیف رہی ۔ قریب ِوفات جب آپ کی خدمت میں آپ کے برادر عزیز سیدنا حضر ت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حاضر ہو کر دریافت فرمایا کہ آپ کو کس نے زہر دیا ہے ؟ تو فرمایا کہ تم اسے قتل کروگے ؟حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ بے شک ! حضرت امام عالی مقام نے فرمایا کہ میرا گمان جس کی طرف ہے اگر درحقیقت وہی قاتل ہے تو اللہ تعالیٰ منتقمِ حقیقی ہے اور اس کی گرفت بہت سخت ہے اور اگر وہ نہیں ہے تو میں نہیں چاہتا کہ میرے سبب سے کوئی بے گناہ مبتلائے مصیبت ہو ۔ مجھے اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ زہر دیا گیا ہے لیکن اس مرتبہ کا زہر سب سے زیادہ تیز ہے ۔ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامت اور منزلت کیسی بلند و بالا ہے کہ اپنے آپ سخت تکلیف میں مبتلا ہیں ، آنتیں کٹ کٹ کر نکل رہی ہیں ، نزع کی حالت ہے مگر انصاف کا بادشاہ اس وقت بھی اپنی عدالت و انصاف کا نہ مٹنے والا نقش صفحۂ تاریخ پرثَبَت فرماتا ہے ۔ اس کی احتیاط اجازت نہیں دیتی کہ جس کی طرف گمان ہے اس کانام بھی لیاجائے ۔ اس وقت آپ کی عمر شریف پینتالیس سال چھ ماہ چندروزکی تھی کہ آپ نے پانچویں ربیع الاول ۴۹ھ کو اس دارنا پائیدار سے مدینہ طیبہ میں رحلت فرمائی ۔(حلیۃ الاولیاء الحسن بن علی بن ابی طالب الحدیث : ۱۴۳۸ جلد ۲ صفحہ ۴۷)(تاریخ الخلفاء باب الحسن بن علی بن ابی طالب صفحہ ۱۵۲)(سوانح کربلا و خطبات محرم) ۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Thursday 25 July 2024

وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْ ، رافضیوں و نیم رافضیوں کے فریب کا جواب

وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْ ، رافضیوں و نیم رافضیوں کے فریب کا جواب

محترم قارئینِ کرام : کچھ لوگ آیتِ مباہلہ پڑھ کر بڑے جوش و جذبے سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ "نفسِ رسول اور خلیفہ بِلا فصل ہیں" ہیں کیونکہ اللہ تعالی نے آیت مباہلہ میں  "انفسنا و انفسکم" فرمایا ہے ۔ حیرت ہوتی ہے ایسے لوگوں پر کہ یہ لوگ اگر عربی زبان اور عقائدِ اسلام پر دسترس رکھتے ہیں تو یہ معنیٰ کیسے اخذ کر سکتے ہیں ۔


ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْ ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 61)

ترجمہ : اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں ۔


تفسیر مظہری میں ہے : اس آیت سے رافضیوں نے خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی خلافت کے ابطال اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ اوّل ہونے پر استدلال کیا ہے ان کا قول ہے کہ اس آیت میں ابناء سے حضرت حسن و حسین اور نساء سے حضرت فاطمہ اور انفسنا سے حضرت علی رضی اللہ عنہم مراد ہیں ۔ اللہ نے علی رضی اللہ عنہ کو نفس محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرار دیا ہے اس سے یہ مراد ہے کہ علی رضی اللہ عنہ فضائل میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مساوی تھے اور ظاہر ہے کہ رسول اللہ کو امارت الناس کا سب سے زیادہ حق تھا اللہ نے فرمایا ہے : النبی اولی بالمؤمنین من انفسھم پس علی رضی اللہ عنہ بھی ایسے ہی ہوئے لہٰذا علی رضی اللہ عنہ ہی رسول اللہ کے بعد امام ہوئے ۔


اس استدلال کا جواب چند طرح سے ہو سکتا ہے : ⏬


(1) انفس جمع کا صیغہ ہے جو تعدد نفوس پر دلالت کر رہا ہے ۔ ایک نفس رسول اللہ کا اور دوسرے نفوس آپ کے متبعین کے وحدت نفس پر کوئی لفظ دلالت نہیں کر رہا ہے اور وحدت نفس نہ ہونا ہے بھی ظاہر (کیونکہ رسول اللہ کی شخصیت جدا تھی اور علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت علیحدہ) ۔


(2) ممکن ہے کہ بطور عموم مجاز حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شمار بھی ابناء ہی میں ہو جائے کیونکہ عرف میں داماد پر ابن کا اطلاق ہوتا ہے ۔


(3) ممکن ہے کہ انفسنا سے مراد وہ سب لوگ ہوں جو نسب اور دین کے اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستہ ہوں ۔ دیکھو آیت : و لا تخرجون انفسکم من دیارکم اور تقتلون انفسکم میں وہ لوگ مراد ہیں جو دین اور نسب میں متحد ہوں اسی طرح آیت : ظن المؤمنون والمؤمنات بانفسھم خیراً اور ولا تلمزوا انفسکم میں انفس سے وہ ہی لوگ مراد ہیں جن کے باہم دینی اور نسبی رشتہ ہو لہٰذا ضروری نہیں کہ فضائل میں مساوات ہو ۔


(4) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تمام ہی اوصاف میں مساوات تو باتفاق فریقین غلط ہے (کیونکہ وصف رسالت میں شرکت نہیں) اور بعض اوصاف میں برابر ہونے سے مدعا ثابت نہیں ہوتا (کیونکہ کیا ضروری ہے کہ وصف امامت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مساوی ہوں)


(5) اگر اس آیت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا امیر المؤ منین ہونا ثابت ہوتا ہے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں بھی ایسا ہونا ضروری قرار پاتا ہے مگر آپ اس کے قائل نہیں البتہ اس واقعہ سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ کے نزدیک یہ بزرگ ہستیاں سب سے زیادہ محبوب تھیں ۔


تفسیر ضیاء القرآن میں ہے : انفسنا کے لفظ سے بعض لوگوں نے حضرت رضی اللہ عنہ کی خلافتِ بلا فصل پر استدلال کیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ انفسنا سے مراد حضرت رضی اللہ عنہ ہیں جس سے ثابت ہوا کہ آپ نفس رسول ہیں ۔ گویا آپ رسول جیسے ہیں ۔ تو جب آپ حضور کریم صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مساوی ہو گئے تو پھر آپ سے زیادہ خلافت بلافصل کا حقدار کون ہو سکتا ہے ؟


تو اس کے متعلق التماس ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شمار "ابناءنا" میں ہے کیونکہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے داماد تھے اور داماد کو بیٹا کہا جاتا ہے ۔ اور اگر انفسنا میں ہی شمار کریں تو عینیت اور مساوات کہاں سے ثابت ہوئی ؟


کیونکہ یہ لفظ تو ان لوگوں کےلیے بھی استعمال ہوتا ہے جو قریبی رشتہ دار یا دینی و قومی بھائی ہوں ، جیسے یخرجون انفسھم من دیارھم (وہ اپنے نفسوں کو یعنی اپنے قومی بھائیوں کو انکے وطن سے نکال رہے ہیں) ۔ ولا تخرجون انفسکم من دیارکم ( اپنے وطن سے اپنے نفسوں یعنی اپنے قومی بھائیوں کو نہ نکالنا)


ثم أنتم ھؤلاء تقتلون انفسکم ۔ ان سب آیات اور ان کے علاوہ متعدد دیگر آیات میں انفس کا لفظ دینی اور قومی بھائیوں کےلیے استعمال ہوا ہے ۔ (ضیاء القران جلد 1 صفحہ 239)


مسئلہ خلافت اور خلافتِ سیّدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ احادیث مبارکہ کتبِ شیعہ و اہلسنّت کی روشنی میں : ⏬


محترم قارئینِ کرام : امیر المومنین حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مجھے اپنی زندگی کی قسم میں حق کے خلاف چلنے والوں اور گمراہی میں بھٹکنے والوں سے جنگ میں کسی قسم کی رو رعایت اور سستی نہیں کروں گا ۔ (نہج البلاغہ مترجم اردو خطبہ نمبر 25 صفحہ 136،چشتی مطبوعہ محفوظ بک ایجنسی کراچی)


خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی خلافت حق تھی ورنہ امیر المومنین حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ ضرور ان سے جنگ کرتے کیونکہ امیر المومنین حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ اللہ کے شیر ہیں ۔ وہ شیعہ روافض کی طرح ڈرپوک اور تقیہ کرنے والے نہ تھے ۔ امیر المومنین حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے سچ فرمایا اور ان کا سیدنا ابو بکر ، عمر ، اور عثمان رضی اللہ عنہم کے خلاف جنگ اور قتال نہ کرنا ہی اس بات کی دلیل تھا کہ وہ لوگ حق پر ہیں ۔


حضرت سیّدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت ثبوت شیعہ کتب سے : ⏬


جب دیکھا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نےکلمہ توحید کی نشر و اشاعت اور لشکروں کی تیاری میں پوری پوری کوشش کی اور انہوں نے اپنی ذات کے معاملے میں کسی کو ترجیح نہ دی اور نہ ہی کسی پر زیادتی کی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے مصالحت کرتے ہوئے ان کی بیعت کر لی اور اپنے حق سے چشم پوشی کی.کیونکہ اس سے اسلام کے متفرق ہونے سے حفاظت بھی تانکہ لوگ پہلی جہالت کی طرف نہ لوٹ جائیں ۔ (کتاب اصل الشیعہ و اصولہا ‘الشیخ کاشف الغطا صفحہ 123’124,.193)


سیدنا امام باقر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے : حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس آیت کریمہ( اَلَّـذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ اَضَلَّ اَعْمَالَـهُمْ ۔ وہ لوگ جو منکر ہوئے اور انہوں نے لوگوں کو بھی اللہ کے راستہ سے روکا تو اللہ نے ان کے اعمال برباد کر دیے) ، کی تلاوت کے بعد اپنا مقصد فنشھدالخ سے بیان فرمایا جس میں بطور شہادت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کا ثبوت اور وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا (وَمَآ اٰتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا (اور جو کچھ تمہیں رسول دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو) ، دوسری بات یہ کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے اگرچہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے وصی کے الفاظ سنے تھے لیکن اتفاق و اجماع صحابہ کو دیکھتے ہوئے اسے مرجوع قرار دیا اور خلافت صدیق کے حق ہونے کی بیعت کی ۔ (تفسیر صافی الجز السادس سورہ محمد آیت ۱،چشتی)(تفسیر القمی الجز الثالث صفحہ ۹۷۵)


ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی علالت کے دوران مجھے ہدایت کی کہ اپنے والد ابوبکر رضی ﷲ عنہ اور اپنے بھائی کو میری پاس بلواٶ تاکہ میں انہیں کوئی تحریر لکھ دوں کیونکہ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ کوئی اور شخص (خلافت کا) آرزو مند ہوسکتا ہے اور یہ کہہ سکتا ہے کہ میں (خلافت کا) زیادہ حق دار ہوں ۔ حالانکہ ﷲ تعالیٰ اور اہل ایمان صرف ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو (خلیفہ کے طور) پر قبول کریں گے ۔ (مسلم شریف جلد سوم کتاب فضائل الصحابہ حدیث 6057 صفحہ 298 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں ایک عورت آئی اور اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کسی چیز کے متعلق کلام کیا تو رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس کو حکم دیا کہ وہ دوبارہ آئے۔ اس عورت نے عرض کیا یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مجھے خبر دیں۔ اگر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں آئوں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو نہ پاٶں گویا کہ اس عورت کی مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصال ظاہری تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اگر تو آئے اور مجھے نہ پائے تو پھر ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے پاس آجانا (بخاری شریف جلد سوم کتاب الاحکام حدیث 2084 صفحہ 935 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور،چشتی)


حضرت سیدنا عبد ﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصال شریف ہوا تو انصار نے کہا کہ ہم میں سے ایک صاحب کو امام ہونا چاہیے اور مہاجرین میں سے ایک امیر سیدنا فاروق اعظم رضی ﷲ عنہ ان کے پاس تشریف لائے اور ان سے دریافت کیا ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ حضور پُرنور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جناب ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا تھا۔ تم میں کون ایسا شخص ہے کہ جو حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے مقدم ہونے پر راضی ہو۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے فرمایا کہ ہم اس بات سے ﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں کہ ہم جناب ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے مقدم ہوں (سنن نسائی کتاب الامۃ حدیث 780 صفحہ 238 مطبوعہ فرید بک لاہور)


حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ آیات قرآنیہ ، احادیث نبویہ اور اقوال صحابہ کرام علیہم الرضوان کی بناء پر انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد افضل الناس ہیں ۔ علماء اہلسنت کا اس امر پر اجماع ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ تمام بنی نوع انسان میں افضل ترین انسان ہیں ۔ آپ رضی ﷲ عنہ اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بہترین نمونہ ہیں۔ امام بن جوزی علیہ الرحمہ کے بقول آیت شریفہ ’’وسیجنبھا الاتقی الذی‘‘ الخ سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ کی شان میں نازل ہوئی۔ آیت مذکورہ میں سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ کو اتقی یعنی سب سے زیادہ پرہیزگار فرمایا گیا ہے ۔


امامت دو قسم کی ہیں صغریٰ اور کبریٰ : ⏬


امام صغریٰ امامت نماز ہے ، جبکہ امامت کبریٰ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نیابت مطلقہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نیابت سے مسلمانوں کے تمام امور دینی و دنیاوی میں حسب شرع تصرف عام کا اختیار رکھے اور غیر معصیت میں اس کی اطاعت تمام جہان کے مسلمانوں پر فرض ہو۔ اس امام کےلیے مسلمان، آزاد، عاقل، بالغ، قادر اور قریشی ہونا شرط ہے۔ ہاشمی، علوی اور معصوم ہونا اس کی شرط نہیں (امام کا ہاشمی، علوی اور معصوم ہونا) روافض (شیعہ) کا مذہب ہے جس سے ان کا یہ مقصد ہے کہ برحق امرائے مومنین خلفائے ثلاثہ ابوبکر و عمر و عثمان رضی ﷲ عنہما کو خلافت سے جدا کریں ، حالانکہ ان کی خلافتوں پر تمام صحابہ کرام کا اجماع ہے ۔

مولا علی و حسنین کریمین رضی ﷲ عنہم نے ان کی خلافتیں تسلیم کیں اور علویت کی شرط نے تو مولیٰ علی رضی ﷲ عنہ کو بھی خلیفہ ہونے سے خارج کردیا ۔ مولیٰ علوی کیسے ہو سکتی ہیں ۔ رہی عصمت تو انبیاء و ملائکہ کا خاصہ ہے جس کو ہم پہلے بیان کر آئے ۔ امام کا معصوم ہونا روافض کا مذہب ہے ۔ (بہار شریعت حصہ اول صفحہ 239 امامت کا بیان مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی،چشتی)


مسئلہ خلافت میں اہل سنت و جماعت کا عقیدہ : ⏬


خلافت راشدہ کا زمانہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیش گوئی کے مطابق تیس سال ہے اور ﷲ تعالیٰ نے حسب وعدہ اس عرصہ میں خلفائے راشدین کے مراتب کے اعتبار سے مسند خلافت پر فائز فرمایا۔ نیز آیت ’’استخلاف‘‘ میں رب العزت نے جو وعدے فرمائے تھے، وہ سب اس مدت میں پورے فرمادیئے۔ امامت، خلافت سے کوئی الگ چیز نہیں ہے اور امامت ’’اصول دین‘‘ میں سے نہیں ہے ۔


مسئلہ خلافت میں اہل تشیع کا عقیدہ : ⏬


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے رحلت شریفہ کے بعد حضرت علی کرم ﷲ تعالیٰ وجہہ خلیفۂ بلا فصل تھے اور ان کی خلافت منصوص من ﷲ تھی ۔ خلفائے ثلاثہ نے اسے جبراً چھینے رکھا ۔ اس لئے ان تینوں کا زمانہ جو روجفا کا زمانہ تھا، عدل و احسان کا وہی دور تھا جس میں حضرت علی کرم ﷲ تعالی وجہہ مسند خلافت پر فائز رہے ۔ امامت اور چیز ہے اور خلافت اس سے علیحدہ منصب ہے کیونکہ امام کا معصوم ہونا شرط ہے۔ اور خلافت کے منصب پر متمکن ہونے والے کے لئے عصمت کی کوئی شرط نہیں ۔


خلفائے ثلاثہ کی خلافت کو برحق نہ سمجھنے والا حضرت علی کے نزدیک لعنتی ہے : قال امیر المومنین و من لم یقل انی رابع الخلفآء فعلیہ لعنۃ ﷲ (مناقب علامہ ابن شہر آشوب سومصفحہ 63)

ترجمہ : حضرت امیر المومنین رضی ﷲ عنہ نے فرمایا جو مجھے ’’رابع الخلفائ‘‘ نہ کہے اس پر ﷲ تعالیٰ کی لعنت ہے ۔


وضاحت : حضرت مولا علی کرم ﷲ وجہ نے اپنے اس کلام میں صاف صاف فیصلہ فرمایا کہ میں چوتھے نمبر پر خلیفہ ہوں اور جس کایہ عقیدہ نہ ہو، اس پر ﷲ کی لعنت ہو، حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے اس قول سے ہمیں دو باتیں معلوم ہوتی ہیں : ⏬


1 : آپ کو خلیفہ بلافصل کہنا باطل ہے اور ایسا کہنے والے پر ﷲ تعالیٰ کی لعنت ہے ۔


2 : آپ خلفائے اربعہ میں سے چوتھے نمبر پر خلیفہ ہیں اور یہی عقیدہ ضروری بھی ہے ۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے اس کلام پر عمل کرنا اور اسے درست تسلیم کرنا اس وقت درست ہوگا جبکہ خلیفہ ’’بلافصل‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کو مانا جائے ۔ اور دوسرا خلیفہ حضرت عمر بن خطاب رضی ﷲ عنہ کواور تیسرا حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ کو تسلیم کرلیا جائے ۔ ان تینوں کے بعد حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت کو مانا جائے ۔


حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے خلیفہ بلافصل ہونے سے ﷲ تعالیٰ کا انکار

بقول شیعہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت بلافصل کا ایک سو بیس مرتبہ حکم آسمان پر اور تین دفعہ ’’حجۃ الوداع‘‘ کے موقع پر ہوا،اگر بزعم اہل تشیع اسے درست تسلیم کرلیا جائے توبقول ان کے آخری مرتبہ ﷲ تعالیٰ نے ’’فان لم تفعل فما بلغت رسالتہ‘‘کے تو بیخانہ انداز سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اس کے اعلان پرزور دیا گیا ہے تو پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر یہ سب دعاوی درست ہے تو ’’فرات بن ابراہیم اسکوفی‘‘ نے حضرت امام باقر رضی ﷲ عنہ کے حوالے سے اپنی تفسیر ’’رات اسکوفی‘‘ میں یہ بات کیوں اور کس وجہ سے تحریر کی ؟


حدثنی جعفر بن محمدن الفزاری محنحنا عن جابر قال قرأت عن ابی جعفر علیہ السلام لیس لک من الامر شیٔ قال فقال ابو جعفر بلی وﷲ لقد کان لہ من الامر شی فقلتہ جعلت فداک فما تاویل قولہ لیس لک من الامر شی ء قال ان رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم حرص ان یکون الامر لأمیر المومنین (ع) من بعدہ فابی ﷲ ثم قال کیف لایکون لرسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم من الامرشی ء وقد فوض الیہ فما احل کان حلالاً الی یوم القیامۃ وما حرم کان حراماً الی یوم القیٰمۃ ۔ (تفسیر قرات اسکوفی مطبوعہ صدریہ نجف اشرف صفحہ 19۔چشتی)

ترجمہ : جعفر ابن محمد فزاری حضرت جابر رضی ﷲ عنہ سے راوی ہیں اور حضرت جابر رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام باقر رضی ﷲ عنہ کے سامنے ’’لیس لک من الامر شیئ‘‘ آیت کا حصہ تلاوت کیا جس کے معنی یہ ہیں کہ تمہیں (اے پیغمبر) کسی معاملہ کا قطعاً کوئی اختیار نہیں (چونکہ اس آیت کے حصے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اختیار کی عام اور مطلق نفی ہے حالانکہ آپ مختار ہیں) تو اس پر جناب امام باقر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا۔ ہاں! خدا کی قسم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اختیار تھا ۔ امام موصوف کے کہنے کے بعد میں نے عرض کی۔ آپ پر اے امام میرے ماں باپ قربان (اگر آپ کا فرمانا درست ہے) تو ﷲ کے اس ارشاد کا کیا مفہوم ہے ’’لیس لک من الامر شی ئ‘‘ اور اس کی کیا تاویل ہوگی، حضرت امام باقر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس امر کے شدید متمنی ہیں کہ ﷲ تعالیٰ حضرت علی المرتضیٰ کے لئے ’’خلافت بلافصل‘‘ کا حکم عطا فرمائے لیکن ﷲ نے اس خواہش کو پورا کرنے سے انکار فرمادیا۔ پھر امام موصوف نے فرمایا۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو کسی قسم کا کوئی اختیار نہ ہو۔ حالانکہ ﷲ نے آپ کو اس کی تفویض فرمادی تو ﷲ کی تفویض کی وجہ سے جس کو آپ نے حلال فرمایا۔ وہ قیامت تک حلال ہوئی اور جس کی حرمت فرمادی وہ تاقیامت حرام ہوئی ۔


توضیح : اس روایت میں اہل بیت کے سردار جناب حضرت امام باقر رضی ﷲ عنہ نے فیصلہ ہی کر دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ﷲ رب العزت سے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی ’’خلافت بلافصل‘‘ کا سوال تو کیا تھا لیکن ﷲ نے اس کا انکار کر دیا ۔


حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے خلیفہ بلافصل ہونے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا انکار : ⏬


’’شیخ مفید‘‘ اپنی مشہور اور معتبر کتاب ’’ارشاد شیخ‘‘ میں حدیث قرطاس کا ذکر کرتے ہوئے یہ لکھتے ہیں ۔ فنہضوا وبقی عندہ العباس والفضل بن عباس و علی بن ابی طالب واہل بیتہ خاصۃ فقال لہ العباس یارسول ﷲ ان یکن ہذا الامر لنا مستقراً من بعدہ فبشرنا وان کنت تعلم انا نغلب علیہ فاقض بنا فقال انتم المستضعفون من بعدی وصمت فنھض القوم وہم یبکون قد یئسوامن النبی صلی ﷲ علیہ وآلہ ۔ (الارشاد الشیخ المفید ص 99 باب فی طلب رسول ﷲ بداوۃ وکتف)(اعلام الوریٰ مصنفہ ابی الفضل ابی الحسن الطبرسی صفحہ 142 بالفاظ مختلفہ)(تہذیب المتین فی تاریخ امیر المومنین مطبوعہ یوسی دہلی جلد اول صفحہ 236)

ترجمہ : (قلم دوات لانے کے متعلق جب صحابہ کرام میں اختلاف ہوگیا تو نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سب کو اٹھ جانے کا حکم دیا) جب سب اٹھ کر چلے گئے وہاں باقی ماندہ اشخاص میں حضرت عباس، فضل بن عباس ، علی بن ابی طالب اور صرف اہل بیت تھے ۔ تو حضرت عباس نے عرض کی یارسول ﷲ ! اگر امر خلافت ہم بنی ہاشم میں ہی مستقل طور پر رہے تو پھر اس کی بشارت دیجیے اور اگر آپ کے علم میں ہے کہ ہم مغلوب ہوجائیں گے تو ہمارے حق میں فیصلہ فرمادیجیے ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ۔ میرے بعد تمہیں بے بس کردیا جائے گا ۔ بس اسی قدر الفاظ فرما کر سکوت فرمالیا ۔ اورحالت یہ تھی کہ جناب عباس، علی ابن طالب اور دیگر موجود اہل بیت رو رہے تھے اور روتے روتے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ناامید ہوکر اٹھ گئے ۔


مذکورہ حدیث میں اس بات کی بالکل وضاحت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے زندگی کے آخری وقت تک کسی کو خلافت کے لئے نامزد نہیں فرمایا تھا۔ اگر حضرت علی کی خلافت کا فیصلہ ’’خم غدیر‘‘ کے مقام پر ہوچکا ہوتا اور وہ بھی ہزاروں لوگوں کے سامنے تو قلم دوات لانے پر اختلاف لانے کے موقع پر حضرت عباس کی گزارش مذکورہ الفاظ کی بجائے یوں ہونی چاہئے تھی ۔ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اگر خلافت علی رضی ﷲ عنہ (جیسا کہ آپ خم غدیر پر فیصلہ فرما چکے ہیں) قائم و دائم رہے گی تو ہمیں خوشخبری سنا دیجیے ۔


ﷲ تعالیٰ کا فرمان : واذا اسریٰ النبی الی بعض ازواجہ حدیثا ۔

ترجمہ : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی کسی بیوی سے ایک روز کی بات کی ۔


تفسیر میں ’’صاحب تفسیر صافی‘‘ اور صاحب تفسیر قمی نے اس کا سبب نزول یوں لکھا ہے کہ : جس دن سیدہ حفصہ کی باری تھی ، ان کے گھر اس وقت وہاں ’’ماریہ قبطیہ‘‘ بھی موجود تھیں۔ اتفاقاًسیدہ حفصہ کسی کام سے باہر گئیں تو حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ’’ماریہ قبطیہ‘‘ سے صحبت فرمائی۔ تو جب سیدہ حفصہ کو اس بات کا علم ہوا تو وہ ناراضگی فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ نے میرے گھر میں اور پھر میری باری میں ماریہ قبطیہ سے صحبت کیوں فرمائی ۔ اس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سیدہ حفصہ کو راضی کرنے کے لئے یہ فرمایا ۔ ایک تو میں نے ماریہ قبطیہ کو اپنے نفس پر حرام کیا اور آئندہ اس سے کبھی صحبت نہیں کروں گا اور دوسرا میں تجھے ایک راز کی بات بتاتا ہوں ۔ اگر تو نے اس راز کو ظاہر کرنے کی کوشش کی تو تیرے لئے اچھا نہیں ہوگا ۔ سیدہ حفصہ نے عرض کی ٹھیک ہے ۔

فقال انّ ابابکر یلی الخلافۃ بعدی ثم بعدہ ابوک فقالت من انباک ہذا قال نبأنی العلیم الخبیر ۔

ترجمہ : (راز کی بات ارشاد فرماتے ہوئے) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میرے بعد بے شک ابوبکر خلیفہ ہوں گے ۔ پھر ان کے بعد تیرے والد بزرگوار اس منصب پر فائز ہوں گے ۔ اس پر سیدہ حفصہ نے عرض کی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یہ خبر آپ کو کس نے دی؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا مجھے ﷲ علیم وخبیر نے خبر دی ۔ (تفسیر صافی صفحہ 714،چشتی)(تفسیر قمی صفحہ 457 سورہ تحریم)


حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت بلافصل ثابت کرنے کی دھن میں توہین رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : ⏬


شیعہ حضرات کو تو اپنا مقصد بیان کرنا ہے ۔ خواہ اس کے لئے من گھڑت روایات، غلط استدلال اور لچر تاویلات ہی کیوں نہ کرنی پڑیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کے دوران انہیں یہ خیال تک نہیں آتا کہ ہمارے اس طرز استدلال سے انبیاء کرام اور خصوصا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان اقدس پر کیا کیا گستاخیاں ہورہی ہیں؟ بطور ثبوت ایک دو مثالیں ملاحظہ ہوں : ⏬


ﷲ رب العزت کا ارشاد ہے : لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخٰسرین ۔

ترجمہ : بفرض محال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے شرک کیا تو یقینا آپ کے تمام اعمال ضائع ہوجائیں گے اور آپ لازما خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے ۔ اس آیتہ کی تفسیر میں ’’صاحب تفسیر قمی اور صاحب تفسیر صافی‘‘ یوں گویا ہیں ۔


شیعہ حضرات تفسیر صافی و تفسیر قمی میں : حضرت امام باقر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ (لئن اشرکت) کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا کہ اس کی تفسیریہ ہے کہ آپ نے اگر اپنی وفات کے بعد حضرت علی کی خلافت کے ساتھ کسی اور کو اس امر میں شریک کار کیا تو اس جرم کی پاداش میں آپ کے تمام اعمال حسنہ ضائع ہوجائیں گے اور نتیجتاً آپ خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے ۔


شیعوں کی خبر متواتر ، عقل و نقل سے باطل ہے : ⏬


سید ابن طاؤس و ابن شہر آشوب و دیگر ان روایت کردہ اندر کہ عامر بن طفیل و ازید بن قیس بقصد قتل آنحضرت آمدند، چوں داخل مسجد شدید، عامر بزدیک آنحضرت آمدند گفت، یامحمد، اگر من مسلمان شوم، برائے من چہ خوابدبو، حضرت فرمودکہ برائے تو خواہد بود آنچہ برائے ہمہ مسلمانان ہست، گفت میخو اہم بعد از خودمرا خلیفہ گردانی، حضرت فرمود، اختیار ایں امر بدست خدا است و بدست من تونیست ۔ (حیاۃ القلوب جلد 2 صفحہ 72 ، 44 باب بستم بیان معجزات کفایت از شردشمنان مطبوعہ نامیع نولکشود)

ترجمہ : سید ابن طائوس ابن شہر آشوب اور دیگر حضرات نے روایت کیا کہ عامر بن طفیل اور ازید بن قیس جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قتل کرنے کی نیت سے آئے اور مسجد میں داخل ہوئے تو ’’عامر بن طفیل‘‘ آپ کے نزدیک گیا اور کہا : یامحمد اگر میں مسلمان ہوجاٶں تو میرے لئے کیا انعام ہوگا اور مجھے اس سے کیا فائدہ ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا تمہیں بھی وہی ملے گا جو تمام مسلمانوں کو ملتا ہے۔ (یعنی تمہارا فائدہ اور نقصان سب کے ساتھ مشترکہ ہوگا۔ اس نے کہا میری خواہش ہے کہ آپ مجھے اپنے بعد خلیفہ بنادیں ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا۔ یہ تو ﷲ کے اختیار میں ہے مجھے اور تجھے اس میں کوئی دخل نہیں ۔


حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی بیعت کو اپنے پر لازم قرار دیا : ⏬


ترجمہ : ہر ذلیل میرے نزدیک باعزت ہے۔ جب تک اس کا دوسرے سے حق نہ لے لوں اور قوی میرے لئے کمزور ہے۔ یہاں تک کہ میں مستحق کا حق اسے دلادوں۔ ہم ﷲ کی قضا پر راضی ہوئے اور اس کے امر کو اسی کے سپرد کیا تو سمجھتا ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر بہتان باندھوں گا۔ خدا کی قسم! میں نے ہی سب سے پہلے آپ کی تصدیق کی تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سب سے پہلا جھٹلانے والا ہوں۔ میں نے اپنا معاملہ میں غوروفکر کیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ میرا ابوبکر کی اطاعت کرنا اور ان کی بیعت میں داخل ہونا اپنے لئے بیعت لینے سے بہتر ہے اور میری گردن میں غیر کی بیعت کرنے کا عہد بندھا ہوا ہے۔ اس روایات کے کچھ الفاظ کی ’’ابن میثم‘‘ اس طرح شرح کرتا ہے ۔ پس میں نے غور وفکر کیا اور مجھے معلوم ہوا کہ میرا اطاعت کرنا بیعت لینے سے سبقت لے گیا یعنی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے جو ترک قتال کا حکم لیا تھا وہ اس بات پر سبقت لے گیا ہے کہ میں قوم سے بیعت لوں ۔ فاذا المیثاق فی عنقی لغیری سے مراد سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مجھ سے عہد لینا مجھے اس کا پابند رہنا لازم ہے ۔ جب لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی بیعت لے لیں تو میں بھی بیعت کرلوں ۔ پس جب قوم کا وعدہ مجھ پر لازم ہوا یعنی ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی بیعت مجھ پر لازم ہوئی تو اس کے بعد میرے لئے ناممکن تھا کہ میں اس کی مخالفت کرتا ۔ (شرح نہج البلاغہ ابن مثیم)


مذکورہ خطبہ اور اس کی شرح سے مندرجہ ذیل امور ثابت ہوئے : ⏬


1: حضرت علی کرم ﷲ وجہہ الکریم کے اپنے فرمان کے مطابق آپ کے نزدیک قوی اور ضعیف برابر تھے۔ کیونکہ آپ ہر قوی سے قوی ہیں اس لئے آپ ہر کمزور کو حق دلا سکتے ہیں۔

2: جب ﷲ نے صدیق اکبر کی خلافت کا فیصلہ کردیا تو ہم نے اسے تسلیم کرتے ہوئے اسے ﷲ کے سپرد کیا۔

3: جب ایمان لانے میں مجھے اولیت حاصل ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر جھوٹ بولوں۔

4: حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حکم تھا کہ میرے بعد مسئلہ خلافت میں کسی سے لڑائی نہ کرنا

5: مسئلہ خلافت پر غوروفکر سے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ میرے لئے ابوبکر صدیق کی بیعت کرلینا اپنی بیعت لینے سے زیادہ راجح ہے۔

6: میری گردن میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ عہد بندھا ہوا ہے کہ جب لوگ ابوبکر صدیق کی بیعت کرلیں تو میں بھی بیعت کرلوں۔

ان تمام امور بالا سے معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کسی طرح بھی حضرت ابوبکر صدیق سے اعراض نہ کرسکے تھے کیونکہ ﷲ کی رضا اس کے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے عہد اور حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا فیصلہ ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے خلیفہ برحق ہونے کا بین ثبوت ہیں تو اس امر بیعت کو حضرت علی کرم ﷲ وجہ اس قدر اہم سمجھتے تھے کہ حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے اتنی جلدی کی کہ پورا لباس بھی زیب تن نہ کرسکے، صاحب روضۃ الصفاء نے اس کو یوں نقل کیا ہے ۔


شیعہ کتاب روضۃ الصفا میں ہے : امیر المومنین علی چوں استماع نمود کہ مسلماناں بر بیعت ابوبکر اتفاق نمودند بتعجیل ازفاتہ بیروں آمد چنانچہ ہیچ وربرنداشت بغیر ازپیرہن نہ ازا رونہ راہچناں نزد صدیق رفتہ ہاد بیعت نمود بعد ازاں فرستا ندتدہ جامعہ بمجلس آورند۔ ودربعضی روایات و اردشدہ کہ ابو سفیان پیش از بیعت یاامیر المومنین علی گفت کہ تو راضی مشوی کہ شخصی از نہی تمیم متصد ٹی کاری حکومت شود بخدا سو گند کہ اگر تو خواسی ایں وادی پراز سوارو پیادہ گردانم علی گفت اے ابو سفیان تو ہمیشہ ورہام جاہلیت فتنہ می انگیختی ومالا نیزمی خواہما کہ فتنہ در اسلام ابوبکر را سائستہ امیں کار میداتم ۔

ترجمہ : حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے جب سنا کہ تمام مسلمانوں نے ابوبکر صدیق کی بیعت پر اتفاق کرلیا ہے تو اس قدر جلدی در دولت سے باہر تشریف لائے کہ چادر اور تہبند بھی نہ اوڑھ سکے صرف پیرہن میں ملبوس تھے۔ اس حالت میں ابوبکر صدیق کے ہاں پہنچے اور بیعت کی بیعت سے فراغت کے بعد چند آدمی کپڑے لینے کے لئے بھیجے تاکہ مجلس میں کپڑے لے آئیں بعض روایات میں اس قدر مذکور ہے کہ ابو سفیان نے بیعت سے قبل حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے کہا کہ اے علی! کیا تو بنو تمیم کے ایک آدمی کو حکومت کا والی بنانے پر راضی ہوگیا ہے ۔ ﷲ کی قسم! اگر تم چاہو تو میں اس کی وادی کو سنواروں اور پیادوں سے بھردوں۔ یہ سن کر حضرت علی نے کہا اے ابو سفیان! دور جاہلیت میں بھی فتنہ پرداز رہا ہے۔ اور اب بھی چاہتا ہے کہ اسلام میں فتنہ بپا کردے۔ میں ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کو اس کاروبار حکومت کے لئے نہایت اچھا آدمی سمجھتا ہوں ۔


نوٹ : واذا المیثاق فی عنقی لغیری ۔ جملہ کی تشریح ’’ابن میثم‘‘ اور اس کے بعد ’’روضۃ الصفا‘‘ سے آپ پڑھ چکے ہیں ان دونوں شیعوں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے اس جملہ کی جو شرح کی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ بخوشی اور بسرعت حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے لئے چل پڑے ۔ آپ کو کوئی مجبوری نہیں تھی اور نہ زبردستی بیعت کرنے کے لئے آپ کو آمادہ کیا گیا ۔


خلافت صدیقی کا ثبوت شیعہ حضرات کی کتب سے : ⏬


شیعہ مفسر طبرسی اپنی تفسیر مجمع البیان میں اسی آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’واذا اسرالنبی الی بعض ازواجہ حدیثا یعنی حفصۃ عن الزجاج قال و لما احرم ماریۃ قبطیۃ اخبر حفصۃ انہ یملک من بعدہ ابوبکر ثم عمر ۔

ترجمہ : اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت حفصہ رضی ﷲ عنہا سے راز کی بات کی ۔ زجاج سے مروی ہے کہ جب رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت ماریہ قبطیہ رضی ﷲ عنہا کو اپنے اوپر حرام فرما لیا تو حضرت حفصہ رضی ﷲ عنہا کو آپ نے خبر دی کہ میرے بعد حضرت ابوبکر اور ان کے بعد حضرت عمر مملکت کے مالک ہوں گے ۔ (تفسیر مجمع البیان جلد 10 صفحہ 314 مطبوعہ بیروت،چشتی)


شیعہ مفسر فیض کاشانی اپنی تفسیر صافی میں اس آیت کے تحت لکھتا ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت حفصہ رضی ﷲ عنہا کو فرمایا : انا افضی الیک سرا ان اخبرت بہ فعلیک لعنۃ ﷲ والملٰئکۃ والناس اجمعین فقالت نعم ماہو فقال ان ابابکریلی الخلافۃ بعدی ثم بعدہ ابوک فقالت من انباک ہذا قال نبانی العلیم الخبیر ۔

ترجمہ : میں تمہیں راز کی ایک بات بتاتا ہوں۔ اگر اس سے تم نے کسی کو مطلع کیا تو تم پر ﷲ تعالیٰ ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہوگی۔ عرض کرنے لگیں، درست ہے۔ وہ کیا بات ہے بتائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا میرے بعد ابوبکر کو خلافت ملے گی، پھر ان کے بعد تمہارے والد (حضرت عمر) خلیفہ ہوں گے۔ حضرت حفصہ (رضی ﷲ عنہا) نے عرض کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ کو یہ بات کس نے بتائی تو فرمایا ﷲ تعالیٰ علیم و خبیر نے ۔ (تفسیر صافی جلد 4 صفحہ 716 سطر 14 تا 16 مطبوعہ ایران)


حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے نزدیک شیخین عادل اور برحق خلیفہ تھے اور ان کے وصال سے اسلام کو سخت نقصان : ⏬


واقعہ صفین : ثم قال اما بعد فان ﷲ بعث النبی صلی ﷲ علیہ وسلم علیہ وآلہ فانقذ بہ من الضلالۃ ومن الہلاکۃ وجمع بہ بعد الفرقۃ ثم قبض ﷲ علیہ وقد ادی ماعلیہ ثم استخلف الناس ابا بکروعمرو واحسنا السیرۃ وعدلا فی الامۃ وقد وجدنا علیہا ان تولیا الامر دوننا ونحن ال الرسول واحق بالامر فعفونا فاذا الک لہما ۔

اس کے بعد حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے لکھا ہے کہ بے شک ﷲ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بھیج کر لوگوں کو گمراہی اور ہلاکت سے آپ کی وجہ سے بچایا اور منتشر لوگوں کو آپ کی بدولت جمع کیا۔ پھر آپ ﷲ کو پیارے ہوگئے۔ آپ نے اپنی ذمہ داری کو صحیح طور پر ادا فرمایا۔ پھر لوگوں نے آپ کے بعد ابوبکر اور عمر کوخلیفہ بنایا اور انہوں نے لوگوں میں خوب انصاف کیا اور ہمیں افسوس تھا کہ ہم آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہوئے وہ امر خلافت کے بانی بن گئے حالانکہ اسے ہم زیادہ حقدار تھے سو ہم نے انہیں معاف کردیا کیونکہ عدل وانصاف اور اچھی سیرت کے حامل تھے ۔


حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کی طرف خط لکھا : ⏬


انہ بایعنی القوم الذی بایعوا ابابکر وعمر و عثمان علی مابایعوھم علیہ فلم یکن للشاہد ان یختار ولا للغائب ان یردو وانماالشوری للمہاجرین والانصار فان اجتمعوا علی رجل وسموہ اما ماکان ذلک ﷲ رضاً فان خرج عن امرہم خارج بطعن او بدعۃ ردو الیہ فخرج منہ فان ابی قاتلوہ علی اتباعہ غیرسبیل المومنین ولاہ ﷲ الی ماتولیّ ۔ (نہج البلاغہ خط نمبر 6 صفحہ 366)

ترجمہ : حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کی طرف خط لکھا اور فرمایا : بات یہ ہے کہ میری بیعت ان لوگوں نے کی ہے جنہوں نے حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت عثمان کی کی تھی اور مقصد بیعت بھی وہی تھا جو ان سے تھا لہذا موجودہ حضرات میں سے کسی کو علیحدگی کا اختیار نہیں اور نہ غائب لوگوں کو اس کی تردید کی اجازت ہے۔ مشورہ مہاجرین اور انصار کو ہی شایان شان ہے تو اگر یہ سب کسی شخص کے خلیفہ بنانے پر متفق ہو جائیں تو یہ ﷲ کی رضا ہوگی اور اگر ان کے حکم سے کسی نے بوجہ طعن یا بدعت کے خروج کیا تو اسے واپس لوٹا دو اور اگر واپسی سے انکار کردے تو اس سے قتال کرو کیونکہ اس صورت میں وہ مسلمانوں کے اجتماعی فیصلہ کو ٹھکرانے والا ہے اور ﷲ نے اسے متوجہ کردیا جدھر وہ خود جاتا ہے ۔


توضیح درج ذیل امور ثابت ہوئے : ⏬


1 ۔ جن لوگوں نے حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت عثمان کی بیعت کی تھی۔ ان ہی لوگوں نے حضرت علی کی بیعت کی۔

2 ۔ تمام مہاجرین و انصار کا کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلینا اتنا اہم ہے کہ اس کے بعد حاضرین یا غائبین لوگوں میں سے کسی کو اس کے خلاف اختیار نہیں رہ جاتا۔

3 ۔ شوریٰ کا استحقاق صرف مہاجرین و انصار کو ہے۔

4 ۔ مہاجرین و انصار کا باہمی مشورہ سے کسی کو امام یا خلیفہ پسند کرلینا دراصل خوشنودی خدا ہوتا ہے۔

5 ۔ ان کے متفقہ طور پر کسی کو منتخب کرلینے کے بعد اگر کوئی بوجہ طعن بیعت نہ کرے تو اسے زبردستی واپس لایا جائے اور اگر انکار کردے تو اسے قتل کیا جائے ۔ کیونکہ وہ اس طرح جمیع مسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر علیحدگی اختیار کرتا ہے ۔


اگر مرض باقی ہے تو ایک خوراک اور شارح ابن میثم شیعہ نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے خطبے کی علم منطق کے ذریعے خلافت حقہ کےلیے جو ترتیب دی ہے اس کا خلاصہ : ⏬


صغریٰ : میری بیعت ان لوگوں نے کی جنہوں نے خلفائے ثلاثہ کی بیعت کی تھی ۔

کبریٰ : جس آدمی کی بیعت وہی لوگ بیعت کرلیں تو اس کے بعد کسی غائب یا حاضر کو بیعت نہ کرنے یا اس کے رد کا اختیار نہیں ۔

نتیجہ : چونکہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی بیعت بھی انہی لوگوں نے کرلی ہے لہذا کسی کو اس کے رد کا اختیار نہیں ۔ (شرح ابن میثم جلد نمبر 4 صفحہ 353)


حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے اس خط میں انما الشوریٰ کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے : ⏬


وحصر للشوری والاجماع فی المہاجرین والانصار لانھم اہل الحل والعقد من امۃ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اتفقت کلمتھم علی حکم الاحکام کاجماعھم علی بیعتہ وتسمیتہ اماماً کان ذلک اجماعاً حقاً ہو رضی ﷲ عنہ مرضی لہ و سبیل المومنین الذی یجب اتباعہ ۔

ترجمہ : حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے شوری کو صرف مہاجرین اور انصار کے لئے مخصوص فرمایا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی امت کے اہل حل و عقد و ارباب بست و کشادہ وہی ہیں اور جب وہ کسی معاملہ پر متفق ہوجائیں جس طرح حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی امامت و بصیرت پر متفق ہوئے تو ان کا یہ اجماع و اتفاق حق ہوگا اور وہ اجماع ﷲ کا پسندیدہ ہوگا اور مومنین کا ایسا راستہ ہوگا جس کی اتباع واجب ہے ۔

حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی محبت کے دعویداروں کو دعوتِ فکر

اجماع حقہ وہی ہے جو مہاجرین و انصار کا ہو ، یہ دونوں غزوہ بدر اور بیعتِ رضوان میں شامل تھے، ان کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جنتی ہونے کی خوشخبری فرمائی ۔ ان کا اجماع ﷲ کا پسندیدہ ہے تو معلوم ہوا کہ یہ اجماع جنتیوں کا اجماع ہے۔ معلوم ہوا کہ خلفائے ثلاثہ کی خلافت حق تھی ۔


خلفائے راشدین کی خلافت حقہ پر دلیل نہم : ⏬


کتب شیعہ میں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی بیعت بغیر جبر و اکراہ کے بطریق رضا کی ہے ۔شیعوں کے امام الاکبر محمد الحسینی نے اپنی مشہور کتاب اصل الشیعہ واصولہا میں اس کی ان الفاظ میں تصدیق اور توثیق کی ہے : اصل الشیعہ و اصولہا وحین رایٰ ان المتخلفین اعنی الخلیفۃ الاول والثانی بذلا اقصیٰ الجہد فی نشر کلمۃ التوحید وتجہیز الجنود وتوسیع الفتوح ولم یستاتدوا ولم یستبدوا ابیع وسالم و اغضی عمایداہ حقاً لہ محافظۃ علی الاسلام ان تصدع وحدتہ وتتفدق کلمتہ ویعود الناس الی جاہلیتھم الاولیٰ وبقی شیعتہ منفسدین تحت جناحہ ومستنیرین بمصباحہ ولم یکن للشیعۃ والتشیع یومئذ مجال للظہور لان الاسلام سحان یجدی علی منہ ہجرہ القویمۃ حتی اذ تمیذا الحق من الباطل وتبین الرشد من الغّی وامتنع معاویۃ عن البیعۃ لکلی وحاربہ فی (صفین) انضم بقیۃ الصحابۃ الی علی حتی الحثدھم تحت رایتہ وکان معہ من عظماء اصحٰب النبی ثمانون بعلا کلہم بدری عقبی لعمار بن یاسر وخزیمۃ ذی الشہادتین وابی ایوب الانصاری ونظر ائھم ثم نما قتل علی علیہ السلام وائتقبا الامہ لمکاویۃ وانقضی دور الخلفآء الراشدین ساد معاویۃ بسیدۃ الجبا برۃ فی المسلمین ۔ (اصل الشیعہ واصولہا صفحہ 115 تذکرہ صرف القوم الخلافتہ عن علی مطبوعہ قاہرہ طبع جدید،چشتی)

ترجمہ : جب دیکھا حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے کہ حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ اور عمر فاروق رضی ﷲ عنہ نے کلمہ توحید کی نشر و اشاعت میں اور لشکروں کی تیاری میں پوری پوری کوشش کی اور انہوں نے اپنی ذات کو کسی معاملے میں ترجیح نہ دی اور نہ ہی کسی پر زیادتی کی تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے ان سے مصالحت کرتے ہوئے ان کی بیعت کرلی اور اپنے حق سے چشم پوشی کی۔ کیونکہ اس میں اسلام کے متفرق ہونے سے حفاظت تھی تاکہ لوگ پہلی جہالت کی طرف نہ لوٹ جائیں اور باقی شیعہ کمزوری کی وجہ سے آپ کے زیر دست رہے ۔ آپ کے چراغ سے روشنی حاصل کرتے رہے اور شیعہ اور ان کے مذہب کے لئے ان ایام میں ظہور کی مجال نہیں تھی۔ کیونکہ اسلام مضبوط طریقے پر چل رہا تھا۔ یہاں تک حق باطل سے اور ہدایت گمراہی سے جدا ہوچکی تھی اور معاویہ رضی ﷲ عنہ نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی بیعت سے انکار کیا اور صفین میں ان سے جنگ کی تو اس وقت جتنے صحابہ کرام موجود تھے انہوں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا ساتھ دیا حتی کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے جھنڈے کے نیچے اکثر صحابہ کرام شہید ہوئے اور آپ کے ساتھ جلیل القدر صحابہ کرام میں سے 80 وہی صحابہ تھے جو کل کے کل بدری تھے۔ مثلاً عمار یاسر اور حضرت خزیمہ جن کی شہادت دو شہادتوں کے برابر تھی اور ابو ایوب انصاری اور اسی مدینے کے اور صحابہ اور پھر جب حضرت علی شہید ہوئے اور امرِ خلافت امیر معاویہ کی طرف لوٹا تو اس کے ساتھ خلفاء راشدین کا دور ختم ہوا اور امیر معاویہ نے مسلمانوں میں جبارین دین کی سیرت کو اپنایا ۔


مذکورہ عبارت سے مندرجہ ذیل امور صراحتاً ثابت ہوئے : ⏬


1 : حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا مقصود خلافت حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ کلمہ توحید کی نشرواشاعت اور لشکروں کی تیاری کے ساتھ فتوحات میں توسیع دینا تھا۔ اسی لئے جب انہوں نے دیکھا کہ جو اسلام کے مقاصد تھے وہ سب کے سب شیخین نے پورے کردیئے تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے رضامندی کے ساتھ یکے بعد دیگرے ان کی بیعت کرلی۔

2 : شیخین کے زمانہ میں شیعہ اور ان کے مذہب کا اس لیے ظہور نہیں ہوا کہ اسلام اپنے صحیح اور مضبوط طریقے پر چل رہا تھا۔ یہاں تک کہ حق باطل سے اور ہدایت گمراہی سے جدا ہوچکی تھی۔

3 : جنگ صفین کے زمانہ تک بدری صحابی موجود تھے جو 80 کی تعداد میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے لشکر میں شامل ہوئے۔

4 : خلفاء ثلاثہ خلفاء راشدین تھے نہ کہ ظالم فاسق اور فاجر

5 : نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال پر صحابہ کرام کے ارتداد کا مسئلہ (معاذ ﷲ) شیعہ حضرات کا خود ساختہ ہے کیونکہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے زمانہ تک بدری صحابہ موجود تھے جوکہ قطعی جنتی تھے جوکہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے لشکر میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے ۔


خلفائے راشدین کی خلافت حقہ پر دلیل دہم : ⏬


فرمان علی رضی ﷲ عنہ : ﷲ تعالیٰ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد لوگوں کے لیے بہترین شخص کا انتخاب فرمایا : ان فی الخبر المروی عن امیرالمومنین علیہ السلام لماقیل لہ الا توصی فقال مااوصیٰ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم فاوصی ولٰکن ان اراد ﷲ بالناس خیرا استجمعھم علی خیرہم کما جمعہم بعد نبیہم علی خیرہم قتضمن لما یکاد یعلم بطلانہ مندورۃ لان فیہ التصدیح القوی بفضل ابی بکر علیہ وانہ خیر منہ والظاہر من احوال امیر المومنین علیہ السلام والمشہور من اقوالہ واحوالہ جملۃ وتفصیلاً یقتصی انہ کان یصدم نفسہ علی ابی بکروغیرہ ۔ (تلخیص الشافی تالیف شیخ الطائفہ ابی جعفر طوسی جلد دوم صفحہ 237 دلیل آخر علی امامتہ علیہ السلام مطبوعہ قم طبع جدید،چشتی)

ترجمہ : امیر المومنین حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جب آپ سے کہاگیا کہ آپ وصیت کیوں نہیں کرتے تو آپ نے فرمایا کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے وصیت فرمائی تھی کہ میں وصیت کروں لیکن اگر ﷲ تعالیٰ نے لوگوں کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمایا تو ان کو ان میں سے بہترین شخص پر جمع کردے گا جیسا کہ اس نے نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد انہیں بہترین شخص پر جمع کیا۔ یہ اس چیز کو متضمن ہے کہ قریب ہے کہ اس کا بطلان بدایۃً معلوم ہوجائے کیونکہ اس میں ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی فضیلت حضرت علی رضی ﷲ عنہ پر تصریح قوی ہے اور یہ کہ ابوبکر رضی ﷲ عنہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے بہتر ہیں ۔ لیکن امیرالمومنین کے احوال اور ان کے اقوال و احوال سے اجمالاً اور تفصیلاً جو ظاہرا اور مشہور ہے اس کا متقضی یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کو ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ وغیرہ پر مقدم جانتے ہیں ۔


الحاصل : مذکورہ عبارت سے دو اہم مسائل ثابت ہوئے : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے بعد کسی کو وصی نہیں بنایا ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد ﷲ تعالیٰ نے امت کے سب سے بہترین شخص کو خلافت کے لئے منتخب فرمایا جیسا کہ اس نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے بعد امت کے بہترین شخص حضرت امام حسن رضی ﷲ عنہ کو امت کے لئے منتخب فرمایا ۔


خلفائے راشدین کی خلافت حصہ پر دلیل یادہم : ⏬


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے متعلق اپنے بعد خلیفہ اور جنتی ہونے کی پیش گوئی فرمائی ۔ تلخیص الشافی میں ہے : روی عن انس ان رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم امرہ عند اقبال ابی بکر ان یسبشرہ بالجنۃ وبالخلافۃ بعدہ وان یستبشرہ عم بالجنۃ وبالخلافہ بعد النبی بکر و روی عن جبیربن مطعم ان امراۃ اتت رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ فکلمتہ فی شیٔ فامر بہا ان ترجع الیہ فقالت یارسول ﷲ ارایت ان رجعت فلم اجدک (یعنی الموت) قال ان لم تجدنبی فات ابابکر ۔ (تلخیص الشافی جلد سوم صفحہ 39 فصل فی ابطال قول من حالت فی امامۃ امیر المومنین بعد النبی علیہما السلام بلا فصل مطبوعہ قم، طبع جدید)

ترجمہ : حضرت انس رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے مجلس میں آنے کے وقت ارشاد فرمایا کہ انہیں (ابوبکر صدیق) کو جنت اور میرے بعد خلافت کی خوشخبری سنادو اور حضرت عمر فاروق رضی ﷲ عنہ کو جنت اور ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے بعد خلافت کی بشارت دو اور حضرت جبیربن مطعم رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک عورت آئی اور کسی معاملہ میں آپ سے بات چیت کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ پھر میرے پاس آنا، عورت نے عرض کی کہ اگر میں دوبارہ آٶں اور آپ کو نہ پاٶں تو ؟ (یعنی اس وقت تک اگر آپ وصال کرجائیں تو پھر کیا کروں؟) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے پاس چلی جانا (اور ان سے اپنا مسئلہ حل کروالینا) ۔


الحاصل : مذکورہ دونوں حدیثوں سے یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ خلیفہ برحق ہیں اور ان کے بعد عمر فاروق رضی ﷲ عنہ اور دوسرا یہ جنتی بھی ہیں اور یہ بات ثابت ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مذکورہ عورت کو اسی لیے اپنے بعد ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی وصیت فرمائی کیونکہ آپ من جانب ﷲ جانتے تھے کہ میرے بعد ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ خلیفہ ہوں گے ۔


کیا حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے (معاذ ﷲ) دشمنوں کے غلبہ کی وجہ سے بطور تقیہ حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ کی بیعت کی ؟


حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی طرف اس بات کو منسوب کرنا ان کی شان کے خلاف ہے ۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ تو ایسے بہادر تھے جو پورے پورے لشکر کو اکیلے شکست دے دیتے تھے ۔ خیبر کے موقع پر چالیس آدمیوں کا کام اکیلے مولا علی شیر خدا رضی ﷲ عنہ نے کیا ۔


پہلی دلیل : کیا وہ شیر خدا کسی کے دباٶ میں آ سکتا ہے ؟ کیا ﷲ تعالیٰ کا شیر حق بات کہنے سے (معاذ ﷲ) ڈر جائے ، یہ ناممکن ہے ۔


دوسری دلیل : جس شیر خدا کے بیٹے حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ نے خون میں لہولہان ہو کر ، اپنے گھرانے کو لٹا کر ایک ظالم کی بیعت نہ کی ۔

کیا ان کے والد شیر خدا (معاذ ﷲ) بزدل تھے ۔ کیا انہوں نے (معاذ ﷲ) ڈر اور خوف کی وجہ سے بیعت کرلی ۔ نہیں بلکہ وہ جانتے تھے کہ جسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چن لیا ۔ اس کی بیعت کرنا ہمارا ایمان ہے ۔


شیعہ حضرات کی معتبر کتاب سے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے پیچھے نماز پڑھنا ثابت ہے : ⏬


دلیل : حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے پیچھے نماز ادا فرمائی ۔ (شیعہ حضرات کی کتاب : جلاء العیون صفحہ 150)


حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی بیعت حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی کتاب نہج البلاغۃ سے ثابت کرتے ہیں : نہج البلاغۃ میں لکھا ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے خلیفہ بننے کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو خط لکھا کہ جن لوگوں نے حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضی ﷲ تعالیٰ عنہم کی بیعت کی ۔ انہیں لوگوں نے میری بیعت کی ہے ۔ اب کسی حاضر یا غائب کویہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کی مخالفت کرے ۔ بے شک شوری مہاجرین و انصار کا حق ہے اور جس شخص پر جمع ہوکر یہ لوگ اپنا امام بنالیں ، ﷲ تعالیٰ کی رضامندی اسی میں ہے ۔ (کتاب نہج البلاغۃ ، دوسری جلد، صفحہ 8 مطبوعہ مصر،چشتی)


اب کسی شک کی گنجائش نہیں ۔ اس لیے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ حضرت ابوبکر و عثمان رضی ﷲ تعالیٰ عنہم سے راضی تھے ۔ اب لوگ کچھ بھی کہیں ۔ چار یاروں کی آپس میں ایسی محبت تھی۔ جس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی ۔


شیعہ حضرات کی کتاب سے حضرت علی کی بیعت کاثبوت : ⏬


شیعہ حضرات کی معتبر کتاب احتجاج طبرسی میں شیعہ عالم علامہ طبرسی لکھتا ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر و صدیق رضی ﷲ عنہ کی بیعت کی ۔ (احتجاج طبرسی صفحہ 54،چشتی)

اگر حضرت علی رضی ﷲ عنہ بطور تقیہ بیعت کرتے تو علامہ طبرسی جوکہ مشہور شیعہ عالم ہیں ، وہ اپنی کتاب میں تقیہ کا ذکر ضرور کرتے مگر انہوں نے تقیہ کا کوئی ذکر نہیں کیابلکہ اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی بیعت کی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”جس کا میں مولا ہوں“ اس کے علی مولا ہیں‘‘ اس کا جواب دیں ؟

جواب : سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس حدیث شریف پر ہمارا بھی ایمان ہے تبھی تو ہم اہلسنت و جماعت حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو مولا علی شیر خدا کہتے ہیں ۔

دلیل : اس حدیث میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی شان مولائی بیان کی گئی ہے اور مولا کا مطلب مددگار کے ہوتا ہے ۔ اس حدیث میں خلافت کا کہیں ذکر واضح نہیں ۔

دلیل : مولا کے کئی معنی ہیں ۔ لغت کی مشہور کتاب قاموس کی جلد چوتھی ص 302 پر تحریر ہے کہ ’’المولیٰ، المالک والعبد والصاحب، والناصر، والمحب، والتابع، والعصر‘‘ مولا کے معنی مالک، غلام، محب، صاحب، مددگار، تابع اور قریبی رشتہ دار کے ہیں ۔

القرآن : فان ﷲ ہو مولہ وجبریل و صالح المومنین والملٰئکۃ بعد ذالک ظہیرا ۔ (سورۂ تحریم، آیت 4، پارہ 28)

ترجمہ : بے شک ﷲ ، جبریل ، نیک مومنین اور تمام فرشتے مددگار ہیں ۔

اس آیت میں مولا کا لفظ مددگار کے لئے بیان کیا گیا ہے ۔

القرآن : انت مولانا فانصرنا علی القوم الکافرین ۔ (سورۂ بقرہ، آیت 286، پارہ 3)

ترجمہ : اے ﷲ تو مددگار ہے ، ہمیں کافروں پر مدد و نصرت فرما ۔


اس آیت میں بھی مولا کا لفظ مددگار کےلیے بیان کیا گیا ہے ۔ تو ’’من کنت مولاہ فعلی مولا‘‘ کا معنی یہی معتبر ہوگا کہ جس کا میں والی، مددگار اور دوست ہوں، حضرت علی رضی ﷲ عنہ بھی اس کے والی، مددگار اور دوست ہیں ۔

دلیل : حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی خلافت پر سینکڑوں احادیث واضح موجود ہیں جس میں خلافت کا ذکر ہے مگر مولا والی حدیث میں کہیں بھی حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت کا واضح ذکر نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے کہ تم مجھ سے بمنزلہ ہارون کے ہو، لہٰذا جس طرح ہارون علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ تھے، اسی طرح حضرت علی رضی ﷲ عنہ بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خلیفہ ہیں ؟

جواب : بخاری شریف کی حدیث شریف ملاحظہ ہو ۔ اما ترضیٰ ان تکون منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی ۔

ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے فرمایا کہ تو اس بات پر راضی نہیں ہے کہ تو مجھ سے بمنزلہ ہارون کے ہو موسیٰ علیہ السلام ، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔ (بخاری شریف، مسلم شریف)

دلیل : اس حدیث پاک میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اگر ہے تو صرف یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اہل بیت کی حفاظت کے لئے مقرر فرمایا تھا تو اس کا سبب ایک تو قرابت و رشتہ داری تھا اور دوسرا یہ کہ اہلبیت کی حفاظت و نگہبانی کا اہم فریضہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ ہی ادا کرسکتے ہیں ۔

دلیل : حضرت ہارون رضی ﷲ عنہ کی خلافت تو عارضی تھی کیونکہ حضرت ہارون علیہ السلام تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ہی وصال فرما چکے تھے پھر اگر خلافت مولا علی رضی ﷲ عنہ کو خلافت ہارون علیہ السلام سے تشبیہ دی جائے تو کسی صورت بھی درست نہیں ہے ۔

دلیل : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا کہ تم میرے ساتھ ایسے ہو، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام تھے، اس سے مراد یہ ہے کہ جس طرح دین حق کو پھیلانے میں حضرت ہارون علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مدد کی، اسی طرح تم نے بھی اسلام کی تبلیغ میں میری مدد کی ہے ۔


حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کا حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے پیچھے نماز پڑھنا : ⏬


1 : شیعہ حضرات کے علامہ طبرسی تحریر کرتے ہیںکہ ’’ثم قام و تھیأ للصلوٰۃ و حضر المسجد و صلی خلف ابی بکر‘‘ پھر (حضرت علی) اٹھے اور نماز کا ارادہ فرمایا اور مسجد میں تشریف لائے پھر حضرت ابوبکر کے پیچھے نماز ادا فرمائی (الاحتجاج طبرسی جلد اول صفحہ 126 سطر 4 مطبوعہ ایران۔چشتی)


2 : ملا باقر مجلسی نے بھی حضرت علی کا حضرت ابوبکر کے پیچھے نماز پڑھنا لکھا ہے۔ جلاء العیون مترجم کی عبارت ملاحظہ ہو۔ جناب امیر (علیہ السلام) نے وضو کیا اور مسجد میں تشریف لائے ۔ خالد بن ولید بھی پہلو میں آکھڑا ہوا ۔ اس وقت ابوبکر نماز پڑھا رہے تھے ۔ (جلاء العیون اردو جلد اول صفحہ 213 سطر 21 - 20 مطبوعہ لاہور،چشتی)


کیا پیغمبر علیہ السلام جناب علی (رضی ﷲ عنہ) کی خلافت تحریر فرمانا چاہتے تھے ، حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے کاغذ ، قلم و دوات طلب فرمائی تو انہوں نے نہ دی بلکہ یہ کہا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہذیان کہتا ہے اور ہمیں ﷲ تعالیٰ کی کتاب کافی ہے ۔ یہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے بڑی غلطی کی ؟

جواب : جھوٹوں پر خدا کی لعنت ، آپ کی پہلی ہی غلط ہے ۔ اہل اسلام میں کی کتب میں اس کے برعکس لکھا ہے کہ پیغمبر علیہ السلام اپنے مرض الموت میں جناب ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی خلافت تحریر فرما گئے تھے۔ جیسا کہ مشکوٰۃ شریف ص 555 پر واضح الفاظ موجود ہیں نیز اس طعن کرنے سے اتنا پتہ چل گیا کہ غدیر خم کے موقع پر حضرت علی رضی ﷲ عنہ مقرر نہیں ہوئے تھے اور عید غدیر مناکر شیعہ لوگ خواہ مخواہ بدنام ہورہے ہیں ۔ آپ کا یہ دعویٰ پیغمبر علیہ السلام نے کاغذ ، قلم ، دوات حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے طلب فرمائی تو یہ بھی جھوٹ ہے بلکہ آپ نے جمیع حاضرین سے (جن میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ ، حضرت عباس رضی ﷲ عنہ اور گھر کی خواتین وغیرہ بھی شامل ہیں) کاغذ ، قلم ، دوات طلب فرمایا ۔ جیسا کہ بخاری شریف کتاب الجزیۃ باب اخراج الیہود من جزیرۃ العرب صفحہ 426 رقم الحدیث 2932 میں ہے : فقال ائتونی بکتف اکتب لکم کتاباً ۔ یعنی حضرت اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کتف لائو تاکہ میں تمہیں ایک ایسی تحریر لکھ دوں کہ جس کے بعد تم راہ حق کو نہ گم کرو ۔

غور فرمایئے ۔ حدیث میں ’’ائتونی‘‘ صیغہ جمع مذکر مخاطب بول کر پیغمبر علیہ السلام جمیع حاضرین سے کتف طلب فرما رہے ہیں ، نہ کہ فقط حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے اور ان سے طلب ہی کیوں فرماتے جبکہ وہ ان کا گھر ہی نہ تھا کہ جس میں قلم دوات طلب کی گئی بلکہ حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا کا حجرہ تھا ۔ جیسا کہ بخاری شریف جلد 1 صفحہ 382 پر ہے اور پھر اگر قریب تھا تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا گھر لہٰذا اگر خاص طور پر فرماتے تو ان سے کہ جن کا گھر قریب تھا ۔ (تمام شیعہ متفق ہیں کہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کا گھر مدینہ شریف کے آخری کونہ پر تھا) بہرحال نقل و عقل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قلم ، دوات طلب نہیں فرمائی ۔


2 : آپ اس کا کیا جواب دیں گے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس واقعہ کے تین دن بعد تک حیات رہے لیکن حضرت علی رضی ﷲ عنہ اس کے باوجود بھی ان کی تعمیل حکم نہ کرسکے اور بقول شیعہ خلافت بھی اُنہی کی تحریر ہونی تھی اور ادھر حکم رسول بھی تھا۔ لہذا اگر باقی سب صحابہ مخالف تھے تو ان پر لازم تھا کہ چھپے یا ظاہر ضرور لکھوا لیتے تاکہ بعد میں یہی تحریر پیش کرکے خلیفہ بلا فصل بن جاتے مگر یہ سب کچھ نہیں ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ تو تحریر ہی سرے سے ضروری نہ تھی بلکہ ایک امتحانی پرچہ تھا کہ جس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کی رائے سے اتفاق فرمایا ورنہ آپ پرحق اور وحی چھپانے کا الزام عائد ہو گا ، حالانکہ جماعتِ انبیاء علیہم السلام اس سے بالاتر ہے ۔


3 : اگر یہ ضروری تحریر تھی یا وحی الٰہی تھی اور کاغذ دوات نہ لانے والا خواہ مخواہ ہی مجرم ہوا تو اس جرم کے اولاً مرتکب اہل بیت قرار پاتے۔ اس لئے کہ وہ ہروقت گھر میں رہتے تھے ۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ جن کا گھر باقی صحابہ کی نسبت قریب تھا اور اگر وہ مجرم نہیں تو حضرت عمر رضی ﷲ عنہ بھی مجرم نہیں ۔ لہٰذا شیعوں کا یہ کہنا کہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے کاغذ اور دوات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طلب فرمائی، باطل ہوا ۔


کیا حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے (العیاذ باﷲ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہذیان کی نسبت کی ؟

جواب : یہ بھی جھوٹ اور افتراء ہے بلکہ بخاری شریف کتاب الجزیۃ باب اخراج الیہود من جزیرۃ العرب صفحہ 426 رقم الحدیث 2932 پر یوں موجود ہے : فقالوا مالہ اہجر استفہموہ ۔ یعنی حاضرین نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا سے ہجرت فرمانے لگے ہیں ۔ آپ سے دریافت تو کرلو ۔

اور عبارت میں ’’قالوا‘‘ بصیغہ جمع مذکر غائب موجود ہے لہٰذا پہلی جہالت تو شیعوں کی یہ ہوئی کہ صیغہ جمع سے ایک شخص واحد حضرت عمر رضی ﷲ عنہ مراد لے لیا ۔ دوسری جہالت یہ کہ ’’ہجر‘‘ کا معنی برخلاف عربیت بلکہ برخلاف سباق و سیاق ہذیان لکھ مارا حالانکہ ’’ہجر‘‘ بمعنی ہذیان کیا جائے تو آگے ’’استفہموہ‘‘ کا کوئی مطلب نہیں ہوسکتا کیونکہ شیعوں کے ماسویٰ کوئی عقلمند بھی نہیں ملے گا کہ پہلے کسی کو مخبوط الحواس اور مجنون سمجھ لے اور پھر اس سے اس کے ہذیان کا مطلب پوچھنے لگے ، بہرحال صیغہ ’’استفہموہ‘‘ نے بتادیا کہ ’’اہجر‘‘ کے معنی وہی دار دنیا سے جدا ہونے کا ہی ہے ، نہ کچھ اور اگر ’’ہجر‘‘ بمعنی ہذیان بھی تسلیم کرلیا جائے تو بھی مفید نہیں کیونکہ ’’اہجر‘‘ میں ہمزہ استفہام انکاری موجود ہے کہ جس سے نفی ہذیان مفہوم ہورہا ہے معنی یہ ہوگا کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کوئی ہذیان فرما رہے ہیں ۔ نہیں ہرگز نہیں بلکہ ہوش سے فرما رہے ہیں ذرا دریافت تو کرلو بہرکیف حضرت عمر رضی ﷲ عنہ تو ویسے ہی اس مقولہ کے قائل نہ تھے ، باقی رہے قائلین تو چونکہ ’’ہجر‘‘ بمعنی ہذیان ثابت نہیں ہوا۔ اگر ہوا تو بوجہ ہمزہ استفہام منفی ہوگیا لہذا وہ بھی اس سے بری ہو گئے ۔


اگر یہی بات ہے تو پھر حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے ’’حسبنا کتاب ﷲ‘‘ کیوں کہا ؟

جواب : اول تو اکثر روایات میں حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کا یہ مقولہ ہی نہیں شمار ہوا ۔

2 : حضرت عمر رضی ﷲ عنہ بخوبی جانتے تھے کہ ﷲ کا دین اور قرآن پاک کا نزول مکمل ہوچکا ہے کہ جس پر ’’الیوم اکملت لکم دینکم‘‘ شاہد ہے پس آپ نے گمان کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ حکم وحی الٰہی کی وجہ سے نہیں اور وجوب نہیں بلکہ بطور مشورہ ہے تو آپ نے بطور مصلحت اور مشورہ عرض کردیا کہ یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ تحریر قرطاس کی تکلیف نہ فرمائیں ۔ کتاب ﷲ کو ہمارے لئے کافی سمجھیں جس پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے موافقت ظاہر فرمائی اور تحریر قرطاس پر زور دینے والوں کو ڈانٹ دیا۔ چنانچہ بخاری شریف کتاب الجہاد والسیر ، باب ہل یستشفع الی اہل الذمۃ ومعاملتہم جلد 10 صفحہ 268 رقم الحدیث 2825 پر ہے : دعونی فالذی انا فیہ خیر مما تدعونی الیہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے اپنے کلام میں قرآن کو مسلمان کےلیے کافی ہونا کا بیان کیاہے تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا نہج البلاغہ جلد 3 صفحہ 57 پر ہے : وﷲ وﷲ فی القرآن ‘‘ نیز کتاب مذکور جلد 2 صفحہ 27 پر ہے ’’فاوصیک بالاعتصام بحبلہ‘‘ اور جلد 2 صفحہ 22 پر ہے ’’ومن اتخذ قولہ دلیلا ہدی‘‘ دیکھئے حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے بھی ہدایت کے لئے قرآن کو کافی قرار دیا۔ لہذا اگر حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے قول سے انکار بالسنۃ لازم نہیں آتا تو حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کے قول سے لازم کیوں آئے گا؟ اگر بربنائے نیتی و مصلحت مشورہ دینا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی ہرگز نہیں ہے ۔


جنگ حدیبیہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی اسے مٹایئے (لفظ ’’رسول ﷲ‘‘ کے بارے میں) توحضرت علی رضی ﷲ عنہ نے پیغمبر علیہ السلام کو صاف جواب دیا کہ میں اسے ہرگز نہیں مٹاٶں گا ۔ جب رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے وہ الفاظ اپنے ہاتھ مبارک سے مٹادیئے ۔ اگر اس واقعہ میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو نافرمان نہیں کہا جا سکتا تو حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو بھی نہ کہا جائے کیونکہ بربنائے مصلحت و حکمت حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حکم نبوی کی خلاف ورزی کی ہے تو حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو بھی کہا جا سکتا ہے ۔ لیکن ہم کہتے ہیں نہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے خلاف ورزی کی ہے ، نہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے بلکہ وہی ہوا جو رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تھے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

بریلوی اہل سنت و جماعت کی پہچان

بریلوی اہل سنت و جماعت کی پہچان محترم قارئینِ کرام : بے شک ’’بریلوی‘‘ اور مسلک اعلیٰحضرت سچے پکے اصلی اور حقیقی اہلسنت کی علامت و نشان و شنا...