مرتد ، زندیق و عام کافر میں فرق اور قادیانیوں سے تعلق و میل جول رکھنا
محترم قارئینِ کرام : فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے مختلف لبرلز کے مضامین پڑھے اور مختلف ٹی وی پروگرامز سنے جن میں کچھ نام نہاد اسکالرز قادیانیوں کی حمایت کر رہے تھے کہ وہ بھی ایک اقلیت ہیں ان کے بھی حقوق ہیں جی ہاں اسلام میں اقلیتوں کے حقوق کا بہت خیال رکھا گیا ہے مگر عام کافر اور قادیانی مرتدوں و زندیقوں میں فرق ہے اس سے قبل فقیر ایک مضمون لکھ چکا ہے بنام (قادیانی اور عام کافر میں فرق) اب پیشِ خدمت ہے ان جدید لبرلز و دیسی لبرلز کے مغالطوں کا جواب اہلِ ایمان سے گذارش ہے ایک بار ضرور پڑھیں بڑی محنت سے یہ مضمون تیار کیا گیا ہے اہل علم اصلاح فرمائیں : ⏬
فتاویٰ شامی میں ہے : کافر وہ شخص ہےجودین اسلام کو ظاہراً و باطناً ماننے والانہ ہو ۔ زندیق وہ شخص ہے جوزبان سےتو مسلمان ہونے کا اقرار کر رہا ہو لیکن احکامِ اسلام کی باطل تاویل کرتاہو ۔ مرتد وہ شخص ہےکہ اپنی مرضی اور رضا مندی سے اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام سے پھر جائے ۔ ملحد لغوی تعریف کے اعتبار سےتو کفر کی تمام اقسام کو شامل ہے اور اصطلاحی معنی کے اعتبار سےاس شخص کو کہا جاتا ہے جو بظاہر تو دین حق کا اقرار کرتا ہے، لیکن ضروریات دین میں سے کسی امر کی ایسی تعبیر و تشریح کرتا ہے جو صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم نیز اجماعِ امت کے خلاف ہو ۔ اور منافق اس کو کہا جاتا ہے جو زبان سے تو دین حق کا اقرار کرتا ہے ، مگر دل سے اس کا منکر ہو ۔ (فتاوی شامی جلد ۴ صفحہ ۳۴۱ مطبوعہ ایچ ایم سعید کراچی)
زندیق شرعاً اس شخص کو کہا جا تا ہے جو نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلّم کی نبوت کا اقرار کرتا ہو اور شعائر اسلا م کا اظہار کرتا ہو مگر کسی کفریہ عقیدہ پر ڈٹا ہو اہو ۔ زندیق اور ملحد جو بظاہر اسلام کا کلمہ پڑھتا ہو مگر خبیث عقائد رکھتا ہو اور غلط تاویلات کے ذریعے اسلامی نصوص کو اپنے عقائد خبیثہ پر چسپاں کرتا ہو۔ اس کی حالت کافر اور مرتد سے بھی بدترہے کہ کافر اور مرتدکی توبہ بالا تفاق قابل قبول ہے مگر بقول علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ زندیق کا نہ اسلام معتبر ہے نہ کلمہ ، نہ اس کی توبہ قابل التفا ہے ۔ الایہ کہ وہ اپنے تمام عقائد خبیثہ سے برأت کا اعلان کرے ۔
حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ زندیق کا معنی بیان کر تے ہیں : وہ جو کفر کو چھپاتا ہو اور ایمان کو ظا ہر کر تا ہو ۔ (مرقات جلد ۷ صفحہ ۱۰۴)
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں کہ : زندیق ملمع سازی کر کے اپنے کفر کو پیش کرتا ہے فاسد عقید ہ کی ترویج کر تا ہے اور اس کو صحیح صورت میں ظا ہر کر تاہے اور کفرکے چھپانے کا یہی مطلب ہے ۔ (فتاویٰ شامی جلد ۳ صفحہ ۳۲۴،چشتی)
زندیق کی تعریف میں جو عقائد کفریہ کا دل میں رکھنا ذکر کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مثل منافق کے اپنا عقیدہ ظاہر نہیں کرتا ۔ بلکہ یہ مراد ہے کہ اپنے عقائد کفریہ کو ملمع کرکے اسلامی صورت میں ظاہر کرتا ہے ۔
مرتد وہ شخص ہے کہ اسلام کے بعد کسی ایسے اَمر کا انکار کرے جو ضَرور يا تِ دین سے ہو یعنی زَبان سے (ایسا)کلِمۂ کفر بکے جس میں تاویلِ صحیح کی گنجائش نہ ہو۔ یونہی بعض افعال بھی ایسےہوتے ہیں جن سے کافر ہوجاتا ہے مَثَلاً بُت کو سجدہ کرنا ۔ مُصحَف شریف (قرآن پاک) کو نَجاست کی جگہ پھینک دینا ۔ (بہار شریعت حصہ 9 صفح 173)
مُرتَد کی دُنیا میں سزا : ⏬
بہارِ شریعت حصّہ 9 صَفْحَہ 174 تا 175 پر صدرُ الشَّریعہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو شخص مَعاذَاللہ عَزَّوَجَلَّ مُرتَد ہو گیا تو مُستَحَب ہے کہ حاکمِ اسلام اُس پر اسلام پیش کرے اور اگر وہ کچھ شُبہ بیان کرے تو اُس کا جواب دے اور اگرمُہلَت مانگے تو تین دن قید میں رکھے اور ہر روز اسلام کی تلقین کرے ۔ یوہیں اگر اُس نے مُہْلَت نہ ما نگی مگر امّید ہے کہ اسلام قَبول کر لے گا جب بھی تین دن قید میں رکھا جائے ۔ پھر اگر مسلمان ہو جائے فَبِہا(یعنی بَہُت بہتر)ورنہ قتل کر دیا جائے ۔ بِغیر اسلام پیش کیے اُسے قتل کر ڈالنا مکر وہ ہے ۔ (دُرِّمُختار جلد 6 صفحہ 346۔349،چشتی)
کیا مُرتَد کو ہرکوئی قَتل کر سکتا ہے ؟ : ⏬
جی نہیں ۔ یہ صرف بادشاہِ اسلام کا کام ہے ۔ چُنانچِہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مُرتَد کو قید کرنا اور اسلام نہ قبول کرنے پر قتل کر ڈالنا بادشاہِ اسلام کا کام ہے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ ایسا شخص اگر زندہ رہا اور اس سے تَعَرُّض نہ کیا گیا (یعنی روک ٹوک نہ کی گئی ) تو ملک میں طرح طرح کے فساد پیدا ہو نگے اور فتنہ کا سلسلہ روز بروز ترقّی پذیر ہو گا ، جس کی وجہ سے اَمْنِ عامّه میں خَلل پڑیگا ، لہٰذا ایسے شخص کو ختم کر دینا ہی مُقتَضائے حکمت (یعنی مَصلَحت کا تقاضا) تھا ۔ اب چُونکہ حکومتِ اسلام ہندوستان میں باقی نہیں ، کوئی روک تھام کرنے والا باقی نہ رہا ، ہر شخص جو چاہتا ہے بکتا ہے اور آئے دن مسلمانوں میں فَساد پیدا ہوتا ہے ، نئے نئے مذہب پیدا ہوتے رہتے ہیں ، ایک خاندان بلکہ بعض جگہ ایک گھر میں کئی مذہب ہیں اور بات بات پر جھگڑے لڑائی ہیں، ان تمام خرابیوں کا باعِث یِہی نیا مذہب ہے۔ ایسی صورت میں سب سے بہتر ترکیب وہ ہے جو ایسے وقت کے لیے قراٰن و حدیث میں ارشاد ہوئی، اگر مسلمان اُس پر عمل کریں تمام قِصّوں سے نَجات پائیں دنیا و آخِرت کی بھلائی ہاتھ آئے۔ وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے بالکل مَیل جُول چھوڑ دیں، سلام کلام ترک کر دیں، ان کے پاس اُٹھنا بیٹھنا، اُن کے ساتھ کھانا پینا، اُن کے یہاں شادی بیاہ کرنا غَرَض ہر قسم کے تعلُّقات ان سے قَطع کر دیں گویا سمجھیں کہ وہ اب رہا ہی نہیں ۔ (بہارِ شریعت حصّہ 9 صفحہ 175)
عورت یا بچّہ مُرتَد ہو تو سزا : ⏬
علامہ مولیٰنا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : عورت یا نابالِغ سمجھ وال(یعنی سمجھدار )بچّہ مُرتَد ہو جائے تو قتل نہ کرینگے ۔ بلکہ قید کرینگے یہاں تک کہ توبہ کرے اور مسلمان ہو جائے ۔ (بہارِ شریعت حصّہ 9 صفحہ 175،چشتی)(عالمگیری جلد 2 صفح 254)
مُرتَد کی اولاد حرامی ہوتی ہے : ⏬
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ فُقَہائے کرام رَحِمَھُمُ اللہُ علیہم سے نَقل فرماتے ہیں : جو شخص معاذَاللہ مُرتَد ہو جائے اُس کی عورت حرام ہو جاتی ہے ، پھر اسلام لائے تو اُس سے جدید نکاح کیا جائے ۔ اس سے پہلے اس کلِمۂ کفر کے بعد کی صُحبت سے جو بچّہ ہو گا حرامی ہو گا اور یہ شخص اگر عادت کے طور پر کلمهٔ شہادت پڑھتا رہے کچھ فائدہ نہ دے گا جب تک اپنے اس کُفر سے توبہ نہ کرے کہ عادت کے طور پرمُرتَد کے کلمہ پڑھنے سے اس کا کُفر نہیں جاتا ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 14 صفحہ 299 ۔300،چشتی)
کیا مُرتد کے تمام اعمال ضائِع ہو جاتے ہیں ؟ : ⏬
کُفْر قَطْعی بک کریا اِس طرح کا فِعلِ کفر کر کے جو کافر ومُرتَدہوا اس کے تمام اَعْمال برباد ہو جاتے ہیں ۔ پارہ 2 سُورَۃُ الْبَقَرَہ آیت نمبر217 میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے : وَمَنۡ یَّرْتَدِدْ مِنۡکُمْ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَیَمُتْ وَہُوَکَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمٰلُھُمْ فِی الدُّنْیَا وَالۡاٰخِرَۃِۚ وَ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ ھُمْ فِیۡھَا خٰلِدُوۡنَ ۔
ترجمہ : اورتم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے پھر کافر ہو کر مرے توان لوگوں کا کیا اکارت گیادنیا اور آخِرت میں اور وہ دوزخ والے ہیں انہیں اس میں ہمیشہ رہنا ۔ (پارہ 2 سورہ البقرۃ آیت نمبر 217)
کُفْر بکنے والے کی ہاں میں ہاں ملانے والے کا حکم : ⏬
اگر فِقہی و لُزومی کفر بکا ہے تو بکنے والا اور ہاں میں ہاں ملانے والا اسلام سے خارِج نہ ہوئے اور سابِقہ نیک اَعمال بھی برباد نہ ہوئے۔ البتّہ توبہ و تجدید ِایمان فرض ہے اور بیوی والے کو تجدیدِ نکاح کا حکم دیا جائے گاالبتّہ بِلا اِکراہِ شَرعی ہوش و حَواس میں صریح کُفر بکنے والا ، ایسے ہی صریح کلمهٔ کفر کے معنیٰ سمجھنے کے باوُجود ہاں میں ہاں ملانے والا اور تائید میں سرہِلانے والا بھی کافِر و مُرتد ہو جاتا ہے اور شادی شدہ تھا تونِکاح ٹوٹ جاتا، کسی کا مُرید تھا تو بَیعت ختم ہو جاتی اور زندَگی بھر کے نیک اعمال برباد ہو جاتے ہیں ، اگر حج کر لیا تھا تو وہ بھی گیا ، اب بعدِ تجدِید ایمان صاحِبِ استِطاعت ہونے پر نئے سِرے سے حج فرض ہو گا ۔
مُرتَد دوبارہ ایمان لائے تو نَماز روزے کے مسائل : ⏬
مُرتد ہوتے ہی اُس کے پچھلے تمام نیک اَعمال بَشُمُول نَماز، روزہ، حج وغیرہ ضائِع ہو گئے ۔ دوبارہ ایمان لانے کے بعد یہ ہے کہ جونَمازیں زمانۂ اسلام میں قَضا ہوئی تھیں اُن کی قَضا ایمان لانے کے بعد بھی باقی ہے اور یِہی حکْم روزۂ رمضان کا ہے ۔ چُنانچِہ دُرِّمُختار میں ہے : اور زمانۂ اسلام میں جو عبادتیں ترک کیں ، اِرتِدَاد یعنی دین سے مُنْحَرِف ہونے (دین سے پھر جانے) کے بعداز سرِ نو مسلمان ہونے پر ان کو دوبارہ ادا کرے ، کیونکہ نَماز اور روزہ کا ترک گُناہ ہے اور اِرتِدَاد کے بعد (اگر چِہ نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں مگر) گناہ باقی رہتے ہیں ۔ اگر (پہلے حج کر لیا ہو تب بھی) صاحِبِ استِطاعت ہونے پر حج نئے سِرے سے فرض ہوگا ۔ (دُرِّمختار جلد 6 صفحہ 383 ۔ 385)
ہاں زمانہ ٔاِرتدِاد میں رہ جانے والی نَمازوں اور دیگر عبادتوں کی قضاء نہيں ہے اور اس دوران جو عبادَتیں کی ہیں وہ مقبول بھی نہیں ۔
مُرتَدین کی صُحبت سے ایمان برباد ہو سکتا ہے : ⏬
یہ یاد رہے کہ بِغیر دلیلِ قَطعی صِرف شک کی بنا پر کسی کو مُرتَد نہیں بول سکتے۔مُرتَدین کے ساتھ نِشَست و بَرخاست (یعنی اٹھنے بیٹھنے) کے مُتَعَلِّق کئے جانے والے ایک سُوال کے جواب میں میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ جلد 21 صَفْحَہ 278 پر فرماتے ہیں:ان کے پاس نِشَست و بَرخاست حرام ہے اُن سے مَیل جُول حرام ہے اگر چِہ اپنا باپ یا بھائی بیٹے ہوں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے : وَ اِمَّا یُنۡسِیَنَّکَ الشَّیۡطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیۡنَ ۔
ترجَمہ : اورجو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ ۔ (پ7 الانعام 68)
اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے : لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوۡنَ بِاللہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوۡنَ مَنْ حَآدَّ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَوْ کَانُوۡۤا اٰبَآءَھُمْ اَوْ اَبْنَآءَھُمْ اَوْ اِخْوَانَھُمْ اَوْ عَشِیۡرَتَھُمْ ؕ
ترجَمہ : تم نہ پاؤ گے ان لوگوں کوجو یقین رکھتے ہیں اللہ (عَزَّوَجَلَّ) اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں اُن سے جنہوں نے اللہ (عَزَّوَجَلَّ) اور اس کے رسول (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )سے مخالَفَت کی اگر چِہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یاکُنبے والے ہوں ۔ (پ28المجادلہ22)
فتاوٰی رضویہ جلد 14صَفْحَہ 328 پر ہے : مُرتَدّوں میں سب سے بد تر مُرتَد''مُنافِق ''ہے ۔ یِہی وہ ہے کہ اِس کی صحبت ہزار کافِر کی صُحبت سے زیادہ مُضِر (نقصان دِہ) ہے کہ یہ (بظاہِر) مسلمان بن کر کفر سکھاتا ہے ۔
مُرتَد کی نَمازِ جنازہ کا حُکمِ شَرعی : ⏬
مرتد اور کافر کے جنازے کا ایک ہی حکم ہے ۔ مذہب تبدیل کر کے عیسائی (کرسچین) ہونے والے کا جنازہ پڑھنے والے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سیِّدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت ،مجدددین و ملت ، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوٰی رضویہ جلد 9 صَفْحَہ 170 پرارشاد فرماتے ہیں : اگر بہ ثُبوتِ شرعی ثابِت ہو کہ میِّت عِیاذاً باللہ (خدا کی پناہ) تبدیلِ مذہب کرکے عیسائی (کرسچین) ہو چکا تھا تو بیشک اُس کے جنازہ کی نماز اور مسلمانوں کی طرح اس کی تَجہیز وتکفین سب حرام قَطعی تھی ۔ قالَ اللہ تعالیٰ(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے)
وَلَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنْہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَاتَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ ؕ ۔
ترجَمہ : اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑ ے ہونا ۔ (پ 10 التوبہ 84)
مگر نماز پڑھنے والے اگر اس کی نصرانیت (یعنی کرسچین ہونے)پر مطلع نہ تھے اور بربِنائے علمِ سابِق (پچھلی معلومات کے سبب) اسے مسلمان سمجھتے تھے نہ اس کی تجہیز وتکفین ونَماز تک اُن کے نزدیک اس شخص کا نصرانی (کرسچین) ہو جانا ثابت ہوا ، توان اَفعال میں وہ اب بھی معذور و بے قُصُور ہیں کہ جب اُن کی دانِست(معلومات) میں وہ مسلمان تھا، اُن پر یہ اَفعال بجالانے بَزُعْمِ خود شرعاً لازم تھے ، ہاں اگر یہ بھی اس کی عیسائیت سے خبردار تھے پھر نماز و تجہیز وتکفین کے مُرتکب (مُر۔تَ ۔ کِب ) ہوئے قطعاً سخت گنہگار اور وبالِ کبیرہ میں گرفتار ہوئے ، جب تک توبہ نہ کریں نماز ان کے پیچھے مکروہ ۔ مگرمُعامَلۂ مُرتَدین پھر بھی برتنا جائز نہیں کہ یہ لوگ بھی اس گناہ سے کافر نہ ہوں گے ۔ ہماری شَرعِ مُطَہَّر صراطِ مُستقیم ہے ، اِفراط و تفریط (یعنی حد اعتدال سے بڑھانا گھٹانا) کسی بات میں پسند نہیں فرماتی ، البتّہ اگر ثابت ہو جائے کہ اُنہوں نے اُسے نصرانی جان کر نہ صرف بوجِہ حَماقت وجَہالت کسی غَرَضِ دُنیوی کی نیّت سے بلکہ خود اسے بوجہِ نصرانیّت مستحقِ تعظیم وقابل تجہیز وتکفین ونَمازِ جنازہ تصوُّر کیا تو بیشک جس جس کا ایسا خیال ہوگا وہ سب بھی کافِر ومُرتَد ہیں اور ان سے وُہی مُعامَلہ برتنا واجِب جو مُرتدین سے برتا جائے!اوران کی شرکت کسی طرح روا نہیں ، اور شریک ومعاون سب گنہگار ۔ واللہ تعالٰی اعلم ۔
کافِر کو مرحوم کہنا کیسا ؟ : ⏬
اِرتدِاد کا علم ہونے کی صُورت میں مرحوم کہنا کُفر ہے ۔ صدرُالشَّرِیْعَہ ، بَدْرُ الطَّريقہ حضرتِ مفتی محمد امجَد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : جو کسی کافِر کےلیے اس کے مرنے کے بعد مغفِرت کی دُعا کرے یا کسی مُردہ مُرتد کو مرحوم (یعنی رحمت کیا جائے) یا مغفور (یعنی مغفرت کیا جائے) یا کسی مر ے ہوئے ہندو کو بَیْکُنْٹھ (بے ، کُنْ ، ٹھ ) باشی (یعنی جنّتی) کہے وہ خود کافِر ہے ۔ (بہارِ شريعت حصّہ1 صفحہ 97،چشتی)
خاندان کا کوئی فرد بِالفرض کافِر ہو تو ؟ : ⏬
ماں باپ یا خاندان کاکوئی فرد اگر مَعاذَاللہ کافر یا مُرتد ہو تو واقِعی سخت آزمائش ہوتی ہے ، مگر کسی صورت شریعت کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے ۔ ذَیل میں دی ہوئی آیت اور اس کے تحت دیا ہوا مضمون پڑھیں گے تو اِن شاءَ اللہ استِقامت ملنے کے ساتھ ساتھ معلومات کا خزانۂ لاجواب ہاتھ آئے گا ۔ چُنانچِہ پارہ28 سورۂ مُجادَلہ آیت نمبر22میں ارشادِ ربُّ العباد ہے : لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوۡنَ بِاللہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوۡنَ مَنْ حَآدَّ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَوْ کَانُوۡۤا اٰبَآءَھُمْ اَوْ اَبْنَآءَھُمْ اَوْ اِخْوٰنَھُمْ اَوْ عَشِیۡرَتَھُمْ ؕ ۔
ترجَمہ : تم نہ پاؤ گے ان لوگوں كو جو یقین ركھتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر كہ دوستی كریں ان سے جنہوں نے اللہ اور اس كے رسول سے مخالَفَت كی اگرچہ وہ ان كے باپ یا بیٹے یا بھائی یا كُنبے والے ہوں ۔ (پ 28المجادلہ 22)
مسلمان کی پہچان : ⏬
حکیم الامت حضر تِ مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ ، شانِ حبیبُ الرحمن صَفْحَہ 235 تا 236 پر فرماتے ہیں : یہ آیتِ کریمہ بھی حُضور عَلَیْہِ السَّلام کی نعت ہے اور مسلمانوں کی پہچان ہے ۔ اس میں مسلمانوں کی نشانی یہ بتائی گئی کہ مومِن ہرگز ایسا نہیں کر سکتا کہ اللہ و رسول عَلَیْہِ السَّلام کے دشمنوں سے مَحَبَّت رکھے اگر چِہ وہ اس کے خاص اہلِ قَرابت ہی ہوں ۔ جس سے معلوم ہوا کہ اگر چِہ ماں باپ کا بَہُت بڑا حق ہے، مگر حقِّ مصطَفٰے عَلَیْہِ السَّلام کے مقابلہ میں کسی کا کچھ حق نہیں ۔
ماں باپ اگر کافِر ہوں تو ان سے مَحَبَّت حرام ہے : ⏬
حضور عَلَیْہِ السَّلام کا حکم ہے کہ داڑھی رکھو ۔ ماں یا باپ یا یار دوست کہیں کہ داڑھی مُنڈواؤ ہرگز جائز نہیں کہ مُنڈائے ۔ رب کا حکم ہے کہ نَماز پڑھو اور روزہ رکھو ۔ ماں کہے یہ کام نہ کر۔ ماں کی بات ہرگز نہ مانی جاویگی ۔ کیوں کہ اللہ و رسول عَلَیْہِ السَّلام کا حق سب پر مُقَدَّم (یعنی سب سے بڑھ کر) ہے ۔ اسی طرح اگر کسی کا بیٹا یا بھائی یا باپ یا ماں کافر ہوں ، تو ان سے مَحَبَّت ، دوستی تمام کی تمام حرام ہیں ۔
صَحابہ رضی اللہ عنہم نے جنگ میں کافر رشتے داروں کو قَتْل کیا
اِس آیت کی تفسیر صَحابہ کرام (علیھم الرضوان) کی زِندگی ہے ۔ چُنانچِہ حضرتِ ابو عُبَیدہ بِن جَرّاح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگِ اُحُد میں اپنے والِد''جَرّاح ''کو قتل کیا ، حضرتِ سیِّدُنا ابو بکرصِدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے فرزند عبدالرحمن کو جو اُس وَقت کافِر تھے مقابلہ کے لئے بلایا کہ عبدالرحمٰن آؤ!آج باپ بیٹے دو دو ہاتھ ہو جائیں ! لیکن حُضور عَلَیْہِ السَّلام نے ان کو روک دیا (حضرتِ سیِّدُنا عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بعد میں مسلمان ہو گئے ) حضرت مُصعَب بِن عُمَیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بھائی عبدُ اللہ بن عُمَیر کو قتل کیا جو کافِر تھا اور حضرتِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ماموں عاص بِن ہَشّام بن مُغِیرہ کو قتل کیا جو کافر تھا ، اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حَمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رَبِیعہ کے لڑکوں عُتبہ اورشَیبہ کو جنگِ بدر میں قتل کیا جو ان کے قَرابت (رشتہ دار) تھے ، خدا اور رسول پر ایمان لانے والوں کو (جِسمانی) رشتہ داری کا کیا پاس ۔ (تفسیر روحُ البیان جلد 9 صفحہ 412،چشتی)(خزائن العرفان صفحہ 870)
سانپ جان اور بُرا دوست ایمان لیتا ہے : ⏬
تاتُوانی دُور شَو اَز یارِ بد مارِ بد تنہا ہمیں برجاں زَنَد
یارِ بد بدتر بُوَد اَز مارِ بد یارِ بد بَر دین و بَرایماں زَنَد
مثنوی شریف کے ان دو اشعار کا خلاصہ ہے کہ : جہاں تک ہوسکے بُرے دوست سے دُور رہو کہ بُرا دوست سانپ سے بھی زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ سانپ تو صرف جان لیتا ہے جبکہ بُرا یار ایمان لیتا ہے ۔
دولت مند (اگر) ڈاکو سے مَحَبَّت رکھے تو ایک دن (اُسی ڈاکو کے باعث)اپنی دولت برباد کر دے گا ۔ اِسی طرح دولتِ ایمان رکھنے والا اگر بے ایمانوں سے مَحَبَّت رکھے ، تو ایک دن اپنا ایمان کھو دیگا۔ آج بَہُت سی ایسی مِثالیں موجود ہیں کہ بُروں کی صحبت میں بیٹھ کر بد مذہب بن گئے ۔ (شانِ حبیب الرحمن صفحہ 235 ۔ 236)
قادِیانی کافِر ہیں : ⏬
مِرزائیوں (قادیانیوں)کے کفر پر مُطَّلع ہوکر انہیں کافِر نہ سمجھنے والا خود کافِر مرتد ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 14 صفحہ 321 )
اس میں قادیانیوں کے تمام گُروہ شامِل ہیں ۔ وہ قادِیانی بھی جو مرزا غلام احمد کو نبی مانیں اور وہ بھی جو مرزا کو مُجدِّد یا مسیح مانیں اور وہ بھی جو ان میں سے تو کچھ نہ مانیں مگر اس کو محض مسلمان مانیں بلکہ وہ بھی کافِر و مُرتَد ہیں جو اس کے عقائد کو جاننے کے باوُجُود اس کے کافِر ہونے پر شک کریں ۔ قادِیانی عقائد کی تفصیل امام اَحمد رَضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے رسائل میں موجود ہے جو ردِّ مِرزائیت کے نام سے مل سکتے ہیں ۔
فرقہ قادیانیہ جو غلام احمد قادیانی کو نبی یا مصلح و مرشد مانتا ہے ، یہ فرقہ زمانہ حال کے زنادقہ کبار میں سے ہے اور کسی اسلامی مملکت میں بحکم شرع اسے رہائش ، اقامت کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ قادیانی ختم نبوت کے منکر ہیں اور ختم نبوت کا عقیدہ ضروریات دین اسلام میں سے ہے ۔ کسی اسلامی مملکت میں یہ فر قہ جزیہ ادا کر کے بطور ذمی بھی سکونت نہیں کر سکتا کیو نکہ ان میں سے جو لوگ مسلمان تھے اور پھر قادیانی ہو گئے وہ مرتد ہیں ۔ مرتد ذمی نہیں بن سکتا ۔ اسی طرح یہ لوگ مرتد ہو نے کے علاوہ زندیق بھی ہیں لہذا ان میں جو اشخاص قادیانیت کے مبلغ و داعی ہوں ان کی توبہ قضاء مقبول نہیں ہے اور وہ زندقہ کی وجہ سے واجب القتل ہیں (مگریہ اسلامی حکومت وقت پر فرض ہے کہ شرعی سزا نافذ کر کے ان کے قتل کا حکم دے ، عوام کو اس کا اختیار نہیں) ۔ جیسا کہ اباحیہ و روافض و قرامطہ و زنادقہ فلاسفہ کی تو بہ مقبول نہیں اور وہ واجب القتل ہیں ۔ اس سے بڑھ کر اور زندقہ کیا ہو گا کہ وہ اسلام کے اندر ہمارے نبی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد کسی کی نبوت کے قائل ہیں ۔ اور جو قادیانی پیدائشی قادیانی ہوں یعنی قادیانی خاندان میں پیدا ہوئے اور پھر اسی عقیدہ پر قائم رہتے ہوئے بڑے ہو گئے وہ بھی کسی اسلامی مملکت میں ازروئے شریعت اسلامیہ سکونت و اقامت کے مجاز نہیں ہو سکتے ۔ اور وہ جزیہ ادا کر کے ذمی بھی نہیں بن سکتے بلکہ وہ زندیق ہیں ۔ اگر وہ قادیانیت کے داعی و مبلغ ہوں تو ان کی تو بہ قضاء مقبول نہیں ہو سکتی اور اگر داعی و مبلغ نہ ہوں تو ان کی تو بہ قبول ہو سکتی ہے ۔
قادیانیوں سے تعلق اور میل جول رکھنا کیسا ؟ : ⏬
قادیانی باِجماع امت کافر اور زندیق ہیں ان سے تعلقات اور میل جول رکھنا جائز نہیں ، اسی طرح ان سے خندہ پیشانی سے پیش آنا ، مصافحہ کرنا ، ملنا جلنا ، اور ان کے ساتھ کھانا پینا ناجائز اور ممنوع ہے ، قال اللہ تعالی: وَلَا تَرْکَنُوْا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ الآیة، وفي الجلالین : ولا ترکنوا تمیلوا إلی الذین ظلموا بموادة أو مداہنة أو رضي بأعمالہم فتمسّکم تصبکم النار ۔ (تفسیر جلالین جلد ۱ صفحہ ۱۸۹،چشتی)(تفسیر الکشّاف: والنہي تناول للانحطاط في ہواہم والانقطاع إلیہم ومصاحبتہم ومجالستہم وزیارتہم ومداہنتہم والرضی بأعمالہم والتشبہ لہم والتزي بزیہم ومدّ العین إلی زہرتہم وذکرہم بما فیہ تعظیم لہم ۔ کشاف جلد ۲ صفحہ ۹۵)
قادیانی چونکہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں جس سے بسا اوقات ان کے کفریہ عقائد مخفی رہ جاتے ہیں اور ساتھ رہنے والا ان کو حق پر سمجھنے لگتا ہے جس سے اس کے عقائد کے خراب ہوجانے کا قوی اندیشہ رہتا ہے ، اس لیے ان سے زندگی کے ہرمعاملات میں تعلق قائم کرنے سے احتراز ضروری ہے ۔ (گو غیرمسلموں سے دنیاوی معاملات کرنے میں کوئی حرج نہیں) مگر ان کا معاملہ غیرمسلموں سے بھی سخت ہے ۔
یاد رکھیے کہ یوں تو "کفر" کی بہت سی قسمیں ہیں مگر کفر کی یہ قسمیں بالکل ظاہر ہیں ۔
مطلق کافر : وہ کافر ہے جو ظاہر و باطن سے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا منکر ہو یا اعلانیہ کفر کا مرتکب ہو۔ اس قسم کے کافر کو مُطلق (کھلا) کافر کہتے ہیں ۔ اس میں یہودی ، عیسائی ، ہندو وغیرہ سب داخل ہیں ۔ مشرکین مکہ بھی داخل تھے اور واضح کافر تھے ۔
مرتد : وہ کافر ہوتا ہے جو اسلام کو ترک کر کے کوئی اور مذہب اختیار کر لے ۔
منافق : وہ کافر ہے جو زبان سے ''لا الہ الا اللہ'' کہتا ہے مگر دل کے اندر کفر چھپاتا ہے ۔
زندیق : ان منافقوں سے بڑھ کر اس قسم والوں کا "کفر" ہے کہ یہ کافر تو ہیں مگر اپنے " کفر" کو "اسلام" کہتے ہیں ۔ اور اسلام کو "کفر"۔
یہ قادیانی ہیں جو نہ صرف اپنے "خالص کفر کو اسلام کے نام سے" پیش کرتے ہیں بلکہ قرآن کریم کی آیات ، احادیث طیبہ، صحابہ کے ارشادات اور بزرگانِ دین کے اقوال سے توڑ موڑ کر "اپنے کفر کو اسلام ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں"۔ ایسے لوگوں کو شریعت کی اصطلاح میں ''زندیق'' کہا جاتا ہے ۔
تو تمام قادیانی "زندیق" ہیں ۔ قادیانیوں کی سو نسلیں بھی بدل جائیں تو ان کا حکم زندیق اور مرتد کا رہے گا ۔ مطلق کافر کا حکم نہیں ہوگا کیوں ؟ اس لیے کہ ان کا جرم "اپنے" کفریہ مذہب کو اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اسلام کو کفر کہنا" ان کی آئندہ نسلوں میں بھی پایا جاتا ہے ۔ الغرض قادیانی جتنے بھی ہیں خواہ وہ اسلام چھوڑ کر مرتد ہوئے ہوں ، یا وہ ان کے بقول ''پیدائشی قادیانی'' ہوں قادیانیوں کے گھر میں پیدا ہوئے ہوں , یا "کفر" ان کو ورثے میں ملا ہو ، ان سب کا ایک ہی حکم ہے یعنی پہلے والے مرتد اور دوسرے والے زندیق ۔
اس مسئلہ کو خوب سمجھ لیجیے ۔ بہت سے لوگوں کو تشویش ہوتی ہے کہ قادیانیوں کو دیگر کفار کی طرح کیوں نہیں سمجھا جاتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے تمام کافر اپنے "کفر" کا اعتراف کرتے ہیں اور اپنے آپ کو غیر مسلم کہتے اور مسلمانوں سے الگ قرار دیتے ہیں ، جبکہ قادیانی اپنے کفریہ عقائد پر ملمع سازی کرکے اس کو "اسلام" کہتے ہیں ۔ اور اسلام کو کفر کہتے ہیں. یوں مسلمانوں بلکہ ساری دنیا کو دھوکا دیتے ہیں ۔ لہٰذا یہ زندیق ہیں ۔ اس کی چند امثال مرزا کی کتب سے ملاحظہ کیجیے ۔
مرزا غلام احمد قادیانی اپنے متعلق لکھتا ہے : جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے ۔ (تذکرہ صفحہ نمبر 280)
کُل مسلمانوں نے مجھے قبول کر لیا اور میری دعوت کی تصدیق کر لی مگر کنجریوں اور بدکاروں کی اولاد نے مجھے نہیں مانا ۔ (آئینہ کمالات صفحہ ٥٤٧)
جو دشمن میرا مخالف ہے. وہ عیسائی ، یہودی ، مشرک اور جہنمی ہے ۔ (نزول المسیح صفحہ ٤)(تذکرہ صفحہ ٢٢٧)
میرے مخالف جنگلوں کے سؤر ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں ۔ (نجم الہدیٰ صفحہ ٥٣ مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)
جو ہماری فتح کا قائل نہ ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں ۔ (انوارالاسلام صفحہ ٣٠ مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)
جو شخص مجھ پر ایمان نہیں رکھتا وہ کافر ہے ۔ (حقیقت الوحی نمبر ١٦٣، از مرزا غلام احمد قادیانی )
اسی طرح مرزا بشیر احمد (مرزا غلام احمد قادیانی کا بیٹا).غلام احمد قادیانی کے نہ ماننے والوں کے بارے میں لکھتا ہے : کُل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے ۔ خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کا نام بھی نہیں سنا ۔ وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔ (آئینہ صداقت صفحہ نمبر ۳۵،چشتی)
مرزا بشیر احمد ایک اور کتاب میں لکھتا ہے : ہرایک ایسا شخص جو موسیٰ کو تو مانتا ہے مگر عیسیٰ کونہیں مانت, یا عیسیٰ کو مانتا ہے مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتا, اور یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کومانتا ہے پر مسیح موعود (مرزاقادیانی) کو نہیں مانتا. وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ (کلمہ الفصل صفحہ 110)
ملاحظہ کیجیے کہ مرزائی "اپنے دین کا نام اسلام اورہمارے دین کا نام کفر رکھتے ہیں ۔ اور مرزا پر ایمان نہ لانے والی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ساری امت کو "کافر" قرار دیتے ہیں ۔ یہ ہے "زندقہ" کہ اپنے خالص کفر کو اسلام کا نام دینا ، مرزا قادیانی کے دو بڑے جرم ہوئے ۔ ایک یہ کہ نبوت کا دعویٰ کر کے ایک نیا دین ایجاد کیا اور اس کا نام اسلام رکھا ۔ دوسرا جرم یہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لائے ہوئے دین کو کُفر کہا ۔ آپ بتائیے کہ کیا کسی یہودی ، عیسائی ، ہندو ، سکھ ، پارسی یا مجوسی نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے ؟ ۔ کیا انہوں نے اپنے مذہب کو اسلام کہا ہے ؟ ۔ اب تو آپ کی سمجھ میں آگیا ہوگا کہ مرزاقادیانی اورمرزائیوں کا کفر اس قدر بدترین کیوں ہے ۔ اور یہ دنیا بھر کے کافروں سے بدتر کافر و زندیق کیوں ہیں ۔ صرف یہی نہیں بلکہ مرزائی قادیانی بد ترین گستاخان رسول بھی ہیں ۔ کیونکہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالا ہے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد ایک اور نبی گھڑ لیا ہے ۔ اس کے علاوہ مرزا نے اپنی کتب میں جابجا اللہ کے مقرب نبی مسیح (عیسیٰ بن مریم) علیہ السلام کو گندی ننگی گالیاں دی ہیں ۔ چند نمونے ملاحظہ کیجیے : ⏬
مرزا قادیانی بکتا ہے کہ : ایک دفعہ مجھے ایک دوست نے صلاح دی کہ ذیابیطس کے لئے افیون مفید ہوتی ہے پس علاج کی غرض سے مضائقہ نہیں کہ افیون شروع کر دی جائے ، میں نے جواب دیا کہ آپ نے مہربانی کی کہ ہمدردی فرمائی لیکن اگر میں ذیابیطس کے لئے افیون کھانے کی عادت کر لوں تو میں ڈرتا ہوں کہ لوگ ٹھٹھا کرکے یہ نہ کہیں کہ پہلا مسیح (عیسیٰ علیہ السلام) تو شرابی تھا اور دوسرا (مرزا قادیانی) افیونی ہوا ۔ (خزائن جلد 19 صفحات 434 تا 435،چشتی)
مزید بکتا ہے کہ : ایک دفعہ حضرت عیسیٰ زمین پر آئے تھے تو اس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ کئی کروڑ لوگ دنیا میں مشرک ہوگئے ۔ دوبارہ آکر کیا بنائیں گے کہ لوگ ان کے آنے کی خواہشمند ہیں ۔ (اخبار بدر ۔ قادیان ، مورخہ 9 مئی 1907ء جلد 6 نمبر 19 صفحہ 5)
قادیانی اور عام کافر میں فرق : ⏬
محترم قارئینِ کرام : قادیانی اور دوسرے غیر مسلموں میں فرق ہے اسی فرق کی بنا پر دوسرے غیر مسلموں کے ساتھ میل ملاپ اورضروری تعلقات کی اجازت ہے اور قادیانیوں کے ساتھ ایسے کسی تعلق کی اجازت نہیں ہے ۔
قادیانی مرتد اور زندیق ہیں ، مرتد وہ ہوتا ہے جو اسلام کو ترک کر کے کوئی اور مذہب اختیار کر لے اور زندیق وہ ہوتا ہے جو اپنے کفریہ عقائد کو اسلام کا نام دے ، لہذا یہ لوگ اسلام کے باغی ہیں ، اور جس طرح کسی ملک کاباغی کسی رو رعایت کا مستحق نہیں ہوتا بلکہ جو لوگ ان لوگوں کے ساتھ میل جول رکھیں وہ بھی قابل گرفت ہوتے ہیں ، ٹھیک اسی طرح چونکہ قادیانی بھی زندیق اور مرتد ہیں تو اسلامی تعلیمات کے رو سے کسی رو رعایت اور میل ملاپ کے مستحق نہیں ، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہود و نصاریٰ کے ساتھ تعلق رکھا اور معا ہد ہ بھی کیا، مگر مدعیان نبوت (اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب) کے ساتھ نہ صرف تعلقات کو ناجائز قرار دیا، بلکہ حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ اسود عنسی کا کام تمام کرایا اور مسیلمہ کذاب کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ٹھکانے لگایا ۔
اس لیے کہ دوسرے کافر اپنے کفر کا اعتراف کرتے ہیں اور اپنے آپ کو غیر مسلم اور مسلمانوں سے الگ قرار دیتے ہیں، جبکہ قادیانی عقائد پر ملمع سازی کرکے مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہیں اور ان ہر دوکو ایک مثال سے پیش کرتا ہوں۔سب کومسئلہ معلوم ہے کہ شریعت میں شراب ممنوع ہے ۔
شراب کا پینا ، اس کا بنانا ، اس کا بیچنا تینوں حرام ہیں اور یہ بھی معلوم ہیں کہ شریعت میں خنزیر حرام اور نجس العین ہے ۔ اس کا گوشت فروخت کرنا، لینا دینا، کھانا پیناقطعی حرام ہے۔ اب ایک آدمی وہ ہے جو شراب فروخت کرتا ہے یہ بھی مجرم ہے، اور ایک دوسرا آدمی ہے جو شراب فروخت کرتا ہے اور مزید ستم یہ کرتا ہے کہ شراب پر زمزم کا لیبل چپکاتا ہے یعنی شراب بیچتا ہے اس کو زم زم کہہ کر، مجرم دونوں ہیں لیکن ان دونوں مجرموں کے درمیان کیا فرق ہے؟ وہ آپ خوب سمجھتے ہیں ۔
اسی طرح آدمی خنزیر فروخت کرتا ہے مگر اس کو خنزیر کہہ کر فروخت کرتا ہے ۔ وہ صاف صاف کہتا ہے کہ یہ خنزیر کا گوشت ہے جس کو لینا ہے لے جائے اور جو نہیں لینا چاہتا وہ نہ لے ۔ یہ شخص بھی خنزیر بیچنے کا مجرم ہے لیکن اس کے مقابلے میں ایک اور شخص ہے جو خنزیر اور کتے کا گوشت فروخت کرتا ہے بکری کا گوشت کہہ کر۔ مجرم وہ بھی ہے اور مجرم یہ بھی ۔ دونوں مجرم ہیں لیکن ان دونوں کے جرم کی نوعیت میں زمین و آسمان کافرق ہے۔ ایک حرام کو بیچتا ہے۔ اس حرام کے نام سے ، جس کے نام سے بھی مسلمان کو گھن آتی ہے اور دوسرا اسی حرام کو بیچتا ہے ۔ حلال کے نام سے، جس سے ہر شخص کو دھوکہ ہوسکتا ہے اور وہ اس کے ہاتھ سے خنزیر کا گوشت خرید کر اوراسے حلال اور پاک سمجھ کر کھاسکتا ہے۔ پس جو فرق خنزیر کو خنزیر کہہ کر بیچنے والے کے درمیان اور خنزیر کو بکری یا دنبہ کہہ کر بیچنے والے کے درمیان ہے۔ ٹھیک وہی فرق یہودیوں، عیسائیوں، ہندوؤں، سکھوں کے درمیان اور قادیانیوں کے درمیان ہے۔ کفر ہر حال میں کفر ہے۔ اسلام کی ضد ہے لیکن دنیا کے دوسرے کافر اپنے کفرپر اسلام کا لیبل نہیں چپکاتے اور لوگوں کے سامنے اپنے کفر کو اسلام کے نام سے پیش نہیں کرتے مگر قادیانی اپنے کفر پر اسلام کا لیبل چپکاتے ہیں اور مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہیں کہ یہ اسلام ہے ۔
مِرزائیوں (قادیانیوں) کے کفر پر مُطَّلع ہوکر انہیں کافِر نہ سمجھنے والا خود کافِرمرتد ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد نمبر ۱۴صفحہ نمبر ۳۲۱،چشتی) ۔ اس میں قادیانیوں کے تمام گُروہ شامِل ہیں ۔ وہ قادِیانی بھی جو مرزا غلام احمد کو نبی مانیں اور وہ بھی جو مرزا کو مُجدِّد یا مسیح مانیں اور وہ بھی جو ان میں سے تو کچھ نہ مانیں مگر اس کو محض مسلمان مانیں بلکہ وہ بھی کافِر و مُرتَد ہیں جو اس کے عقائد کو جاننے کے باوُجُود اس کے کافِر ہونے پر شک کریں ۔
برصغیر پاک و ہند میں امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے خانوادے نے منکرین ختم نبوت اور قادیانیت کا رد کیا ۔ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے مرزا قادیانی کو صرف کافر ہی نہیں قرار دیا بلکہ اس کو مزید منافق بھی کہا ہے اور اپنے فتوؤں میں اس کو اس کے اصلی نام کے غلام قادیانی کے نام سے تعبیر کیا ہے ۔ مرتد و منافق وہ شخص ہے جو کلمہ اسلام پڑھتا ہے ۔ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے ۔ اس کے باوجود ﷲ تعالیٰ یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یا کسی نبی یا رسول کی توہین کرتا ہے‘ یا ضروریات دین سے کسی شے کا منکر ہے ۔ اس کے احکام کافر سے بھی سخت تر ہیں ۔ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے مرزا غلام قادیانی اور منکرین ختم نبوت کو رد ابطال میںمتعدد فتویٰ کے علاوہ جو مستقل رسائل تصنیف کئے ہیں‘ ان کے نام یہ ہیں ۔
(1) جزاء ﷲ عدو بآباہ ختم النبوۃ: یہ رسالہ 1317ھ میں تصنیف ہوا ۔ اس میں عقیدہ ختم نبوت پر 120 حدیثیں اور منکرین کی تکفیر پر جلیل القدر ائمہ کرام کی تیس تصریحات پیش کی گئی ہیں ۔
(2) السوء والعقاب علی المسیح الکذاب : یہ رسالہ 1320ھ میں اس سوال کے جواب میں تحریر ہوا کہ اگر ایک مسلمان مرزائی ہوجائے تو کیا اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل جائے گی ؟ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے دس وجوہات سے مرزا غلام قادیانی کا کفر ثابت کرکے احادیث کے نصوص اور دلائل شرعیہ سے ثابت کیا کہ سنی مسلمہ عورت کا نکاح باطل ہوگیا ۔ وہ اپنے کافر مرتد شوہر سے فورا علیحدہ ہوجائے ۔
(3) قہرالدیان علی فرقہ بقادیان : یہ رسالہ 1323ھ میں تصنیف ہوا ۔ اس میں جھوٹے مسیح قادیان کے شیطانی الہاموں‘ اس کی کتابوں کے کفریہ اقوال سیدنا عیسٰی علیہ الصلواۃ والسلام اور ان کی والدہ ماجدہ سیدہ مریم رضی اﷲ عنہا کی پاک و طہارت اور ان کی عظمت کو اجاگر کیا گیا ہے ۔
(4) المبین ختم النبین : یہ رسالہ 1326ھ میں اس سوال کے جواب میں تصنیف ہوا کہ ’’خاتم النبین میں لفظ النبین پر جو الف لام ہے‘ وہ مستغرق کا ہے ۔ یہ عہد خارجی کا ہے ۔ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل کثیرہ واضح سے ثابت کیا ہے کہ اس پر الف لام استغراق کا ہے اور اس کا منکر کافر ہے ۔
(5) الجزار الدیان علی المرتد القادیان : یہ رسالہ 3محرم الحرام 1340ھ کو ایک استثنیٰ کے جواب میں لکھا گیا اور اس سال 25 صفر المظفر 1340ھ کو آپ کا وصال ہوا ۔
(6) المعتقد : امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے مستند افتاء سے ہندوستان میں جو سب سے پہلا رسالہ قادیانیت کی رد میں شامل ہوا‘ وہ ان کے صاحبزادے مولانا مفتی حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے 1315ئ/1896ء الصارم الربانی علی اسراف القادیانی کی نام سے تحریر کیا تھا جس میں مسئلہ حیات عیسٰی علیہ السلام کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور غلام قادیانی کذاب کی مثیل مسیح ہونے کا زبردست رد کیا گیا ہے ۔ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے خود اس رسالے کو سراہا ہے ۔ مذکورہ بالا سطور سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ منکرین نبوت اور قادیانیوں کی رد میں امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کس قدر سرگرم‘ مستعد متحرک اور فعال تھے ۔ وہ اس فتنے کے ظہور ہوتے ہی اس کی سرکوبی کے درپے تھے ۔ اس فتنے کی رد میں امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کی مساعی جمیلہ اس قدر قابل ستائش اور قابل توجہ ہے کہ ہر موافق و مخالف نے انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے ۔ (روزنامہ جنگ ہفتہ 28جمادی الثانی 1423ھ ‘ 7دسمبر 2002) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)