Wednesday 26 June 2024

مسئلہ خلافت اور خلافتِ سیّدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ

0 comments

مسئلہ خلافت اور خلافتِ سیّدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ احادیث مبارکہ کتبِ شیعہ و اہلسنّت کی روشنی میں

محترم قارئینِ کرام : امیر المومنین حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مجھے اپنی زندگی کی قسم میں حق کے خلاف چلنے والوں اور گمراہی میں بھٹکنے والوں سے جنگ میں کسی قسم کی رو رعایت اور سستی نہیں کروں گا ۔ (نہج البلاغہ مترجم اردو خطبہ نمبر 25 صفحہ 136،چشتی مطبوعہ محفوظ بک ایجنسی کراچی)


خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی خلافت حق تھی ورنہ امیر المومنین حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ ضرور ان سے جنگ کرتے کیونکہ امیر المومنین حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ اللہ کے شیر ہیں ۔ وہ شیعہ روافض کی طرح ڈرپوک اور تقیہ کرنے والے نہ تھے ۔ امیر المومنین حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے سچ فرمایا اور ان کا سیدنا ابو بکر ، عمر ، اور عثمان رضی اللہ عنہم کے خلاف جنگ اور قتال نہ کرنا ہی اس بات کی دلیل تھا کہ وہ لوگ حق پر ہیں ۔


حضرت سیّدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت ثبوت شیعہ کتب سے : ⏬


جب دیکھا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نےکلمہ توحید کی نشر و اشاعت اور لشکروں کی تیاری میں پوری پوری کوشش کی اور انہوں نے اپنی ذات کے معاملے میں کسی کو ترجیح نہ دی اور نہ ہی کسی پر زیادتی کی تو حضرت علی رض نے ان سے مصالحت کرتے ہوئے ان کی بیعت کر لی اور اپنے حق سے چشم پوشی کی.کیونکہ اس سے اسلام کے متفرق ہونے سے حفاظت بھی تانکہ لوگ پہلی جہالت کی طرف نہ لوٹ جائیں ۔ (کتاب اصل الشیعہ و اصولہا ‘الشیخ کاشف الغطا صفحہ 123’124,.193)


سیدنا امام باقر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے : حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس آیت کریمہ( اَلَّـذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ اَضَلَّ اَعْمَالَـهُمْ ۔ وہ لوگ جو منکر ہوئے اور انہوں نے لوگوں کو بھی اللہ کے راستہ سے روکا تو اللہ نے ان کے اعمال برباد کر دیے) ، کی تلاوت کے بعد اپنا مقصد فنشھدالخ سے بیان فرمایا جس میں بطور شہادت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کا ثبوت اور وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا (وَمَآ اٰتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا (اور جو کچھ تمہیں رسول دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو) ، دوسری بات یہ کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے اگرچہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے وصی کے الفاظ سنے تھے لیکن اتفاق و اجماع صحابہ کو دیکھتے ہوئے اسے مرجوع قرار دیا اور خلافت صدیق کے حق ہونے کی بیعت کی ۔ (تفسیر صافی الجز السادس سورہ محمد آیت ۱،چشتی)(تفسیر القمی الجز الثالث صفحہ ۹۷۵)


ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی علالت کے دوران مجھے ہدایت کی کہ اپنے والد ابوبکر رضی ﷲ عنہ اور اپنے بھائی کو میری پاس بلواٶ تاکہ میں انہیں کوئی تحریر لکھ دوں کیونکہ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ کوئی اور شخص (خلافت کا) آرزو مند ہوسکتا ہے اور یہ کہہ سکتا ہے کہ میں (خلافت کا) زیادہ حق دار ہوں ۔ حالانکہ ﷲ تعالیٰ اور اہل ایمان صرف ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو (خلیفہ کے طور) پر قبول کریں گے ۔ (مسلم شریف جلد سوم کتاب فضائل الصحابہ حدیث 6057 صفحہ 298 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں ایک عورت آئی اور اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کسی چیز کے متعلق کلام کیا تو رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس کو حکم دیا کہ وہ دوبارہ آئے۔ اس عورت نے عرض کیا یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مجھے خبر دیں۔ اگر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں آئوں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو نہ پاٶں گویا کہ اس عورت کی مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصال ظاہری تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اگر تو آئے اور مجھے نہ پائے تو پھر ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے پاس آجانا (بخاری شریف جلد سوم کتاب الاحکام حدیث 2084 صفحہ 935 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور،چشتی)


حضرت سیدنا عبد ﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصال شریف ہوا تو انصار نے کہا کہ ہم میں سے ایک صاحب کو امام ہونا چاہئے اور مہاجرین میں سے ایک امیر سیدنا فاروق اعظم رضی ﷲ عنہ ان کے پاس تشریف لائے اور ان سے دریافت کیا۔ کیا تم نہیں جانتے کہ حضور پُرنور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جناب ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا تھا۔ تم میں کون ایسا شخص ہے کہ جو حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے مقدم ہونے پر راضی ہو۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے فرمایا کہ ہم اس بات سے ﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں کہ ہم جناب ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے مقدم ہوں (سنن نسائی، کتاب الامۃ، حدیث 780، ص 238، مطبوعہ فرید بک لاہور)


حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ آیات قرآنیہ ، احادیث نبویہ اور اقوال صحابہ کرام علیہم الرضوان کی بناء پر انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد افضل الناس ہیں ۔ علماء اہلسنت کا اس امر پر اجماع ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ تمام بنی نوع انسان میں افضل ترین انسان ہیں ۔ آپ رضی ﷲ عنہ اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بہترین نمونہ ہیں۔ امام بن جوزی علیہ الرحمہ کے بقول آیت شریفہ ’’وسیجنبھا الاتقی الذی‘‘ الخ سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ کی شان میں نازل ہوئی۔ آیت مذکورہ میں سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ کو اتقی یعنی سب سے زیادہ پرہیزگار فرمایا گیا ہے ۔


امامت دو قسم کی ہیں صغریٰ اور کبریٰ : ⏬


امام صغریٰ امامت نماز ہے ، جبکہ امامت کبریٰ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نیابت مطلقہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نیابت سے مسلمانوں کے تمام امور دینی و دنیاوی میں حسب شرع تصرف عام کا اختیار رکھے اور غیر معصیت میں اس کی اطاعت تمام جہان کے مسلمانوں پر فرض ہو۔ اس امام کےلیے مسلمان، آزاد، عاقل، بالغ، قادر اور قریشی ہونا شرط ہے۔ ہاشمی، علوی اور معصوم ہونا اس کی شرط نہیں (امام کا ہاشمی، علوی اور معصوم ہونا) روافض (شیعہ) کا مذہب ہے جس سے ان کا یہ مقصد ہے کہ برحق امرائے مومنین خلفائے ثلاثہ ابوبکر و عمر و عثمان رضی ﷲ عنہما کو خلافت سے جدا کریں ، حالانکہ ان کی خلافتوں پر تمام صحابہ کرام کا اجماع ہے ۔

مولیٰ علی و حسنین کریمین رضی ﷲ عنہم نے ان کی خلافتیں تسلیم کیں اور علویت کی شرط نے تو مولیٰ علی رضی ﷲ عنہ کو بھی خلیفہ ہونے سے خارج کردیا ۔ مولیٰ علوی کیسے ہوسکتی ہیں۔ رہی عصمت تو انبیاء و ملائکہ کا خاصہ ہے جس کو ہم پہلے بیان کر آئے۔ امام کا معصوم ہونا روافض کا مذہب ہے ۔ (بہار شریعت حصہ اول صفحہ 239 امامت کا بیان مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی،چشتی)


مسئلہ خلافت میں اہل سنت و جماعت کا عقیدہ : ⏬


خلافت راشدہ کا زمانہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیش گوئی کے مطابق تیس سال ہے اور ﷲ تعالیٰ نے حسب وعدہ اس عرصہ میں خلفائے راشدین کے مراتب کے اعتبار سے مسند خلافت پر فائز فرمایا۔ نیز آیت ’’استخلاف‘‘ میں رب العزت نے جو وعدے فرمائے تھے، وہ سب اس مدت میں پورے فرمادیئے۔ امامت، خلافت سے کوئی الگ چیز نہیں ہے اور امامت ’’اصول دین‘‘ میں سے نہیں ہے ۔


مسئلہ خلافت میں اہل تشیع کا عقیدہ : ⏬


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے رحلت شریفہ کے بعد حضرت علی کرم ﷲ تعالیٰ وجہہ خلیفۂ بلا فصل تھے اور ان کی خلافت منصوص من ﷲ تھی ۔ خلفائے ثلاثہ نے اسے جبراً چھینے رکھا ۔ اس لئے ان تینوں کا زمانہ جو روجفا کا زمانہ تھا، عدل و احسان کا وہی دور تھا جس میں حضرت علی کرم ﷲ تعالی وجہہ مسند خلافت پر فائز رہے ۔ امامت اور چیز ہے اور خلافت اس سے علیحدہ منصب ہے کیونکہ امام کا معصوم ہونا شرط ہے۔ اور خلافت کے منصب پر متمکن ہونے والے کے لئے عصمت کی کوئی شرط نہیں ۔


خلفائے ثلاثہ کی خلافت کو برحق نہ سمجھنے والا حضرت علی کے نزدیک لعنتی ہے : قال امیر المومنین و من لم یقل انی رابع الخلفآء فعلیہ لعنۃ ﷲ (مناقب علامہ ابن شہر آشوب سومصفحہ 63)

ترجمہ : حضرت امیر المومنین رضی ﷲ عنہ نے فرمایا جو مجھے ’’رابع الخلفائ‘‘ نہ کہے اس پر ﷲ تعالیٰ کی لعنت ہے ۔


وضاحت : حضرت مولا علی کرم ﷲ وجہ نے اپنے اس کلام میں صاف صاف فیصلہ فرمایا کہ میں چوتھے نمبر پر خلیفہ ہوں اور جس کایہ عقیدہ نہ ہو، اس پر ﷲ کی لعنت ہو، حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے اس قول سے ہمیں دو باتیں معلوم ہوتی ہیں : ⏬


1 : آپ کو خلیفہ بلافصل کہنا باطل ہے اور ایسا کہنے والے پر ﷲ تعالیٰ کی لعنت ہے ۔


2 : آپ خلفائے اربعہ میں سے چوتھے نمبر پر خلیفہ ہیں اور یہی عقیدہ ضروری بھی ہے ۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے اس کلام پر عمل کرنا اور اسے درست تسلیم کرنا اس وقت درست ہوگا جبکہ خلیفہ ’’بلافصل‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کو مانا جائے ۔ اور دوسرا خلیفہ حضرت عمر بن خطاب رضی ﷲ عنہ کواور تیسرا حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ کو تسلیم کرلیا جائے ۔ ان تینوں کے بعد حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت کو مانا جائے ۔


حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے خلیفہ بلافصل ہونے سے ﷲ تعالیٰ کا انکار

بقول شیعہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت بلافصل کا ایک سو بیس مرتبہ حکم آسمان پر اور تین دفعہ ’’حجۃ الوداع‘‘ کے موقع پر ہوا،اگر بزعم اہل تشیع اسے درست تسلیم کرلیا جائے توبقول ان کے آخری مرتبہ ﷲ تعالیٰ نے ’’فان لم تفعل فما بلغت رسالتہ‘‘کے تو بیخانہ انداز سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اس کے اعلان پرزور دیا گیا ہے تو پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر یہ سب دعاوی درست ہے تو ’’فرات بن ابراہیم اسکوفی‘‘ نے حضرت امام باقر رضی ﷲ عنہ کے حوالے سے اپنی تفسیر ’’رات اسکوفی‘‘ میں یہ بات کیوں اور کس وجہ سے تحریر کی ؟


حدثنی جعفر بن محمدن الفزاری محنحنا عن جابر قال قرأت عن ابی جعفر علیہ السلام لیس لک من الامر شیٔ قال فقال ابو جعفر بلی وﷲ لقد کان لہ من الامر شی فقلتہ جعلت فداک فما تاویل قولہ لیس لک من الامر شی ء قال ان رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم حرص ان یکون الامر لأمیر المومنین (ع) من بعدہ فابی ﷲ ثم قال کیف لایکون لرسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم من الامرشی ء وقد فوض الیہ فما احل کان حلالاً الی یوم القیامۃ وما حرم کان حراماً الی یوم القیٰمۃ ۔ (تفسیر قرات اسکوفی مطبوعہ صدریہ نجف اشرف صفحہ 19۔چشتی)

ترجمہ : جعفر ابن محمد فزاری حضرت جابر رضی ﷲ عنہ سے راوی ہیں اور حضرت جابر رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام باقر رضی ﷲ عنہ کے سامنے ’’لیس لک من الامر شیئ‘‘ آیت کا حصہ تلاوت کیا جس کے معنی یہ ہیں کہ تمہیں (اے پیغمبر) کسی معاملہ کا قطعاً کوئی اختیار نہیں (چونکہ اس آیت کے حصے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اختیار کی عام اور مطلق نفی ہے حالانکہ آپ مختار ہیں) تو اس پر جناب امام باقر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا۔ ہاں! خدا کی قسم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اختیار تھا ۔ امام موصوف کے کہنے کے بعد میں نے عرض کی۔ آپ پر اے امام میرے ماں باپ قربان (اگر آپ کا فرمانا درست ہے) تو ﷲ کے اس ارشاد کا کیا مفہوم ہے ’’لیس لک من الامر شی ئ‘‘ اور اس کی کیا تاویل ہوگی، حضرت امام باقر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس امر کے شدید متمنی ہیں کہ ﷲ تعالیٰ حضرت علی المرتضیٰ کے لئے ’’خلافت بلافصل‘‘ کا حکم عطا فرمائے لیکن ﷲ نے اس خواہش کو پورا کرنے سے انکار فرمادیا۔ پھر امام موصوف نے فرمایا۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو کسی قسم کا کوئی اختیار نہ ہو۔ حالانکہ ﷲ نے آپ کو اس کی تفویض فرمادی تو ﷲ کی تفویض کی وجہ سے جس کو آپ نے حلال فرمایا۔ وہ قیامت تک حلال ہوئی اور جس کی حرمت فرمادی وہ تاقیامت حرام ہوئی ۔


توضیح : اس روایت میں اہل بیت کے سردار جناب حضرت امام باقر رضی ﷲ عنہ نے فیصلہ ہی کر دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ﷲ رب العزت سے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی ’’خلافت بلافصل‘‘ کا سوال تو کیا تھا لیکن ﷲ نے اس کا انکار کر دیا ۔


حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے خلیفہ بلافصل ہونے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا انکار : ⏬


’’شیخ مفید‘‘ اپنی مشہور اور معتبر کتاب ’’ارشاد شیخ‘‘ میں حدیث قرطاس کا ذکر کرتے ہوئے یہ لکھتے ہیں ۔ فنہضوا وبقی عندہ العباس والفضل بن عباس و علی بن ابی طالب واہل بیتہ خاصۃ فقال لہ العباس یارسول ﷲ ان یکن ہذا الامر لنا مستقراً من بعدہ فبشرنا وان کنت تعلم انا نغلب علیہ فاقض بنا فقال انتم المستضعفون من بعدی وصمت فنھض القوم وہم یبکون قد یئسوامن النبی صلی ﷲ علیہ وآلہ ۔ (الارشاد الشیخ المفید ص 99 باب فی طلب رسول ﷲ بداوۃ وکتف)(اعلام الوریٰ مصنفہ ابی الفضل ابی الحسن الطبرسی صفحہ 142 بالفاظ مختلفہ)(تہذیب المتین فی تاریخ امیر المومنین مطبوعہ یوسی دہلی جلد اول صفحہ 236)

ترجمہ : (قلم دوات لانے کے متعلق جب صحابہ کرام میں اختلاف ہوگیا تو نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سب کو اٹھ جانے کا حکم دیا) جب سب اٹھ کر چلے گئے وہاں باقی ماندہ اشخاص میں حضرت عباس، فضل بن عباس ، علی بن ابی طالب اور صرف اہل بیت تھے ۔ تو حضرت عباس نے عرض کی یارسول ﷲ ! اگر امر خلافت ہم بنی ہاشم میں ہی مستقل طور پر رہے تو پھر اس کی بشارت دیجیے اور اگر آپ کے علم میں ہے کہ ہم مغلوب ہوجائیں گے تو ہمارے حق میں فیصلہ فرمادیجیے ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ۔ میرے بعد تمہیں بے بس کردیا جائے گا ۔ بس اسی قدر الفاظ فرما کر سکوت فرمالیا ۔ اورحالت یہ تھی کہ جناب عباس، علی ابن طالب اور دیگر موجود اہل بیت رو رہے تھے اور روتے روتے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ناامید ہوکر اٹھ گئے ۔


مذکورہ حدیث میں اس بات کی بالکل وضاحت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے زندگی کے آخری وقت تک کسی کو خلافت کے لئے نامزد نہیں فرمایا تھا۔ اگر حضرت علی کی خلافت کا فیصلہ ’’خم غدیر‘‘ کے مقام پر ہوچکا ہوتا اور وہ بھی ہزاروں لوگوں کے سامنے تو قلم دوات لانے پر اختلاف لانے کے موقع پر حضرت عباس کی گزارش مذکورہ الفاظ کی بجائے یوں ہونی چاہئے تھی ۔ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اگر خلافت علی رضی ﷲ عنہ (جیسا کہ آپ خم غدیر پر فیصلہ فرما چکے ہیں) قائم و دائم رہے گی تو ہمیں خوشخبری سنا دیجیے ۔


ﷲ تعالیٰ کا فرمان : واذا اسریٰ النبی الی بعض ازواجہ حدیثا ۔

ترجمہ : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی کسی بیوی سے ایک روز کی بات کی ۔


تفسیر میں ’’صاحب تفسیر صافی‘‘ اور صاحب تفسیر قمی نے اس کا سبب نزول یوں لکھا ہے کہ : جس دن سیدہ حفصہ کی باری تھی ، ان کے گھر اس وقت وہاں ’’ماریہ قبطیہ‘‘ بھی موجود تھیں۔ اتفاقاًسیدہ حفصہ کسی کام سے باہر گئیں تو حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ’’ماریہ قبطیہ‘‘ سے صحبت فرمائی۔ تو جب سیدہ حفصہ کو اس بات کا علم ہوا تو وہ ناراضگی فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ نے میرے گھر میں اور پھر میری باری میں ماریہ قبطیہ سے صحبت کیوں فرمائی ۔ اس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سیدہ حفصہ کو راضی کرنے کے لئے یہ فرمایا ۔ ایک تو میں نے ماریہ قبطیہ کو اپنے نفس پر حرام کیا اور آئندہ اس سے کبھی صحبت نہیں کروں گا اور دوسرا میں تجھے ایک راز کی بات بتاتا ہوں ۔ اگر تو نے اس راز کو ظاہر کرنے کی کوشش کی تو تیرے لئے اچھا نہیں ہوگا ۔ سیدہ حفصہ نے عرض کی ٹھیک ہے ۔

فقال انّ ابابکر یلی الخلافۃ بعدی ثم بعدہ ابوک فقالت من انباک ہذا قال نبأنی العلیم الخبیر ۔

ترجمہ : (راز کی بات ارشاد فرماتے ہوئے) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میرے بعد بے شک ابوبکر خلیفہ ہوں گے ۔ پھر ان کے بعد تیرے والد بزرگوار اس منصب پر فائز ہوں گے ۔ اس پر سیدہ حفصہ نے عرض کی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یہ خبر آپ کو کس نے دی؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا مجھے ﷲ علیم وخبیر نے خبر دی ۔ (تفسیر صافی صفحہ 714،چشتی)(تفسیر قمی صفحہ 457 سورہ تحریم)


حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت بلافصل ثابت کرنے کی دھن میں توہین رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : ⏬


شیعہ حضرات کو تو اپنا مقصد بیان کرنا ہے ۔ خواہ اس کے لئے من گھڑت روایات، غلط استدلال اور لچر تاویلات ہی کیوں نہ کرنی پڑیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کے دوران انہیں یہ خیال تک نہیں آتا کہ ہمارے اس طرز استدلال سے انبیاء کرام اور خصوصا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان اقدس پر کیا کیا گستاخیاں ہورہی ہیں؟ بطور ثبوت ایک دو مثالیں ملاحظہ ہوں : ⏬


ﷲ رب العزت کا ارشاد ہے : لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخٰسرین ۔

ترجمہ : بفرض محال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے شرک کیا تو یقینا آپ کے تمام اعمال ضائع ہوجائیں گے اور آپ لازما خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے ۔ اس آیتہ کی تفسیر میں ’’صاحب تفسیر قمی اور صاحب تفسیر صافی‘‘ یوں گویا ہیں ۔


شیعہ حضرات تفسیر صافی و تفسیر قمی میں : حضرت امام باقر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ (لئن اشرکت) کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا کہ اس کی تفسیریہ ہے کہ آپ نے اگر اپنی وفات کے بعد حضرت علی کی خلافت کے ساتھ کسی اور کو اس امر میں شریک کار کیا تو اس جرم کی پاداش میں آپ کے تمام اعمال حسنہ ضائع ہوجائیں گے اور نتیجتاً آپ خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے ۔


شیعوں کی خبر متواتر ، عقل و نقل سے باطل ہے : ⏬


سید ابن طاؤس و ابن شہر آشوب و دیگر ان روایت کردہ اندر کہ عامر بن طفیل و ازید بن قیس بقصد قتل آنحضرت آمدند، چوں داخل مسجد شدید، عامر بزدیک آنحضرت آمدند گفت، یامحمد، اگر من مسلمان شوم، برائے من چہ خوابدبو، حضرت فرمودکہ برائے تو خواہد بود آنچہ برائے ہمہ مسلمانان ہست، گفت میخو اہم بعد از خودمرا خلیفہ گردانی، حضرت فرمود، اختیار ایں امر بدست خدا است و بدست من تونیست ۔ (حیاۃ القلوب جلد 2 صفحہ 72 ، 44 باب بستم بیان معجزات کفایت از شردشمنان مطبوعہ نامیع نولکشود)

ترجمہ : سید ابن طائوس ابن شہر آشوب اور دیگر حضرات نے روایت کیا کہ عامر بن طفیل اور ازید بن قیس جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قتل کرنے کی نیت سے آئے اور مسجد میں داخل ہوئے تو ’’عامر بن طفیل‘‘ آپ کے نزدیک گیا اور کہا : یامحمد اگر میں مسلمان ہوجاٶں تو میرے لئے کیا انعام ہوگا اور مجھے اس سے کیا فائدہ ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا تمہیں بھی وہی ملے گا جو تمام مسلمانوں کو ملتا ہے۔ (یعنی تمہارا فائدہ اور نقصان سب کے ساتھ مشترکہ ہوگا۔ اس نے کہا میری خواہش ہے کہ آپ مجھے اپنے بعد خلیفہ بنادیں ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا۔ یہ تو ﷲ کے اختیار میں ہے مجھے اور تجھے اس میں کوئی دخل نہیں ۔


حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی بیعت کو اپنے پر لازم قرار دیا : ⏬


ترجمہ : ہر ذلیل میرے نزدیک باعزت ہے۔ جب تک اس کا دوسرے سے حق نہ لے لوں اور قوی میرے لئے کمزور ہے۔ یہاں تک کہ میں مستحق کا حق اسے دلادوں۔ ہم ﷲ کی قضا پر راضی ہوئے اور اس کے امر کو اسی کے سپرد کیا تو سمجھتا ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر بہتان باندھوں گا۔ خدا کی قسم! میں نے ہی سب سے پہلے آپ کی تصدیق کی تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سب سے پہلا جھٹلانے والا ہوں۔ میں نے اپنا معاملہ میں غوروفکر کیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ میرا ابوبکر کی اطاعت کرنا اور ان کی بیعت میں داخل ہونا اپنے لئے بیعت لینے سے بہتر ہے اور میری گردن میں غیر کی بیعت کرنے کا عہد بندھا ہوا ہے۔ اس روایات کے کچھ الفاظ کی ’’ابن میثم‘‘ اس طرح شرح کرتا ہے ۔ پس میں نے غور وفکر کیا اور مجھے معلوم ہوا کہ میرا اطاعت کرنا بیعت لینے سے سبقت لے گیا یعنی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے جو ترک قتال کا حکم لیا تھا وہ اس بات پر سبقت لے گیا ہے کہ میں قوم سے بیعت لوں ۔ فاذا المیثاق فی عنقی لغیری سے مراد سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مجھ سے عہد لینا مجھے اس کا پابند رہنا لازم ہے ۔ جب لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی بیعت لے لیں تو میں بھی بیعت کرلوں ۔ پس جب قوم کا وعدہ مجھ پر لازم ہوا یعنی ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی بیعت مجھ پر لازم ہوئی تو اس کے بعد میرے لئے ناممکن تھا کہ میں اس کی مخالفت کرتا ۔ (شرح نہج البلاغہ ابن مثیم)


مذکورہ خطبہ اور اس کی شرح سے مندرجہ ذیل امور ثابت ہوئے : ⏬


1: حضرت علی کرم ﷲ وجہہ الکریم کے اپنے فرمان کے مطابق آپ کے نزدیک قوی اور ضعیف برابر تھے۔ کیونکہ آپ ہر قوی سے قوی ہیں اس لئے آپ ہر کمزور کو حق دلا سکتے ہیں۔

2: جب ﷲ نے صدیق اکبر کی خلافت کا فیصلہ کردیا تو ہم نے اسے تسلیم کرتے ہوئے اسے ﷲ کے سپرد کیا۔

3: جب ایمان لانے میں مجھے اولیت حاصل ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر جھوٹ بولوں۔

4: حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حکم تھا کہ میرے بعد مسئلہ خلافت میں کسی سے لڑائی نہ کرنا

5: مسئلہ خلافت پر غوروفکر سے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ میرے لئے ابوبکر صدیق کی بیعت کرلینا اپنی بیعت لینے سے زیادہ راجح ہے۔

6: میری گردن میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ عہد بندھا ہوا ہے کہ جب لوگ ابوبکر صدیق کی بیعت کرلیں تو میں بھی بیعت کرلوں۔

ان تمام امور بالا سے معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کسی طرح بھی حضرت ابوبکر صدیق سے اعراض نہ کرسکے تھے کیونکہ ﷲ کی رضا اس کے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے عہد اور حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا فیصلہ ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے خلیفہ برحق ہونے کا بین ثبوت ہیں تو اس امر بیعت کو حضرت علی کرم ﷲ وجہ اس قدر اہم سمجھتے تھے کہ حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے اتنی جلدی کی کہ پورا لباس بھی زیب تن نہ کرسکے، صاحب روضۃ الصفاء نے اس کو یوں نقل کیا ہے ۔


شیعہ کتاب روضۃ الصفا میں ہے : امیر المومنین علی چوں استماع نمود کہ مسلماناں بر بیعت ابوبکر اتفاق نمودند بتعجیل ازفاتہ بیروں آمد چنانچہ ہیچ وربرنداشت بغیر ازپیرہن نہ ازا رونہ راہچناں نزد صدیق رفتہ ہاد بیعت نمود بعد ازاں فرستا ندتدہ جامعہ بمجلس آورند۔ ودربعضی روایات و اردشدہ کہ ابو سفیان پیش از بیعت یاامیر المومنین علی گفت کہ تو راضی مشوی کہ شخصی از نہی تمیم متصد ٹی کاری حکومت شود بخدا سو گند کہ اگر تو خواسی ایں وادی پراز سوارو پیادہ گردانم علی گفت اے ابو سفیان تو ہمیشہ ورہام جاہلیت فتنہ می انگیختی ومالا نیزمی خواہما کہ فتنہ در اسلام ابوبکر را سائستہ امیں کار میداتم ۔

ترجمہ : حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے جب سنا کہ تمام مسلمانوں نے ابوبکر صدیق کی بیعت پر اتفاق کرلیا ہے تو اس قدر جلدی در دولت سے باہر تشریف لائے کہ چادر اور تہبند بھی نہ اوڑھ سکے صرف پیرہن میں ملبوس تھے۔ اس حالت میں ابوبکر صدیق کے ہاں پہنچے اور بیعت کی بیعت سے فراغت کے بعد چند آدمی کپڑے لینے کے لئے بھیجے تاکہ مجلس میں کپڑے لے آئیں بعض روایات میں اس قدر مذکور ہے کہ ابو سفیان نے بیعت سے قبل حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے کہا کہ اے علی! کیا تو بنو تمیم کے ایک آدمی کو حکومت کا والی بنانے پر راضی ہوگیا ہے ۔ ﷲ کی قسم! اگر تم چاہو تو میں اس کی وادی کو سنواروں اور پیادوں سے بھردوں۔ یہ سن کر حضرت علی نے کہا اے ابو سفیان! دور جاہلیت میں بھی فتنہ پرداز رہا ہے۔ اور اب بھی چاہتا ہے کہ اسلام میں فتنہ بپا کردے۔ میں ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کو اس کاروبار حکومت کے لئے نہایت اچھا آدمی سمجھتا ہوں ۔


نوٹ : واذا المیثاق فی عنقی لغیری ۔ جملہ کی تشریح ’’ابن میثم‘‘ اور اس کے بعد ’’روضۃ الصفا‘‘ سے آپ پڑھ چکے ہیں ان دونوں شیعوں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے اس جملہ کی جو شرح کی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ بخوشی اور بسرعت حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے لئے چل پڑے ۔ آپ کو کوئی مجبوری نہیں تھی اور نہ زبردستی بیعت کرنے کے لئے آپ کو آمادہ کیا گیا ۔


خلافت صدیقی کا ثبوت شیعہ حضرات کی کتب سے : ⏬


شیعہ مفسر طبرسی اپنی تفسیر مجمع البیان میں اسی آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’واذا اسرالنبی الی بعض ازواجہ حدیثا یعنی حفصۃ عن الزجاج قال و لما احرم ماریۃ قبطیۃ اخبر حفصۃ انہ یملک من بعدہ ابوبکر ثم عمر ۔

ترجمہ : اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت حفصہ رضی ﷲ عنہا سے راز کی بات کی ۔ زجاج سے مروی ہے کہ جب رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت ماریہ قبطیہ رضی ﷲ عنہا کو اپنے اوپر حرام فرما لیا تو حضرت حفصہ رضی ﷲ عنہا کو آپ نے خبر دی کہ میرے بعد حضرت ابوبکر اور ان کے بعد حضرت عمر مملکت کے مالک ہوں گے ۔ (تفسیر مجمع البیان جلد 10 صفحہ 314 مطبوعہ بیروت،چشتی)


شیعہ مفسر فیض کاشانی اپنی تفسیر صافی میں اس آیت کے تحت لکھتا ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت حفصہ رضی ﷲ عنہا کو فرمایا : انا افضی الیک سرا ان اخبرت بہ فعلیک لعنۃ ﷲ والملٰئکۃ والناس اجمعین فقالت نعم ماہو فقال ان ابابکریلی الخلافۃ بعدی ثم بعدہ ابوک فقالت من انباک ہذا قال نبانی العلیم الخبیر ۔

ترجمہ : میں تمہیں راز کی ایک بات بتاتا ہوں۔ اگر اس سے تم نے کسی کو مطلع کیا تو تم پر ﷲ تعالیٰ ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہوگی۔ عرض کرنے لگیں، درست ہے۔ وہ کیا بات ہے بتائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا میرے بعد ابوبکر کو خلافت ملے گی، پھر ان کے بعد تمہارے والد (حضرت عمر) خلیفہ ہوں گے۔ حضرت حفصہ (رضی ﷲ عنہا) نے عرض کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ کو یہ بات کس نے بتائی تو فرمایا ﷲ تعالیٰ علیم و خبیر نے ۔ (تفسیر صافی جلد 4 صفحہ 716 سطر 14 تا 16 مطبوعہ ایران)


حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے نزدیک شیخین عادل اور برحق خلیفہ تھے اور ان کے وصال سے اسلام کو سخت نقصان : ⏬


واقعہ صفین : ثم قال اما بعد فان ﷲ بعث النبی صلی ﷲ علیہ وسلم علیہ وآلہ فانقذ بہ من الضلالۃ ومن الہلاکۃ وجمع بہ بعد الفرقۃ ثم قبض ﷲ علیہ وقد ادی ماعلیہ ثم استخلف الناس ابا بکروعمرو واحسنا السیرۃ وعدلا فی الامۃ وقد وجدنا علیہا ان تولیا الامر دوننا ونحن ال الرسول واحق بالامر فعفونا فاذا الک لہما ۔

اس کے بعد حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے لکھا ہے کہ بے شک ﷲ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بھیج کر لوگوں کو گمراہی اور ہلاکت سے آپ کی وجہ سے بچایا اور منتشر لوگوں کو آپ کی بدولت جمع کیا۔ پھر آپ ﷲ کو پیارے ہوگئے۔ آپ نے اپنی ذمہ داری کو صحیح طور پر ادا فرمایا۔ پھر لوگوں نے آپ کے بعد ابوبکر اور عمر کوخلیفہ بنایا اور انہوں نے لوگوں میں خوب انصاف کیا اور ہمیں افسوس تھا کہ ہم آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہوئے وہ امر خلافت کے بانی بن گئے حالانکہ اسے ہم زیادہ حقدار تھے سو ہم نے انہیں معاف کردیا کیونکہ عدل وانصاف اور اچھی سیرت کے حامل تھے ۔


حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کی طرف خط لکھا : ⏬


انہ بایعنی القوم الذی بایعوا ابابکر وعمر و عثمان علی مابایعوھم علیہ فلم یکن للشاہد ان یختار ولا للغائب ان یردو وانماالشوری للمہاجرین والانصار فان اجتمعوا علی رجل وسموہ اما ماکان ذلک ﷲ رضاً فان خرج عن امرہم خارج بطعن او بدعۃ ردو الیہ فخرج منہ فان ابی قاتلوہ علی اتباعہ غیرسبیل المومنین ولاہ ﷲ الی ماتولیّ ۔ (نہج البلاغہ خط نمبر 6 صفحہ 366)

ترجمہ : حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کی طرف خط لکھا اور فرمایا : بات یہ ہے کہ میری بیعت ان لوگوں نے کی ہے جنہوں نے حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت عثمان کی کی تھی اور مقصد بیعت بھی وہی تھا جو ان سے تھا لہذا موجودہ حضرات میں سے کسی کو علیحدگی کا اختیار نہیں اور نہ غائب لوگوں کو اس کی تردید کی اجازت ہے۔ مشورہ مہاجرین اور انصار کو ہی شایان شان ہے تو اگر یہ سب کسی شخص کے خلیفہ بنانے پر متفق ہو جائیں تو یہ ﷲ کی رضا ہوگی اور اگر ان کے حکم سے کسی نے بوجہ طعن یا بدعت کے خروج کیا تو اسے واپس لوٹا دو اور اگر واپسی سے انکار کردے تو اس سے قتال کرو کیونکہ اس صورت میں وہ مسلمانوں کے اجتماعی فیصلہ کو ٹھکرانے والا ہے اور ﷲ نے اسے متوجہ کردیا جدھر وہ خود جاتا ہے ۔


توضیح درج ذیل امور ثابت ہوئے : ⏬


1 ۔ جن لوگوں نے حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت عثمان کی بیعت کی تھی۔ ان ہی لوگوں نے حضرت علی کی بیعت کی۔

2 ۔ تمام مہاجرین و انصار کا کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلینا اتنا اہم ہے کہ اس کے بعد حاضرین یا غائبین لوگوں میں سے کسی کو اس کے خلاف اختیار نہیں رہ جاتا۔

3 ۔ شوریٰ کا استحقاق صرف مہاجرین و انصار کو ہے۔

4 ۔ مہاجرین و انصار کا باہمی مشورہ سے کسی کو امام یا خلیفہ پسند کرلینا دراصل خوشنودی خدا ہوتا ہے۔

5 ۔ ان کے متفقہ طور پر کسی کو منتخب کرلینے کے بعد اگر کوئی بوجہ طعن بیعت نہ کرے تو اسے زبردستی واپس لایا جائے اور اگر انکار کردے تو اسے قتل کیا جائے ۔ کیونکہ وہ اس طرح جمیع مسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر علیحدگی اختیار کرتا ہے ۔


اگر مرض باقی ہے تو ایک خوراک اور شارح ابن میثم شیعہ نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے خطبے کی علم منطق کے ذریعے خلافت حقہ کےلیے جو ترتیب دی ہے اس کا خلاصہ : ⏬


صغریٰ : میری بیعت ان لوگوں نے کی جنہوں نے خلفائے ثلاثہ کی بیعت کی تھی ۔

کبریٰ : جس آدمی کی بیعت وہی لوگ بیعت کرلیں تو اس کے بعد کسی غائب یا حاضر کو بیعت نہ کرنے یا اس کے رد کا اختیار نہیں ۔

نتیجہ : چونکہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی بیعت بھی انہی لوگوں نے کرلی ہے لہذا کسی کو اس کے رد کا اختیار نہیں ۔ (شرح ابن میثم جلد نمبر 4 صفحہ 353)


حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے اس خط میں انما الشوریٰ کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے : ⏬


وحصر للشوری والاجماع فی المہاجرین والانصار لانھم اہل الحل والعقد من امۃ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اتفقت کلمتھم علی حکم الاحکام کاجماعھم علی بیعتہ وتسمیتہ اماماً کان ذلک اجماعاً حقاً ہو رضی ﷲ عنہ مرضی لہ و سبیل المومنین الذی یجب اتباعہ ۔

ترجمہ : حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے شوری کو صرف مہاجرین اور انصار کے لئے مخصوص فرمایا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی امت کے اہل حل و عقد و ارباب بست و کشادہ وہی ہیں اور جب وہ کسی معاملہ پر متفق ہوجائیں جس طرح حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی امامت و بصیرت پر متفق ہوئے تو ان کا یہ اجماع و اتفاق حق ہوگا اور وہ اجماع ﷲ کا پسندیدہ ہوگا اور مومنین کا ایسا راستہ ہوگا جس کی اتباع واجب ہے ۔

حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی محبت کے دعویداروں کو دعوتِ فکر

اجماع حقہ وہی ہے جو مہاجرین و انصار کا ہو ، یہ دونوں غزوہ بدر اور بیعتِ رضوان میں شامل تھے، ان کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جنتی ہونے کی خوشخبری فرمائی ۔ ان کا اجماع ﷲ کا پسندیدہ ہے تو معلوم ہوا کہ یہ اجماع جنتیوں کا اجماع ہے۔ معلوم ہوا کہ خلفائے ثلاثہ کی خلافت حق تھی ۔


خلفائے راشدین کی خلافت حقہ پر دلیل نہم : ⏬


کتب شیعہ میں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی بیعت بغیر جبر و اکراہ کے بطریق رضا کی ہے ۔شیعوں کے امام الاکبر محمد الحسینی نے اپنی مشہور کتاب اصل الشیعہ واصولہا میں اس کی ان الفاظ میں تصدیق اور توثیق کی ہے : اصل الشیعہ و اصولہا وحین رایٰ ان المتخلفین اعنی الخلیفۃ الاول والثانی بذلا اقصیٰ الجہد فی نشر کلمۃ التوحید وتجہیز الجنود وتوسیع الفتوح ولم یستاتدوا ولم یستبدوا ابیع وسالم و اغضی عمایداہ حقاً لہ محافظۃ علی الاسلام ان تصدع وحدتہ وتتفدق کلمتہ ویعود الناس الی جاہلیتھم الاولیٰ وبقی شیعتہ منفسدین تحت جناحہ ومستنیرین بمصباحہ ولم یکن للشیعۃ والتشیع یومئذ مجال للظہور لان الاسلام سحان یجدی علی منہ ہجرہ القویمۃ حتی اذ تمیذا الحق من الباطل وتبین الرشد من الغّی وامتنع معاویۃ عن البیعۃ لکلی وحاربہ فی (صفین) انضم بقیۃ الصحابۃ الی علی حتی الحثدھم تحت رایتہ وکان معہ من عظماء اصحٰب النبی ثمانون بعلا کلہم بدری عقبی لعمار بن یاسر وخزیمۃ ذی الشہادتین وابی ایوب الانصاری ونظر ائھم ثم نما قتل علی علیہ السلام وائتقبا الامہ لمکاویۃ وانقضی دور الخلفآء الراشدین ساد معاویۃ بسیدۃ الجبا برۃ فی المسلمین ۔ (اصل الشیعہ واصولہا صفحہ 115 تذکرہ صرف القوم الخلافتہ عن علی مطبوعہ قاہرہ طبع جدید،چشتی)

ترجمہ : جب دیکھا حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے کہ حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ اور عمر فاروق رضی ﷲ عنہ نے کلمہ توحید کی نشر و اشاعت میں اور لشکروں کی تیاری میں پوری پوری کوشش کی اور انہوں نے اپنی ذات کو کسی معاملے میں ترجیح نہ دی اور نہ ہی کسی پر زیادتی کی تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے ان سے مصالحت کرتے ہوئے ان کی بیعت کرلی اور اپنے حق سے چشم پوشی کی۔ کیونکہ اس میں اسلام کے متفرق ہونے سے حفاظت تھی تاکہ لوگ پہلی جہالت کی طرف نہ لوٹ جائیں اور باقی شیعہ کمزوری کی وجہ سے آپ کے زیر دست رہے ۔ آپ کے چراغ سے روشنی حاصل کرتے رہے اور شیعہ اور ان کے مذہب کے لئے ان ایام میں ظہور کی مجال نہیں تھی۔ کیونکہ اسلام مضبوط طریقے پر چل رہا تھا۔ یہاں تک حق باطل سے اور ہدایت گمراہی سے جدا ہوچکی تھی اور معاویہ رضی ﷲ عنہ نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی بیعت سے انکار کیا اور صفین میں ان سے جنگ کی تو اس وقت جتنے صحابہ کرام موجود تھے انہوں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا ساتھ دیا حتی کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے جھنڈے کے نیچے اکثر صحابہ کرام شہید ہوئے اور آپ کے ساتھ جلیل القدر صحابہ کرام میں سے 80 وہی صحابہ تھے جو کل کے کل بدری تھے۔ مثلاً عمار یاسر اور حضرت خزیمہ جن کی شہادت دو شہادتوں کے برابر تھی اور ابو ایوب انصاری اور اسی مدینے کے اور صحابہ اور پھر جب حضرت علی شہید ہوئے اور امرِ خلافت امیر معاویہ کی طرف لوٹا تو اس کے ساتھ خلفاء راشدین کا دور ختم ہوا اور امیر معاویہ نے مسلمانوں میں جبارین دین کی سیرت کو اپنایا ۔


مذکورہ عبارت سے مندرجہ ذیل امور صراحتاً ثابت ہوئے : ⏬


1 : حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا مقصود خلافت حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ کلمہ توحید کی نشرواشاعت اور لشکروں کی تیاری کے ساتھ فتوحات میں توسیع دینا تھا۔ اسی لئے جب انہوں نے دیکھا کہ جو اسلام کے مقاصد تھے وہ سب کے سب شیخین نے پورے کردیئے تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے رضامندی کے ساتھ یکے بعد دیگرے ان کی بیعت کرلی۔

2 : شیخین کے زمانہ میں شیعہ اور ان کے مذہب کا اس لیے ظہور نہیں ہوا کہ اسلام اپنے صحیح اور مضبوط طریقے پر چل رہا تھا۔ یہاں تک کہ حق باطل سے اور ہدایت گمراہی سے جدا ہوچکی تھی۔

3 : جنگ صفین کے زمانہ تک بدری صحابی موجود تھے جو 80 کی تعداد میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے لشکر میں شامل ہوئے۔

4 : خلفاء ثلاثہ خلفاء راشدین تھے نہ کہ ظالم فاسق اور فاجر

5 : نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال پر صحابہ کرام کے ارتداد کا مسئلہ (معاذ ﷲ) شیعہ حضرات کا خود ساختہ ہے کیونکہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے زمانہ تک بدری صحابہ موجود تھے جوکہ قطعی جنتی تھے جوکہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے لشکر میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے ۔


خلفائے راشدین کی خلافت حقہ پر دلیل دہم : ⏬


فرمان علی رضی ﷲ عنہ : ﷲ تعالیٰ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد لوگوں کے لیے بہترین شخص کا انتخاب فرمایا : ان فی الخبر المروی عن امیرالمومنین علیہ السلام لماقیل لہ الا توصی فقال مااوصیٰ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم فاوصی ولٰکن ان اراد ﷲ بالناس خیرا استجمعھم علی خیرہم کما جمعہم بعد نبیہم علی خیرہم قتضمن لما یکاد یعلم بطلانہ مندورۃ لان فیہ التصدیح القوی بفضل ابی بکر علیہ وانہ خیر منہ والظاہر من احوال امیر المومنین علیہ السلام والمشہور من اقوالہ واحوالہ جملۃ وتفصیلاً یقتصی انہ کان یصدم نفسہ علی ابی بکروغیرہ ۔ (تلخیص الشافی تالیف شیخ الطائفہ ابی جعفر طوسی جلد دوم صفحہ 237 دلیل آخر علی امامتہ علیہ السلام مطبوعہ قم طبع جدید،چشتی)

ترجمہ : امیر المومنین حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جب آپ سے کہاگیا کہ آپ وصیت کیوں نہیں کرتے تو آپ نے فرمایا کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے وصیت فرمائی تھی کہ میں وصیت کروں لیکن اگر ﷲ تعالیٰ نے لوگوں کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمایا تو ان کو ان میں سے بہترین شخص پر جمع کردے گا جیسا کہ اس نے نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد انہیں بہترین شخص پر جمع کیا۔ یہ اس چیز کو متضمن ہے کہ قریب ہے کہ اس کا بطلان بدایۃً معلوم ہوجائے کیونکہ اس میں ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی فضیلت حضرت علی رضی ﷲ عنہ پر تصریح قوی ہے اور یہ کہ ابوبکر رضی ﷲ عنہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے بہتر ہیں ۔ لیکن امیرالمومنین کے احوال اور ان کے اقوال و احوال سے اجمالاً اور تفصیلاً جو ظاہرا اور مشہور ہے اس کا متقضی یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کو ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ وغیرہ پر مقدم جانتے ہیں ۔


الحاصل : مذکورہ عبارت سے دو اہم مسائل ثابت ہوئے : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے بعد کسی کو وصی نہیں بنایا ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد ﷲ تعالیٰ نے امت کے سب سے بہترین شخص کو خلافت کے لئے منتخب فرمایا جیسا کہ اس نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے بعد امت کے بہترین شخص حضرت امام حسن رضی ﷲ عنہ کو امت کے لئے منتخب فرمایا ۔


خلفائے راشدین کی خلافت حصہ پر دلیل یادہم : ⏬


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے متعلق اپنے بعد خلیفہ اور جنتی ہونے کی پیش گوئی فرمائی ۔ تلخیص الشافی میں ہے : روی عن انس ان رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم امرہ عند اقبال ابی بکر ان یسبشرہ بالجنۃ وبالخلافۃ بعدہ وان یستبشرہ عم بالجنۃ وبالخلافہ بعد النبی بکر و روی عن جبیربن مطعم ان امراۃ اتت رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ فکلمتہ فی شیٔ فامر بہا ان ترجع الیہ فقالت یارسول ﷲ ارایت ان رجعت فلم اجدک (یعنی الموت) قال ان لم تجدنبی فات ابابکر ۔ (تلخیص الشافی جلد سوم صفحہ 39 فصل فی ابطال قول من حالت فی امامۃ امیر المومنین بعد النبی علیہما السلام بلا فصل مطبوعہ قم، طبع جدید)

ترجمہ : حضرت انس رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے مجلس میں آنے کے وقت ارشاد فرمایا کہ انہیں (ابوبکر صدیق) کو جنت اور میرے بعد خلافت کی خوشخبری سنادو اور حضرت عمر فاروق رضی ﷲ عنہ کو جنت اور ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے بعد خلافت کی بشارت دو اور حضرت جبیربن مطعم رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں ایک عورت آئی اور کسی معاملہ میں آپ سے بات چیت کی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اسے حکم دیا کہ پھر میرے پاس آنا، عورت نے عرض کی کہ اگر میں دوبارہ آٶں اور آپ کو نہ پائوں تو ؟ (یعنی اس وقت تک اگر آپ وصال کرجائیں تو پھر کیا کروں؟) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے پاس چلی جانا (اور ان سے اپنا مسئلہ حل کروالینا) ۔


الحاصل : مذکورہ دونوں حدیثوں سے یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ خلیفہ برحق ہیں اور ان کے بعد عمر فاروق رضی ﷲ عنہ اور دوسرا یہ جنتی بھی ہیں اور یہ بات ثابت ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مذکورہ عورت کو اسی لئے اپنے بعد ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی وصیت فرمائی کیونکہ آپ من جانب ﷲ جانتے تھے کہ میرے بعد ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ خلیفہ ہوں گے ۔


کیا حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے (معاذ ﷲ) دشمنوں کے غلبہ کی وجہ سے بطور تقیہ حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ کی بیعت کی ؟


حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی طرف اس بات کو منسوب کرنا ان کی شان کے خلاف ہے ۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ تو ایسے بہادر تھے جو پورے پورے لشکر کو اکیلے شکست دے دیتے تھے ۔ خیبر کے موقع پر چالیس آدمیوں کا کام اکیلے مولا علی شیر خدا رضی ﷲ عنہ نے کیا ۔


پہلی دلیل : کیا وہ شیر خدا کسی کے دبائو میں آسکتا ہے ؟ کیا ﷲ تعالیٰ کا شیر حق بات کہنے سے (معاذ ﷲ) ڈر جائے ، یہ ناممکن ہے ۔


دوسری دلیل : جس شیر خدا کے بیٹے حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ نے خون میں لہولہان ہو کر ، اپنے گھرانے کو لٹا کر ایک ظالم کی بیعت نہ کی ۔

کیا ان کے والد شیر خدا (معاذ ﷲ) بزدل تھے ۔ کیا انہوں نے (معاذ ﷲ) ڈر اور خوف کی وجہ سے بیعت کرلی ۔ نہیں بلکہ وہ جانتے تھے کہ جسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے چن لیا ۔ اس کی بیعت کرنا ہمارا ایمان ہے ۔


شیعہ حضرات کی معتبر کتاب سے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے پیچھے نماز پڑھنا ثابت ہے : ⏬


دلیل : حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے پیچھے نماز ادا فرمائی ۔ (شیعہ حضرات کی کتاب : جلاء العیون صفحہ 150)


حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی بیعت حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی کتاب نہج البلاغۃ سے ثابت کرتے ہیں : نہج البلاغۃ میں لکھا ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے خلیفہ بننے کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو خط لکھا کہ جن لوگوں نے حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضی ﷲ تعالیٰ عنہم کی بیعت کی ۔ انہیں لوگوں نے میری بیعت کی ہے ۔ اب کسی حاضر یا غائب کویہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کی مخالفت کرے ۔ بے شک شوری مہاجرین و انصار کا حق ہے اور جس شخص پر جمع ہوکر یہ لوگ اپنا امام بنالیں ، ﷲ تعالیٰ کی رضامندی اسی میں ہے ۔ (کتاب نہج البلاغۃ ، دوسری جلد، صفحہ 8 مطبوعہ مصر،چشتی)


اب کسی شک کی گنجائش نہیں ۔ اس لیے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ حضرت ابوبکر و عثمان رضی ﷲ تعالیٰ عنہم سے راضی تھے ۔ اب لوگ کچھ بھی کہیں ۔ چار یاروں کی آپس میں ایسی محبت تھی۔ جس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی ۔


شیعہ حضرات کی کتاب سے حضرت علی کی بیعت کاثبوت : ⏬


شیعہ حضرات کی معتبر کتاب احتجاج طبرسی میں شیعہ عالم علامہ طبرسی لکھتا ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر و صدیق رضی ﷲ عنہ کی بیعت کی ۔ (احتجاج طبرسی صفحہ 54،چشتی)

اگر حضرت علی رضی ﷲ عنہ بطور تقیہ بیعت کرتے تو علامہ طبرسی جوکہ مشہور شیعہ عالم ہیں ، وہ اپنی کتاب میں تقیہ کا ذکر ضرور کرتے مگر انہوں نے تقیہ کا کوئی ذکر نہیں کیابلکہ اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی بیعت کی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ”جس کا میں مولا ہوں“ اس کے علی مولا ہیں‘‘ اس کا جواب دیں ؟

جواب : سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس حدیث شریف پر ہمارا بھی ایمان ہے تبھی تو ہم اہلسنت و جماعت حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو مولا علی شیر خدا کہتے ہیں ۔

دلیل : اس حدیث میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی شان مولائی بیان کی گئی ہے اور مولا کا مطلب مددگار کے ہوتا ہے ۔ اس حدیث میں خلافت کا کہیں ذکر واضح نہیں ۔

دلیل : مولا کے کئی معنی ہیں ۔ لغت کی مشہور کتاب قاموس کی جلد چوتھی ص 302 پر تحریر ہے کہ ’’المولیٰ، المالک والعبد والصاحب، والناصر، والمحب، والتابع، والعصر‘‘ مولا کے معنی مالک، غلام، محب، صاحب، مددگار، تابع اور قریبی رشتہ دار کے ہیں ۔

القرآن : فان ﷲ ہو مولہ وجبریل و صالح المومنین والملٰئکۃ بعد ذالک ظہیرا ۔ (سورۂ تحریم، آیت 4، پارہ 28)

ترجمہ : بے شک ﷲ ، جبریل ، نیک مومنین اور تمام فرشتے مددگار ہیں ۔

اس آیت میں مولا کا لفظ مددگار کے لئے بیان کیا گیا ہے ۔

القرآن : انت مولانا فانصرنا علی القوم الکافرین ۔ (سورۂ بقرہ، آیت 286، پارہ 3)

ترجمہ : اے ﷲ تو مددگار ہے ، ہمیں کافروں پر مدد و نصرت فرما ۔


اس آیت میں بھی مولا کا لفظ مددگار کےلیے بیان کیا گیا ہے ۔ تو ’’من کنت مولاہ فعلی مولا‘‘ کا معنی یہی معتبر ہوگا کہ جس کا میں والی، مددگار اور دوست ہوں، حضرت علی رضی ﷲ عنہ بھی اس کے والی، مددگار اور دوست ہیں ۔

دلیل : حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی خلافت پر سینکڑوں احادیث واضح موجود ہیں جس میں خلافت کا ذکر ہے مگر مولا والی حدیث میں کہیں بھی حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت کا واضح ذکر نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے کہ تم مجھ سے بمنزلہ ہارون کے ہو، لہٰذا جس طرح ہارون علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ تھے، اسی طرح حضرت علی رضی ﷲ عنہ بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خلیفہ ہیں ؟

جواب : بخاری شریف کی حدیث شریف ملاحظہ ہو ۔ اما ترضیٰ ان تکون منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی ۔

ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے فرمایا کہ تو اس بات پر راضی نہیں ہے کہ تو مجھ سے بمنزلہ ہارون کے ہو موسیٰ علیہ السلام ، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔ (بخاری شریف، مسلم شریف)

دلیل : اس حدیث پاک میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اگر ہے تو صرف یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں اہل بیت کی حفاظت کے لئے مقرر فرمایا تھا تو اس کا سبب ایک تو قرابت و رشتہ داری تھا اور دوسرا یہ کہ اہلبیت کی حفاظت و نگہبانی کا اہم فریضہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ ہی ادا کرسکتے ہیں ۔

دلیل : حضرت ہارون رضی ﷲ عنہ کی خلافت تو عارضی تھی کیونکہ حضرت ہارون علیہ السلام تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ہی وصال فرما چکے تھے پھر اگر خلافت مولا علی رضی ﷲ عنہ کو خلافت ہارون علیہ السلام سے تشبیہ دی جائے تو کسی صورت بھی درست نہیں ہے ۔

دلیل : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ فرمانا کہ تم میرے ساتھ ایسے ہو، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام تھے، اس سے مراد یہ ہے کہ جس طرح دین حق کو پھیلانے میں حضرت ہارون علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مدد کی، اسی طرح تم نے بھی اسلام کی تبلیغ میں میری مدد کی ہے ۔


حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کا حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے پیچھے نماز پڑھنا : ⏬


1 : شیعہ حضرات کے علامہ طبرسی تحریر کرتے ہیںکہ ’’ثم قام و تھیأ للصلوٰۃ و حضر المسجد و صلی خلف ابی بکر‘‘ پھر (حضرت علی) اٹھے اور نماز کا ارادہ فرمایا اور مسجد میں تشریف لائے پھر حضرت ابوبکر کے پیچھے نماز ادا فرمائی (الاحتجاج طبرسی جلد اول صفحہ 126 سطر 4 مطبوعہ ایران۔چشتی)


2 : ملا باقر مجلسی نے بھی حضرت علی کا حضرت ابوبکر کے پیچھے نماز پڑھنا لکھا ہے۔ جلاء العیون مترجم کی عبارت ملاحظہ ہو۔ جناب امیر (علیہ السلام) نے وضو کیا اور مسجد میں تشریف لائے ۔ خالد بن ولید بھی پہلو میں آکھڑا ہوا ۔ اس وقت ابوبکر نماز پڑھا رہے تھے ۔ (جلاء العیون اردو جلد اول صفحہ 213 سطر 21 - 20 مطبوعہ لاہور،چشتی)


کیا پیغمبر علیہ السلام جناب علی (رضی ﷲ عنہ) کی خلافت تحریر فرمانا چاہتے تھے ، حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے کاغذ ، قلم و دوات طلب فرمائی تو انہوں نے نہ دی بلکہ یہ کہا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہذیان کہتا ہے اور ہمیں ﷲ تعالیٰ کی کتاب کافی ہے ۔ یہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے بڑی غلطی کی ؟

جواب : جھوٹوں پر خدا کی لعنت ، آپ کی پہلی ہی غلط ہے ۔ اہل اسلام میں کی کتب میں اس کے برعکس لکھا ہے کہ پیغمبر علیہ السلام اپنے مرض الموت میں جناب ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی خلافت تحریر فرما گئے تھے۔ جیسا کہ مشکوٰۃ شریف ص 555 پر واضح الفاظ موجود ہیں نیز اس طعن کرنے سے اتنا پتہ چل گیا کہ غدیر خم کے موقع پر حضرت علی رضی ﷲ عنہ مقرر نہیں ہوئے تھے اور عید غدیر مناکر شیعہ لوگ خواہ مخواہ بدنام ہورہے ہیں ۔ آپ کا یہ دعویٰ پیغمبر علیہ السلام نے کاغذ ، قلم ، دوات حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے طلب فرمائی تو یہ بھی جھوٹ ہے بلکہ آپ نے جمیع حاضرین سے (جن میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ ، حضرت عباس رضی ﷲ عنہ اور گھر کی خواتین وغیرہ بھی شامل ہیں) کاغذ ، قلم ، دوات طلب فرمایا ۔ جیسا کہ بخاری شریف کتاب الجزیۃ باب اخراج الیہود من جزیرۃ العرب صفحہ 426 رقم الحدیث 2932 میں ہے : فقال ائتونی بکتف اکتب لکم کتاباً ۔ یعنی حضرت اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ کتف لائو تاکہ میں تمہیں ایک ایسی تحریر لکھ دوں کہ جس کے بعد تم راہ حق کو نہ گم کرو ۔

غور فرمایئے ۔ حدیث میں ’’ائتونی‘‘ صیغہ جمع مذکر مخاطب بول کر پیغمبر علیہ السلام جمیع حاضرین سے کتف طلب فرما رہے ہیں، نہ کہ فقط حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے اور ان سے طلب ہی کیوں فرماتے جبکہ وہ ان کا گھر ہی نہ تھا کہ جس میں قلم دوات طلب کی گئی بلکہ حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا کا حجرہ تھا ۔ جیسا کہ بخاری شریف جلد 1 صفحہ 382 پر ہے اور پھر اگر قریب تھا تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا گھر لہٰذا اگر خاص طور پر فرماتے تو ان سے کہ جن کا گھر قریب تھا ۔ (تمام شیعہ متفق ہیں کہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کا گھر مدینہ شریف کے آخری کونہ پر تھا) بہرحال نقل و عقل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے پیغمبر علیہ السلام نے قلم ، دوات طلب نہیں فرمائی ۔


2 : آپ اس کا کیا جواب دیں گے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس واقعہ کے تین دن بعد تک حیات رہے لیکن حضرت علی رضی ﷲ عنہ اس کے باوجود بھی ان کی تعمیل حکم نہ کرسکے اور بقول شیعہ خلافت بھی اُنہی کی تحریر ہونی تھی اور ادھر حکم رسول بھی تھا۔ لہذا اگر باقی سب صحابہ مخالف تھے تو ان پر لازم تھا کہ چھپے یا ظاہر ضرور لکھوا لیتے تاکہ بعد میں یہی تحریر پیش کرکے خلیفہ بلا فصل بن جاتے مگر یہ سب کچھ نہیں ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ تو تحریر ہی سرے سے ضروری نہ تھی بلکہ ایک امتحانی پرچہ تھا کہ جس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کی رائے سے اتفاق فرمایا ورنہ آپ پرحق اور وحی چھپانے کا الزام عائد ہو گا ، حالانکہ جماعتِ انبیاء علیہم السلام اس سے بالاتر ہے ۔


3 : اگر یہ ضروری تحریر تھی یا وحی الٰہی تھی اور کاغذ دوات نہ لانے والا خواہ مخواہ ہی مجرم ہوا تو اس جرم کے اولاً مرتکب اہل بیت قرار پاتے۔ اس لئے کہ وہ ہروقت گھر میں رہتے تھے ۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ جن کا گھر باقی صحابہ کی نسبت قریب تھا اور اگر وہ مجرم نہیں تو حضرت عمر رضی ﷲ عنہ بھی مجرم نہیں ۔ لہٰذا شیعوں کا یہ کہنا کہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے کاغذ اور دوات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے طلب فرمائی، باطل ہوا ۔


کیا حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے (العیاذ باﷲ) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف ہذیان کی نسبت کی ؟

جواب : یہ بھی جھوٹ اور افتراء ہے بلکہ بخاری شریف کتاب الجزیۃ باب اخراج الیہود من جزیرۃ العرب صفحہ 426 رقم الحدیث 2932 پر یوں موجود ہے : فقالوا مالہ اہجر استفہموہ ۔ یعنی حاضرین نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا کیا حال ہے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دنیا سے ہجرت فرمانے لگے ہیں ۔ آپ سے دریافت تو کرلو ۔

اور عبارت میں ’’قالوا‘‘ بصیغہ جمع مذکر غائب موجود ہے لہٰذا پہلی جہالت تو شیعوں کی یہ ہوئی کہ صیغہ جمع سے ایک شخص واحد حضرت عمر رضی ﷲ عنہ مراد لے لیا ۔ دوسری جہالت یہ کہ ’’ہجر‘‘ کا معنی برخلاف عربیت بلکہ برخلاف سباق و سیاق ہذیان لکھ مارا حالانکہ ’’ہجر‘‘ بمعنی ہذیان کیا جائے تو آگے ’’استفہموہ‘‘ کا کوئی مطلب نہیں ہوسکتا کیونکہ شیعوں کے ماسویٰ کوئی عقلمند بھی نہیں ملے گا کہ پہلے کسی کو مخبوط الحواس اور مجنون سمجھ لے اور پھر اس سے اس کے ہذیان کا مطلب پوچھنے لگے ، بہرحال صیغہ ’’استفہموہ‘‘ نے بتادیا کہ ’’اہجر‘‘ کے معنی وہی دار دنیا سے جدا ہونے کا ہی ہے ، نہ کچھ اور اگر ’’ہجر‘‘ بمعنی ہذیان بھی تسلیم کرلیا جائے تو بھی مفید نہیں کیونکہ ’’اہجر‘‘ میں ہمزہ استفہام انکاری موجود ہے کہ جس سے نفی ہذیان مفہوم ہورہا ہے معنی یہ ہوگا کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کوئی ہذیان فرما رہے ہیں ۔ نہیں ہرگز نہیں بلکہ ہوش سے فرما رہے ہیں ذرا دریافت تو کرلو بہرکیف حضرت عمر رضی ﷲ عنہ تو ویسے ہی اس مقولہ کے قائل نہ تھے ، باقی رہے قائلین تو چونکہ ’’ہجر‘‘ بمعنی ہذیان ثابت نہیں ہوا۔ اگر ہوا تو بوجہ ہمزہ استفہام منفی ہوگیا لہذا وہ بھی اس سے بری ہو گئے ۔


اگر یہی بات ہے تو پھر حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے ’’حسبنا کتاب ﷲ‘‘ کیوں کہا ؟

جواب : اول تو اکثر روایات میں حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کا یہ مقولہ ہی نہیں شمار ہوا ۔

2 : حضرت عمر رضی ﷲ عنہ بخوبی جانتے تھے کہ ﷲ کا دین اور قرآن پاک کا نزول مکمل ہوچکا ہے کہ جس پر ’’الیوم اکملت لکم دینکم‘‘ شاہد ہے پس آپ نے گمان کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ حکم وحی الٰہی کی وجہ سے نہیں اور وجوب نہیں بلکہ بطور مشورہ ہے تو آپ نے بطور مصلحت اور مشورہ عرض کردیا کہ یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ تحریر قرطاس کی تکلیف نہ فرمائیں ۔ کتاب ﷲ کو ہمارے لئے کافی سمجھیں جس پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے موافقت ظاہر فرمائی اور تحریر قرطاس پر زور دینے والوں کو ڈانٹ دیا۔ چنانچہ بخاری شریف کتاب الجہاد والسیر ، باب ہل یستشفع الی اہل الذمۃ ومعاملتہم جلد 10 صفحہ 268 رقم الحدیث 2825 پر ہے : دعونی فالذی انا فیہ خیر مما تدعونی الیہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے اپنے کلام میں قرآن کو مسلمان کےلیے کافی ہونا کا بیان کیاہے تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا نہج البلاغہ جلد 3 صفحہ 57 پر ہے : وﷲ وﷲ فی القرآن ‘‘ نیز کتاب مذکور جلد 2 صفحہ 27 پر ہے ’’فاوصیک بالاعتصام بحبلہ‘‘ اور جلد 2 صفحہ 22 پر ہے ’’ومن اتخذ قولہ دلیلا ہدی‘‘ دیکھئے حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے بھی ہدایت کے لئے قرآن کو کافی قرار دیا۔ لہذا اگر حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے قول سے انکار بالسنۃ لازم نہیں آتا تو حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کے قول سے لازم کیوں آئے گا؟ اگر بربنائے نیتی و مصلحت مشورہ دینا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نافرمانی ہرگز نہیں ہے ۔


جنگ حدیبیہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا۔ اے علی اسے مٹایئے (لفظ ’’رسول ﷲ‘‘ کے بارے میں) توحضرت علی رضی ﷲ عنہ نے پیغمبر علیہ السلام کو صاف جواب دیا کہ میں اسے ہرگز نہیں مٹاٶں گا ۔ جب رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے وہ الفاظ اپنے ہاتھ مبارک سے مٹادیئے ۔ اگر اس واقعہ میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو نافرمان نہیں کہا جا سکتا تو حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو بھی نہ کہا جائے کیونکہ بربنائے مصلحت و حکمت حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حکم نبوی کی خلاف ورزی کی ہے تو حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو بھی کہا جا سکتا ہے ۔ لیکن ہم کہتے ہیں نہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے خلاف ورزی کی ہے ، نہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے بلکہ وہی ہوا جو رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم چاہتے تھے ۔


فضائل عمر از لسان حیدر رضی ﷲ عنہ : ⏬


شیعہ صاحبان خواہ مخواہ سیدنا عمر رضی ﷲ عنہ کی مخالفت کرتے ہیں ۔ جبکہ ان کی کتابوں میں مذکورہ ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کے مناقب بیان فرمائے ۔ جب خلیفہ ثانی عمر رضی ﷲ عنہ نے روم پر چڑھائی کی اور حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے مشورہ لیا تو آپ نے فرمایا کہ نواحی اسلام کو غلبہ دین سے بچانے اور مسلمانوں کی شرم رکھنے کا ﷲ ہی کفیل ہے۔ وہ ایسا خدا ہے جس نے انہیں اس وقت فتح دی جب ان کی تعداد نہایت قلیل تھی اور کسی طرح فتح نہیں پاسکتے تھے ۔ انہیں اس وقت مغلوب ہونے سے روک رہا ہے جب یہ کسی طرح روکے نہیں جاسکتے اور وہ خداوند عالم حی لایموت ہے ۔ اب اگر تو خود دشمن کی طرح کوچ کرے اور تکلیف اٹھائے تو پھر یہ سمجھ لے کہ مسلمانوں کو ان کے اقصائے بلائو تک پناہ نہ ملے گی اور تیرے بعد کوئی ایسا مرجع نہ ہوگا جس کی طرف وہ رجوع کریں لہذا تو دشمن کی طرف اس شخص کو بھیج جو کار آزمودہ ہو اس کے ماتحت ان لوگوں کو روا نہ کرو جو جنگ کی سختیوں کے متحمل ہوں اور اپنے سردار کی نصیحت کو قبول کریں۔ اب اگر خدا غلبہ نصیب کرے گا تب تو وہ چیز ہے جسے تو دوست رکھتا ہے اور اگر اس کے خلاف ظہور میں آیا تو ان لوگوں کا مددگار اور مسلمانوں کا مرجع تو موجود ہے ۔ (نیرنگ فصاحت صفحہ 19،چشتی)


ہم نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے عربی کلام کا ترجمہ شیعہ حضرات کی کتاب ’’نیرنگ فصاحت‘‘ سے لیا ہے تاکہ ان کو یہ عذر نہ ہو کہ ترجمہ میں دست اندازی کی گئی ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کے اس کلام سے حسب ذیل امور ثابت ہوئے ہیں : ⏬


1 : حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو حضرت علی رضی ﷲ عنہ پر پورا اعتماد تھا ۔ ہر معاملہ میں ان سے مشورہ لیا جاتا ورنہ یہ مُسلّم ہے کہ کوئی شخص اپنے دشمن سے اس طرح کا مشورہ ہرگز نہیں لیا کرتا ۔

2 : حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو مسلمانوں کا ملجا و ماوا سمجھتے تھے ۔ اسی وجہ سے آپ نے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو یہ مشورہ نہ دیا کہ اس مہم میں بذات خود معرکہ کارزار میں جائیں ۔ اگر خدانخواستہ باہمی کدورت ہوتی تو یہ مشورہ دیتے کہ آپ خود لڑائی میں جائیں تاکہ ان کا کام تمام ہو اور آپ کے لئے جگہ خالی ہو۔ اس بات سے ظاہر ہوا کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ ، حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کے صادق دوست تھے ۔

3 : حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کی کامیابی کو کامیابیٔ اسلام تصور کرتے تھے۔ اس لئے ان کو تسلی دی کہ ﷲ تعالیٰ تمہارااور مسلمانوں کا خود حامی و ناصر ہے ۔ جب مسلمان تھوڑے تھے اس وقت بھی ان کی حفاظت فرمائی اور اب تو بفضل خدا مسلمانوں کی تعداد کثیر ہے ۔ پھر اس کی تائید و نصرت پر کیوں نہ بھروسہ کیا جائے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کے کلام سے یار لوگوں کی اس من گھڑت بات کی بھی تردید ہوتی ہے کہ بعد از وصال رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صرف تین چار مسلمان ہی رہ گئے تھے۔ ایسا ہوتا تو آپ یوں فرماتے۔ پہلے مسلمانوں کی تعداد کثیر تھی ، اب گنتی کے چند آدمی رہ گئے ہیں ۔ ان کی اس مہم پر بھیجو تو فتح ہوگی ورنہ شکست ۔


حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضی ﷲ عنہم ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جسم مبارک کو چھوڑ کر خلافت کے چکر میں پڑگئے تھے جس سے تدفین میں تین دن تاخیر ہوئی ؟

جواب : جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصال ہوا تو نفاق نے سر اٹھایا ، عرب کے کچھ لوگ مرتد ہوگئے ۔ منکرین زکوٰۃ کا مسئلہ درپیش آگیا اور انصار نے بھی علیحدگی اختیار کرلی ۔ اتنی مشکلیں جمع ہوگئیں کہ اگر حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی جگہ پہاڑ پر بھی پڑتیں تو وہ بھی اس وزن کو برداشت نہ کرسکتا ۔ لیکن ﷲ اکبر ، حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ نے اپنی حکمت عملی سے ہر ایک مشکل کا مقابلہ کیا ۔ اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ جو صحابہ کرام علیہم الرضوان ایک لمحہ بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے جدا نہیں رہ سکتے تھے ۔ آج وہ غم سے نڈھال ہیں ۔ ان سب کو حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ نے حوصلہ دیا ۔ اسی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تدفین میں تاخیر ہوئی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جنازہ انور اگر قیامت تک کھلا رہتا تو اصلاً کوئی خلل واقع نہ ہوتا کیونکہ انبیاء کرام علیہم السلام کے اجسام طاہرہ بگڑتے نہیں ۔ قرآن گواہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام انتقال کے بعد کھڑے رہے ۔ سال بعد دفن ہوگئے مگر نورانیت میں فرق نہ آیا تو جو رسول ، حضرت سلیمان علیہ السلام کے بھی امام ہوں ، ان کا جسم مبارک کیسے بگڑ سکتا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جنازہ انور حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا کے حجرہ مبارک میں تھا ۔ جہاں اب مزار مبارک ہے ۔ اس سے باہر لے جانا نہ تھا ۔ چھوٹا سا حجرہ اور تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کو اس صلوٰۃ و سلام سے مشرف ہونا تھا ۔ ایک جماعت آتی اور درود وسلام پڑھتی اور باہر چلی جاتی ۔ پھر دوسری جماعت آتی یوں یہ سلسلہ تیسرے دن ختم ہوا ۔ اگر تین برس میں یہ سلسلہ ختم ہوتا تو جنازہ مبارک یوں ہی نور سے جگمگاتا رہتا ۔ اسی صلوٰۃ و سلام کی وجہ سے تاخیر ضروری تھی۔

اگر کسی بدباطن کے نزدیک یہ تاخیر لالچ کے سبب تھی تو سب سے بڑا الزام تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ پر ہے ۔ وہ تو لالچی نہ تھے اور کفن دفن کا کام تو ویسے ہی گھر والوں کے ذمے ہوتا ہے ۔ یہ کیوں تین دن بیٹھے رہے، یہ تدفین فرما دیتے ۔ معلوم ہوا کہ یہ الزام غلط ہے کیونکہ جنازہ انور کی تدفین میں تاخیر دینی مصلحت تھی۔ جس پر حضرت علی رضی ﷲ عنہ اور تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اتفاق تھا ۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان کی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جنازہ میں شرکت ۔ شیعہ حضرات الزام لگاتے ہیں کہ سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ اور دیگر صحابہ کرام علیہم الرضوان نے رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جنازہ میں شرکت نہیں کی جبکہ ان کی اپنی ہی کتاب ’’الاحتجاج طبرسی‘‘ میں ہے : لم یبق من المہاجرین والانصار الاّ صلی علیہ ۔  ترجمہ : مہاجرین اور انصار میں کوئی باقی نہ رہا جس نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جنازہ میں شرکت نہ کی ہو (الاحتجاج طبرسی، جلد اول صفحہ 106 سطر 7 - 6 مطبوعہ ایران)


محترم قارئینِ کرام : حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضی ﷲ عنہم مہاجرین میں سے تھے لہٰذا شیعہ حضرات کی کتاب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جنازے میں ان کی شرکت ثابت ہو گئی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Thursday 20 June 2024

جشنِ غدیرِ خُم رافضیوں اور نیم رافضیوں کے فریب کا جواب

0 comments

جشنِ غدیرِ خُم رافضیوں اور نیم رافضیوں کے فریب کا جواب

محترم قارئینِ کرام : اٹھارہ (18) ذوالحج کو شیعہ لوگ عید غدیر مناتے ہیں کہتے ہیں کہ اس روز حجۃ الوداع سے واپسی پر “غدیر خم” مقام پے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ” میں جس کا مولا علی اس کا مولی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے شیعہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس فرمان کے ذریعے اپنا خلیفہ بلافصل بنایا ۔ اٹھارہ 18 ذی الحج جو کہ خلیفہ راشد دُہرے دامادِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا یومِ شہادت ہے عین اُس دن رافضی شیعہ اور اب اُن کے نقشِ قدم پر چلنے والے سنیوں کے لبادے میں چھپے نیم رافضی جشنِ غدیر منا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟


عجیب بات ہے کہ حجۃ الوداع جو اس وقت مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع تھا اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خلیفہ کسی کو نہ بنایا اور واپسی پر تھوڑی تعداد کے سامنے غدیرخم پر خلیفے کا اعلان کر دیا ؟

اگر خلافت کا اعلان نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کرنا ہوتا تو اس کا صحیح و بہترین موقعہ حجۃ الوداع تھا ۔ غدیرخم مقام پے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک تنازع کا حل فرمایا اور فرمایا کہ علی سے ناگواری مت رکھو ، اس سے محبت کرو ، جس کو میں محبوب ہوں وہ علی سے محبت رکھے ۔

دراصل ہوا یہ تھا کہ مال غنیمت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تقسیم کیا تھا ، تقسیم پر کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ناگوار گذرا انہوں نے غدیرخم مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا اے بریدہ کیا تم علی سے (اس تقسیم کی وجہ سے) ناگواری محسوس کرتے ہو…؟ حضرت بریدہ نے فرمایا جی ہاں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا علی سے ناگواری مت رکھ ، جتنا حصہ علی نے لیا ہے حق تو اس سے زیادہ حصہ بنتا ہے ۔ بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کے بعد میری ناگواری ختم ہوگئ ۔ اس تقسیم وغیرہ کی وجہ سے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وغیرہ کو بھی ناگواری گذری ہو تو ان کی بھی ناگواری ختم ہو اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان فرمایا : فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے : عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ کُهَيْلٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيْ سَرِيْحَةَ . . . أَوْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ، (شَکَّ شُعْبَةُ). . . عَنِ النَّبِيِّ، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ . وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. (قَالَ : ) وَ قَدْ رَوَی شُعْبَةُ هَذَا الحديث عَنْ مَيْمُوْنٍ أبِيْ عَبْدِ ﷲِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ۔
ترجمہ : حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ . . . یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما۔ . . سے مروی ہے (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے ۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہاکہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے ، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب باب مناقب علي بن أبی طالب رضی الله عنه، 5 / 633، الحديث رقم : 3713، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 195، 204، الحديث رقم : 5071، 5096.وَ قَدْ رُوِيَ هَذَا الحديث عَنْ حُبْشِيّ بْنِ جُنَادَةْ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ. أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 134، الحديث رقم : 4652، والطبرانی فی المعجم الکبير، 12 / 78، الحديث رقم : 12593، ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1359، وحسام الدين الهندی فی کنزالعمال، 11 / 608، رقم : 32946،چشتی،وابن عساکرفی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 77، 144، و خطيب البغدادی فی تاريخ بغداد، 12 / 343، و ابن کثير فی البدايه و النهايه، 5 / 451،،چشتی، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 108.وَ قَد رُوِيَ هَذَا الحديث أيضا عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ.أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1355، وابن ابی شيبه فی المصنف، 6 / 366، الحديث رقم : 32072 ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَ الحديث عَنْ ايُوْبٍ الْأَنْصَارِيِّ فِي الْکُتْبِ الآتِيَةِ.أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1354، والطبرانی فی المعجم الکبير، 4 / 173، الحديث رقم : 4052، والطبرانی فی المعجم الاوسط، 1 / 229، الحديث رقم : 348.وَقَدَرُوِيِّ هَذَالحديث عَنْ بُرَيْدَةَ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.أخرجه عبدالرزاق فی المصنف، 11 / 225، الحديث رقم : 20388، و الطبرانی فی المعجم الصغير، 1 : 71، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 143، وابن ابی عاصم فی السنه : 601، الحديث رقم : 1353، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 146، وابن کثيرفی البدايه و النهايه، 5 / 457، وحسام الدين هندی فی کنز العمال، 11 / 602، رقم : 32904.وَقَدْ رُوِيَ هَذَالحديث عَنْ مَالِکِ بْنِ حُوَيْرَثٍ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.أخرجه الطبرانی فی المعجم الکبير، 19 / 252، الحديث رقم : 646، و ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 106) ۔ (مولا کا صحیح معنیٰ و مفہوم اس پر ہم الگ سے مضمون لکھ چکے)

شیعہ کتب سے : ⏬

و خرج بريدة الأسلمي فبعثه علي عليه السلام في بعض السبي، فشكاه بريدة إلى رسول الله صلى الله عليه وآله فقال رسول الله صلى الله عليه وآله: من كنت مولاه فعلي مولاه ۔ یعنی بریدہ اسلمی نے رسول کریم سے حضرت علی کی مال غنیمت کی تقسم کی شکایت تو رسول کریم نے فرمایا میں جسکا مولا و محبوب ہوں علی بھی اس کے مولا و محبوب ہیں) لہٰذا ناگواری نہ رکھو، ختم کرو) ۔ (شیعہ کتاب بحار الانوار جلد 37 صفحہ 190)

فأصبنا سبيا قال : فكتب إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: أبعث لنا من يخمسه، قال: فبعث إلينا عليا رضي الله عنه وفي السبي وصيفه هي من أفضل السبي قال: وقسم فخرج ورأسه يقطر، فقلنا: يا أبا الحسن ما هذا ؟ قال: ألم تروا إلى الوصيفة التي كانت في السبي فإني قسمت وخمست فصارت في الخمس، ثم صارت في أهل بيت النبي صلى الله عليه وآله، ثم صارت في آل علي ووقعت بها، قال: فكتب الرجل إلى نبي الله صلى الله عليه وآله، فقلت: ابعثني مصدقا، قال: فجعلت أقرأ الكتاب وأقول صدق، قال: فأمسك يدي والكتاب، قال: أتبغض عليا؟ قال: قلت: نعم قال: فلا تبغضه وان كنت تحبه فازدد له حبا، فوالذي نفس محمد بيده لنصيب علي في الخمس أفضل من وصيفة، قال: فما كان من الناس أحد بعد قول رسول الله صلى الله عليه وآله أحب إلي من علي ۔ بریدہ اسلمی کہتےہیں ہمیں مال غنیمت حاصل ہوا…رسول کریم کی طرف خط لکھا کہ تقسیم کے لیے کسی کو بھیجیں،رسول کریم نے علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا حضرت علی نے تقسیم کیا اور اپنا حصہ بھی نکالا، ابو بریدہ تقسیم کی شکایت لے کر (غدیر خم مقام پے) رسول کریم کو پہنچے اور شکایت و ناگواری کا اظہار کیا رسول کریم نے فرمایا علی نے جتنا لیا اس سے بڑھ کرحصہ ہے اگر علی سے ناگواری ہے تو ختم کردو اگر محبت ہےتو زیادہ محبت کرو ۔ (شیعہ کتاب کشف الغمہ لاربیلی جلد1 صفحہ 293)

یہ تھا اصل پس منظر کہ تنازع پے ناگواری جگھڑا ختم کرایا گیا باقی نہ تو کوئی بیعت لی گئ اور نہ بیعت و خلافت کا اعلان کیا گیا ۔ یہ تھا پس منظر جسکو جھوٹے مکار شیعوں نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ۔

عید غدیر چونکہ شیعہ لوگ غلط نظریہ خلیفہ بلافصل کے تناظر میں مناتے ہیں اس لیے یہ کوئی عید نہیں ، اس کی کوئی اصل نہیں بلکہ یہ جرم و گناہ ہے ۔ کیونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بلافصل نہیں بلکہ چوتھے خلیفہ ہیں ۔

حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : بلغني أن أناسا يفضلوني على أبي بكر وعمر، لا يفضلني أحد على أبي بكر وعمر إلا جلدته حد المفتري ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے خبر ملی ہے کہ کچھ لوگ ابوبکر اور عمر پر مجھے فضیلت دیتے ہیں، مجھے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر کوئی فضیلت نہ دے ورنہ اسے وہ سزا دونگا جو ایک مفتری (جھوٹ.و.بہتان والے)کی سزا ہوتی ہے ۔ (یعنی 80 کوڑے مارونگا)  (فضائل الصحابہ روایت نمبر387)

یوم غدیر کے متعلق بہت کچھ شیعہ کتب میں ہے اس کا اکثر جھوٹ ہے ، شیعوں نے اپنی طرف سے لکھا اور نام اہلبیت رضی اللہ عنہم یا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ڈال دیا ہے ۔ امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : الناس ﺃﻭﻟﻌﻮﺍ ﺑﺎﻟﻜﺬﺏ ﻋﻠﻴﻨﺎ، ﻭﻻ ﺗﻘﺒﻠﻮﺍ ﻋﻠﻴﻨﺎ ﻣﺎ ﺧﺎﻟﻒ ﻗﻮﻝ ﺭﺑﻨﺎ ﻭﺳﻨﺔ ﻧﺒﻴﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق رضی اللہعنہ فرماتے ہیں کہ لوگ جو (بظاہر) ہم اہلبیت کے محب کہلاتے ہیں انہوں نے اپنی طرف سے باتیں ، حدیثیں گھڑ لی ہیں اور ہم اہلبیت کی طرف منسوب کر دی ہیں جوکہ جھوٹ ہیں ، تو ہم اہل بیت کی طرف نسبت کرکے جو کچھ کہا جائے تو اسے دیکھو کہ اگر وہ قرآن اور ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے خلاف ہو تو اسے ہرگز قبول نہ کرو ۔ (شیعہ کتاب رجال کشی صفحہ 135 ، 195)

وہ جو کہتے ہیں کہ اسلام کے نام پر بننے والے فرقوں میں سے سب سے زیادہ جھوٹے شیعہ ہیں ۔ بالکل سچ کہتے ہیں ، جس کی تائید امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے قول سے بھی ہوتی ہے ۔ امام جعفر صادق کے قول سے واضح ہوتا ہے کہ اہلبیت بالخصوص حضرت علی ، بی بی فاطمہ، امام جعفر صادق ، حسن ، حسین رضی اللہ عنہم کی باتیں اگر قرآن و سنت کے متصادم ہوں تو سمجھ لو کہ یہ ان کا قول ہی نہیں بلکہ کسی نے اپنی طرف سے جھوٹ بول کر ان کی طرف منسوب کر دیا ہے ۔ لہٰذا کسی بھی عالم مفتی صوفی پیر فقیر فرقہ کسی کی بھی بات قرآن و سنت کے خلاف ہو تو ہرگز معتبر نہیں ۔

امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی بات سے ثابت ہوتا ہے فقہ جعفریہ ، فقہ شیعہ ، عقائد شیعہ ، مذہب شیعہ جھوٹ و مکاری کا پلندہ ہے ۔ کیونکہ شیعوں کی کتابیں قرآن و سنت کے خلاف سے بھری پڑی ہیں ۔ ہاں شیعوں کی وہ بات جو قرآن و سنت کے مخالف نہ ہو وہ قابل قبول و دلیل بن سکتی ہے ۔

اکابرینِ اہلسنت علیہم الرّحمہ کا مٶقف : ⏬

امام بزدوی علیہ الرحمہ المتوفی 493ء عقیدہ اہل سنت پر مشتمل اپنی مشہور کتاب "اصول الدین " میں من کنت مولاہ فعلی مولاہ کے تحت لکھتے ہیں : رہی بات حدیث ولایت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی تو اس سے بھی استدلال کرنا درست نہیں ، اس لئے اس میں لفظ مولیٰ کو ذکر کیا گیا ہے اور عربی کلام میں ایسا ہوتا ہے کہ لفظ مولی کوذکر کرکے اس سے مدد گار مراد لیا جاتا ہے،  ۔۔۔۔۔۔۔۔اس حدیث میں لفظ مولیٰ سے آقا اور غلام آزاد کرنے والا تو مراد نہیں لیا جا سکتا ، ہاں البتہ مددگار اور مُحبّ مراد لیا جاسکتا ہے ، اور محب و محبوب کے الفاظ سے استحقاق خلافت کا ثبوت نہیں فراہم ہوتا ، اسی وجہ سے ہم بھی یہی کہتے ہیں: اس حدیث سے جناب علی المرتضی کی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کا استحقاق ثابت نہیں ہوتا ۔ (اصول الدین مترجم صفحہ 512 پروگریسو بکس لاہور)

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے بھی اپنی رفض توڑ کتاب " تحفہ اثناء عشریہ " میں اس روایت کا مطلب حضرت علی کی دوستی کو واجب ٹھہرانا اور دشمنی سے ڈرانا لکھا ہے ۔ (تحفہ اثناء عشریہ مترجم صفحہ نمبر 418،چشتی)

علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی علیہ الرحمہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں : حدیث مذکورہ میں مولا سے مراد محبوب ہے حدیث کے آخری دعائیہ الفاظ اس پر قرینہ ہیں ، حدیث میں کوئی لفظ ایسا موجود نہیں ، جو اس بات کا قرینہ بن سکے کہ مولا سے مراد امام ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا: کہ "میں جس کا مولا ہوں" اس سے بعد والی بات کو سامعین کے ذہن میں پختہ کرنے کی غرض سے ہے ، اگر آپ اس موقع پر امامت علی ہی کا اعلان فرما رہے ہوتے ، تو اس سے صریح اور واضح تر لفظ میں امامت کا اعلان کر سکتے تھے ۔ (السیف المسلول مترجم صفحہ نمبر 244 فاروقی کتب خانہ ملتان)

امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : جس کا میں مولا اس کا یہ مولا ، دوست رکھ اسے جو اسے دوست رکھے ، اور دشمن رکھ اسے جو اس سے دشمنی کرے۔ حدیث صحیح ہے ، اور اس میں بعض علمائے شان نے جو کلام کیا مقبول نہیں ، مگر تفضیلیہ یا رافضیہ کا مطلب اس سے کچھ نہیں نکلتا ۔ (مطلع القمرین صفحہ 70 کتب خانہ امام احمد رضا راولپنڈی)

تاجدار گولڑہ حضرت سیّدُنا پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : خُم غدیر کے واقعہ کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" بریدہ کی شکایت کی وجہ سے تھا اس کا مطلب یہ ہے ، کہ علی سے دوستی اور محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوستی ہے ۔
تاجدار گولڑہ حضرت سیّدُنا پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ آگے فرماتے ہیں : بریدہ اسلمی کے بیان واقعات و مبشرات اور اپنے مقام پر بیان شدہ نصوص قرآنیہ سے واضح ہوجاتا ہے ، کہ خُم غدیر والی حدیث کو سیدنا علی کی خلافت بلا فصل سے کوئی تعلق نہیں ۔
تاجدار گولڑہ حضرت سیّدُنا پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں : سیدنا علی حدیثِ خُم غدیر کو اپنی خلافت کےلیے سند نہیں سمجھے ہوئے تھے ۔ (تصفیہ مابین سُنّی و شیعہ صفحہ 33-34)
تاجدار گولڑہ حضرت سیّدُنا پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ مزد فرماتے ہیں : غدیر خم والی روایت کو مولیٰ علی رضی اللّٰه عنہ کی خلافت بلا فصل سے کوئی تعلق نہیں ۔ (تصفیہ مابین سنی و شیعہ صفحہ نمبر 3،چشتی)

محترم قارئینِ کرام : غدیرِ خم کے واقعے کا پسِ منظر جو روایات میں آتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حج سے قبل حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف خمس وغیرہ جمع کرنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت پر امیر بنا کر بھیجا تھا ۔ واپسی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خمس کے مال میں سے ایک بہترین لونڈی اپنے لیے رکھ لی ۔ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس پہ اعتراض کیا ۔ جب یہ لوگ مکہ پہنچے تو ان میں سے ایک صحابی رضی اللہ نہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکایت لگا دی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ علی رضی اللہ عنہ سے (اس معاملے کی وجہ سے) رنجش رکھتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں ، تو آپ نے فرمایا کہ ایسا نہ کریں کہ علی رضی اللہ عنہ کے لیے خمس میں اس سے بھی زیادہ حصہ ہے جو انہوں نے رکھ لیا ہے ۔ (صحیح البخاری)

علامہ ابن کثیر اپنی تصنیف السیرۃ النبویۃ میں اس کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں : ذی الحجہ کا مہینہ تھا اس ماہ کی اٹھارہ تاریخ تھی ، اتوار کا دن تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس موقع پر ایک عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا جس میں سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے فضل و کمال ، امانت و دیانت ، عدل و انصاف کے بارے میں اپنی زبان حقیقت بیان سے شہادت دی اس شہادت کے بعد اگر کسی غلط فہمی کے باعث کسی کے دل میں سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں کوئی وسوسہ تھا تو وہ ہمیشہ کےلیے محو ہو گیا ـ حضرت بریدہ بن حصیب کہتے ہیں میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جن کے دلوں میں سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کی ذات والا صفات کے بارے میں طر ح طرح کی غلط فہمیاں پیدا ہو گئی تھیں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پاک کو سن کر میرے دل میں سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کی اتنی محبت پیدا ہو گئی کہ آپ میرے سب سے زیادہ محبوب بن گئے ـ  (ابن کثیر السیرۃ النبویۃ جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 333،چشتی)

اب جن صاحب نے شکایت لگائی تھی وہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وضاحت سے مطمئن اور راضی ہو گئے البتہ لوگوں کے درمیان یہ بات پھیل گئی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہونے لگیں ۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات کے متعلق عام الناس کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے شبہات کو ختم کرنے کے لیے خطاب کرنا مناسب سمجھا اور اس کے لیے غدیرِ خم کے مقام کو چنا گیا ۔

غدیرِ خم مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے ۔ چونکہ یہ مقام عہدِ نبوی میں ایک چوراہے کی حیثیت رکھتا تھا ، یہاں سے جزیرہ نما عرب کے اطراف و اکناف کے لیے راستے نکلتے تھے لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس مقام کو نہایت مناسب سمجھا ۔ چنانچہ حج سے واپسی پر جب حجاج کرام کا قافلہ غدیرِ خم کے مقام پر پہنچا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہاں مختصر قیام فرمایا اور بعد نمازِ ظہر خطبہ ارشاد فرمایا ۔ کہ جس میں رسول اللہ نے فرمایا کہ "جس کا میں مولا ہوں، علی بھی اس کا مولا ہے ۔ جس کی مکمل تفصیل ہم بعنوان ،، مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ کا صحیح معنیٰ و مفہوم ،، لکھ چکے ہیں الحَمْدُ ِلله ۔ مزید مختصراً چند گذارشات پیشِ خدمت ہیں ۔

یہ تو آ گیا غدیرِ خم کا واقعہ اور اس کا پسِ منظر ۔ اب سوال ہے کہ مولا کے معنے کیا ہیں ؟ تو عرض ہے کہ مولا ایک کثیر المعانی لفظ ہے ۔ اور بنیادی اصولِ لغت ہے کہ کسی بھی کثیر المعانی لفظ کا کوئی ایک مطلب نہیں لیا جا سکتا۔ الا یہ کہ اس کے سیاق و سباق میں کوئی واضح قرینہ موجود ہو یا پھر اس کثیر المعانی لفظ کے کہنے والی کی کوئی وضاحت موجود ہو ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے لفظِ مولا کی کوئی وضاحت تو قطعی وارد نہیں ۔ البتہ اگر اس واقعے کے پسِ منظر پہ غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مقصد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق لوگوں کے ذہنوں سے شبہات رفع کرنا اور ان کے دلوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت پیدا کرنا تھا ۔ سو ایسے میں لفظِ مولا کے معنے دوست یا عزیز کے بنتے ہیں ۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ارشاد ”فَمَن کُنْتُ مَولَاہُ فَہذَا عَلِيّ مَولاہ“ کا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص مجھے دوست یا عزیز رکھتا ہے وہ علی کو بھی دوست و عزیز رکھے ۔

حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جب ‘‘غدیر خُم’’(کے مقام) پر تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمانے لگے ، کیا تم نہیں جانتے کہ میں مومنین کی جانوں سے زیادہ ان کا محبوب ہوں ؟ حاضرین نے عرض کیا کیوں نہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ میں ہر مومن کی جان سے زیادہ اس کو محبوب ہوں ؟ حاضرین نے عرض کیا کیوں نہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اے اللہ ! جس کا میں محبوب (مولیٰ) ہوں تو علی بھی اس کے محبوب (مولیٰ) ہیں ، اے اللہ ! جو علی سے محبت (موالات) کرے تو اس سے محبت (موالات)کر ، اور جو علی رضی اللہ عنہ سے نفرت (معادات) کرے تو اس سے نفرت (معادات) کر ۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ جلد 10 صفحہ 475 بحوالہ احمد،چشتی)

مذکورۃالصدر حدیث اور اس کے پسِ منظر کی تفصیل سے یہ بات بخوبی معلوم ہوجاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مقصد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت اور خلافت کو بیان کرنا نہیں بلکہ ان شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا مقصود ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بعض معاملات میں رفقاءِ سفر کے ذہنوں میں پیدا ہوئے ، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی براءت کے اظہار کے بعد ان سے محبت کا حکم ہے ۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مقصد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت اور خلافت کو بیان کرنا ہوتا تو صاف طور پر واضح الفاظ میں اس کا اظہار فرمادیتے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ میرے بعد خلیفہ ہوں گے ، ایسے الفاظ اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی جن سے معاملہ مبہم اور مخفی رہے ۔

لغت کے مشہور امام ابن اثیر علیہ الرحمہ لفظ ‘‘مولیٰ’’ کے تحت لکھتے ہیں : اور یہ لفظ ‘‘مولیٰ’’ ایک ایسا لفظ جو کئی معانی پر بولا جاتا ہے ، پس مولیٰ کے معنیٰ پروردگار ، مالک ، سردار ، محسن ، آزاد کرنے والا ، مددگار ، محبت کرنے والا ، فرمانبردار ، پڑوسی ، چچازاد بھائی ، عہد و پیمان کرنے والا ، عقد کرنے والا ، داماد ، غلام ، آزاد کردہ غلام ، اور احسان مند کے آتے ہیں اور ہر حدیث کے مقتضیٰ کے مطابق معنیٰ مراد لیا جاتا ہے ۔ (النہایۃ جلد 5 صفحہ 228)

مذکورہ بالا حدیث کے آخر میں ولایت کے عداوت کے ساتھ تقابل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ‘‘مولیٰ’’اور ‘‘اولیٰ’’ وغیرہ الفاظ سے محبت کا معنیٰ ہی مراد ہے جو عداوت کی ضد ہے ، اگر محبت کا معنیٰ مراد نہ ہوتا تو ولایت کے تقابل میں عداوت کا لفظ ذکر نہ کیا جاتا ۔

نیز’’مولیٰ‘‘ سے امامت اور خلافت کا معنیٰ مراد لینے کی صورت میں لازم آئیگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حیات ہی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی امام اور خلیفہ ہوں ، کیونکہ حدیث میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد مولیٰ ہوں گے ، بلکہ حدیث میں صرف اس قدر ہے کہ جس کا میں مولیٰ ہوں اس کے علی رضی اللہ عنہ مولیٰ ہیں ۔ اگر یہاں محبت والا معنیٰ مراد نہیں لیا جاتا تو یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد خلیفہ بلا فصل ہونے پر نہیں بلکہ امامت اور خلافت کے سلسلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مساوات اور اشتراک پر دال ہوگی جو شیعہ و نیم شیعہ حضرات کو بھی تسلیم نہیں ۔ لہٰذا اس حدیث سے وہی معنیٰ متعین ہیں جو اوپر مذکور ہوئے ۔

ایک دوسری حدیث میں یہی لفظ ‘‘مولیٰ’’ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے لیے بھی استعمال ہوا ہے ، چنانچہ ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان سے فرمایا ‘‘أنت مولای و منی’’ (آپ میرے مولیٰ ہیں اور مجھ سے ہیں) ۔ (طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 44)

اور دوسری روایت میں ہے ‘‘أنت مولای و أحب القوم الیّ’’ ۔ (آپ میرے مولیٰ ہیں اور مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب ہیں ۔ (مصنف عبد الرزاق جلد 11 صفحہ 227،چشتی)

اور ایک روایت میں ہے ‘‘أنت اخونا و مولانا’’ ۔ (آپ ہمارے بھائی اور ہمارے مولیٰ ہیں) ۔ (طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 43)

اگر مولیٰ سے امام اور خلیفہ کے معنیٰ ہی متعین ہوں تو پھر چاہیے کہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد امام اور خلیفہ بلافصل ہوں ۔ لیکن جب یہاں یہ معنیٰ مراد نہیں تو حدیث ‘‘من کنت مولاہ الخ’’میں بھی اس تخصیص کی کوئی وجہ نہیں ۔ ،،جس کا میں مولیٰ اس کا علی مولیٰ،، یہ مکمل حدیث نہیں بلکہ حدیث کا ایک ٹکڑا ہے ، شیعہ حضرات اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بلافصل ہونے اور اپنے خودساختہ نظریۂ امامت پر استدلال کرتے ہیں ، لیکن اس حدیث کی مکمل تفصیل اور اس کے پسِ منظر کی مذکورہ وضاحت سے شیعہ حضرات کے جھوٹے استدلال کی حقیقت واضح ہو گٸی ۔

شیعہ و نیم شیعہ تفضیلی حضرات کے خود ساختہ نظریۂ امامت و خلافت کے اس حدیث کے ساتھ عدمِ تعلق کی ایک بہت بڑی شہادت یہ بھی ہے کہ سیدنا حضرت امام حسن کی اولاد میں سے حضرت امام حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہم سے کہا گیا کہ کیا ‘‘من کنت مولاہ’’کی حدیث میں سیدنا علی رضی اللہ نہ کی امامت (خلافت) کی صراحت نہیں ؟ تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ خبردار ! اللہ کی قسم اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس سے امارت یا حکومت کا ارادہ فرماتے تو یہ بات صاف صاف بیان فرما دیتے ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بڑھ کر مسلمانوں کا خیر خواہ کوئی نہیں ہو سکتا ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صاف فرما دیتے کہ اے لوگو ! یہ (حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ) میرے بعد تمہارے حاکم اور تمہارے نگران ہوں گے ، ان کی بات سنو اور اطاعت کرو ، مگر ایسی کوئی بات نہیں ، اللہ کی قسم اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم  کے حکم کو ترک فرما دیتے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سب لوگوں سے بڑھ کر خطاکار ہوتے ۔ (الصواعق المحرقۃ صفحہ 48)(تحفۂ اثنا عشریۃ صفحہ 209)(تفسیر روح المعانی جل 6 صفحہ 195،چشتی)(التاریخ الکبیر لابن عساکر جلد 4 صفحہ 166)

ملاحظہ فرمائیں کہ خانوادۂ نبوت نے کس وضاحت کے ساتھ ہر قسم کے شبہ کا جواب دیدیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ارشاد مبارک کی تشریح کرتے ہوئے ہر طرح کے باطل احتمالات کی بیخ کنی کر کے مرادِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو متعین فرمادیا ، اس کے بعد کسی قسم کا شبہ نہیں رہنا چاہیے ۔

اب جہاں تک تعلق ہے اس سوال کا کہ شیعہ حضرات اس دن کی مناسبت سے عید کیوں مناتے ہیں تو عرض ہے کہ یہ شیعہ مذھب کے دجل و فریب میں سے ایک ہے ۔ اوپر غدیرِ خم کے پسِ منظر کی تفصیل لکھی ہے کہ یہ واقعہ دراصل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس لونڈی والے واقعہ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کو سنبھالنے کی وجہ سے پیش آیا ۔ لیکن شیعہ حضرات نے اسے علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا اعلان قرار دے کر اس بنیاد پر اپنا پورا مذھب گھڑ ڈالا ۔ اور سونے پہ سہاگا یہ کہ کہتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے غدیرِ خم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی "خلافت" کا اعلان کیا تو اللہ نے تکمیلِ دین کی آیت نازل فرمائی ۔ جبکہ یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ مذکورہ آیت نو (9) ذی الحجہ کو میدانِ عرفات میں نازل ہوئی تھی ۔ جبکہ غدیرِ خم کا واقعہ اٹھارہ ذی الحجہ کا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ اگر شیعہ و نیم شیعہ حضرات کی یہ دونوں باتیں مان لی جائیں یعنی یہ کہ غدیرِ خم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت و ولایتِ باطنی کا اعلان ہوا اور اس پر تکمیلِ دین کی آیت نازل ہوئی تو ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ظاہری وصال مبارک کے فوراً بعد خلافت کے معاملے میں انصار و مہاجرین رضی اللہ عنہم میں اختلاف پیدا ہوا تھا کہ جسے رفع دفع کرنے کے لیے حضرے عمر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی ، تو اس وقت کیوں کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے اس پہ اعتراض نہ کیا ؟ کہ جی خلافت کا اعلان تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں ہو چکا لہٰذا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ نہیں بن سکتے ۔ کیا حق کی گواہی دینے والا کوئی بمشول حظرت علی ایک شخص (رضی اللہ عنہم) بھی وہاں موجود نہیں تھا ؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تربیت معاذ اللہ اتنی ناقص تھی کہ آپ کے فوت ہوتے ہی آپ کے ساتھی سب کچھ بھول بیٹھے ؟ غدیرِ خم کے واقعے کے کوئی دو چار گواہ تو تھے نہیں ۔ کم و بیش ایک لاکھ  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس واقعے کے عینی شاہد تھے ۔ حتیٰ کہ خود ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما وہاں موجود تھے ۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ "خلافت کے اعلان" کے باوجود عمر بیعتِ ابوبکر رضی اللہ عنہما کر لیں اور لوگ بھی اسے تسلیم کر لیں ۔ کسی بھی شخص ، حتیٰ کہ خود حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے بھی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو غدیرِ خم کے "اعلان" کی یاد نہ دلائی کیوں ؟

عیدِ غدیر کا بانی عراقی شیعہ حاکم معز الدین احمد بن ابویہ دیلمی ہے ۔سب سے پہلے اس نے رافضیوں کے ساتھ 18 ذی الحجہ 352 ھ کو بغداد میں عیدِ غدیر منائی ۔ نیز عیدِ غدیر اس نیت سے منانا کہ مولا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بلا فصل بنایا گیا تھا یہ روافض کی بدعت سیئہ و شنیعہ ہے جو سراسر باطل اور گمراہی پر مبتلا ہے ۔ حدیثِ غدیر کی شرح جو سیاق و سباق سے ثابت ہے اس کے مطابق مولا کے معنی خلیفہ و حاکم نہیں بلکہ دوست ، محبوب وغیرہ ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس حدیث سے خلیفہ بلافصل ماننا دیگر احادیث کے صریح خلاف ہے جوکہ گمراہی ہے کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بلا فصل ہونے پر اجماع ہے ۔ لہٰذا اہلِ سنت و جماعت پر لازم ہے کہ وہ عیدِ غدیر کے نام پر محافل منعقد کرنے سے بچیں کہ یہ بدمذہبوں کا شعار ہے ۔

غدیر کی تاریخ : ⏬

رمضان المبارک 10 ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مولا علی رضی اللہ عنہ کو مالِ غنیمت کا خمس یعنی پانچواں حصہ وصول کرنے کےلیے یمن کی طرف ایک لشکر کا امیر بناکر بھیجا تھا ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع کےلیے مکہ مکرمہ تشریف لے آئے ، یہیں قیام کے دوران مولا علی رضی اللہ عنہ بھی مکہ مکرمہ پہنچ گئے اور خمس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیا ۔ اس سفر میں مولا علی رضی اللہ عنہ کے بعض ساتھیوں کو آپ کے کچھ فیصلوں سے اختلاف ہوا ، سفر سے واپسی پر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اس بات کی شکایت کی ۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیرخم (بمعنی تالاب خم ایک جگہ ہے حجفہ منزل سے تین میل دور ہے) کے مقام پر خطبہ ارشاد فرمایا جس میں مولا علی رضی اللہ عنہ کے ان فیصلوں کو درست قرار دیا اور ان کے ساتھ محبت و عقیدت کا معاملہ رکھنے اور بد گمانی سے بچنے کی تلقین فرمائی ۔

مذکورہ بالا حدیث پاک کے پس منظر کے متعلق المستدرک ، السنن الكبرى ، فضائل الصحابة لاحمد بن حنبل اور کثیر کتب احادیث میں ہے ، واللفظ للاؤل : عن بريدة الأسلمى رضى الله عنه قال : غزوت مع على إلى اليمن فرأيت منه جفوة ، فقدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت عليا فتنقصته فرأيت وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم يتغير، فقال: يا بريدة، ألست أولى بالمؤمنين من أنفسهم ؟ قلت : بلى يا رسول الله ، فقال : من كنت مولاه فعلی مولاه وذكر الحديث ، هذا حديث صحيح على شرط مسلم، ولم يخرجاه ۔
ترجمہ : حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں مولا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن کی طرف گیا ، تو میں نے ان میں کچھ نامناسب بات دیکھی ، تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر مولا علی رضی اللہ عنہ کی طرف نقص کی نسبت کر دی ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ متغیر ہو گیا ، ارشاد فرمایا : اے بریدہ ! کیا میں مومنوں کا ان کی جانوں سے زیادہ مالک نہیں ہوں ؟ میں نے عرض کی ، کیوں نہیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا : جس کا میں مولی (محبوب) ہوں ، علی بھی اس کے مولیٰ (محبوب) ہیں ۔ یہ حدیث یہاں ذکر کی گئی ہے اور یہ مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے ، لیکن اس کو شیخین نے روایت نہیں کیا ۔ (المستدرک للحاکم جلد 3 صفحہ 119 مطبوعہ دار الكتب العلميہ بيروت،چشتی)

حدیث مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ کا صحیح معنیٰ و مفہوم

محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ ۔ (سورہ تحريم 66 : 4)
ترجمہ : سو بے شک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے ، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں ۔

فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ کُهَيْلٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيْ سَرِيْحَةَ ۔ أَوْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ ، (شَکَّ شُعْبَةُ) ۔ عَنِ النَّبِيِّ ، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ ۔ وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ ۔ (قَالَ :) وَ قَدْ رَوَی شُعْبَةُ هَذَا الحديث عَنْ مَيْمُوْنٍ أبِيْ عَبْدِ ﷲِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ۔
ترجمہ : حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ ۔ یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے مروی ہے (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں ، اُس کا علی مولا ہے ۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے ، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب باب مناقب علي بن أبی طالب رضی الله عنه، 5 / 633، الحديث رقم : 3713، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 195، 204، الحديث رقم : 5071، 5096.وَ قَدْ رُوِيَ هَذَا الحديث عَنْ حُبْشِيّ بْنِ جُنَادَةْ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ. أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 134، الحديث رقم : 4652، والطبرانی فی المعجم الکبير، 12 / 78، الحديث رقم : 12593، ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1359، وحسام الدين الهندی فی کنزالعمال، 11 / 608، رقم : 32946، وابن عساکرفی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 77، 144، و خطيب البغدادی فی تاريخ بغداد، 12 / 343، و ابن کثير فی البدايه و النهايه، 5 / 451،،چشتی، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 108.وَ قَد رُوِيَ هَذَا الحديث أيضا عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ.أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1355، وابن ابی شيبه فی المصنف، 6 / 366، الحديث رقم : 32072 ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَ الحديث عَنْ ايُوْبٍ الْأَنْصَارِيِّ فِي الْکُتْبِ الآتِيَةِ.أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1354، والطبرانی فی المعجم الکبير، 4 / 173، الحديث رقم : 4052، والطبرانی فی المعجم الاوسط، 1 / 229، الحديث رقم : 348.وَقَدَرُوِيِّ هَذَالحديث عَنْ بُرَيْدَةَ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.أخرجه عبدالرزاق فی المصنف، 11 / 225، الحديث رقم : 20388، و الطبرانی فی المعجم الصغير، 1 : 71، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 143، وابن ابی عاصم فی السنه : 601، الحديث رقم : 1353، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 146، وابن کثيرفی البدايه و النهايه، 5 / 457، وحسام الدين هندی فی کنز العمال، 11 / 602، رقم : 32904.وَقَدْ رُوِيَ هَذَالحديث عَنْ مَالِکِ بْنِ حُوَيْرَثٍ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.أخرجه الطبرانی فی المعجم الکبير، 19 / 252، الحديث رقم : 646، و ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 106)

مفسّرِین کے نزدیک ’’مولیٰ ‘‘ کے معنیٰ : ⏬

وہ تفاسیر جن میں مولا کے معنیٰ مددگار لکھے ہیں : اِس آیتِ مبارکہ میں وارِد لفظ’’ مولیٰ ‘‘کے معنیٰ وَلی اور ناصِر ( یعنی مدد گار) لکھے ہیں ۔ (1) تفسیرطَبَری جلد 12صفحہ154 ۔ (2) تفسیرقُرطُبی جلد 18 صفحہ 143 ۔ (3) تفسیرِکبیرجلد 10صفحہ570 ۔ (4) تفسیرِبَغْوی جلد 4صفحہ337 ۔ (5) تفسیرِ خازِن جلد 4صفحہ286 (6) تفسیرِ نَسفی صفحہ1257 ۔

اُن چار کتابوں کے نام بھی حاضِر ہیں جن میں آیتِ مبارَکہ کے لفظ ’’مولیٰ‘‘ کے معنیٰ ’’ناصر‘‘ (یعنی مددگار) کیے گئے ہیں : (1) تفسیرِجلالین صفحہ465 ۔ (2) تفسیرِ رُوحُ الْمَعانی جلد 28 صفحہ481 ۔ (3) تفسیرِبیضاوی جلد 5صفحہ 356 ۔ (4) تفسیرابی سُعُود جلد 5 صفحہ 738 ۔

النھایہ میں لفظ مولا کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں ۔ (1) رب (پرورش کرنیوالا (2) مالک ۔ سردار(3) انعام کرنیوالا (4) آزاد کرنیوالا (5) مدد گار (6) محبت کرنیوالا (7)تابع (پیروی کرنے والا) (8)پڑوسی (9) ابن العم (چچا زاد) (10) حلیف (دوستی کا معاہدہ کرنیوالا ) (11) عقید (معاہدہ کرنے والا ) (12) صھر (داماد، سسر ) (13)غلام (14) آزاد شدہ غلام (15) جس پر انعام ہوا (16) جو کسی چیز کا مختار ہو ۔ کسی کام کا ذمہ دار ہو ۔ اسے مولا اور ولی کہا جاتا ہے ۔ (17) جس کے ہاتھ پر کوئی اسلام قبول کرے وہ اس کا مولا ہے یعنی اس کا وارث ہوگا وغیرہ ۔ (ابن اثير، النهايه، 5 : 228)

حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے الفاظ ’’جس کا میں مولیٰ ہوں علی بھی اُس کے مولیٰ ہیں ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : مولیٰ کے بَہُت (سے) معنٰی ہیں : دوست ، مددگار ، آزاد شُدہ غلام ، (غلام کو) آزاد کرنے والا مولیٰ ۔ اِس (حدیثِ پاک میں مولیٰ) کے معنٰی خلیفہ یا بادشاہ نہیں یہاں (مولیٰ) بمعنی دوست (اور) محبوب ہے یا بمعنی مددگار اور واقِعی حضرتِ سیِّدُنا علیُّ الْمُرتَضٰی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے دوست بھی ہیں ، مددگار بھی ، اِس لئے آپ رضی اللہ عنہ کو ’’مولیٰ علی‘‘ کہتے ہیں ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد ۸ صفحہ ۴۲۵)

مولىٰ کا صحیح مطلب : ⏬

علم اللغة والنحو والأدب والانساب کے امام محمد بن زیاد ابن الاعرابی ابو عبدالله الہاشمی علیہ الرحمہ (١٥٠-٢٣١ ہجری) فرماتے ہیں : چچازاد ، آزاد کرنے والے ، آزاد ہونے والے ، کاروباری ساجھی ، معاہدہ کرنے والے ، محبت کرنے والے، با اثر اور دوست سب کو (مولىٰ) کہتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : (من كنت مولاه فعلي مولاه) ۔ ترجمہ : جس کا میں دوست ہوں اس کا علی رضی اللہ عنہ بھی دوست ہے ۔ یعنی جو مجھ سے محبت رکھتا ہے، وہ حضرت علی سے بھی محبت رکھے ، ثعلب کہتے ہیں : رافضیوں (شیعہ) کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ پوری مخلوق کے مولا یعنی مالک ہیں ، اس معاملہ میں رافضی لوگ کفر کے مرتکب ہوۓ ہیں، یہ بات تو عقلی اعتبار سے بھی غلط ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خرید و فروخت کرتے تھے ، جب تمام چیزیں ان کی ملکیت تھیں تو خرید و فروخت کیسی ؟ مذکورہ حدیث میں لفظ مولا، محبت اور دوستی کے باب سے ہیں ۔ (تاریخ دمشق لامام ابن عساکر جلد ٤٢ فحہ ٢٣٨ وسندہ صحیح،چشتی)

یمن میں قیام کے دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ کو متعدد واقعات پیش آئے تھے ۔ علماء سیرت نے اس میں متعدد روایات ذکر کی ہیں ان میں سے ایک بطور خلاصہ ذکر کی جاتی ہے ۔

سیرت کی روایات میں ہے کہ یمن کے علاقہ سے مال غنیمت میں کچھ لونڈیاں آئیں ۔ ان اموال غنائم سے بطور خمس حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک خادمہ حاصل کی اس پر دیگر ساتھیوں کو کچھ اعتراض ہوا۔ گو موقعہ پر کوئی خاص کشیسگی نہیں ہوئی ۔ پھر جب یہ حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حج سے واپسی پر مدینہ منورہ کے راستہ میں حضرت بریدہ بن خصیب اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں یہ اعتراض پیش کیا ۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غدیر خم میں پہنچے تو اس مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ دیر آرام فرمایا ۔ اس دوران بعض صحابہ کی طرف سے وہ شکایات پیش کی گئیں جو سفرِ یمن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق پیش آئی تھیں ۔ غدیر خم کے مقام پر ١٨ ذوالحجہ ١٠ھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا ۔ اس خطبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےجن ضروری امور کو ذکر فرمایا تھا ان میں سے ایک چیز رفع شبہات کے درجہ میں تھی ۔

وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق تھی جو اعتراضات سفرِ یمن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہم سفر احباب کو ان کے خلاف پیدا ہوئے تھے ان کی مدافعت کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت بیان فرمائی ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امانت و دیانت کا واضح طور پر ذکر فرمایا ان کلمات میں ایک کلمہ سب سے زیادہ مشہور ہے ۔

من کنت مولاہ فعلی مولاہ

ان کلمات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اعتراضات کا ازالہ مقصود تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور ان کے حسن کردار کا بیان کرنا پیش نظر تھا ۔ یہ ایک وقتی مسئلہ تھا اس فرمانِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ حسن اسلوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہو گیا ۔ مقام غدیرخم میں کوئی جنگ وغیرہ نہیں ہوئی ۔

رافضیوں اور تفضلیوں کے عقیدے کا رد : ⏬

غدیر خم کے واقعہ کو بعض لوگوں نے بڑی اہمیت دی ہے اور اس سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل ثابت کرنے کے لئے نا کام کوشش کی ہے یہ لوگ اس واقعہ کومسئلہ خلافت کے لئے انتہائی درجہ کی قوی دلیل قرار دیتے ہیں یہاں پر چند اشیاء غور طلب ہیں ۔ ان پر توجہ فرمانے سے یہ واضح ہو جائے گا کہ یہ دلیل مسئلہ خلافت ہر گز ثابت نہیں کرتی ۔

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے متعلق شکایات کا ازالہ جن الفاظ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان میں یہ جملہ مزکور ہے کہ : من کنت مولا ہ فعلی مولاہ ، یعنی جس شخص کےلیے میں محبوب اور دوست ہوں پس علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اس کے محبوب اور دوست ہیں ۔ یہاں پر مسئلہ خلافت و نیابت کا ذکر تک نہیں ہے ۔ اور نہ کسی جماعت کی طرف سے آپ کے سامنے خلافت کے مضمون کو زیر بحث لایا گیا ۔ اور نہ ہی کسی شخص نے اس کے متعلق کوئی سوال کیا جس کے جواب میں آپ نے یہ آپ نے یہ کلام فرمایا ہو ۔ پھر اس روایت کے اگلے الفاظ بھی غور طلب ہیں ان میں موالات اور معادات کو ایک دوسرے کے بالمقابل ذکر کیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں مولٰی کے لفظ میں ولایت بمقابلہ عداوت ہے بمعنی خلافت نہیں ۔ روایت کے وہ الفاظ یہ ہیں : اللھم وال من ولاہ وعاد من عاداہ ۔ اللہ ! اسے دوست رکھ جو علی رضی اللہ عنہ سے دوستی رکھے اور اس سے عداوت رکھ جو علی رضی اللہ عنہ سے عداوت رکھے ۔

شیعہ اور تفضیلی حضرات کے نزدیک روایت ھٰذا (من کنت مولاہ فعلی مولاہ) حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل کے لئے نہایت اہم حجت اورقوی تر دلیل ہے ۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ رویت ھٰذا میں مولا کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے ، (یعنی جس کا مولا میں ہوں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی اس کے مولا ہیں ) اور مولا کے معنی خلیفہ اور حاکم کے ہیں۔ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام امت کے مولا ہیں فلہزا اس فرمان کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تمام امت کے مولا ہیں اور یہ روایت مسلم بین الفریقین ہے ۔ اور متوارات میں اس کو شمار کیا جاتا ہے لہٰذا اس پر عقیدے کی بنیاد ہو سکتی ہے ۔ نیز اس نوع کی روایت کسی دوسرے صحابی کے حق میں وارد نہیں ہوئی۔ فلہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل کے لئے یہ نص صریح ہے اور آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تمام امت کےلیے خلیفہ اور حاکم ہیں ۔

روایت ھٰذا کے متعلق فریق مقابل کا یہ دعوٰی کہ یہ روایت بین الفریقین متواتر روایات میں سے ہے قابل غور ہے ۔ یہ دعوٰی علی الالطلاق صحیح نہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ بعض اکابر محدثین نے اس روایت پر کلام کیا ہے۔ اس وجہ سے اس روایت کو متواترات میں سے شمار کرنا صحیح نہیں ۔ یہ روایت اخبار آحاد میں سے ہے ۔ تاہم بعض علماء اس روایت کی صحت کے قائل ہیں اور روایت کو اپنے مفہوم کے اعتبار سے قبول کرتے ہیں ۔ بحر حال ہم بھی اس روایت کو تسلیم کرتے ہیں ۔ لیکن اس کے بعد روایت ھٰذا کے معنیٰ و مفہوم میں کلام جاری ہے اس پر توجہ فرمائیں ۔

یہ الفاظ کسی دوسرے صحابی کےلیے استعمال نہیں ہوئے یہ درست نہیں ہے ۔ اس لیے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد شدہ غلام صحابی رسول حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا : قال لزید انت اخونا و مولانا ، آپ ہمارے بھائی ہیں اور ہمارے مولٰے ہیں ۔ (مشکوۃ شریف صفحہ نمبر ۲۹۳ بحوالہ بخاری ومسلم باب بلوغ صغیرالفصل الاول)

روایت ھٰذا میں لفظ مولا وارد ہے مولا کے معنی کتاب وسنت اورلغت عرب میں متعدد پائے جاتے ہیں : ⏬

النہایہ لابن اثیرالجزری ۔ ( جو لغت حدیث میں مشہور تصنیف ہے ) میں مولا کہ سولہ عدد معانی ذکر کیے ہیں لیکن ان میں خلیفہ بلا فصل اور حاکم والا معنی کہیں نہیں ملتا یکسر مفقود ہے ۔ یعنی لغت حدیث والوں نے مولا کا یہ معنی کہیں نہیں بیان کیا ۔ باقی معانی انہوں نے لکھے ہیں ۔ (النہایہ فی غریب الحدیث جلد ۴ صفحہ ۲۳۱،چشتی)

اسی طرح ؛ المنجد ؛ میں مولا کے اکیس معنی ذکر کئے گے ہیں وہاں بھی مولا کا معنی خلیفہ یا حاکم نہیں پایا گیا۔ یہ تو کسی مسلمان کی تالیف نہیں ایک عسائی کی علمی کاوش ہے ۔ سو یہ بات پختہ ہے کہ اس روایت میں مولا کا لفظ خلیفہ اور حاکم کے معنی میں ہر گز وارد نہیں۔ اس طرح کتاب اللہ اور دیگر احادیث صحیحہ میں مولا کا لفظ خلیفہ یا حاکم کے معنی میں کہیں مستعمل نہیں دیگر معانی میں وارد ہے ۔

اہل علم کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے خلافت بلا فصل ثابت کرنے کے لئے نص صریح درکار ہے ۔ لفظ ”مولا“ جیسے مجمل الفاظ جو متعدد معانی کے حامل ہوں اور مشترک طور پر مستعمل ہوتے ہیں سے یہ مدٰعی ہر گز ثابت نہیں ہو سکتا ۔

مختصر یہ کہ خلافت بلا فصل کا دعوٰی خاص ہے اور اس کے اثبات کے لئے جو دلیل پیش کی گئی ہے۔ اس میں لفظ مولا اگر بمعنی حاکم ہو تو بھی یہ لفظ عام ہے دلیل عام مدعٰی خاص کو ثابت نہیں کرتی ۔ اگر بالفرض تسلیم کر بھی لیا جائے کہ خلافت بلا فصل کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم کے موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں ارشاد فرمایا تھا اور جناب علی رضی اللہ تعالی عنہ بلا فصل خلیفہ نامزد تھے تو درج ذیل چیزوں پر غور فرمائیں اصل مسئلہ کی حقیقت واضح ہو جائے گی ۔

(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک سے کچھ قبل حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا کہ میں گمان کرتا ہوں کہ شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو جائے اس بنا پر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر مسئلہ خلافت و امارت کے متعلق عرض کریں ۔ اگر یہ امارت ہم میں ہو گی تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے اور اگر امارت وخلافت ہمارے سوا دوسروں میں ہو گی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے متعلق لوگوں کو وصیت فرمادیں گے ۔ اس کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اگر ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسئلہ خلافت و امارت کے متعلق سوال کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرما دیا تونبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگ کبھی ہمیں خلافت کا موقع نہیں دیں گے ، اللہ کی قسم ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں اس بات کا ہر گز سوال نہیں کروں گا۔ چناچہ حافظ ابن کثیر نے بحوالہ بخاری شریف ذکر کیا ہے : فقال علی انا واللہ لئن سئالنا ھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فمنعنا ھا لا یعطینا ھاالناس بعدہ وانی واللہ لا اسالہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ (البدائیہ لابن کثیر جلد ۵ صفحہ ۲۲ تحت حالات مرض نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحوالہ صحیح بخاری شریف،چشتی)

اس واقعہ نے واضح کر دیا ہے کہ خم غدیر کے موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں کوئی فیصلہ خلافت نہیں ہوا تھا ، ورنہ طے شدہ امر کےلیے اولا تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ گفتگو ہی نہ فرماتے ۔ ثانیا حضرت علی رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے کہ اس مسئلہ کا میرے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غدیر خم میں فیصلہ فرما چکے ہیں ۔ لہٰذا اس سوال کی کوئی حاجت نہیں ہے ۔

(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلیفہ منتخب ہونے کے موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے حق میں اس نص صریح کو کیوں پیش نہیں فرمایا ؟

(3) تمام مہاجرین وانصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو غدیر خم کے موقعہ پر اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو براہ راست سننے والے تھے انہوں نے اس نص صریح کو یکسر کیسے فراموش کر دیا ؟ اگر کوئی صاحب یہ کہنے کی جرات کریں کہ ان حضرات کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے نص صریح معلوم تھی مگر انہوں نے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض دیگر مصالح کی بنا پر پس پشت ڈال دیا اور اس سے اعراض کرتے ہوئے اس پر عمل درٓمد نہیں کیا۔ تو یہ کہنا حقیقت کے بر خلاف ہے ۔ نہ شریعت کا مزاج اسے تسلیم کرتا ہے ۔ نہ عقل اسے ممکن مانتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ فرمان نبوت کی اطاعت صحابہ کرام کے لئے ایک اہم ترین مقصد حیات تھی ۔ لہٰذا یہ تمام حضرات نبوت کیخلاف کیسے مجتمع ہو سکتے تھے لا تجتمع امتی علی الضلال ۔

(4) اس طرح دور صدیقی کے اختمام پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اکابر صحابہ کی اور اکابر بنی ہاشم کی موجودگی میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب فرمایا ، اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت کے متعلق کسی نے یہ نص صریح پیش نہیں کی ۔ حالانکہ یہ اثبات خلافت علوی کےلیے ایک اہم موقعہ تھا ۔

(5) اسی طرح حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اپنی شہادت کے موقعہ پر خلیفہ کے انتخاب کے لئے ایک کیٹی مقرر کی تھی ۔ جس طرح کہ اہل سیرت و تاریخ کو معلوم ہے پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد ان حضرات کا باہمی مشوہ ہوا اور انتخاب کا مکمل اختیار حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو دیا تھا ، پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب فرمایا۔ تو اس موقعہ پر کسی ہا شمی ! غیر ہاشمی غدیر خم والی نص صریح کو پیش نہیں کیا ۔

(6) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کرنے کےلیے حاضر ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت لینے سے نکار کردیا۔ اور بنی عمرو بن مبدول کے باغ میں جا کر الگ بیٹھ گئے اور دروازہ بند کر لیا۔ جیسا کہ حافظ ابن کثیر نے البدایہ میں ذکر کیا ہے کہ : وقد امتنع علی رضی اللہ عنہ من احابتہم الی قبول الامارۃ حتی تکرر قولہم لہ وفرمنہم الی حائط بنی عمر بن مبدول واغلق بابہ َ ۔ (البدایہ جلد ۷ صفحہ ۲۲۵ قبل ذکر بیعت علی بالخلافۃ)

اور شیعہ علماء نے اس سلسلہ میں خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کلام نہج البلاغہ میں ذکر کیا ہے کہ جب لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ : دعونی والتمسوا غیری ۔ وان ترکتمونی فانا کاحدکم ولعلی اسمعکم واطوعکم لمن ولیتموہامرکم وانالکم وزیرا خیرلکم منی امیرا ۔
ترجمہ : (بیعت کے معاملہ میں) مجھے تم چھوڑ دو اور میرے سوا کسی اور کو تلاش کر لو ۔ اور اگر مجھے تم چھوڑ دو گے تو میں تم میں سے ایک فرد ہونگا ۔ اور جس شخص کو تم اپنے امر کا والی بناو گے امید ہے کہ میں اس کا تم سب سے زیادہ تابعدار اور زیدہ مطیع ہوں گا اور میرا تمہارے لیے وزیر رہنا امیر بننے سے زیادہ بہتر ہے ۔ (نہج الباغۃ للسیدالشریف ارضی صفحہ ۱۸۱ مطبوعہ مصر تحت ومن خطبۃ لہ علیہ السلام لما ارید علی البیت بعد قتل عثمان،چشتی)

مندرجات بالا کی روشنی میں واضح ہو کہ سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اولا انکار فرمایا ۔ اگرچہ بعد میں دیگر اکابر صحابہ کرام عیہم الرضوان کے اصرار پر بیعت لینا منظور فرما لیا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ غدیر خم یا کسی دیگر مقام میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل کےلیے کوئی نص صریح موجود نہیں ورنہ آپ انا لکم وزیرا خیرلکم منی امیرا جیسا کلام نہ فرماتے ۔

(7) امام حسن رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت حسن مثنٰی کے سامنے ان کے ایک عقیدت مند نے کہا کہ۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ : من کنت مولا ہ فعلی مولا ہ : جس کا میں مولا اس کے علی مولا ہیں ۔ اس کے جواب میں حضرت حسن مثنٰی فرماتے ہیں کہ : اما واللہ لویعنی بذالک الامرۃ والسلطٰن لا فصح لہم بذالک کما افصح لہم بالصلوۃوالزکوۃ وصیام رمضان وحج البیت ویقال لھم ایہاالناس ھذا ولیکم من بعدی فان افصح الناس کان للناس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔
ترجمہ : اگر اس جملہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد امارت اور سلطنت ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ، زکوۃ ، روزہ رمضان ، اورحج بیت اللہ کی طرح واضح طور پر اس کا حکم صادر فرماتے اور فرمادیتے کہ اے لوگو ! علی میرے بعد تمہارے حاکم ہیں ۔ کیونہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ فصیح (اور افصح الناس) تھے ۔ (طبقات ابن سعد جلد ۵ تحت تذکرہ حسن بن حسن رضی اللہ عنہم)

مذکورہ تفصیل سے یہ بات بخوبی معلوم ہو جاتی ہے کہ غدیرِ خم کے مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد مولا علی رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت کو بیان کرنا نہیں تھا ، بلکہ ان شکوک و شبہات کا ازالہ مقصود تھا جو مولا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق بعض لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوئے تھے ، اس لیے مولا علی رضی اللہ عنہ کی براءت کے اظہار کے بعد ان سے محبت کا حکم ارشاد فرمایا ۔ لہٰذا حدیث پاک میں لفظ مولیٰ سے مراد خلیفہ بلا فصل نہیں ، بلکہ دوست اور محبوب ہے اور اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد مولا علی رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت کو بیان کرنا ہوتا ، تو صاف طور پر واضح الفاظ میں اس بات کا اظہار فرما دیتے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ میرے بعد خلیفہ ہوں گے ۔

امام ملاعلی قاری علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : مـن كـنت مولاه فعلی مولاہ ‘‘ قیل ، معناه مـن كـنت أتولاه فعلى يتولاه من الولى ضد العدو أي : من كنت أحبه فعلى يحبه ، وقيل معناه : من يتولاني فعلى يتولاه ، كذا ذكره شارح من علمائنا ۔
ترجمہ : جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہے ۔ کہا گیا ہے کہ اس کے معنیٰ ہیں : جس سے میں دوستی رکھتا ہوں اس سے علی دوستی رکھتے ہیں ۔ دوست بمقابلہ دشمن یعنی جس سے میں محبت کرتا ہوں اس سے علی محبت کرتے ہیں ۔ اور یہ معنیٰ بھی اس کے کیے گئے ہیں کہ جس شخص نے مجھ سے دوستی رکھی تو علی اس سے دوستی رکھتے ہیں ۔ ہمارے شارحین علما نے ایسا ہی ذکر کیا ہے ۔
اس حدیث سے مولی علی کی امامت پر استدلال کرنے والے شیعوں اور ان کے چھوٹے بھاٸیوں تفضیلیوں کو جواب دیتے ہوئے امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : قالت الشيعة :هو متصرف، وقالوا : معنى الحديث أن عليا رضي الله عنه يستحق التـصـرف فـي كـل مـا يستحق الرسول ۔ التـصـرف فـيـه ، ومن ذلك أمور الـمـؤمنين فيكون إمامهم أقول:لا يـسـتـقـيـم أن تـحـمل الولاية على الإمامة التي هي التصرف في أمور المؤمنين، لأن المتصرف المستقل في حياته هو هو لا غير فيجب أن يحمل على المحبة وولاء الإسلام ونحوهما ۔
ترجمہ : شیعہ نے کہا کہ وہ متصرف ہیں اور کہا کہ حدیث کا معنی یہ ہے کہ علی ہر اس معاملہ میں تصرف کاحق رکھتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم تصرف کا حق رکھتے ہیں ۔ اور انہی میں سے مسلمانوں کے معاملات ہیں پس وہ ان کے امام ہوئے ۔ میں کہوں گا کہ ولایت کو اس امامت پر جو مومنین کے معاملہ میں تصرف ہے محمول کرنا درست نہیں اس لیے کہ مستقل متصرف اپنی حیات میں نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں کوئی غیر نہیں تو واجب ہے کہ اسے محبت اور اسلام کی ولاء اوران دونوں کے مثل پر محمول کیا جائے ۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابیح کتاب المناقب باب مناقب علی رضی اللّٰہ عنہ فصل ثانی جلد 11 صفحہ 247 مطبوعہ رشیدیہ،چشتی)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : مولی کے معنی میں دوست ، مددگار ، آزاد شد و غلام ، آزاد کر نے والا مولی ۔ اس کے معنی خلیفہ یا بادشاہ نہیں علی کہتے ہیں رب فرماتا ہے ” فان الله هو مولية و جبريل و صلح المؤمنين “ شیعہ کہتے ہیں کہ مولا بمعنی خلیفہ ہے اور اس حدیث سے لازم ہے کہ بجز حضرت علی کے خلیفہ کوئی نہیں آپ خلیفہ بلافصل ہیں مگر یہ غلط ہے چند وجہ سے ۔
ایک یہ کہ مولی بمعنی خلیفہ یا بمعنی اولی بالخلاف کبھی نہیں آتا بتاؤ اللہ تعالی اور حضرت جبریل کس کے خلیفہ ہیں حالانکہ قرآن مجید میں انہیں مولی فرمایا ” فإن الله هو مولاہ و جبريل ۔
دوسرے یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کے خلیفہ ہیں پھر من کنت مولاہ کے کیا معنی ہوں گے ۔
تیسرے یہ کہ حضرت علی حضور کی موجودگی میں خلیفہ نہ تھے حالانکہ حضور نے اپنی حیات شریف میں میں فرمایا پھر مولی بمعنی خلیفہ کیسے ہوگا ۔
چوتھے یہ کہ اگر مان لو کہ مولی بمعنی خلیفہ ہی ہو تو بھی بلافصل خلافت کیسے ثابت ہوگی ۔ واقعی آپ خلیفہ ہیں مگر اپنے موقعہ اپنے وقت میں ۔
پانچویں یہ کہ اگر یہاں مولی بمعنی خلیفہ ہوتا تو جب سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار سے حضرت صدیق اکبر نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ، الخلافۃ فی القریش، خلافت قریشی میں ہے ۔ تم لوگ چونکہ قریش نہیں لہٰذا تم امیر نہیں بن سکتے ، وزیر بن سکتے ہو ۔ اس وقت حضرت علی نے یہ واقعہ لوگوں کو یاد کیوں نہ کرادیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو مجھے خلافت دے گئے میرے سوا کوئی خلیفہ نہیں ہو سکتا ۔ بلکہ آپ خاموش رہے اور تینوں خلفاء کے ہاتھ پر باری باری بیعت کرتے رہے ۔ معلوم ہوا کہ آپ کی نظر میں بھی یہاں مولی بمعنی خلیفہ نہ تھا ۔
چھٹے یہ کہ حضور کے مرض وفات میں حضرت عباس نے جناب علی سے کہا کہ چلو حضور سے خلافت اپنے لیے لے لو حضرت علی نے انکار کیا کہ میں نہیں مانگوں گا ورنہ حضور مجھے ہرگز نہ دیں گے۔ اگر یہاں مولی بمعنی خلیفہ تھا تو یہ مشورہ کیسا ۔
ساتویں یہ کہ خلافت کےلیے روافض کے پاس نص قطعی الثبوت او قطعی الدلالت چاہیے یہ حدیث نہ تو قطعی الثبوت ہے کہ حدیث واحد ہے نہ قطعی الدلالت کہ مولی کے بہت معنی ہیں اور مولی بمعنی خلیفہ کہیں نہیں آتا ۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشكاة المصابیح جلد 8 صفحہ 353 ، 354 قادری پبلشرز لاہور،چشتی)

عید غدیر منانا کب شروع ہوئی : ⏬

یوم غدیر اہل تشیع کی عید اکبر ہے ۔اور اس کو وہ خاص اس لئے مناتے ہیں کہ ان کے مطابق اس دن حضرت علی کو خلافت بلافصل ملی تھی بلکہ امامت کے بھی قائل ہیں۔ نیز یہ بھی مشہور ہے کہ اس دن چونکہ حضرت عثمان غنی کی شہادت ہوئی تھی اس لئے وہ اس دن جشن مناتے ہیں۔یہ ساری وجوہات ہوسکتی ہیں البتہ اصل وجہ حضرت علی کی خلافت بلافصل اور امامت ہے ۔

علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے : ثم دخلت سنة ثنتين وخمسين وثلاثمائة. ..وفي ثامن عشر ذي الحجة منها أمر معز الدولة بـإظهـار الـزينـة ببغداد وأن تفتح الأسواق بالليل كما في الأعياد، وأن تضرب الدبادب والبـوقـات، وأن تشعل النيران بأبواب الأمراء وعند الشُرَط فرحا بعيد الغدير ۔ غدير خم ۔ فكان وقتا عجيبا ويوما مشهودا، وبدعة ظاهرة منكرة ۔
ترجمہ : سن 352 ہجری 18 ذی الحجہ کو معزالدولہ نے شہر بغداد سجانے اور رات کو عیدوں کی راتوں کی طرح بازار کھولنے کاحکم دیا ۔ اور باجے اور بگل بجاۓ گئے اور حکام کے دروازوں اور فوجیوں کے پاس چراغاں کیا گیا عید غدیر کی خوشی میں ، تو وہ وقت عجیب اور دیکھنے کا دن تھا اور ظاہری بری بدعت کا دن تھا ۔ (البداية والنهاية لابن الكثير جلد 15 صفحہ 161 بحوالہ عید غدیر کی حقیقت صفحہ 77 ، 78،چشتی)

امام ابن اثیر جزری لکھتے ہیں :بوفيهـا فـي الثامن عشر ذي الحجة، أمر معز الدولة بإظهار الزينة في البلد، وأشعلت الـنـيـران بـمـجـلـس الشرطة، وأظهر الفرح، وفتحت الأسواق بالليل ، كما يفعل ليالي الأعيـاد فـعـل ذلك فرحا بعيد الغدير ، (یعنی غدیر خم) ، وضربت الدبادب والبوقات ، وكان يوما مشهودا ۔
ترجمہ : اور سن 352 ہجری 18 ذی الحجہ کو معزالدولہ نے شہر سجانے کا حکم دیا ۔ اور درباریوں کی مجلس میں چراغاں کیا گیا اور خوشی کا اظہار کیا گیا اور بازار کھولے گئے رات کو جس طرح عیدوں کی راتوں کو کھولے جاتے خوب خوشی منائی گئی عید غدیر خم میں ۔ اور باجے اور بگل بجاۓ گئے اور وہ دیکھنے کا دن تھا ۔ (الکامل فی التاریخ جلد 7 صفحہ 246)

امام ذہبی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : سنة اثنتين وخمسين وثلاثمئة ۔ وفيها يوم ثامن عشر ذي الحجة، عملت الرافضة عيد الغدير ، غدير خم ، ودقت الكوسات وصلوا بالصحراء صلاة العيد ۔
ترجمہ : اور سن 353 ہجری 18 ذی الحجہ کو روافض (ابتداء میں معزالدین کا ذکر ہے) نے عید غدیر منائی ڈھول بجائے گئے ۔ اور میدان میں نماز عید پڑھی ۔ (العبر فی خبر من غبر جلد 2 صفحہ 90،چشتی)

الغرض عید غدیر اہلِ تشیع کا تہوار ہے ۔ اہلِ تشیع کے نزدیک جس کی اصل بنیاد یوم غدیر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مولی علی کو خلافت و امامت دینا ہے ۔ حالانکہ یہ سراسر جھوٹ اور فریب ہے ۔ واقعہ غدیر خم سے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت و امامت پر کوئی دلیل نہیں ہے ۔ حدیث خم سے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت اجاگر ضرور ہوتی ہے لیکن اس سے خلافت و امامت مراد لینا جہالت ہے ۔حالانکہ اس سے قبل بھی متعدد مقامات پر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوازا مگر اس دن کو عید کا دن کیوں نہیں قرار دیا جاتا ہے ؟

اہل تشیع واقعہ غدیر خم کے جن الفاظ کواپنے مقصد پر استدلال کرتے ہیں وہ یہ ہیں : من كنت مولاہ فعلی مولاہ ۔ حالانکہ اس جملہ سے کسی طرح بھی خلافت و امامت کا مفہوم ظاہر نہیں ہوتا ہے ۔ مولا کے معنیٰ خلیفہ یا امام کے کہیں نہیں آتے بلکہ اس کے متعدد معانی میں سے ایک اہم معنیٰ جو یہاں مراد ہے وہ ہے ناصر و مددگار ۔ خلیفہ یا امام کا مفہوم محض فاسد ہے ۔ فقیر یہاں لفظ مولا پر شارحین حدیث علیہم الرحمہ کے ارشادات پیش کرتا ہے تا کہ مفہوم واضح ہو جائے ۔ اہل تشیع نے حدیث غدیر خم سے جو باطل و ناحق وہم اختیار کیا اس کا رد کرتے ہوئے علامہ عبد المصطفی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : بعض شیعہ صاحبان نے اس موقع پر لکھا ہے کہ “غدیر خم” کا خطبہ یہ “حضرت علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کی خلافت بلافصل کا اعلان تھا ” مگر اہل فہم پر روشن ہے کہ یہ محض ایک “تک بندی” کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ کیونکہ اگر واقعی حضرت علی رضی اللہ عنہ کےلیے خلافت بلافصل کا اعلان کرنا تھا تو عرفات یا منی کے خطبوں میں یہ اعلان زیادہ مناسب تھا ۔ جہاں ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کا اجتماع تھا ۔ نہ کہ غدیرخم پر جہاں یمن اور مدینہ والوں کے سوا کوئی بھی نہ تھا ۔ (سیرت مصطفی صفحہ 535 مکتبۃ المدینہ کراچی،چشتی)

اس سے واضح ہو گیا کہ ۔ من کنت مولاہ فعلی مولاہ ۔ کا جملہ اکابر ہاشمی حضرات کے نزدیک بھی خلافت بلا فصل کےلیے نصِ صریح نہیں ۔ مندرجہ عنوان کے تحت جن چیزوں کو ذکر کیا گیا ہے ان تمام پر غور کر لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ غدیر خم کے موقعہ پر جو فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صادر ہوا اس کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل کے ساتھ کچھ تعلق نہیں ہے اور نہ ہی مسئلہ خلافت وہاں مطلوب و مقصود تھا ۔ بلکہ وقتی تقاضوں کے مطابق اس میں دیگر مقاصد پیش نظر تھے جن کو وہاں پورا کر دیا گیا اللہ کریم ہمیں سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بلافصل ماننا جامع ترمذی میں ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’لا ینبغی لقوم فیھم ابو بکر ان یؤمھم غیرہ ۔
ترجمہ : کسی قوم کو زیب نہیں دیتا کہ ابو بکر کی موجودگی میں کوئی اور امامت کرے ۔ (جامع ترمذی ابواب المناقب باب مناقب ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ جلد 2 صفحہ 208 مطبوعہ کراچی)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے : وفيه دليل على انه افضل جميع الصحابة، فاذا ثبت هذا فقد ثبت استحقاق الخلافة ۔
ترجمہ : اس حدیث میں دلیل ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جمیع صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل ہیں ، پھر جب افضلیت ثابت ہو گئی ، تو خلافت کا حقدار ہونا بھی ثابت ہو گیا ۔ (مرقاۃ المفاتیح کتاب المناقب باب مناقب ابی بکر رضی اللہ عنہ جلد 11 صفحہ 182 مطبوعہ کوئٹہ)

جامع ترمذی اور المستدرک میں ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر وعمر ۔
ترجمہ : میرے بعد ابو بکر و عمر (رضی اللہ عنہما) کی پیروی کرنا ۔ (جامع ترمذی ابواب المناقب باب مناقب ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ جلد 2 صفحہ 207 مطبوعہ کراچی)

صحیح بخاری میں ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : کنا نخیر بین الناس فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم، فنخیر ابا بکر، ثم عمر بن الخطاب، ثم عثمان بن عفان رضی اللہ عنھم ۔
ترجمہ : ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کو سب سے افضل سمجھتے تھے ، پھر عمر بن خطاب کو اور پھر عثمان بن عفان کو (رضی اللہ عنہم اجمعین) ۔ (صحیح البخاری ابواب المناقب باب فضل ابی بکر بعد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلد 1 صفحہ 516 مطبوعہ کراچی)

شرح فقہ اکبر میں ہے : افضل الناس بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوبکر صدیق ثم عمر بن خطاب ثم عثمان بن عفان ثم علی بن ابی طالب واولی ما یستبدل بہ علی افضلیہ الصدیق فی مقام التحقیق نصبہ علیہ الصلوہ والسلام لامامہ الانام مدہ مرضہ فی اللیالی والایام ولذا قال اکابر صحابہ رضیہ صلی اللہ علیہ وسلم لدیننا افلا نرضاء لدنیانا ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابوبکر صدیق ہیں پھر عمر پھر عثمان پھر علی رضی اللہ عنہم اجمعین اور پہلی دلیل جس سے افضلیت ابوبکر صدیق پر استدلال کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تکلیف کے دنوں اور راتوں میں لوگوں پر امام مقرر کیا اسی لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے فرمایا کہ جس شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارا دینی رہنما پسند فرمایا ہم ایسے دنیاوی رہنما کیوں نہ پسند کریں ۔ (شرح فقہ اکبر صفحہ 182 تا 186 مطبوعہ دار البشائر الاسلامیہ بیروت)

فتویٰ ھندیہ میں ہے : وإن كان يفضل عليا كرم الله تعالى وجهه على أبي بكر رضي الله تعالى عنه لا يكون كافرا إلا أنه مبتدع ۔
ترجمہ : اور اگر کوئی فضیلت دے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر تو وہ کافر نہیں ہے مگر وہ مبتدع (بدعتی) ہے ۔(فتاوى الهندية كتاب السير الباب التاسع في أحكام المرتدين جلد 2 صفحہ 276 مطبوعہ دار الفکر بیروت)

ردالمختار میں ہے : ان کان یفضل علیاکرم اللہ تعالی وجھہ علیھما فھو مبتدع ۔
ترجمہ : اگرکوئی شخص حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت دے ، وہ بدعتی ہے ۔(ردالمحتارمع در مختار جلد 6 صفحہ 363 مطبوعہ کوئٹہ)

افضلیت علی رضی اللہ عنہ کا قائل گمراہ ، اور خلافت صدیق و عمر رضی اللّٰہ عنہما کا منکر عند الفقہاء کافر ثابت کرتے ہوئے اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتح القدیر اور فتاوی بزازیہ کے حوالے سے رقم طراز ہیں : في الروافض من فضل عليا على الثلاثة فمبتدع وان انكر خلافة الصديق اوعمررضی الله عنهما فهو كافر ۔
ترجمہ : رافضیوں میں جو شخص مولی علی کو خلفاء ثلاثہ رضی اللہ تعالی عنہم سے افضل کہے گمراہ ہے اور اگر صدیق یا فاروق رضی اللہ تعالی عنہما کی خلافت کا انکار کرے تو کافر ہے ۔
وجیز امام کردری علیہ الرحمہ میں ہے : مـن انـكـر خلا فة ابي بكر رضى الله تعالى عنه فهو كافر فى الصحيح ومن انكر خلافة عمر رضى الله تعالى عنه فهو كافر في الاصح ۔
ترجمہ : خلافت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا منکر کافر ہے ، یہی صحیح ہے ، اور خلافت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا منکر بھی کافر ہے، یہی صحیح تر ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 14 صفحہ 250 ، 251 رضا فاؤنڈیشن لاہور)

عید غدیر میں شرکت : ⏬

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : من تشبه بقوم فهو منهم ۔
ترجمہ : جس نے کسی قوم سے مشابہت کی وہ انہیں میں سے ہے ۔ (سنن ابو داؤد کتاب اللباس رقم الحدیث : 4031 جلد 2 صفحہ 203 مطبوعہ لاہور)

اعلی حضرت امام ملا علی قاری علیہما الرحمہ کے حوالے سے فرماتے ہیں : اناممنوعون من التشبيه بالكفرة واهل البدعة المنكرة في شعار هم ۔
ترجمہ : ہمیں کافروں اور منکر بدعات کے مرتکب لوگوں کے شعار کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 24 صفحہ 533 رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : جو بات کفار یا بد مذہباں اشرار یا فساق فجار کا شعار ہو بغیر کسی حاجت صحیح شرعیہ کے برغبت نفس اس کا اختیار ممنوع و ناجائز و گناہ ہے ۔ اگرچہ وہ ایک ہی چیز ہو کہ اس سے اس وجہ خاص میں ضرور ان سے تشبہ ہو گا اس قدر منع کو کافی ہے اگرچہ دیگر وجوہ سے تشبہ نہ ہو ۔ (فتاوی رضویہ جلد 24 صفحہ 535 ، 536 رضا فاؤنڈیشن لاہور) ۔ (طالبِ و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)