Saturday, 29 June 2024

حدیث جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے کا صحیح معنیٰ و مفہوم

حدیث جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے کا صحیح معنیٰ و مفہوم

محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ ۔ (سورہ تحريم 66 : 4)

ترجمہ : سو بے شک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے ، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں ۔


فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ کُهَيْلٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيْ سَرِيْحَةَ . . . أَوْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ، (شَکَّ شُعْبَةُ). . . عَنِ النَّبِيِّ، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ . وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. (قَالَ : ) وَ قَدْ رَوَی شُعْبَةُ هَذَا الحديث عَنْ مَيْمُوْنٍ أبِيْ عَبْدِ ﷲِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ۔

ترجمہ : حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ ۔ یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما . . سے مروی ہے (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں ، اُس کا علی مولا ہے ۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہاکہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے ، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب باب مناقب علي بن أبی طالب رضی الله عنه، 5 / 633، الحديث رقم : 3713، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 195، 204، الحديث رقم : 5071، 5096.وَ قَدْ رُوِيَ هَذَا الحديث عَنْ حُبْشِيّ بْنِ جُنَادَةْ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ. أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 134، الحديث رقم : 4652، والطبرانی فی المعجم الکبير، 12 / 78، الحديث رقم : 12593، ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1359، وحسام الدين الهندی فی کنزالعمال، 11 / 608، رقم : 32946، وابن عساکرفی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 77، 144، و خطيب البغدادی فی تاريخ بغداد، 12 / 343، و ابن کثير فی البدايه و النهايه، 5 / 451،،چشتی، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 108.وَ قَد رُوِيَ هَذَا الحديث أيضا عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ.أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1355، وابن ابی شيبه فی المصنف، 6 / 366، الحديث رقم : 32072 ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَ الحديث عَنْ ايُوْبٍ الْأَنْصَارِيِّ فِي الْکُتْبِ الآتِيَةِ.أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1354، والطبرانی فی المعجم الکبير، 4 / 173، الحديث رقم : 4052، والطبرانی فی المعجم الاوسط، 1 / 229، الحديث رقم : 348.وَقَدَرُوِيِّ هَذَالحديث عَنْ بُرَيْدَةَ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.أخرجه عبدالرزاق فی المصنف، 11 / 225، الحديث رقم : 20388، و الطبرانی فی المعجم الصغير، 1 : 71، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 143، وابن ابی عاصم فی السنه : 601، الحديث رقم : 1353، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 146، وابن کثيرفی البدايه و النهايه، 5 / 457، وحسام الدين هندی فی کنز العمال، 11 / 602، رقم : 32904.وَقَدْ رُوِيَ هَذَالحديث عَنْ مَالِکِ بْنِ حُوَيْرَثٍ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.أخرجه الطبرانی فی المعجم الکبير، 19 / 252، الحديث رقم : 646، و ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 106)


مفسّرِین کے نزدیک ’’مولیٰ ‘‘ کے معنیٰ


وہ تفاسیر جن میں مولا کے معنیٰ مددگار لکھے ہیں : اِس آیتِ مبارکہ میں وارِد لفظ’’ مولیٰ ‘‘کے معنیٰ وَلی اور ناصِر ( یعنی مدد گار) لکھے ہیں ۔ (1) تفسیرطَبَری جلد 12صفحہ154 ۔ (2) تفسیرقُرطُبی جلد 18 صفحہ 143 ۔ (3) تفسیرِکبیرجلد 10صفحہ570 ۔ (4) تفسیرِبَغْوی جلد 4صفحہ337 ۔ (5) تفسیرِ خازِن جلد 4صفحہ286 (6) تفسیرِ نَسفی صفحہ1257 ۔


اُن چار کتابوں کے نام بھی حاضِر ہیں جن میں آیتِ مبارَکہ کے لفظ ’’مولیٰ‘‘ کے معنیٰ ’’ناصر‘‘(یعنی مددگار) کئے گئے ہیں : (1) تفسیرِجلالین صفحہ465 ۔ (2) تفسیرِ رُوحُ الْمَعانی جلد 28 صفحہ481 ۔ (3) تفسیرِبیضاوی جلد 5صفحہ 356 ۔ (4) تفسیرابی سُعُود جلد 5 صفحہ 738 ۔


النھایہ میں لفظ مولا کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں ۔ (1) رب (پرورش کرنیوالا (2) مالک ۔ سردار(3) انعام کرنیوالا (4) آزاد کرنیوالا (5) مدد گار (6) محبت کرنیوالا (7)تابع (پیروی کرنے والا) (8)پڑوسی (9) ابن العم (چچا زاد) (10) حلیف (دوستی کا معاہدہ کرنیوالا ) (11) عقید (معاہدہ کرنے والا ) (12) صھر (داماد، سسر ) (13)غلام (14) آزاد شدہ غلام (15) جس پر انعام ہوا (16) جو کسی چیز کا مختار ہو ۔ کسی کام کا ذمہ دار ہو ۔ اسے مولا اور ولی کہا جاتا ہے ۔ (17) جس کے ہاتھ پر کوئی اسلام قبول کرے وہ اس کا مولا ہے یعنی اس کا وارث ہوگا وغیرہ ۔ (ابن اثير، النهايه، 5 : 228)


حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے الفاظ ’’جس کا میں مولیٰ ہوں علی بھی اُس کے مولیٰ ہیں ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : مولیٰ کے بَہُت (سے) معنٰی ہیں : دوست ، مددگار ، آزاد شُدہ غلام ، (غلام کو) آزاد کرنے والا مولیٰ ۔ اِس (حدیثِ پاک میں مولیٰ) کے معنٰی خلیفہ یا بادشاہ نہیں یہاں (مولیٰ) بمعنی دوست (اور) محبوب ہے یا بمعنی مددگار اور واقِعی حضرتِ سیِّدُنا علیُّ الْمُرتَضٰی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے دوست بھی ہیں ، مددگار بھی ، اِس لئے آپ رضی اللہ عنہ کو ’’مولیٰ علی‘‘ کہتے ہیں ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد ۸ صفحہ ۴۲۵)


مولىٰ کا صحیح مطلب


علم اللغة والنحو والأدب والانساب کے امام محمد بن زیاد ابن الاعرابی ابو عبدالله الہاشمی رح (١٥٠-٢٣١ ہجری) فرماتے ہیں : چچازاد، آزاد کرنے والے، آزاد ہونے والے، کاروباری ساجھی، معاہدہ کرنے والے، محبت کرنے والے، با اثر اور دوست سب کو (مولىٰ) کہتے ہیں. نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے : (من كنت مولاه فعلي مولاه) ۔ ترجمہ : جس کا میں دوست ہوں اس کا علی رضی اللہ عنہ بھی دوست ہے ۔ یعنی جو مجھ سے محبت رکھتا ہے، وہ حضرت علیؓ سے بھی محبت رکھے، ثعلب کہتے ہیں : رافضیوں (شیعہ) کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ پوری مخلوق کے مولا یعنی مالک ہیں، اس معاملہ میں رافضی لوگ کفر کے مرتکب ہوۓ ہیں، یہ بات تو عقلی اعتبار سے بھی غلط ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خرید و فروخت کرتے تھے، جب تمام چیزیں ان کی ملکیت تھیں تو خرید و فروخت کیسی ؟ مذکورہ حدیث میں لفظ مولا، محبت اور دوستی کے باب سے ہیں ۔ (تاریخ دمشق، لامام ابن عساکر : ٤٢/٢٣٨، وسندہ صحیح،چشتی)


یمن میں قیام کے دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ کو متعدد واقعات پیش آئے تھے ۔ علماء سیرت نے اس میں متعدد روایات ذکر کی ہیں ان میں سے ایک بطور خلاصہ ذکر کی جاتی ہے ۔


سیرت کی روایات میں ہے کہ یمن کے علاقہ سے مال غنیمت میں کچھ لونڈیاں آئیں ۔ ان اموال غنائم سے بطور خمس حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک خادمہ حاصل کی اس پر دیگر ساتھیوں کو کچھ اعتراض ہوا۔ گو موقعہ پر کوئی خاص کشیسگی نہیں ہوئی۔ پھر جب یہ حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حج سے واپسی پر مدینہ منورہ کے راستہ میں حضرت بریدہ بن خصیب اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ اعتراض پیش کیا ۔


جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غدیر خم میں پہنچے تو اس مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دیر آرام فرمایا۔ اس دوران بعض صحابہ کی طرف سے وہ شکایات پیش کی گئیں جو سفرِ یمن میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق پیش آئی تھیں۔ غدیر خم کے مقام پر ١٨ ذوالحجہ ١٠ھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےجن ضروری امور کو ذکر فرمایا تھا ان میں سے ایک چیز رفع شبہات کے درجہ میں تھی ۔


وہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق تھی جو اعتراضات سفرِ یمن میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ہم سفر احباب کو ان کے خلاف پیدا ہوئے تھے ان کی مدافعت کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت بیان فرمائی۔ اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی امانت و دیانت کا واضح طور پر ذکر فرمایا ان کلمات میں ایک کلمہ سب سے زیادہ مشہور ہے ۔


من کنت مولاہ فعلی مولاہ


ان کلمات میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے اعتراضات کا ازالہ مقصؤد تھا اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت اور ان کے حسن کردار کا بیان کرنا پیش نظر تھا ۔ یہ ایک وقتی مسئلہ تھا اس فرمانِ نبوت کے ذریعہ حسن اسلوبی کے ساتھ اختتام پزیر ہو گیا ۔ مقام غدیرخم میں کوئی جنگ وغیرہ نہیں ہوئی ۔


رافضیوں کے عقیدے کا رد


غدیر خم کے واقعہ کو بعض لوگوں نے بڑی اہمیت دی ہے اور اس سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل ثابت کرنے کے لئے نا کام کوشش کی ہے یہ لوگ اس واقعہ کومسئلہ خلافت کے لئے انتہائی درجہ کی قوی دلیل قرار دیتے ہیں یہاں پر چند اشیاء غور طلب ہیں ۔ ان پر توجہ فرمانے سے یہ واضح ہو جائے گا کہ یہ دلیل مسئلہ خلافت ہر گز ثابت نہیں کرتی ۔


حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے متعلق شکایات کا ازالہ جن الفاظ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان میں یہ جملہ مزکور ہے کہ : من کنت مولا ہ فعلی مولاہ ، یعنی جس شخص کے لئے میں محبوب اور دوست ہوں پس علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ اس کے محبوب اور دوست ہیں ۔ یہاں پر مسئلہ خلافت و نیابت کا ذکر تک نہیں ہے ۔ اور نہ کسی جماعت کی طرف سے آپ کے سامنے خلافت کے مضمون کو زیر بحث لایا گیا ۔ اور نہ ہی کسی شخص نے اس کے متعلق کوئی سوال کیا جس کے جواب میں آپ نے یہ آپ نے یہ کلام فرمایا ہو ۔ پھر اس روایت کے اگلے الفاظ بھی غور طلب ہیں ان میں موالات اور معادات کو ایک دوسرے کے بالمقابل ذکر کیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں مولٰی کے لفظ میں ولایت بمقابلہ عداوت ہے بمعنی خلافت نہیں ۔ روایت کے وہ الفاظ یہ ہیں : اللھم وال من ولاہ وعاد من عاداہ ۔ اللہ ! اسے دوست رکھ جو علی رضی اللہ تعالی عنہ سے دوستی رکھے اور اس سے عداوت رکھ جو علی رضی اللہ تعالی عنہ سے عداوت رکھے ۔


شیعہ اور تفضیلی حضرات کے نزدیک روایت ھٰذا (من کنت مولاہ فعلی مولاہ) حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل کے لئے نہایت اہم حجت اورقوی تر دلیل ہے ۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ رویت ھٰذا میں مولا کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے ، (یعنی جس کا مولا میں ہوں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی اس کے مولا ہیں ) اور مولا کے معنی خلیفہ اور حاکم کے ہیں۔ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام امت کے مولا ہیں فلہزا اس فرمان کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی تمام امت کے مولا ہیں اور یہ روایت مسلم بین الفریقین ہے۔ اور متوارات میں اس کو شمار کیا جاتا ہے لہٰزا اس پر عقیدے کی بنیاد ہو سکتی ہے ۔ نیز اس نوع کی روایت کسی دوسرے صحابی کے حق میں وارد نہیں ہوئی۔ فلہٰذا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل کے لئے یہ نص صریح ہے اور آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام امت کے لئے خلیفہ اور حاکم ہیں ۔


روایت ھٰذا کے متعلق فریق مقابل کا یہ دعوٰی کہ یہ روایت بین الفریقین متواتر روایات میں سے ہے قابل غور ہے۔ یہ دعوٰی علی الالطلاق صحیح نہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ بعض اکابر محدثین نے اس روایت پر کلام کیا ہے۔ اس وجہ سے اس روایت کو متواترات میں سے شمار کرنا صحیح نہیں ۔ یہ روایت اخبار آحاد میں سے ہے ۔ تاہم بعض علماء اس روایت کی صحت کے قائل ہیں اور روایت کو اپنے مفہوم کے اعتبار سے قبول کرتے ہیں ۔ بحر حال ہم بھی اس روایت کو تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد روایت ہٰزا کے معنی ومفہوم میں کلام جاری ہے اس پر توجہ فرمائیں۔


یہ الفاظ کسی دوسرے صحابی کے لئے استعمال نہیں ہوئے یہ درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد شدہ غلام صحابی رسول حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا ۔


قال لزید انت اخونا و مولانا


آپ ہمارے بھائی ہیں اور ہمارے مولٰے ہیں ۔


مشکوۃ شریف صفحہ نمبر ۲۹۳ بحوالہ بخاری ومسلم باب بلوغ صغیرالفصل الاول


روایت ھٰذا میں لفظ مولا وارد ہے


مولا کے معنی کتاب وسنت اورلغت عرب میں متعدد پائے جاتے ہیں


النہایہ لابن اثیرالجزری ۔ ( جو لغت حدیث میں مشہور تصنیف ہے ) میں مولا کہ سولہ عدد معانی ذکر کئے ہیں لیکن ان میں خلیفہ بلا فصل اور حاکم والا معنی کہیں نہیں ملتا یکسر مفقود ہے۔ یعنی لغت حدیث والوں نے مولا کا یہ معنی کہیں نہیں بیان کیا۔ باقی معانی انہوں نے لکھے ہیں ۔ (النہایہ فی غریب الحدیث ج۴ ص۲۳۱،چشتی)

اسی طرح ؛ المنجد ؛ میں مولا کے اکیس معنی ذکر کئے گے ہیں وہاں بھی مولا کا معنی خلیفہ یا حاکم نہیں پایا گیا۔ یہ تو کسی مسلمان کی تالیف نہیں ایک عسائی کی علمی کاوش ہے۔ سو یہ بات پختہ ہے کہ اس روایت میں مولا کا لفظ خلیفہ اور حاکم کے معنی میں ہر گز وارد نہیں۔ اس طرح کتاب اللہ اور دیگر احادیث صحیحہ میں مولا کا لفظ خلیفہ یا حاکم کے معنی میں کہیں مستعمل نہیں دیگر معانی میں وارد ہے ۔


اہل علم کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے خلافت بلا فصل ثابت کرنے کے لئے نص صریح درکار ہے ۔ لفظ ؛ مولا ؛ جیسے مجمل الفاظ جو متعدد معانی کے حامل ہوں اور مشترک طور پر مستعمل ہوتے ہیں سے یہ مدٰعی ہر گز ثابت نہیں ہو سکتا ۔


مختصر یہ کہ خلافت بلا فصل کا دعوٰی خاص ہے اور اس کے اثبات کے لئے جو دلیل پیش کی گئی ہے۔ اس میں لفظ مولا اگر بمعنی حاکم ہو تو بھی یہ لفظ عام ہے دلیل عام مدعٰی خاص کو ثابت نہیں کرتی ۔ اگر بالفرض تسلیم کر بھی لیا جائے کہ خلافت بلا فصل کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم کے موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں ارشاد فرمایا تھا اور جناب علی رضی اللہ تعالی عنہ بلا فصل خلیفہ نامزد تھے تو درج ذیل چیزوں پر غور فرمائیں اصل مسئلہ کی حقیقت واضح ہو جائے گی ۔


(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصآل مبارک سے کچھ قبل حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو ارشاد فرمایا کہ میں گمان کرتا ہوں کہ شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو جائے اس بنا پر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر مسئلہ خلافت و امارت کے متعلق عرض کریں ۔ اگر یہ امارت ہم میں ہو گی تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے اور اگر امارت وخلافت ہمارے سوا دوسروں میں ہو گی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے متعلق لوگوں کو وصیت فرمادیں گے ۔ اس کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اگر ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ خلافت و امارت کے متعلق سوال کیا اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرما دیا تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگ کبھی ہمیں خلافت کا موقع نہیں دیں گے ، اللہ کی قسم ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں اس بات کا ہر گز سوال نہیں کروں گا۔ چناچہ حافظ ابن کثیر نے بحوالہ بخاری شریف ذکر کیا ہے : فقال علی انا واللہ لئن سئالنا ھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فمنعنا ھا لا یعطینا ھاالناس بعدہ وانی واللہ لا اسالہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ (البدائیہ لابن کثیر ج۵ ص۲۲ تحت حالات مرض نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بحوالہ بخاری شریف،چشتی)


اس واقعہ نے واضح کر دیا ہے کہ خم غدیر کے موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں کوئی فیصلہ خلافت نہیں ہوا تھا ، ورنہ طے شدہ امر کے لئے اولا تو حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ گفتگو ہی نہ فرماتے۔ ثانیا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے کہ اس مسئلہ کا میرے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غدیر خم میں فیصلہ فرما چکے ہیں۔ لہٰزا اس سوال کی کوئی حاجت نہیں ہے ۔


(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے خلیفہ منتخب ہونے کے موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے حق میں اس نص صریح کو کیوں پیش نہیں فرمایا ؟


(3) تمام مہاجرین وانصار صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ جو غدیر خم کے موقعہ پر اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو براہ راست سننے والے تھے انہوں نے اس نص صریح کو یکسر کیسے فراموش کردیا ؟ اگر کوئی صاحب یہ کہنے کی جرائت کریں کہ ان حضرات کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے نص صریح معلوم تھی مگر انہوں نے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بعض دیگر مصالح کی بنا پر پس پشت ڈال دیا اور اس سے اعراض کرتے ہوئے اس پر عمل درٓمد نہیں کیا۔ تو یہ کہنا حقیقت کے بر خلاف ہے۔ نہ شریعت کا مزاج اسے تسلیم کرتا ہے۔ نہ عقل اسے ممکن مانتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ فرمان نبوت کی اطاعت صحابہ کرام کے لئے ایک اہم ترین مقصد حیات تھی۔ لہٰزا یہ تمام حضرات نبوت کیخلاف کیسے مجتمع ہو سکتے تھے لا تجتمع امتی علی الضلال ۔


(4) اس طرح دور صدیقی کے اختمام پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اکابر صحابہ کی اور اکابر بنی ہاشم کی موجودگی میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ منتخب فرمایا ، اس وقت حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں خلافت کے متعلق کسی نے یہ نص صریح پیش نہیں کی۔ حالانکہ یہ اثبات خلافت علوی کے لئے ایک اہم موقعہ تھا ۔


(5) اسی طرح حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ اپنی شہادت کے موقعہ پر خلیفہ کے انتخاب کے لئے ایک کیٹی مقرر کی تھی۔ جس طرح کہ اہل سیرت و تاریخ کو معلوم ہے پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے وصال کے بعد ان حضرات کا باہمی مشوہ ہوا اور انتخاب کا مکمل اختیار حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کو دیا تھا ، پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ منتخب فرمایا۔ تو اس موقعہ پر کسی ہا شمی ! غیر ہاشمی غدیر خم والی نص صریح کو پیش نہیں کیا ۔


(6) حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد جب لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے بیعت لینے سے نکار کردیا۔ اور بنی عمرو بن مبدول کے باغ میں جا کر الگ بیٹھ گئے اور دروازہ بند کر لیا۔ جیسا کہ حافظ ابن کثیر نے البدایہ میں ذکر کیا ہے کہ ۔


وقد امتنع علی رضی اللہ عنہ من احابتہم الی قبول الامارۃ حتی تکرر قولہم لہ وفرمنہم الی حائط بنی عمر بن مبدول واغلق بابہ َ ۔ (البدایہ ج۷ ص ۲۲۵ ۔ قبل ذکر بیعت علی بالخلافۃ)


اور شیعہ علماء نے اس سلسلہ میں خود حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا کلام نہج البلاغہ میں ذکر کیا ہے کہ جب لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ : دعونی والتمسوا غیری ۔ ۔ ۔ وان ترکتمونی فانا کاحدکم ولعلی اسمعکم واطوعکم لمن ولیتموہامرکم وانالکم وزیرا خیرلکم منی امیرا ۔ ترجمہ : (بیعت کے معاملہ میں ) مجھے تم چھوڑ دو اور میرے سوا کسی اور کو تلاش کر لو ۔۔۔۔ اور اگر مجھے تم چھوڑ دو گئے تو میں تم میں سے ایک فرد ہونگا۔ اور جس شخص کو تم اپنے امر کا والی بناو گئے امید ہے کہ میں اس کا تم سب سے زیادہ تابعدار اور زیدہ مطیع ہوں گا اور میرا تمہارے لیے وزیر رہنا امیر بننے سے زیادہ بہتر ہے ۔ (نہج الباغۃ للسیدالشریف ارضی ص۱۸۱۔ طبع مصر ۔ تحت ومن خطبۃ لہ علیہ السلام لما ارید علی البیت بعد قتل عثمان،چشتی)


مندرجات بالا کی روشنی میں واضح ہو کہ سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اولا انکار فرمایا ۔ اگرچہ بعد میں دیگر اکابر صحابہ کرام عیہم الرضوان کے اصرار پر بیعت لینا منظور فرمالیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ غدیر خم یا کسی دیگر مقام میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل کے لئے کوئی نص صریح موجود نہیں ورنہ آپ انالکم وزیرا خیرلکم منی امیرا جیسا کلام نہ فرماتے ۔


(7) امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے صاحبزادے حضرت حسن مثنٰی کے سامنے ان کے ایک عقیدت مند نے کہا کہ۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ : من کنت مولا ہ فعلی مولا ہ : جس کا میں مولا اس کے علی مولا ہیں ۔ اس کے جواب میں حضرت حسن مثنٰی فرماتے ہیں کہ : اما واللہ لویعنی بذالک الامرۃ والسلطٰن لا فصح لہم بذالک کما افصح لہم بالصلوۃوالزکوۃ وصیام رمضان وحج البیت ویقال لھم ایہاالناس ھذا ولیکم من بعدی فان افصح الناس کان للناس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔

ترجمہ : اگر اس جملہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد امارت اور سلطنت ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ، زکوۃ، روزہ رمضان ، اورحج بیت اللہ کی طرح واضح طور پر اس کا حکم صادر فرماتے اور فرمادیتے کہ اے لوگو ! علی میرے بعد تمہارے حاکم ہیں۔ کیونہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ فصیح ( اور افصح الناس ) تھے ۔ (طبقات ابن سعد ج۵ تحت تذکرہ حسن بن حسن رضی اللہ عنہم)


اس سے واضح ہو گیا کہ ۔ من کنت مولاہ فعلی مولاہ ۔ کا جملہ اکابر ہاشمی حضرات کے نزدیک بھی خلافت بلا فصل کےلیے نصِ صریح نہیں ۔ مندرجہ عنوان کے تحت جن چیزوں کو ذکر کیا گیا ہے ان تمام پر غور کر لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ غدیر خم کے موقعہ پر جو فرمان نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صادر ہوا اس کا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل کے ساتھ کچھ تعلق نہیں ہے اور نہ ہی مسئلہ خلافت وہاں مطلوب و مقصود تھا ۔ بلکہ وقتی تقاضوں کے مطابق اس میں دیگر مقاصد پیش نظر تھے جن کو وہاں پورا کردیا گیا اللہ کریم ہمیں سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ (طالبِ و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Friday, 28 June 2024

بنو ہاشم اور بنو امیہ کے باہمی تعلقات و رشتہ داریاں

بنو ہاشم اور بنو امیہ کے باہمی تعلقات و رشتہ داریاں

محترم قارئینِ کرام : آج کل روافض اور ان کے ہمنوا تفضیلی نیم رافضی چند شرپسندوں باتوں کو لے کر تمام بنی امیہ کو برا بھلا کہتے ہیں فقیر کافی عرصہ سے سوچ رہا تھا کہ اس پر کچھ لکھا جاۓ مگر کم علمی آڑے جاتی اب فقیر کوشش کر کے کچھ لکھا ہے اہلِ علم اس طرف توجہ فرماٸیں تاکہ شرپسندوں کے فتنہ سے سیدھے سادھے مسلمانانِ اہلسنت کو بچایا جاۓ ۔ اہلِ علم کی خدمت میں مٶدبانہ التجا ہے کہیں غلطی پاٸیں تو از راہِ کرم اصلاح فرادیں جزاکم اللہ خیرا آمین ۔


امیہ اور ہاشم دونوں کوئی غیر نہیں بلکہ چچا بھتیجے تھے اور ایک ہی خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔


عبد مناف سے


1-عبدالشمس 2- ہاشم، تھے


آگے عبد الشمس سے امیہ

اور ہاشم سے عبدالمطلب تھے،


پھر امیہ سے آگے عرب اور ابو العاص تھے


1_عرب⁦⬅️⁩ابو سفیان- معاویہ-یزید

2_ابو العاص⁦⬅️⁩-حکم -عفان


اور پھر عفان سے عثمان اور حکم سے مروان ،عبدالملک، اور انہی سے بنو امیہ کے اکثر خلفاء تھے ۔


اور عبدالمطب کے خاندان سے آگے عبداللہ ،ابو طالب اور عباس تھے ۔


1_عبداللہ رضی اللہ عنہ ⁦⬅️⁩ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

2_ابوطالب⁦⬅️⁩ علی ، حسن و حسین

3_عباس⁦⬅️⁩عبداللہ، عبیداللہ -علی، اور انہی سے بنو عباس کے خلفاء تھے)


بنو هاشم اور بنو امیہ كے درمیان ازدواجی روابط كا آغاز عہد جاہلیت میں تقریباً چھٹی صدی عیسوی كے وسط سے ہوا اور عہد عباسی تک یعنی نویں صدی عیسوی كے وسط تک برابر اس كی مثالیں ملتی رہیں ۔ موجوده مطالعہ میں اس طرح اسلامی معاشرتی تاریخ كے پانچ ادوار عہد جاهلیت ، عہد نبوی ، خلافت راشده ، بنی امیہ اور دولت بنی عباس میں ان دونوں خاندانوں كے درمیان قائم ہونے والے ازدواجی روابط كی تاریخی تحقیق ہے جو بہت اہم دلچسپ اور فكر انگیز ہے ۔


هاشم بن عبد مناف (تقریبا ۱۰۲۔۱۴۷قبل هجری مطابق ۸۴۰۔۵۲۴ عیسوی) اور بنوامیہ كے جد امجد عبد شمس (تقریباً ۱۰۵۔۱۵۵ھ مطابق ۴۷۶۔ ۵۶۷ عیسوی ) كے فرزندوں اور دختروں میں كوئی ازدواجی تعلق نہیں ہوا تھا (زبیری كتاب نسب قریش، مرتبہ لیفی بروفنال ، مصر ۱۹۵۳ءص۱۵،۱۷،۹۷) البتہ بعد كی پیڑھی میں اس كا پہلا ثبوت ملتاہے ۔


عبد المطلب كی بڑی صاحبزادی ام حكیم بیضاء كا عقد اموی خاندان كے ایك ممتاز فرد كرزبن ربیعہ سے ہوا تھا ۔ (زبیری ، ص۱۸)

عبد المطلب كی دوسری بیٹی سیده صفیہ كا پہلا عقد حرب بن امیہ كے بیٹے حارث سے ہوا تھا ۔ (ابن سعد الطبقات الكبری بیروت ۱۹۵۸ء ہشتم ص ۴۵)

عبد المطلب كی تیسری بیٹی امیمہ كا عقد اموی خاندان كے ایك حلیف جحش بن رئاب اسدی سے ہوا تھا ۔ (زبیری ص ۹۱)

یہاں یہ امر ملحوظ ہے کہ عرب كے قبائلی سماج میں حلیف اسی خاندان كا ركن شمار ہوتا تھا ۔ عبد المطلب كے ایك صاحبزادے ابو لہب كا عقد حرب بن امیہ كی بیٹی ام جمیل سے ہوا تھا ۔( زبیری ص ۸۹،چشتی)

نبی كریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اسلام سے قبل اپنی صاحبزادی سیده زینب كا عقد ابو العاص اموی سے كیا۔ (طبقات ابن سعد ہشتم ۲۶۔۳۰)


نبی كریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم كی دوسری بیٹی سیده رقیہ كا دوسرا عقد سیدنا عثمان بن عفان اموی كے ساتھ ہوا ۔ (زبیری ص ۲۲)

سیده رقیہ كے انتقال كے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم كی ایك اور بیٹی سیده ام كلثوم بھی سیدنا عثمان بن عفان كے حبالہ نكاح میں آئیں ۔ رض اللہ عنہم ۔ (طبقات ابن سعد صفحہ ۳۸)

خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم كی ایک شادی ابو سفیان بن حرب اموی كی صاحبزادی سیده ام حبیبہ سے ہوئی ۔ (تاریخ طبری دوم ۱۵۳۔۱۵۴)


بنو هاشم كے ایک اور فرد حارث بن نوفل بن حارث بن عبد المطلب نے ابو سفیان كی دوسری دختر ہند سے عقد كیا تھا ۔ (احمد بن یحیی بلا ذری،انساب الاشراف ، مرتبہ محمد حمید اللہ قاهره ۱۹۵۹ء اول ۴۴۰)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ كے بڑے بھائی عقیل بن ابی طالب هاشمی كا عقد ولید بن عتبہ بن ربیعہ كی بیٹی فاطمہ سے ہوا تھا ۔ (واقدی، كتاب المغازی ، مارسدن جونس ، آكسفورڈ ۱۹۶۶ء صفحہ ۹۱۸،چشتی)

سیدنا زید بن حارثہ مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم كا نكاح خاندان بنو امیہ كی ایك معزز خاتون ام كلثوم بنت عتبہ بن ابی معیط اموی سے ہوا ۔ (طبقات ابن سعد ہشتم صفحہ نمبر ۲۳۰)


سیدنا عقیل رض اللہ عنہ بن ابی طالب كا ایک عقد ان كی پهلی بیوی فاطمہ بنت ولید بن عتبہ بن ربیعہ كی ہم نام پھوپھی فاطمہ بنت عتبہ سے ہوا تھا ۔ (طبقات ابن سعد چهارم ص ۲۳)


بنو امیہ اور بنو ہاشم کے سبھی لوگ ایک دوسرے کے کزن تھے ۔ عربوں میں جلد شادیوں کی وجہ سے یہ کیفیت ہو جاتی تھی کہ کبھی چچا بھتیجا ہم عمر ہوتے تھے اور کبھی بھتیجا چچا سے زیادہ عمر کا ہوا کرتا تھا ، یہ بات تو واضح ہے کہ حضرات عثمان، علی اور معاویہ رضی اللہ عنہم سبھی ایک دوسرے کے کزن تھے ۔ فرق صرف یہ تھا کہ کسی کا رشتہ قریب کا تھا اور کسی کا دور کا لیکن ان رشتوں کو مزید قربت اس طرح ملی کہ ان حضرات نے آپس میں ایک دوسرے کی اولادوں سے اپنی بیٹیوں کے رشتے کیے ۔


بنو امیہ کے السابقون الاولون صحابہ میں حضرت عثمان ، ام حبیبہ ، خالد بن سعید ، عمرو بن سعید رضی اللہ عنہم کا نام پیش کیا جا سکتا ہے ۔ ان میں سے بہت سے حضرات نے حبشہ ہجرت کی ۔ اگر بنو امیہ اور بنو ہاشم میں دشمنی ہوتی تو بنو امیہ کے اتنے لوگ ایک ہاشمی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان نہ لاتے ۔


أم محمد بنت عبدالله بن جعفر بن أبي طالب إبن عبدالمطلب بن هاشم ۔ یزید بن معاویہ کی بیوی عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کی بیٹی تھی ، عبداللہ بن جعفر جو جعفر بن ابی طالب کے بیٹے اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے چاچا زاد بھائی تھے ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جن لوگوں کو عہدے دیے ، وہ زیادہ تر بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ فتح مکہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ کا گورنر بھی ایک اموی نوجوان حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا ۔ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو نجران اور ان کے بیٹے یزید کو تیماء کا گورنر مقرر فرمایا ۔ حضرات ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما ، جو ان دونوں خانوادوں سے ہٹ کر بالترتیب بنو تیم اور بنو عدی (قریش کے دیگر خاندان) سے تعلق رکھتے تھے ، نے بھی بنو امیہ کے لوگوں کو زیادہ عہدے دیے ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے ان اموی صحابہ رضی اللہ عنہم پر کامل اعتماد تھا ۔ بنو امیہ کو زیادہ عہدے دینے کی وجہ یہی تھی کہ ان کے خاندان میں ایڈمنسٹریشن کا ٹیلنٹ پایا جاتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 130 برس تک عالمِ اسلام پر بہترین انداز میں حکومت کی اور کوئی فتنہ و فساد نہ پھیلنے دیا ۔ پھر جب بنو عباس نے ان کی حکومت کا خاتمہ کیا تو اسپین میں یہی بنو امیہ مزید 300 سال تک حکومت کرتے رہے ۔


بنو امیہ اور بنو ہاشم میں باہمی محبت کا سب سے بڑا ثبوت بنو امیہ کے دور کے اوائل میں بنو ہاشم کا طرز عمل ہے : حضرت علی (ہاشمی) حضرت عثمان (اموی) رضی اللہ عنہما کے دست راست رہے اور باغیوں کے خلاف ان کا بھرپور ساتھ دیا ۔


حضرت امام حسن (ہاشمی) حضرت معاویہ (اموی) رضی اللہ عنہما کے حق میں دستبردار ہو گئے ۔ تمام بنو ہاشم نے ان کی بیعت کی ۔


حضرت عبداللہ بن عباس (ہاشمی) رضی اللہ عنہما نے عبد الملک بن مروان (اموی) کی بیعت کی اور اس پر اپنے آخری دم تک قائم رہے ۔


حضرت امام زین العابدین (ہاشمی) رضی اللہ عنہ نے پانچ اموی خلفاء یزید ، مروان ، عبدالملک ، ولید اور سلیمان کا زمانہ پایا اور ان سب کے ساتھ ان کے بہترین تعلقات رہے ۔ یہی طرز عمل ان کے بیٹوں اور پوتوں میں منتقل ہوا جن میں حضرت امام محمد باقر اور امام  جعفر صادق رضی اللہ عنہما نمایاں ہیں ۔


متعصب رافضی مٶرخین ابو مخنف اور ہشام کلبی نے بنو امیہ اور بنو ہاشم کے اختلافات کو بھی بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے حالانکہ خود انہیں کی روایتیں اس کی تردید کرتی ہیں ۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں :


متعصب راویوں کے مطابق حضرت ابوبکر کی بیعت کے موقع پر حضرت ابو سفیان (بنو امیہ) نے حضرت علی (بنو ہاشم) رضی اللہ عنہم کو خلافت کا دعوی کرنے کی ترغیب دی تھی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں اس سے سختی سے منع کر دیا تھا ۔


حضرت عثمان (بنو امیہ) رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ اگر آپ کو خلیفہ نہ بنایا جائے تو آپ کی رائے کس کے حق میں ہو گی؟ انہوں نے جواب دیا : علی (بنو ہاشم)کے حق میں ۔ اسی طرح حضرت علی (بنو ہاشم) رضی اللہ عنہ سے یہی سوال کیا گیا کہ اگر آپ کو خلیفہ نہ بنایا جائے تو آپ کی رائے کس کے حق میں ہو گی ؟ انہوں نے جواب دیا: عثمان (بنو امیہ) رضی اللہ عنہ کے حق میں ۔


حضرت امام حسن (بنو ہاشم) حضرت معاویہ (بنو امیہ) رضی اللہ عنہما کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوئے ۔ حضرت معاویہ اپنے پورے دور خلافت میں حضرات امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہم کے ساتھ بہترین سلوک کرتے رہے ۔


اموی افواج جب حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی جاگیر کے پاس سے گزریں تو انہوں نے انہیں چارہ پانی فراہم کیا ۔ (تاریخ طبری 4/1-268،چشتی)


حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی بنو امیہ کے بارے میں کیا رائے تھی ، ملاحظہ فرمائیے :


أخبرنا عبد الرزاق، قال أخبرنا معمر بن أيوب عن ابن سيرين : امام ابن سیرین علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا : مجھے قریش کے بارے میں بتائیے ؟ فرمایا : ہم میں سب سے زیادہ صاحب عقل اور صاحب تحمل ، ہمارے بھائی بنو امیہ ہیں اور بنو ہاشم جنگ کے وقت سب سے بہادر ہیں اور جو ان کی ملکیت ہو ، اس میں سب سے زیادہ سخی ہیں ۔ قریش کا پھول بنو مغیرہ ہیں جس سے ہم خوشبو حاصل کرتے ہیں ۔ (عبد الرزاق۔ المصنف۔ روایت نمبر 9768، 5/451۔ بیروت: مکتب اسلامی،چشتی)


اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ بنو امیہ اور بنو ہاشم کے مابین عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں کوئی اختلافات نہ تھے ۔


عہدِ جاہلیت میں نبی کرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دادا عبدالمطلب نے اپنی دو بیٹیاں جنابہ صفیہ بنت عبدالمطلب اور جنابہ ام حکم کی شادیاں بنوامیہ میں حارث بن حرب اور کریز بن ربیعہ سے کیں ۔ یہ حارث بن حرب سیدنا ابوسفیان بن حرب کے بھائی تھے ۔ یوں سیدنا معاویہ بن ابو سفیان کی ایک چچی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پھوپھی تھی ۔ (مصعب زبیری صفحہ ۱۸-۱۹، طبقات ابن سعد، جلد ہشتم صفحہ ۴۱-۴۶، انساب الاشراف جلد اول صفحہ ۸۸-۹۰،چشتی)


اسی طرح جناب عبدالمطلب نے اپنے ایک بیٹے ابو لہب بن عبدالمطلب کی شادی بنو امیہ میں اُمِ جمیل بنت حرب سے کی تھی جو کہ سیدنا ابو سفیان کی بہن تھی ۔ یہی یہ وہی ابو لہب ہاشمی اور امِ جمیل اموی ہیں جن کو سورۃ لہب میں جہنم کی وعید سنائی گئی ہے ۔ (مصعب زبیری صفحہ ۸۹، طبقات ابن سعد جلد چہارم صفحہ ۵۹)


اس ابو لہب کے مسلمان پڑ پوتے فضل بن عباس بن عتبہ بن ابو الہب کو اپنی اس ننھیالی اموی نسبت پر اس قدر فخر تھا کہ انہوں نے باقاعدہ اپنے اشعار میں اپنی اس نسبت کا یہ کہہ کر فخریہ تذکرہ کیا ہے کہ :


عبدشمس ابی ، فان کنتِ غضبی

فاملئی وجھک الجمیل خموشا ۔ (طبقات فحول الشعراء صفحہ ۶۲)


عربوں میں ایک دستور ندیمی اور دوستی کا ہوتا تھا جس میں دو خاندانوں کے بڑے آپس میں گہرے ندیم و دوست ہوتے تھے ۔ ایسی ہی ایک دوستی سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما اور سدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے درمیان بھی تھی ، اسی وجہ سے فتح مکہ سے ایک دن قبل سیدنا عباس بن عبدالمطلب سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہم کو اپنے ساتھ سواری پر بٹھا کر بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں قبولِ اسلام کے لئے لے گئے تھے ۔ (کتاب المحبر صفحہ۱۷۴)


اسی طرح انہیں ابو سفیان بن حرب کے بھائی حارث بن حرب اور انہیں عباس بن عبدالمطلب کے بھائی حارث بن عبدالمطلب بھی آپس میں گہرے دوست اور ندیم تھے ۔ حارث بن حرب کے انتقال کے بعد حارث بن عبدالمطلب نے سیدنا زبیر کے والد اور سیدہ خدیجہ کے بھائی عوام بن خویلد اسدی سے رشتہ منادمت قائم کرلیا تھا ۔ (کتاب المحبر صفحہ ۱۷۷) (رضی اللہ عنہم)


بعینہٖ اسی طور سے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اموی کی مذکورہ بالا حارث بن عبدالمطلب کے فرزند جناب ربیعہ بن حارث رضی اللہ عنہم ہاشمی سے اسلام سے قبل سے لیکر عہدِ عثمانی تک گہری دوستی اور منادمت تھی ۔ (انساب الاشراف جلد ۵ صفحہ ۳۹)


عہدِ جاہلیت میں حارث بن نوفل بن حارث بن عبدالمطلب نے سیدنا ابو سفیان کی ایک صاحبزادی جنابہ ہند بنت ابو سفیان سے نکاح کیا تھا ۔ یہ ہند ام المومنین سیدہ امِ حبیبہ کی بہن تھیں ۔ (رضی اللہ عنہم) (انساب الاشراف جلد ۱ صفحہ۴۴،چشتی)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سب سے بڑی صاحبزادی سیدہ زینب بنت محمد کا نکاح اپنے اموی خالہ زاد بھائی سیدنا ابو العاص بن ربیع سے قبلِ اسلام ہی ہوا تھا جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بعد ہجرت بھی برقرار رکھا اور اسی نکاح کے تحت سیدہ زینب کو سیدنا ابو العاص کے پاس واپس لوٹا دیا تھا ۔ (رضی اللہ عنہم) (طبری جلد دوم صفحہ ۴۷۲،چشتی)


بعثت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی دو صاحبزادیوں سیدہ رقیہ اور سیدہ امِ کلثوم کا نکاح یکے بعد دیگرے سیدنا عثمان بن عفان اموی رضی اللہ عنہم سے کیا اور یہاں تک فرمایا کہ اگر میری دس لڑکیاں بھی ہوتی تو میں ان کو ایک کے بعد عثمان کی زوجیت میں دے دیتا ۔ (طبری و ابن سعد : قصہ مشہورۃ)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سب بڑے اموی داماد سیدنا ابو العاص بن ربیع کا جب انتقال ہونے لگا تو انہوں نے سیدنا زبیر بن العوام کو اپنا وصی بنایا اور اپنی بیٹی امامہ بنت ابو العاص کی بابت ان کو تاکید کی کہ ان کا کسی اچھے خاندان میں رشتہ کردیں ۔ اسی اثناء میں سیدہ فاطمہ کا انتقال بھی ہوگیا ۔ سیدنا زبیر بن العوام نے اپنا حقِ ولایت استعمال کرتے ہوئے تو امامہ بنت ابو العاص اموی کا نکاح سیدنا علی رضی اللہ عنہم ہاشمی سے کردیا ۔ (مصعب زبیری صفحہ ۲۲)(طبقات ابن سعد جلد ۶ صفحہ ۲۳۳،چشتی)(انساب الاشراف جلد ۱ صفحہ ۴۰۰)


سیدنا علی کی صاحبزادی رملہ رضی اللہ عنہمما مروان  بن الحکم کے فرزند معاویہ بن مروان کو بیاہی تھی جو کہ خلیفہ عبدالملک بن مروان کے حقیقی بھائی تھے ۔ (جمہرۃ الانساب ابن حزم، ص ۸۰)


اسی طرح سیدنا مولا علی رضی اللہ عن کی دوسری صاحبزادی انہی مروان بن الحکم کے بیٹے عبدالملک بن مروان جو کہ خلیفہ تھے اپنے زمانہ میں ان کو بیاہی تھی ۔ (البدایہ و النہایہ ج ۹، ص ۶۹،چشتی)


حضرت مولا سیدنا علی کی تیسری صاحبزادی خدیجہ بنت علی رضی اللہ عنہم امیر عامر بن کریز اموی کے فرزند عبدالرحمٰن بن عامر اموی کو بیاہی گئی تھی ۔ (جمہرۃ الانساب ص ۶۸)


اسی طرح حضرت سیدنا مولا علی کے بڑے بیٹے سیدنا امام حسن کی ایک نہیں بلکہ 6 پوتیاں اموی خاندان میں بیاہی گئی تھیں رضی اللہ عنہم ۔


سیدہ نفسیہ بنت زید بن حسن رضی اللہ عنہم کی شادی خلیفہ ولید بن عبدالملک بن مروان سے ہوئی ۔ (عمدۃ الطالب صفحہ ۴۴)


ان حضرت نفسیہ کی چچا زاد بہن زینب بنت حسن مثنیٰ بن حسن رضی اللہ عنہم کی شادی بھی ولید بن عبدالملک بن مروان سے ہوئی تھی ۔ (جمہرۃ الانساب صفحہ ۳۶،چشتی)


حضرت سیدنا امام حسن بن علی کی تیسری پوتی ام قاسم بنت حسن مثنیٰ بن حسن کی شادی سیدنا عثمان  کے پوتے مروان بن ابان بن عثمان سے ہوئی ۔ مروان بن عثمان کے انتقال کے بعد یہ ام قاسم علی بن حسین (زین العابدین) رضی اللہ عنہم کے عقد میں آئیں ۔ (جمہرۃ الانساب صفحہ ۳۷)


حضرت سیدنا امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی چوتھی پوتی مروان کے ایک فرزند معاویہ بن مروان بن الحکم کے عقد میں آئیں جن کے بطن سے حسن کے اموی نواسہ ولید بن معاویہ متولد ہوئے ۔(جمہرۃ الانساب ص ۸۰، ۱۰۰)


سیدنا امام حسن بن علی کی پانچویں پوتی حمادہ بنت حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہم ۔ مروان کے ایک بھتیجے کے فرزند ، اسماعیل بن عبدالملک بن الحارث بن الحکم کو بیاہی گئی تھیں ۔ (جمرۃالانساب ص ۱۰۰)


حضرت سیدنا امام حسن کی چھٹی پوتی خدیجہ بنت الحسین بن حسن بن علی رضی اللہ عنہم کی شادی بھی اپنی چچیری بہن حمادہ کے نکاح سے پہلے اسماعیل بن عبدالملک بن الحارث بن الحکم سے ہوئی تھی جن کے بطن سے امام حسن رضی اللہ عنہ کے چار اموی نواسے محمد الاکبر و حسین و اسحٰق و مسلمہ پیدا ہوئے ۔ ( جمہرۃ الانساب ص ۱۰۰)


حضرت سیدنا امام حسن بن علی کی طرح حضرت سیدنا امام حسین بن علی رضی اللہ عنہم کے گھر کی خواتین بھی کثرت سے بنو امیہ میں بیاہی گئی تھیں ۔


حضرت سیدنا امام حسین بن علی کی صاحبزادی سکینہ نے اپنے شوہر مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہم کے شہید ہوجانے کے بعد مروان کے پوتے الاصبغ بن عبدالعزیز بن مروان سے نکاح کیا جو کہ اموی خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے ۔ ان الاصبغ کی دوسری بیوی یزید بن معاویہ کی بیٹی ام یزید تھیں ۔ (کتاب نسب قریش صفحہ ۵۹،چشتی)(المعارف ابن قیتبہ صفحہ ۹۴)


حضرت سکینہ بنت امام حسین کا ایک اور نکاح عثمان بن عفان کے پوتے زید بن عمرہ بن عثمان اموی (رضی اللہ عنہم) سے ہوا تھا ، بعد میں ان سے علحیدگی ہوگئی تھی ۔ (المعارف ابن قتیبہ صفحہ نمبر ۹۳)(جمہرۃ الانساب صفحہ نمبر ۷۹)


حضرت سیدنا امام حسین کی نواسی ربیحہ بنت سکینہ جو ان کے شوہر عبداللہ بن عثمان بن عبداللہ بن حکیم رضی اللہ عنہم سے تھیں ، مروان کے پڑپوتے العباس بن ولید بن عبدالملک بن مروان کو بیاہی تھیں ۔ (کتاب نسب قریش مصعب زبیری صفحہ ۵۹)


حضرت سیدنا امام حسین کی دوسری صاحبزادی سیدہ فاطمہ کا نکاح ثانی اپنے شوہر حسن مثنیٰ کے بعد اموی خاندان میں عبداللہ بن عمرو بن عثمان ذی النورین رضی اللہ عنہم سے ہوا ۔ (جمہرۃ الانساب صفحہ ۷۶)


حضرت سیدنا امام حسین کے ایک پڑپوتے حسن بن حسین بن علی بن حسین رضی اللہ عنہم کی شادی اموی خاندان میں خلیدہ بنت مروان بن عنبسہ بن سعد بن العاص بن امیہ سے ہوئی تھی ۔ (جمہرۃ الانساب صفحہ ۷۵)


حضرت سیدنا امام حسین کے ایک اور پڑ پوتے اسحٰق بن عبداللہ بن علی بن حسین رضی اللہ عنہم کی شادی اموی و عثمانی خاندان میں عائشہ بنت عمر بن عاصم بن عثمان ذی النورین رضی اللہ عنہم سے ہوئی تھی ۔ (جمہرۃ الانساب ص ۴۷)


اس کے علاوہ بنو ہاشم و بنو امیہ میں دیگر رشتہ داریاں بھی ہوتی رہیں جیسا کہ :


حضرت سیدنا امام حسین بن علی کے بھائی عباس بن علی کی پوتی نفیسہ بنت عبیداللہ بن عباس بن علی رضی اللہ عنہم کی شادی یزید بن معاویہ کے پوتے عبداللہ بن خالد بن یزید سے ہوئی ۔ (جمہرۃا لانساب صفحہ ۱۰۳)(کتاب نسب قریش صفحہ ۷۹)


حضرت سیدنا مولا علی کے بھتیجے محمد بن جعفر طیار رضی اللہ عنہم بن ابی طالب کی صاحبزادی رملہ رضی اللہ عنہا کا نکاح مروان کے پڑ پوتے سلیمان بن خلیفہ ہشام بن خلیفہ عبدالملک بن خلیفہ مروان سے ہوا تھا ۔ ان کے انتقال کے بعد ان ہاشمیہ خاتون کا نکاح ثانی ابو سفیان بن حرب کے پڑ پوتے ابو القاسم بن ولید بن عتبہ بن ابو سفیان سے ہوا تھا ۔ ان ابو القاسم بن ولید کی والدہ لبابہ بنت عبیداللہ بن عباس بن عبدالمطلب یعنی حسین بن علی کی رشتہ میں چچیری بہن تھیں اور ان کے اموی شوہر ولید بن عتبہ بن ابو سفیان امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہم کے بھتیجے تھے ۔ (جمہرۃ الانساب صفحہ ۱۰۲،چشتی)


حضرت سیدنا امام حسین کی بھانجی ام کلثوم بنت عبداللہ بن جعفر طیار جو کہ زینب بنت علی کے بطن سے تھیں ، اول اپنے چچا زاد قاسم بن محمد بن جعفر رضی اللہ عنہم کے عقد میں آئیں ۔ ان کے بعد ان کا نکاح ثانی اموی گورنر حجاج بن یوسف ثقفی سے ہوا جن سے ایک بیٹی ہوئی ، پھر زوجین میں علحیدگی ہوگئی ۔ ان کا تیسرا نکاح اموی خاندان میں عثمان کے فرزند ابان بن عثمان سے ہوا یعنی یہ ام کلثوم عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم کی بہو ہوتی تھیں ۔ (المعارف ابن قتیبہ صفحہ ۹۰،چشتی)(جمہرۃ الانساب ص ۶۱، ۱۱۴)


حضرت سیدنا امام حسین بن علی کے حقیقی چچیرے بھائی اور بہنوئی عبداللہ بن جعفر طیار کی دوسری صاحبزادی ام محمد رضی اللہ عنہ کا نکاح یزید بن (معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما) سے ہوا ۔ اس حساب سے یزید بن معاویہ ، اما حسین بن علی کے بھتیج داماد تھے ۔ سیدنا امام حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی بہن زینب بنت علی ان ام محمد کی سوتیلی والدہ تھیں اور اس ناطے یزید بن معاویہ سیدہ زینب بنت علی کے داماد تھے ۔


حضرت سیدنا امام حسین بن علی کا ایک نکاح سیدنا معاویہ کی بہن سیدہ میمونہ بنت ابو سفیان کی بیٹی لیلیٰ بنت ابو مّرہ بن عروہ بن مسعود ثقفی سے ہوا تھا ، جن سے جناب علی اکبر رضی اللہ عنہم متولد ہوئے تھے ۔ (مصعب زبیری کتاب نسب قریش صفحہ ۵۷، ۱۲۶)


گویا اس رشتہ سے سیدنا امام حسین سیدنا معاویہ کے بھانجے داماد تھے ۔ ان لیلیٰ کی ایک چچازاد بہن فارعہ بنت ہمام بن عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہم تھیں جو کہ حجاج بن یوسف ثقفی کی والدہ تھیں ۔ یوں سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ حجاج بن یوسف کے خالو لگتے تھے اور حضر علی اکبر رضی اللہ عنہ اور امیر حجاج بن یوسف آپس میں خالہ زاد بھائی تھے ۔


نفيسة بنت عبيدالله بن العباس إبن علي بن أبي طالب بن عبدالمطلب ، حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی پڑپوتی نفیسہ یزید کے پوتے کی بیوی تھی ، جس سے عبداللہ بن خالد کے دو بیٹے علی اور عباس ہوئے ۔ یہ اور اس طرح کی اور بہت سی رشتہ داریاں ہیں جو کہ بنو امیہ و بنو ہاشم میں ہوتی رہیں ، ہم طوالت کے خوف سے انہیں یہاں نقل نہیں کررہے ہیں ۔ ان رشتہ داریوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بنی امیہ اور بنی ہاشم کے مابین دشمنی و عداوت کی حکاتیں تو سراسر بے سروپا ہیں ۔ تاہم غور طلب امر یہ ہے کہ کچھ کو چھوڑ کر مذکورہ بالا تمام رشتہ داریاں واقعہ صفین و کربلا کے بعد کی ہیں ۔ اللہ عز و جل فتنہ ابنِ سبا کے پھیلاۓ شر سے تمام مسلمانوں کو محفوظ رکھے آمین ۔


مغیرہ بن نو فل بن حارث نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ كے انتقال كے بعد ان كی ایک اہلیہ امامہ بنت ابی العاص اموی سے نكاح كیا ۔ ( بلا ذری اول ص۴۰۰)


عبد الرحمان بن عباس بن ربیعہ بن حارث نے زیاد بن ابی سفیان اموی كی بیٹی جویریہ سے شادی كی ۔ (بلاذری چهارم ب صفحہ ۷۵) ، اسی حارثی خانواده كی ایک دختر ام كلثوم بنت محمد بن ربیعہ بن حارث بنو امیہ كے یحیی بن حكم بن ابی العاس سے منسوب ہوئی تھیں ۔ (زبیری صفحہ ۱۷۱)


حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ كی ایک صاحبزادی رملہ بنت علی كی دوسری شادی معاویہ بن مروان بن حكم بن عاص اموی سے ہوئی ۔ (زبیری صفحہ ۴۵)


حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی دوسری صاحبزادی خدیجہ كی دوسری شادی بنو امیہ كے خاندان بنو حبیب بن عبد شمس كے ایک اہم فرد ابو السنابل عبد الرحمان بن عبد اللہ سے ہوئی تھی ۔ (ابن حزم ، جمہرة انساب العرب مرتبہ لیفی بروفنال قاهره ۱۹۴۸ء ص ۶۸)


غالبا بنات علی رضی اللہ عنہم میں سب سے اہم رشتہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ كی ایک گمنام صاحبزادی كا ہوا تھا جو مشہور اموی خلیفه عبد الملك بن مروان سے منسوب ہوئی تھیں ۔ (تارخ طبری ششم صفحہ ۴۲)


حضرت سیدنا امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی پوتی ام القاسم بنت حسن بن علی كا نكاح سیدنا عثمان كے پوتے مروان بن ابان سے ہوا تھا ۔ (زبیری صفحہ ۵۳)


حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی ایک اور پوتی زینب بنت حسن بن حسن كا نكاح مشہور اموی خلیفه ولید بن عبد الملك سے ہوا تھا ۔ (طبقات ابن سعد پنجم صفحہ نمبر ۳۱۹) ۔ انہی زینب بنت حسن هاشمی رضی اللہ عنہما نے بعد میں ولید كے چچا معاویہ بن مروان سے شادی كرلی تھی ۔ (جمہره صفحہ ۱۰۰۔۸۰)


حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ كے ایک پوتے ابراهیم بن عبد اللہ بن حسن كا عقد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی سگی پوتی رقیہ صغریٰ بنت محمد دیباج الاصغر بن عبد اللہ بن عمر بن عثمان بن عفان سے ہوا تھا ۔ (بلاذری پنجم صفحہ ۱۱۱)


حضرت سیدنا امام حسن  رضی اللہ عنہ كی ایک اور پوتی نفیسه بنت زید بن حسن كی شادی ان كے والد محترم زید هاشمی نے مشہور اموی خلیفه ولید بن عبد الملك بن مروان سے اس كے عہد خلافت كے دوران كی تھی ۔ (زبیری صفحہ ۳۲،چشتی)


حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ كی ایک پڑ پوتی فاطمہ بنت محمد بن حسن بن حسن كی شادی عبد الملك بن مروان كےایک غیر معروف بیٹے ابوبكر سے ہوئی تھی ۔ (زبیری صفحہ نمبر ۵۳)


حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ كی پوتی خدیجہ بنت حسین بن حسن كا عقد اسماعیل بن عبد الملك بن حارث بن حكم بن ابی العاص سے ہوا تھا ۔ (جمہره صفحہ ۱۰۰)


حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ كی ایک اور پوتی حمادة بنت حسن بن حسن كا عقد انہی اسماعیل سے ہوا تھا ۔ (جمہره صفحہ ۱۰۰)


حضرت سیدنا حسن  رضی اللہ عنہ كی ایک اور پڑ پوتی ام كلثوم بنت حسین بن حسن بن علی كا عقد بعد میں انہی اسماعیل سے ہوا تھا ۔ (زبیری صفحہ نمبر ۱۷۱،چشتی)


اس طرح تاریخ كے آئینے میں ہم دیكھتے ہیں کہ خاندان حسنی نے بنو امیہ كے مختلف خانوادوں سے ازدواجی روابط قائم كئے تھے اور یہ روابط یک طرفه نہیں بلکہ دو طرفه تھے ۔ یعنی حسنی دختران گرامی اموی فرزندوں سے منسوب تھیں اور اموی صاحبزادیاں حسنی سادات كے ازدواج میں تھیں اگرچه دونوں كے فیصد ، تناسب اور توازن میں فرق تھا ۔


حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ كی بڑی صاحبزادی سكینہ رضی اللہ عنہا نے یكے بعد دیگر چھ مردوں سے شادی كی تھی ان چھ میں سے ایک اصبغ بن عبد العزیز بن مروان اموی تھے (زبیری صفحہ ۵۹) اصبغ اموی كے انتقال كے كچھ دنوں بعد سكینہ كی شادی سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ كے پوتے زید بن عمرو سے ہوئی تھی ۔ (زبیری صفحہ ۵۹) سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ كی دوسری صاحبزادی فاطمہ بنت حسین كی شادی سیدنا عثمان كے پوتے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے ہوئی تھی ۔ (بیری صفحہ ۵۱،۵۲،۵۹)


سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ كے ایک پڑ پوتے حسن بن حسین بن علی زین العابدین رضی اللہ عنہم نے سعید بن عاص اموی كی پڑپوتی خلیده بنت مروان بن عتبہ سے شادی كی تھی ۔ (زبیری صفحہ ۷۴) ۔ ایک اور پڑپوتے اسحاق بن عبد اللہ بن علی زین العابدین نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ كی پڑپوتی عائشہ بنت عمر بن عاصم سے عقد كیا تھا ۔ (زبیری صفحہ ۶۰)


حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ كا خاندان سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ كے علاوه ان كے تین اور فرزندان گرامی سے بھی چلا تھا جو ماں كی طرف سے خاندان هاشمی سے تعلق نہ ركھتے تھے ۔ اس لیے وه سب علوی کہلائے ۔اگرچہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ كے ان صاحبزادوں كو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ كی طرح وه مقام حاصل نہیں ہے جو خاندان رسول كو حاصل ہے ۔ تاہم ان كا اصلاً حسباً نسباً هاشمی ہونے كی بدولت ایک مقام ہے ۔


مؤرخین اور ماهرین انساب نے حسنی اور حسینی رضی اللہ عنہما خانوادوں كے مقابلے میں علوی خاندانوں پر كم توجہ دی ہے اس لیے ان كے بارے میں كم معلومات مل سكیں تاہم جو كچھ مل سكا پیش كیا جارها ہے ۔


حضرت سیدنا علی كے صاحبزادے محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہم كی پوتی لبابہ بن عبد اللہ نے بنو امیہ كے مشہور سعیدی خاندان كے ایک فرد سعید بن عبد اللہ بن عمر ابن سعید بن عاص بن امیہ سے شادی كی تھی ۔ (زبیری صفحہ ۷۶)


حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ كے ایک اور صاحبزادے عباس بن الكلابیہ كی ایک پوتی نفیسه بنت عبید اللہ بن عباس نے اموی خلیفه یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ كے ایک پوتے عبد اللہ بن خالد سے شادی كی تھی ۔ (زبیری صفحہ نمبر ۷۹)


یہ رشتہ واقعہ كربلا كے پس منظر میں تاریخی لحاظ سے بہت اہمیت ركھتا ہے ۔ كیونکہ یہ وہی عباس بن علی تھے ۔ جو اپنے علاتی بھائی سیدنا امام حسین بن علی هاشمی رضی اللہ عنہم كے ساتھ کارِ زار كربلا میں شریک غمگساری تھے ۔ ان كے ساتھ ان كے تین سگے بھائی عثمان ، جعفر اور عبد اللہ (سیدنا علی كے كلابی بیوی سے فرزند) بھی شریکِ معرکہ جانثاری تھے ۔ اس پس منظر میں كیا یہ حیرت انگیز اور اپنی جگہ اہم بات نہیں کہ انہی عباس علوی كے فرزند عبید اللہ علوی نے جو اپنے باپ كے وارث اپنے دو چچا محمد بن الحنفیہ اور عمر بن التغلبیہ كی حیات میں بن گئے تھے ۔ (زبیری صفحہ ۴۳،چشتی) اپنی دختر كی شادی اس اموی خليفه كے پوتے سے كردی تھی جس كے عہد میں ان كے باپ اور تین چچا شہید كردیئے گئے تھے ۔


مؤرخین اور ماهرین انساب نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ كے پانچویں فرزند عمر بن التغلبیہ كے كئی فرزندوں اور صاحبزادیوں كا ذكر ضرور كیا ہے ۔ (زبیری صفحہ ۸۰)(جمہره صفحہ ۶۰) ۔ تاہم ان میں سے كسی كی بھی بنی امیہ میں شادی كا حوالہ نہیں دیا ہے ۔


اس مجموعی تجزیے سے معلوم ہوتاہے کہ ان پانچ فرزندوں میں سے چار كے گھرانے میں بنو امیہ كے مختلف خاندانوں نے ازدواجی روابط قائم كیے ہیں ۔ جن میں عثمانی ، سفیانی اور مروانی خانوادے بھی شامل تھے ۔ جس كے حسنی، حسینی اور علوی خانوادوں سے ازدواجی روابط بوجودخاص بہت اہمیت ہیں ۔


سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ كی ایک پوتی ام محمد بنت عبد اللہ نے سب سے بدنام خلیفه یزید بن معاویہ سے شادی كی تھی ۔ (زبیری صفحہ ۸۲) سیدنا جعفر كی ایک اور پوتی ام كلثوم بنت عبد اللہ نے عبد الملك اموی اور ولید بن عبد الملك كے مشہور وبدنام والی حجاج بن یوسف سے نكاح كیا تھا۔ (بلا ذری پنجم صفحہ نمبر ۱۲۰) ۔ انہی ام كلثوم نے بعد میں ابان بن عثمان سے نكاح كیا تھا ۔ (بلاذری پنجم صفحہ ۱۳)

سیدنا جعفر كی تیسری پوتی ام ابیہا بنت عبد اللہ نے عبد الملك بن مروان سے اس كے عہد خلافت میں شادی كی تھی ۔ (ابن قتیبہ ، المعارف صفحہ ۲۰۷) سیدنا جعفر كی چوتھی پوتی رملہ بنت محمد نے پہلی شادی سلیمان بن هشام بن عبد الملك اموی سے كی تھی ۔ (كتاب المحبر صفحہ ۴۴۹،چشتی) انہیں رملہ بنت محمد كی دوسری شادی سفیانی گھرانے كے ایك فراد ابو القاسم بن والید بن عتبہ بن ابی سفیان اموی سے ہوئی تھی ۔ ( كتاب المحبر صفحہ ۴۴۰)

جعفری خانواده كی ایک اور دختر جو سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ كی سگڑ پوتی تھیں ۔ ربیحه بنت محمد بن علی بن عبد اللہ كی پهلی شادی یزید بن ولید بن یزید بن عبد الملك بن مروان سے ہوئی تھی ۔ ( كتاب المحبر صفحہ نمبر ۴۴۰) انہی ربیحه كی دوسری شادی بكا بن عبد الملك بن مروان اموی سے ہوئی تھی ۔ ( كتاب المحبر ص ۴۴۰) ۔ جعفری خانوادے كی ان سات شادیوں كی ایک خاص تاریخی اہمیت اس لیے ہے کہ واقعہ كربلا كو گزرے ابھی كچھ خاص مدت نہ ہوئی تھی کہ یہ شادیاں منعقد ہوئیں ۔


سیدنا عباس رضی اللہ عنہ كی پوتی لبابہ بنت عبید اللہ كی ایک شادی سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ كے ایک پوتے ولید بن عتبہ سے ہوئی جو یزید كے عم زاد بھائی اور اس كے عہد میں مکہ اور مدینہ میں گورنر تھے ۔ (زبیری صفحہ ۳۲،چشتی)


دوسری شادی هاشمی خانوادوں كی مانند عباسی خانوادہ كی ایک دختر كا واقعہ كربلا كے فوراً بعد یزید اموی كے عم زاد اور اس كے ایك گورنر سے شادی كرنا جبکہ ان كے پهلے شوهر (عباسی علوی) اور ان كے ایک بیٹے واقعہ كربلا میں سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ كی جانب سے لڑتے ہوئے شهید ہوچكے تھے كافی اہم تاریخی حقیقت ہے انہی لبابہ كی بہن میمونہ نے ابو السنابل عبد الرحمان اموی سے شادی كی تھی ۔ (زبیری صفحہ ۳۲)


مشہور صحابی رسول سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما كی ایك پوتی ریطه بنت عبید اللہ كی شادی مشہور اموی خلیفه عبد الملك بن مروان كے بیٹے عبد اللہ اموی سے ہوئی تھی ۔ (زبیری صفحہ ۳۰) 


محمد بن ابراهیم بن علی بن عبد اللہ بن عباس هاشمی نے سیدنا عثمان كی ایك پڑ پوتی رقیہ صغریٰ بنت محمد الدیباج بن عمرو سے شادی كی تھی ۔ (زبیری صفحہ ۱۱۷،چشتی)


دوسرے عباسی خلیفه ابو جعفر عبد اللہ المنصور نے اپنی خلافت كے دوران كسی وقت خاندان بنو امیہ سے عہد عباسی كی پهلی شادی بنفس نفیس۔كی بیوی كا نام تھا عالیہ بنت عبد الرحمن بن عبد اللہ بن عبد الرحمن بن عبد اللہ بن خالد بن اسید اموی (بلاذری چهارم ب ص ۱۶۹)۔ منصور كی ایك اور اموی خاتون سے شادی كا ذكر ابن حزم نے كیا ہے لیكن ان كا نام ذكر نہیں كیا۔(جمہره ص ۱۹) اسی اموی خاتون كی ایك بہن سے منصور نے اپنے بیٹے جعفر كا عقد كیا تھا۔ (جمره ص ۱۹) طبری كے ایك بیان سے معلوم ہوتاہے کہ جعفر كی ایك دختر عالیہ كی والده بھی اموی تھیں (طبری ہشتم ۱۰۲)


عباسی خانواده كے تیسرے خلیفه محمد المہدی نے سیدنا عثمان كے خانواده كی ایك دختر رقیہ بنت عمر و بن خالد بن عبد اللہ نے عمر و بن عثمان اموی سے ۶۶۰ھ میں شادی كی تھی (طبری ہشتم ص ۱۳) انہیں رقیہ سے بعد میں علی بن حسین بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب نے عقد كرلیا تھا۔ ( طبری ہشتم ص ۲۱۹) مشہور عالمی خلیفه هارون رشید نے ایك عثمانی اموی خاتون عائشہ بنت عبد اللہ سے شادی كی۔( زبیری ص ۱۱۰) هارون رشید كی وفات كے بعد ان كے بھائی منصور بن مہدی نے اسی عائشہ بنت عبد اللہ سے شادی كر لی تھی۔ (زبیری ص ۱۱۹)


بنو هاشم اور بنو امیہ میں ازدواجی تعلقات ہر دور میں قائم ہوتے رہے ۔ چاہے ان كا تناسب ہر خاندان كے اعتبار سے كچھ بھی كیوں نہ رها ہو ان دونوں عم زاد خاندانوں میں الفت و محبت كے رشتے ہمیشہ استوار ہوتے رہے ۔ رهی دونوں كی سیاسی آویزش تو انگریزی كا مشہور مقولہ یاد ركھنا چاهیے کہ ’’حكومت وحكمرانی رشتہ داری وقرابت نہیں جانتی ۔ ہم نے اپنی حد تک کوشش کی ہے کہ ان خاندانوں بنو ہاشم و بنو امیہ کے آپس میں تعلقات و رشتہ داریوں بیان کیا جاۓ بحیثیت انسان غلطی ممکن ہے اس لیے اہلِ علم سے گذارش ہے جہاں کہیں غلطی پاٸیں از راہِ کرم اصلاح فرما دیں جزاکم اللہ خیرا ۔ اوراس ادنیٰ سے کوشش کا مقصد یہ بھی ہے کہ آج کل کے جہلاۓ زمانہ بنو امیہ بنو امیہ کی رٹ لگا کر سارے بنو امیہ کی توہین کرتے ہیں ایسے جہلاۓ زمانہ کچھ شرم و حیا کریں اور دیکھیں کہ دونوں خاندانوں میں قرابتیں و رشہ داریاں ہیں ۔ گر بنو امیہ کے اچھے لوگوں کا ذکر کرنا اُن میں سے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دفاع کرنا أَسْتَغْفِرُ اللّٰه اہلبیت رضی اللہ عنہم کے مقابلے میں ہے اور برا ہے تو جن جن اہلبیت بنو ہاشم رضی اللہ عنہم نے بنو امیہ کے خاندان میں اپنی بیٹیاں بیہاٸیں ، اپنے بیٹوں کی شادیاں کیں اور بنو امیہ سے رشتہ داری و تعلقات رکھے اُن سب پر یہ جہلاۓ زمانہ کیا فتوے لگاٸیں گے ؟ ۔ اللہ عزوجل عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرماۓ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Wednesday, 26 June 2024

مسئلہ خلافت اور خلافتِ سیّدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ

مسئلہ خلافت اور خلافتِ سیّدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ احادیث مبارکہ کتبِ شیعہ و اہلسنّت کی روشنی میں

محترم قارئینِ کرام : امیر المومنین حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مجھے اپنی زندگی کی قسم میں حق کے خلاف چلنے والوں اور گمراہی میں بھٹکنے والوں سے جنگ میں کسی قسم کی رو رعایت اور سستی نہیں کروں گا ۔ (نہج البلاغہ مترجم اردو خطبہ نمبر 25 صفحہ 136،چشتی مطبوعہ محفوظ بک ایجنسی کراچی)


خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی خلافت حق تھی ورنہ امیر المومنین حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ ضرور ان سے جنگ کرتے کیونکہ امیر المومنین حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ اللہ کے شیر ہیں ۔ وہ شیعہ روافض کی طرح ڈرپوک اور تقیہ کرنے والے نہ تھے ۔ امیر المومنین حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے سچ فرمایا اور ان کا سیدنا ابو بکر ، عمر ، اور عثمان رضی اللہ عنہم کے خلاف جنگ اور قتال نہ کرنا ہی اس بات کی دلیل تھا کہ وہ لوگ حق پر ہیں ۔


حضرت سیّدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت ثبوت شیعہ کتب سے : ⏬


جب دیکھا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نےکلمہ توحید کی نشر و اشاعت اور لشکروں کی تیاری میں پوری پوری کوشش کی اور انہوں نے اپنی ذات کے معاملے میں کسی کو ترجیح نہ دی اور نہ ہی کسی پر زیادتی کی تو حضرت علی رض نے ان سے مصالحت کرتے ہوئے ان کی بیعت کر لی اور اپنے حق سے چشم پوشی کی.کیونکہ اس سے اسلام کے متفرق ہونے سے حفاظت بھی تانکہ لوگ پہلی جہالت کی طرف نہ لوٹ جائیں ۔ (کتاب اصل الشیعہ و اصولہا ‘الشیخ کاشف الغطا صفحہ 123’124,.193)


سیدنا امام باقر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے : حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس آیت کریمہ( اَلَّـذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ اَضَلَّ اَعْمَالَـهُمْ ۔ وہ لوگ جو منکر ہوئے اور انہوں نے لوگوں کو بھی اللہ کے راستہ سے روکا تو اللہ نے ان کے اعمال برباد کر دیے) ، کی تلاوت کے بعد اپنا مقصد فنشھدالخ سے بیان فرمایا جس میں بطور شہادت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کا ثبوت اور وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا (وَمَآ اٰتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا (اور جو کچھ تمہیں رسول دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو) ، دوسری بات یہ کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے اگرچہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے وصی کے الفاظ سنے تھے لیکن اتفاق و اجماع صحابہ کو دیکھتے ہوئے اسے مرجوع قرار دیا اور خلافت صدیق کے حق ہونے کی بیعت کی ۔ (تفسیر صافی الجز السادس سورہ محمد آیت ۱،چشتی)(تفسیر القمی الجز الثالث صفحہ ۹۷۵)


ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی علالت کے دوران مجھے ہدایت کی کہ اپنے والد ابوبکر رضی ﷲ عنہ اور اپنے بھائی کو میری پاس بلواٶ تاکہ میں انہیں کوئی تحریر لکھ دوں کیونکہ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ کوئی اور شخص (خلافت کا) آرزو مند ہوسکتا ہے اور یہ کہہ سکتا ہے کہ میں (خلافت کا) زیادہ حق دار ہوں ۔ حالانکہ ﷲ تعالیٰ اور اہل ایمان صرف ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو (خلیفہ کے طور) پر قبول کریں گے ۔ (مسلم شریف جلد سوم کتاب فضائل الصحابہ حدیث 6057 صفحہ 298 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں ایک عورت آئی اور اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کسی چیز کے متعلق کلام کیا تو رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس کو حکم دیا کہ وہ دوبارہ آئے۔ اس عورت نے عرض کیا یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مجھے خبر دیں۔ اگر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں آئوں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو نہ پاٶں گویا کہ اس عورت کی مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصال ظاہری تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اگر تو آئے اور مجھے نہ پائے تو پھر ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے پاس آجانا (بخاری شریف جلد سوم کتاب الاحکام حدیث 2084 صفحہ 935 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور،چشتی)


حضرت سیدنا عبد ﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصال شریف ہوا تو انصار نے کہا کہ ہم میں سے ایک صاحب کو امام ہونا چاہئے اور مہاجرین میں سے ایک امیر سیدنا فاروق اعظم رضی ﷲ عنہ ان کے پاس تشریف لائے اور ان سے دریافت کیا۔ کیا تم نہیں جانتے کہ حضور پُرنور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جناب ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا تھا۔ تم میں کون ایسا شخص ہے کہ جو حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے مقدم ہونے پر راضی ہو۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے فرمایا کہ ہم اس بات سے ﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں کہ ہم جناب ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے مقدم ہوں (سنن نسائی، کتاب الامۃ، حدیث 780، ص 238، مطبوعہ فرید بک لاہور)


حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ آیات قرآنیہ ، احادیث نبویہ اور اقوال صحابہ کرام علیہم الرضوان کی بناء پر انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد افضل الناس ہیں ۔ علماء اہلسنت کا اس امر پر اجماع ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ تمام بنی نوع انسان میں افضل ترین انسان ہیں ۔ آپ رضی ﷲ عنہ اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بہترین نمونہ ہیں۔ امام بن جوزی علیہ الرحمہ کے بقول آیت شریفہ ’’وسیجنبھا الاتقی الذی‘‘ الخ سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ کی شان میں نازل ہوئی۔ آیت مذکورہ میں سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ کو اتقی یعنی سب سے زیادہ پرہیزگار فرمایا گیا ہے ۔


امامت دو قسم کی ہیں صغریٰ اور کبریٰ : ⏬


امام صغریٰ امامت نماز ہے ، جبکہ امامت کبریٰ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نیابت مطلقہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نیابت سے مسلمانوں کے تمام امور دینی و دنیاوی میں حسب شرع تصرف عام کا اختیار رکھے اور غیر معصیت میں اس کی اطاعت تمام جہان کے مسلمانوں پر فرض ہو۔ اس امام کےلیے مسلمان، آزاد، عاقل، بالغ، قادر اور قریشی ہونا شرط ہے۔ ہاشمی، علوی اور معصوم ہونا اس کی شرط نہیں (امام کا ہاشمی، علوی اور معصوم ہونا) روافض (شیعہ) کا مذہب ہے جس سے ان کا یہ مقصد ہے کہ برحق امرائے مومنین خلفائے ثلاثہ ابوبکر و عمر و عثمان رضی ﷲ عنہما کو خلافت سے جدا کریں ، حالانکہ ان کی خلافتوں پر تمام صحابہ کرام کا اجماع ہے ۔

مولیٰ علی و حسنین کریمین رضی ﷲ عنہم نے ان کی خلافتیں تسلیم کیں اور علویت کی شرط نے تو مولیٰ علی رضی ﷲ عنہ کو بھی خلیفہ ہونے سے خارج کردیا ۔ مولیٰ علوی کیسے ہوسکتی ہیں۔ رہی عصمت تو انبیاء و ملائکہ کا خاصہ ہے جس کو ہم پہلے بیان کر آئے۔ امام کا معصوم ہونا روافض کا مذہب ہے ۔ (بہار شریعت حصہ اول صفحہ 239 امامت کا بیان مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی،چشتی)


مسئلہ خلافت میں اہل سنت و جماعت کا عقیدہ : ⏬


خلافت راشدہ کا زمانہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیش گوئی کے مطابق تیس سال ہے اور ﷲ تعالیٰ نے حسب وعدہ اس عرصہ میں خلفائے راشدین کے مراتب کے اعتبار سے مسند خلافت پر فائز فرمایا۔ نیز آیت ’’استخلاف‘‘ میں رب العزت نے جو وعدے فرمائے تھے، وہ سب اس مدت میں پورے فرمادیئے۔ امامت، خلافت سے کوئی الگ چیز نہیں ہے اور امامت ’’اصول دین‘‘ میں سے نہیں ہے ۔


مسئلہ خلافت میں اہل تشیع کا عقیدہ : ⏬


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے رحلت شریفہ کے بعد حضرت علی کرم ﷲ تعالیٰ وجہہ خلیفۂ بلا فصل تھے اور ان کی خلافت منصوص من ﷲ تھی ۔ خلفائے ثلاثہ نے اسے جبراً چھینے رکھا ۔ اس لئے ان تینوں کا زمانہ جو روجفا کا زمانہ تھا، عدل و احسان کا وہی دور تھا جس میں حضرت علی کرم ﷲ تعالی وجہہ مسند خلافت پر فائز رہے ۔ امامت اور چیز ہے اور خلافت اس سے علیحدہ منصب ہے کیونکہ امام کا معصوم ہونا شرط ہے۔ اور خلافت کے منصب پر متمکن ہونے والے کے لئے عصمت کی کوئی شرط نہیں ۔


خلفائے ثلاثہ کی خلافت کو برحق نہ سمجھنے والا حضرت علی کے نزدیک لعنتی ہے : قال امیر المومنین و من لم یقل انی رابع الخلفآء فعلیہ لعنۃ ﷲ (مناقب علامہ ابن شہر آشوب سومصفحہ 63)

ترجمہ : حضرت امیر المومنین رضی ﷲ عنہ نے فرمایا جو مجھے ’’رابع الخلفائ‘‘ نہ کہے اس پر ﷲ تعالیٰ کی لعنت ہے ۔


وضاحت : حضرت مولا علی کرم ﷲ وجہ نے اپنے اس کلام میں صاف صاف فیصلہ فرمایا کہ میں چوتھے نمبر پر خلیفہ ہوں اور جس کایہ عقیدہ نہ ہو، اس پر ﷲ کی لعنت ہو، حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے اس قول سے ہمیں دو باتیں معلوم ہوتی ہیں : ⏬


1 : آپ کو خلیفہ بلافصل کہنا باطل ہے اور ایسا کہنے والے پر ﷲ تعالیٰ کی لعنت ہے ۔


2 : آپ خلفائے اربعہ میں سے چوتھے نمبر پر خلیفہ ہیں اور یہی عقیدہ ضروری بھی ہے ۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے اس کلام پر عمل کرنا اور اسے درست تسلیم کرنا اس وقت درست ہوگا جبکہ خلیفہ ’’بلافصل‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کو مانا جائے ۔ اور دوسرا خلیفہ حضرت عمر بن خطاب رضی ﷲ عنہ کواور تیسرا حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ کو تسلیم کرلیا جائے ۔ ان تینوں کے بعد حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت کو مانا جائے ۔


حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے خلیفہ بلافصل ہونے سے ﷲ تعالیٰ کا انکار

بقول شیعہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت بلافصل کا ایک سو بیس مرتبہ حکم آسمان پر اور تین دفعہ ’’حجۃ الوداع‘‘ کے موقع پر ہوا،اگر بزعم اہل تشیع اسے درست تسلیم کرلیا جائے توبقول ان کے آخری مرتبہ ﷲ تعالیٰ نے ’’فان لم تفعل فما بلغت رسالتہ‘‘کے تو بیخانہ انداز سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اس کے اعلان پرزور دیا گیا ہے تو پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر یہ سب دعاوی درست ہے تو ’’فرات بن ابراہیم اسکوفی‘‘ نے حضرت امام باقر رضی ﷲ عنہ کے حوالے سے اپنی تفسیر ’’رات اسکوفی‘‘ میں یہ بات کیوں اور کس وجہ سے تحریر کی ؟


حدثنی جعفر بن محمدن الفزاری محنحنا عن جابر قال قرأت عن ابی جعفر علیہ السلام لیس لک من الامر شیٔ قال فقال ابو جعفر بلی وﷲ لقد کان لہ من الامر شی فقلتہ جعلت فداک فما تاویل قولہ لیس لک من الامر شی ء قال ان رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم حرص ان یکون الامر لأمیر المومنین (ع) من بعدہ فابی ﷲ ثم قال کیف لایکون لرسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم من الامرشی ء وقد فوض الیہ فما احل کان حلالاً الی یوم القیامۃ وما حرم کان حراماً الی یوم القیٰمۃ ۔ (تفسیر قرات اسکوفی مطبوعہ صدریہ نجف اشرف صفحہ 19۔چشتی)

ترجمہ : جعفر ابن محمد فزاری حضرت جابر رضی ﷲ عنہ سے راوی ہیں اور حضرت جابر رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام باقر رضی ﷲ عنہ کے سامنے ’’لیس لک من الامر شیئ‘‘ آیت کا حصہ تلاوت کیا جس کے معنی یہ ہیں کہ تمہیں (اے پیغمبر) کسی معاملہ کا قطعاً کوئی اختیار نہیں (چونکہ اس آیت کے حصے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اختیار کی عام اور مطلق نفی ہے حالانکہ آپ مختار ہیں) تو اس پر جناب امام باقر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا۔ ہاں! خدا کی قسم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اختیار تھا ۔ امام موصوف کے کہنے کے بعد میں نے عرض کی۔ آپ پر اے امام میرے ماں باپ قربان (اگر آپ کا فرمانا درست ہے) تو ﷲ کے اس ارشاد کا کیا مفہوم ہے ’’لیس لک من الامر شی ئ‘‘ اور اس کی کیا تاویل ہوگی، حضرت امام باقر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس امر کے شدید متمنی ہیں کہ ﷲ تعالیٰ حضرت علی المرتضیٰ کے لئے ’’خلافت بلافصل‘‘ کا حکم عطا فرمائے لیکن ﷲ نے اس خواہش کو پورا کرنے سے انکار فرمادیا۔ پھر امام موصوف نے فرمایا۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو کسی قسم کا کوئی اختیار نہ ہو۔ حالانکہ ﷲ نے آپ کو اس کی تفویض فرمادی تو ﷲ کی تفویض کی وجہ سے جس کو آپ نے حلال فرمایا۔ وہ قیامت تک حلال ہوئی اور جس کی حرمت فرمادی وہ تاقیامت حرام ہوئی ۔


توضیح : اس روایت میں اہل بیت کے سردار جناب حضرت امام باقر رضی ﷲ عنہ نے فیصلہ ہی کر دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ﷲ رب العزت سے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی ’’خلافت بلافصل‘‘ کا سوال تو کیا تھا لیکن ﷲ نے اس کا انکار کر دیا ۔


حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے خلیفہ بلافصل ہونے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا انکار : ⏬


’’شیخ مفید‘‘ اپنی مشہور اور معتبر کتاب ’’ارشاد شیخ‘‘ میں حدیث قرطاس کا ذکر کرتے ہوئے یہ لکھتے ہیں ۔ فنہضوا وبقی عندہ العباس والفضل بن عباس و علی بن ابی طالب واہل بیتہ خاصۃ فقال لہ العباس یارسول ﷲ ان یکن ہذا الامر لنا مستقراً من بعدہ فبشرنا وان کنت تعلم انا نغلب علیہ فاقض بنا فقال انتم المستضعفون من بعدی وصمت فنھض القوم وہم یبکون قد یئسوامن النبی صلی ﷲ علیہ وآلہ ۔ (الارشاد الشیخ المفید ص 99 باب فی طلب رسول ﷲ بداوۃ وکتف)(اعلام الوریٰ مصنفہ ابی الفضل ابی الحسن الطبرسی صفحہ 142 بالفاظ مختلفہ)(تہذیب المتین فی تاریخ امیر المومنین مطبوعہ یوسی دہلی جلد اول صفحہ 236)

ترجمہ : (قلم دوات لانے کے متعلق جب صحابہ کرام میں اختلاف ہوگیا تو نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سب کو اٹھ جانے کا حکم دیا) جب سب اٹھ کر چلے گئے وہاں باقی ماندہ اشخاص میں حضرت عباس، فضل بن عباس ، علی بن ابی طالب اور صرف اہل بیت تھے ۔ تو حضرت عباس نے عرض کی یارسول ﷲ ! اگر امر خلافت ہم بنی ہاشم میں ہی مستقل طور پر رہے تو پھر اس کی بشارت دیجیے اور اگر آپ کے علم میں ہے کہ ہم مغلوب ہوجائیں گے تو ہمارے حق میں فیصلہ فرمادیجیے ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ۔ میرے بعد تمہیں بے بس کردیا جائے گا ۔ بس اسی قدر الفاظ فرما کر سکوت فرمالیا ۔ اورحالت یہ تھی کہ جناب عباس، علی ابن طالب اور دیگر موجود اہل بیت رو رہے تھے اور روتے روتے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ناامید ہوکر اٹھ گئے ۔


مذکورہ حدیث میں اس بات کی بالکل وضاحت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے زندگی کے آخری وقت تک کسی کو خلافت کے لئے نامزد نہیں فرمایا تھا۔ اگر حضرت علی کی خلافت کا فیصلہ ’’خم غدیر‘‘ کے مقام پر ہوچکا ہوتا اور وہ بھی ہزاروں لوگوں کے سامنے تو قلم دوات لانے پر اختلاف لانے کے موقع پر حضرت عباس کی گزارش مذکورہ الفاظ کی بجائے یوں ہونی چاہئے تھی ۔ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اگر خلافت علی رضی ﷲ عنہ (جیسا کہ آپ خم غدیر پر فیصلہ فرما چکے ہیں) قائم و دائم رہے گی تو ہمیں خوشخبری سنا دیجیے ۔


ﷲ تعالیٰ کا فرمان : واذا اسریٰ النبی الی بعض ازواجہ حدیثا ۔

ترجمہ : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی کسی بیوی سے ایک روز کی بات کی ۔


تفسیر میں ’’صاحب تفسیر صافی‘‘ اور صاحب تفسیر قمی نے اس کا سبب نزول یوں لکھا ہے کہ : جس دن سیدہ حفصہ کی باری تھی ، ان کے گھر اس وقت وہاں ’’ماریہ قبطیہ‘‘ بھی موجود تھیں۔ اتفاقاًسیدہ حفصہ کسی کام سے باہر گئیں تو حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ’’ماریہ قبطیہ‘‘ سے صحبت فرمائی۔ تو جب سیدہ حفصہ کو اس بات کا علم ہوا تو وہ ناراضگی فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ نے میرے گھر میں اور پھر میری باری میں ماریہ قبطیہ سے صحبت کیوں فرمائی ۔ اس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سیدہ حفصہ کو راضی کرنے کے لئے یہ فرمایا ۔ ایک تو میں نے ماریہ قبطیہ کو اپنے نفس پر حرام کیا اور آئندہ اس سے کبھی صحبت نہیں کروں گا اور دوسرا میں تجھے ایک راز کی بات بتاتا ہوں ۔ اگر تو نے اس راز کو ظاہر کرنے کی کوشش کی تو تیرے لئے اچھا نہیں ہوگا ۔ سیدہ حفصہ نے عرض کی ٹھیک ہے ۔

فقال انّ ابابکر یلی الخلافۃ بعدی ثم بعدہ ابوک فقالت من انباک ہذا قال نبأنی العلیم الخبیر ۔

ترجمہ : (راز کی بات ارشاد فرماتے ہوئے) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میرے بعد بے شک ابوبکر خلیفہ ہوں گے ۔ پھر ان کے بعد تیرے والد بزرگوار اس منصب پر فائز ہوں گے ۔ اس پر سیدہ حفصہ نے عرض کی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یہ خبر آپ کو کس نے دی؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا مجھے ﷲ علیم وخبیر نے خبر دی ۔ (تفسیر صافی صفحہ 714،چشتی)(تفسیر قمی صفحہ 457 سورہ تحریم)


حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت بلافصل ثابت کرنے کی دھن میں توہین رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : ⏬


شیعہ حضرات کو تو اپنا مقصد بیان کرنا ہے ۔ خواہ اس کے لئے من گھڑت روایات، غلط استدلال اور لچر تاویلات ہی کیوں نہ کرنی پڑیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کے دوران انہیں یہ خیال تک نہیں آتا کہ ہمارے اس طرز استدلال سے انبیاء کرام اور خصوصا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان اقدس پر کیا کیا گستاخیاں ہورہی ہیں؟ بطور ثبوت ایک دو مثالیں ملاحظہ ہوں : ⏬


ﷲ رب العزت کا ارشاد ہے : لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخٰسرین ۔

ترجمہ : بفرض محال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے شرک کیا تو یقینا آپ کے تمام اعمال ضائع ہوجائیں گے اور آپ لازما خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے ۔ اس آیتہ کی تفسیر میں ’’صاحب تفسیر قمی اور صاحب تفسیر صافی‘‘ یوں گویا ہیں ۔


شیعہ حضرات تفسیر صافی و تفسیر قمی میں : حضرت امام باقر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ (لئن اشرکت) کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا کہ اس کی تفسیریہ ہے کہ آپ نے اگر اپنی وفات کے بعد حضرت علی کی خلافت کے ساتھ کسی اور کو اس امر میں شریک کار کیا تو اس جرم کی پاداش میں آپ کے تمام اعمال حسنہ ضائع ہوجائیں گے اور نتیجتاً آپ خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے ۔


شیعوں کی خبر متواتر ، عقل و نقل سے باطل ہے : ⏬


سید ابن طاؤس و ابن شہر آشوب و دیگر ان روایت کردہ اندر کہ عامر بن طفیل و ازید بن قیس بقصد قتل آنحضرت آمدند، چوں داخل مسجد شدید، عامر بزدیک آنحضرت آمدند گفت، یامحمد، اگر من مسلمان شوم، برائے من چہ خوابدبو، حضرت فرمودکہ برائے تو خواہد بود آنچہ برائے ہمہ مسلمانان ہست، گفت میخو اہم بعد از خودمرا خلیفہ گردانی، حضرت فرمود، اختیار ایں امر بدست خدا است و بدست من تونیست ۔ (حیاۃ القلوب جلد 2 صفحہ 72 ، 44 باب بستم بیان معجزات کفایت از شردشمنان مطبوعہ نامیع نولکشود)

ترجمہ : سید ابن طائوس ابن شہر آشوب اور دیگر حضرات نے روایت کیا کہ عامر بن طفیل اور ازید بن قیس جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قتل کرنے کی نیت سے آئے اور مسجد میں داخل ہوئے تو ’’عامر بن طفیل‘‘ آپ کے نزدیک گیا اور کہا : یامحمد اگر میں مسلمان ہوجاٶں تو میرے لئے کیا انعام ہوگا اور مجھے اس سے کیا فائدہ ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا تمہیں بھی وہی ملے گا جو تمام مسلمانوں کو ملتا ہے۔ (یعنی تمہارا فائدہ اور نقصان سب کے ساتھ مشترکہ ہوگا۔ اس نے کہا میری خواہش ہے کہ آپ مجھے اپنے بعد خلیفہ بنادیں ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا۔ یہ تو ﷲ کے اختیار میں ہے مجھے اور تجھے اس میں کوئی دخل نہیں ۔


حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی بیعت کو اپنے پر لازم قرار دیا : ⏬


ترجمہ : ہر ذلیل میرے نزدیک باعزت ہے۔ جب تک اس کا دوسرے سے حق نہ لے لوں اور قوی میرے لئے کمزور ہے۔ یہاں تک کہ میں مستحق کا حق اسے دلادوں۔ ہم ﷲ کی قضا پر راضی ہوئے اور اس کے امر کو اسی کے سپرد کیا تو سمجھتا ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر بہتان باندھوں گا۔ خدا کی قسم! میں نے ہی سب سے پہلے آپ کی تصدیق کی تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سب سے پہلا جھٹلانے والا ہوں۔ میں نے اپنا معاملہ میں غوروفکر کیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ میرا ابوبکر کی اطاعت کرنا اور ان کی بیعت میں داخل ہونا اپنے لئے بیعت لینے سے بہتر ہے اور میری گردن میں غیر کی بیعت کرنے کا عہد بندھا ہوا ہے۔ اس روایات کے کچھ الفاظ کی ’’ابن میثم‘‘ اس طرح شرح کرتا ہے ۔ پس میں نے غور وفکر کیا اور مجھے معلوم ہوا کہ میرا اطاعت کرنا بیعت لینے سے سبقت لے گیا یعنی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے جو ترک قتال کا حکم لیا تھا وہ اس بات پر سبقت لے گیا ہے کہ میں قوم سے بیعت لوں ۔ فاذا المیثاق فی عنقی لغیری سے مراد سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مجھ سے عہد لینا مجھے اس کا پابند رہنا لازم ہے ۔ جب لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی بیعت لے لیں تو میں بھی بیعت کرلوں ۔ پس جب قوم کا وعدہ مجھ پر لازم ہوا یعنی ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی بیعت مجھ پر لازم ہوئی تو اس کے بعد میرے لئے ناممکن تھا کہ میں اس کی مخالفت کرتا ۔ (شرح نہج البلاغہ ابن مثیم)


مذکورہ خطبہ اور اس کی شرح سے مندرجہ ذیل امور ثابت ہوئے : ⏬


1: حضرت علی کرم ﷲ وجہہ الکریم کے اپنے فرمان کے مطابق آپ کے نزدیک قوی اور ضعیف برابر تھے۔ کیونکہ آپ ہر قوی سے قوی ہیں اس لئے آپ ہر کمزور کو حق دلا سکتے ہیں۔

2: جب ﷲ نے صدیق اکبر کی خلافت کا فیصلہ کردیا تو ہم نے اسے تسلیم کرتے ہوئے اسے ﷲ کے سپرد کیا۔

3: جب ایمان لانے میں مجھے اولیت حاصل ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر جھوٹ بولوں۔

4: حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حکم تھا کہ میرے بعد مسئلہ خلافت میں کسی سے لڑائی نہ کرنا

5: مسئلہ خلافت پر غوروفکر سے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ میرے لئے ابوبکر صدیق کی بیعت کرلینا اپنی بیعت لینے سے زیادہ راجح ہے۔

6: میری گردن میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ عہد بندھا ہوا ہے کہ جب لوگ ابوبکر صدیق کی بیعت کرلیں تو میں بھی بیعت کرلوں۔

ان تمام امور بالا سے معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کسی طرح بھی حضرت ابوبکر صدیق سے اعراض نہ کرسکے تھے کیونکہ ﷲ کی رضا اس کے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے عہد اور حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا فیصلہ ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے خلیفہ برحق ہونے کا بین ثبوت ہیں تو اس امر بیعت کو حضرت علی کرم ﷲ وجہ اس قدر اہم سمجھتے تھے کہ حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے اتنی جلدی کی کہ پورا لباس بھی زیب تن نہ کرسکے، صاحب روضۃ الصفاء نے اس کو یوں نقل کیا ہے ۔


شیعہ کتاب روضۃ الصفا میں ہے : امیر المومنین علی چوں استماع نمود کہ مسلماناں بر بیعت ابوبکر اتفاق نمودند بتعجیل ازفاتہ بیروں آمد چنانچہ ہیچ وربرنداشت بغیر ازپیرہن نہ ازا رونہ راہچناں نزد صدیق رفتہ ہاد بیعت نمود بعد ازاں فرستا ندتدہ جامعہ بمجلس آورند۔ ودربعضی روایات و اردشدہ کہ ابو سفیان پیش از بیعت یاامیر المومنین علی گفت کہ تو راضی مشوی کہ شخصی از نہی تمیم متصد ٹی کاری حکومت شود بخدا سو گند کہ اگر تو خواسی ایں وادی پراز سوارو پیادہ گردانم علی گفت اے ابو سفیان تو ہمیشہ ورہام جاہلیت فتنہ می انگیختی ومالا نیزمی خواہما کہ فتنہ در اسلام ابوبکر را سائستہ امیں کار میداتم ۔

ترجمہ : حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے جب سنا کہ تمام مسلمانوں نے ابوبکر صدیق کی بیعت پر اتفاق کرلیا ہے تو اس قدر جلدی در دولت سے باہر تشریف لائے کہ چادر اور تہبند بھی نہ اوڑھ سکے صرف پیرہن میں ملبوس تھے۔ اس حالت میں ابوبکر صدیق کے ہاں پہنچے اور بیعت کی بیعت سے فراغت کے بعد چند آدمی کپڑے لینے کے لئے بھیجے تاکہ مجلس میں کپڑے لے آئیں بعض روایات میں اس قدر مذکور ہے کہ ابو سفیان نے بیعت سے قبل حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے کہا کہ اے علی! کیا تو بنو تمیم کے ایک آدمی کو حکومت کا والی بنانے پر راضی ہوگیا ہے ۔ ﷲ کی قسم! اگر تم چاہو تو میں اس کی وادی کو سنواروں اور پیادوں سے بھردوں۔ یہ سن کر حضرت علی نے کہا اے ابو سفیان! دور جاہلیت میں بھی فتنہ پرداز رہا ہے۔ اور اب بھی چاہتا ہے کہ اسلام میں فتنہ بپا کردے۔ میں ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کو اس کاروبار حکومت کے لئے نہایت اچھا آدمی سمجھتا ہوں ۔


نوٹ : واذا المیثاق فی عنقی لغیری ۔ جملہ کی تشریح ’’ابن میثم‘‘ اور اس کے بعد ’’روضۃ الصفا‘‘ سے آپ پڑھ چکے ہیں ان دونوں شیعوں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے اس جملہ کی جو شرح کی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ بخوشی اور بسرعت حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے لئے چل پڑے ۔ آپ کو کوئی مجبوری نہیں تھی اور نہ زبردستی بیعت کرنے کے لئے آپ کو آمادہ کیا گیا ۔


خلافت صدیقی کا ثبوت شیعہ حضرات کی کتب سے : ⏬


شیعہ مفسر طبرسی اپنی تفسیر مجمع البیان میں اسی آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’واذا اسرالنبی الی بعض ازواجہ حدیثا یعنی حفصۃ عن الزجاج قال و لما احرم ماریۃ قبطیۃ اخبر حفصۃ انہ یملک من بعدہ ابوبکر ثم عمر ۔

ترجمہ : اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت حفصہ رضی ﷲ عنہا سے راز کی بات کی ۔ زجاج سے مروی ہے کہ جب رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت ماریہ قبطیہ رضی ﷲ عنہا کو اپنے اوپر حرام فرما لیا تو حضرت حفصہ رضی ﷲ عنہا کو آپ نے خبر دی کہ میرے بعد حضرت ابوبکر اور ان کے بعد حضرت عمر مملکت کے مالک ہوں گے ۔ (تفسیر مجمع البیان جلد 10 صفحہ 314 مطبوعہ بیروت،چشتی)


شیعہ مفسر فیض کاشانی اپنی تفسیر صافی میں اس آیت کے تحت لکھتا ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت حفصہ رضی ﷲ عنہا کو فرمایا : انا افضی الیک سرا ان اخبرت بہ فعلیک لعنۃ ﷲ والملٰئکۃ والناس اجمعین فقالت نعم ماہو فقال ان ابابکریلی الخلافۃ بعدی ثم بعدہ ابوک فقالت من انباک ہذا قال نبانی العلیم الخبیر ۔

ترجمہ : میں تمہیں راز کی ایک بات بتاتا ہوں۔ اگر اس سے تم نے کسی کو مطلع کیا تو تم پر ﷲ تعالیٰ ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہوگی۔ عرض کرنے لگیں، درست ہے۔ وہ کیا بات ہے بتائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا میرے بعد ابوبکر کو خلافت ملے گی، پھر ان کے بعد تمہارے والد (حضرت عمر) خلیفہ ہوں گے۔ حضرت حفصہ (رضی ﷲ عنہا) نے عرض کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ کو یہ بات کس نے بتائی تو فرمایا ﷲ تعالیٰ علیم و خبیر نے ۔ (تفسیر صافی جلد 4 صفحہ 716 سطر 14 تا 16 مطبوعہ ایران)


حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے نزدیک شیخین عادل اور برحق خلیفہ تھے اور ان کے وصال سے اسلام کو سخت نقصان : ⏬


واقعہ صفین : ثم قال اما بعد فان ﷲ بعث النبی صلی ﷲ علیہ وسلم علیہ وآلہ فانقذ بہ من الضلالۃ ومن الہلاکۃ وجمع بہ بعد الفرقۃ ثم قبض ﷲ علیہ وقد ادی ماعلیہ ثم استخلف الناس ابا بکروعمرو واحسنا السیرۃ وعدلا فی الامۃ وقد وجدنا علیہا ان تولیا الامر دوننا ونحن ال الرسول واحق بالامر فعفونا فاذا الک لہما ۔

اس کے بعد حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے لکھا ہے کہ بے شک ﷲ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بھیج کر لوگوں کو گمراہی اور ہلاکت سے آپ کی وجہ سے بچایا اور منتشر لوگوں کو آپ کی بدولت جمع کیا۔ پھر آپ ﷲ کو پیارے ہوگئے۔ آپ نے اپنی ذمہ داری کو صحیح طور پر ادا فرمایا۔ پھر لوگوں نے آپ کے بعد ابوبکر اور عمر کوخلیفہ بنایا اور انہوں نے لوگوں میں خوب انصاف کیا اور ہمیں افسوس تھا کہ ہم آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہوئے وہ امر خلافت کے بانی بن گئے حالانکہ اسے ہم زیادہ حقدار تھے سو ہم نے انہیں معاف کردیا کیونکہ عدل وانصاف اور اچھی سیرت کے حامل تھے ۔


حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کی طرف خط لکھا : ⏬


انہ بایعنی القوم الذی بایعوا ابابکر وعمر و عثمان علی مابایعوھم علیہ فلم یکن للشاہد ان یختار ولا للغائب ان یردو وانماالشوری للمہاجرین والانصار فان اجتمعوا علی رجل وسموہ اما ماکان ذلک ﷲ رضاً فان خرج عن امرہم خارج بطعن او بدعۃ ردو الیہ فخرج منہ فان ابی قاتلوہ علی اتباعہ غیرسبیل المومنین ولاہ ﷲ الی ماتولیّ ۔ (نہج البلاغہ خط نمبر 6 صفحہ 366)

ترجمہ : حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کی طرف خط لکھا اور فرمایا : بات یہ ہے کہ میری بیعت ان لوگوں نے کی ہے جنہوں نے حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت عثمان کی کی تھی اور مقصد بیعت بھی وہی تھا جو ان سے تھا لہذا موجودہ حضرات میں سے کسی کو علیحدگی کا اختیار نہیں اور نہ غائب لوگوں کو اس کی تردید کی اجازت ہے۔ مشورہ مہاجرین اور انصار کو ہی شایان شان ہے تو اگر یہ سب کسی شخص کے خلیفہ بنانے پر متفق ہو جائیں تو یہ ﷲ کی رضا ہوگی اور اگر ان کے حکم سے کسی نے بوجہ طعن یا بدعت کے خروج کیا تو اسے واپس لوٹا دو اور اگر واپسی سے انکار کردے تو اس سے قتال کرو کیونکہ اس صورت میں وہ مسلمانوں کے اجتماعی فیصلہ کو ٹھکرانے والا ہے اور ﷲ نے اسے متوجہ کردیا جدھر وہ خود جاتا ہے ۔


توضیح درج ذیل امور ثابت ہوئے : ⏬


1 ۔ جن لوگوں نے حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت عثمان کی بیعت کی تھی۔ ان ہی لوگوں نے حضرت علی کی بیعت کی۔

2 ۔ تمام مہاجرین و انصار کا کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلینا اتنا اہم ہے کہ اس کے بعد حاضرین یا غائبین لوگوں میں سے کسی کو اس کے خلاف اختیار نہیں رہ جاتا۔

3 ۔ شوریٰ کا استحقاق صرف مہاجرین و انصار کو ہے۔

4 ۔ مہاجرین و انصار کا باہمی مشورہ سے کسی کو امام یا خلیفہ پسند کرلینا دراصل خوشنودی خدا ہوتا ہے۔

5 ۔ ان کے متفقہ طور پر کسی کو منتخب کرلینے کے بعد اگر کوئی بوجہ طعن بیعت نہ کرے تو اسے زبردستی واپس لایا جائے اور اگر انکار کردے تو اسے قتل کیا جائے ۔ کیونکہ وہ اس طرح جمیع مسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر علیحدگی اختیار کرتا ہے ۔


اگر مرض باقی ہے تو ایک خوراک اور شارح ابن میثم شیعہ نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے خطبے کی علم منطق کے ذریعے خلافت حقہ کےلیے جو ترتیب دی ہے اس کا خلاصہ : ⏬


صغریٰ : میری بیعت ان لوگوں نے کی جنہوں نے خلفائے ثلاثہ کی بیعت کی تھی ۔

کبریٰ : جس آدمی کی بیعت وہی لوگ بیعت کرلیں تو اس کے بعد کسی غائب یا حاضر کو بیعت نہ کرنے یا اس کے رد کا اختیار نہیں ۔

نتیجہ : چونکہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی بیعت بھی انہی لوگوں نے کرلی ہے لہذا کسی کو اس کے رد کا اختیار نہیں ۔ (شرح ابن میثم جلد نمبر 4 صفحہ 353)


حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے اس خط میں انما الشوریٰ کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے : ⏬


وحصر للشوری والاجماع فی المہاجرین والانصار لانھم اہل الحل والعقد من امۃ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اتفقت کلمتھم علی حکم الاحکام کاجماعھم علی بیعتہ وتسمیتہ اماماً کان ذلک اجماعاً حقاً ہو رضی ﷲ عنہ مرضی لہ و سبیل المومنین الذی یجب اتباعہ ۔

ترجمہ : حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے شوری کو صرف مہاجرین اور انصار کے لئے مخصوص فرمایا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی امت کے اہل حل و عقد و ارباب بست و کشادہ وہی ہیں اور جب وہ کسی معاملہ پر متفق ہوجائیں جس طرح حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی امامت و بصیرت پر متفق ہوئے تو ان کا یہ اجماع و اتفاق حق ہوگا اور وہ اجماع ﷲ کا پسندیدہ ہوگا اور مومنین کا ایسا راستہ ہوگا جس کی اتباع واجب ہے ۔

حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی محبت کے دعویداروں کو دعوتِ فکر

اجماع حقہ وہی ہے جو مہاجرین و انصار کا ہو ، یہ دونوں غزوہ بدر اور بیعتِ رضوان میں شامل تھے، ان کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جنتی ہونے کی خوشخبری فرمائی ۔ ان کا اجماع ﷲ کا پسندیدہ ہے تو معلوم ہوا کہ یہ اجماع جنتیوں کا اجماع ہے۔ معلوم ہوا کہ خلفائے ثلاثہ کی خلافت حق تھی ۔


خلفائے راشدین کی خلافت حقہ پر دلیل نہم : ⏬


کتب شیعہ میں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی بیعت بغیر جبر و اکراہ کے بطریق رضا کی ہے ۔شیعوں کے امام الاکبر محمد الحسینی نے اپنی مشہور کتاب اصل الشیعہ واصولہا میں اس کی ان الفاظ میں تصدیق اور توثیق کی ہے : اصل الشیعہ و اصولہا وحین رایٰ ان المتخلفین اعنی الخلیفۃ الاول والثانی بذلا اقصیٰ الجہد فی نشر کلمۃ التوحید وتجہیز الجنود وتوسیع الفتوح ولم یستاتدوا ولم یستبدوا ابیع وسالم و اغضی عمایداہ حقاً لہ محافظۃ علی الاسلام ان تصدع وحدتہ وتتفدق کلمتہ ویعود الناس الی جاہلیتھم الاولیٰ وبقی شیعتہ منفسدین تحت جناحہ ومستنیرین بمصباحہ ولم یکن للشیعۃ والتشیع یومئذ مجال للظہور لان الاسلام سحان یجدی علی منہ ہجرہ القویمۃ حتی اذ تمیذا الحق من الباطل وتبین الرشد من الغّی وامتنع معاویۃ عن البیعۃ لکلی وحاربہ فی (صفین) انضم بقیۃ الصحابۃ الی علی حتی الحثدھم تحت رایتہ وکان معہ من عظماء اصحٰب النبی ثمانون بعلا کلہم بدری عقبی لعمار بن یاسر وخزیمۃ ذی الشہادتین وابی ایوب الانصاری ونظر ائھم ثم نما قتل علی علیہ السلام وائتقبا الامہ لمکاویۃ وانقضی دور الخلفآء الراشدین ساد معاویۃ بسیدۃ الجبا برۃ فی المسلمین ۔ (اصل الشیعہ واصولہا صفحہ 115 تذکرہ صرف القوم الخلافتہ عن علی مطبوعہ قاہرہ طبع جدید،چشتی)

ترجمہ : جب دیکھا حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے کہ حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ اور عمر فاروق رضی ﷲ عنہ نے کلمہ توحید کی نشر و اشاعت میں اور لشکروں کی تیاری میں پوری پوری کوشش کی اور انہوں نے اپنی ذات کو کسی معاملے میں ترجیح نہ دی اور نہ ہی کسی پر زیادتی کی تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے ان سے مصالحت کرتے ہوئے ان کی بیعت کرلی اور اپنے حق سے چشم پوشی کی۔ کیونکہ اس میں اسلام کے متفرق ہونے سے حفاظت تھی تاکہ لوگ پہلی جہالت کی طرف نہ لوٹ جائیں اور باقی شیعہ کمزوری کی وجہ سے آپ کے زیر دست رہے ۔ آپ کے چراغ سے روشنی حاصل کرتے رہے اور شیعہ اور ان کے مذہب کے لئے ان ایام میں ظہور کی مجال نہیں تھی۔ کیونکہ اسلام مضبوط طریقے پر چل رہا تھا۔ یہاں تک حق باطل سے اور ہدایت گمراہی سے جدا ہوچکی تھی اور معاویہ رضی ﷲ عنہ نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی بیعت سے انکار کیا اور صفین میں ان سے جنگ کی تو اس وقت جتنے صحابہ کرام موجود تھے انہوں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا ساتھ دیا حتی کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے جھنڈے کے نیچے اکثر صحابہ کرام شہید ہوئے اور آپ کے ساتھ جلیل القدر صحابہ کرام میں سے 80 وہی صحابہ تھے جو کل کے کل بدری تھے۔ مثلاً عمار یاسر اور حضرت خزیمہ جن کی شہادت دو شہادتوں کے برابر تھی اور ابو ایوب انصاری اور اسی مدینے کے اور صحابہ اور پھر جب حضرت علی شہید ہوئے اور امرِ خلافت امیر معاویہ کی طرف لوٹا تو اس کے ساتھ خلفاء راشدین کا دور ختم ہوا اور امیر معاویہ نے مسلمانوں میں جبارین دین کی سیرت کو اپنایا ۔


مذکورہ عبارت سے مندرجہ ذیل امور صراحتاً ثابت ہوئے : ⏬


1 : حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا مقصود خلافت حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ کلمہ توحید کی نشرواشاعت اور لشکروں کی تیاری کے ساتھ فتوحات میں توسیع دینا تھا۔ اسی لئے جب انہوں نے دیکھا کہ جو اسلام کے مقاصد تھے وہ سب کے سب شیخین نے پورے کردیئے تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے رضامندی کے ساتھ یکے بعد دیگرے ان کی بیعت کرلی۔

2 : شیخین کے زمانہ میں شیعہ اور ان کے مذہب کا اس لیے ظہور نہیں ہوا کہ اسلام اپنے صحیح اور مضبوط طریقے پر چل رہا تھا۔ یہاں تک کہ حق باطل سے اور ہدایت گمراہی سے جدا ہوچکی تھی۔

3 : جنگ صفین کے زمانہ تک بدری صحابی موجود تھے جو 80 کی تعداد میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے لشکر میں شامل ہوئے۔

4 : خلفاء ثلاثہ خلفاء راشدین تھے نہ کہ ظالم فاسق اور فاجر

5 : نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال پر صحابہ کرام کے ارتداد کا مسئلہ (معاذ ﷲ) شیعہ حضرات کا خود ساختہ ہے کیونکہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے زمانہ تک بدری صحابہ موجود تھے جوکہ قطعی جنتی تھے جوکہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے لشکر میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے ۔


خلفائے راشدین کی خلافت حقہ پر دلیل دہم : ⏬


فرمان علی رضی ﷲ عنہ : ﷲ تعالیٰ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد لوگوں کے لیے بہترین شخص کا انتخاب فرمایا : ان فی الخبر المروی عن امیرالمومنین علیہ السلام لماقیل لہ الا توصی فقال مااوصیٰ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم فاوصی ولٰکن ان اراد ﷲ بالناس خیرا استجمعھم علی خیرہم کما جمعہم بعد نبیہم علی خیرہم قتضمن لما یکاد یعلم بطلانہ مندورۃ لان فیہ التصدیح القوی بفضل ابی بکر علیہ وانہ خیر منہ والظاہر من احوال امیر المومنین علیہ السلام والمشہور من اقوالہ واحوالہ جملۃ وتفصیلاً یقتصی انہ کان یصدم نفسہ علی ابی بکروغیرہ ۔ (تلخیص الشافی تالیف شیخ الطائفہ ابی جعفر طوسی جلد دوم صفحہ 237 دلیل آخر علی امامتہ علیہ السلام مطبوعہ قم طبع جدید،چشتی)

ترجمہ : امیر المومنین حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جب آپ سے کہاگیا کہ آپ وصیت کیوں نہیں کرتے تو آپ نے فرمایا کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے وصیت فرمائی تھی کہ میں وصیت کروں لیکن اگر ﷲ تعالیٰ نے لوگوں کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمایا تو ان کو ان میں سے بہترین شخص پر جمع کردے گا جیسا کہ اس نے نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد انہیں بہترین شخص پر جمع کیا۔ یہ اس چیز کو متضمن ہے کہ قریب ہے کہ اس کا بطلان بدایۃً معلوم ہوجائے کیونکہ اس میں ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی فضیلت حضرت علی رضی ﷲ عنہ پر تصریح قوی ہے اور یہ کہ ابوبکر رضی ﷲ عنہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے بہتر ہیں ۔ لیکن امیرالمومنین کے احوال اور ان کے اقوال و احوال سے اجمالاً اور تفصیلاً جو ظاہرا اور مشہور ہے اس کا متقضی یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کو ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ وغیرہ پر مقدم جانتے ہیں ۔


الحاصل : مذکورہ عبارت سے دو اہم مسائل ثابت ہوئے : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے بعد کسی کو وصی نہیں بنایا ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد ﷲ تعالیٰ نے امت کے سب سے بہترین شخص کو خلافت کے لئے منتخب فرمایا جیسا کہ اس نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے بعد امت کے بہترین شخص حضرت امام حسن رضی ﷲ عنہ کو امت کے لئے منتخب فرمایا ۔


خلفائے راشدین کی خلافت حصہ پر دلیل یادہم : ⏬


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے متعلق اپنے بعد خلیفہ اور جنتی ہونے کی پیش گوئی فرمائی ۔ تلخیص الشافی میں ہے : روی عن انس ان رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم امرہ عند اقبال ابی بکر ان یسبشرہ بالجنۃ وبالخلافۃ بعدہ وان یستبشرہ عم بالجنۃ وبالخلافہ بعد النبی بکر و روی عن جبیربن مطعم ان امراۃ اتت رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ فکلمتہ فی شیٔ فامر بہا ان ترجع الیہ فقالت یارسول ﷲ ارایت ان رجعت فلم اجدک (یعنی الموت) قال ان لم تجدنبی فات ابابکر ۔ (تلخیص الشافی جلد سوم صفحہ 39 فصل فی ابطال قول من حالت فی امامۃ امیر المومنین بعد النبی علیہما السلام بلا فصل مطبوعہ قم، طبع جدید)

ترجمہ : حضرت انس رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے مجلس میں آنے کے وقت ارشاد فرمایا کہ انہیں (ابوبکر صدیق) کو جنت اور میرے بعد خلافت کی خوشخبری سنادو اور حضرت عمر فاروق رضی ﷲ عنہ کو جنت اور ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے بعد خلافت کی بشارت دو اور حضرت جبیربن مطعم رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں ایک عورت آئی اور کسی معاملہ میں آپ سے بات چیت کی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اسے حکم دیا کہ پھر میرے پاس آنا، عورت نے عرض کی کہ اگر میں دوبارہ آٶں اور آپ کو نہ پائوں تو ؟ (یعنی اس وقت تک اگر آپ وصال کرجائیں تو پھر کیا کروں؟) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے پاس چلی جانا (اور ان سے اپنا مسئلہ حل کروالینا) ۔


الحاصل : مذکورہ دونوں حدیثوں سے یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ خلیفہ برحق ہیں اور ان کے بعد عمر فاروق رضی ﷲ عنہ اور دوسرا یہ جنتی بھی ہیں اور یہ بات ثابت ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مذکورہ عورت کو اسی لئے اپنے بعد ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی وصیت فرمائی کیونکہ آپ من جانب ﷲ جانتے تھے کہ میرے بعد ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ خلیفہ ہوں گے ۔


کیا حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے (معاذ ﷲ) دشمنوں کے غلبہ کی وجہ سے بطور تقیہ حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ کی بیعت کی ؟


حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی طرف اس بات کو منسوب کرنا ان کی شان کے خلاف ہے ۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ تو ایسے بہادر تھے جو پورے پورے لشکر کو اکیلے شکست دے دیتے تھے ۔ خیبر کے موقع پر چالیس آدمیوں کا کام اکیلے مولا علی شیر خدا رضی ﷲ عنہ نے کیا ۔


پہلی دلیل : کیا وہ شیر خدا کسی کے دبائو میں آسکتا ہے ؟ کیا ﷲ تعالیٰ کا شیر حق بات کہنے سے (معاذ ﷲ) ڈر جائے ، یہ ناممکن ہے ۔


دوسری دلیل : جس شیر خدا کے بیٹے حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ نے خون میں لہولہان ہو کر ، اپنے گھرانے کو لٹا کر ایک ظالم کی بیعت نہ کی ۔

کیا ان کے والد شیر خدا (معاذ ﷲ) بزدل تھے ۔ کیا انہوں نے (معاذ ﷲ) ڈر اور خوف کی وجہ سے بیعت کرلی ۔ نہیں بلکہ وہ جانتے تھے کہ جسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے چن لیا ۔ اس کی بیعت کرنا ہمارا ایمان ہے ۔


شیعہ حضرات کی معتبر کتاب سے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے پیچھے نماز پڑھنا ثابت ہے : ⏬


دلیل : حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے پیچھے نماز ادا فرمائی ۔ (شیعہ حضرات کی کتاب : جلاء العیون صفحہ 150)


حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی بیعت حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی کتاب نہج البلاغۃ سے ثابت کرتے ہیں : نہج البلاغۃ میں لکھا ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے خلیفہ بننے کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو خط لکھا کہ جن لوگوں نے حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضی ﷲ تعالیٰ عنہم کی بیعت کی ۔ انہیں لوگوں نے میری بیعت کی ہے ۔ اب کسی حاضر یا غائب کویہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کی مخالفت کرے ۔ بے شک شوری مہاجرین و انصار کا حق ہے اور جس شخص پر جمع ہوکر یہ لوگ اپنا امام بنالیں ، ﷲ تعالیٰ کی رضامندی اسی میں ہے ۔ (کتاب نہج البلاغۃ ، دوسری جلد، صفحہ 8 مطبوعہ مصر،چشتی)


اب کسی شک کی گنجائش نہیں ۔ اس لیے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ حضرت ابوبکر و عثمان رضی ﷲ تعالیٰ عنہم سے راضی تھے ۔ اب لوگ کچھ بھی کہیں ۔ چار یاروں کی آپس میں ایسی محبت تھی۔ جس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی ۔


شیعہ حضرات کی کتاب سے حضرت علی کی بیعت کاثبوت : ⏬


شیعہ حضرات کی معتبر کتاب احتجاج طبرسی میں شیعہ عالم علامہ طبرسی لکھتا ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر و صدیق رضی ﷲ عنہ کی بیعت کی ۔ (احتجاج طبرسی صفحہ 54،چشتی)

اگر حضرت علی رضی ﷲ عنہ بطور تقیہ بیعت کرتے تو علامہ طبرسی جوکہ مشہور شیعہ عالم ہیں ، وہ اپنی کتاب میں تقیہ کا ذکر ضرور کرتے مگر انہوں نے تقیہ کا کوئی ذکر نہیں کیابلکہ اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی بیعت کی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ”جس کا میں مولا ہوں“ اس کے علی مولا ہیں‘‘ اس کا جواب دیں ؟

جواب : سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس حدیث شریف پر ہمارا بھی ایمان ہے تبھی تو ہم اہلسنت و جماعت حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو مولا علی شیر خدا کہتے ہیں ۔

دلیل : اس حدیث میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی شان مولائی بیان کی گئی ہے اور مولا کا مطلب مددگار کے ہوتا ہے ۔ اس حدیث میں خلافت کا کہیں ذکر واضح نہیں ۔

دلیل : مولا کے کئی معنی ہیں ۔ لغت کی مشہور کتاب قاموس کی جلد چوتھی ص 302 پر تحریر ہے کہ ’’المولیٰ، المالک والعبد والصاحب، والناصر، والمحب، والتابع، والعصر‘‘ مولا کے معنی مالک، غلام، محب، صاحب، مددگار، تابع اور قریبی رشتہ دار کے ہیں ۔

القرآن : فان ﷲ ہو مولہ وجبریل و صالح المومنین والملٰئکۃ بعد ذالک ظہیرا ۔ (سورۂ تحریم، آیت 4، پارہ 28)

ترجمہ : بے شک ﷲ ، جبریل ، نیک مومنین اور تمام فرشتے مددگار ہیں ۔

اس آیت میں مولا کا لفظ مددگار کے لئے بیان کیا گیا ہے ۔

القرآن : انت مولانا فانصرنا علی القوم الکافرین ۔ (سورۂ بقرہ، آیت 286، پارہ 3)

ترجمہ : اے ﷲ تو مددگار ہے ، ہمیں کافروں پر مدد و نصرت فرما ۔


اس آیت میں بھی مولا کا لفظ مددگار کےلیے بیان کیا گیا ہے ۔ تو ’’من کنت مولاہ فعلی مولا‘‘ کا معنی یہی معتبر ہوگا کہ جس کا میں والی، مددگار اور دوست ہوں، حضرت علی رضی ﷲ عنہ بھی اس کے والی، مددگار اور دوست ہیں ۔

دلیل : حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی خلافت پر سینکڑوں احادیث واضح موجود ہیں جس میں خلافت کا ذکر ہے مگر مولا والی حدیث میں کہیں بھی حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت کا واضح ذکر نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے کہ تم مجھ سے بمنزلہ ہارون کے ہو، لہٰذا جس طرح ہارون علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ تھے، اسی طرح حضرت علی رضی ﷲ عنہ بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خلیفہ ہیں ؟

جواب : بخاری شریف کی حدیث شریف ملاحظہ ہو ۔ اما ترضیٰ ان تکون منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی ۔

ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے فرمایا کہ تو اس بات پر راضی نہیں ہے کہ تو مجھ سے بمنزلہ ہارون کے ہو موسیٰ علیہ السلام ، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔ (بخاری شریف، مسلم شریف)

دلیل : اس حدیث پاک میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اگر ہے تو صرف یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں اہل بیت کی حفاظت کے لئے مقرر فرمایا تھا تو اس کا سبب ایک تو قرابت و رشتہ داری تھا اور دوسرا یہ کہ اہلبیت کی حفاظت و نگہبانی کا اہم فریضہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ ہی ادا کرسکتے ہیں ۔

دلیل : حضرت ہارون رضی ﷲ عنہ کی خلافت تو عارضی تھی کیونکہ حضرت ہارون علیہ السلام تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ہی وصال فرما چکے تھے پھر اگر خلافت مولا علی رضی ﷲ عنہ کو خلافت ہارون علیہ السلام سے تشبیہ دی جائے تو کسی صورت بھی درست نہیں ہے ۔

دلیل : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ فرمانا کہ تم میرے ساتھ ایسے ہو، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام تھے، اس سے مراد یہ ہے کہ جس طرح دین حق کو پھیلانے میں حضرت ہارون علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مدد کی، اسی طرح تم نے بھی اسلام کی تبلیغ میں میری مدد کی ہے ۔


حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کا حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے پیچھے نماز پڑھنا : ⏬


1 : شیعہ حضرات کے علامہ طبرسی تحریر کرتے ہیںکہ ’’ثم قام و تھیأ للصلوٰۃ و حضر المسجد و صلی خلف ابی بکر‘‘ پھر (حضرت علی) اٹھے اور نماز کا ارادہ فرمایا اور مسجد میں تشریف لائے پھر حضرت ابوبکر کے پیچھے نماز ادا فرمائی (الاحتجاج طبرسی جلد اول صفحہ 126 سطر 4 مطبوعہ ایران۔چشتی)


2 : ملا باقر مجلسی نے بھی حضرت علی کا حضرت ابوبکر کے پیچھے نماز پڑھنا لکھا ہے۔ جلاء العیون مترجم کی عبارت ملاحظہ ہو۔ جناب امیر (علیہ السلام) نے وضو کیا اور مسجد میں تشریف لائے ۔ خالد بن ولید بھی پہلو میں آکھڑا ہوا ۔ اس وقت ابوبکر نماز پڑھا رہے تھے ۔ (جلاء العیون اردو جلد اول صفحہ 213 سطر 21 - 20 مطبوعہ لاہور،چشتی)


کیا پیغمبر علیہ السلام جناب علی (رضی ﷲ عنہ) کی خلافت تحریر فرمانا چاہتے تھے ، حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے کاغذ ، قلم و دوات طلب فرمائی تو انہوں نے نہ دی بلکہ یہ کہا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہذیان کہتا ہے اور ہمیں ﷲ تعالیٰ کی کتاب کافی ہے ۔ یہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے بڑی غلطی کی ؟

جواب : جھوٹوں پر خدا کی لعنت ، آپ کی پہلی ہی غلط ہے ۔ اہل اسلام میں کی کتب میں اس کے برعکس لکھا ہے کہ پیغمبر علیہ السلام اپنے مرض الموت میں جناب ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی خلافت تحریر فرما گئے تھے۔ جیسا کہ مشکوٰۃ شریف ص 555 پر واضح الفاظ موجود ہیں نیز اس طعن کرنے سے اتنا پتہ چل گیا کہ غدیر خم کے موقع پر حضرت علی رضی ﷲ عنہ مقرر نہیں ہوئے تھے اور عید غدیر مناکر شیعہ لوگ خواہ مخواہ بدنام ہورہے ہیں ۔ آپ کا یہ دعویٰ پیغمبر علیہ السلام نے کاغذ ، قلم ، دوات حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے طلب فرمائی تو یہ بھی جھوٹ ہے بلکہ آپ نے جمیع حاضرین سے (جن میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ ، حضرت عباس رضی ﷲ عنہ اور گھر کی خواتین وغیرہ بھی شامل ہیں) کاغذ ، قلم ، دوات طلب فرمایا ۔ جیسا کہ بخاری شریف کتاب الجزیۃ باب اخراج الیہود من جزیرۃ العرب صفحہ 426 رقم الحدیث 2932 میں ہے : فقال ائتونی بکتف اکتب لکم کتاباً ۔ یعنی حضرت اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ کتف لائو تاکہ میں تمہیں ایک ایسی تحریر لکھ دوں کہ جس کے بعد تم راہ حق کو نہ گم کرو ۔

غور فرمایئے ۔ حدیث میں ’’ائتونی‘‘ صیغہ جمع مذکر مخاطب بول کر پیغمبر علیہ السلام جمیع حاضرین سے کتف طلب فرما رہے ہیں، نہ کہ فقط حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے اور ان سے طلب ہی کیوں فرماتے جبکہ وہ ان کا گھر ہی نہ تھا کہ جس میں قلم دوات طلب کی گئی بلکہ حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا کا حجرہ تھا ۔ جیسا کہ بخاری شریف جلد 1 صفحہ 382 پر ہے اور پھر اگر قریب تھا تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا گھر لہٰذا اگر خاص طور پر فرماتے تو ان سے کہ جن کا گھر قریب تھا ۔ (تمام شیعہ متفق ہیں کہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کا گھر مدینہ شریف کے آخری کونہ پر تھا) بہرحال نقل و عقل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے پیغمبر علیہ السلام نے قلم ، دوات طلب نہیں فرمائی ۔


2 : آپ اس کا کیا جواب دیں گے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس واقعہ کے تین دن بعد تک حیات رہے لیکن حضرت علی رضی ﷲ عنہ اس کے باوجود بھی ان کی تعمیل حکم نہ کرسکے اور بقول شیعہ خلافت بھی اُنہی کی تحریر ہونی تھی اور ادھر حکم رسول بھی تھا۔ لہذا اگر باقی سب صحابہ مخالف تھے تو ان پر لازم تھا کہ چھپے یا ظاہر ضرور لکھوا لیتے تاکہ بعد میں یہی تحریر پیش کرکے خلیفہ بلا فصل بن جاتے مگر یہ سب کچھ نہیں ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ تو تحریر ہی سرے سے ضروری نہ تھی بلکہ ایک امتحانی پرچہ تھا کہ جس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کی رائے سے اتفاق فرمایا ورنہ آپ پرحق اور وحی چھپانے کا الزام عائد ہو گا ، حالانکہ جماعتِ انبیاء علیہم السلام اس سے بالاتر ہے ۔


3 : اگر یہ ضروری تحریر تھی یا وحی الٰہی تھی اور کاغذ دوات نہ لانے والا خواہ مخواہ ہی مجرم ہوا تو اس جرم کے اولاً مرتکب اہل بیت قرار پاتے۔ اس لئے کہ وہ ہروقت گھر میں رہتے تھے ۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ جن کا گھر باقی صحابہ کی نسبت قریب تھا اور اگر وہ مجرم نہیں تو حضرت عمر رضی ﷲ عنہ بھی مجرم نہیں ۔ لہٰذا شیعوں کا یہ کہنا کہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے کاغذ اور دوات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے طلب فرمائی، باطل ہوا ۔


کیا حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے (العیاذ باﷲ) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف ہذیان کی نسبت کی ؟

جواب : یہ بھی جھوٹ اور افتراء ہے بلکہ بخاری شریف کتاب الجزیۃ باب اخراج الیہود من جزیرۃ العرب صفحہ 426 رقم الحدیث 2932 پر یوں موجود ہے : فقالوا مالہ اہجر استفہموہ ۔ یعنی حاضرین نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا کیا حال ہے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دنیا سے ہجرت فرمانے لگے ہیں ۔ آپ سے دریافت تو کرلو ۔

اور عبارت میں ’’قالوا‘‘ بصیغہ جمع مذکر غائب موجود ہے لہٰذا پہلی جہالت تو شیعوں کی یہ ہوئی کہ صیغہ جمع سے ایک شخص واحد حضرت عمر رضی ﷲ عنہ مراد لے لیا ۔ دوسری جہالت یہ کہ ’’ہجر‘‘ کا معنی برخلاف عربیت بلکہ برخلاف سباق و سیاق ہذیان لکھ مارا حالانکہ ’’ہجر‘‘ بمعنی ہذیان کیا جائے تو آگے ’’استفہموہ‘‘ کا کوئی مطلب نہیں ہوسکتا کیونکہ شیعوں کے ماسویٰ کوئی عقلمند بھی نہیں ملے گا کہ پہلے کسی کو مخبوط الحواس اور مجنون سمجھ لے اور پھر اس سے اس کے ہذیان کا مطلب پوچھنے لگے ، بہرحال صیغہ ’’استفہموہ‘‘ نے بتادیا کہ ’’اہجر‘‘ کے معنی وہی دار دنیا سے جدا ہونے کا ہی ہے ، نہ کچھ اور اگر ’’ہجر‘‘ بمعنی ہذیان بھی تسلیم کرلیا جائے تو بھی مفید نہیں کیونکہ ’’اہجر‘‘ میں ہمزہ استفہام انکاری موجود ہے کہ جس سے نفی ہذیان مفہوم ہورہا ہے معنی یہ ہوگا کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کوئی ہذیان فرما رہے ہیں ۔ نہیں ہرگز نہیں بلکہ ہوش سے فرما رہے ہیں ذرا دریافت تو کرلو بہرکیف حضرت عمر رضی ﷲ عنہ تو ویسے ہی اس مقولہ کے قائل نہ تھے ، باقی رہے قائلین تو چونکہ ’’ہجر‘‘ بمعنی ہذیان ثابت نہیں ہوا۔ اگر ہوا تو بوجہ ہمزہ استفہام منفی ہوگیا لہذا وہ بھی اس سے بری ہو گئے ۔


اگر یہی بات ہے تو پھر حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے ’’حسبنا کتاب ﷲ‘‘ کیوں کہا ؟

جواب : اول تو اکثر روایات میں حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کا یہ مقولہ ہی نہیں شمار ہوا ۔

2 : حضرت عمر رضی ﷲ عنہ بخوبی جانتے تھے کہ ﷲ کا دین اور قرآن پاک کا نزول مکمل ہوچکا ہے کہ جس پر ’’الیوم اکملت لکم دینکم‘‘ شاہد ہے پس آپ نے گمان کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ حکم وحی الٰہی کی وجہ سے نہیں اور وجوب نہیں بلکہ بطور مشورہ ہے تو آپ نے بطور مصلحت اور مشورہ عرض کردیا کہ یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ تحریر قرطاس کی تکلیف نہ فرمائیں ۔ کتاب ﷲ کو ہمارے لئے کافی سمجھیں جس پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے موافقت ظاہر فرمائی اور تحریر قرطاس پر زور دینے والوں کو ڈانٹ دیا۔ چنانچہ بخاری شریف کتاب الجہاد والسیر ، باب ہل یستشفع الی اہل الذمۃ ومعاملتہم جلد 10 صفحہ 268 رقم الحدیث 2825 پر ہے : دعونی فالذی انا فیہ خیر مما تدعونی الیہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے اپنے کلام میں قرآن کو مسلمان کےلیے کافی ہونا کا بیان کیاہے تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا نہج البلاغہ جلد 3 صفحہ 57 پر ہے : وﷲ وﷲ فی القرآن ‘‘ نیز کتاب مذکور جلد 2 صفحہ 27 پر ہے ’’فاوصیک بالاعتصام بحبلہ‘‘ اور جلد 2 صفحہ 22 پر ہے ’’ومن اتخذ قولہ دلیلا ہدی‘‘ دیکھئے حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے بھی ہدایت کے لئے قرآن کو کافی قرار دیا۔ لہذا اگر حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے قول سے انکار بالسنۃ لازم نہیں آتا تو حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کے قول سے لازم کیوں آئے گا؟ اگر بربنائے نیتی و مصلحت مشورہ دینا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نافرمانی ہرگز نہیں ہے ۔


جنگ حدیبیہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا۔ اے علی اسے مٹایئے (لفظ ’’رسول ﷲ‘‘ کے بارے میں) توحضرت علی رضی ﷲ عنہ نے پیغمبر علیہ السلام کو صاف جواب دیا کہ میں اسے ہرگز نہیں مٹاٶں گا ۔ جب رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے وہ الفاظ اپنے ہاتھ مبارک سے مٹادیئے ۔ اگر اس واقعہ میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو نافرمان نہیں کہا جا سکتا تو حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو بھی نہ کہا جائے کیونکہ بربنائے مصلحت و حکمت حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حکم نبوی کی خلاف ورزی کی ہے تو حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو بھی کہا جا سکتا ہے ۔ لیکن ہم کہتے ہیں نہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے خلاف ورزی کی ہے ، نہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے بلکہ وہی ہوا جو رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم چاہتے تھے ۔


فضائل عمر از لسان حیدر رضی ﷲ عنہ : ⏬


شیعہ صاحبان خواہ مخواہ سیدنا عمر رضی ﷲ عنہ کی مخالفت کرتے ہیں ۔ جبکہ ان کی کتابوں میں مذکورہ ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کے مناقب بیان فرمائے ۔ جب خلیفہ ثانی عمر رضی ﷲ عنہ نے روم پر چڑھائی کی اور حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے مشورہ لیا تو آپ نے فرمایا کہ نواحی اسلام کو غلبہ دین سے بچانے اور مسلمانوں کی شرم رکھنے کا ﷲ ہی کفیل ہے۔ وہ ایسا خدا ہے جس نے انہیں اس وقت فتح دی جب ان کی تعداد نہایت قلیل تھی اور کسی طرح فتح نہیں پاسکتے تھے ۔ انہیں اس وقت مغلوب ہونے سے روک رہا ہے جب یہ کسی طرح روکے نہیں جاسکتے اور وہ خداوند عالم حی لایموت ہے ۔ اب اگر تو خود دشمن کی طرح کوچ کرے اور تکلیف اٹھائے تو پھر یہ سمجھ لے کہ مسلمانوں کو ان کے اقصائے بلائو تک پناہ نہ ملے گی اور تیرے بعد کوئی ایسا مرجع نہ ہوگا جس کی طرف وہ رجوع کریں لہذا تو دشمن کی طرف اس شخص کو بھیج جو کار آزمودہ ہو اس کے ماتحت ان لوگوں کو روا نہ کرو جو جنگ کی سختیوں کے متحمل ہوں اور اپنے سردار کی نصیحت کو قبول کریں۔ اب اگر خدا غلبہ نصیب کرے گا تب تو وہ چیز ہے جسے تو دوست رکھتا ہے اور اگر اس کے خلاف ظہور میں آیا تو ان لوگوں کا مددگار اور مسلمانوں کا مرجع تو موجود ہے ۔ (نیرنگ فصاحت صفحہ 19،چشتی)


ہم نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے عربی کلام کا ترجمہ شیعہ حضرات کی کتاب ’’نیرنگ فصاحت‘‘ سے لیا ہے تاکہ ان کو یہ عذر نہ ہو کہ ترجمہ میں دست اندازی کی گئی ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کے اس کلام سے حسب ذیل امور ثابت ہوئے ہیں : ⏬


1 : حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو حضرت علی رضی ﷲ عنہ پر پورا اعتماد تھا ۔ ہر معاملہ میں ان سے مشورہ لیا جاتا ورنہ یہ مُسلّم ہے کہ کوئی شخص اپنے دشمن سے اس طرح کا مشورہ ہرگز نہیں لیا کرتا ۔

2 : حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو مسلمانوں کا ملجا و ماوا سمجھتے تھے ۔ اسی وجہ سے آپ نے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو یہ مشورہ نہ دیا کہ اس مہم میں بذات خود معرکہ کارزار میں جائیں ۔ اگر خدانخواستہ باہمی کدورت ہوتی تو یہ مشورہ دیتے کہ آپ خود لڑائی میں جائیں تاکہ ان کا کام تمام ہو اور آپ کے لئے جگہ خالی ہو۔ اس بات سے ظاہر ہوا کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ ، حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کے صادق دوست تھے ۔

3 : حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کی کامیابی کو کامیابیٔ اسلام تصور کرتے تھے۔ اس لئے ان کو تسلی دی کہ ﷲ تعالیٰ تمہارااور مسلمانوں کا خود حامی و ناصر ہے ۔ جب مسلمان تھوڑے تھے اس وقت بھی ان کی حفاظت فرمائی اور اب تو بفضل خدا مسلمانوں کی تعداد کثیر ہے ۔ پھر اس کی تائید و نصرت پر کیوں نہ بھروسہ کیا جائے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کے کلام سے یار لوگوں کی اس من گھڑت بات کی بھی تردید ہوتی ہے کہ بعد از وصال رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صرف تین چار مسلمان ہی رہ گئے تھے۔ ایسا ہوتا تو آپ یوں فرماتے۔ پہلے مسلمانوں کی تعداد کثیر تھی ، اب گنتی کے چند آدمی رہ گئے ہیں ۔ ان کی اس مہم پر بھیجو تو فتح ہوگی ورنہ شکست ۔


حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضی ﷲ عنہم ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جسم مبارک کو چھوڑ کر خلافت کے چکر میں پڑگئے تھے جس سے تدفین میں تین دن تاخیر ہوئی ؟

جواب : جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصال ہوا تو نفاق نے سر اٹھایا ، عرب کے کچھ لوگ مرتد ہوگئے ۔ منکرین زکوٰۃ کا مسئلہ درپیش آگیا اور انصار نے بھی علیحدگی اختیار کرلی ۔ اتنی مشکلیں جمع ہوگئیں کہ اگر حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی جگہ پہاڑ پر بھی پڑتیں تو وہ بھی اس وزن کو برداشت نہ کرسکتا ۔ لیکن ﷲ اکبر ، حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ نے اپنی حکمت عملی سے ہر ایک مشکل کا مقابلہ کیا ۔ اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ جو صحابہ کرام علیہم الرضوان ایک لمحہ بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے جدا نہیں رہ سکتے تھے ۔ آج وہ غم سے نڈھال ہیں ۔ ان سب کو حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ نے حوصلہ دیا ۔ اسی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تدفین میں تاخیر ہوئی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جنازہ انور اگر قیامت تک کھلا رہتا تو اصلاً کوئی خلل واقع نہ ہوتا کیونکہ انبیاء کرام علیہم السلام کے اجسام طاہرہ بگڑتے نہیں ۔ قرآن گواہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام انتقال کے بعد کھڑے رہے ۔ سال بعد دفن ہوگئے مگر نورانیت میں فرق نہ آیا تو جو رسول ، حضرت سلیمان علیہ السلام کے بھی امام ہوں ، ان کا جسم مبارک کیسے بگڑ سکتا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جنازہ انور حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا کے حجرہ مبارک میں تھا ۔ جہاں اب مزار مبارک ہے ۔ اس سے باہر لے جانا نہ تھا ۔ چھوٹا سا حجرہ اور تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کو اس صلوٰۃ و سلام سے مشرف ہونا تھا ۔ ایک جماعت آتی اور درود وسلام پڑھتی اور باہر چلی جاتی ۔ پھر دوسری جماعت آتی یوں یہ سلسلہ تیسرے دن ختم ہوا ۔ اگر تین برس میں یہ سلسلہ ختم ہوتا تو جنازہ مبارک یوں ہی نور سے جگمگاتا رہتا ۔ اسی صلوٰۃ و سلام کی وجہ سے تاخیر ضروری تھی۔

اگر کسی بدباطن کے نزدیک یہ تاخیر لالچ کے سبب تھی تو سب سے بڑا الزام تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ پر ہے ۔ وہ تو لالچی نہ تھے اور کفن دفن کا کام تو ویسے ہی گھر والوں کے ذمے ہوتا ہے ۔ یہ کیوں تین دن بیٹھے رہے، یہ تدفین فرما دیتے ۔ معلوم ہوا کہ یہ الزام غلط ہے کیونکہ جنازہ انور کی تدفین میں تاخیر دینی مصلحت تھی۔ جس پر حضرت علی رضی ﷲ عنہ اور تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اتفاق تھا ۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان کی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جنازہ میں شرکت ۔ شیعہ حضرات الزام لگاتے ہیں کہ سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ اور دیگر صحابہ کرام علیہم الرضوان نے رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جنازہ میں شرکت نہیں کی جبکہ ان کی اپنی ہی کتاب ’’الاحتجاج طبرسی‘‘ میں ہے : لم یبق من المہاجرین والانصار الاّ صلی علیہ ۔  ترجمہ : مہاجرین اور انصار میں کوئی باقی نہ رہا جس نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جنازہ میں شرکت نہ کی ہو (الاحتجاج طبرسی، جلد اول صفحہ 106 سطر 7 - 6 مطبوعہ ایران)


محترم قارئینِ کرام : حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضی ﷲ عنہم مہاجرین میں سے تھے لہٰذا شیعہ حضرات کی کتاب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جنازے میں ان کی شرکت ثابت ہو گئی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...