Saturday 20 June 2020

صحابی کی تعریف اور عظمت و شانِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم

0 comments
صحابی کی تعریف اور عظمت و شانِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
محترم قارئینِ کرام : شرفِ صحابیت کا لحاظ لازم ہے خوب یاد رکھیئے صحابیت کا عظیم اعزاز کسی بھی عبادت و ریاضت سے حاصل نہیں ہوسکتا لہٰذا اگر ہمیں کسی مخصوص صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت کے بارے میں کوئی روایت نہ بھی ملے تب بھی بلاشک و شبہ وہ صحابی محترم و مکرم اورعظمت و فضیلت کے بلند مرتبے پر فائز ہیں کیونکہ کائنات میں مرتبۂ نبوت کے بعد سب سے افضل و اعلیٰ مقام و مرتبہ صحابی ہونا ہے اور اس شرفِ صحابیت میں اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں انہیں اس شرف سے الگ نہیں کیا جا سکتا ۔

صاحبِِ نبراس علّامہ عبدالعزیز پرہاروی چشتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یاد رہے نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابَۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کى تعداد سابقہ انبىائے کرام علیہم السّلام کى تعداد کے موافق ( کم و بىش) ایک لاکھ چوبىس ہزار ہے مگر جن کے فضائل مىں احادىث موجود ہىں وہ چند حضرات ہىں اور باقى صحابَۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کى فضىلت مىں نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا صحابی ہونا ہی کافی ہے کیونکہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبتِ مبارکہ کی فضیلت عظیمہ کے بارے میں قراٰنِ مجید کی آیات اوراحادیثِ مبارکہ ناطِق ہیں ، پس اگر کسى صحابى کے فضائل مىں احادىث نہ بھی ہوں ىا کم ہوں تو ىہ ان کى فضىلت و عظمت مىں کمى کى دلىل نہىں ہے ۔ (الناھیۃ صفحہ نمبر 38)

امام بخاری رحمہ اﷲ صحابی کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں : وَمَنْ صَحِبَ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم أَوْ رَآهُ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَهُوَ مِنْ أَصْحَابِهِ ۔
ترجمہ : مسلمانوں میں سے جس نے بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا فقط آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہو، وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابی ہے۔ (بخاري، الصحیح، کتاب المناقب، باب فضائل أصحاب النبی صلی الله علیه وآله وسلم ، 3: 1335، دار ابن کثیر الیمامة، بیروت)

حضرت خطیب بغدادی اور ابنِ جماعہ علیہما الرّحمہ نے امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے صحابی کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے : کُلُّ مَنْ صَحِبَهُ سَنَةً أَوْ شَهْرًا أَوْ یَوْمًا أَوْ سَاعَةً أَوْ رَآهُ، فَهُوَ مِنْ أَصْحَابِهِ، لَهُ مِنَ الصُّحْبَةُ عَلَی قَدْرِ مَا صَحِبَهُ ۔
ترجمہ : ہر وہ شخص جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو‘ ایک سال یا ایک مہینہ یا ایک دن یا ایک گھڑی یا اُس نے (فقط حالتِ ایمان میں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہو وہ صحابی ہے۔ اسے اسی قدر شرفِ صحابیت حاصل ہے جس قدر اس نے صحبت اختیار کی ۔ (خطیب بغدادی، الکفایة في علم الروایة، 1: 51، مدینه منوره، سعودی عرب: المکتبة العلمیة،چشتی)(ابن جماعة، المنهل الروی، 1: 111 دمشق شام دار الفکر)

حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ ﷲ علیہ نے صحابی کی درج ذیل تعریف کی ہے جو بہت جامع ومانع اور اہل علم کے ہاں مقبول اور راجح ہے : وَهُوَ مَنْ لَقِيَ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم مُؤمِناً بِهِ، وَمَاتَ عَلَی الْإِسْلَامِ، وَلَوْ تَخَلَّتْ رِدَّةٌ فِي الْأَصَحَّ ۔
ترجمہ : صحابی وہ ہے جس نے حالتِ ایمان میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور وہ اسلام پر ہی فوت ہوا ہو اگرچہ درمیان میں مرتد ہو گیا تھا (مگر وفات سے پہلے مسلمان ہو گیا) ۔
حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ ﷲ علیہ تعریف کی وضاحت میں لکھتے ہیں : وَالْمُرَادُ بِاللِّقَاءِ: مَا هُوَ أَعمُّ: مِنَ الْمُجَالَسَةِ، وَالْمُمَاشَاةِ، وَ وَصُولِ أَحَدِهِمَا إِلَی الآخَرِ، وَإِنْ لَمْ یُکَالِمْهُ، وَیَدْخُلُ فِیهِ رُؤیَةُ أَحَدِهِمَا الآخَرَ، سَوَاءٌ کَانَ ذَلِکَ بِنَفْسِهِ أَو بِغَیْرِهِ ۔
ترجمہ : لقاء سے مراد (ایسی ملاقات) ہے جو باہم بیٹھنے ، چلنے پھرنے اور دونوں میں سے ایک کے دوسرے تک پہنچنے اگرچہ اس سے مکالمہ بھی نہ کیا ہو، یہ مجلس اس لحاظ سے عام ہے (جس میں صرف کسی مسلمان کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچنا ہی کافی ہے) اور لقاء میں ہی ایک دوسرے کو بنفسہ یا بغیرہ دیکھنا داخل ہے ۔ (عسقلاني، نزهَة النظر بشرح نخبة الفکر: 64، قاہرة ، مصر: مکتبة التراث الاسلامي،چشتی)

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا جس نے حالت ایمان میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور اس کا خاتمہ بالایمان ہوا تو وہ صحابی کہلاتا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد کسی بھی شخص کو حالتِ منام یا بیداری کی حالت میں آپ کے جسمِ حقیقی کی زیارت نہیں ہوئی۔ جس کو بھی خواب یا بیداری میں زیارت ہوئی ہے اس نے آپ کا جسمِ مثالی دیکھا ہے، جسمِ حقیقی نہیں ۔ اس لیے صحابیت کا شرف صرف ان خوش نصیبوں کو ہی حاصل ہے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں آپ کی زیارت اور آپ سے ملاقات کی ہے ۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ - وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا٘ - سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ - ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰةِ - وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ ﱠ كَزَرْعٍ اَخْرَ جَ شَطْـــهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِه یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ - وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۠ ۔ (سورۃُ الفتح آیت نمبر 29)
ترجمہ : محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں ا ور آپس میں نرم دل تو انہیں دیکھے گا رکوع کرتے سجدے میں گرتے اللہ کا فضل و رضا چاہتے ان کی علامت اُن کے چہروں میں ہے سجدوں کے نشان سے یہ ان کی صفت توریت میں ہے اور ان کی صفت انجیل میں جیسے ایک کھیتی اس نے اپنا پٹھا نکالا پھر اُسے طاقت دی پھر دبیز ہوئی پھر اپنی ساق پر سیدھی کھڑی ہوئی کسانوں کو بھلی لگتی ہے تاکہ اُن سے کافروں کے دل جلیں اللہ نے وعدہ کیا ان سے جو ان میں ایمان اور اچھے کاموں والے ہیں بخشش اور بڑے ثواب کا ۔

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے تاجدار گولڑہ شریف حضرت پیرسیّد مہر علی شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : آیت مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ وَ الَّذِیْنَ مَعَه اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ (سورۃُ الفتح آیت نمبر 29) ترجم : مُحَمَّد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں ۔ میں اللہ تعالٰی کی طرف سے خلفائے اربعہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی ترتیب خلافت کی طرف واضح اشارہ ہے ۔ چنانچہ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ سے خلیفۂ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ مراد ہیں ، اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارسے خلیفۂ ثانی حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ، رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ سے خلیفۂ ثالث حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ، اور تَرَاھُمْ رُکَّعاً سُجَّداً ، اِلَخ سے خلیفہ رابع حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے صفات مخصوصہ کی طرف اشارہ ہے کیونکہ معیت اور صحبت میں حضرت سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ، کفار پر شدت میں حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ، حلم وکرم میں حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور عبادت واخلاص میں حضرت سیدنا مولائے علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُخصوصی شان رکھتے تھے۔(مِھر منیر، صفحہ نمبر 424 ، 425 ، اللباب فی علوم الکتاب، الفتح:۲۹، ج۱۷، ص۵۱۷،چشتی)

مفسرین کرام علیہم الرّحمہ فرماتے ہیں : کہ یہ اسلام کی ابتداء اور اس کی ترقی کی مثال بیان فرمائی گئی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تنہا اُٹھے ، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپ کے مخلص اَصحاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے تَقْوِیَت دی ۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اَصحاب کی مثال انجیل میں یہ لکھی ہے کہ ایک قوم کھیتی کی طرح پیدا ہوگی ، اس کے لوگ نیکیوں کا حکم کریں گے اور بدیوں سے منع کریں گے ۔ ایک قول یہ ہے کہ کھیتی سے مراد حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں اور اس کی شاخوں سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور (ان کے علاوہ) دیگر مومنین ہیں ۔ (تفسیرکبیر ، الفتح ، تحت الآیۃ : ۲۹ ، ۱۰/۸۹،چشتی)(تفسیر خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴/۱۶۲)(تفسیر مدارک ، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۱۱۴۸)

حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : صحابہ کرام (رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ) کو کھیتی سے اس لئے تشبیہ دی کہ جیسے کھیتی پر زندگی کا دار و مدار ہے ایسے ہی ان پر مسلمانوں کی ایمانی زندگی کا مدار ہے اور جیسے کھیتی کی ہمیشہ نگرانی کی جاتی ہے ایسے ہی اللہ تعالیٰ ہمیشہ صحابہ کرام (رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ) کی نگرانی فرماتا رہتا رہے گا ، نیز جیسے کھیتی اولاً کمزور ہوتی ہے پھر طاقت پکڑتی ہے ایسے ہی صحابہ کرام (رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ) اولاً بہت کمزورمعلوم ہوتے تھے پھر طاقتور ہوئے ۔ ( نور العرفان، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۸۲۲،چشتی)

آیت کے اس حصے سے معلوم ہوا کہ جس طرح توریت اور انجیل میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نعت شریف مذکور تھی ایسے ہی نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے مَناقِب بھی تھے ۔ اہل سنت و جماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ انبیاء و رسل بشر و رسل ملائکہ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ، ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق ، ان کے بعدحضرت سیدنا عثمان غنی ، ان کے بعد حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا ، ان کے بعد عَشَرَۂ مُبَشَّرہ کے بقیہ صحابۂ کرام ، ان کے بعد باقی اہل بدر ، ان کے بعد باقی اہل اُحد ، ان کے بعد باقی اہل بیعت رضوان، پھر تمام صحابۂ کرام رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن ۔

نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : لَا تَسُبُّوا اَصْحَابِي فَلَوْ اَنَّ اَحَدَكُمْ اَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ اَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ ۔
ترجمہ : میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی اُحُد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرے تو میرے صحابہ میں سے کسی ایک کے نہ مُد کو پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی مُد کے آدھے کو ۔ (بخاری شریف جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 522 حدیث نمبر 3673)

مختصر شرح حدیث : شریعت میں صحابی وہ انسان ہے جو ایمان کی حالت میں نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور ایمان پر ہی اس کا خاتمہ ہوا ۔ (اشعۃ اللمعات جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 641)

قراٰن و حدیث اور تمام شرعی احکام ہم تک پہنچنے کا واحد ذریعہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی درس گاہ کے صادق و امین اور متقی و پرہیز گار صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ، اگر مَعَاذَاللہ ان ہی سے امانت و دیانت اور شرافت و بزرگی کی نفی کر دی جائے تو سارے کا سارا دین بے اعتبار ہو کر رہ جائے گا ، اس لئے اس حدیثِ پاک میں نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے صحابہ کی عظمت کو یوں بیان فرمایا کہ ان کی برائی کرنے سے منع فرمایا اور ان کے صدقہ و خیرا ت کی اللہ پاک کی بارگاہ میں مقبولیت کو بھی ذکر فرمایا : لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي حدیثِ پاک کے اس حصّے کے تحت فقیہ و محدّث علّامہ ابن الملک رومی حنفی علیہ رحمۃ اللہ علیہ (وفات:854ھجری) فرماتے ہیں : اس میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو بُرا کہنے سے منع کیا گیا ہے ، جمہور (یعنی اکثر علما) فرماتے ہیں جو کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو بھی بُرا کہے اسے تعزیراً سزا دی جائے گی ۔ (شرح مصابیح السنۃ جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 395 تحت الحدیث 4699،چشتی)

فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ : شارحین نے اگرچہ اس کی مختلف وجوہات بیان فرمائی ہیں لیکن شارحِ بخاری امام احمد بن اسماعیل کورانی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:893ھجری) فرماتے ہیں : سیاقِ کلام سے پتا چلتا ہے کہ صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ مقام نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت کے شرف کی وجہ سے ملا ہے ۔ (الکوثر الجاری ،ج6،ص442، ،تحت الحدیث:3673)

شارحِ حديث حضر ت علامہ مُظہرالدین حسین زیدانی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:727ھ) اسی حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت محض ”رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت“ اور ”وحی کا زمانہ پانے“ کی وجہ سے تھی ، اگر ہم میں سے کوئی ہزار سال عُمر پائے اور تمام عُمر اللّٰہ پاک کے عطا کردہ احکام کی بَجا آوری کرے اور منع کردہ چیزوں سے بچے بلکہ اپنے وقت کاسب سے بڑا عابد بن جائے تب بھی اس کی عبادت نبی کریم کرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت کے ایک لمحہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتی ۔ (المفاتیح فی شرح المصابیح ،ج6،ص286 ،تحت الحدیث:4699)

حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یعنی میرا صحابی قریبًا سوا سیر جَو خیرات کرے اور ان کے علاوہ کوئی مسلمان خواہ غوث و قطب ہو یا عام مسلمان پہاڑ بھر سونا خیرات کرے تو اس کا سونا قربِِ الٰہی اور قبولیت میں صحابی کے سوا سیر کو نہیں پہنچ سکتا ، یہ ہی حال روزہ ، نماز اور ساری عبادات کا ہے ۔ جب مسجد ِنبوی کی نماز دوسری جگہ کی نمازوں سے پچاس ہزار گُناہے تو جنہوں نے نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا قُرب اور دیدار پایا ان کا کیا پوچھنا اور ان کی عبادات کا کیا کہنا یہاں قربِِ الٰہی کا ذکر ہے ۔ مفتی صاحب مزید فرماتے ہیں : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذکر ہمیشہ خیر سے ہی کرنا چاہئے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کو ہلکے لفظ سے یاد نہ کرو ۔ یہ حضرات وہ ہیں جنہیں رب نے اپنے محبوب کی صحبت کے لئے چُنا ، مہربان باپ اپنے بیٹے کو بُروں کی صحبت میں نہیں رہنے دیتا تو مہربان رَبّ نے اپنے نبی کو بُروں کی صحبت میں رہنا کیسے پسند فرمایا ؟ (مراٰۃ المناجیح،ج8،ص335،چشتی)

سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کا انعام

حضرت عبدالرحمٰن بن زید رحمۃ اللہ علیہ کے والد فرماتے ہیں : میں چالیس ایسے تابعینِ عظام کو ملا جوسب ہمیں صحابَۂ کرام سے یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو میرے تمام صحابہ سے محبت کرے ، ان کی مدد کرے اور ان کے لئے اِسْتغفار کرے تو اللہ پاک اُسے قیامت کے دن جنّت میں میرے صحابہ کی مَعِیَّت (یعنی ہمراہی) نصیب فرمائے گا ۔ (شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ،ج2،ص1063، حدیث:2337)

شرفِ صحابیت کا لحاظ لازم ہے

صحابیت کا عظیم اعزاز کسی بھی عبادت و ریاضت سے حاصل نہیں ہوسکتا لہٰذا اگر ہمیں کسی مخصوص صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت کے بارے میں کوئی روایت نہ بھی ملے تب بھی بلاشک و شبہ وہ صحابی محترم و مکرم اور عظمت و فضیلت کے بلند مرتبے پر فائز ہیں کیونکہ کائنات میں مرتبۂ نبوت کے بعد سب سے افضل و اعلیٰ مقام و مرتبہ صحابی ہونا ہے ۔ صاحبِِ نبراس علّامہ عبدالعزیز پرہاروی چشتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یاد رہے نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کى تعداد سابقہ انبىائے کرام علیہم السّلام کى تعداد کے موافق ( کم و بىش) ایک لاکھ چوبىس ہزار ہے مگر جن کے فضائل مىں احادىث موجود ہىں وہ چند حضرات ہىں اور باقى صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کى فضىلت مىں نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا صحابی ہونا ہی کافی ہے کیونکہ پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبتِ مبارکہ کی فضیلت عظیمہ کے بارے میں قراٰنِ مجید کی آیات اوراحادیثِ مبارکہ ناطِق ہیں ، پس اگر کسى صحابى کے فضائل مىں احادىث نہ بھی ہوں یا کم ہوں تو ىہ ان کى فضىلت و عظمت مىں کمى کى دلىل نہىں ہے ۔ (الناھیۃ صفحہ نمبر 38)

سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عادل ہیں

صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت کیلئے یہ ایک ہی آیت کافی ہے : وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ - رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (۱۰۰) ۔
ترجمہ : اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لئے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے ۔ (پارہ نمبر 11 سورۃُ التوبۃ آیت نمبر 100)

علّامہ ابوحَیّان محمد بن یوسف اندلسی علیہ رحمۃ اللہ علیہ (وفات:745ہجری) فرماتے ہیں : وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ سے مراد تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔ (تفسیرالبحر المحیط،ج 5،ص96، تحت الآیۃ المذکورۃ)

محترم قارئینِ کرام : یاد رہے سارے صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم عادل ہیں ، جنتی ہیں ان میں کوئی گناہ گار اور فاسق نہیں ۔ جو بدبخت کسی تاریخی واقعہ یا روایت کی وجہ سے صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کو فاسق ثابت کرے ، وہ مَردُود ہے کہ اس آیت کے خلاف ہے ۔ ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ درج ذیل حدیثِ پاک کو دل کی نظر سے پڑھ کر عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرے ، چنانچہ حضرت عبدُ اللہ بن مُغَفَّل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ (رضی اللہ تعالٰی عنہم) کے بارے میں اللہ سے ڈرو ، اللہ سے ڈرو ۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو ا س نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بُغض رکھا تو اس نے میرے بُغض کی وجہ سے ان سے بُغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ پاک کو ایذا دی اور جس نے اللہ پاک کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرما لے ۔ (جامع ترمذی جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 463 حدیث نمبر 3888) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔