شریعت کی پابندی بزرگانِ دین کا طرۂ امتیاز اورآج کل کے ڈھونگی پیر
محترم قارئینِ کرام : شریعت کے بغیر معرفت نہیں ہو سکتی ۔ اور بغیر شریعت کے معرفت کا دعوی کرنے والا شخص جھوٹا ہوتا ہے ۔ کوئی بھی کامل ولی، صوفی بزرگ تارک نماز نہیں ہو سکتا۔ جو تارک نماز ہو یا شریعت پر عمل پیرا نہ ہو یا ارکان اسلام پر عمل پیرا نہ ہو تو وہ شخص ولی اور صوفی نہیں ہو سکتا۔ایسا شخص جھوٹا ہے اور لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ اور اگر کوئی شریعت کی مخالفت کر رہا ہے تو وہ شیطان ہے۔ ولی اور صوفی اور بزرگ یعنی ولایت اور تصوف کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ انہیں نماز پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں، وہ گناہوں سے پاک ہیں نہ اسلام کے بنیادی اراکین پر پابندی کی کوئی ضرورت نہیں، تو ایسے لوگ شیطان کے دوست ہیں۔ شیطان کی پیروی اور اتباع کرنے والے ہیں۔ اللہ کے ولی نہیں ہو سکتے ۔
اسلام کے اندر کوئی بھی ایسا شخص نہیں کہ وہ اس مقام پر فائز ہو کہ اس پر نماز پڑھنا فرض نہ ہو یا شریعت پر عمل کرنا فرض نہ ہو ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو نماز معاف نہیں ہوئی تو پھر کسی امتی پر نماز کیسے معاف ہو سکتی ہے۔ ایسا کہنے والے کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ اسلام اور تصوف کو بدنام کرنے والے ہیں۔ شیطان کے دوست ہیں۔ اولیاء کرام اور صوفیاء کرام کے اوصاف اور خصوصیات قرآن وحدیث سے ثابت ہیں جو ہر وقت یاد الہی میں مصروف رہتے ہیں ۔
شریعت کے بغیر طریقت کی راہ پر ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتے اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ دین میں ملحد و زندیق ہیں اور ایسا عقیدہ رکھنے والا کوئی جھوٹا مبلغ ، صوفی یا جعلی پیر جو لوگوں کو دعوت کے اس اصول پر بلاتا ہے وہ خود بھی جہنمی ہے اور دوسروں کو بھی جہنم میں لے جا رہا ہے ۔ ایسے آدمی کی صحبت سے بچنا چاہیے کیونکہ شریعت اور اسلام میں کسی شخص کے لئے کوئی استثنیٰ اور چھوٹ نہیں علمِ باطن وہی قابلِ قبول ہے جو شرعی علم ظاہر کا پابند ہو۔ ظاہر و باطن لازم و ملزوم ہیں مثلاً جب کوئی چوری کرتا ہے تو وہ گناہ ایک سیاہ نقطے کی طرح اس کے قلب پر لگ جاتا ہے اور اس کا جو نقش انسان کے دل اور روح پر ثبت ہوتا ہے اور جو کيفیات اس کے اندر مرتب ہوتی ہیں اسے باطن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس سے پتا چلا کہ باطن ظاہر سے نکلا ہے ۔ اسی طرح جب ہم نماز پڑھتے ہیں ، روزہ رکھتے ہیں ، قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں ، حج اور عمرہ ادا کرتے ہیں ۔ الغرض جو بھی نیک عمل کرتے ہیں اس کا اثر قلب و روح پر ہوتا ہے اور اس کا عمل ایک نور بن جاتا ہے ۔ جس سے اس کا دل منور ہو جاتا ہے ۔ یہی اس عمل کا باطن ہے ، اس سے ظاہر اور باطن کے تعلق کا پتا چلتا ہے اگرظاہر ہی نہ ہو تو باطن کہاں سے آئے گا ۔
اس نکتے کو پھلوں کی مثال سے بھی سمجھا جا سکتا ہے ۔ مثلاً کیلے کے اوپر چھلکا ہوتا ہے وہ اس پھل کا ظاہر ہے ۔ اب اگر کوئی کہے کہ میں تو ظاہر کو مانتا ہی نہیں اور چھلکے کے بغیر کیلے خریدوں گا تو اس کا پھل جلد ضائع اور خراب ہوجائے گا کیونکہ اب اس پھل پر ظاہر کی حفاظت کا خول نہیں رہا ۔ لہٰذا جس باطن پر ظاہر کی حفاظت نہ رہے وہ خراب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جو شریعت کے ظاہری احکام و امور کی اتباع سے ہٹ گیا تو یوں سمجھئے کہ اس کا باطن بگاڑ کا شکار ہو گیا ۔ جب تک کوئی راہِ تصوف و طریقت میں ظاہر یعنی شریعت کا ظاہری اتباع پوری پابندی سے ملحوظ نہ رکھے اس وقت تک اس کا باطن پاک و صاف اور نورانی ہو ہی نہیں سکتا ۔
شریعت کی پابندی بزرگانِ دین کا طرۂ امتیاز اورآج کل کے ڈھونگی پیروں کو دیکھیئے
ﷲ رب العزت سورئہ عنکبوت کی آخری آیت میں ارشاد فرماتا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے ’’اور وہ لوگ جو ہمارا راستہ پانے کیلئے جد و جہد کرتے ہیں ہم ضرور بہ ضرور انہیں ہدایت کا راستہ بتلاتے ہیں ۔ اور بیشک ﷲ سبحانہ وتعالیٰ اچھے لوگوں کے ساتھ ہے‘‘ ۔ اس آیت پاک میں وضاحت کے ساتھ بتلایا جارہا ہے کہ جو بھی راہِ ہدایت کو پانے کی جستجو کرے گا تو ﷲ تعالیٰ اس کو وہ عطا فرمائے گا ۔ اب کون ہیں وہ جو راہِ ہدایت کو حاصل کرسکیں گے تو وہ ہیں اولیاء آﷲ یعنی ﷲ تعالیٰ کے دوست ۔
بخاری و مسلم شریف میں حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ارشاد فرماتے ہیں کہ آﷲ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ندا (آواز) دیتا ہے اور فرماتا ہے ائے جبریل میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو ، جب حضرت جبریل علیہ السلام اس بندہ سے محبت کرتے ہیں تو آسمان والوں کو حضرت جبریل علیہ السلام ندا (آواز) دیتے اور فرماتے کہ ائے آسمان والو : ﷲ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو، جب آسمان والے اس بندے سے محبت کرتے ہیں تو ﷲ تعالیٰ زمین پر رہنے والوں کے دلوں میں اس کے تعلق سے محبت پیدا کردیتا ہے ۔ (متفق علیہ،چشتی)
ولی کے معنی دوست کے آتے ہیں۔ ولی کی پہچان یہ بتلائی گئی ہے کہ ’’ﷲ اور رسول کی پوری اتباع (پیروی) کرنے سے انسان درجہ ولایت کو پہنچتاہے‘‘۔ بعض حضرات ولی کی تعریف میں یہ صراحت کئے ہیں ’’معرفت الٰہی سے آراستہ ہونا ، ہمیشہ عبادت گزار رہنا، لذتوں اور خواہشوں کو ترک کرنا وغیرہ جو پوری اتباع میں یہ سب امور داخل ہیں۔ (نصاب اہل خدمات شرعیہ) ولایت یہ کسبی ہے یعنی محنت سے حاصل کی جانے والی چیز ہے ۔ اور اس کا سلسلہ تاقیامت جاری وساری رہیگا۔ جس شخص کا اوڑھنا بچھونا تقویٰ و طہارت کے مطابق جتنا ہوگا اتنا ہی وہ ولایت کے درجے پر پہنچے گا ۔
ولی سے بھی ایسی خلاف عادت (عجیب وغریب) باتیں ظاہر ہوسکتی ہیں جن میں عقل حیران ہو اس کو کرامت کہتے ہیں ۔
ولایت کے لئے کرامت کا ظاہر ہونا شرط نہیں، البتہ شریعت کا پابند ہونا شرط ہے۔
اولیاء ﷲ سے محبت رکھنا چاہئے اور ان کے افعال حسنہ کی پیروی کرنی چاہئے ۔
انبیاء عظام علیہم السّلام اور اولیاء ﷲ کو وسیلہ ٹہرا کر بارگاہ الٰہی میں التجا کرنا اور دعا مانگنا جائزہے ۔
ہندوستان میں بے حساب بزرگانِ دین آئے ہیں اور تبلیغ دین کو اختیار کئے ہیں جس کے ذریعہ اکثر و بیشتر لوگ راہِ راست کو اختیار کئے ہیں اور وہ بھی کامیابی اور سرفرازی حاصل کئے ہیں ۔ جن میں سے ایک بہت ہی بڑے بزرگ جن کو ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں رہنے والے سلطان الہند خواجہ خواجگان حضرت سیدنا معین الدین چشتی رحمۃ ﷲ علیہ کے نام سے جانتی ہے ۔ آپ کی شخصیت انتہائی برکت اور عظمت والی ہے ، ولایت کے جتنے اوصاف وکمالات بتلائے گئے ہیں وہ تمام کے تمام حضرت سلطان الہند کی حیات میں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کے قلوب کوروشن و منور کرتے ہوئے ان کی زندگیوں میں بڑی تبدیلی اور انقلاب لائے ہیں ۔ یقیناً یہ ایک ایسا کارنامہ ہیں جس کو لوگ قیامت تک یاد رکھیں گے ۔
آپ کی حیات مبارکہ کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب آپ دہلی سے اجمیر تک کا سفر طے کئے تو اس دوران تقریباً ایک لاکھ سے زائد لوگ مذہب اسلام میں داخل ہوگئے سبحان ﷲ اس کو کہتے ہیں کرامت کیونکہ ہماری عقل اس کو آسانی سے مان نہیں سکتی ہے ۔ اب یہ کونسا طریقہ تھا کہ لوگ جوق در جوق داخل اسلام ہوتے گئے ۔ بس اس کا آسان سا جواب یہی ہے کہ حضرت سلطان الہند نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ایک ایک سنت کو اختیار کیا اور اسی پر عمل کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی بسر کی ۔ یعنی اخلاق ، کردار ، نرم گفتگو ، اور ہر وقت اچھے اعمال کو اختیار کرنا اور برے اعمال سے پرہیز کرنایہ سب چیزیں آپ کے اندر موجودتھیں ۔
حضرت سلطان الہند رحمۃ اللہ علیہ بزرگانِ دین کی مجلسوں کے میر مجلس ہوتے ہیں ۔ یعنی آپ کو یہ جو مقام ملاہے اس کی وجہ یہی ہے کہ آپ ہمیشہ ﷲ تعالیٰ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اطاعت و فرمابرداری کو اپنے اوپر لازم کرلیا تھا ۔ اور تمام مریدین و معتقدین کو بھی یہ درس دیتے کہ وہ بھی اسی طریقہ سے زندگی گزراتے رہیں تاکہ دنیا اور آخرت میں کامیابی و سرفرازی حاصل ہوجائے ۔
سرفرازی اور چاہت کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ صرف زبان سے اس کا اظہار کریں بلکہ حقیقی چاہت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کے نقشِ قدم پر چلتے رہیں ۔ اگر ایسا ہو تو چاہت کا حق ادا ہوگا ۔ ورنہ نہیں ہوگا ۔ ہماری عبادتیں ، ریاضتیں ، گفتگو ، اٹھنا ، بیٹھنا ، ملاقات کرنا ، غصہ کو پی جانا اور اطاعت خدا ورسول کے مطابق ہوجائے تو ہی کامیابی حاصل ہوگی ورنہ صرف کہنے سے نہ محبت پیدا ہوتی ہے اور نہ ہمارے مال میں ، رزق میں برکت ہوتی ہے ۔ یہی درس ہمیں سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ ﷲ نے دیا ہے ۔
خلیلِ ملّت حضرت مفتی خلیل احمد خان قادری برکاتی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : جب تک عقل سلامت ہے کوئی وَلی کیسے ہی بڑے مرتبے کا ہو اَحکامِ شریعت کی پابندی سے ہر گزآزاد نہیں ہو سکتا اور جو اپنے آپ کو شریعت سے آزاد سمجھے وہ ہر گز وَلی نہیں ہوسکتا ۔ جو ا س کے خلاف عقیدہ رکھے (شریعت سے آزاد شخص کو وَلی سمجھے) وہ گمراہ ہے ۔ہاں !اگرآدمی مجذوب ہو جائے اور اس کی عقل زائل ہو جائے تو اس سے شریعت کا قلم اٹھ جاتا ہے ، مگر یہ بھی خوب سمجھ لیجئے کہ جو ایسا ہو گا وہ شریعت کا مقابلہ کبھی نہ کرے گا ۔ (ہمارااسلام اولیاء اللہ رحمہم اللہ ،حصہ سوم صفحہ نمبر 118،چشتی)
پیروں کی جائیدادیں اور تعلقات
سینکڑوں ہزاروں مربع زمینیں ، وسیع و عریض کاروبار ، کروڑوں اربوں کے بینک بیلنس، مہنگی ترین گاڑیاں، مہنگے ترین علاقوں میں محلات اور کوٹھیاں ، فائیو سٹارز ہوٹلوں کے کھانے اور رہائشیں شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ ، سیاست کی آنیاں جانیاں ، اعلیٰ سطح کے حکومتی وغیر حکومتی تعلقات ، امیر ترین خانوادوں اور خاندانوں میں رشتے، ایسی سہولیات و تعیشات کہ بڑے بڑے وزیر بھی دیکھ کر رشک سے مر جائیں۔ کسی بھی حکومت کو ان سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا ۔
ہر آنے والی نئی حکومت خفیہ وعلانیۃ ان کی آشیر باد حاصل کرتی ہے ۔ انہیں مختلف عہدوں سے نوازا جاتا ہے ، وزارتیں پیش کی جاتی ہیں ، کانفرنسوں میں مہمان خصوصی بنایا جاتا ہے ، غیر ملکی دورے کروائے جاتے ہیں، بیش بہا تحائف دیئے جاتے ہیں، بوقت ضرورت خزانوں کے منہ ان کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی زبان پر یہی وظیفہ ہوتا ہے، نرخ بالا کن ارزانی ہنوز، ان کا پیٹ یہی صدائیں دیتا ہے شکم فقیراں تغار خدا ہر چہ آید فنا درفنا۔ ان کا سمندر سے بھی زیادہ ڈونگا دل پکار پکار کر یہی کہتا ہے هل من مزيد ، هل من مزيد ۔
حضرت صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : آج کل بہت سے لوگوں نے پیری مریدی کو پیشہ بنا لیا ہے ، سالانہ مریدوں میں دورے کرتے ہیں اور طرح طرح سے رقمیں کھسوٹتے ہیں جن کو نذرانہ وغیرہ ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے۔ بہت سے پیر ایسے بھی ہیں جو اس کے لئے جھوٹ اور فریب سے کام لیتے ہیں یہ (سب) ناجائز ہے ۔ (بہار شریعت جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 670 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور،چشتی)
علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : بعض پیر کمانے کی طاقت رکھتے ہیں مگر وہ سارا دن اپنے آستانوں پر لوگوں سے خیرات وصول کرتے رہتے ہیں۔ ان کا دھیان ہر وقت اس طرف لگا رہتا ہے کہ کوئی عقیدت مند بھی آئے گا اور نذرانہ پیش کرے گا۔ حالانکہ شریعت کا واضح مسئلہ ہے کہ غنی اور قوی شخص کے لئے خیرات لینا جائز نہیں (کہ یہ بھیک ہے) ۔ (تلبیس ابلیس مترجم اردو صفحہ نمبر 331 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور)
بہر حال پیری مریدی ایک خالصتاً نفع بخش کاروبار اور بہترین ذریعہ روزگار ہے ۔ اس میں خسارے کا سودا بالکل نہیں ہے ۔ کوئی بھی شخص پیر بن کے بیٹھ جائے اس کی جھگی کا خرچہ بغیر کسی محنت کے بیٹھے بٹھائے چلتا رہتا ہے بلکہ مزید آسامیاں پھنسانے کے لئے لنگر کے پیسے بھی وافر مقدار میں ملتے رہتے ہیں ۔ اسی لئے اقبال نے کہا تھا : نذرانہ نہیں سود ہے پیران حرم کا ۔
اگر آپ درس و تدریس سے وابستہ ہیں تو جن شاگردوں کو آپ دس دس سال پڑھائیں گے اگر وہ کسی کے مرید ہوگئے تو آپ سے حاصل کی ہوئی ساری تعلیم کے متعلق برملا کہتے پھریں گے کہ یہ سب کچھ میرے پیر کے جوتوں کا صدقہ ہے ۔ آپ کے پاس بھول کر بھی نہیں آئیں گے مگر پیر کے در پر آئے روز کی حاضریاں لگوائیں گے ۔ آپ کی دعا میں کوئی اثر نہ پائیں گے مگر پیر کی دعا ایک دم اکسیر ہو گی ۔ نذرانے پیش کریں گے تو پیر کی خدمت میں ، آپ سے الٹا کچھ کھا پی کے جائیں گے ۔ دعوت کریں گے تو آپ کو مفت بلانا بھی پسند نہیں کریں گے مگر پیر کو سپیشل پروٹوکول کے ساتھ بلائیں گے ۔ اگر آپ اور پیر صاحب کبھی اکٹھے ہو گئے تو پہلے پیر کے قدموں کو چومیں گے پھر آپ سے ہاتھ ملائیں گے ۔ جس پیر نے ساری عمر سوائے حاضریوں کے کچھ نہیں دیا اور ہزاروں روپے سمیٹتا رہا ہے اس کو بہترین نشست پہ بٹھائیں گے اور آپ جو کہ ساری عمر مغز ماری کرتے رہے ہیں اور تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزار کر ایک مقام پہ لاکھڑا کیا ان کو پیر صاحب کے قدموں میں بٹھائیں گے ۔ سٹیج پر پیر صاحب کے لئے خاص انتظام کیا جائے گا اور آپ کو صرف بیٹھنے کی جگہ مل جائے تو بھی غنیمت ہے ۔ پیر کا کتا کہلانے میں بھی فخر محسوس کریں گے اور آپ کا شاگرد کہلانے میں بھی عار محسوس کریں گے ۔ یہ سب تو وفادار شاگرد کی پھرتیاں تھیں اور اگر خدانخواستہ آپ کا شاگرد غدار نکلا تو پھر ؟ لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ پیری مریدی کا پیشہ اختیار کریں اپنوں غیروں سب کی آنکھوں کا تارا بن جائیں گے ۔ بڑے بڑے وزیر و مشیر اور دولت مند آپ کے قدموں میں بیٹھیں گے ۔
آج جو کچھ ان نام نہاد کاروباری پیروں اور نعت خوانوں کے پاس ہے سارا کا سارا سادہ لوح عوام اہل سنت کا ہے ۔ یہ سب کچھ ان لوگوں کے ذاتی استعمال میں ہے ، دین کو اس کا ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں ہے ۔ جو کچھ انہیں دیا گیا تھا وہ عقائدِ صحیحہ کے فروغ ، دین کی سربلندی اور علم و عمل کی ترقی کی نیت سے دیا گیا تھا مگر اب جبکہ یہ آشکارا ہو چکا ہے کہ یہ لوگ دین کی خدمت کی بجائے شکم پروری کا کام کر رہے ہیں تو پھر علماء حق کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان ’’مقدس‘‘ کاروباریوں کا مکمل احتساب کریں ۔ یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ ان لوگوں کی عزت ، عظمت ، مال و دولت سب کچھ علماء کرام کی وجہ سے ہے ۔ آج بھی اگر علماء کرام ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیں اور عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا شروع کر دیں تو ان کاروباریوں کے تمام پلازے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی طرح دھڑام سے زمین پر آ گریں گے ۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ مسلکِ اہل سنت وجماعت علم اور عمل کا نام ہے ان کاروباریوں کا تقدس برقرار رکھنے کا نام نہیں ہے ۔ یہ تو وہی لوگ ہیں جن کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے بدباطن اور بدعقیدہ لوگوں کو مسلک حق پر کیچڑ اچھالنے کا موقع مل رہا ہے ۔
بت ہم کو کہیں کافر اللہ کی مرضی ہے
محترم قارئینِ کرام : ان لوگوں کی منظم سازش کے نتیجے میں اب لوگوں کا علماء حق سے بھی اعتماد اٹھ چکا ہے اور ان کی سر عام تذلیل کی جا رہی ہے ۔ فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی ، قادری ، نقشبندی ، سہروردی کو خود ایک جاہل پیر نے کہا کہ ’’جو مسئلہ ہم بتا دیں چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو پتھر پہ لکیر ہوتا ہے ، اب کوئی بڑے سے بڑا مفتی بھی صحیح مسئلہ بتائے تو مرید کو اس پر یقین نہیں آئے گا‘‘۔ دیگر مسالک میں صرف اور صرف علماء کو اہمیت حاصل ہے ۔ ان کے لئے سب کچھ ان کا عالم ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مدرسین معاشی حوالے سے پریشان نہیں ہوتے مگر ہمارے مسلک میں سب کچھ کاروباری پیر اور نعت خوان بنے بیٹھے ہیں اور مدرسین بے چارے انتہائی مفلوک الحال ہیں ۔
عقائدِ صحیحہ کا فروغ اور دینی اقدار کی بقاء کی جنگ انہیں علماء کو لڑنی پڑتی ہے ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ علماء کرام اپنے مقام کو پہچانیں اور اس کا تحفظ کریں ۔ میں کہا کرتا ہوں کہ جب وقت تھوڑا ہو تو سنتیں اور نفلیں چھوڑ دینی پڑتی ہیں اور فقط فرض ادا کیئے جاتے ہیں ۔ علم دین کا حصول فرض ہے اور باقی محفلیں وغیرہ زیادہ سے زیادہ مستحبات میں شامل ہیں ۔ اس دور زوال میں اب مستحبات کا وقت نہیں رہا ۔ جتنی جلدی ہوسکے علم کا فرض ادا کیا جائے ، جگہ جگہ مدارس کھولے جائیں اور سابقہ صحیح دینی کام کرنے والے مدارس کو مضبوط کیا جائے ۔ ایک محفل کا فائدہ زیادہ سے زیادہ چند دنوں کا ہوتا ہے مگر ایک مدرسہ صدیوں تک اپنی روشنی پھیلاتا رہتا ہے ۔ اگر جگہ جگہ دینی مدارس قائم کر دیئے جائیں تو روشنی کا ایسا سیلاب آئے گا کہ اندھیروں کو سر چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی ۔ ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو دارین میں کامیابی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)