Wednesday 14 December 2016

التبشیر برد التحذیر : از قلم استاذی المکرم غزالی زماں سید احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ( حصّہ سوم )

0 comments
 پیشکش ڈاکٹر فیض احمد چشتی

لفظ خاتم النبیین کا آخر النبیین کے معنی میں حصر
اور پھر اس پر اجماعِ امت
باوجودیکہ تحذیر الناس کی اس پوری عبارت میں حصر کا کوئی کلمہ مذکور نہیں لیکن اسے فرض کر لینے کے بعد بھی حامیان تحذیر کو کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچ سکتا اور نانوتوی صاحب اس الزام سے ہرگز نہیں بچ سکتے جو ان کے کلام کی روشنی میں ان پر عائد ہوتا ہے۔ کیونکہ ہم شفا قاضی عیاض کی عبارت اور ختم النبوۃ فی الآثار میں اس کے ترجمہ سے ثابت کر چکے ہیں کہ خاتم النبیین اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے اور اس سے بلا تاویل و تخصیص وہی معنی مراد ہیں جو ظاہر لفظ سے سمجھے جاتے ہیں اور اسی پر امت کا اجماع ہے۔ معلوم ہوا کہ جس طرح خاتم النبیین کے معنی آخر النبیین ہونا قطعی اور اجماعی امر ہے اسی طرح اس لفظ خاتم النبیین کا آخر النبیین کے معنی میں منحصر ہونا بھی ساری امت کے نزدیک قطعی اور اجماعی عقیدہ ہے۔

رہا یہ امر کہ شفا شریف اور ختم النبوۃ فی الآثار کی عبارت میں حصر بالنسبۃ الی تاویل الملاحدہ ہے تو اس جواب کی حیثیت خرط القتاد سے زیادہ نہیں۔ کیونکہ خاتمیت کی تقسیم ختم زمانی اور ذاتی کی طرف آج تک کسی مفسر نے نہیں کی بلکہ لفظ خاتم النبیین کی تاویل ایسی خاتمیت ذاتیہ کے ساتھ کر کے مرزائی رسول اللہ ﷺ کے آخر النبیین ہونے کا انکار کرتے ہیں جیسا کہ مدیر الفرقان نے بھی خاتم الاطباء کی مثال پیش کی ہے معلوم ہوا کہ خاتمیت ذاتیہ کی تاویل بھی تاویلاتِ ملاحدہ میں داخل ہے۔ ان سب کی نفی اس حصر کے ضمن میں یقینا آ گئی۔ لہٰذا نانوتوی صاحب پر جو الزام تھا وہ بدستور باقی رہا۔

مولانا احمد حسن کانپوری اور علامہ بحر العلوم لکھنوی
کی عبارت کا جواب
اس مقام پر مولوی منظور احمد صاحب نعمانی نے الفرقان میں مولانا روم علیہ الرحمہ کی مثنوی شریف کے دو شعر اور علامہ بحر العلوم شارح مثنوی و مولانا احمد حسن کانپوری محشی مثنوی شریف کی عبارت صاحب تحذیر الناس کے بیان کئے ہوئے معنی خاتم النبیین (خاتم بالذات) کی تائید میں پیش کی ہے اور ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ آیہ ’’وخاتم النبیین‘‘ کے معنی کو آخر النبیین میں منحصر سمجھنا غلط ہے۔ چنانچہ الفرقان جلد ۴ ص ۵۶ پر لکھتے ہیں
’’علامہ لکھنوی بحر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کے رسالہ ’’فتح الرحمن‘‘ سے ناقل ہیں ’’مقتضائے ختم رسالت دو چیز است یکی آنکہ بعد وے رسول نباشد دیگر آنکہ شرع آں عام باشد۔‘‘ (دافع الوسواس ص ۲۲)

جواباً عرض ہے کہ اس عبارت میں لفظ خاتم النبیین کے معنی حصر کو نہیں توڑا گیا بلکہ دو چیزوں کو ختم رسالت کا مقتضا بتایا گیا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ جب ’’خاتم النبیین‘‘ کے معنی ’’آخر النبیین‘‘ ہوں گے تو اس کا مقتضا یقینا یہی ہو گا کہ حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہ آئے اور حضور ﷺ کے بعد کسی نبی یا رسول کے نہ آنے کا مقتضا یہی ہے کہ حضور ﷺ کی شرع عام ہو۔ لہٰذا اس عبارت سے نانوتوی صاحب کو کچھ فائدہ نہ ہوا۔

مثنوی شریف کے دو شعروں کا جواب : رہے وہ دو شعر جو مثنوی شریف سے نقل کئے گئے ہیں تو ان کے مضمون سے بھی صاحب تحذیر الناس کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ مولانا روم علیہ الرحمہ نے یہ نہیں فرمایا کہ آیۂ کریمہ میں لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ کو بمعنی ’’آخر النبیین‘‘ لینا عوام کا خیال ہے نہ قرآن کے لفظ ’’خاتم‘‘ کی تفسیر خاتم ذاتی سے کی بلکہ مولانا روم کے اس شعر میں کہ

بہر ایں خاتم شدہ است او کہ بجود
مثل اونے بود نے خواہند بود

لفظ خاتم کے ساتھ حضور ﷺ کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے صرف اتنی بات فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں روحِ پاک محمد ﷺ پر اپنی بخشش اور کمالِ صنعت کو ختم کر دیا۔ روحِ پاک کے بعد نہ زمانہ ماضی میں کسی کو یہ جود و کمال دیا گیا اور نہ قیامت تک دیا جائے گا۔

ذرا غور سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مولانا علیہ الرحمہ نے لفظ خاتم کو ختم زمانی ہی کے معنی میں لیا ہے کیونکہ مصرعہ

مثل اونے بود نے خواہند بود

کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں روحِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کو اپنی بخشش اور کمال صنعت کی فضیلت دینے کے بعد کسی کو یہ فضیلت عطا نہیں فرمائی نہ آپ کے بعد کسی کو عطا فرمائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ حضور کا مثل ہوا ہے نہ ہو گا۔ ماضی اور مستقبل میں بعدیت کے معنی تأخر زمانی نہیں تو اور کیا ہے؟
اب دوسرا شعر ملاحظہ فرمائیے

چونکہ در صنعت برو استاد دست
نے تو گوئی ختم صنعت بروے است

پہلے شعر میں کہی ہوئی بات کے لئے مولانا علیہ الرحمۃ نے اس شعر میں ایک مثال پیش کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح اپنے فن کا کمال رکھنے والے استاد کو کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ کمال تم پر ختم ہے یعنی تمہارے سوا کسی کو نہیں دیا گیا ایسے ہی حضور ﷺ ہر کمال علمی و عملی میں گویا استاد کامل ہیں اور یہ کمال حضور کو دئیے جانے کے بعد کسی کو نہیں دیا گیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کمال کے خاتم ہیں۔ اگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے غیر میں کسی جمال کی کوئی جھلک پائی جائے یا کسی کے لئے کمال محمدی کا کوئی ایسا فیضان ثابت کیا جائے جس کا اثبات کسی دلیل شرعی کے خلاف نہ ہو تو وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی کی طرف منسوب ہو گا کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہی ذاتِ مقدسہ اس کا مبداء اور اصل منشاء ہے۔ اس مضمون کو تحذیر الناس کے مضمون سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ کیونکہ یہاں خاتم کے معنی منقول متواتر میں قطعاً کوئی تصرف نہیں کیا گیا نہ اس مضمون میں کوئی ایسی بات ہے جو خاتم النبیین کے معنی منقول متواتر (آخر النبیین) کی قطعیت کے منافی ہو۔

شارحین مثنوی کی تصریحات حق ہیں : ہاں اس میں شک نہیں کہ مولانا احمد حسن صاحب کانپوری رحمۃ اللہ علیہ و دیگر شارحین مثنوی و اکابر علمائے اعلام نے بے شمار مقامات پر اس امر کی تصریح فرمائی ہے کہ کسی کو کوئی کمال حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ مقدسہ اس کے لئے واسطہ اور وسیلہ نہ ہو۔ یہ تمام تصریحات کتاب و سنت کی روشنی میں عین حق و صواب ہیں لیکن اس سے حضور ﷺ کے تأخر زمانی یا اس کی قطعیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا بخلاف اس تحذیر الناس کے کہ اس میں تأخر زمانی کو عوام کا خیال کہہ کر لفظ خاتم النبین کے مدلول قطعی کی قطعیت کو مجروح کر دیا گیا اور تاخر زمانی کو برقرار رکھنے کے لئے کبھی دلالت التزامی کا سہارا لیا گیا، کبھی عموم و اطلاق کے زور سے الفاظ قرآن کی کھینچ تان کی گئی، کبھی مفہوم تأخر کو جنس اور اس تاخر زمانی و رتبی کو اس کے لئے انواع قرار دیا گیا، کبھی مشترک کا قول کیا گیا، کبھی حضور ﷺ کے بعد مدعی نبوت کی تکفیر کے لئے اجماع کا سہارا ڈھونڈا گیا۔ غرض یہ سب پاپڑ اس لئے بیلنے پڑے کہ ختم زمانی کو اصل دلیل آیۂ کریمہ ’’وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ کے معنی منقول متواتر کو انہوں نے خیالِ عوام قرار دے دیا۔

قرآن صرف الفاظ نہیں بلکہ معنی بھی قرآن ہیں : حالانکہ یہ امر بدیہی ہے کہ قرآن صرف الفاظ کا نام نہیں بلکہ ’’القرآن اسم للنظم والمعنی جمیعا‘‘ قرآن لفظ و معنی دونوں کے مجموعہ کا نام ہے۔ قرآن کے معنی متواتر بھی اسی طرح قرآن ہیں جس طرح الفاظ متواترہ قرآن ہیں۔ ہمیں نانوتوی صاحب سے یہ شکوہ نہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے لئے تاخر زمانی تسلیم نہیں کی، یا یہ کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے بعد مدعیان نبوۃ کی تکذیب و تکفیر نہیں کی۔ انہوں نے یہ سب کچھ کیا مگر قرآن کے معنی منقول متواتر کو عوام کا خیال قرار دے کر اپنے سب کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ بنائے خاتمیت تاخر زمانی کے علاوہ اور بات پر رکھنا اصولی طور پر ختم نبوت کی بنیاد کو اکھاڑنا ہے خواہ لاکھ دفعہ حضور کے بعد مدعی نبوت کی تکفیر کی جائے۔

فضیلت نبوی کے دوبالا ہونے کا جواب : رہا یہ امر کہ تحذیر الناس کی توجیہ پر رسول اللہ ﷺ کی فضیلت دوبالا ہو جاتی ہے کہ حضور ﷺ مزید چھ خواتم کے خاتم قرار پاتے ہیں اور اگر اس توجیہ کو چھوڑ دیا جائے تو صرف اسی ایک طبقہ زمین کے لئے حضور خاتم ہوں گے اور ظاہر ہے کہ کسی بادشاہ کے لئے صرف ایک ملک کی ولایت ہونے سے چھ ملکوں کی ولایت ہونا چھ گنا زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب ہمارے رسول ﷺ تمام جہانوں کے لئے رسول ہیں اور آپ کی نبوت و رسالت کل مخلوقات کے لئے عام ہے تو بقیہ چھ زمینوں میں بھی اگر حضور بذاتِ خود ہی خاتم ہوں تو اس میں فضیلت اور بھی زیادہ ثابت ہو گی کہ باوجود ایک ہونے کے زمین کے ہر طبقہ میں خود ہی خاتم النبیین ہو کر رونق افروز ہیں۔ محققین محدثین نے صوفیا کرام کے اسی مسلک کو ترجیح دی ہے جسے ہم عنقریب فیض الباری کے حوالہ سے نقل کریں گے۔

صاحب تحذیر کا آیۂ قرآنیہ کے معنی میں تصرف
صاحب تحذیر نے خاتم النبیین کے معنی میں جو تصرف کیا ہے اس کے ثبوت میں نہ کوئی آیۂ قرآنیہ پائی جاتی ہے نہ رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث نہ کسی صحابی، تابعی، مجتہد، فقیہہ، محدث یا مفسر کا کوئی قول اس کے ثبوت میں موجود ہے بلکہ نفس نبوت میں تفضیل کی ممانعت ہم قرآن و حدیث اور اقوال مفسرین و محدثین سے ثابت کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود نانوتوی صاحب کا نبوت کو بالذات اور بالعرض کی طرف تقسیم کر کے اثر عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے ذیل میں خاتمیت کے ایسے معنی بیان کرنا جو رسول اللہ ﷺ سے لے کر آج تک ساری امت مسلمہ میں کسی نے نہیں کئے ’’من احدث فی امرنا ہٰذا ما لیس منہ فہو رد‘‘ کا مصداق نہیں تو اور کیا ہے؟

نانوتوی صاحب کا اعتراف
نانوتوی صاحب نے تحذیر الناس ص ۲۰ میں خود اعتراف کیا ہے کہ اس مفہوم کی طرف بڑوں کا فہم نہیں پہنچا۔ یہ بات صرف میں نے کہی ہے (ملخصاً) اگر انصاف سے دیکھا جائے تو اسی کا نام بدعت سیّئہ ہے۔ دوسروں کو بلاوجہ بدعتی کہنے والے ذرا اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھیں۔

حدیث’’انی عند اللّٰہ خاتم النبیین‘‘ کا جواب
مولوی منظور احمد صاحب سنبھلی نے نانوتوی صاحب کی تائید میں خاتم النبیین کے معنی خاتم بالذات ثابت کرنے کے لئے حسب ذیل حدیث الفرقان میں لکھی ہے ’’انی عند اللّٰہ خاتم النبیین وان اٰدم لمنجدل فی طینتہٖ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وقت خاتم النبیین ہو چکا تھا جب کہ آدم علیہ السلام کا خمیر بھی تیار نہ ہوا تھا۔‘‘ اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے مولوی منظور احمد صاحب لکھتے ہیں
ظاہر ہے کہ اس وقت ختم زمانی کا احتمال بھی نہیں ہو سکتا۔ ہاں، اگر یہ معنی لئے جائیں کہ آپ اس وقت وصف نبوت کے ساتھ بالذات موصوف یعنی خاتم ذاتی تھے تو بغیر کسی دشواری کے معنی صحیح ہو جاتے ہیں۔ الفرقان بابت رجب ۵۶ھ ص ۱۳۵، ۱۳۶

جواباً گزارش کرتا ہوں کہ اگر مولوی منظور احمد صاحب نعمانی اس حدیث سے ختم ذاتی کا دعویٰ ثابت کرنے سے پہلے اپنے حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کی نشر الطیب ملاحظہ فرما لیتے تو انہیں جرأت استدلال نہ ہوتی۔ ملاحظہ فرمایئے نشر الطیب میں ان کے مولانا اشرف علی تھانوی اسی حدیث عرباض بن ساریہ کو لکھ کر ایک شبہ کا جواب اپنے منہیہ میں اس طرح دیتے ہیں

’’اگر کسی کو شبہ ہو کہ اس وقت ختم نبوت کے ثبوت بلکہ خود نبوت ہی کے ثبوت کے کیا معنی کیونکہ نبوت آپ کو چالیس سال کی عمر میں عطا ہوئی اور چونکہ آپ سب انبیاء کے بعد مبعوث ہوئے اس لئے ختم نبوت کا حکم کیا گیا۔ سو یہ وصف تو خود تأخر کو مقتضی ہے۔ جواب یہ ہے کہ یہ تأخر رتبہ ظہور میں ہے، مرتبہ ثبوت میں نہیں۔ جیسے کسی کو تحصیلداری کا عہدہ آج مل جائے اور تنخواہ بھی آج ہی سے چڑھنے لگے مگر ظہور ہو گا کسی تحصیل میں جانے کے بعد۔‘‘ ۱۲ منہ (نشر الطیب ص ۷)

اس عبارت سے ثابت ہوا کہ حدیث مذکور میں رسول اللہ ﷺ کا خاتم النبیین ہونا مرتبۂ ثبوت میں مراد ہے، مرتبہ ظہور میں نہیں اور ظاہر ہے کہ ختم زمانی کا تحقق مرتبۂ ظہور ہی میں ہو سکتا ہے۔ لہٰذا سنبھلی صاحب کا استدلال ساقط ہو گیا۔ تعجب ہے کہ ان لوگوں کو اپنے گھر کا بھی پتا نہیں یا باوجود معلوم ہونے کے ناواقف لوگوں کو مغالطہ دے کر حق کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔

غلطی نمبر ۳
اس غلطی کے متعلق میں عرض کروں گا کہ ہر اہل فہم بلکہ ادنیٰ سمجھ رکھنے والے کے نزدیک بھی حضور ﷺ کا آخر النبیین ہونا یقینا ایسی فضیلت ہے جس کا مقام مدح میں ذکر کیا جانا بلا شبہ صحیح اور درست ہے۔ مقام مدح میں ذکر کرنے کے لئے کسی فضیلت کا ذاتی ہونا ہرگز ضروری نہیں بلکہ فضیلت بالعرض اور وصف اضافی کا ذکر کرنا بھی مقام مدح میں صحیح ہے۔ کما لا یخفی۔ یقین نہ ہو تو خود نانوتوی صاحب سے پوچھ لیجئے کہ وہ حضور ﷺ کے سوا تمام انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی نبوت بالعرض مانتے ہیں لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی مدح میں جابجا ان کے وصف نبوت کا ذکر فرمایا ہے۔ ثابت ہوا کہ فضیلت بالعرض کا مقام مدح میں ذکر کرنا قطعاً یقینا صحیح و درست ہے۔ ایسی صورت میں صاحب تحذیر الناس کا یہ کہنا کہ
’’پھر مقام مدح میں ’’وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ فرمانا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے؟‘‘

اس بات کی روشن دلیل ہے کہ مؤلف رسالہ تحذیر الناس مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی مدرسہ دیوبند کے نزدیک حضور ﷺ کے وصف خاتمیت زمانی میں قطعاً جزماً یقینا کسی قسم کی کوئی فضیلت نہیں پائی جاتی ورنہ مقام مدح میں اس کے ذکر کو وہ ہرگز غیر صحیح قرار نہ دیتے کیونکہ ہم ابھی عرض کر چکے ہیں کہ ہر فضیلت بالذات ہو یا بالعرض مقام مدح میں اس کا ذکر کرنا صحیح ہے۔ لہٰذا واضح ہوا کہ جس چیز کا ذکر مقام مدح میں صحیح نہ ہو اس میں بالذات یا بالعرض کسی قسم کی کوئی فضیلت اصلاً نہیں پائی جاتی اور نانوتوی صاحب کا یہ قول کتاب و سنت اور اجماعِ امت کے منافی ہونے کی وجہ سے بلا شبہ ناقابل قبول بلکہ واجب الرد ہے۔

صاحب تحذیر کی توجیہ استدراک
غلطی نمبر ۴
چوتھی غلطی کے بارے میں عرض کروں گا کہ نانوتوی صاحب آیۂ کریمہ ’’وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ میں ختم زمانی کی تقدیر پر ان دونوں جملوں میں بے ربطی اور استدراک کے غیر صحیح ہونے کے مدعی ہیں جیسا کہ سابقاً طویل عبارت تحذیر الناس سے نقل کی گئی۔ نیز وہ ختم ذاتی ثابت کرنے کے لئے آیۂ کریمہ ’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ میں استدراک کی توجیہ اور عطف بین الجملتین پر کلام کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں
’’مطلب آیۂ کریمہ کا اس صورت میں یہ ہو گا کہ ابوۃ معروفہ تو رسول اللہ ﷺ کو کسی مرد کی نسبت حاصل نہیں پر ابوۃ معنوی امتیوں کی نسبت حاصل ہے اور انبیاء کی نسبت تو لفظ خاتم النبیین شاہد ہے اور امتیوں کی نسبت لفظ رسول اللہ میں غور کیجئے تو یہ بات واضح ہے۔‘‘ ص ۹، ۱۰

نانوتوی صاحب کی توجیہ کا جواب : اقول: اس کلام سے نانوتوی صاحب کا مقصد ختم ذاتی کا اثبات ہے جس کے پیشِ نظر انہوں نے استدراک اور عطف بین الجملتین کی توجیہ کرتے ہوئے یہ ظاہر فرمایا ہے کہ ’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ‘‘ سے جو وہم پیدا ہوا تھا کہ محمد ﷺ اپنی امت کے معنوی باپ نہیں اسے اللہ تعالیٰ نے ’’وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ‘‘ فرما کر اس طرح زائل فرما دیا کہ وہ رسول ہونے کی وجہ سے مومنین کے معنوی باپ ہیں۔ اس کے بعد ختم ذاتی ثابت کرنے کیلئے ’’وخاتم النبیین‘‘ ارشاد فرمایا اور اس جملہ سے حضور ﷺ کی ابوۃ معنویہ انبیاء علیہم السلام کے لئے بھی ثابت فرما دی۔

اس کے جواب میں گزارش ہے کہ نانوتوی صاحب یہ مانتے ہیں کہ عطف وخاتم النبیین کا رسول اللہ پر ہے اور یہ بھی مسلم ہے کہ معطوف اور معطوف علیہ کا حکم ایک ہوتا ہے۔ لہٰذا جس طرح لفظ رسول اللہ سے حضور ﷺ کے معنوی باپ نہ ہونے کا وہم دور کیا گیا ہے اسی طرح وخاتم النبیین بھی کلام سابق سے پیدا ہونے والے کسی شبہ کو دور کر دے گا کیونکہ وہ بھی بوجہ عطف لکن کے تحت ہے لیکن اگر اسے ختم ذاتی کی دلیل ٹھہرا کر نانوتوی صاحب کی طرح یہ کہا جائے کہ وخاتم النبیین لا کر اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے لئے بھی حضور ﷺ کی ابوۃ معنویہ ثابت فرما دی تو رفع توہم سے اس جملہ کو کوئی تعلق نہ ہو گا۔ کیونکہ ’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ‘‘ سے انبیاء علیہم السلام کے لئے حضور ﷺ کی ابوۃ کے منفی ہونے میں کوئی شبہ پیدا نہیں ہوتا۔ جو شبہ متصور ہی نہ ہو اس کے دور کرنے کے کیا معنی؟ یہ بات قابل غور ہے کہ ’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ‘‘ میں سننے والے کا ذہن انبیاء علیہم السلام کی طرف منتقل ہی نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں ان سے حضور ﷺ کی ابوۃ کے منتفی ہونے کا وہم کیونکر پیدا ہو گا؟ خلاصہ یہ کہ جب کلام سابق میں یہ شبہ متصور ہی نہیں تو و خاتم النبیین سے اس کے رفع کا قول کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟

ہمارے نزدیک استدراک کی توجیہ : دلائل شرعیہ کی روشنی میں ہمارے نزدیک استدراک کی توجیہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ‘‘ فرمایا تو اس کلام سے دو وہم پیدا ہوئے ایک یہ کہ جب رسول اللہ ﷺ کسی مرد کے جسمانی باپ نہیں تو روحانی باپ بھی نہ ہوں گے۔ دوسرا یہ کہ کسی رجل کے لئے آپ کا جسمانی باپ نہ ہونا آپ کے لئے موجب نقص ہو گا۔ جس کی دلیل یہ ہے کہ کسی مرد بالغ کا باپ نہ ہونا انقطاعِ نسل کا موجب ہے اور یہ عیب ہے اس لئے حضور ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پر عاص بن وائل نے حضور ﷺ کو معاذ اللہ ’’ابتر‘‘ کہا تھا جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے سورئہ کوثر نازل فرمائی اور نبی کریم ﷺ نے ’’کل نسب وصہر منقطع الانسبی وصہری‘‘ فرما کر سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اپنی نسل پاک کے باقی اور جاری رہنے کا اظہار فرمایا۔ پہلے وہم کو اللہ تعالیٰ نے ’’وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ‘‘ سے رفع فرمایا، بایں طور کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور ہر رسول اپنی امت کا روحانی باپ ہوتا ہے۔ وہ جسمانی نہ ہونے کے باوجود بھی روحانی باپ ہیں۔ دوسرے وہم کو ’’وخاتم النبیین‘‘ لا کر دور فرمایا۔ اس طرح کہ محمد ﷺ کا کسی مرد کے لئے جسمانی باپ نہ ہونا کسی نقص کے باعث نہیں بلکہ ان کے خاتم النبیین ہونے کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ آخر النبیین ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بالخصوص آنحضرت ﷺ کا منصب یہ ہے کہ اگر حضور انور کا کوئی بیٹا جوان ہو تو وہ ضرور نبی ہو اور اس کا نبی ہونا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاتم النبیین ہونے کے منافی ہے اس لئے ان کے وصف خاتمیت کا مقتضا یہی ہے کہ وہ کسی صلبی مرد کے باپ نہ ہوں اور یہ ’’عدم ابوۃ‘‘ کسی نقص پر نہیں بلکہ فضیلت خاتمیت پر مبنی ہے جس کی تائید حضرت ابن ابی اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ’’لو قضی ان یکون بعد محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نبی عاش ابنہ ولٰـکن لا نبی بعدہ‘‘ سے بھی ہوتی ہے جو صحیح بخاری میں موجود ہے۔ دیکھئے بخاری جلد ۲ ص ۹۱۴

اس توجیہ کی بنا پر لفظ خاتم النبیین سے فضیلت خاتمیت کے ساتھ حضور ﷺ کی عدم ابوۃ مذکورہ اور بیٹے کی بجائے بیٹی سے نسل پاک کے اجراء کی حکمت بھی معلوم ہو گئی۔

’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ…‘‘ میں استدراک کی دیگر توجیہات
ہماری اس تقریر سے استدراک کی توجیہ بھی صحیح ہو گئی اور عطف بین الجملتین بھی بخوبی واضح ہو گیا اور کلام الٰہی میں بے ربطی کا وہم بھی نہ رہا۔ اس کے بعد ہم تحقیق مزید اور نانوتوی صاحب کے رد بلیغ کے لئے آیۂ کریمہ ’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ‘‘ الاٰیہ میں استدراک میں دیگر توجیہات کا خلاصہ علمائے مفسرین کے کلام سے نقل کرتے ہیں جو نانوتوی صاحب کی خود ساختہ توجیہ استدراک کے رد و ابطال اور تحذیر الناس کے زہر کے لئے تریاق کا کام دیتی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ علوم قرآن میں گہری نظر رکھنے والے حق پسند علماء بنظر انصاف ملاحظہ فرما کر اس حقیقت کو تسلیم کر لیں گے کہ نانوتوی صاحب کی توجیہ تفسیر بالرای سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔ خلاصہ توجیہات حسب ذیل ہے، جسے ہم نے تفسیر روح المعانی پارہ ۲۲ ص ۳۲ تا ۳۴ سے اخذ کیا ہے۔

پہلی توجیہ یہ ہے کہ ’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ‘‘ فرما کر جب اللہ تعالیٰ نے رجال مخاطبین کے ہر فرد سے رسول اللہ ﷺ کی ابوۃ حقیقیہ جسمانیہ شرعیہ کی نفی فرما دی تو اس کلام سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ جب وہ کسی کے باپ نہیں تو کسی پر ان کی تعظیم و توقیر بھی واجب نہ ہو گی اور افراد امت کے لئے رسول اللہ ﷺ پر شفقت اور خیر خواہی کا وجوب بھی منتفی ہو گا۔ اس شبہ کو دور کرنے کے لئے وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ فرمایا کیونکہ رسول حقیقی باپ نہ ہونے کے باوجود بھی واجب التعظیم والتوقیر اور وصف رسالت کی وجہ سے مجازی باپ اور اپنی امت پر ناصح اور شفیق ہوتا ہے۔

دوسری توجیہ یہ ہے کہ کلام سابق میں رسول اللہ ﷺ کی نفی ابوۃ سے شبہ پیدا ہوتا تھا کہ جب وہ باپ نہیں تو شاید رسول بھی نہ ہوں اس لئے کہ رسول کا امت کے لئے باپ ہونا مشہور بات تھی۔ اسی شہرت کی وجہ سے ایک قول کی بنا پر لوط علیہ السلام نے اپنے قول ’’ہٰؤُلَآئِ بناتی‘‘ میں اپنی امت کی مومنات کو مراد لیا ہے۔ بنا بریں نفی ابوۃ سے نفی رسالت کا وہم پیدا ہوتا تھا جس کا مبنیٰ یہ تھا کہ رسول کے لئے باپ ہونا لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ’’وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ‘‘ فرما کر اس شبہ کو دور فرما دیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہ ہونے کے باوجود بھی اللہ کے رسول ہیں۔

خاتم النبیین میں استدراک کی توجیہات : رہا اللہ تعالیٰ کا قول و خاتم النبیین تو اس کی بھی حسب ذیل توجیہات علماء مفسرین نے کی ہیں جن کا خلاصہ ہم اسی تفسیر روح المعانی پارہ ۲۲ ص ۳۶ سے ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔

پہلی توجیہ یہ ہے کہ خاتم النبیین فرما کر حضور ﷺ کے کمال شفقت اور خیر خواہی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ ’’وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ‘‘ کے ساتھ امت کے حق میں رسول اللہ ﷺ کے لئے جس ابوۃ کاملہ کو ثابت کیا گیا ہے وہ تمام رسولوں کی ابوۃ پر فوقیت رکھتی ہے جو انہیں ان کی امتوں کے حق میں حاصل ہے اس لئے کہ جس رسول کے بعد کوئی رسول ہو گا۔ بعض اوقات اس کی شفقت و نصیحت اپنی غایت کو نہ پہنچ سکے گی۔ کیونکہ ممکن ہے کہ وہ شفقت و نصیحت علی الامت کے بارے میں اپنے بعد میں آنے والے رسول پر بھروسہ کر لے جیسے کہ حقیقی باپ شفقت علی الاولاد سے متعلق بعض امور اپنے قائم مقام کے سپرد کر دیتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ’’وخاتم النبیین‘‘ فرمایا تو یہ بات واضح ہو گئی کہ محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا جس پر بھروسہ کر کے اپنی امت کی نصیحت و شفقت میں حضور ﷺ کوئی کمی چھوڑ دیں۔

دوسری توجیہ یہ ہے کہ خاتم النبیین فرما کر اس امر کی طرف اشارہ کر دیا کہ ابوۃ محمدیہ قیامت تک ممتد ہے۔ لہٰذا ان کی تعظیم و توقیر نہ صرف بلا واسطہ مخاطبین پر واجب ہے بلکہ قیامت تک آنے والے ان کی اولاد در اولاد سب پر اس تعظیم و توقیر کا وجوب ہے اور اسی طرح ان کی شفقت و نصیحت نہ صرف تمہارے لئے ہے بلکہ تا قیامت تمہاری نسلوں کے لئے ان کی خیر خواہی اور شفقت دائم و مستمر رہے گی۔ کیونکہ وہ آخری نبی ہیں۔ ان کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں۔

تیسری توجیہ یہ ہے کہ ’’مِنْ رِّجَالکُمْ‘‘ سے یہ وہم پیدا ہوتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی ابوۃ ’’رِجَالِکُمْ‘‘ سے منفی ہے رجالہٖ سے منفی نہیں یعنی اپنی امت کے مردوں میں سے کسی مرد کے باپ نہیں مگر ممکن ہے کہ اپنے مردوں میں سے کسی کے باپ ہوں۔ بایں طور کہ رسول اللہ ﷺ کے لئے کوئی لڑکا پیدا ہو کر حد رجولیت (بلوغت) تک پہنچ جائے اور حضور ﷺ اس کے باپ قرار پائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کو لفظ خاتم النبیین لا کر رفع فرما دیا یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کا منصب یہ ہے کہ اگر حضور ﷺ کا کوئی لڑکا پیدا ہو کر حد رجولیت تک پہنچے تو وہ ضرور نبی ہو۔ چونکہ حضور ﷺ خاتم النبیین ہیں اس لئے وہ اپنے مردوں میں سے بھی کسی کے باپ نہیں ہو سکتے اور ان کا خاتم النبیین ہونا اس بات کے قطعاً منافی ہے کہ ان کا کوئی بیٹا مبلغ رجال تک پہنچے اور وہ اپنی صلبی اولاد میں سے کسی دو کے باپ قرار پائیں۔ اس تقدیر پر باپ سے صلبی باپ مراد لینے کی وجہ یہ ہے کہ حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اعتراض وارد نہ ہو کیونکہ وہ حضور ﷺ کے صلبی بیٹے نہیں۔ اس شرطیہ کی دلیل وہ حدیث ہے جسے ابراہیم سدی نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مہد کو بھر دیا اور اگر وہ باقی رہتے تو ضرور نبی ہوتے لیکن وہ صرف اس لئے باقی نہ رہے کہ حضور ﷺ آخر الانبیاء ہیں۔ اسی طرح دوسری روایات میں بھی وارد ہوا۔

بخاری نے من طریق محمد بن بشر عن اسماعیل بن ابی خالد روایت کیا، ابو خالد کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کے صاحبزادے ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ بچپن میں فوت ہو گئے اور اگر محمد ﷺ کے بعد کسی نبی کا ہونا قضاء الٰہی میں ہوتا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیٹے ابراہیم زندہ رہتے لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد کوئی نبی نہیں۔

اور امام احمد نے من طریق وکیع عن اسماعیل حضرت ابن ابی اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا، وہ فرماتے ہیں ’’لو کان بعد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نبی مامات ابنہ‘‘
اور اسی روایت کو ابن ماجہ وغیرہ نے بروایت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کیا اور بعض محدثین نے ابن ماجہ کی روایت کو ضعیف کہا جیسا کہ امام قسطلانی کا قول ہے اور امام نووی نے حدیث ’’لو عاش ابراہیم لکان نبیا‘‘ کو باطل قرار دیا لیکن صحیح بخاری کی روایت ’’لو قضی ان یکون بعد محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نبی عاش ابنہ ولٰـکن لا نبی بعدہ‘‘ بلا شبہ صحیح اور شرطیہ مذکور کی دلیل ہے۔ ۱ ھ

ابن عبد البر وغیرہ کے شبہ کا جواب
اس مقام پر ابن عبد البر وغیرہ کا یہ کہنا کہ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ نوح علیہ السلام کا بیٹا حد رجولیت تک پہنچنے کے باوجود بھی غیر نبی تھا اور اگر یہ بات مان لی جائے کہ نبی کا بیٹا نبی ہی ہوتا ہے تو ہر شخص نبی ہوتا کیونکہ سب لوگ نوح علیہ السلام کی اولاد سے ہیں، درست نہیں۔ کیونکہ قاعدہ کلیہ کے طور پر یہ بات نہیں کی گئی کہ نبی کا بیٹا نبی ہوتا ہے اس لئے محمد ﷺ کا بیٹا نبی ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ منصب خاص محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے تھا کہ اگر آپ کا کوئی بیٹا حد رجولیت تک پہنچے تو نبی ہو، جس کی دلیل وہی حدیث ہے جو بروایت بخاری ہم پیش کر چکے ہیں، جس میں خاص حضور محمد رسول اللہ ﷺ کے حق میں یہ الفاظ وارد ہیں کہ ’’لو قضی ان یکون بعد محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نبی عاش ابنہ۔‘‘ الحدیث یہ ہر نبی کے لئے نہیں بلکہ حضور ﷺ کے منصب خصوصی کی بنا پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ خاص ہے۔

چنانچہ علامہ جمل نے اس مضمون کو محققین کے کلام سے اخذ کرتے ہوئے نہایت فاضلانہ انداز میں جامعیت کے ساتھ ارقام فرمایا ہے۔ ملاحظہ ہو فتوحات الٰہیہ جلد ۳ ص ۴۴۱

ولعل وجہ الاستدراک انہ لما نفی کونہ ابالہم کان ذلک مظنۃ ان یتوہم انہ لیس بینہم وبینہ مایوجب تعظیمہم ایاہ وانقیادہم لہ فدفعہ ببیان ان حقہ اکد من حق الاب الحقیقی من حیث انہ رسولہم ولما کان قولہ من رجالکم مظنۃ ان یتوہم انہ ابو احد من رجال نفسہ الذین ولد وامنہ رفعہ بقولہ وخاتم النبیین فانہ یدل علی انہ لا یکون ابًا لواحد من رجال نفسہ ایضًا لانہ لو بقی لہ ابن بالغ بعدہ لکان اللائق بہ ان یکون نبیا بعدہ فلا یکون ہو خاتم النبیین۔ انتہٰی ۱ھ شیخ زادہ و اورد فی الکشاف منع الملازمۃ اذ کثیر من اولاد الانبیاء لم یکونوا انبیاء فانہ اعلم حیث یجعل رسالتہ واجاب الشہاب عن ذالک بقولہ الملازمۃ لیست مبنیۃ علی اللزوم العقلی والقیاس المنطقی بل علی مقتضی الحکمۃ الالٰہیۃ وہی ان اللّٰہ اکرم بعض الرسل بجعل اولادہم انبیاء کالخلیل ونبینا اکرمہم وافضلہم فلو عاش اولادہ اقتضی تشریف اللّٰہ لہ جعلہم انبیاء۔ ۱ھ
(ترجمہ) غالباً وجہ استدراک یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے حق میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے باپ ہونے کی نفی فرمائی تو اس سے یہ وہم پیدا ہوا کہ امتیوں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے درمیان ایسا کوئی امر نہیں پایا جاتا ہے جو افراد امت پر حضور کی تعظیم اور فرمانبرداری کو واجب قرار دیتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس وہم کو یہ بیان فرما کر رفع فرما دیا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا یہ حق بحیثیت رسول ہونے کے حقیقی باپ کے حق سے بھی زیادہ مؤکد ہے اور جب کہ اللہ تعالیٰ کے قول ’’مِنْ رِجَالِکُمْ‘‘ سے یہ وہم پیدا ہوتا تھا کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ خود اپنے رجال اولاد میں سے کسی کے باپ ہیں تو اللہ تعالیٰ نے وخاتم النبیین فرما کر اسے رفع فرما دیا۔ کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خاتم النبیین ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضور اپنی اولاد کے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں۔ اس دلالت کی وجہ یہ ہے کہ اگر حضور کے بعد حضور کا کوئی (صلبی) بیٹا باقی رہ کر حد بلوغ کو پہنچے تو آپ کے شان کے لائق یہ ہے کہ وہ آپ کے بعد نبی ہو۔ ایسی صورت میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خاتم النبیین نہیں ہو سکتے۔ انتہیٰ شیخ زادہ۔ کشاف نے اس مقام پر منع ملازمت کا اعتراض وارد کرتے ہوئے دلیل منع میں کہا کہ انبیاء علیہم السلام کی بکثرت اولاد نبی نہیں ہوئی۔ کیونکہ ’’اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ‘‘ اس کے جواب میں شہاب الدین خفا جی نے فرمایا کہ ملازمت لزوم عقلی و قیاس پر مبنی نہیں بلکہ اس کا مبنیٰ مقتضائے حکمت الٰہیہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء مثلاً خلیل اللہ علیہم السلام کو ان کی اولاد کے نبی ہونے کے ساتھ مکرم فرمایا اور ہمارے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام سب نبیوں سے اکرم اور افضل ہیں اس لئے اگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیٹے حد بلوغ تک زندہ رہتے تو عند اللہ تعالیٰ حضور ﷺ کی تشریف و تکریم کے منصب خاص کا مقتضا یہ ہوتا کہ اللہ تعالیٰ انہیں نبی بنائے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔