Sunday, 20 April 2025

تقلید کا ثبوت کیا ہے اور اس کی ضرورت و اہمیت کیا ہے

تقلید کا ثبوت کیا ہے اور اس کی ضرورت و اہمیت کیا ہے

محترم قارئینِ کرام : اللہ عزوجل جو انسانوں کا خالق و مالک اور اپنے بندوں پر رحیم و کریم ہے ۔ کائناتِ عالم کا نظم و ضبط بر قرار رکھنے کےلیے مختلف انسانوں کو مخلتف صلا حیتوں سے نوازا ، کسی کو قرآن و احادیث کے علوم میں مہارت بخشی تو کسی کو تجارت و حرفت میں کسی کو فن طبا بت میں تو کسی کو زراعت و کاشت کاری میں ۔ ظاہر ہے کہ ایک انسان تمام خو بیوں کا مالک اور ہر فن میں ماہر ہو جائے یہ مستبعد ہے ۔ اس لیے ہر دور کے لوگ اپنے اپنے فن کے ماہرین کی تقلید کر تے رہے اور ان کی باتوں کو مان کر مستفیض ہو تے رہے ۔ جو کہ ایک فطری اور قدرتی عمل ہے ۔ مگر افسوس صد افسوس آج اس فطری عمل کے خلاف عَلَمِ بغاوت بلند کیا جا رہا ہے ۔ اور اس پر طرح طرح کے بے جا اعتراضات کیے جارہے ہیں ۔ اس لیے ذیل میں اس سے متعلق اعتراضات و جوابات کے پیش کیے جا رہے ہیں ۔ مسئلہ کی حقیقت سمجھنے کےلیے اول تا آخر تمام اعتراضات و جوابات کا بغور مطالعہ کریں ۔


تقلید کیا ہے ؟ : ⏬


عر بی زبان میں لفظ ِ ’تقلید‘ مختلف معانی میں استعمال کیا جا تا ہے ۔(۱) گردن میں ہار ڈالنا ، جیسے حدیث شریف میں ہے ’’قلدواالخیل ولا تقلدوھا الاوتار‘‘ دین کے دشمنوں کی طلب میں گھوڑوں کے گردنوں میں ہار ڈالو اور زمانہ جاہلیت کے کاموں کےلیے نہ ڈالو ۔ (۲) پانی پلانا ، جیسے کہا جاتا ہے : قلدت الزرع ‘‘ میں نے کھیت میں پانی دیا ۔ حدیث شریف میں ہے : فقلدتنا السماء قلدا ‘‘ آسمان میں سے وقت مقررہ میں ہم پر بارش ہو ئی ۔ کسی چیز کا احاطہ کرنا ، قرآن مجید میں ہے : لہ مقالید السمٰوات والارض ، اللہ تعالی ہی کےلیے زمین و آسمان میں احاطہ ہے ۔


علامہ نووی علیہ الرحمہ تقلید کی تعریف کر تے ہو ئے لکھتے ہیں : التقلید قبول قول المجتھد والعمل بہ ‘‘ تقلید ، مجتہد (یعنی وہ شخص جو دینی علوم و فنون کا ماہر ہو) کی بات مان کر اس پر عمل کر نا ہے ۔ قفال نے کہا : یہ جا نے بغیر کے کہنے والے نے یہ بات کہاں سے کہی اس کی بات کو قبول کر نا تقلید ہے ۔ (تہذیب الاسماء واللغت،جلد ۴ صفحہ ۱۰،چشتی)


حاصل یہ کہ وہ شخص جس کو دینی علوم و فنون میں اتنی مہارت ہے کہ وہ کسی چیز کے صحیح اور غلط ہو نے کے بارے میں فیصلہ کر نے کی قوت رکھتا ہو اس کی بات بغیر دلیل کے تقا ضا کے مان لینے کو تقلید کہتے ہیں ۔


بنیادی طور پر تقلید کی دو قسمیں ہیں : ⏬


(۱) تقلید محمود ۔ یعنی وہ تقلید جس کی شر یعت میں تعر یف کی گئی ہو ۔


(۲) تقلید مذموم ۔ یعنی وہ تقلید جس کی شر یعت میں مذمت کی گئی ہو ۔ چنا نچہ ابتداء اسلا م میں جب کفار مکہ سے کہا جا تا کہ آٶ اس دین کی طرف جسے اللہ نے نازل کیا ہے تو وہ کہتے کہ ہمارے باپ دادا کا دین ہمارے لیے کافی ہے ۔ ہم اسی کی تقلید کریں گے ۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ہے ’’ اذا قیل لھم تعالواالی ما انزل اللہ و الی الرسول قالوا حسبنا ما وجدنا علیہ آباءنا ۔ (المائدہ،آیت:۱۰۴) ، جب ان سے کہا جاتا کہ آٶ اس کی طرف جسے اللہ نے نازل کیا اور رسول کی طرف ، تو وہ لوگ کہتے ہمارے لیے کافی ہے وہ دین جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ۔ تو یہ لوگ بھی ایک قسم کی تقلید کر رہے تھے ، لیکن ان کی مذمت کی گئی انکار کیا گیا کہ تمہارا یہ قول درست نہیں ۔ تمہارے باپ دادا تو خود گمراہ تھے ان کے دین پر چل کر تم ہدایت نہیں پا سکتے اس لئے اسلام قبول کرو اور نجات حاصل کرو ۔


محترم قارئینِ کرام : ہم ایسی تقلید کے علمبر دار نہیں ۔ جو لوگ اس قسم کی آیت پیش کر کے تقلید کی مذمت کرتے ہیں ہم خود ایسی تقلید کا رد کرتے ہیں ۔ کیونکہ یہ تقلید ، تقلید مذموم ہے جو ایک فیصد بھی درست نہیں اس لیے کہ جس کی تقلید کی جا رہی ہے وہ خود کفر و شرک میں ڈوبا ہوا ہے تو اس کی تقلید کرنے والے کیسے بچ سکیں گے ۔ ہم اس تقلید کے داعی ہیں جس میں امام بھی صراطِ مستقیم پر ہو اور اس کی اتباع کرنے والے بھی صراطِ مستقیم پر ہوں ۔ اور اس کا ذکر بھی قرآن مجید میں کیا گیا ۔ باپ دادا کی تقلید کی بات کی جائے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی باپ دادا کی تقلید کا ذکر کیا ۔ چنانچہ جب ان سے پو چھا گیا کہ آپ اپنا مٶقف ظاہر کیجیے کہ آپ کس ملت پر ہیں تو آپ نے فر مایا : واتبعت ملۃ آبائی ابراھیم و اسحاق و یعقوب ۔ (سورہ یوسف،آیت:۳۸) ، میں نے پیروی کی اپنے باپ دادا ابراہیم ، اسحاق اور یعقوب کے دین کی ۔ تو یہاں پر بھی باپ دا دا کی تقلید کی بات کی جارہی ہے مگر شریعت اس کی مذمت نہیں کر تی بلکہ اس کی تعریف کر تی ہے ۔


افسوس ! آج ایک طرفہ ٹریفک چل رہی ہے ۔ کفار و مشر کین والی آیات مسلمانوں پر چسپاں کیا جا رہا ہے ۔ کہ دیکھو وہ کفار اپنے باپ دادا کی تقلید کی بات کر تے تھے اور یہ لوگ بھی اپنے پیشوا اور بزرگوں کی تقلید کی بات کر تے ہیں ۔ یہ قر آن مجید کی آیتوں کے ساتھ کتنا بڑا ظلم ہے ۔ وہ آیا ت ان لوگوں کے بارے میں میں ہیں جن کے باپ دادا کفر و شرک میں ڈوبے ہو ئے تھے ۔ تو لازماً ان کی تقلید کر نے والے بھی ہلاک و برباد ہوں گے ۔مگر جن کے پیشوا اور بزرگ ہدایت کے مینار ہوں صراطِ مستقیم پر ہوں تو ان کے پیرو کار بھی لازماً ہدایت پائیں گے ۔ اسی لیے حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا : میں نے اپنے باپ دادا ابراہیم ، اسحاق اور یعقوب کی پیروی کی ۔ اور خود اللہ تعالی نے اس کا حکم دیا : چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے : واتبع سبیل من اناب الیّ ، پیروی کرو ان لو گوں کے راستے کی جو لوگ میری طرف جھکے ۔ اس لیے ان آیات کے در میان فرق نہ کر نا اور مسلمانوں پر اللہ کے نیک بندوں کی تقلید کی وجہ سے کفر و شر ک کا فتوی لگانا یہ ابلیسی روش ہے جس سے نہ اللہ عزوجل خوش ہے اورنہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسم ۔


دین کے اندر تین طرح کی باتوں میں کسی کی تقلید نہیں : ⏬


(۱) دین کے بنیادی عقائد ۔


(۲) جو احکام شر عیہ تواتر سے ثابت ہوں ۔


(۳) قرآنِ مجید اور احادیثِ صحیحہ کے وہ صاف اور صریح احکام جو یقینی اور قطعی طور پر ثابت ہیں اور اس کا کو ئی معارض نہیں ۔ جیسے پانچ وقت کی نمازوں کا فرض ہونا ۔ رمضان المبارک کے روزے ، زکوٰۃ اور حج وغیر ہ کی فر ضیت ۔


تقلید صرف ان مقامات میں کی جاتی ہے جہاں مسئلہ واضح نہ ہو اور اس کو سمجھنے کےلیے کثیر علوم و فنون کی ضرورت ہو جیسے قرآن حکیم میں طلاق شدہ عورتوں کی عدت کا تذ کرہ کرتے ہو ئے اللہ تعالی نے ارشاد فر مایا : والمطلقت یتر بصن بانفسھن ثلاثۃ قروئ ۔ (البقرہ،آیت:) ، طلاق شدہ عورتیں روکیں رکھیں اپنے آپ کو تین ’’ قروء ‘‘ تک ۔ اب عربی زبان میں لفظِ ’’قروء‘‘ کے دو معانی آتے ہیں ، ایک حیض (یعنی ماہواری) اور دوسرا طہر (یعنی پاکی) اور دونوں اس لفظ کے حقیقی معانی ہیں ۔ اب ایسی صورت میں آیتِ کر یمہ کے اندر کس معنیٰ کو لیا جائے اور کس کو چھوڑ دیا جائے ۔


یونہی بیوہ عورت کی عدت قرآن حکیم میں ایک جگہ اس طر ح بیان کیا گیا ہے : والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا وصیۃ لازواجھم متاعا الی الحول غیر اخراج ۔ (البقرہ، آیت:۲۴۰) ، جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور اپنی بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنی بیویوں کو نکالے بغیر ایک سال کی وصیت کر جائیں ۔ یعنی اس آیت کر یمہ میں بیوہ عورت کی عدت ایک سال بیان کیا گیا ۔ اور دوسری آیت میں بیوہ عورت کی عدت چار مہینہ دس دن بیان کیا گیا چنا نچہ ارشاد ربانی ہے : والذین یتوفون ازواجا منکم و یذرون ازواجا یتر بصن بانفسھن اربعۃ اشھر و عشرا ۔ (البقرہ،آیت:۲۳۴) ، اور جو تم میں سے اپنی بیویوں کو چھوڑ کر انتقال کر جایئں تو وہ اپنے آپ کو روکیں رکھیں چار مہینہ دس دن ۔


اب فیصلہ یہ کر نا ہے کہ ہم کس آیت پر عمل کر یں اور کس پر نہیں دونوں اللہ عزوجل کا فر مان ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ نئے مسائل جو وقت کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں جب ان کا واضح حل قرآن و احادیث میں نہ ہو ، ایسی تمام صورتوں میں اپنے سے کو ئی فیصلہ کر نے کے بجائے کسی ایسے شخص کے فیصلے کو مانا جاتا ہے ، جن کی نظر میں احکام کی تمام آیتں اور احادیث ہوں اور علومِ عر بیہ نحو و صرف ، بلاغت وغیرہ کا ماہر ہو اور جو ہر اعتبار سے دوسرے لو گوں کے بالمقابل زیادہ قرآن و حدیث کا سمجھنے والا ہوساتھ ہی تقوی و طہارت میں بھی کامل ہو ۔ یہی وہ صورتیں ہیں جن میں تقلید کی جاتی ہے جس کے صحیح ہو نے میں کو ئی شبہ نہیں ۔


اعتراض : جب قرآن و حدیث موجود ہیں تو تقلید کیوں ؟

جواب : بے شک قرآن و احایث میں سب مسائل مو جود ہیں ۔ اور ابھی گذرا کہ تمام مسائل میں تقلید نہیں کی جاتی بلکہ صرف ان مسائل میں جو پیچیدہ ہیں  اور ان کا سمجھنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ۔جیسے یہ تو ہر آدمی جا نتا ہے کہ دن رات میں پانچ نمازیں فر ض ہیں اور سب کا وقت بھی معلوم ہے ۔مگر کچھ ایسے مما لک ہیں جہاں دو دوتین تین مہینہ سورج نکلتا ہی نہیں رات ہی رات ہو تی ہے ۔تو وہاں کے لو گ کیا کریں ؟صرف مغرب اورعشاء پڑ ھے یا پانچوں نماز ؟اور اگر پانچوں نماز تو وقت کیسے متعین کر یں ۔احادیث میں تو ظہر کا وقت سورج کے اعتبار سے بتایا گیا ہے۔کہ جب وہ ڈھلے تو ظہر کا وقت شروع ہو جا تا ہے۔وہاں تو سور ج نکلا ہی نہیں تو اب کیسے ان لو گوں کو ظہر پڑ ھنے کا حکم دیا جائے؟ہمارا ایمان ہے کہ قرآن و احادیث میں سب کچھ ہے ،کچھ چیزیں واضح ہیں اور کچھ مجمل ومبہم ۔انہیں کو سمجھنے کے لئے ائمہ اور ان کی تقلید کی ضرورت ہے۔تا کہ ان کے ذریعے سے ہم ان احکام کو بھی سمجھ لیں جو قرآن و احادیث میں اشاروں کے اندر بتا یا گیا ہے ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے سمندر کے تہوں میں موتی یقیناً موجود ہوتے ہیں مگر ان کا پا لینا اور اور وہاں سے نکال کر لے آنا صرف اس کے ماہروں ہی کا کام ہے اگر عام آدمی نکالنے کی کوشش کرے گا تو اس کا انجام ہلاک ہونا ہے ۔


اعتراض : تقلید کے جواز پر کوٸی دلیل موجود نہیں ۔

جواب : تقلید کے جواز پر متعد د دلائل ہیں ۔ ان میں سے چند یہ ہیں ۔ (۱) قرآن مجید میں اللہ تعالی فر ماتا ہے :فلولا نفر من کل فر قۃ منھم طائفۃ لیتفقھو فی الدین و لینذروا قومھم اذارجعواالیھم لعلھم یحذرون ۔ (سورہ توبہ،آیت:۱۲۲) ، تو کیوں نہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلی تا کہ وہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور جب لوٹ کر آئے تو اپنی قوم کو ڈرائے تا کہ وہ (بری باتوں)سے بچیں ۔

اس آیت کر یمہ میں اللہ تعالی نے صرف بعض مسلمانوں پر یہ ذمہ داری ڈالی کہ وہ دین کی سمجھ حاصل کر کے اپنی قوم تک احکام کو پہنچائیں تو قوم پر ضروری ہوا کہ وہ ان کی بات مانے اور ان کی پیروی کرے ۔ یہی تقلید ہے ۔


(۲) حکم الہی ہے : اطیعوا اللہ و اطیعوا الر سول و اولی الامر منکم ، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے میں سے حکم والوں کی ۔ یہ ’’اولی الامر‘‘ کون ہے ؟ جس کی اطاعت کا حکم دیا جا رہا ہے ۔ مفسر قرآن سیدنا عبد اللہ بن عباس ، امام مجاہد اور حسن بصری رضی اللہ عنہم کہتے ہیں : اولی الامر ، سے مراد فقہاء ہیں ۔ (جامع البیان للطبری جلد ۴ صفحہ ۲۰۶ ۔ ۲۰۷)

اگر بادشاہِ اسلام بھی ہو جیسا کہ دوسرے مفسرین کہتے ہیں تب بھی ظاہر ہے کہ بادشاہ کی بات اسلامی احکام کے دائرے ہی میں ہو گی تب ہی وہ اسلامی بادشاہ ہو گا ۔ بہر صورت وہ لوگ جو قرآن و سنت سے مسائل اخذ کر کے بتا تے ہیں ان کی پیروی کرنا بحکم قرآنی ماننا ضروری ہے ۔ تو ثابت ہوا کہ وہ ائمہ جنہوں نے دین کا علم انتہا ئی گہرائی اور گیرائی سے حاصل کیا ان کی بات ما ننا اور اس پر عمل کرنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ عوام کےلیے ضروری ہے ۔ اور اس کو نا جائز کہنا سراسر باطل اور غلط ہے ۔


(۳) نیز اللہ عزوجل نے دوسری جگہ ارشاد فر مایا : فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون ۔ (سورہ نحل،آیت:۴۳) ، جس چیز کو تم نہیں جانتے ہو اس کو جاننے والوں سے پو چھو ۔ اس آیتِ کر یمہ سے معلوم ہوا کہ جو آدمی احکامِ شرعیہ کو بذات خود حاصل نہیں کر سکتا اس پر لازم ہے کہ وہ عمل کرنے کےلیے اہلِ ذکر اور اہلِ علم یعنی ائمہ مجتہدین سے پو چھے کیونکہ وہی براہِ راست احکام شر عیہ اصل ماخذ سے حاصل کر تے ہیں ۔ اسی لیے مفسر ین کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ عام آدمی کےلیے مسائل فر عیہ میں مجتہد کی تقلید ضروری ہے ۔


امام غزالی علیہ الرحمہ نے عام آدمی کی تقلید پر دو دلیلیں قائم کی ہیں ۔ایک یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس پر اجماع تھا کہ وہ عام آدمی کو مسائل بتاتے تھے اور اس کو یہ نہیں کہتے تھے کہ وہ درجہ اجتہاد کا علم حاصل کرے ۔ اور دوسری دلیل یہ کہ عام آدمی پر احکامِ شرعیہ کا بجا لانا ضروری ہے تو اگر ہر آدمی درجہ اجتہاد کا علم حاصل کرنے کا مکلف ہو تو زراعت ، صنعت و حرفت اور تجارت بلکہ دنیا کے تمام کاروبار معطل ہو جائیں گے کیونکہ ہر آدمی رات و دن علم کے حصول میں لگا رہے گا اور نہ کسی کےلیے کچھ کھانے کو ہو گا اور نہ کچھ پہننے کو اور دنیا کا نظام بر باد ہو جائے گا ۔ حرج عظیم لاحق ہو گا اور یہ بداہتہََ باطل ہے ۔ ثابت ہو اکہ ہر آدمی پر اتنا علم سیکھنا ضروری نہیں اور عمل بہر حال کر ناہے تو سوائے اس کے جاننے والوں سے پوچھ کر عمل کریں اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اور یہی تقلید ہے ۔


اعتراض : اگر تقلید جائز ہی ہے تو کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی تقلید کی ؟ کیا وہ بھی حنفی ، شافعی ، مالکی اور حنبلی تھے ، جب وہ نہیں تو ہم کیوں ؟

جواب : اس اعتراض کو ذرا سا بدل کر ہم یہ کہیں کہ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی بخاری ، مسلم ، ترمذی وغیرہ سے احادیث دیکھ کر مسائل بتاتے تھے ، اور اگر وہ نہیں تو ہم کیوں ؟ تو یقیناً لوگ ہمیں جاہل ، بکواس کر نے والا ، عقل کا اندھا اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازیں گے ۔ مگر ہم اس طرح کے سوال کرنے والوں کو اپنی زبان سے کچھ نہیں کہتے ۔ رہی بات صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم کی تقلید کرنے اور نہ کرنے کی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زند گی کے مطالعہ کر نے والوں سے یہ بات مخفی نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مختلف در جے کے صحابی تھے ، کوئی فقیہ تھے تو کوئی ان سے پوچھ کر عمل کرنے والے ۔ غیرمقلدین کے امام ابن قیم جوزی اپنی کتاب اعلام المو قعین میں تحر یر کر تے ہیں کہ : ۱۱۴۹ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اہل فتوی تھے اور ان میں سے سات شخصیات کثیر الفتاوی تھیں ۔ وہ حضرت عمر ، حضرت علی ، حضرت عبد اللہ بن مسعود ، ام المو منین حضرت عائشہ ، حضرت زید بن ثابت ، حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم ہیں ۔ (اعلام المو قعین جلد ۱ صفحہ ۲۱،چشتی)


معلوم ہو ا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اپنے سے زیا دہ علم والے صحابہ سے مسائل معلوم کرکے عمل کر تے تھے ۔ اس لیے تقلید کا انکار کرنا اور یہ کہنا کہ نعوذ باللہ یہ شر ک ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر شرک کا الزام لگانا ہے ۔


اعتراض : اگر یہی بات ہے تو انہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تقلید کیوں نہ کی جائے امام اعظم ابو حنیفہ یا دوسرے کی کیوں ؟

جواب : اس کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ ان ائمہ کی تقلید حقیقت میں اللہ و رسول اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کی اتباع ہے کیو نکہ یہ حضرات اپنی طر ف سے مسائل بیان نہیں کرتے بلکہ قرآن و احادیث و اقوال صحابہ کی روشنی میں ہی مسائل بتا تے ہیں ۔ رہی بات ان ائمہ کی تقلید کی تو اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں دیگر اسلامی ضروریات کے تقاضے کی تکمیل کی وجہ سے اور ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے ایسے اصول و قواعد وضع نہیں ہوئے جو ہر نو پید مسئلے میں رہنما کی حیثیت رکھتا ہو ، اور نہ ہی اس دور میں فقہ کی تدوین ہو سکی یہ سب کا م ان ائمہ کے دور میں ہوا اس لیے اس وقت کے تقریباً تما م مسلمانوں نے ان چاروں امام میں سے کسی ایک کے مسلک کو اپنا لیا ۔


چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ تحریر فر ماتے ہیں : اور داسری صدی کے بعد لو گوں میں کسی ایک مجتہد کے مذہب کو اختیا ر کر نا رائج ہو گیا اور کم ہی کو ئی ایسا بچا جو کسی ایک مجتہد کا مقلد نہ ہو گیا ہو اور اس دور میں ایسا ہی کرنا واجب ٹھرا ۔ (الانصاف فی بیان سبب الا ختلاف صفحہ ۱۹)

اور یہی شاہ صاحب علیہ الرحمہ اسی کتا ب میں تھوڑا آگے چل کے تحریر فر ماتے ہیں : خلاصہ یہ ہے کہ مجتہدین میں سے کسی ایک کے مذہب کو اختیار کر نا ایک راز ہے جسے اللہ تعالی نے علما کے دلوں میں ڈالااور انہیں اس پر جمع کر دیا ۔ ثابت ہوا کہ تقلید پر اس امت کا اجماع ہے ۔ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فر مایا بے شک اللہ میری امت کو گمراہی پر جمع نہ فر مائے گا ۔ اور جماعت کے ساتھ خدا کی مدد ہے ۔ اور جو الگ رہے گا وہ بروز قیا مت بھی سب سے الگ کر کے جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔ (تر مذی باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)

نیز یہی شاہ صاحب علیہ الرحمہ اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں تحریر فر ماتے ہیں : چاروں فقہی مذاہب جو اس وقت رائج ہیں ان میں سے کسی ایک کی تقلید پر زمانہ قدیم سے لے کر آج تک امت اسلامیہ کا اتفاق رہا اور اس میں بڑی مصلحتیں ہیں بالخصوص ہمارے دور میں تو اس پر عمل کرنا بہت ضروری ہے کیوں کہ آج کل عقلوں میں کوتا ہی آچکی ہے اور لوگوں کے دلوں میں خواہشات نفسانیہ بھری ہوئی ہیں اور ہر شخص اپنی عقل اور سمجھ کو سب سے بہتر سمجھتا ہے اس لئے ان مذاہب میں سے کسی ایک کی تقلید ضروری ہے ۔ (حجۃ اللہ البالغہ صفحہ ۱۵۴،چشتی)


دنیا میں پھیلے تمام مسلمانوں کا جائزہ لیا جائے تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ سوائے مٹھی بھر لوگوں کے سارے مسلمان آج بھی کسی نہ کسی امام کے مقلد ہیں ۔ لہٰذا عام مسلمانوں کے طر یقے سے ہٹ کر راستہ اپنانے والوں کو چاہیے کہ وہ اس آیت کریمہ کو غور سے پڑھیں ۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے : اور جو کوئی ہدایت کے ظاہر ہونے کے باوجود مخالفت کرے رسول کی اور سب مسلمانوں کے راستے کے خلاف چلے ، تو اس کو ہم پھیر دیں گے اسی کی طرف جو اس نے اختیار کیااور ہم اس کو دوزخ میں ڈال دیں گے ۔ اور وہ بہت بری جگہ پہنچا ۔ (سورہ نساء آیت:۱۱۵) ۔ اور اپنے انجام کی فکر کریں ۔ اور رہی بات ان صحابہ رضی اللہ عنہم کی تقلید کی دعوت دینے والوں کی تو انہیں پہلے چاہیے کہ وہ اپنے علماء کی کتابوں کو چھاپنا اور پڑھنا بند کر کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے مسلک اور ان کے بیان کردہ شر عی و فقہی اصول و قواعد کو تحر یری شکل میں دنیا کے سامنے پیش کریں جو تمام مسائل کے حل کےلیے کافی ہو پھر ان کی تقلید کی دعوت دیں ۔


ایک دھوکا اور اس کی حقیقت : ⏬


قرآن حکیم میں کچھ ایسی بھی آیات ہیں جن میں تقلید کی مذمت کی جاتی ہےیں ، اور اس سے انسانوں کو روکا گیا ہے ۔ مگر ان آیتوں کے اندر تقلید سے مراد وہ تقلید ہے جو صاف اور صریح حکم خداوندی کے ہوتے ہوئے انسان اس کے مقابلے میں اپنے ایسے باپ دادا کی تقلید کرے جو خود حق پر نہ تھے ۔ مگر اس دور کا یہ المیہ ہے کہ ایک جماعت جو غیر مقلد ، وہابی ، سلفی اور اہل حدیث وغیرہ کے نام سے مشہور ہے ۔ ان کا خاص کام ہی یہ ہے کہ جو آیات کافروں اور مشر کوں کے بارے میں نازل ہوئیں وہ مسلمانوں پر چسپاں کرکے امت کو گمراہ کرنے میں لگی ہوئی ہے ۔ وہ حضرات انہیں آیات کو دیکھا کر مسلمانوں کے سوادِ اعظم جو مقلد ہیں اور جس سواد اعظم کے ساتھ رہنے کی مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہا تلقین فر مائی ہے ۔ دھوکا دیتے رہتے ہیں اور وہ لوگ جو دین سے دور اور قرآنی تعلیمات سے نا آشنا ہیں ان کے دامِ فریب میں الجھ کر اپنی عاقبت برباد کر لیتے ہیں ۔ اس لیے اس قسم کی آیات کی کیا حقیقت ہے ؟ اس کے بارے میں فقیر چشتی اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجائے خود ان کے مسلم پیشوا علامہ ابن قیم جوزی کی وضاحت قارئین کی نذر کرتا ہے ۔ ایسی آیات جن میں تقلید کی مذمت کی گئی ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ ابن قیم جوزی تحریر کرتے ہیں : اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ خدائے قدوس نے اس شخص کی مذمت کی ہے ، جس نے اپنے باپ داداؤں کی تقلید کی اور اس کے نازل کردہ احکامات سے روگردانی کی ۔ایسے ہی تقلید کی حرمت اور مذمت پر ائمہ کرام اور سلف صالحین متفق ہیں ۔ البتہ جس نے احکامِ خداوندی کی تحقیق و تفتیش میں پوری کوشش صرف کر دی اور صحیح نتیجہ تک نہ پہنچ سکا اور اس نے اپنے سے زیادہ جاننے والے کی تقلید کرلی تو یہ اچھا ہے برُا نہیں ۔ اس پر وہ اجر و ثواب کا مستحق ہوگا نہ کہ گناہ کا ۔ (اعلام الموقعین جلد ۲ صفحہ ۴۳۸)


علامہ ابن قیم جوزی کی اس عبارت سے صاف واضح ہوا کہ جن آیات میں تقلید کی مذمت کی گئی ہے اور جس تقلید کی حرمت پر سلف صالحین اور ائمہ کرام نے اجماع کیا ہے وہ انسان کا خداوند قدوس کے احکام کو چھوڑ کر اپنے آباء واجداد کی تقلید کرنا ہے نہ کہ ان مقدس علمائے ربانین کی تقلید جنہوں نے پوری زندگی اسلام کی خدمت میں صرف کردی اور اللہ کے بندوں تک اللہ کے پیغام کو پہنچاتے رہے ۔


للہ انصاف ، سو چیے ! کیا قرآن و احادیث کے ماہر کی تقلید کرنا اور کافر و مشرک باپ دادؤں کی تقلید کرنا ، کیا دونوں ایک جیسا ہے ؟ ۔ ایک طرف قرآن و احادیث کے بتانے والے اور ان ہی پر عمل کی دعوت دینے والے ہیں اور دوسری طرف اللہ و رسول کو چھوڑ کر بے بنیاد باتوں پر یقین رکھنے والے ۔ تو کیا دونوں کا حکم ایک ہوگا ؟ ۔ یہ کون نہیں جانتا کہ اجالا اور اندھیرا دو الگ الگ چیزیں ہیں ایک کا حکم دوسرے پر لاگو نہیں کیا جا سکتا ، مگر بُرا ہو انسانیت کے ان دشمنوں کا جو دونوں کو ایک جیسا سمجھتے ہیں اور دونوں کو ایک حکم میں رکھتے ہیں اور لوگوں کو اسی کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اسی ظلم عظیم کو اسلام کی خدمت تصور کرتے ہیں ۔ سچ کہا ہے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ سب سے بد بخت اور شریر لوگ وہ ہیں جو کافروں سے متعلق آیات کو مسلمانوں پر چسپاں کرتے ہیں ۔ کیونکہ انسان کو غلط راستے کی طرف جان بوجھ کر لے جانا یہ انسانوں کے ساتھ سب سے بڑا ظلم ہے ۔ اللہ ہم سب کو صحیح راستے پر چلنے کی توفیق عطا فر مائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمائیں مجھ سے مانگو نجدی کہیں شرک ہے ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمائیں مجھ سے مانگو نجدی کہیں شرک ہے ؟ محترم قارئینِ کرام : حَدَّثَنَا ہَشَّامُ بْنُ عَمَّارٍنَا الْھَقْل...