Wednesday, 23 April 2025

کیا حضرت ہند نے حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہما کا کلیجہ چبایا تھا ؟

کیا حضرت ہند نے حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہما کا کلیجہ چبایا تھا ؟

محترم قارئینِ کرام : تاريخى كتابوں ميں منقول ہے كہ حضرت ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے حضرت امیر حمزه رضی اللہ عنہ كا كليجہ چاک كر ديا اور منہ ميں ڈال كر چبايا اور نگلنا چاہا ليكن نگل نہ سكى تو تهوک ديا ، اور كٹے ہوئے كانوں اور ناكوں كا پازيب اور ہار بنايا ۔ سچ یہ ہے کہ اس قصے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ روایت چند کتب احادیث تاریخ و تفاسیر میں وارد ہوئی ہے مگر اس کی سند منقطع ہے ۔ یعنی یہ روایت مرسل ضعیف ہے ۔ ابن كثير نے البدايہ والنہايہ ميں بغير سند كے نقل كيا ہے جو كہ ضعيف ہے ۔ ابن ہشام نے منقطع سند كے ساتھ نقل كيا ہے اور يہ بهى ضعيف ہے ۔ واقدى كى ایک روايت سخت ضعيف ہے ۔ دوسرے يہ كہ حقائق کے برعکس ہونے کے باعث اس کا متن منکر ہے ۔ سب سے پہلے ہم مذکورہ روایت کو دیکھتے ہیں : ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں ابن اسحاق سے بھی نقل کیا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ ھند نے عورتوں کے ساتھ مل کر مثلہ کیا ، جبکہ ابن کثیر والی روایت میں ‌ہے کہ وحشی نے کلیجہ نکال کر ہند کو دیا تھا ۔ جبکہ دونوں روایتیں ہی انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہیں ۔


امام احمد نے مذکورہ روایت کو بیان کیا ہے جس کی سند یہ ہے : حدثنا عفان، حدثنا حماد، حدثنا عطاء بن السائب، عن الشعبي، عن ابن مسعود، أن النساء كن يوم أحد خلف المسلمين ۔۔۔ الخ ۔ (مسند احمد برقم : 4414)


مذکورہ سند میں امام عطاء بن سائب سے بیان کرنے والا راوی امام حماد بن سلمہ ہے جیسا کہ اس روایت کو امام ابن ابی شیبہ نے بھی بیان کیا ہے جس میں مکمل نام کی تصریح موجود ہے : جیسا کہ امام ابن ابی شیبہ اپنی مصنف میں اپنی سند سے مذکورہ روایت بیان کرتے ہیں : عفان , قال: حدثنا حماد بن سلمة , قال: أخبرنا عطاء بن السائب , عن الشعبي , عن ابن مسعود , أن النساء , كن يوم أحد خلف المسلمين۔۔۔الخ ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ برقم: 36783،چشتی)


مذکورہ روایت کا بنیادی راوی امام عطاء بن سائب ہے جنکو اختلاط ہو گیا تھا اور حافظہ متغیر ہو گیاتھا جس کی وجہ سے متقدمین ناقدین نے اس کے تلامذہ کی تخصیص کی ہے کہ عطاء سے ان کے قدیم تلامذہ کا سماع صحیح ہے اور عطاء کے متاخرین تلامذہ کا سماع ضعیف ہے ۔


وقال يحيى القطان : ما سمعت أحدا من الناس يقول في عطاء بن السائب شيئا في حديثه القديم، قيل ليحيى: ما حدث سفيان وشعبة أصحيح هو؟ قال: نعم إلا حديثين كان شعبة يقول: سمعتهما بأخرة ۔

ترجمہ : امام یحییٰ کہتے ہیں میں نے عطاء بن سائب کی احادیث ان لوگوں سے سماع کی ہےجن کا سماع (عطاء) سے قدیم ہے ۔ تو امام یحییٰ سے کہا گیا کہ سفیان اور شعبہ کا سماع ان سے صحیح ہے ؟ تو کہا ہاں سوائے شعبہ کی ان دو احادیث کے جو انہوں نے (عطاء) سے آخری دور میں سنی ۔ (تاریخ الکبری للبخاری رقم : 3000)(الجرح والتعدیل ابن ابی حاتم)


 وقال عبد الله: سألته (يعني أباه) عن عطاء بن السائب. فقال: صالح، من سمع منه ـ يعني قديماً ـ وقد تغير، فإنه ليس بذاك ۔

ترجمہ : امام عبداللہ بن احمد بن حنبل ؒ کہتے ہیں میں نےاپنے والد سے سوال کیا عطاء بن سائب کے بارے تو انہوں نے کہا یہ صالح ہے جب ان سے سماع کرنے والے قدیم (تلامذہ) ہو۔ اور جنہوں نے (اس کے) تغیر میں (سماع) کیا ہے تو وہ کچھ بھی نہیں ہے (یعنی ضعیف ہے) ۔ (العلل برقم : 882)


وقال أبو طالب: سألت أحمد، يعني ابن حنبل، عن عطاء بن السائب. قال: من سمع منه قديماً كان صحيحاً، ومن سمع منه حديثاً لم يكن بشيء، سمع منه قديماً شعبة، وسفيان ۔

ترجمہ : امام ابو طالب کہتے ہیں میں نے امام احمد سے سوال کیا عطاء بن سائب کے بارے تو انہوں نے کہا : جس نے اس سے قدیم (زمانے) میں سماع کیا ہے وہ صحیح ہے ۔ اور جس نے (بعدمیں ) سماع کیا ہے وہ کوئی شی نہیں ہے ۔ اور اس سے قدیم سماع کرنے والوں میں امام شعبہ اور امام سفیان ثوری ہیں ۔ (الجرح والتعدیل رقم : 1848،چشتی)


وكان ثقة. وقد روى عنه المتقدمون. وقد كان تغير حفظه بآخره واختلط في آخر عمره ۔

ترجمہ : یہ ثقہ تھا جب اس سے روایت کرنے والے اس کے قدیم (تلامذہ) ہوں ۔ اس کا حافظہ متغیر ہو گیا تھا آخر میں اور اس کی عمر کے آخر میں اسکو اختلاط واقع ہو گیا ۔ (الطبقات الكبرى بن سعد رقم : 2510)


كوفى تابعي جائز الحديث وقال مرة كان شيخا قديما ثقة روى عن بن أبي أوفى ومن سمع من عطاء قديما فهو صحيح الحديث منهم سفيان الثوري فأما من سمع منه بأخرة فهو مضطرب الحديث منهم هشيم وخالد بن عبد الله الواسطي إلا أن عطاء كان بأخرة يتلقن ۔

ترجمہ : یہ کوفی تابعی ہے اور جائز الحدیث ہے اور پھر کہا یہ ثقہ تھا قدیم (زمانے کے حوالے سے)۔ ا س نے ابن ابی اوف سے ۔ اور جو عطاء سے قدیم تلامذہ کا سماع ہے وہ صحیح ہے حدیث میں ان میں سفیان ثوری ہے ۔ اور جن کا سماع ان سے آخری زمانہ کا ہے اس میں یہ مضطرب الحدیث تھا متاخرین سماع میں ھشیم ، خالد بن عبداللہ ہیں اسکے علاوہ عطاء آخری عمر میں تلقین بھی (قبول)کرتے ۔ (الثقات للعجلی رقم : 1237،چشتی)


نا عبد الرحمن قال سمعت أبي يقول كان عطاء بن السائب محله الصدق قديما قبل ان يختلط صالح مستقيم الحديث ثم بأخرة تغير حفظه في حديثه تخاليط كثيرة وقديم السماع من عطاء سفيان وشعبة، وحديث البصريين الذين يحدثون عنه تخاليط كثيرة لانه قدم عليهم في آخر عمره، وما روى عنه ابن فضيل ففيه غلط واضطراب ۔

ترجمہ : امام ابن ابی حاتم کہتے ہیں میں نے اپنے والد کو کہتے سنا : عطاء بن سائب سچا تھا ۔ اور محفوظ حدیث والا تھا کہ پھر عمر کے آخری حصے میں اس کا حافظہ متغیر ہو گیا ۔ اور اس کی احادیث میں کثیر غلطیاں واقع ہوئیں ہیں ۔ جس نے قدیم سماع کیا عطا ء سے ان میں سفیان اور شعبہ ہیں ۔ اور جو بصرہ میں اس نے لوگوں کو احادیثث بیان کی وہ اختلاط کی حالت کثیر غلطیاں کی ۔ کیونکہ عمر کے آخری حصے میں یہ وہاں آئے تھے ۔ اور جو ابن فضیل ان سے روایت کرتا ہے اس میں بھی غلط احادیث ہیں اور اضطراب ہے ۔ (الجرح والتعدیل ابن ابی حاتم رقم : 1848)


امام ابو حاتم کا یہ کلام قابل غور ہے کہ جب دوسری بار امام عطاء بصرہ گئے تو ان کا حافظہ بہت زیادہ خراب تھا اور کثیر غلطیاں کی بصرہ میں روایت کرنے میں ۔


امام یحییٰ بن معین کے بقول امام حماد بن سلمہ کا سماع بھی امام عطاء سے قبل از اختلاط ہے جیسا کہ امام الدوری روایت کرتے ہیں : سمعت يحيى يقول حديث سفيان وشعبة بن الحجاج وحماد بن سلمة عن عطاء بن السائب مستقيم ۔

ترجمہ : امام یحییٰ بن معین سے سنا وہ کہتے ہیں کہ جو حدیث سفیان شعبہ اور حماد بن سلمہ نے عطاء سے بیان کی ہیں وہ محفوظ ہیں ۔ (تاریخ یحییٰ بن معین بروایت الددوری رقم : 1465،چشتی)


بعض ضدی حضرات اگر یہ دعویٰ کریں کہ مذکورہ روایت بھی حماد بن سلمہ نے بیان کی ہے عطاء سے تو روایت صحیح ہوئی تو یہ دعویٰ ابھی بھی ناقص ہے کیونکہ امام حماد بن سلمہ کا سماع عطاء سے قبل از اختلاط بھی ہے اور بعد از اختلاط بھی ثابت ہے ۔ جیسا کہ امام مغلطائی الحنفی اکمال میں امام دارقطنی کی کتاب الجرح والتعدیل سے نقل کرتے ہیں : وفي كتاب ” الجرح والتعديل ” عن الدارقطني: دخل عطاء البصرة دخلتين فسماع أيوب، وحماد بن سلمة في الدخلة الأولى صحيح. والدخلة الثانية فيه اختلاط ۔

ترجمہ : اور کتاب الجرح والتعدیل میں امام دارقطنی سے روایت ہے : کہ عطاء بصرہ میں دو مرتبہ آئے تو ان سے ایوب، حماد بن سلمہ نے پہلی بار جو سماع کیا جو کہ صحیح ہے ۔ اور جب وہ دوسری بار آئے تو تب ان میں اختلاط تھا ۔ (اكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال رقم : 3715)


اس سے ثابت ہوا کہ عطاء سے حماد بن سلمہ نے بصرہ میں دو بار سماع کیا ہے پہلی بار میں انکا سماع جب تھا تب عطاء ٹھیک تھا لیکن جب دوسری بار حماد بن سلمہ اور ایوب نے بصرہ میں سماع کیا تب اختلاط شدہ تھا عطا اور بقول امام ابو حاتم بصرہ میں دوسری بار جب یہ گئے تو ان کی روایات میں کثیر غلطیاں تھیں ۔


اب حماد سے عطاء کی روایات میں تمیز نہیں ہو سکتی کہ کونسی روایات قبل اختلاط ہیں اور کونسی بعد از اختلاط ہیں جس کی وجہ سے یہ روایت ساقط الاعتبار ہے ۔


اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ امام دارقطنی کی بنام الجرح والتعدیل کتاب موجود نہیں ہے اور وہ امام مغلطائی اس کتاب کا حوالہ دینے میں منفرد ہیں ۔ تو یہ کوئی علمی اعتراض نہیں کیونکہ امام مغلطائی حنفی ایک ثقہ جید محدث ہیں اور محدث جب کتاب کے حوالے سے کوئی روایت مصنف کی نقل کرے تووہ حجت ہوتی ہے ۔ باقی اس کتاب کا حوالہ دینے میں امام مغلطائی الحنفی منفرد بھی نہیں بلکہ امام ابن حجر عسقلانی نے بھی اس کتاب کا تذکرہ کیا ہے جیسا کہ وہ اس کتاب سے امام دارقطنی کے اقوال نقل کیے ہیں : ⏬


وقال الدارقطني في الجرح والتعديل: “ثقة ۔ (تہذیب التہذیب رقم : 199)


وقال الدارقطني في الجرح والتعديل ثقة ۔ (تہذیب التہذیب رقم : 15)


امام ابن حجر عسقلانی نے اس کتاب سے ۱۲ سے زیادہ جگہ پر فقط تہذیب میں اس کتاب کے حوالے سے امام دارقطنی کے اقوال لکھے ہیں اور اس کے علاوہ بھی اور محدثین نے نقل کیے ہیں اس کتاب سے امام دارقطنی کے اقوال تو فقط ایک مثال کافی ہے ۔ نیز یہ جرح نقل کرنے میں امام مغلطائی منفرد نہیں بلکہ امام سلمی نے بھی یہ جرح امام دارقطنی نے بیان کی ہے : و قال الشيخ: دخل عطاء بن السائب البصرة، وجلس؛ فسماع أيوب وحماد بن سلمة في الرحلة الأولى صحيح، والرحلة الثانية فيه اختلاط ۔

ترجمہ : شیخ (دارقطنی) نے کہا کہ عطاء بن سائب بصرہ میں مجلس قائم کی پھر ان سے ایوب اور حماد بن سلمہ نے پہلی مرتبہ سماع کیا جو کہ صحیح ہےاور دوسری بار جب کیا (سماع) تو ان (عطاء) میں اختلاط تھا ۔ (سؤالات السلمي للدارقطني رقم : 478،چشتی)


اور جب تک اس علت کو رفع نہ کیا جائے کہ حماد بن سلمہ نے یہ روایت قبل اختلاط سنی یا بعد از اختلاط تو یہ علت قائم رہے گی جسکی وجہ سے روایت سے احتجاج نہیں کیا جا سکتا اور روایت ضعیف رہے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ : علمہ ابن کثیر نے اس روایت پر ضعف کا حکم لگایا ہے عطاء بن سائب کے سبب جیسا کہ وہ لکھتے ہیں : وهذا إسناد فيه ضعف أيضا من جهة عطاء بن السائب ، اور اس سند میں ضعف ہے عطاء بن سائب کے سبب ۔(البداية والنهاية جلد ۴ صفحہ ۴۶) ۔ اسی طرح امام ہیثمی کا بھی یہی موقف ہے وہ فرماتے ہیں : رواه أحمد، وفيه عطاء بن السائب؛ وقد اختلط ۔ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد رقم : 10072)


مزید یہ ہے حماد بن سلمہ کو بھی اختلاط ہو گیا تھا لیکن ان کی روایت بعدا ز اختلاط مطلق ضعیف تو نہیں ہوتیں لیکن ان کی روایات میں نکارت آگئی تھیں ۔ اور امام شعبی کا حضرت ابن مسعود سے سماع نہیں تھا لیکن یہ علت روایت کی صیحت کے منافی نہیں کیونکہ امام شعبی کی مرسیل حجت ہوتی ہیں ائمہ کے نزدیک ۔ اس لیے اصل علت اس روایت میں عطاء کا اختلاط اور حماد کا ان سے سماع کی تمیز نہیں قبل اور بعد اختلاط میں ۔


حقیقت یہ ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت میں سیدہ ہند رضی اللہ عنہا کا کوئی کردار نہ تھا ۔ نیز اس ضمن میں حضرت وحشی رضی اللہ عنہ سے سیدہ ہند رضی الله عنہا کی کوئی بات یا معاملہ طے نہ ہوا تھا ۔ اور نہ ہی حضرت وحشی رضی اللہ عنہ حضرت ہند رضی اللہ عنہا کے غلام تھے جیسا کہ دشمنانِ صحابہ نے دکھانے کی کوشش کی ہے ۔


حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نے غزوہ بدر میں طعیمہ بن عدی کو قتل کیا تھا اور جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ طعیمہ بن عدی کے بھتیجے تھے ، جو کہ اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے ۔ اور حضرت وحشی رضی اللہ عنہ بھی ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے۔ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ ، جناب جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے غلام تھے ۔ سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان ایمان لائے اور خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ میں فوت ہوئے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت وحشی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ حمزہ رضی اللہ عنہ نے میرے چچا طعیمہ بن عدی کو قتل کیا ہے ، اگر تم میرے چچا کے بدلہ میں حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کر دو تو تم آزاد ہو ۔ یہی وجہ تھی جس نے حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کو مجبور کیا کہ وہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیں ۔ اسی بات کو امام بخاری علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں ”کتاب المغازی“ کے عنوان ”قتل حمزة بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ“ کے تحت بیان کیا ہے ۔


اب یہ بھی دیکھیں کہ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ جب بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا مشرف بہ اسلام ہونا قبول كرتے ہوئے فرمایا کہ آپ اپنا چہرہ میرے سامنے نہ لایا کریں (الاصابة فی تمییزالصحابة) ۔ لیکن اس کے برعکس جب سیدہ ہند رضی اللہ عنہا اسلام لاتی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشی کا اظہار بھی فرماتے ہیں اور اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ہند رضی اللہ عنہا کے مابین ہونے والی فصیحانہ و بلیغانہ گفتگو کا تذکرہ بھی کتب میں موجود ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ہند رضی اللہ عنہا سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حوالہ سے کوئی بات نہیں فرمائی ؟ جب کہ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا چہرہ چھپانے کےلیے فرمایا ۔ حالانکہ حضرت ہند بنت عتبہ کا جرم قتل سے بھی سنگین تر تھا ۔ شہید کی لاش کا مثلہ کرنا، کلیجہ نکال کر چبانا ۔ اگر ان سے یہ جرم سرزد ہوا جس پر روایتی طور پر بحث ہو چکی کہ ستر سال کے بعد ابن اسحاق نے صالح بن کیسان کے نام سے ایک منقطع روایت پیش کی تو اس مجرم سے بھی اظہار نفرت ہونا چاہیے تھا نا ؟ ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ محبوب عمِ محترم کے مقدس جسد کا مثلہ کرنے والی کے گھر کو ”من دخل دار ابی سفیان فہو اٰمن“ دار ابی سفیان کو مثل حرم جائے پناہ قرار دیا گیا ۔ چہ معنی دارد ؟


مزید برآں فتح مکہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مقدس پر بیعت کرنے کے بعد حضرت ہندہ کا عرض کرنا کہ : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج سے پہلے روئے زمین پر آپ سے زیادہ مجھے مبغوض کوئی نہ تھا اور آج آپ سے زیادہ محبوب کوئی نہیں ۔ یہ تو الفاظ تھے حضرت ہندہ کے ۔ جواب میں سيد الانبیاء علیہم السلام نے کیا فرمایا ِ؟ ”وایضاً والذی نفسی بیدہ“ اس ذات کی قسم جن کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میرا بھی یہی حال ہے ۔ (یعنی حضرت ہند رضی اللہ عنہ کی عزت وحرمت محبوب ہے) عام محبت نہیں بلکہ ایسی شدید محبت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قسم کھا کر اس کا ذکر فرمارہے ہیں ۔ یہ نہیں فرمایا : تو نے میرے محبوب چچا کا کلیجہ چبایا ہے ، میرے سامنے نہ آیا کر ۔ بس تیرا اسلام قبول ہے “ یہ نہیں فرمایا ، بلکہ قسم کھاکر محبت کا اظہار فرمایا ۔


فتح مکہ کے بعد بہت لوگ ایمان لائے مگر محبت و عقیدت سے بھر پور وہ الفاظ ”وایضا والذی نفسی بیدہ“ کسی اور ذکر وانثی کو نصیب نہ ہو سکے ۔ امام بخاری علیہ الرحمہ نے یہاں عنوان قائم کیا ہے : ”باب ذكر  ہند بنت عتبہ“ ۔ عن عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " جَاءَتْ هِنْدٌ بِنْتُ عُتْبَةَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ مِنْ أَهْلِ خِبَاءٍ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَذِلُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، ثُمَّ مَا أَصْبَحَ اليَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ، أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ يَعِزُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، قَالَ: «وَأَيْضًا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ» قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ مِسِّيكٌ، فَهَلْ عَلَيَّ حَرَجٌ أَنْ أُطْعِمَ مِنَ الَّذِي لَهُ عِيَالَنَا؟ قَالَ: «لاَ أُرَاهُ إِلَّا بِالْمَعْرُوفِ ۔ (صحيح بخارى كتاب مناقب الانصار باب ذكر هند بنت عتبہ،چشتی)

ترجمہ : عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا : ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اسلام لانے کے بعد) حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روئے زمین پر کسی گھرانے کی ذلت آپ کے گھرانے کی ذلت سی زیادہ میرے لیے خوشی کا باعث نہیں تھی لیکن آج کسی گھرانے کی عزت روئے زمین پر آپ کے گھرانے کی عزت سے زیادہ میرے لیے خوشی کی وجہ نہیں ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” اس میں ابھی اور ترقی ہو گی۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے “ پھر ہند نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوسفیان بہت بخیل ہیں تو کیا اس میں کچھ حرج ہے اگر میں ان کے مال میں سے (ان کی اجازت کے بغیر) بال بچوں کو کھلا دیا اور پلا دیا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا ہاں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ دستور کے مطابق ہونا چاہیے ۔


حضرت ہند رضی اللہ عنہ نے نبی كریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے اسلام پر بيعت كيا ۔ بيعت كے دوران ایک شرط پر سوال بهى كيا ۔ اس كے بعد نبی كریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنى محبت كا اظہار كيا ۔ اس كے بعد نبی كریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے اپنى محبت كا اظہار كيا ۔ پهر حضت ہنده نے  نبی كریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فتوى پوچها اور آپ نے اس كا جواب ديا ۔ گويا اسلام لانے كے بعد كہيں كسى طرح كى ناگوارى كا اظہار نہيں ہے بلكہ ایک دوسرے سے محبت كا اظہار ہے ، اور نبی كریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان كے گهر كو دار الامن قرار ديا ۔


حقيقت يہى ہے كہ حضرت سيدنا امیر حمزه رضی اللہ عنہ كى شہادت ميں حضرت ہند رضی اللہ عنہا كا كوئى ہاتھ نہيں ہے ، يہ صرف نسلِ ابن سباء كا من گھڑت قصہ ہے ۔ جو ہميشہ بنو اميہ كو بنو ہاشم كا دشمن بنا كر دكهانے كى كوشش كرتے رہے ہيں اور آج کل یہ کام ہمارے کچھ نادان دوست سنی کہلانے والے کر رہے ہیں ۔ تاكہ صحابہ رضی اللہ عنہم كى ساكھ كمزور ہو اور كتاب و سنت كى  بنياديں ہل جائيں ليكن كتاب و سنت كے  متوالے جب تک زنده ہيں دشمنانِ اسلام كے مذموم ارادوں كو پورا نہيں ہونے ديں گے ان شاء اللہ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمائیں مجھ سے مانگو نجدی کہیں شرک ہے ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمائیں مجھ سے مانگو نجدی کہیں شرک ہے ؟ محترم قارئینِ کرام : حَدَّثَنَا ہَشَّامُ بْنُ عَمَّارٍنَا الْھَقْل...