Sunday, 27 April 2025

کیا شجرہ ملعونہ سے مراد بنو امیہ ہے ؟

کیا شجرہ ملعونہ سے مراد بنو امیہ ہے ؟

محترم قارئینِ کرام : شیعہ اور اُن کے ہمنوا سنیوں کے لباس میں چھپے رافضی کہتے ہیں کہ قرآن مجید کے پندرہویں پارہ سورہ اسراء کی آیت نمبر 60 میں الشجرہ الملعونہ سے مراد بلا اختلاف ائمہ مفسرین اور بالاتفاق شیعہ سنی بنو امیہ ہیں اس لیے بنو امیہ قرآن کے فرمان کے مطابق ملعون ہوئے اس لیے ان پر لعنت بھیجنا ضروری ہے ۔ مذکورہ آیت کریمہ کا معنیٰ و مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں شیعہ اور اُن کے ہمنوا سنیوں کے لباس میں چھپے رافضی حضرات کی عمومی عادت ہے کہ لوگوں پر اپنی غلط بات کا تاثر قائم کرنے کےلیے شیعہ کتاب کے حوالے کو اہلسنت کے نام یا بلا اختلاف یا بالاتفاق شیعہ سنی کے الفاظ کے ساتھ پیش کرتے ہیں تاکہ سادہ لوح سنیوں کو اپنے شیعہ عقائد کی طرف بہکایا جا سکے ۔ مکمل آیتِ مبارکہ یہ ہے : وَ اِذْ قُلْنَا لَكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاطَ بِالنَّاسِؕ ۔ وَ مَا جَعَلْنَا الرُّءْیَا الَّتِیْۤ اَرَیْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِی الْقُرْاٰنِؕ ۔ وَ نُخَوِّفُهُمْۙ ۔ فَمَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا طُغْیَانًا كَبِیْرًا۠ ۔ (سورة الإسراء آيت نمبر 60)

ترجمہ : اور جب ہم نے تم سے فرمایا کہ سب لوگ تمہارے رب کے قابو میں ہیں اور ہم نے نہ کیا وہ دکھاوا جو تمہیں دکھایا تھا مگر لوگوں کی آزمائش کو اور وہ پیڑ جس پر قرآن میں لعنت ہے اور ہم انہیں ڈراتے ہیں تو انہیں نہیں بڑھتی مگر بڑی سرکشی ۔


 زقوم کا درخت جو جہنم میں  پیدا ہوتا ہے ، اس کو سببِ آزمائش بنا دیا یہاں  تک کہ ابوجہل نے کہا کہ اے لوگو ! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں  جہنم کی آگ سے ڈراتے ہیں کہ وہ پتھروں کو جلا دے گی ، پھر یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس میں درخت اُگیں گے ۔ آگ میں درخت کہاں رہ سکتا ہے ؟ یہ اعتراض کفار نے کیا اور قدرتِ الٰہی سے غافل رہے اور یہ نہ سمجھے کہ اُس قادرِ مختار کی قدرت سے آگ میں درخت پیدا کرنا کچھ بعید نہیں ۔(تفسر خازن جلد ۳ صفحہ ۱۸۰،چشتی)(تفسیر روح البیان جلد ۵ صفحہ ۱۷۸)


اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اسی طرح وہ درخت بھی جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے ، یعنی وہ درخت بھی آزمائش ہے ، کیونکہ ابو جہل نے مسلمانوں سے کہا تمہارے پیغمبر کہتے ہیں دوزخ ایسی آگ ہے جو پتھروں کو بھی جلا دیتی ہے : وقودھا الناس والحجارۃ ۔ (ورہ التحریم آیت نمبر ٦) ، دوزخ کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں ۔

اور پھر وہ کہتے ہیں کہ دوزخ میں ایک درخت ہے اور آگ تو درخت کو جلا دیتی ہے تو دوزخ میں درخت کیسے پیدا ہوگا جب ان کو تعجب ہوا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ان جعلنھا فتنۃ للظالمین ۔ (سورہ الصافات آیت نمبر ٦٣) بیشک ہم نے زقوم کو ظالموں کےلیے آزمائش بنادیا ہے ۔

قرآن مجید میں زقوم کے لیے فرمایا ہے بیشک وہ درخت جہنم کی جڑ سے نکلتا ہے ۔ (سورہ الصافات آیت نمبر ٦٤) ، جس کے خوشے شیطانوں کے سروں کی طرح ہوتے ہیں ، دوزخی اس درخت سے کھائیں گے اور اسی سے پیٹوں کو بھریں گے ۔ (سورہ الصافات آیت نمبر ٦٥، ٦٦ )


زقوم کا معنی ہے تھوہر کا درخت ، یہ لفظ تزقم سے بنا ہے اس کا معنی ہے بدبودار اور مکروہ چیز کا نگلنا ، اس درخت کے پھل کو کھانا دوزخیوں کےلیے سخت ناگوار ہوگا ، بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ کوئی دنیاوی درخت نہیں ہے اہل دنیا کےلیے یہ غیر معروف ہے لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے ۔ (فتح القدیر جلد ٤ صفحہ ٥٢٦ مطبوعہ دار الوفاء بیروت ١٤١٨ ھ)


امام ابن ابی شیبہ علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا اگر دوزخ کے زقوم کا ایک قطرہ بھی زمین والوں پر نازل کیا جائے تو ان کی زندگیاں خراب اور فاسد ہو جائیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٣٤١٣٣ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت ١٤١٦ ھ،چشتی)


اس آیت میں فرمایا ہے اس درخت پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے حالانکہ قرآن میں اس پر لعنت کا ذکر نہیں ہے ، اس کے درج ذیل جوابات ہیں : ⏬


1 ۔ اس سے مراد ہے دوزخ میں اس درخت کو کھاتے وقت کفار اس پر لعنت کریں گے ۔

2 ۔ ہر وہ طعام جس کا ذائقہ مکروہ ہو اور وہ نقصان دہ ہو اس کو عرب ملعون کہتے ہیں اور سورة الدخان اور الصافات میں اس کا بد ذائقہ اور مکروہ ہونا بیان فرمایا ہے ۔


3 ۔ ملعون کا معنی ہے دور کیا ہوا اور قرآن مجید میں اس درخت کا اس طرح ذکر ہے کہ یہ تمام اچھی صفات سے دور کیا ہوا ہے ۔


4 ۔ ملعون کا معنی ہے مذمت کیا ہوا اور قرآن مجید میں اس کی مذمت کی گئی ہے ۔


5 ۔ ملعون سے مراد ہے اس کے کھانے والے ملعون ہیں ۔ (تفسیر زاد المسیر جلد ٥ صفحہ ٥٥،چشتی)(تفسیر کبیر جلد ٧ صفحہ ٢٦٢)


حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، عن عكرمة، عن ابن عباس، في قوله: وما جعلنا الرؤيا التي اريناك إلا فتنة للناس سورة الإسراء آية 60 ، قال : هي رؤيا عين اريها النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ليلة اسري به إلى بيت المقدس، قال: والشجرة الملعونة في القرآن هي شجرة الزقوم "، قال: هذا حديث حسن صحيح ۔ (سنن ترمذی كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، باب وَمِنْ سُورَةِ بَنِي إِسْرَائِيلَ حدیث نمبر 3134)

ترجمہ : حضرت‏‏‏‏ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت کریمہ : وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس ” اور نہیں کیا ہم نے وہ مشاہدہ کہ جسے ہم نے تمہیں کروایا ہے (یعنی إسراء و معراج کے موقع پر جو کچھ دکھلایا ہے) مگر لوگوں کی آزمائش کےلیے “ (سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر ۶۰) ، کے بارے میں کہتے ہیں : اس سے مراد (کھلی) آنکھوں سے دیکھنا تھا ، جس دن آپ کو بیت المقدس کی سیر کرائی گئی تھی ۔ انہوں نے یہ بھی کہا «والشجرة الملعونة في القرآن» میں شجرہ ملعونہ سے مراد تھوہڑ کا درخت ہے ۔ امام ترمذی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔


عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:" وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلا فِتْنَةً لِلنَّاسِ سورة الإسراء آية 60، قَالَ: هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ أُرِيَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ"، قَالَ:" وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ، قَالَ: هِيَ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ ۔

ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت «وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس‏» ” اور وہ رؤیا جو ہم نے تمہیں دکھایا ہے اسے ہم نے صرف لوگوں کے لیے آزمائش بنایا ہے ۔ “ کے متعلق کہا کہ اس سے مراد آنکھ کا دیکھنا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس معراج کی رات دکھایا گیا تھا۔ جب آپ کو بیت المقدس تک رات کو لے جایا گیا تھا ، کہا کہ قرآن مجید میں «الشجرة الملعونة» سے مراد «زقوم‏» کا درخت ہے ۔ (صحيح بخاری كِتَاب الْقَدَرِ حدیث نمبر 6613،چشتی)


مذکورہ آیتِ مبارکہ کے معنی و مفہوم میں شیعہ اور اُن کے ہمنوا سنیوں کے لباس میں چھپے رافضی حضرات کا بار بار لفظ بالاتفاق استعمال کرنا سراسر غلط اور دروغ گوئی ہے تمام صحابہ کرام اور بالخصوص ماہرین قرآن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہوں نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرآن مجید سیکھا ہے اور قرآن نے امت کو ان سے قرآن سیکھنے کا حکم دیا ہے انہوں نے اور تمام اہل سنت کے مفسرین نے مذکورہ آیت میں الشجرہ ملعونہ کا معنی شجرہ زقوم کیا ہے جیسا اوپر آپ نے پڑھا مزید تفسیر طبری تفسیر مدارک تفسیر جلالین تفسیر روح البیان تفسیر ابن کثیر ملاحظہ ہو اور اہل سنت کے تمام مفسرین نے اس لفظ سے بنو امیہ مراد لینے کی سختی سے تردید کی ہے اس لیے شیعہ اور اُن کے ہمنوا سنیوں کے لباس میں چھپے رافضی حضرات کا یہ کہنا ( لا اختلاف بین احد انہ ارادبھا بنی امیة )کہ اس بات میں کسی ایک شخص کا بھی اختلاف نہیں ہے کہ آیت مذکورہ میں شجرہ ملعونہ سے مراد بنو امیہ ہیں بالکل غلط ہے ۔ نمونہ کے طور پر امام المفسرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرآن سیکھا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دعا دی اور امت کو ان سے قرآن سیکھنے کا حکم دیا ہے ان کا حوالہ پیش خدمت ہے ۔ اور یہ تفسیر اس مفسر کی ہے جس نے اپنی کتابوں میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام پر لعنت اللہ لکھا ہے ۔ (نعوذباللہ) ۔ قال ابن عباس رضی اللہ عنہ والشجرہ الملعونہ فی القران قال شجرة الزقوم ۔ (تفسیر طبری جلد 15) 

ترجمہ : ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں (الشجرہ ملعونہ) سے مراد زقوم کا درخت ہے یہ درخت جہنم کی تہہ میں اگا اور دوزخیوں کی خوراک ہوگی درخت بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج میں دکھایا گیا تھا اور اسے کفار کےلیے آزمائش بنا دیا گیا کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ آگ درخت کو جلا دیتی ہے تو پھر یہ درخت کیسے اگے گا ۔


دوسری بات یہ ہے کہ مذکورہ آیات جس سورۃ میں واقع ہے وہ سورت مکی ہے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کا خاندان فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوا ہے اس اعتبار سے بھی شجرہ ملعونہ سے مراد بنو امیہ لینا غلط ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمائیں مجھ سے مانگو نجدی کہیں شرک ہے ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمائیں مجھ سے مانگو نجدی کہیں شرک ہے ؟ محترم قارئینِ کرام : حَدَّثَنَا ہَشَّامُ بْنُ عَمَّارٍنَا الْھَقْل...