دار العلوم دیوبند کے مفتی محمود مدنی دیوبندی نے خواجہ غریب نواز کی بارگاہ میں حاضری دی چادر چڑھائی اب علماء دیوبند بتائیں کہ مفتی محمود بدعتی ٹھہرے کہ نہیں ؟
دعوتِ انصاف : از علامہ ارشد القداری رحمۃ اللہ علیہ ۔ پیشکش ڈاکٹر فیض احمد چشتی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بسم اﷲ الرحمن الرحیم : علمائے دیوبند کے لئے پہلے سے اگر کوئی نرم گوشہ آپ کے دل میں موجود ہے تو اس کتاب کے مطالعہ کا آپ پر قدرتی ردعمل یہ ہو گا کہ آپ جھنجھلاہٹ میں اسے بند کرکے کہیں ایک طرف رکھ دیں گے ، لیکن اگر آپ بردبار ، معاملہ فہم اور صاحب فکر سلیم ہیں اور واقعات کی تہہ میں اتر کر حقائق کی تلاش کا جذبہ ، اعتدال کے ساتھ آپ کے اندر موجود ہے تو آپ یہ جاننے کی ضرور کوشش کریں گے کہ علمائے دیوبند کیساتھ ایک ملک گیر محاذ جنگ کی بنیاد آخر کیوں کر پڑی ۔ بحث و مناظرہ کے وہ حقیقی اسباب و علل کیا تھے جن کے زیر اثر سالہاسال تک پورے ملک میں یہ معرکے گرم رہے۔
یہ نزع دو چار آدمیوں تک محدود ہوتا تو اسے شخصی یا خاندانی مفادات کی آویزش کہہ کر نظر انداز کیا جاسکتا تھا، لیکن علمائے دیوبند کے خلاف مذہبی پیکار کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ ملک ہی نہیں ، بیرون ملک کا بھی بہت بڑا خطہ اس کی لپیٹ میں ہے ۔ مساجد سے لے کر مدارس تک مذہبی زندگی کے سارے شعبے اس اختلاف سے اس درجہ متاثر ہیں کہ دیہات سے آفاق تک پوری قوم دو ملتوں میں تقسیم ہوگئی ہے ۔ اس لئے اس ہمہ گیر اختلاف کودیو بند اور بریلی کا شخصی نزع قرار دے کر اس کے حقیقی محرکات سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ۔
نہایت افسوس اور قلق کے ساتھ مجھے ہندو پاک کے مسلم مورخین سے یہ شکوہ ہے کہ انہیں آج تک یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ غیر جانبداری کے ساتھ علمائے دیوبند کے خلاف ان مذہبی بے چینیوں کی صحیح بنیاد معلوم کرتے جو ملک و بیرون ملک کے کروڑ ہا کروڑ مسلمانوں کے درمیان نصف صدی سے پھیلی ہوئی ہے ، اور جس کے نتیجے میں مسلم معاشرہ ایک نہ ختم ہونے والے روحانی کرب اور ذہنی و فکری انتشار کا شکار ہے ۔ ہماری مظلومی کے ساتھ اس سے بڑھ کر درد ناک مذاق اور کیا ہوسکتا ہے کہ عین بے خبری کی حالت میں ہمارے احتجاج کو فتنہ انگیزی سے تعبیر کیا، حالانکہ اپنے غم و غصہ اور اپنے جذبے کی تباہیوں کا اظہار ہر مظلوم کا واجبی حق ہے ۔
اتنی تمہید کے بعد اب ہم اس مذہبی نزاع کی پوری تفصیل اس امید کے ساتھ اہل علم کے سامنے پیش کررہے ہیں کہ وہ اس کی روشنی میں نزاع کے اصل محرکات کا پتہ چلائیں گے ۔ بالفرض نگاہوں پر بوجھ ہو جب بھی یہ سر گزشت صبرو تحمل کے ساتھ پڑھئے کہ حقیقت کا متلاشی کسی گروہ کا طرفدار نہیں ہوتا۔
علمائے دیوبند کے ساتھ علمائے اہلسنّت کے
اختلاف کی تین مضبوط بنیادیں
کچھ کم ایک صدی سے ساری دنیا میں دیوبند اوربریلی کی مذہبی آویزش کا جو شور برپا ہے اور جس کے ناخوشگوار اثرات پریس سے لے کر اسٹیج تک پوری طرح نمایاں ہیں وہ بلاوجہ نہیں ہے ، اگر اس حقیقت کی تلاش کیلئے آپ نے اپنے ذہن کا دروازہ کھلا رکھا ہے تو ذیل میں اس مذہبی نزع کی وہ حقیقی بنیادیں پڑھئے جنہوں نے امت کو دو ملتوں میں تقسیم کردیا ہے ۔
پہلی بنیاد
اپنی مذہبی سرشت کے اعتبار سے مسلمان کا جو والہانہ تعلق اپنے رسول کریم ﷺ کی محترم ذات سے ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے ۔ اس کا ایمان اپنے رسول کی بارگاہ میں اتنا مودب اور حساس ہے کہ رسول کی حرمت پر ذرا سی خراش بھی اسے برداشت نہیں ، ناموس رسول کے تحفظ کے لئے ہندوستان کے مسلمانوں نے ہر دور میں جس والہانہ جذبے کے ساتھ اپنی فدا کاریوں کا مظاہرہ کیا ہے وہ تاریخ کا جانا پہچانا واقعہ ہے ۔ حب رسول کی وارفتگی کا یہ رخ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کسی گستاخی کے خلاف غم و غصہ اور نفرت و غضب کے اظہار کے سوال پر کبھی یہ نہیں دیکھا کہ نشانے پر کون ہے ، باہر کا ہو یا اندر کا جس نے بھی رسول کی شان میں گستاخانہ جسارت کا اظہار کیا مسلمانوں کی غیرتِ ایمانی کی تلوار اس کے خلاف بے نیام ہوگئی ۔
آج ملعون رشدی کی زندہ مثال آپ کے سامنے ہے ، رسول کی حرمت پر حملہ کرکے اس نے سارے عالم اسلام کو اپنا دشمن بنا لیا ہے ۔ قابل رشک ہیں وہ شہیدان محبت جو رشدی کے خلاف اپنی غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آقا کی عزت پر قربان ہوگئے ۔
علمائے دیوبند کے خلاف بھی ہمارے غم و غصہ کی سب سے بڑی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ان کے اکابر نے اپنی بعض کتابوں میں رسول محترم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخانہ کلمات استعمال کئے ہیں جس کی مختصر تفصیل یہ ہے ۔
۱۔ علمائے دیوبند کے مذہبی پیشوا مولوی اشرفعلی تھانوی نے اپنی کتاب حفظ الایمان میں حضور اکرم سید عالم ﷺ کے علم پاک کو رذائل اور حیوانات و بہائم کے علم سے تشبیہہ دی ہے جس کے وہ خود بھی اقراری مجرم ہیں ۔
اہل علم و ادب زبان کے اس محاورے سے اچھی طرح واقف ہیں کہ محترم چیزوں کے ساتھ کسی چیز کی تشبیہہ سے عظمت و تکریم کے معنی پیدا ہوتے ہیں ۔ اور جب رذائل کے ساتھ کسی چیز کو تشبیہہ دی جاتی ہے تو اس سے توہین و تنقیص کے معنی نکلتے ہیں ۔ اردو زبان کے محاورات میں تشبیہہ و تمثیل کا یہ ضابطہ اتناشائع اور ذائع ہے کہ کوئی صاحب علم اس کے ان معانی و مطالب کے استلزام سے انکار نہیں کرسکتا ۔
اس بنیاد پر ہمارا دعویٰ شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ تھانوی جی بارگاہ رسالت کے گستاخ ہیں ، انہوں نے رسول پاک ﷺ کے علم شریف کو رذائل کے علم سے تشبیہہ دے کر اہانت رسول کے خوفناک جرم کا ارتکاب کیا ہے ۔
۲۔ علمائے دیوبند کے دوسرے اور تیسرے مذہبی پیشوا مولوی خلیل احمد انبیٹھوی اور مولوی رشید احمد گنگوہی نے براہین قاطعہ نامی کتاب میں لکھا ہے کہ زمین کے علم محیط کے سوال پر شیطان کا علم ، رسول اللہ ﷺ کے علم سے زیادہ ہے۔ شیطان کے مقابلے میں جو شخص رسول کی وسعت علم کا عقیدہ رکھتا ہے وہ مشرک ہے ، کیونکہ شیطان کے علم کی وسعت پر قرآن و حدیث ناطق ہیں ، رسول کے علم کی وسعت پر نہ قرآن میں کوئی دلیل ہے اور نہ حدیث میں ۔
اس میں قطعاً دو رائے نہیں شیطان کے مقابلے میں رسول پاک کے علم کی تنقیص ایک کھلا ہوا کفر اور ایک کھلی ہوئی گستاخی ہے ۔
اسی طرح یہ کہنا بھی کھلی ہوئی گستاخی اور کھلا ہوا کفر ہے کہ شیطان کے مقابلے میں جو شخص رسول پاک ﷺ کی وسعت علم کا عقیدہ رکھتا ہے وہ مشرک ہے لیکن یہی عقیدہ شیطان کے بارے میں رکھنا شرک نہیں ہے ۔
اسی طرح یہ کہنا بھی رسول پاک کی صریح تنقیص ہے کہ رسول پاک ﷺ کے علم کی وسعت پر قرآ ن و حدیث میں کوئی دلیل نہیں ہے ، لیکن شیطان کے علم کی وسعت پر قرآن میں بھی دلیل اور حدیث میں بھی ۔
۳۔ علمائے دیوبند کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا مولوی قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند نے اپنی کتاب ’’تحذیر الناس‘‘ میں حضور ﷺ کو آخری نبی ماننے سے انکار کیا ہے ، جبکہ حضور ﷺ کو خاتم النبین ہونے کی حیثیت سے آخری نبی ماننا قرآن سے بھی ثابت ہوا ہے اور حدیث سے بھی ۔
بلکہ اپنی کتاب میں انہوں نے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ حضور کے زمانے یا حضور کے بعد بھی اگر کسی نئے نبی کا آنا فرض کیا جائے جب بھی حضور کی خاتمیت میں کوئی فرق نہیں آئے گا ۔ حالانکہ یہ بات آسانی سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ کسی نئے نبی کے آنے کی صورت میں حضور کے آخری نبی ہونے کا عقیدہ باطل ہوجاتا ہے ۔ مولوی نانوتوی کی یہی وہ کتاب ہے جسے قادیانی حضرات مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کے جواز کا پیش خیمہ قرار دیتے ہیں ۔
واضح رہے کہ ختم نبوت کے مسئلے میں علمائے دیوبند کے ساتھ ہمارا اختلاف فروعی نہیں بلکہ اصولی اور بنیادی ہے ۔ اور یہ اختلاف حرمت وحلت کا نہیں بلکہ کفرو اسلام کا ہے ۔
دعوت انصاف
دیوبندی علماء کے ساتھ ہمارے اختلاف کی یہ پہلی بنیاد ہے جو ان کتابوں کے حوالوں کے ساتھ آپ کے سامنے ہے ۔ واضح رہے کہ اس بنیاد کا تعلق اہانت رسول اور انکار ضروریات دین سے ہے ، جس کے کفر ہونے میں قطعاً کوئی شبہ نہیں ہے ۔ قرآن کی بیشمار آیتیں اس عقیدے پر شاہد عدل ہیں کہ رسول پاک ﷺ کی شان میں ہلکی سی گستاخی بھی اسلام اور ایمان کے رشتے کو منقطع کردیتی ہے ۔ علم اور عبادت کی کوئی فضیلت گستاخی کے انجام بد سے کسی کو ہر گز نہیں بچا سکتی ۔
اس موقع پر اپنے قارئین سے یہ ضرور عرض کروں کہ اکابر دیوبند کی ان اہانت آمیز تحریروں کو آپ اس زاویہ نظر سے ہر گز مت پڑھیئے کہ یہ دیوبند اور بریلی کی ایک مذہبی نزاع ہے ‘ بلکہ مطالعہ کرتے وقت اپنی فکر کو اس نقطے پر مرکوز رکھئے کہ اکابر دیوبند کی ان عبارتوں کی ضرب براہ راست رسول اقدس ﷺ کی عظمت و حرمت پر پڑتی ہے ۔ ان کے گستاخ قلم کا حملہ علمائے بریلی پر نہیں بلکہ خاص رسول اکرم ﷺ کی ذات محترم پر ہے ۔
اگر خدانخواستہ آپ نے ان تحریروں کا مطالعہ اس نقطہ نظر سے کیا کہ یہ دیوبند اور بریلی کے نام سے دو مکتب فکر کے علماء کا باہمی جھگڑا ہے تو جذبے کا وہ والہانہ تقدس باقی نہیں رہے گا جو اپنے رسول کی حمایت میں کسی کے خلاف دو ٹوک فیصلہ کرنے کیلئے مطلوب ہے ۔
میری اس گزارش کا مدعا صرف اتنا ہے کہ اپنی کسی بھی محبوب شخصیت کے مقابلے میں ’’رسول ‘‘ کو ترجیح دینے کا سوال خود آپ کے اپنے ایمان کا تقاضہ ہونا چایئے ، اس لئے علمائے بریلی کو آپ ایک طرف رکھئے ، اور خود اپنے ’’مومن ضمیر ‘‘ سے دریافت کیجئے کہ اکابر دیوبند کی ان تحریروں سے رسول پاک ﷺ کی حرمت مجروح ہوتی ہے یا نہیں ؟ اور دین کے اصول و ضروریات سے انحراف کا پہلو واضح ہوتا ہے یا نہیں ؟ ان کی یہ تحریریں کسی اجنبی زبان میں نہیں ہیں کہ آپکو کسی مترجم کی ضرورت پیش آئے ، وہ سیدھی سادھی اردو زبان میں ہیں جنہیں آپ بھی سمجھنا چاہیں تو سمجھ سکتے ہیں ۔ ہماری طرف سے حوالوں کی نشاندہی پر آپکو اعتماد نہ ہوتو اصل کتاب منگواکر دیکھ لیں وہ آج بھی کتب خانوں سے دستیاب ہوجاتی ہیں ۔
اب رہ گیا علمائے بریلی کا سوال تو اس سلسلے میں ان کا کردار اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے کہ اکابر دیوبند کی ان اہانت آمیز عبارتوں کو پڑھنے کے بعد جو انہیں ناقابل برداشت اذیت پہنچی اور جس روحانی کرب کے اضطراب میں وہ اچانک مبتلا ہوگئے اس کے ردعمل کا اظہار انہوں نے برملا کیا۔ تعلقات کی کوئی مصلحت اس راہ میں حائل نہیں ہوئی۔
اس کے بعد انہوں نے دیوبند کے ان اکابرین سے براہ راست رابطہ قائم کیا اور دلائل کی روشنی میں ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ان کفری عبارتوں سے جو تنقیص شان رسالت اور انکار ضروریات دین پر مشتمل ہیں اعلانیہ تو بہ صحیحہ شرعیہ کریں اور اپنی کتابوں سے ان دل آزار عبارتوں کو نکال دیں ، لیکن ان کی جھوٹی عزت و شہرت اس راہ میں حائل ہوگئی اور انہوں نے عار پر نار کو ترجیح دی ۔
گستاخان رسول کے درمیان ایک قدر مشترک
سلسلہ کلام سے ہٹ کر ایک بات اپنے قارئین کرام کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں ۔ امید کہ انتظار کا یہ لمحہ آپ کو بار خاطر نہ ہوگا۔
رسول اقدس ﷺ کی شان محترم میں گستاخی کرنے والوں کی تاریخ کا جب آپ مطالعہ کریں گے تو ہر گستاخ کی یہ سرشت قدر مشترک کے طور پر آپ کو ہر جگہ نظر آئے گی کہ دل کے جذبہ نفاق کے زیر اثر جب نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کا کوئی کلمہ ان کی زبان یا قلم سے نکل جاتا ہے تو باز پرس کرنے پر ایک شرمسار مجرم کی طرح وہ اپنے کلمہ کفر سے توبہ کرنے کے بجائے اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کیلئے غلط سلط تاویل اور سخن پروری کے جذبے کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں ۔
عہدِرسالت میں بھی منافقین مدینہ کا یہی رویہ تھا ، چنانچہ ایک سفر سے واپسی کے موقع پر جب منافقین نے حضور نبی پاک ﷺ کی شان میں گستاخی کا کوئی کلمہ استعمال کیا ، جب صحابہ کرام کے ذریعہ حضور تک یہ بات پہنچی اور حضور نے منافقین سے اس کے متعلق باز پرس فرمائی تو انہوں نے اعتراف جرم اور توبہ و معافی کے بجائے بات بنانے ، تاویل کرنے اور حیلے بہانے تراشنے کا رویہ اختیار کیا۔ چونکہ اس وقت نزول وحی کا سلسلہ جاری تھا اس لئے فوراً ان کے خلاف یہ آیت نازل ہوئی کہ!
لا تعتذروا قد کفر تم بعد ایمانکم o
(حیلے بہانے مت بنائو تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے)
اگر نزول وحی کا سلسلہ جاری نہ رہتا تو ا ن کے جھوٹ کا پردہ فاش نہ ہوتا اور وہ کلمہ پڑھ کر مسلم معاشرے میں اپنے کفر کو چھپائے رکھتے ۔
سخن پروری کی تازہ مثال
منافقین مدینہ کا یہ کردار عہد حاضر میں آپ دیکھنا چاہتے ہوں تو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے پرووائس چانسلر کا قضیہ پڑھئے ۔ انہوں نے کسی انگلش میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے سیکولر کہلانے کے شوق میں ملعون زمانہ رشدی کی کتاب کے بارے میں اپنے خیال کا اظہار کیا کہ حکومت ہند نے اس کتاب پر جو پابندی عائد کی ہے اسے اٹھالینا چاہیئے کیونکہ ہر شخص کو اپنی رائے کے اظہار کا بنیادی طور پر حق حاصل ہے ۔
اس فقرہ کا کھلا ہوا مطلب یہ ہے کہ رشدی نے اپنی ملعون کتاب میں جو اہانت رسول کی ہے اس پر اس سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسے اپنی رائے کے اظہار کا بنیادی طور پر حق حاصل ہے۔ دوسرے لفظوں میں اپنے اس فقرے کے ذریعے مشیر الحسن نے اہانت رسول کی کھلی ہوئی حمایت کی ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے غیور اور سرفروش طلبہ قابل تکریم و تحسین ہیں کہ جب انہوں نے یہ انٹرویو پڑھا تو ایک گستاخ رسول کی حمایت کی بنیاد پر وہ تحفظ ناموس رسول کے جذبے میں مشیر الحسن کے خلاف پوری طرح صف آرا ہوگئے اور انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ چونکہ گستاخ کا حامی بھی گستاخ ہی ہوتا ہے اس لئے مشیر الحسن کو اس کے منصب سے فوراً ہٹایا جائے ہم ایسے دل آزار شخص کو کسی قیمت برداشت نہیں کریں گے ۔
چونکہ یہ مسئلہ ناموس رسول کا تھا ا سلئے جامعہ ملیہ کے اساتذہ کی بڑی تعداد نے بھی ہر طرح کے نتائج سے بے پرواہ ہو کر طلبہ کے مؤقف کی حمایت کا اعلان کردیا ۔ دہلی کے مسلمانوں تک جب اس قضیہ کی تفصیل پہنچی تو ہر طرف مشیر الحسن کے خلاف نفر ت و بے زاری کی لہر دوڑ گئی اور طلبہ کے مطالبے میں شہر کے عوام بھی شریک ہوگئے ۔ ذاکر نگر کی انجمن رضا نے جس جذبہ سرفروشی کے ساتھ مشیر الحسن کے خلاف اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا اور جامعہ کے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں صحیح مشورے دیئے ، وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔
لیکن دارالعلوم دیوبند کے علماء ؟
صرف دارالعلوم دیوبند کے علماء جن میں مولوی سالم صاحب ابن قاری طیب صاحب اور مولوی احمد علی قاسمی اور ابناء قدیم دارالعلوم دیوبند کے ورکنگ جنرل سیکریٹری مولوی فضیل احمد کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ ان تمام حضرات کے نزدیک مشیر الحسن کی گستاخی ثابت نہیں ہے ، جیساکہ روزنامہ قومی آواز دہلی کی مورخہ ۱۸ مئی سن ۹۲ ء کی اشاعت میں ان کے مشترک بیان کے الفاظ یہ ہیں ۔
’’طلبہ کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ دیکھنا چاہیئے کہ جس کو شاتم رسول (گستاخ رسول ) کہاجارہا ہے وہ واقعتا شاتم رسول ہے کہ نہیں ۔ ‘‘
کس قدر افسوس اور قلق کی بات ہے کہ جامعہ ملیہ کے طلبہ کو جو عالم دین نہیں ہیں ،جامعہ ملیہ کے اساتذہ کو جو عالم دین نہیں ہیں اور دہلی کے مسلمانوں کو مشیر الحسن کی گستاخی سمجھ میں آگئی ، لیکن دارالعلوم دیوبند کے علماء اس کی گستاخی کو سمجھنے سے قاصر رہے ۔
حالانکہ قومی آواز کی اسی اشاعت میں اخبار کے آخری صفحہ پر مشیر الحسن کی بابت شیخ الجامعہ مسٹر بشیر الدین احمد کی ایک اپیل شائع ہوئی جس کا یہ حصہ مشیر الحسن کے جرم پر بھرپور روشنی ڈالتا ہے ۔
’’جامعہ کے پرووائس چانسلر پروفیسر مشیر الحسن نے اس کتاب (رشدی کی کتاب ) پر عائد پابندی اٹھانے سے متعلق جو اظہار خیال کیا ہے وہ چونکہ باعث تکلیف ہے اور اس کی وجہ سے ناراضگی اور احتجاج کی ایک فضا پیدا ہوگئی ہے ۔ ‘‘
وائس چانسلر کی اسی تحریر سے یہ بات بالکل صاف ہوجاتی ہے کہ مشیر الحسن کے خلاف طلبہ کا الزام بے بنیاد نہیں ہے ، کیونکہ پابندی اٹھانے کی بات انہوں نے اسی بنیاد پر کی ہے کہ ہر شخص کو بنیادی طور پر اظہار خیال کی آزادی حاصل ہے ، اس لئے سلمان رشدی نے پیغمبر اسلام کے خلاف جو کچھ لکھا ہے اپنے حق کا جائز استعمال کیا ہے ، لیکن سخت افسوس ہے کہ اتنی وضاحت کے باوجود دارالعلوم دیوبند کے یہ علماء مشیر الحسن کو بے گناہ سمجھ رہے ہیں ۔ ان کے پاس اس کی بے گناہی کی جو سب سے بڑی دلیل ہے وہ یہ ہے ، پڑھئے اور خون کا گھونٹ پیجئے ۔
’’جس شخص کو شاتم رسول (گستاخ رسول ) کہا جارہا ہے وہ وضاحت کے ساتھ کہہ رہا ہے کہ وہ اس گناہ سے بری ہے اور حضور کا مکمل احترام اپنے قلب میں رکھتا ہے ۔ ‘‘
دارالعلوم دیوبند کے ان علماء کی کج فہمی پر سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے کہ انہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ کسی دعوے کے ثبوت کیلئے مجرم کا اقرار ضروری نہیں ہے اسکا بیان اور بیان کے الفاظ دعوے کے ثبوت کے لئے بہت کافی ہیں ، ورنہ بتایا جائے کہ اسلامی تعزیرات کی تاریخ میں کس گستاخ کو اقرار جرم کی بنیاد پر سزا دی گئی ہے ؟ تاریخ میں جسے بھی کوئی سزا ملی ہے اس کے الفاظ و بیان ہی کو بنیاد بنایا گیا ہے ۔ کیا دارالعلوم دیوبند کا دارالافتاء یہ ثابت کرسکتا ہے کہ کلمہ کفر کی بنیاد پر جس کی بھی اس نے تکفیر کی ہے اس سے کفر کا اقرار کروایاہے ؟ لیکن مشیر الحسن کے بارے میں سوا اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ جذبہ حب رسول پر مشیر الحسن کی حمایت کا جذبہ اگر غالب نہ آگیا ہوتا تو دارالعلوم دیوبند کے یہ علماء ایسی کچی بات ہر گز نہ کہتے ۔ کس مصلحت نے انہیں مشیر الحسن کے حق میں صفائی کا وکیل بنادیا ہے اسے وہی بتاسکتے ہیں ۔
ہم نے تو یہ قصہ صرف اسی لئے چھیڑا ہے تاکہ ہمارے قارئین اس بات کو سمجھ سکیں کہ جذبہ حب رسول کسی گستاخ کے خلاف کس طرح اہل ایمان کو متحد کرتا ہے ، اور جن لوگوں کا سینہ اس مقدس جذبے سے خالی ہے وہ گستاخ کی حمایت کے لئے کتنی بے حیائی کے ساتھ رکیک اور مضحکہ خیز تاویلوں کا سہارا لیتے ہیں ۔
گستاخان رسول کی سرشت اور ان کے حامیوں کا ذہن و کردار سمجھانے کیلئے میں اپنے اٹھائے ہوئے سلسلہ کلام سے بہت دور نکل آیا ۔ اب پھر آپ پچھلے اوراق میں اکابر دیوبند کے خلاف اہانت رسول کے الزامات کی بحث سے اپنے ذہن کا رشتہ جوڑ لیں ۔
ٹھیک اسی طرح اس وقت بھی دیوبندکے علماء نے اپنے اکابر کی گستاخیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے معاند کا رویہ اختیار کرلیا اور سخن پروری کے جذبے سے مسلح ہو کر وہ میدان میں اتر آئے اور پوری قوت کے ساتھ عوام میں اس بات کی تشہیر کرنے لگے کہ اہانت رسول کے الزام سے ہمارا دامن بالکل پاک ہے ، یہ سارا جھگڑا علمائے بریلی کا کھڑا کیا ہوا ہے ، انہوں نے ہمارے اکابر کے خلاف اہانت رسول کا جوالزام عائد کیا ہے وہ بالکل جھوٹ اور بے بنیاد ہے ۔
ان کے پاس ذرائع ابلاغ اور مالی وسائل کی کمی نہیں تھی جب ان کے اس جھوٹے پروپیگنڈہ سے عوام متاثر ہونے لگے تو ان کا جھوٹ فاش کرنے کے لئے مجبوراً ہمیں بحث و مناظرہ کا راستہ اختیار کرنا پڑا ، تاکہ عوام کی عدالت میں بالکل آمنے سامنے یہ حقیقت آشکار ہوجائے کہ ان کے اکابر کے خلاف اہانت رسول کا الزام جھوٹا نہیں بلکہ امر واقع ہے ۔
چنانچہ ہر مناظرے کی مجلس میں انہی کے مناظر علماء کے سامنے ان کی کتابوں سے وہ اہانت آمیز عبارتیں صفحہ اور سطر کی نشاندہی کے ساتھ پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی رہیں اور ان کے علماء نے کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ کتابیں ہمارے اکابر کی تصنیف کردہ نہیں ہیں اور عبارتیں ان کتابوں میں موجود نہیں ہیں ۔
بحث و مناظرہ کے ان معرکوں سے بڑا فائدہ یہ حاصل ہوا کہ ملک کے عوام کی سمجھ میں یہ بات اچھی طرح اترگئی کہ اکابر دیوبند کے خلاف اہانت رسول کا الزام بے بنیادنہیں ہے ، اور یہ بھی لوگوں نے واضح طور پر محسوس کرلیا کہ علمائے اہلسنّت کا یہ سارا اضطراب اور تحریر و تقریر کے ذریعہ ان کی بے چینیوں کا یہ سار امظاہرہ صرف تحفظ ناموس رسول ﷺ کے جذبے میں ہے ۔
علمائے دیوبند کے ساتھ ہمارے اختلاف کی دوسری بنیاد
علمائے دیوبند کے ساتھ ہمارے اختلاف کی پہلی بنیاد ان کے اکابر کی وہ عبارتیں ہیں جو اہانت رسول اور انکار ضروریات دین پر مشتمل ہے ، جنہیں آپ گذشتہ اوراق میں پوری تفصیل کے ساتھ پڑھ چکے ۔ اگر آپ کی نگا ہ میں ہمارے احساسات کی کوئی قیمت ہے تو آپ نے اچھی طرح اندازہ لگالیا ہوگا کہ ان اہانت آمیز عبارتوں کے ردعمل میں علمائے دیوبند کے خلاف ہماری نفرت و بے زاری کبھی ختم نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے ۔
یہی ایک بنیاد ان سے ہماری علیحدگی کیلئے بہت کافی تھی جبکہ یہ معلوم کرکے آپ حیران رہ جائیں گے کہ اس کے علاوہ علمائے دیوبند کے کچھ مخصوص عقائد بھی ہیں جو فاصلہ بڑھانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں ۔ ان عقائد کی تفصیل کتابوں کے حوالوں کے ساتھ ذیل میں ملاحظہ فرمائیے۔
۱۔ امتی عمل میں انبیاء سے بڑھ جاتے ہیں ۔ (تحذیر الناس )
۲۔ صریح جھوٹ سے انبیاء کا محفوظ رہنا ضروری نہیں ہے ۔ (تصفیۃ العقائد )
۳۔ کذب کو شان نبوت کے منافی سمجھنا غلط ہے۔ (تصفیۃ العقائد )
۴۔ انبیاء کو معاصی سے معصوم سمجھنا غلط ہے ۔ (تصفیۃ العقائد )
۵۔ نماز میں حضور اقدس ﷺ کی طرف خیال لے جانے سے نمازی مشرک ہوجاتا ہے ۔
(صراط مستقیم )
۶۔ نماز میں نبی کا خیال زنا کے خیال اور گدھے اور بیل کے خیال میں ڈوب جانے سے
بھی بدتر ہے ۔ (صراط مستقیم )
۷۔ خدا کا جھوٹ بولنا ممکن ہے ۔ (یکروزی )
۸۔ خدا کو زمان و مکان سے منزہ سمجھنا گمراہی ہے ۔ (ایضاح الحق )
۹۔ جادو گروں کے شعبدے انبیاء کے معجزات سے بڑھ کر ہوتے ہیں ۔ (منصب امامت)
۱۰۔ صحابہ کرام کو کافر کہنے والا سنت جماعت سے خارج نہیں ہے ۔ (فتاویٰ رشیدیہ )
۱۱۔ محمد یا علی جس کانام ہے وہ کسی چیز کا مختار نہیں ۔ (تقویۃ الایمان )
۱۲۔ ہر مخلوق چھوٹا ہو (جیسے عام بندے ) یا بڑا (جیسے انبیاء و اولیاء ) وہ اللہ کی شان کے آگے
چمار سے بھی زیادہ ذلیل ہے ۔ (تقویۃ الایمان )
۱۳۔ جو حضور اقدس ﷺ کو قیامت کے دن اپنا وکیل اور سفارشی سمجھتا ہے وہ ابوجہل کے برابر
مشرک ہے ۔ ( تقویۃ الایمان )
۱۴۔ رسول بخش ، نبی بخش ، غلام معین الدین اور غلام محی الدین نام رکھنا شرک ہے ۔
(تقویۃ الایمان )
۱۵۔ رحمۃ للعالمین ہونا حضور ﷺ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے امتی بھی رحمۃ للعالمین ہوسکتے
ہیں ۔ (فتاویٰ رشیدیہ )
۱۶۔ بزرگان دین کی فاتحہ کا تبرک کھانے سے دل مردہ ہوجاتا ہے ۔( تقویۃ الایمان )
۱۷۔ حضور ﷺ ہمارے بڑے بھائی ہیں ہم انکے چھوٹے بھائی ہیں ۔(تقویۃ الایمان )
۱۸۔ یہ کہنا کہ خدا و رسول چاہے گا تو فلاں کام ہوجائے گا شرک ہے ۔(بہشتی زیور )
۱۹۔ کسی نبی یا ولی کے مزارات کی زیارت کیلئے سفر کرنا ان کے مزار پر روشنی کرنا ، فرش بچھانا ، جھاڑو دینا ، لوگوں کو پانی پلانا اور ان کے لئے وضو اور غسل کا انتظام کرنا شرک ہے ۔(تقویۃ الایمان )
اپنے قارئین کرام سے درخواست کروں گا کہ انصاف و دیانت کے ساتھ آپ دیوبندی مکتب فکر کے ان مخصوص عقائد پر غور فرمائیں ۔ ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جن سے عقیدہ توحید کو ٹھیس پہنچتی ہے اور کچھ وہ ہیں جو شان منصب رسالت کو مجروح کرتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جنہیں اگر صحیح مان لیا جائے تو دنیا کے نوے کروڑ مسلمانوں کے ایمان و اسلام کی سلامتی خطرے میں پڑجاتی ہے اور بات یہیں تک نہیں رکتی بلکہ صدیوں پر مشتمل ماضی کے وہ لاکھوں اسلاف کرام بھی زد میں آجاتے ہیں جنہوں نے ان عقائد و اعمال کے مخالف سمت کو اسلامی عقائد و اعمال کی حیثیت سے قبول کیا ہے ۔
تھوڑی دیر کے لئے اہل بریلی کو ایک کنارے رکھئے اور اپنے مذہبی شعور کی بنیاد پر آپ خود بتائیے کہ کیا ان عقائد و اعمال کی صحت سے آپ اتفاق کرتے ہیں اور بغیر کسی تردد کے ہاں یا نہیں میں اس بات کا بھی دو ٹوک فیصلہ کیجئے کہ کیا آج کا مسلم معاشرہ انہی عقائد و اعمال کی بنیاد پر قائم ہے ۔ اگر نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے تو ان علمائے حق کے بارے میں آپ صاف صاف اپنے خیال کا اظہار کیجئے جنہوں نے علمائے دیوبند کے ان خانہ زاد عقائد و اعمال سے اختلاف کیا ہے اور اسلام کے ایک پر جوش محافظ کی حیثیت سے امت کو ان گندے عقائد سے بچانے کی بھرپور جدوجہد کی ہے اور عین اس کے مخالف سمت میں اسلام کے صحیح عقائد کے ساتھ انہیں منسلک رکھا ہے ۔
اب جمہور مسلمین ہی کو یہ فیصلہ کرناہے کہ ان علمائے حق کا یہ عظیم کارنامہ ان کے حق میں ہے یا ان کے خلاف ہے اور اپنی ان گراں قدر خدمات کے ذریعہ ان علمائے حق نے امت میں تفرقہ ڈالا ہے یا انہیں ٹوٹنے سے بچایا ہے ۔
اگر اس حقیقت سے آپ اتفاق کرتے ہیں کہ آج بھی روئے زمین کے جمہور مسلمین کا وہی مذہب ہے جس کی حمایت ان علماء نے اپنی زبان و قلم سے کی ہے تو اس حقیقت سے بھی آپ کو اتفاق کرنا پڑے گا کہ جمہور مسلمین کے صحیح پیشوا بھی یہی علماء ہیں ۔ جو لوگ دشمن کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر ان علماء کے خلاف تفرقہ اندازی کا الزام عائد کرتے ہیں وہ مذہبی تاریخ میں سب سے بڑے احسان فراموش کہلانے کے مستحق ہیں ۔ آپ نہ بھی اپنے آپ کو بریلوی کہیں جب بھی آپ کو علمائے بریلی کے اس عظیم الشان کردار کا شکر گذار ہونا پڑے گا کہ انہوں نے آپکو دیوبند کے غلط مذہب فکر کا شکار ہونے سے بچالیا، اور امت مسلمہ کو صحیح عقائد و اعمال کے ساتھ منسلک رکھا۔
علمائے دیوبند کے ساتھ ہمارے اختلاف کی تیسری بنیاد
تیسری بنیاد کے ضمن میں علمائے دیوبند کے وہ فتاویٰ اور تحریرات ہیں جن کے ذریعہ انہوں نے جمہور مسلمین کی مذہبی روایات کو حرام اور بدعت ضلالت قراردیا ہے ۔ ذیل میں آپ ان کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔
۱۔ انبیاء و اولیاء کے ساتھ توسل کو وہ حرام اور گناہ قرار دیتے ہیں ۔
۲۔ حضور انور ﷺ کے حق میں بعطائے الٰہی بھی وہ علم غیب کا عقیدہ تسلیم نہیں کرتے ۔
۳۔ تقویۃ الایمان کی صراحت کے مطابق وہ حضور ﷺ کے بارے میں عقیدہ رکھتے ہیں
کہ معاذ اللہ وہ مر کر مٹی میں مل گئے ۔
۴۔ وہ محافل میلاد کے انعقاد اور قیام و سلام کو حرام قرار دیتے ہیں ۔
۵۔ بزرگان دین اور اموات مسلمین کیلئے ایصال ثواب اور عرس و فاتحہ کو وہ حرام کہتے ہیں ۔
۶۔ مجلس ذکر شہادت حسین اور غوث پاک کی فاتحہ گیارہویں اور غریب نواز کی فاتحہ چھٹی کو
حرام کہتے ہیں ۔
۷۔ حضو رﷺ کی ولادت پاک کے موقع پر وہ خوشی منانے اور جلسہ و جلوس کے انعقاد کو
حرام قرار دیتے ہیں ۔
۸۔ مزارات اولیاء اور مقابر صلحاء پر گنبد کی تعمیران کے نزدیک حرام ہے ۔
۹۔ نعرہ یا رسول اللہ اور یا نبی سلام علیک کو وہ حرام قرار دیتے ہیں ۔
۱۰۔ عقیقہ و ختنہ اور بسم اللہ کی تقریبات میں اعزہ و اقارب اور احباب کو جمع کرنا ان کے
نزدیک ناجائز ہے ۔
۱۱۔ تیجہ ، دسواں ، چالیسواں اور شب برأت کا حلوہ ان کے نزدیک ناجائز ہے ۔
۱۲۔ شادی بیاہ ، منگنی اور چوتھی میں ان کے نزدیک نہ کسی کو بلانا جائز ہے اور نہ کسی کے یہاں
جانا جائز ہے ۔
۱۳۔ شادی کے موقع پر سہرا باندھنے کو وہ مشرکانہ فعل قرار دیتے ہیں ۔
۱۴۔ جو شخص مزارات اولیاء پر چادر چڑھاتا ہو ، بزرگوں کا عرس کرتا ہو اسکے لڑکے کے ساتھ
کسی مسلمان لڑکی کے رشتہ نکاح کو وہ حرام قرار دیتے ہیں ، اسکے جنازے میں شریک
ہونے، اس کی بیمار پرسی کرنے اور اسے سلام کرنے سے بھی یہ لوگ منع کرتے ہیں ۔
۱۵۔ ارواح اولیاء سے فیض حاصل کرنے اور مدد طلب کرنے کو بھی یہ لوگ حرام قرار دیتے ہیں
۱۶۔ حضور اکرم سید عالم ﷺ کا نام پاک سن کر انگوٹھا چومنے کو بھی یہ لوگ حرام کہتے ہیں ۔
۱۷۔ رجب کے مہینے میں امام جعفر صادق کی فاتحہ کو بھی یہ لوگ حرام کہتے ہیں ۔
۱۸۔ رمضان المبارک میں ختم قرآن کے موقع پر مساجد میں چراغاں کرنے کو بھی یہ لوگ
حرام کہتے ہیں ۔
۱۹۔ اموات مسلمین کی قبروں پر تاریخ وفات کا پتھر نصب کرنے کو بھی یہ لوگ حرام کہتے ہیں۔
۲۰۔ نماز جنازہ کے بعد دعا مانگنے کو بھی یہ لوگ ناجائز کہتے ہیں ۔
۲۱۔ عید کے دن معانقہ کرنے اور بغلگیر ہونے کو بھی یہ لوگ حرام کہتے ہیں ۔
آپ ہی انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں
علمائے دیوبند کے ساتھ ہمارے اختلاف کی یہ تیسری بنیاد بھی آپ کے سامنے ہے ۔ اب آپ ہی انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں کہ کیا آپ علمائے دیوبند کے ان فتوئوں سے متفق ہیں ، اور کیا یہ فتوے جمہور مسلمین کی روایات کی مخالفت میں نہیں ہیں ؟ اور کیا ہمارے معاشرے کا مذہبی اور اجتماعی نظام ان فتوئوں سے مجروح نہیں ہوتا؟ اگر ہوتا ہے اور یقینا ہوتا ہے تو آپ ہی فیصلہ کریں کہ ان فتوئوں کے مطابق عام مسلمان صبح سے شام اگر حرام ہی کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں تو ہمارا اسلامی معاشرہ کہا ں ہے ؟
یہی وہ منزل ہے جہاں واضح طور پرآپ کو علمائے دیوبند اور علمائے بریلی کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچنی ہوگی کہ علمائے دیوبند کی ساری محنت اس بات پر صرف ہوئی کہ مسلم معاشرے کے ہر فرد کو گناہ گار، حرام کار ثابت کیا جائے ، اور علمائے بریلی نے اپنے علم کا سارا زور اس بات پر لگایا کہ جو چیز اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک حرام نہیں ہے اسے کون حرام کہہ سکتا ہے ۔ جن مذہبی اور اخلاقی روایات پر ہمارا معاشرہ کھڑا ہے انہیں بلاوجہ حرام قراردینا علم اور فکر کی گمراہی بھی ہے اور مسلم دشمنی بھی ۔
ہمارے قارئین کرام جذبہ انصاف سے کام لیں تو انہیں ماننا پڑے گا کہ علمائے بریلی کی ساری جدوجہد جمہور مسلمین کی حمایت میں ہے ، جبکہ علمائے دیو بند کی ساری کوششیں جمہور مسلمین کی مخالفت میں ہیں ۔
اب اس سے بڑھ کر ناقدری اور زیادتی کیا ہوگی کہ جو لوگ آپ پر حملہ آور ہیں وہ آپ کے سب سے بڑے خیر خواہ ہوگئے ، اور جو علماء اپنی جان اور آبرو جوکھم میں ڈال کر آپ کا دفاع کررہے ہیں انہیں آپ دشمن سمجھتے ہیں ۔
حاصل گفتگو
اختلاف کی پہلی بنیاد سے لیکر یہاں تک جو کچھ ہم نے آپ کے سامنے پیش کیا ہے اس کا مدعا صرف اتنا ہے کہ آپ اختلافات کی نوعیت کو پوری طرح سمجھ لیں اور ہماری برہمی ، بیزاری اور علیحدگی کو کسی اور جذبے پر محمول نہ کریں ۔ علمائے دیوبند کے گستاخ قلم کا حملہ ہماری اپنی ذات پر ہوتا تو عفوودرگزر اور مصالحت کی بہت سی راہیں نکل سکتی تھیں ، لیکن جب انہوں نے منصب رسالت کی عظمتوں کو نشانہ بنا کر اللہ اور اس کے پیارے رسول کو اذیت پہنچائی ہے تو اب ان کے متعلق جو فیصلہ ہوگا وہیں سے ہوگا۔
کسی بھی عالم کے ساتھ ہمارا رشتہ براہ راست نہیں ہے بلکہ نبی کے توسط سے جب اپنا رشتہ وہیں سے کوئی کاٹ لے تو ہمارے ساتھ رشتہ جوڑنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نبی پاک کے ساتھ وفاداری کے جذبے ہی کا یہ تقاضہ ہے کہ جب تک ہمارے جسم میں جان ہے ، نہ یہ کہ ان گستاخوں سے ہم اپنا رشتہ منقطع رکھیں گے بلکہ ہماری کوشش جاری رہے گی کہ ہر مومن وفادار کا رشتہ ان سے منقطع کرتے رہیں ۔
ہمارے خلاف علمائے دیوبند کے الزامات
علمائے دیوبند کے ساتھ ہمارے اختلافات کی تاریخ ادھوری رہ جائے گی اگر ان الزامات کا ذکر نہ کریں جو علمائے دیوبند نے ہمارے خلاف عائد کئے ہیں ۔
ہمارے خلاف ان کا سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ ہم نے صاحب علم و فضل علماء کی تکفیر کی ہے اور ہم کفر کا فتویٰ دینے میں بہت بے باک اور غیر محتاط واقع ہوئے ہیں اور اپنے مسلک میں ہم بہت شدت پسند اور متعصب ہیں ۔ اس الزام کے دفاع میں اس سے زیادہ اور ہم کچھ نہیں کہنا چاہتے کہ ہماری کتاب حسام الحرمین میں صرف پانچ اشخاص کے خلاف یہ الزام اہانت رسول و انکا ر ضروریات دین کفر کے فتوے صادر کئے گئے ہیں ، جن پر حرمین اور بلا د عرب کے اکابر علماء اور مشائخ نے بھی اپنی مہر توثیق ثبت فرمائی ہے ۔
ان میں چار تو یہی اکابر علمائے دیوبند ہیں جن کا تذکرہ پہلی بنیاد کے ضمن میں گزر چکا ہے اور پانچواں مرزا غلام احمد قادیانی کذاب ہے ۔
اب اگر کوئی اپنی شامت عمل سے ان پانچوں میں سے کسی کے بھی کلمات کفریہ کی حمایت کرتا ہے تو اس کے لازمی نتائج اور واجبی تعزیرات کا ذمہ دار وہ خود ہے ۔ علمائے بریلی کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ بلاوجہ کسی کو دائرہ اسلام سے خارج کیا جائے ۔ اہانت رسول اور کلمہ کفر کی حمایت کرکے اپنی عاقبت برباد کرنے کا انتظام وہ خود کرتے ہیں ۔ کسی اور کو مطعون کرنے سے کیا فائدہ :
ایک ضروری نکتہ :
اس مقام پر اس نکتے کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ جس طرح ایک غیر مسلم کو کلمہ ایمان و اسلام کے اقرار کے بعد مسلم سمجھنا ضروری ہے اسی طرح ایک مسلم کو اگر وہ معاذ اللہ کفر کا مرتکب ہوجائے تو اُسے غیر مسلم سمجھنا بھی دین ہی کا ایک فریضہ ہے ۔
مخصوص حالات میں یہ ناخوشگوار فریضہ جس طرح علمائے بریلی کو انجام دینا پڑا ہے علمائے دیوبند بھی اس فرض کی ادائیگی میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔ ثبوت کے لئے مولوی عبد الماجد دریا بادی کی مشہور کتاب ’’حکیم الامتہ ‘‘ میں مولوی امین احمد اصلاحی کا یہ خط ملاحظہ فرمائیں ۔ یہ خط اس دور کا ہے جب اصلاحی صاحب مدرسۃ الاصلاح سرائے میر ضلع اعظم گڑھ کے منتظم تھے ۔ موصوف کے خط کا یہ حصہ خاص طور پر پڑھنے کے قابل ہے ۔
’’مولانا تھانوی کا فتویٰ شائع ہوگیا ہے کہ مولانا شبلی نعمانی اور مولانا حمید الدین فراہمی کافر ہیں ، اور چونکہ مدرسہ انہی دونوں کا مشن ہے اس لئے مدرسۃ اصلاح مدرسہ کفر و زندقہ ہے ۔ یہاں تک کہ جو علماء اس مدرسے کے (تبلیغی ) جلسوں میں شرکت کریں وہ بھی ملحدوبے دین ہیں ۔
(حکیم الامتہ ‘ صفحہ ۴۷۵ )‘‘
مولوی عبد الماجد دریا آبادی ، تھانوی صاحب کے مرید و خلیفہ ہیں اس لئے مولوی امین احسن اصلاحی کا خط موصول ہونے کے بعد انہوں نے ایک معتمد کی حیثیت سے تھانوی صاحب کو ایک مفصل خط لکھا جس میں انہوں نے مولوی شبلی نعمانی اور مولوی حمید الدین فراہی کی طرف سے صفائی پیش کرتے ہوئے ان کی عبادت و ریاضت ، ان کی نماز تہجد اور ان کے زہد و تقویٰ کو ان کے اسلام ایمان کے ثبوت میں پیش کیا تھا ۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ ایسے متدین لوگوں کے خلاف کفر کا فتویٰ حلق کے نیچے نہیں اترتا ۔ تھانوی صاحب نے ان کے خط کا جوجواب دیا ہے وہ یہ ہے ۔
’’یہ سب اعمال و احوال ہیں ۔ عقائد ان سے جداگانہ چیز ہے ۔ صحت عقائد کے ساتھ فساد اعمال و احوال اور فساد عقائد کے ساتھ صحت اعمال و احوال جمع ہوسکتا ہے ۔
(حکیم الامتہ ، صفحہ ۴۷۶)
اس جواب کا سوائے اس کے اور کیا مطلب ہے کہ شہرت علم و کمال اور فضل و تقویٰ کے باوجود شبلی نعمانی اور مولوی حمید الدین فراہی کے خلاف مولوی تھانوی نے کفر کا جو فتویٰ صاد ر کیا ہے وہ درست اور صحیح ہے ۔ تھانوی صاحب کے چاہنے والے معتقدین اس فتویٰ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے یہی تاویل کریں گے کہ مولوی تھانوی نے ان دونوں حضرات کی تحریر یا تقریر میں کفر کی کوئی بات ضرور دیکھی ہوگی بغیر کسی شرعی وجہ کے انہوں نے کفرکا فتویٰ ہر گز صادر نہیں کیا ہوگا۔
اب یہی بات اگر ہم تھانوی صاحب اور دیگر اکابر دیوبند پر الٹ دیں کہ ان حضرات کے خلاف بھی کفر کا جو فتویٰ حرمین طیبین سے صادر ہوا وہ بھی بلاوجہ نہیں تھا۔ تکفیر کی کوئی شرعی وجہ ان کی نظر میں ضرور ہوگی جیسا کہ پہلی بنیاد میں اس کی ساری تفصیل آپ کی نظر سے گذر چکی ہے ۔
اگر مولوی شبلی نعمانی اور مولوی حمید الدین فراہی کے علم و فضل اور زہد و تقویٰ کی شہرت ، ان کی تکفیر سے مانع نہیں ہوتی تو اکابر دیوبند کے حق میں آسمان سے کونسی وحی نازل ہوتی ہے کہ کفر اور اہانت رسول کے جرم کے ارتکاب کے باوجود انہیں تکفیر سے مستثنیٰ رکھا جائیگا۔
تصلب اور شدت پسندی کے الزام کا جواب
ہمارے خلاف علمائے دیوبند کا یہ الزام بھی ہے کہ ہم اپنے مسلک میں نہایت متصلب اور شدت پسند واقع ہوئے ہیں ۔ اس الزام کا اس سے زیادہ موزوں اور موثر جواب کوئی اور نہیں ہوسکتا کہ ہم انہیں آئینہ دکھائیں کہ آپ خود اپنی تصویر اس آئینہ میں دیکھ لیں پھر کسی پر انگلی اٹھائیں ۔
ابھی مولوی امین احسن اصلاحی کے خط میں تھانوی کا فتویٰ بھی آپ پڑھ چکے ہیں کہ مدرسۃ الاصلاح سرائے میر بھی چونکہ انہی کافروں کا مشن ہے اس لئے وہ مدرسہ کفر و زندقہ ہے ۔ یہاں تک کہ جو علماء اس مدرسہ کے جلسوں میں شرکت کریں وہ بھی ملحد و زندیق ہیں ۔
اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ اس سے زیادہ مسلک کی شدت پسندی اور کیا ہوگی ۔ تھانوی صاحب اپنے مسلک میں اتنے شدت پسند ہیں کہ جن لوگوں کو وہ بد دین سمجھتے ہیں ان کی تحریر بھی وہ اپنے معتقدین کو نہیں پڑھنے دیتے ۔ کمالات اشرفیہ نامی کتاب میں ان ملفوظات کا مرتب ان کا یہ ملفوظ نقل کرتا ہے ۔
’’بد دین آدمی اگر دین کی بھی باتیں کرتا ہے تو ان میں ظلمت لپٹی ہوتی ہے ان کی تحریر کے نقوش میں بھی ایک گونہ ظلمت لپٹی ہوتی ہے ۔ اس لئے بے دینوں کی صحبت اور بے دینوں کی کتابوں کا مطالعہ ہر گز نہ کرنا چاہیئے ۔ (کمالات اشرفیہ ، صفحہ ۵۵)‘‘
اب ہماری مظلومی کے ساتھ انصاف کیجئے کہ جن لوگوں کو اہانت رسول اور ضروریات دین کے انکار کے الزام میں ہم بے دین سمجھتے ہیں ، اگر ہم بھی ان کی صحبت ان کی تقریروں اور ان کی تحریروں کے بارے میں یہی شدت اختیار کریں تو ہم کیوں لائق گردن زنی ٹھہرائے جائیں ؟ شریعت کی جو مصلحت ان کے سامنے ہے وہ ہمارے سامنے کیوں نہیں ہونی چاہیئے ؟
شدت پسندی کی ایک اور مثال
جو لوگ ندوہ کی تاریخ سے واقف ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دیوبند کے اکابر ند وہ کے سخت مخالف تھے ، یہاں تک کہ ندوہ کے ناظم مولوی محمد علی مونگیری صاحب جب ندوہ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی دعوت لے کر مولوی رشید احمد گنگوہی صاحب سے ملنے دیوبند گئے تو انہوں نے نہ صرف دعوت قبول کرنے سے انکار کیا بلکہ ملنے سے بھی انکار کردیا ، یہاں تک کہ جب مولوی مونگیری کی طرف سے اصرار ہوا کہ آپ خود شریک نہیں ہوسکتے تو کم از کم اپنے کسی آدمی کو شرکت کی اجازت دے دیجئے تو اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا۔
’’مجھے معلوم کرایا گیا ہے کہ انجام اس کا بخیر نہیں ، اس واسطے میں اپنی طرف سے کسی کو اجازت نہیں دے سکتا ۔ (تذکرۃ الرشیدیہ ، ج ۲ ، صفحہ ۲۰۵)
’’انجام اس کا بخیر نہیں ‘‘ اس الہام خداوندی کا اس سے زیادہ واضح ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ آج ندوہ پر دیوبندی فرقے کا تسلط ہوگیا ہے ۔
انجام کی وحشت ناک تصویر اور نمایاں ہوجائے گی اگر اسکا آغاز بھی آپ نظر میں رکھیں ۔
مولوی شبلی نعمانی کے بارے میں اہل علم اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ ندوہ کے بانیوں میں ایک موثر شخصیت کے مالک تھے ۔ ان کا ایک مضمون مقالات شبلی کے حصہ ششم میں شائع ہوا ہے ۔ یہ مضمون اسوقت کا ہے جب مولوی شبلی سے ندوہ کے ناظم کی چشمک ہوگئی تھی ۔ بتدریج اختلافات یہاں تک بڑھے کہ شبلی کی حمایت میں ندوہ کے طلبہ نے اسٹرائک کردیا ، اس کے بعد کی سر گزشت خود شبلی کے قلم سے پڑھیئے ، لکھتے ہیں کہ !
’’عین اسی حالت میں مولود شریف کا زمانہ آیا اور طلبہ نے جیسا ہمیشہ کا معمول تھا مولود شریف کرنا چاہا ، لیکن اس خیال سے کہ مولود شریف میں بیان کروں گا وہ مولود سے روکے گئے اور تین دن تک یہ مرحلہ رہا ۔ آخر لوگوں نے سمجھایا کہ مولود کے روکنے سے شہر میں عام برہمی پھیلے گی ، مجبوراً شرطوں اور قیدوں کے ساتھ مولود شریف کی منظوری دی گئی ۔ (مقالات شبلی ، ج ۲ ، صفحہ ۱۳۱)‘‘
لیکن کیا آج بھی دارالعلوم ندوۃ العلماء کے احاطے میں مولود شریف کے انعقاد کی اجازت مل سکتی ہے ؟ کیا آج بھی ہمیشہ کا یہ معمول وہاں کے طلبہ میں زندہ اور باقی ہے ؟ نہیں ہر گز نہیں ، کیونکہ اب ندوہ پر اہل دیوبند کا غاصبانہ قبضہ ہوگیا ہے ۔
غور فرمائیے ! وہ آغاز تھا اور یہ انجام ہے ، غضب یہ ہے کہ گنگوہی صاحب کا الہام انجام ہی کے بارے میں ہے ۔ آغاز کے بارے میں نہیں ہے ۔
شدت پسندی کا ایک اور مکروہ نمونہ
دیوبندی مذہب کے مشہور پیشوا مولوی رشید احمد گنگوہی اپنے مسلک میں کتنے شدت پسند تھے اس کی ایک مثال ندوہ کے سلسلے میں آپ پڑھ چکے ۔ اب ان کی شدت پسندی ، سخت مزاجی کا ایک اور مکروہ نمونہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیے ۔
بزرگان دین اور ان کے مزارات طیبات سے انہیں اتنی سخت نفرت تھی کہ وہ ان کے عرسوں سے بھی سخت نفرت کرتے تھے۔
سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ کے مشہور بزرگ قطب عالم حضرت عبد القدوس گنگوہی کا مزار مبارک اسی گنگوہ میں ہے جو مولوی رشید احمد صاحب کا وطن مالوف ہے ۔ ان کی طرف سے مولوی صاحب کے دل میں کتنی کدورت تھی اور وہ ان کے عرس شریف سے کس قدر نفرت کرتے تھے اس کا اندازہ آپ مولوی زکریا شیخ الحدیث سہارنپوری کی اس تحریر سے لگائیے ……موصوف اپنی کتاب تاریخ مشائخ چشت میں لکھتے ہیں ۔
’’حضرت شاہ عبد القدوس کا عرس جس کے بند کرنے پر آپ قادر نہ تھے ۔ وہ اس درجہ آپ کو اذیت پہنچاتا تھا کہ آپ کو صبر کرنا دشوار تھا ۔ اول اول آپ ان دنوں گنگوہ چھوڑ دیتے اور رامپور تشریف لے جاتے ، مگر آخر میں اس اذیت قلبی کے برداشت کرنے کی آپ کو تکلیف دی گئی تو یہ زمانہ بھی آپ کو اپنی خانقاہ میں رہ کر گزارنا پڑا۔
موسم عرس میں آپ کو اپنے منتسبین کا آنا بھی اس درجہ ناگوار ہوتا تھا کہ آپ اکثر ناراض ہوجاتے اور اس سے بات چیت کرنا بھی چھوڑ دیتے ایک بار جناب مولوی محمد صالح صاحب جالندھری جو آپ کے خلفاء اور مجازین میں سے تھے ، آپ کی زیارت کے شوق میں بیتاب ہو کر گھر سے نکل کھڑے ہوئے ۔ اتفاق سے عرس کا زمانہ تھا ، اگرچہ آنے والے خادم کو اس کا وہم بھی نہ گزرا ، مگر حضرت امام ربانی نے بجز سلام کا جواب دینے کے ان سے یہ بھی نہ پوچھاکہ روٹی کھائی یا نہیں اور کب آئے اور کیوں آئے ۔
مولوی محمد صالح صاحب کو دو دن اسی طرح گزر گئے حضرت کا رخ پھر ا ہوا دیکھنا ان کو اس درجہ شاق گزرتا تھا کہ اسکو انہی کے دل سے پوچھنا چاہیئے ۔ آخر اس حالت کی تاب نہ لا کر حاضر خدمت ہوئے اور رو رو کر عرض کیا ! حضرت مجھ سے کیا قصور ہوا جسکی یہ سزا مل رہی ہے ؟ معذرت کے طور پر عرض کیا کہ حضرت ! خدا شاہد ہے مجھے تو عرس وغیرہ کے ساتھ ابتدا ہی سے شوق نہیں ، واللہ نہ میں اس وقت اس خیال سے گنگوہ آیا ، اور نہ آجکل یہاں عرس ہونے کا مجھے علم تھا۔
حضرت امام ربانی نے فرمایا کہ اگر چہ تمہاری نیت عرس میں شرکت کی نہیں تھی ۔ مگر جس راستے میں دو آدمی عرس کے آنے والے آرہے تھے اس میں تیسرے تم تھے ۔
(تاریخ مشائخ چشت ، صفحہ ۲۹۴)
اب قارئین کرام ہی انصاف فرمائیں کہ اس سے بڑھ کر اپنے مسلک میں شدت پسندی اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان کا مرید عرس شریف میں شرکت کی غرض سے گنگوہ نہیں گیا تھا ، بلکہ اپنے پیر کی ملاقات کے لئے وہاں حاضر ہوا تھا ، لیکن صرف اتنی سی بات پر کہ وہ عرس کے زمانے میں گنگوہ کیوں آیا اسے ایسی ذلت آمیز سزا دی جیسے کہ اس سے کوئی بہت بڑا گناہ سرزد ہوگیا ہو۔
اب سوال یہ ہے کہ مولوی رشید احمد گنگوہی کو قطب عالم کے عرس سے اتنی ہی نفرت تھی تو وہ سلسلہ چشتیہ صابریہ میں مرید ہی کیوں ہوئے ، جبکہ اس سلسلے کے سارے اکابر جن میں خواجہ خواجگان چشت حضرت خواجہ معین الدین چشتی سے لیکرقطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار، بابا فرید شکر گنج ، محبوب الہی ، حضرت نظام الدین ، حضرت صابر پاک ، حضرت چراغ دہلی ، حضرت بندہ نواز گیسو دراز ، حضرت ترک پانی پتی ، حضرت شیخ عبد الحق ردو لوی ، حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی ، حضرت شیخ جلال الدین تھانیری ، حضرت اخی سراج ، حضرت علاء الحق پنڈوی اور حضرت سلطان اشرف جہانگیر سمنانی تک کون ایسا بزرگ ہے جس نے اپنے پیروں کا عرس شریف نہ کیا ہو۔
تعجب ہے کہ مولوی رشید احمد گنگوہی صرف اتنی سی بات پر کہ عرس کے زمانے میں ان کا مرید کیوں آیا ، ا س سے منہ پھیر لیا ، لیکن چشتیہ کے جو مشائخ کبائر ساری زندگی اپنے پیروں کا عرس کرتے رہے انہیں وہ اپنا پیر د ستگیر مانتے ہیں ۔ یہ سوال گنگوہی صاحب کے سر پر تلوار کی طرح لٹک رہا ہے کہ جو پیر گنگوہی صاحب کے مسلک کے مطابق خود محرمات و بدعات میں مبتلا ہو وہ کسی کا ہاتھ پکڑ کر خدار سی کی منزل تک کیوں کر پہنچا سکتا ہے ۔
ہمارے خلاف علمائے دیوبند کا دوسرا الزام
جن لوگوں کے اعتقادی مفاسد پر امام اہلسنّت اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے اپنے قلم کا نشتر چلایا تھا وہ زخموں کی تاب نہ لا کر زندگی بھر کراہتے رہے ، انتقام ہر زخمی کا فطری تقاضہ ہے اور فطرت ہی کا یہ بھی داعیہ ہے کہ جب آدمی دشمن پر قابو نہیں پاتا تو دشنا طرازیوں پر اتر آتا ہے ۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ علم و استدلال کے ذریعہ جو لوگ اپنے خلاف اہانت رسول کے الزام کا دفاع نہیں کرسکے انہیں اپنے جذبہ انتقام کی تسکین کی یہی صورت نظر آئی کہ جس طرح بھی ممکن ہو مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی کی شخصیت کو مجروح کیا جائے ۔
علمی جلالت اور کردار کے تقدس پر انگلی رکھنے کی کوئی جگہ نہ مل سکی تو یہ الزام تراشا گیا کہ انہوں نے سنتوں کی بجائے بدعتوں کو زندہ کیا ہے ، حالانکہ مجدد ہونے کی حیثیت سے احیائے سنت اور امتیاز میان حق و باطل ہی اعلیٰ حضرت کا اصل کارنامہ ہے ۔ جس کی بیشمار مثالیں ان کے فتاویٰ کی ضخیم مجلدات میں جگہ جگہ بکھری ہوئی ہیں ۔
اس طرح کے الزام تراشنے والوں میں شیخ دیوبند مولوی حسین احمد صاحب صدر جمعیت علمائے ہند کا نام سرورق پر ہے ، انہوں نے اپنی کتاب ’’ الشہاب الثاقب ‘‘میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کو پانی پی پی کر تقریباً چھ سو گالیاں دی ہیں ۔ انہی میں ایک گالی ’’ مجدد البدعات‘‘ کی بھی ہے، جس سے ان کی کتاب کا ورق داغدار ہے ۔
لیکن اس مقام پر اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے کردار کی ارجمندی کو بار بار سلام کرنے کو جی چاہتا ہے کہ ان کے خلاف کذب بیانی اور الزام تراشی کا کاروبار کرنے والے اپنی ہزار دشمنی کے باوجود اب تک یہ الزام ان پر عائد نہ کرسکے کہ وہ بدعتوں کے موجد بھی ہیں ۔
’’مجدد ‘‘ اور ’’موجد ‘‘ کے درمیان جو معنوی فرق ہے وہ اہل علم پر مخفی نہیں ہے ۔ اب جو لوگ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کو ’’مجدد البدعات ‘‘ کہتے ہیں انہیں یہ بتانا ہوگا کہ جن بدعات کو انہوں نے زندہ کیا ہے ان کا موجد کون ہے؟ اور اپنی کار گزاریوں کی یہ رپورٹ بھی پیش کرنی ہوگی کہ علمائے دیوبند نے ان موجدین کو کتنی گالیاں دی ہیں ؟
اس وقت میرا موضوع یہ نہیں ہے ورنہ میرے پاس ان بدعات کی ایک لمبی فہرست ہے جن کی ایجاد کا سہرا خود علمائے دیوبند کے سربندھتا ہے ۔ وقت اگرچہ نہیں ہے لیکن مقام کی مناسبت سے علمائے دیوبند کی ایجاد کردہ بدعات کی طرف ایک ہلکا سا اشارہ کرکے گزر جانا چاہتا ہوں تاکہ الزام بغیر سند کے نہ رہے ۔ ذیل میں ان بدعتوں کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں ۔
۱۔ دفع بلا اور قضائے حاجات کے نام پر مدرسہ کی مالی منفعت کیلئے ختم بخاری شریف کی بدعت کا موجد کوئی اور نہیں بلکہ خود دیوبند کا دارالعلوم ہے ۔
۲۔ نماز جنازہ کیلئے انتظامی مصلحت کی بنیاد پر نہیں بلکہ غلط اعتقاد کی بنیاد پر احاطہ دارالعلوم میں ایک جگہ مخصوص کرنے کی بدعت کا موجد کوئی اور نہیں بلکہ خود شیخ دیوبند کا دارالعلوم ہے۔
۳۔ مسلم میت کے کفن کیلئے ’’کھدر ‘‘ کی شرط لگانے اور کھدر کے بغیر نمازہ جنازہ پڑھنے اور پڑھانے سے انکار کردینے کی بدعت کا موجد بھی کوئی اور نہیں بلکہ خود شیخ دیوبند مولوی حسین احمدہیں۔
۴۔ وراثت انبیاء کی سندتقسیم کرنے کے لئے اہتمام و تداعی کے ساتھ صدسالہ اجلاس منعقد کرنے اور ایک نا محرم اور مشرک عورت کو اسٹیج پر بلا کر اسے کرسی پر بٹھانے اور اپنے مذہبی اکابر کو اس کے قدموں میں جگہ دینے کی بدعت سیئہ کا موجد بھی کوئی اور نہیں بلکہ خود دیوبند کا دارالعلوم ہے ۔
۵۔ دینی درسگاہ کے احاطے میں مشرکانہ الفاظ پر مشتمل قومی ترانہ کیلئے ’’قیام تعظیمی ‘‘ کی بدعت سیئہ کا موجد بھی کوئی اور نہیں بلکہ خود دیوبند کا دارالعلوم ہے ۔
۶۔ کانگریسی امیدوار کو کامیاب بنانے کے لئے انتہائی جدوجہد کو مذہبی فریضہ سمجھنے کی بدعت کا موجد بھی کوئی اور نہیں بلکہ خود شیخ دارالعلوم دیوبند ہیں ۔
۷۔ اپنے اکابر کی موت پر اہتمام و تداعی کے ساتھ جلسہ تعزیت منعقد کرنے اور ضلالات و اباطیل پر مشتمل منظوم مرثیہ پڑھنے اور پڑھانے کا موجدبھی کوئی اور نہیں بلکہ خود دارالعلوم دیوبند ہے ۔
۸۔ با التزام کسی متعین نماز کے بعد نمازیوں کو روک کر ان کے سامنے تبلیغی نصاب کی تلاوت کرنے کی بدعت کا موجد بھی کوئی اور نہیں بلکہ خود علمائے دیوبند ہیں ۔ (اب اس کتاب کو فضائل اعمال کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔)
۹۔ کلمہ و نماز کی تبلیغ کے نام پر چلہ اور گشت کرنے اور کرانے کی بدعت کا موجد بھی کوئی اور نہیں بلکہ خود علمائے دیوبند ہیں ۔
۱۰۔ دارالعلوم دیوبند میں صدر جمہوریہ کی آمد کے موقع پر قومی ترانہ کے احترام میں کھڑے ہونے کا حکم صادر کرنے والے بھی اکابر دیوبند ہیں جو اس وقت اسٹیج پر موجود تھے۔ اب وہی بتائیں کہ یہ بدعت کی کونسی قسم ہے ۔
یہ اور اسی طرح کی بے شمار بدعات و منکرات ہیں جن کی ایجاد کا سہرا علمائے دیوبند کے سر ہے ، لیکن اس کے باوجودوہ لوگ امام اہلسنّت اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کو بدعتی کہتے نہیں تھکتے ۔
علمائے دیوبند ہر نو ایجاد چیز پر بے دریغ بدعت ضلالت ہونے کا حکم صادر کردیتے ہیں اور اسے حرام قراردے کر مسلمانوں میں اختلاف و انتشار کے نئے نئے فتنے برپا کردیتے ہیں ۔
مثال کے طور پر محفل میلاد ہی کو لے لیجئے ، اس کے بدعت ضلالت اور حرام ہونے کی ان کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ سات سو برس کی نو ایجاد بدعت ہے۔ موجودہ ہئیت کے ساتھ نہ عہد رسالت میں موجود تھی اور نہ عہد صحابہ و تابعین میں ، لیکن جب ان سے دریافت کیا جاتا ہے کہ اگر آپ حضرات کے یہاں صرف نو ایجاد ہونے کی بنیاد پر محفل میلاد بدعت ضلالت ہے تو وہ جن اجزاء پر مشتمل ہے ان میں سے کسی چیز کے بارے میں نشاندہی کیجئے کہ وہ کسی سنت کو مٹاتا ہے یا شریعت کے کسی قاعدہ کلیہ کے تحت ممنوعات کے زمرے میں آتا ہے تو سوائے خاموشی کے ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔
مثال کے طور پر محفل میلاد کے اجزاء یہ ہیں ۔
۱۔ اعلان عام ، ۲۔ فرش و تخت اور شامیانہ وغیرہ ، ۳۔ روشنی ، ۴۔ بخور و عطریات و گلاب ، ۵۔ شیرنی ، ۶۔ مجمع مسلمین ، ۷۔ ذاکر و میلاد خواں ، ۸۔ ذکر الٰہی و ذکر رسول ، ۹۔ قیام و سلام
ان سارے اجزاء میں سے سوائے قیام و سلام کے کوئی جز ایسا نہیں ہے جس پر ان حضرات کا جلسہ سیرت یا جلسہ وعظ ، یا جلسہ تبلیغ یا جلسہ دستار بندی ، یا جلسہ تنظیم و جماعت پر مشتمل نہ ہو ۔ اعلان عام بھی ہے فرش و تخت اور شامیانہ بھی ہے روشنی بھی مجمع بھی ہے واعظ و مقررین بھی ہیں۔ اس لئے ان میں سے کسی جز کو بدعت ضلالت کہہ کر اسے حرام قرار دینے کے معنی یہ ہیں کہ وہ خود اپنے ہی جلسوں کے خلاف حرام ہونے کا فتویٰ دیں ۔
اب رہ گیا معاملہ قیام و سلام کا تو یہ بھی ان کے یہاں وجہ حرمت نہیں ہے کیونکہ بدون قیام بھی محفل میلاد ان کے یہاں حرام ہے ، جیسا کہ فتاویٰ رشیدیہ میں ان کے مشہور پیشوا مولوی رشید احمد گنگوہی نے تحریر فرمایا ہے ۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ محفل میلاد کی وجہ حرمت غلط روایتوں کا پڑھنا یا بیان کرناہے تو میں عرض کروں گا کہ بروایات صحیحہ بھی محفل میلاد ان کے یہاں حرام ہے ۔ جیسا کہ اپنے فتاویٰ میں مولوی رشید احمد گنگوہی اس کی بھی تصریح کرچکے ہیں ۔
میں نے متعدد مناظروں میں دیوبند ی علماء سے سوال کیا کہ جب ہماری محفل میلاد اور آپ حضرات کے جلسہ وعظ کے اجزاء ایک ہی ہیں تو آپ کا جلسہ وعظ جائز اور ہماری محفل میلاد حرام کیوں ہے ؟ صرف اس وجہ سے تو کوئی چیز حرام یا حلال نہیں ہوسکتی کہ آپ کے جلسہ کا نام جلسہ وعظ یا جلسہ سیرت ہے اور ہمارے جلسہ کاجلسہ میلاد ہے ۔
جب ان حضرات سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو میں نے عرض کیا کہ ! ایک ہی وجہ فرق میری سمجھ میں آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ حضور سراپا انور ﷺ کی ولادت باسعادت کے موقع پر جب ساری کائنات میں خوشی کے ڈنکے بج رہے تھے تو شیطان لعین کے گھر میں ماتم بپا تھا وہ شدت غیظ میں اپنے سر پر خاک ڈال رہا تھا ۔
اسے حضور پاک صاحب لولاک ﷺ کی ولادت باسعادت سے تکلیف پہنچی تھی ۔ بہت ممکن ہے اسکی پیروی میں آپ حضرات کو ذکر ولادت سے تکلیف پہنچتی ہو کیونکہ واقعہ تو گزرچکا اب تو صرف اس کا ذکر باقی رہ گیا ۔ آپ حضرات دیوبند میں اپنے دارالعلوم کا جشن صد سالہ مناتے ہیں تو شریعت آپ کا ہاتھ نہیں پکڑتی ، اور ہمارے جشن عید میلاد النبی ﷺ پر آپ کا دارالعلوم گرجنے اور برسنے لگتا ہے ۔ سچ کہا ہے کہنے والوں نے کہ جب کسی کی ذات سے دل میں کسی طرح کی جلن ہوجاتی ہے تو اس کے ذکر سے بھی دل جلنے لگتاہے۔
ایک چبھتا ہوا سوال اور اس کا جواب
میری یہ تحریر پڑھنے کے بعد ہر خالی الذہن شخص کے دماغ کی سطح پر یہ سوال ضرور ابھرے گا کہ ہندوستان میں دیوبندی فرقے کے علاوہ اور بھی بہت سارے باطل فرقے ہیں ، لیکن کیا وجہ ہے کہ کسی اور فرقے کے خلاف علمائے اہلسنّت اس طرح صف آراء نظر نہیں آتے جیسی صف بندی ان کے یہاں اہل دیوبند کے مقابلے میں نظر آتی ہے ۔
اس سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ بتادینا ضروری سمجھتا ہوں کہ بحمدہ تعالیٰ علمائے اہلسنّت نے ہر باطل فرقے کے خلاف تحریر و تقریر اور بحث و مناظرہ کے ذریعہ ردو ابطال کے فرائض جس گرم جوشی اور دیانتداری کے ساتھ انجام دیئے ہیں وہ مہر نیروز کی طرح روشن ہیں ۔ دین حق کے خلاف اٹھنے والے فتنے کی سرکوبی کے سلسلے میں ہم نے کبھی اہل زمانہ کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ہے ۔ شیعوں قادیانیوں اور غیر مقلدین وغیرہ کے رد میں امام اہلسنّت اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے بہت سارے رسائل لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوئے اور ہورہے ہیں ۔ ان کے بعد ان کے خلفاء تلامذہ اور متوسلین و متبعین نے تحریرات و خطبات کے ذریعہ جو خدمات انجام دی ہیں ان کے اثرات سے زمین کا کوئی خطہ بھی خالی نہیں ہے ۔ ایسی بات ہر گز نہیں ہے کہ دوسرے فرقہائے باطلہ کے لئے کوئی نرم گوشہ ہمارے دلوں میں موجود ہے ۔
دیوبندی فرقہ کے خلاف شدت پسندی کی وجوہات
اب رہ گئی یہ بات کہ دیوبندی فرقے کے خلاف علمائے اہلسنّت کا رویہ اتنا سخت کیوں ہے تو اس کی متعدد وجوہات ہیں ، جنہیں ٹھنڈے دل سے پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
پہلی وجہ
تو یہ ہے کہ جن کفریات و ضلالت کی وجہ سے دیوبندی فرقے کے ساتھ ہمارا بنیادی اختلاف ہے ان کا تعلق عقائد سے ہے اور وہ عقائد یا تو ان کے دلوں میں ہیں یا انکی کتابوں کے اوراق میں چھپے ہوئے ہیں اب جہاں تک عمل کا تعلق ہے تو وہ بھی اپنے آپکو حنفی کہتے ہیں ، ظاہر میں بالکل ہماری ہی طرح وہ بھی نماز پڑھتے ہیں ، بالکل ہماری ہی طرح وہ بھی اذان دیتے ہیں ، بالکل ہماری ہی طرح وہ بھی تراویح پڑھتے ہیں ، بالکل ہماری ہی طرح وہ بھی عیدین کی نماز پڑھتے ہیں ۔ ظاہری سطح پر ان کے ظاہر میں کوئی ایسی واضح علامت موجود نہیں ہے جس کے ذریعہ سادہ لوح مسلمانوں کو ان کی شناخت ہوسکے ، اس لئے ان کے متعلق عوام کا غلط فہمی میں مبتلا ہونا بالکل یقینی امر ہے ، اسی بنیاد پر یہ ضرورت داعی ہوئی کہ عقیدے کی سطح سے عوام میں ان کا اتنا واضح تعارف کرایا جائے کہ انہیں پہچاننے میں کوئی دشواری نہ پیدا ہو ۔
لیکن جہاں تک شیعوں کا تعلق ہے تو جہاں انہوں نے اذان دی یا نماز کی نیت باندھی تو فوراً پتہ چل گیا کہ یہ اور ہیں اور ہم اور ہیں ۔ یہی حال غیر مقلدین کا بھی ہے۔ ان کی فرض نمازیں ، ان کی وتر ، ان کی تراویح اور ان کی عیدین نمازیں چیخ چیخ کر عوام کو تنبیہہ کردیتی ہیں کہ یہ دوسرے مذہب کے لوگ ہیں ، اس لئے عوام کو ان سے خبردار کرنے کی اتنی سخت ضرورت نہیں ہے ۔ جتنی سخت ضرورت عوام کو دیوبندی فرقے سے بچانے کی ہے ۔
دیوبندی حضرات سنی کو کس طرح بد عقیدہ بناتے ہیں ؟
یہ گھس پٹیئے ہیں جو ہماری صفوں میں گھس کر اور ہمارا بن کر ہمارے عوام کو مختلف تر کیبوں سے قریب کرتے ہیں ، اور جب وہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارا تیر نشانے پر بیٹھ گیا تو وہ مختلف طریقوں سے انہیں اپنی جماعت کے اکابر کا عقید تمند بناتے ہیں ، اور اس کے بعد انہیں اتنا بدل دیتے ہیں کہ وہ اہلسنّت کے ان سارے عقائد و روایات جنہیں وہ ایمان کی طرح عزیز رکھتے تھے اب شرک و بدعت سمجھنے لگتے ہیں ، اور کچھ دنوں کے بعد ان کے دلوں پر بدبختیوں کی ایسی مہر لگ جاتی ہے کہ نہ وہ قرآن کی کوئی بات سنتے ہیں اور نہ حدیث کی۔ واضح رہے کہ یہ ساری باتیں میں مفروضے کے طور پر نہیں لکھ رہا ہوں بلکہ یہ ہمارے دن رات کے مشاہدات ہیں ۔ ان حالات میں اہلسنّت کے سادہ لوح عوام کو انبیاء و اولیاء کی جناب میں بد عقیدہ ہونے سے بچانے کیلئے ہمارے پاس سوا اسکے اور کیا راستہ ہے کہ ہم اپنے عوام کو دیوبندیوں کے عقائد ان کے مکرو فریب کے ہتھکنڈوں سے پوری طرح باخبر رکھیں ۔
دوسری وجہ
دیوبند مذہب کا مطالعہ کرنے کے بعد حقیقت پوری طرح آشکار ہوجاتی ہے کہ قرآن حکیم میں منافقین مدینہ کی جو خصلتیں بیان کی گئی ہیں ، ان ساری خصلتوں کے یہ حقیقی وارث ہیں ۔ مثال کے طور پر منافقین کے پاس دو زبانیں تھیں ۔ ایک زبان تو وہ تھی جو صرف ان کے اپنے لوگوں میں کھلتی تھی اور دوسری زبان وہ تھی جسے حضور اکرم ﷺ کے جانثاروں کے سامنے کھولتے تھے۔ قرآن نے ان کی اس خصلت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔
واذا لقوا الذین امنوا قالوا امنا و اذا خلوا الی شیطینھم قالوا انا معکم انما نحن مستھزؤن o
اور جب وہ نبی کے جانثاروں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی تمہاری ہی طرح جانثار ہیں اور جب تنہائی میں اپنے شیاطین کے ساتھ ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو حقیقت میں تمہارے ساتھ ہیں ہم تو صحابہ کے ساتھ صر ف مذاق کررہے تھے۔
ٹھیک یہی حال دیو بندی فرقے کا بھی ہے ۔ ان کے پاس بھی دو زبانیں ہیں ۔ ایک زبان تو وہ ہے جو انبیاء اولیاء کے وفاداروں اور عقیدت مندوں کے سامنے کھلتی ہے اور دوسری زبان وہ ہے جس زبان میں وہ اپنے گروہ کے لوگوں سے باتیں کرتے ہیں ۔
عقیدہ و عمل کے تضاد کا ایک دلچسپ واقعہ
اسکی زندہ مثال دیکھنی ہے تو آپ دہلی تشریف لائیے ، یہاں جمیل الیاسی نام کے ایک مشہور شخص ہیں جو اپنی پیدائشی سرشت و خمیر کے اعتبار سے کٹر دیوبندی و تبلیغی ہیں ۔ ان کے نام کے ساتھ الیاسی کا پیوند ہی ان کے اندر کا سارا حال بتادیتا ہے ۔ ایک طرف دہلی میں وہ دیوبندیت و تبلیغیت کے اتنے سرگرم مبلغ ہیں کہ شاید ہی دہلی میں کوئی مسجد بچی ہو جسے دہلی وقف بورڈ اور وقف کونسل ممبر ہونے کی حیثیت سے انہوں نے تبلیغی جماعت کی چھائونی میں تبدیل نہ کردیا ہو۔
لیکن اب ان کی تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیے اور سر پیٹئے کہ دہلی کے بائیس خواجگان کی شاید ہی کوئی ایسی درگاہ ہو جہاں عرس کے موقعہ پر وہ پیش پیش نہ رہتے ہوں ۔ شری راجیو گاندھی جب پہلی بار وزیر اعظم ہوئے تو ان کی چادر لیکر یہی حضرت ، اجمیر شریف گئے اور ان کی طرف سے خواجہ کے مزار شریف پرچڑھایا ۔
اور اس سے بھی زیادہ دلچسپ قصہ یہ ہے کہ جس زمانے میں شریمتی اندرا گاندھی وزارت عظمیٰ کی کرسی سے اتار دی گئی تھیں اور اپنی ناکامی کے کرب میں زندگی گزار رہی تھیں تو خوش آئندہ مستقبل کی نشاندہی کرنے والے جوتشیوں کی طرح یہ حضرت بھی ایک دن وہاں پہنچ گئے اور اند را گاندھی سے کہاکہ دنیا میں صرف ایک ہی ذات ہے جو آپ کا گیا ہوا تخت و تاج واپس لا سکتی ہے ، او روہ ہے غوث اعظم کی ذات جن کا مزار مبارک بغداد شریف میں ہے ۔
اندرا گاندھی کو اور کیا چاہیئے تھا ، فوراً بغداد شریف کے سفر کا انتظام کرادیا اور یہ بغداد شریف کے لئے روانہ ہوگئے ۔ وہاں مزار شریف پر پندرہ دن تک چلہ کش رہے ، اور واپس آکر اندر اگاندھی کو خوشخبری دی کہ وہاں مجھے مزار شریف سے بشارت ہوئی کہ نو مہینے کے بعد آپ کے دن پلٹ آئیں گے ۔
انصاف کیجئے ، اپنے عقیدے کے ساتھ اتنی زبردست جنگ سوائے دیوبندی فرزندوں کے اور کون لڑسکتا ہے ۔ دیوبندی زبان کے محاورے میں قبروں کی پرستش بھی کرتے رہے اور مشرک بنانے والوں کو اپنا امام بھی مانتے رہے ۔ اب آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ ایسے لوگوں سے بچنا کتنا مشکل ہے جن کے کئی چہرے ہیں ۔ دیوبند اور سہارنپور میں کچھ ہے اور بغداد و اجمیر چلے گئے تو کچھ اور بن گئے ۔
دیوبندی مذہب کا ایک اور جنازہ
جن حضرات نے تقویۃ الایمان اور بہشتی زیور کا مطالعہ کیا ہے وہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ علمائے دیوبند کے نزدیک قبروں سے مدد مانگنا شرک جلی ہے ، لیکن اپنے گھر کے بزرگوں کی قبروں کے بارے میں وہ کیا عقیدہ رکھتے ہیں ، اسے سہارنپور کے شیخ الحدیث مولوی زکریا صاحب کی کتاب ’’تاریخ مشائخ چشت ‘‘ میں ملاحظہ فرمائیے ۔
اپنی اس کتاب میں وہ حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی کے پیرو مرشد میاں جی نور محمد جھنجھانوی کے سفر آخرت کا ذکر کرتے ہوئے حاجی صاحب کا یہ بیان نقل کرتے ہیں کہ اپنے مرض الموت میں ان کے پیرو مرشد نے ارشاد فرمایا کہ !
’’ میرا ارادہ تھا کہ تم سے مجاہدہ و مشقت لوں گا لیکن مشیت باری سے کوئی چارہ نہیں ، پیام سفر آخرت آگیا ہے ۔ جب حضرت نے یہ کلمات فرمائے تو میں پالکی کی پٹی پکڑ کر رونے لگا۔ حضرت نے تسلی دی اور فرمایا کہ فقیر مرتا نہیں بلکہ ایک مکان سے دوسرے مکان میں انتقال کرتا ہے ۔ فقیر کی قبر سے وہی فائدہ ہوگا جو ظاہری زندگی میں ہوتا تھا ۔ (تاریخ مشائخ چشت ، صفحہ ۲۰۴ )‘‘
میاں جی نور محمد کی قبر سے متعلق ایک عبارت ان کی سوانح حیات سے بھی ملاحظہ فرمائیے جو ادارہ تالیفات اشرفیہ تھا نہ بھون سے شائع ہوئی ہے ، اور جس پر قاری طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کی تقریظ ہے ۔ مصنف کتاب لکھتے ہیں کہ !
’’ حضرت میاں جی رحمتہ اللہ علیہ کی وفات کے بعد بھی آپ کی روح پر فتوح سے وہی فیضان و عرفان کا چشمہ جاری اور آپ کے ارشاد کے مطابق آپ کے مزارمقدس سے بھی وہی فیوض و برکات حاصل ہوتے ہیں جو آپکی ذات قدسی صفات سے ہوتے تھے ۔
(سوانح حیات میاں جی ، صفحہ ۷۸)
اب اس دعوے کے ثبوت میں کہ ، ان کے انتقال کے بعد ان کی قبر سے بھی وہی فائدہ ہوتا ہے جو ان کی ظاہری زندگی میں ہوتا تھا ، ان کی سوانح حیات کے مصنف نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ! ایک بار حاجی امداد اللہ صاحب نے فرمایا کہ میرے حضرت کا ایک جولاہا مرید تھا ، بعد انتقال حضرت کے مزار پر حاضر ہوا ، اور فاتحہ کے بعد اس نے عرض کی کہ حضرت میں بہت پریشان اور تنگی معاش میں مبتلا ہوں میری کچھ دستگیری فرمائیے ۔ حکم ہوا کہ تم کو ہمارے مزار سے دو آنے روز ملا کریں گے ۔
’’ ایک مرتبہ میں زیارت کرنے گیا وہ شخص بھی حاضر تھا اس نے کل کیفیت بیان کرکے کہا کہ مجھے ہر روز وظیفہ مقررہ قبر کی پائینتی سے ملا کرتا ہے ۔ (سوانح میاں جی ، صفحہ ۷۹)
انصاف کیجئے دیوبندی فرقے کی مشہور کتابوں تقویۃ الایمان ، بہشتی زیور اور فتاویٰ رشیدیہ میں نہایت صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ کسی قبر پر حاضر ہو کر مدد مانگنا اور مصیبتوں میں ان سے دستگیری کی درخواست کرنا صریح شرک ہے ، لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس واقعہ میں شرک کا سارا فتویٰ ، ایمان کے لباس میں تبدیل ہوگیا ہے ۔
اب آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ جس فرقے کے چہرے پر نفاق کے اتنے دبیز پردے ہوں کہ اپنے ہی مذہب کے عقیدے چھپا لیں ، اس کی پہچان کتنی مشکل ہے ۔
دیوبندی فرقے کے اسی دو رنگی مذہب کے مفاسد سے بچا نے کے لئے علمائے اہلسنّت کو ضرورت پیش آئی کہ عوام کو ان کے حقیقی چہرے کے خدوخال سے بار بار واقف کرائیں تاکہ وہ ان کے فریب میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہیں ۔
بدعت کی بحث
دیوبندی فرقے کے یہاں بدعت کا لفظ بھی بہت کثیر الاستعمال ہے ۔ بات بات پر اہلسنّت کو بدعتی کہنا ان کی عام بول چال ہے ، یہاں تک کہ انہوں نے اہلسنّت کا نام ہی بدعتی رکھ دیا ہے ، جیسا کہ اپنی کتاب تاریخ مشائخ چشت میں مولوی زکریا نے حاجی امداد اللہ کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ !
میں کسی کو بیعت کرنے سے اسلئے انکار نہیں کرتا کہ وہ شخص کسی بدعتی کے پنجے میں نہ گرفتار ہوجائے ، پھر اللہ تعالیٰ مجھ سے مواخذہ فرماویں کہ وہ تمہارے پاس گیا تھا تم نے کیوں رد کردیا جس کی وجہ سے وہ ایسی جگہ پھنسا ۔ (تاریخ مشائخ چشت ، صفحہ ۲۶۶)
اس عبارت کا مطلب سوا اس کے اور کیا نکلتا ہے کہ حاجی صاحب چونکہ دیوبندیوں کے پیرومرشد ہیں اس لئے تنہا وہی سنت کے طریقے پر ہیں باقی دوسرے مشائخ طریقت تو سر تا سر بدعتی ہیں ۔
اب اسی مقام پر تصویر کا دوسرا رخ بھی آپ کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں ۔اسی کتاب میں مولوی زکریا نے لکھا ہے کہ حاجی صاحب نے اپنے پیر ومرشد میاں جی نور محمدجھنجھانوی کے مزار پر پتھر کا ایک کتبہ نصب کیا ہے جس پر یہ اشعار کندہ ہیں۔
شہر جھنجھانہ ہے اک جائے ہدی
مسکن و ماویٰ ہے جس جا آپ کا
مولیٰ پاک آپ کا ہے اور مزار
اس جگہ تو جان لے اے ہوشیار
اس جگہ ہے مرقد پاک جناب
سر جھکاتے ہیں سب شیخ و شاب
جس کو ہو شوق دیدار خدا
ان کے مرقد کی زیارت کو وہ جا
دیکھتے ہی اس کے مجھ کو ہے یقیں
اس کو ہو دیدار رب العالمیں
غور فرمائیے ! مرقد پاک کی زیارت کرنے کے لئے جانا مرقد پاک کے دیدار سے رب العالمین کا دیدارکرنا ، کیا یہ ساری باتیں دیوبندی مذہب میں جائز ہیں ؟ مولوی زکریا سے لیکر دیوبندی فرقے کے سارے اصا غروا کابر کو میں چیلنج کرتا ہوں کہ تقویت الایمان ، بہشتی زیور اور فتاویٰ رشیدیہ میں بیان کردہ عقائد کی روشنی میں وہ ثابت کریں کہ یہ اشعار دیوبندی مذہب کے مطابق ہیں ، لیکن بات پھر وہیں پلٹ کر آتی ہے کہ یہ عمل چونکہ اپنے گھر کے بزرگ کا ہے اس لئے آنکھ بند کرکے اسے جائز ماننا ہی پڑیگا۔
اپنے بزرگوں کی خاطر اصولوں کا خون کرنا دیوبندی فرقے کا یہی وہ دورنگی مذہب ہے جس کا پردہ چاک کرنے کے لئے علمائے اہلسنّت کو کتابیں بھی لکھنا پڑیں ، مناظرہ بھی کرنا پڑا اور اسی کلمہ حق کو اپنی زندگی کا مشن بھی بنانا پڑا۔
ارشد القادری غفرلہ ٗ
بانی و مہتمم جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء نئی دہلی
۱۷ محرم الحرام سن ۱۴۱۳ھ …جولائی سن ۱۹۹۲ء
دعوت انصاف
اس مضمون کی اشاعت ان کرم فرمائوں کے لئے ہے !
جو حوصلہ و ہمت اور خلوص و للہیت کے جذبہ کے ساتھ علماء اہلسنّت اور علمائے دیوبند کے مابین اختلاف کو جاننا چاہتے ہیں اور اتفاق و اتحاد کی اصل رکاوٹوں کو دور کرنے کا عزم رکھتے ہیں
٭ جو اپنی نجی مجلسوں اور پرائیوٹ میٹنگوں میں اس سنجیدہ اور اصولی اختلاف کو مولویوں کے چکر ، پیٹ کے دھندے ، کھانے پینے کے حیلے ، شکم پرستی اور اس قسم کے ملے جلے القابات سے یاد کرکے داد تحسین وصول کرکے خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔
٭ جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اختلاف کو سمجھنے اور دور کرنے کیلئے کسی قسم کی فکر و مفاہمتی کوشش کرنے کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں
٭ جو علماء اہلسنّت و علماء دیوبند کے اختلاف کو محض جزوی یا فروعی یا لفظی خیال کرتے ہیں ۔
٭ جو رات دن اپنی تمام تر علمی و تحقیقی صلاحیتیں گستاخانہ و کفریہ الفاظ و عبارات کی توضیح و تشریح و تاویل کرنے میں صرف کررہے ہیں گویا ان وضاحتوں کے رہ جانے سے دین شاید ادھورا رہ جائے ۔
٭ جو علماء اہلسنّت و علماء دیوبند کے اختلاف راہ اتفاق و اتحاد کی سب سے بڑی رکاوٹ کو زیر تحقیق لانے کو تضیع اوقات سمجھتے ہیں اور اتحاد و اتفاق کے داعی بھی ہیں ۔
٭ جو تیجہ ، ساتہ ، چالیسواں ، مزارات مقدسہ کی حاضری کو علماء اہلسنّت و علماء دیوبند کے مابین اصل وجہ اختلاف سمجھتے ہیں ۔
٭ جو گستاخی و بے ادبی اور اہانت و تحقیر والی عبارات پر مشتمل کتابیں اور لٹریچر چھاپ کر تقسیم کرنے اور فروخت کرنے کو دین کی بہت بڑی خدمت سمجھے بیٹھے ہیں ۔
٭ جو مذہبی اختلاف کا نام سن کر تلملا اٹھتے ہیں لیکن اپنے دفتری و کاروباری مسائل و معاملات میں اختلاف کو برداشت کرنے اور انہیں خوش اسلوبی سے حل کرنے میں اپنے تمام تر جانی و مالی وسائل کو صرف کردیتے ہیں ۔
٭ جو یہ مشورہ تو دیتے ہیں کہ اب حالات اس قسم کے ہیں کہ متنازعہ عبارات و مسائل پر بحث و تمحیص نہیں کرنی چاہیئے لیکن اپنا یہ مفید مشورہ ان اداروں کو نہیں پہنچاتے جو رات دن اس قسم کا متنازعی اور اختلافی لٹریچر چھاپتے رہتے ہیں ۔
٭ جو مسئلہ تعظیم نبی ﷺ ، مسئلہ مقام و مرتبہ رسول ، مسئلہ خصائص رسول ، مسئلہ عظمت صحابہ ﷺ و اہل بیت ، مسئلہ ولایت اور دیگر مسلمہ مسائلِ اسلام و اہلسنّت کو فرقہ واریت کا نام دے کر دانستہ و غیر دانستہ کفر و الحادوزند یقیت کی حمایت کررہے ہیں ۔
٭ جو اصل وجوہ اختلاف سمجھتے ہوئے ملک گیر سطح پر کوئی ایسا لائحہ عمل پیش کرنے کا جذبہ صادقہ رکھتے ہوں جس سے اختلاف کی خلیج کو کم سے کم کرنے اور اتفاق و اتحاد کی طرف پیش رفت کی جاسکے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment