ایصال ثواب تیجہ ، دسواں ، چالیسواں اور چہلم
محترم قارئینِ کرام : زندوں کی عبادت ( بدنی و مالی) کا ثواب دوسرے مسلمان کو بخشنا جائز ہے جو کہ قرآن و حدیث اور اقوال فقہاء علیہم الرّحمہ سے ثابت ہے ۔ شریعت میں کوئی نیک کام کر کے اس کا ثواب کسی مرحوم یا زندہ مسلمان کو پہنچانا امر مستحسن قرار دیا گیا ہے ۔ فقہائے کرام علیہم الرّحمہ فرماتے ہیں : ان الانسان له ان يجعل ثواب عمله لغيره صلوة او صوما او غيرها عند اهل السنة و الجماعة . لماروی عن النبی صلی الله عليه وآله وسلم انه ضحٰی بکبشين املحين احدهما عن نفسه و لاخر عن امته الخ .
ترجمہ : انسان کو یہ حق ہے کہ اپنے عمل کا ثواب دوسرے کو بخش دے ، نماز و روزہ ہو یا کچھ اور یہ مسئلہ اہل سنت و جماعت کے ہاں ہے ، بوجہ اس حدیث پاک کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو چتکبرے مینڈھوں کی قربانی کی ، ایک اپنی طرف سے اور دوسرا اپنی امت کی طرف سے ۔ (بخاری و مسلم، هدايه، 1 : 263)
ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا قرآن و حدیث پر ایمان و عمل ہے اور پھر معتزلہ کی طرح ایصال ثواب کا انکار کرتے ہیں انہیں اپنی سوچ پر نظر ثانی اور ان دلائل پر غور کرنا چاہیئے ، میں بڑی محنت شاقہ سے مضمون میں حوالہ جات نقل کر دیئے ہیں انہیں پڑھنا ان پر غور کرنا اور پھر انصاف کرنا آپ کا کام ہے ۔ بقول انوار عزمی۔ کوئی منصف ہو تو انصاف کا چہرہ دمکے ۔ کوئی عادل ہو تو زنجیر ہلائی جائے۔ اگر آپ تعصب ، بغض ، حسد اور میں نہ مانوں کی عینک اتار کریہ مضمون مکمل پڑھیں گے تو ان شاء اللہ ضرور فائدہ ہوگا ۔ والذین جآءوا من بعدھم یقولون ربنا اغفرلنا الاخواننا الذین سبقونا بالایمان ط “ ۔
ترجمہ : وہ جو ان کے بعد آئے وہ یوں دعا کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہم کو بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی بخش دے جو ہم سے پہلے با ایمان گزر چکے ہیں ۔
دنیا سے پردہ کرنے والوں کے حق میں زندوں کی دعا کا یہ کتنا واضح ثبوت ہے اور بھی کئی آیات ہیں مگر اختصار کے پیش نظر اسی پر اکتفاء کرتا ہوں ۔ حدیث پاک میں آتا ہے : الدعاء مخ العبادۃ ۔“ دعا عبادت کا مغز ہے ۔“ایک اور جگہ ہے ۔ الدعاء ھو العبادۃ “ دعا عبادت ہے ۔“ ثابت ہوا زندوں کی عببادت دنیا سے جانے والوں کے لئے فائدہ مند ہے۔ حضرت امام جلالالدین سیوطی رحتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ وقد نقل غیر واحدالاجماع علی ان الدعاء ینفع المیت و دلیلہ من القرآن قولہ تعالٰٰی والذین جاءوا ۔ ( الی الاخر) “ اور اس امر پر بہت سے علماء نے اجماع نقل کیا ہے کہ بے شک دعا میت کو نفع دیتی ہے اور اس کی دلیل قرآن شریف میں اللہ تعالٰٰی کا یہ قول ہے ۔ ( مذکورہ آیت کریمہ والذین جاءوا) ( شرح الصدور ، ص 127،چشتی)
شرح عقائد نسفی میں ہے : وفی دعاء الاحیاء للاموات او صدقتھم عنھم نفع لھم خلافا للمعتزلۃ ۔
ترجمہ : زندوں کی دعا اور صدقے سے مردوں کو نفع پہنچتا ہے۔ معتزلہ اس کے خلاف ہیں ۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من مات و علیہ صیام صام عنہ ولیہ ۔ ( مسلم شریف)
ترجمہ : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر مرنے والے کی ذمہ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ ایک عورت نے حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی کہ میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی مگر اس کا انتقال ہو گیا کیا میں اس کی طرف سے حج کرکے اس کی نذر پوری کر سکتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قال حجی عنہا ۔ تم اس کی طرف سے حج کرو ۔ (بخاری)
فتاوٰی عزیزی میں شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں آرے زیارت و تبرک بقبور صالحین و امداد ایشاں بایصال ثواب و تلاوت قرآن ودعائے خیر و تقسیم طعام و شرینی امر مستحسن و خوب است ۔
ترجمہ : ہاں صالحین کی قبروں کی زیارت کرنا اور ان کی قبروں سے تبرک حاصل کرنا اور ایصال چواب تلاوت قرآن دعائے خیف تقسیم طعام و شیرینی سے ان کی مدد کرنا بہت ہی خوب اور بہتر ہے اور اس پر علمائے امت کا اجماع ہے ۔
اور دیکھئے : ما من رجل مسلم یموت فیقوم علی جنازتہ اربعون رجلالا تشرکون بااللہ شیئا الا شقعھم اللہ فیہ۔ ( ابو داؤد) “ اگر کسی مسلمان کی نماز جنازہ پر 40 آدمی ایسے کھڑے ہو جائیں جنہوں نے کبھی کسی کو اللہ تعالٰی کا شریک نہ ٹھرایا ہو تو ان کی شفاعت میت کے حق میں اللہ تعالٰی قبول فرماتا ہے ۔ یعنی بخش دیتا ہے ۔“ بخاری، مسلم اور مشکوٰۃ میں ہے : “ دو قبر والوں پر عذاب ہو رہا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کی ایک تر شاخ منگواہ کر آدھی ایک قبر پر اور آدھی دوسری قبر پر رکھ دی اور فرمایا جب تک یہ چاخیں ہری رہیں گی قبر والوں کے عذاب میں تحفیف رہے گی ۔“ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت سعد ابن معاذ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد آپ نے تکبیر و تسبیح پڑھنی شروع کردی ۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے تکبیر و تسبیح پڑھنے کے بابت پوچھا تو آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قال لقد تضایق علٰی ھذا العبد الصالح قبرہ حتٰی فرجہ اللہ عنہ ۔ (مشکوۃ) “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ اس نیک آدمی پر قبر تنگ ہو گئی تھی یہاں تک کہ اب اللہ تعالٰی نے اس کی قبر کو فراغ کر دیا ہے ۔
فائدہ! معلوم ہوا کہ زندوں کی عبادت سے اہل قبور کو فائدہ پہنچتاہے اور دفن کے بعد قبر کے پاس تسبیح وغیرہ ( کلام پاک) پڑھنا جائز ہے ۔ میت پر تین دن خاص کر سوگ کیا جاتا ہے ۔ بزرگوں نے فرمایا تین دن سوگ کیا ہے ۔ اب اٹھنے سے پہلے گھر کے چند افراد مل کر کچھ پڑھو کچھ صدقی کرو اوع اس کا ثواب میت کی روح کو پٔہنچا کراٹھو ۔ اس کا نام سوئم یا تیجہ ہو گیا ۔ ثبوت ملاحظہ فرمائیں۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلویملفوظات عزیزی ، ص 55 شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے تیجہ کے متعلق فرماتے ہیں ۔ روز سوئم کثرت ہجوم مردم آں قدر بود “ کہ تیسرے دن لوگوں کے بیرون از حساب است بہشتاد ویک کا ہجوم اسقدر تھا کلام بشمار آمدہو زیادہ بہم شدہ یا شد کہ شمار سے باہر ہے ۔ وکلمہ سا حضر نیست اکیاسی کلام اللہ ختم ہوئے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوئے ہوں گے اور کلمہ طیبیہ کا تو ابدازہ ہی نہیں۔“ حضرت سعید بن منذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر استطاعت ہوتو تین دن میں قرآن ختم کرو۔ ( جامع صغیر) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی عرض پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن ہر مہینے ختم کرو ۔ انہوں نے پھر عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں تو آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تین دن میں ختم کرو۔ ( بخاری جلد اول)
حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کو جب حد زنا لگنے سے سنگسار کر دیا تو بعد از دفن جب دو دن یا تین گزر گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے جہاں صحابہ کرام بیٹھے تھے پس سلام کیا آپ نے اور بیٹھ گئے اور صحابہ کرام کو فرمایا کہ ماز بن مالک کی بخشش کی دعا کرو تو صحابہ کرام نے ماز بن مالک رضی اللہ عنہ کی مغفرت کی دعا مانگی ۔ عساکر الدین ابو الحسین مسلم بن الحجاج القشیری المعروف امامِ مسلم رحمۃ اللّٰہ علیہ روایت کرتے ہیں : قَالَ : فَلَبِثُوا بِذَلِكَ يَوْمَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً، ثُمَّ جَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ جُلُوسٌ، فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ، فَقَالَ: «اسْتَغْفِرُوا لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ»، قَالَ: فَقَالُوا: غَفَرَ اللهُ لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ أُمَّةٍ لَوَسِعَتْهُمْ ۔
ترجمہ : دو یا تین دن وہ اسی (اختلاف کی) کیفیت میں رہے ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے ، وہ سب بیٹھے ہوئے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سلام کہا ، پھر بیٹھ گئے اور فرمایا ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کے لیے بخشش کی دعا مانگو ۔ تو لوگوں نے کہا اللہ ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کی بخشش فرمائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا بلاشبہ انہوں نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر وہ ایک امت میں بانٹ دی جائے تو ان سب کو کافی ہو جائے۔(صحیح مسلم ، صفحہ 853حدیث:4431 ، کتاب الحدود مطبوعہ دار الفکر بیروت،(صحیح مسلم مترجم اردو جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 508 حدیث نمبر 4431 مطبوعہ دارالعلم ممبئی،چشتی)
حضرت ماعز رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی وفات کے دوسرے یا تیسرے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مجمع میں تشریف لائے اور بیٹھ گئے اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیساتھ مل کر حضرت ماعز بن مالک رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے تیجے دن اجتماعی دعا کی ۔
پس ثابت ہوا کہ میت کے دوسرے تیسرے دن اجتماعی دعا کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ثابت ہے۔ اور یہ صحابہ کا بھی طریقہ ہے ۔ لہٰذا اسکو بدعت کہنا جہالت و حماقت ہے ۔
میت کیلئے قُل خوانی ، یا تیجے کے ختم ، کیلئے جمع ہو کر ذِکر و اذکار کرنا قرآن پڑھنا اور اجتماعی دعا کرنے کی اصل اس حدیث سے ثابت ہوئی ۔
اب اگر کوئی قل شریف یا تیجے کی اجتماعی دعا کو بدعت کہے گا تو فتوی سیدھا جا کر صحابہ کرام علیھم الرضوان پر لگے گا ۔ لہٰذا میت کیلئے دوجے تیجے کی اجتماعی دعا جائز بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ثابت ہے ۔
بفضلہ تعالٰی اہل سنت و جماعت کا یہی معمول ہے ۔
ساتواں : حضرت طاؤس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ بے شک مردے سات دن تک اپنی قبروں میں آزمائے جاتے ہیں تو صحابہ کرام سات روز تک ان کی جانب سے کھانا کھلانا مستحب سمجھتے تھے۔ ( شرح الصدور ابو نعیم فی الحلیہ)
شیخ المحدثین حجرت شاہ عند الحق محدچ دہلوی نے فرمایا وتصدیق کردہ شود از میت بعد رفتن اواز عالم تا ھفت روز۔ ( اشعتہ اللمعات شرح مشکوٰۃ،چشتی)
ترجمہ : اور میت کے مرنے کے بعد سات روز تک صدقہ کرنا چاہیئے ۔
دسواں : فرمایا دس دنوں میں قرآن ختم کرو ۔ ( بخاری شریف، جلد اول) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ قرآن کتنے دنوں میں پڑھا جائے فرمایا دس دنوں میں ۔ ( ابو داؤد مترجم جلد اول) لہذا قرآن پڑھ کر میت کو بخشنے میں کوئی حرج نہیں ۔
چہلم : دن مقرر ہونے کی وجہ سے احباب اکٹھے ہو کر میت کے لئے دعا و استغفار کرتے ہیں ۔ ایک حکم یہ بھی ہے کہ عام لوگوں کے لئے تین دن سوگ ہے ۔ مگر عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ چالیس روز تک سوگ کرے ۔ ہر عورت کے رشتہ دار اور اولاد وغیرہ اس کے غم میں شریک رہتے ہیں آخری دن کچھ پڑھ کر فاتحہ دلا کر اٹھتے ہیں ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : چالیس کا قرآن سے ثبوت : واذ وعدنا موسٰی اربعین لیلۃ ۔ ( سورہ بقرہ۔ آیت 50) “ اور جب ہم نے وعدہ دیا موسٰی کو چالیس رات کا“ اقراء القرآن فی اربعین ۔ ( ترمذی شریف) “ قرآن مجید چالیس دنوں میں پڑھا کرو ۔“ بزرگان دین فرماتے ہیں کہ میت کی روح کو چالیس دن تک اپنے گھر اور مقامات سےکاص تعلق رہتا ہے ۔ جو بعد میں نہیں رہتا۔ چناچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مؤمن پر چالیس روز تک زمین کے وہ ٹکڑے جن پر وہ خدا تعالٰی کی عبادت و اطاعت کرتا تھا اور آسمان کے وہ دروازے جن سے کہ ان کے عمل چڑھتے تھے اور وہ کہ جن سے ان کی روزی اترتی تھی روتے رہتے ہیں ۔ (شرح الصدور ، ص 24)
اسی لئے بزرگان دین نے چالیسویں روز بھی ایصال ثواب کیا کہ اب چونکہ وہ خاص تعلق منقطع ہو جائے گا لہذا ہماری طرف سے روح کو کوئی ثواب پہنچ جائے تاکہ وہ خوش ہو جائیں اور ان سب کی اصل یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سید الشھداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے لئے تیسرے ، دسویں ، چالسویں دن اور چھٹے مہینے اور سال کے بعد صدقہ دیا ۔ ( کذا فی الانوار ساطقہ مغریا الی مجموعۃ الرویات حاشیہ خزانتہ الرویات) چہلم کا ایک اور حوالہ وقیل الٰی اربعین فان المیت یشوق الٰی بیتہ ۔ “ اور فرمایا صدقہ دینا چالیس دن پس میت شوق رکھتی ہے ان دنوں اپنے گھر کا ۔ ( شرح برزخ فیض الاسلام 5، ص 34، کتاب الوجیز، ص 64)
عرس ( برسی) حضرت یحیٰی علیہ السلام کے لئے ارشاد باری تعالٰی : وسلام علیہ یوم ولد و یوم یموت و یوم یبعث حیا ہ ۔ ( سورہ مریم: آیت 15) “ اور سلامتی ہو اس پر جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن فوت ہوگا ۔“ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں : والسلام علی یوم ولدت و یوم اموت و یوم ابعث حیا ہ ( سورہ مریم: آیت 33) “ اور سلامتی ہو مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں گا اور جس دن اٹھوں گا، زندہ ہوکر ۔“ تفسیر ابن جریر ( طبری) دیکھئے : حدیث بیان کی مثنٰی نے سوید سے کیا خبر دی ابن مبارک نے ابراہیم بن محمد سے انہوں نے سہیل بن ابھی صالح نے انہوں نے محمد ابراہیم سے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے جاتے شہدائ کی قبروں پر ہر سال پھر فرماتے: سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبٰی الدار۔ اور سیدنا صدیق اکبر اور فاروق اعظم اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنھم اجمعین بھی اپنے زمانے میں ہر سال قبور شہداء پر جایا کرتے تھے ۔ ( تفسیر ابن جرید مطبوعہ مصر، جلد 13) اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے کہ آپ ہر سال شہداء کی قبور پر تشریف لے جاتے اور فرماتے سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبٰی الدار اور اسی طرح چاروں خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اسی پر عمل پیرا رہے۔ ( تفسیر کبیر مطبوعہ مصر، جلد 5،چشتی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ تشریف لے جاتے ہر شروع سال مین قبور شہداء پر پس فرماتے : سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبٰی الدار ۔ ( تفسیر کشاف طبوعہ بیرون لبنان، جلد دوم) تفسیر کشاف کے حوالے کے بعد تو مخالفین کے انکار کی گنجائش نہیں رہنی چاہیئے ۔ مخالفین کے ایک بڑے کا ایک حوالہ اور ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال شھدائے احد کی قبروں پر تشریف لے جاتے پھر فرماتے : سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبٰی الدار ۔ ( البدایہ و النہایہ مطبوعہ مصر، جلد سوم) سرور کائنات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر سال شہدائے احد کی قبور پر تشریف لے جاتے پھر چاروں خلفاء کا اپنے اپنے زمانہ میں اس سنت مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل پیرا رہنا عرائس بزرگان دین کیلئے اتنی زبردست دلیل ہے جس کا رد نا ممکن ہے۔ فاطمہ خزائیہ کہتی ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا اور آفتاب قبور شہداء پر غروب ہو چکا تھا اور میرے ساتھ میری بہن تھی۔ میں نے اس سے کہا آؤ قبر حمزہ رضی اللہ عنہ پر سلام کریں ۔ اس نے کہا ہاں پھر ہم ان کی قبر پر ٹھرے ۔ ہم نے کہا ۔ السلام علیک یا عم رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہم نے ایک کلام سنا کہ ہم پر رد کیا گیا ( یعنی لوٹایا گیا) وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ کہا کہ ہمارے قریب کوئی آدمی نہ تھا ۔ ( اخرج البیہیقی)، (طی الفراسخ الٰی منازل البرازخ مطبوعہ آگرہ 1306 ھ )،( سید ذوالفقار احمد وہابی تلمیذ سدیق حسن بھو پالی)
دیوبندی حضرات اور اہل حدیث حضرات مذکورہ حوالہ جات پر ضرور غور فرمائیں ۔ اور ہمارے ساتھ مل کر دنیا سے کوچ کر جانے والوں کے لئے ایصال ثواب کرکے ان کی مدد کریں ۔ ایصال ثواب کے متعلق ضروری وضاحت ایصال ثواب کے عمل میں دکھاوا اور ریاکاری نہیں کرنی چھاہیئے ۔
اگر ایصال ثواب کا مقصد نمود و نمائش ہے تو اس کا ثواب حاصل نہ ہوگا ۔ اور ایسا دکھاوے کا عمل حرام اور گناہ ہے ۔ عام طور پر بہت سے لوگ قرض لیکر میت کے لئے ایصا ل ثواب کرتے ہیں ۔ اور عام لوگوں کو دعوتیں دیتے ہیں ۔ شریعت میں ایسی دعوتوں کی اجازت نہیں ۔ میت کے ایصال ثواب کے لئے جو کھانا ہے وہ حسب استطاعت ہو اور اسے مستحق اور غریبوں لوگوں کو کھلایا جائے ۔ (صاحبان حیثیت حضرات کو اس کھانے سے اجتناب کرنا چاھیئے)
اسی طرح بعض گھروں میں ایصال ثواب کے موقع پر دس بیبیوں کی کہانی ، شہزادے کا سر ، داستان عجیب اور جناب سیدہ کی کہانی وغیرہ پڑھی جاتی ہیں ۔ جن کی کوئی اصل نہیں اسی طرح ایک پمفلٹ : وصیت نامہ“ جس میں “ شیخ احمد“ کا خواب درج ہے ۔ اسے بھی علمائے کرام نے خود ساختہ قرار دیا ہے ۔ ان چیزوں سے بچیں ۔
نوٹ : بزرگان دین کی فاتحہ وغیرہ کا کھانا اور چیزہے یہ تبرک ہے اور اسے امیر لوگ بھی کھا سکتے ہیں ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : واگر فاتحہ بنام بزرگے دادہ شود اغنیا را ہم خور دن جائز است ۔ (زبدۃ النصائح صفحہ نمبر 132)
ترجمہ : اور اگر کسی بزرگ کی فاتحہ دی جائے تو مالداروں کو بھی کھانا جائز ہے
آخر میں گذارش ہے کہ : تیسرا یا دسواں ، چالیسواں دن شرعاً ضروری نہیں ۔ یہ عارضی طور پر اور انتظامی سہولت کے پیش نظر مقرر کئے جاتے ہیں ، عموماً مرنے والے کے بہت سے عزیز، رشتہ دار، احباب ہوتے ہیں کچھ جنازے میں شریک ہو جاتے ہیں، کچھ بوجوہ نہیں ہو سکتے۔ جو سنتا ہے، اہل خانہ کے اس تعزیت و دعائے مغفرت کے لیے آتا ہے، لوگوں کی گوناگوں مصروفیات ہوتی ہیں، مرحوم کے اہل خانہ و عزیزوں سے اظہار تعزیت و دعائے مغفرت بھی ضروری ہے تاکہ دکھ تقسیم ہو جائے اور غمزدہ خاندان مصیبت کی گھڑی میں اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھے۔ وقت مقرر کئے بغیر آنے والوں کو بھی دشواری ہے اور اہل خانہ کو بھی، زندگی کی سینکڑوں مصروفیات و ضروریات و مشاغل ہیں، نہ گھر والے عرصہ دراز آنے والوں کے انتظار میں فارغ ہو کر بیٹھ سکتے ہیں، نہ آنے والے آنے سے باز رہ سکتے ہیں۔ لہذا بڑے بزرگوں نے چند دن اپنی اور آنے والوں کی سہولت کے لیے اپنے اوپر مخصوص کر دیئے تاکہ دونوں کو سہولت رہے۔
جب مقرر کردہ دنوں میں اعزہ و اقارب جمع ہوگئے، تو سوچا بجائے گپ شپ کے کیوں نہ کچھ پڑھ لیا جائے، تلاوت قرآن مجید، کلمہ طیبہ، درد و سلام وغیرہ کا ورد کر لیا جائے کچھ صدقہ و خیرات حسب توفیق ہو جائے ، تاکہ جمع ہونے والوں اور اہل خاندان و خانہ کی طرف سے مرحوم کو ثواب ارسال کر دیا جائے۔ دعائے مغفرت ہو جائے ۔
اب جو شخص اپنے مرنے والے کی خیر خواہی کرنا چاہے وہ کر دے۔ نہیں کرنا چاہتا تو نہ کرے۔ جھگڑے کی ضرورت نہیں، سوم، چہلم، دسواں وغیرہ کی یہی اصل ہے۔ مرنے والوں کو ثواب پہنچانا اور دعائے مغفرت و بلند درجات کرنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے، اختصار کے پیش نظر امید ہے کہ یہ مختصر تحریر کافی ہوگی، ورنہ کافی گنجائش باقی ہے۔ رہا کھانے پینے کا ڈھنگ، تو سن لیجئے کہ رزق حلال میں سے کھاتے بھی ہیں اور کھلاتے بھی ہیں ۔
ويطعمون الطعام علی حبه مسکينا و يتيما و اسير ۔ (الدهر، 76 : 8)
ترجمہ : مسلمان اللہ تعالیٰ کی محبت میں مسکین،یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک شخص نے سوال پوچھا : ای الاسلام خير ۔
کونسا الاسلام بہتر ہے ؟
فرمایا : تطعم الطعام و تقرئ السلام علی من عرفت و من لم تعرف ۔
ترجمہ : کھانا کھلاؤ اور سلام کرو ، جس کو پہچانتے ہو اور اسے بھی جسے نہیں پہچانتے ۔ (بخاری و مسلم، بحواله، مشکوٰة، 397)
لہذا اسلامی احکام پر عمل کرنے پر کسی کو طعن و طنز کرنا درست نہیں۔ درود و سلام پڑھنا، صدقہ و خیرات کرنا قرآن کی تلاوت کرنا ، اللہ کا ذکر کرنا ، کھانا کھلانا، کپڑے پہنانا ، خلوص نیت سے ہو ، رزق حلال سے ہو تو نیکی ہے اور کار ثواب ہے ۔ ان تمام ثوابوں کو جمع کر کے مرنے والوں کے نام بھیجنا اور ان کے لیے دعائے خیر کرنا ۔ قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے اور کوئی مسلمان ، سوم ، ساتواں ، چہلم وغیرہ کے موقع پر اس کے سوا کچھ نہیں کرتا ۔ منع کرنے والے کوئی دلیل پیش کریں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment