Saturday, 30 November 2019

اباحت اصلی جاننے کا اصولی قاعدہ اور اباحت اصلی پر کتاب وسنت سے دلائل

اباحت اصلی جاننے کا اصولی قاعدہ اور اباحت اصلی پر کتاب وسنت سے دلائل

محترم قارئینِ کرام : کسی کام کی حلت وحرمت (حلال وحرام) جاننے کا اصولی ضابطہ یہ ہے کہ ہم ہر اس کام کوجو عہد رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور عہد صحابہ رضی اللہ عنھم میں نہ تھا اور بعد میں کسی ضرورت کے تحت وجود میں آیا ، قرآن وسنت پر پیش کریں گے اگر قرآن وسنت کا اس کے ساتھ کسی اعتبار سے بھی تعارض ثابت ہو جائے تو وہ بلا شبہ ناجائز وحرام اور گمراہی تصور ہوگا ، لیکن اگر اس کا قرآن وسنت کے کسی بھی حکم کے ساتھ کوئی تضاد یا تعارض واقع نہ ہو تو اسے گمراہی یا حرام تصور کرنا حکمت دین کے منافی اور اسلام کے متعین کردہ نظامِ حلال و حرام سے انحراف بر تنے اور حد سے تجاوزکر نے کے مترادف ہوگا چھوٹے چھوٹے فروعی اور اختلافی معاملات پر بد عت و شرک کے فتوے صادر کرنے اور اپنی طرف سے بغیر کسی شرعی دلیل کے چیز وں کو حلال وحرام کہنے والے لوگوں کی مذمت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَلَا تَقُوْ لُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِ بَ ھَذَا حَلَالٌ وَّ ھَذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ۔اِنَّ الَّٰذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَایُفْلِحُو نَ ۔ (سورہ النحل، آیت نمبر ۱۱۶ پارہ نمبر ۱۴)
ترجمہ : اور نہ کہو اسے جو تمھاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باند ھو ، بے شک جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ان کا بھلا نہ ہوگا ۔

وَلَا تَقُوْ لُوْا لِمَا تَصِفُ : اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جو از خود بغیر کسی شرعی دلیل کے کوئی بدعت ایجاد کرے یا محض اپنی رائے اور خواہش کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیز وں کوحلال اور اللہ تعالیٰ کی مباح کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرا ئے ۔ (تفسیر ابن کثیر متر جم جلد ۲ صفحہ ۱۰۲۷،چشتی)

زمانہ جا ہلیت کے لوگ اپنی طرف سے بعض چیزوں کو حلال بعض چیزوں کو حرام کرلیا کرتے تھے اور اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کر دیا کرتے تھے اس کی ممانعت فرمائی گئی اور اس کو اللہ پر افتراء فرمایاگیا ، آج کل بھی جوگ اپنی طرف سے حلال چیزوں کو حرام بتا دیتے ہیں جیسے میلاد شریف کی شرینی فاتحہ گیارھویں عرس وغیرہ ایصالِ ثواب کی چیزیں جن کی حرمت شریعت میں وارد نہیں ہوئی انھیں اس آیت کے حکم سے ڈرنا چاہئے کہ ایسی چیزوں کی نسبت یہ کہہ دینا کہ یہ شرعاً حرام ہیں اللہ تعالیٰ پر افتراء کرنا ہے ۔ (تفسیر خزائن العرفان صفحہ ۴۰۶)

اس قاعدے (الاصل فی الا شیا ء الاباجۃ) کو سمجھا نے کے لئے دو مثالیں ذکر کی جاتی ہیں جن سے واضح ہوجائے گا کہ اشیاء (چیزوں ) کا اصل مباح (جائز ہونا ہے نہ کہ حرام ۔
مثال نمبر 1 : اگر کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ فلاں میرامقروض ہے تو اب دعویٰ کرنے والا خودہی گواہی پیش کرے گا اور ثابت کرے گا کہ فلاں میرا مقروض ہے مقروض سے یہ تقاضا نہیں کیا جا ئیگا کہ وہ اپنے مقروض نہ ہونے کا ثبوت پیش کرے ۔ کیونکہ اس طرح کا دعوی خلاف اصل ہوگا۔ حدیث پاک میں ہے ۔
اَنَّ النَّبِیَّ صَلی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ فِیْ خُطْبَتِہٖ اَلْبَیِّنَۃُ عَلَی الْمُدَّ عِیْ وَالْیَمِیْنُ عَلَی الْمُدَّ عیٰ عَلَیْہِ ۔(ترمذی جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۶۷۴ حدیث نمبر ۱۳۵۲ الواب الاحکام)
ترجمہ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا،گواہ مدعی کے ذمہ میں ہے اور قسم مدعیٰ علیہ پر ہے ۔

مثال نمبر 2 : اگر آپ نے کوئی نیک عمل کیا ۔کسی دوسرے شخص نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ فاتحہ کر نا ۔ میلاد شریف منانا ۔ انگوٹھے چومنا ۔ مزارات کی حاضری ۔ اور ایصالِ ثواب وغیرہ یہ سب اعمال حرام ہیں ۔ تواب آپ کو ان اعمال کے حلال وحرام ہونے کے دلائل تلاش کرنے کی ضرور ت نہیں بلکہ آپ اس اعتراض کرنے والے سے کہیں کہ حدیث پاک اَلْبَیِّنَۃُ عَلَی الْمُدَّ عِیْ کے تحت وہ اپنے دعویٰ کے ثبوت میں اس عمل کے حرام اور ناجائز ہونے پر گواہی لائے ، کیونکہ اصلاً کوئی چیز حرام نہیں بلکہ مباح (جائز) ہوتی ہے جب تک کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کو حرام قرار نہ دیں ۔
مزید یہ کہ متعد د آیات واحادیث مثلاً : ’’وَاُحِلَّ لَکُمْ مَا وَرَا ءَ ذَالِکُمْ‘‘ ۔ (النساء آیت ۲۴) ۔ قَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَا حَرَّ مَ عَلَیْکُمْ (الانعام آیت ۱۱۹) ۔ ’’وَمَاسَکَتَ عَنَہُ فَھُوَ مِمَّا عَفَاعَنَہُ‘‘ ۔ (ترمذی جلد نمبر ۱ حدیث نمبر ۱۷۸۱) ، کی واضح طور پر تائید ہوتی ہے ، مذکورہ شخص نے چونکہ اس چیز کے ناجائز وحرام ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ دعویٰ خلاف اصل ہے ، لہٰذا اسے دلیل لانا پڑے گی کہ یہ چیز حرام کس بنیاد پر ہے ، ؟ اگر وہ کہے کہ اس کا کہیں قرآن وحدیث میں ذکر نہیں تو اس جوا ب یہ ہے کہ جس عمل کا کتاب وسنت میں ذکر نہ ہو وہ حلال اور مباح ہوتا ہے ، یعنی اعمال کی حلت وحرمت کے بارے میں کتاب وسنت خاموش ہوں وہ حلال اور مباح ہوتے ہیں ۔

الأصل في الأشياء الإباحة ۔ اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے دینی و دنیوی لحاظ سے زندگی کا کوئی بھی گوشہ ایسا نہیں ہے جس کے متعلق اسلام نے رہنمائی نہ کی ہو اشیاء کی تحلیل و تحریم (حلال و حرام قرار دینا) کے حوالے سے اسلام نے جو اصول تشریع مقرر کئے ہیں ان میں پہلا اصول یہ مقرر کیا ہے کہ اللہ تعالی کی پیداکردہ تمام چیزیں مباح ہیں۔ حرام اور واجب صرف وہ چیزیں ہیں جن کی حرمت یا وجوب کے بارے میں صحیح اور صریح نص وارد ہو چکی ہو، اگر کسی شئے کی حرمت و وجوب کے حوالے سے صحیح اور صریح نص نہ پائی جاتی ہو تو وہ چیز مباح تصور کی جائے گی۔ یہ اصول صرف اسلام کے نظام قانون کا ہی اصول نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام نظام قانون کا ایک بنیادی اصول ہے کہ اشیاء و افعال اپنی اصل کے اعتبار سے مباح اور جائز ہیں، پھر ان اشیاء میں سے جو لازمی طورپر مطلوب یا ممنوع ہوتی ہیںخود ان کویا ان کی علت کو نصوص میں بیان کر دیا جاتا ہے ان کے علاوہ باقی اشیاء کو مباح کے طورپر مطلق چھوڑدیا جاتا ہے ۔ایسی مباح اشیاء کے کرنے یا نہ کرنے بارے میں لوگوں کو آزادی اوراختیار ہوتا ہے،اور ان کے کرنے یا نہ کرنے پر قانونی لحاظ سے کوئی مواخذہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ قوانین کی تشکیل میںکہیں بھی مباح امور کا احاطہ نہیں کیا جاتا بلکہ صرف لازمی وحرام امور کا احاطہ کیاجاتا ہے ۔

اسلام آسان دین ہے ، قدم قدم پربنی نوع انسان کو آسانیاں اور سہولتیں عطا کرتا ہے اس کے قانون سازی کے اصولوں میں قلت تکلیف ایک بنیادی اصول ہے یہی وجہ ہے اس میں محرمات و واجبات کا دائرہ مباح اور جائز امور کے مقابلے میں تنگ اور محدود ہے، کیونکہ محرمات اور واجبات وہ امور ہوتے ہیں جن کا انسان لازمی طور پر پابند ہوتا ہے ۔فطری طور پر انسان چونکہ آزاد منش پیدا ہوا ہے ،زیادہ پابندیوں سے کتراتا ہے اور آسانیوںکی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے، اس لئے اسلام نے واجبات و ممنوعات کے احکام کا غیر ضروری بوجھ انسان پر نہیں ڈالا بلکہ چند محدود اشیاء و امور جن کا کرنا یا نہ کرنا انسان کی دینی و دنیوی فلاح کے لئے نہایت ضروری تھا کا پابند ٹھہرایا اور باقی اشیاء کو انسانی اختیار پر چھوڑتے ہوئے مباح قرار دے دیا ہے ۔ یعنی اسلام کے مطابق زمین و آسمان کی تمام اشیاء بنی نوع انسان کے انتفاع کے لئے تخلیق کی گئی ہیں جس کا تقاضہ ہے کہ زمین و آسمان کی تمام اشیاء مباح الاصل ہوں سوائے ان اشیاء کے جن کے کرنے یا نہ کرنے کا انسان کو پابند ٹھہرایا گیا ہے۔ اس تصور کو نظریہ اباحت اصلیہ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔

جامع ترمذی کی ’کتاب اللباس‘ میں ’باب ما جاء في لبس الفراء‘‏ کے تحت درج ہے، جس کا عربی متن یوں ہے ‫: حدثنا إسماعيل بن موسى الفزاري حدثنا سيف بن هارون البرجمي عن سليمان التيمي عن أبي عثمان عن سلمان قال سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن السمن والجبن والفراء فقال الحلال ما أحل الله في كتابه والحرام ما حرم الله في كتابه وما سكت عنه فهو مما عفا عنه ۔
ترجمہ ‫: پوچھا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سمن(مکھن) اور جبن (پنیر) اور الفراء (فر کے لباس) کے بارے میں تو فرمایا: حلال وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کیا اور جس چیز سے خاموشی ہے تو اس میں درگزر ہے ۔
مذکورہ بالا حدیث میں وما سکت عنہ فھو مما عفا عنہ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ شارع نے جن کا ذکر نہیں کیا وہ مباح اور جائز ہیں لہٰذا محض ترک ذکر سے کسی چیز پر حرمت کا فتوٰی نہیں لگایا جاسکتا ۔

مباح بدعت کی قبولیت اور قرآن

ہماری اس بات کی تائید خود قرآن پاک کی اس آیت سےہوتی ہے۔۔۔ارشاد باری ہی۔
ثم قفینا علی اثارھم برسلنا وقفینا بعیسی بن مریم واتینہ الانجیل وجعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ رافۃ ورحمۃ ورھبانیۃ ن ابتدعوھا ما کتبنھا علیھم الابتغا رضوان اللہ فما رعوھا حق رعیا یتھا فاتینا الذین اٰمنو منھم اجرھم وکثیر منھم فاسقون۔الحدید ۔
ترجمہ ۔ پھر ہم نےان کےپیچھےاس راہ پر اپنےرسول بھیجےاور ان کےپیچھےعیسٰی ابن مریم کو بھیجا ، انھیں انجیل عطا کی اور ہم نے انکےصحیح پیروکاروں کےدلوں میں نرمی اور رحمت رکھی اور رھبانیت کی بدعت انھوں نےخود وضع کی ہم نےان پر فرض نہ کی تھی ہاںمگر انھوں نےیہ صرف اللہ پاک کی رضا چاہتے ہوئے وضع کی لیکن وہ اسکے جملہ تقاضوں کا خیال نہ رکھ سکے پس ان میں سےجو لوگ ایماندار تھےہم نےانھیں انکا اجر عطا کیا مگر ان میں سےا کثر نافرمان تھے ۔
اس آیت کےالفاظ اور معنٰی پر غور کرنےسےہماری بات کی تائید ہوتی ہےکہ کوئی ایساکام کہ جس کےکرنےکانہ تو اللہ پاک نےحکم دیا ہو اور نہ اس کےرسول نےاور لوگ محض حصول ِرضائےالہٰی کےلیےاس عمل کو اختیارکرلیں تو انھیں اس عمل پر ثواب بھی ملتا ہےدیکھیےآیت کےالفاظ میں ابتدعوھابدعت سےمشتق ہی۔یہ الفاظ بتارہےہیں کہ شریعت عیسوی میں اصلا رہبانیت مشروع نہ تھی بلکہ امت عیسوی نےخود بطور بدعت اس کو اختیار کر لیا تھا۔دیکھیےماکتبنٰھا کےالفاظ کیسےواشگاف انداز میں یہ اعلان کررہےہیں کہ اس بدعت یعنی رہبانیت کا کوئی حکم اللہ پاک نہیں دیا تھا اور نہ ہی اس کےرسول نےکوئی ایسا کام کرنےکا کہا تھا۔اس لیےاللہ پاک نےامت عیسوی سےرہبانیت کی فرضیت کی نفی تو اس آیت میں کی ہےلیکن اس کی مشروعیت کی نفی نہیں کی یعنی اس کو حرام و ناجائز نہیں ٹھرایا۔یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ شریعت عیسوی میں رہبانیت کا جو تصور تھا اس کا کوئی حکم اللہ یا اسکےرسول نےنہیں دیا تھاہاں مگر امت عیسوی نےاسےبطور خودرضائےالہٰی کےحصول کی خاطر اپنالیا تھا۔ جس پر اللہ پاک نےاُن کےاس عمل کو سند قبولیت سےنوازااور یوں رہبانیت مشروع ہوکر شریعت عیسوی کا حصہ بنی۔ ہماری اس بات کی تائید ایک حدیث مبارکہ پر غور کرنےسےبھی ہوتی ہےکہ جس میں نبی کریم نےفرمایا کہ اسلام میں رہبانیت نہیں۔یہ اس لیے فرمایا کہ پہلی شریعت میں رہبانیت تھی اب سوچنےکی بات یہ ہے کہ اگر پہلی شریعت میں رہبانیت تھی تو کہاں سےآئی کیا اللہ پاک نےحکم دیا تھا مگر اللہ پاک تو فرما رہےہیں کہ ماکتبنھا علیھم یعنی کےہم نےان پر فرض نہ کی۔ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہےکہ ہر وہ حکم جو منزل من اللہ یا مقرر من الرسول نہ ہو لیکن اللہ اور اس کےرسول نےکسی ایسےعمل سےروکا بھی نہ ہو اسےاگر نیک نیتی سے مستحسن انداز میں داخل شریعت کرلیا جائے بشرطیکہ وہ عمل بذات خود صحیح ہو اور کسی بھی شرعی امر کےخلاف نہ ہو تو ایسےعمل کو نہ صرف شرف قبولیت عطا ہوتا ہےبلکہ اس پر اجر وثواب کا بھی وعدہ خداوندی ہے ۔ جیسا کہ رھبانیت امت عیسوی میں ۔ اگر آپ الابتغاءرضوان اللہ کے الفاظ پر غور کریں تو یہی بات سمجھ میں آئےگی کہ عیٰسی علیہ السلام کےپیرو کاروں نےوہ عمل یعنی رھبانیت حصول رضائےالہٰی کےلیےہی ایجاد کی تھی اسی لیےاللہ پاک نےاس امر کو مستحسن قرارد ےکر کر قبول کرلیا پس ثابت ہوا کہ کوئی عمل فی نفسہ اگر بدعت بھی ہو تو وہ تب بھی رضائے الٰہی کےحصول کا زریعہ بن سکتا ہے۔ اب اگر آپ اسی آیت کےاگلےالفاظ پر غور کریں جوکہ یہ ہیں کہ ۔ فما رعوھا حق رعایتھا یعنی انھوں نےاس عمل یعنی رھبانیت کا اس طرح حق ادا نہیں کیا جیسا کےاسکا تقاضہ تھا ۔
تو آپ کو یہ بات بھی بڑی واضح طور پر سمجھ میں آجائےگی کہ اگر امت کسی مستحسن عمل کو اپنا لیتی ہےمگر پھر اس کو ادا کرنےکوتاہی سےکام لیتی ہےتو پھر اللہ پاک ناراض بھی ہوتے ہیں اس اس آیت کےان الفاظ نے رھبانیت کی بدعت کی فی نفسہ مذمت نہیں کی بلکہ اس بدعت کو ٹھیک طرح سے ادا نہ کرنےکی مذمت کی۔۔۔۔اس سے آگےکہ الفاظ واشگاف اعلان کررہےہیں کہ جن لوگوں نےا س یعنی بدعت رھبانیت کےتقاضےکو پورا کیا اللہ پاک نےنہ صرف انھیں شرف قبولیت بخشا بلکہ اجر بھی عطا فرمایا دیکھیے ۔ فاتینا الذین امنو منھم اجرھم میں منھم کےالفاظ بتا رہےہیں کہ انھی میں سےجن لوگوں نےاس بدعت رھبانیت کےجملہ تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک نبھایا اللہ پاک نے انہیں اجر بھی عطا کیا ۔
مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں تصور بدعت کےمتعلق دو امور بڑے نمایاں ہوکر سامنے آتےہیں ۔ ایک یہ کہ اگر رضائے الہٰی کی خاطر کوئی نیا کام جسےعرف عام میں بدعت کہا جائےاور جو فی نفسہ خلاف شریعت نہ ہو تو اسلام اسے قبول کرتا ہےبلکہ امر مستحسن کےطور پر اس پر اجر وثواب کا بھی عندیہ دیتا ہےاور ایسےامور شریعت میں مشروع ہوتے ہیں اور انھیں مطلقا ناجائز اور حرام و بدعت سیہ قرار دیا زیادتی کے مترادف ہے۔ دوسری بات جو اس آیت کی روشنی میں ہمیں سمجھ میں آتی ہےوہ یہ کہ جس مقصد کے لیے وہ بدعت حسنہ وضع کی گئی ہو اس سے وہ مقصد بجا طور پر پورا ہونا چاہیے ، ایسا نہ ہو کہ بدعت حسنہ کا سہارا لیکر کسی کام کو روا تو رکھ لیا جائےمگر اسکی اصل روح مقصدیت اور افادیت کو نظر انداز کردیا جائےاور اسےمحض رسمیت کےطور پر روا رکھا جائےجیسا کہ بے عملی کی وجہ سے اکثر ہوتا ہے تو یہ اقدام نافرمانی کہلائےگا۔
ان دونوں آیات سےہمارے بیان کردہ قرآنی اصول کی بڑی وضاحت کےساتھ تصریح ہوتی ہےکہ جس چیز کو قرآن نےحرام کیا اس کی فہرست یعنی تفصیل کردی اور اس کےسوا چونکہ باقی چیزوں کی فہرست نہیں اس لیے وہ سب مباح یعنی جائز قرار پائیں گی، پس ثابت ہوا کہ ترک ذکر حرمت کی نہیں بلکہ اباحت کی دلیل ہے۔ اور اسی اصول کی وجہ سےکسی بھی چیز کو حرام ٹھرانے والے کے لیے ضروری ہےکہ وہ اسکی دلیل لائے اور اسی لیے فقہا نےلکھا کہ دلیل ہمیشہ حرمت کی طلب کی جائےگی کیونکہ اصل تمام اشیاءمیں اباحت ہے ۔
نظریہ اباحت اصلیہ کو اصول فقہ اور قواعدفقہ کی کتابوں میں درج ذیل الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے : الأصل في الأشياء الإباحة. ترجمہ:اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے۔
ابن عبد البر، التمهيد، 4: 67، 143، مغرب (مراکش،چشتی)، وزات عموم الاوقاف والشوون الإسلامية ۔ سيوطي، الأشباه و النظائر: 60، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية ۔ ابن عابدين شامي، رد المحتار، 1: 105، بيروت: دار الفکر ۔
ان الاصل في الاشياء الإباحة وان الحرمة بالنهي عنها شرعا.
ترجمۃ : اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے اور حرمت (ممانعت) صرف شرعی دلیل سے ہوگی ۔ سرخسي، المبسوط، 24: 77، بيروت: دار المعرفة
الأشياء علی الإباحة حتی يرد الشرع بالمنع.
ترجمہ : چیزیں اس وقت تک جائز ہیں جب تک شرعی ممانعت نہ ہو۔
ابن عبدالبر، التمهيد، 17: 95 ۔ عسقلاني، فتح الباري، 13: 263، لاهور، پاکستان،دار نشر الکتب الاسلامية ۔ ابن حزم، المحلی، 1: 177، بيروت، لبنان: دار الآفاق الجديده
الأصل في الأشياء الحل . ’’اشیاء میں اصل جواز ہے۔‘‘
زرکشی، المنثور فی القواعد، 1: 306، کويت: وزارة الاوقاف والشون الاسلاميه
مبارک پوری، تحفة الاحوذی في شرح جامع الترمذي، 4: 331، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية ۔
الأصل في الأعيان الحل . ’’اشیاء میں اصل جواز ہے۔‘‘
زرکشي، البحر المحيط في اصول الفقه، 4: 325، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية
الحل هو الأصل في الأشياء.
’’اشیاء میں جواز ہی اصل ہے۔‘‘
ابن همام، شرح فتح القدير، 7: 3، بيروت، لبنان: دار الفکر ، ابن عابدين، ردالمحتار، 4: 167 ۔
أصل الأفعال الإباحة.
’’اصلی اصول ہر کام میں جواز ہے۔‘‘
إبن قيم، اعلام الموقعين عن رب العالمين، 2: 387، بيروت، لبنان: دار الجيل
الأمور أصلها الإباحة حتی يثبت الحظر
’’جب تک ممانعت شرعی ثابت نہ ہو، تمام امور میں جواز ہی اصل ہے۔‘‘
ابن عبدالبر، التمهيد، 9: 205 ۔
الأصل في المنافع الإذن و في المضار المنع.
’’مفید چیزوں میں اصل اجازت ہے اور نقصان دہ چیزوں میں اصل ممانعت ہے۔
(رازي، المحصول في علم الأصول، 6: 131، رياض، سعودی عرب: جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية،چشتی)
نظریہ اباحت کی مذکورہ بالا تمام تعبیرات کے الفاظ اور ان کی ترتیب میں اگرچہ تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے، مگر سب کا مقصود ایک ہی ہے کہ جب تک کسی شے کی حرمت کسی دلیل شرعی سے ثابت نہ ہو تو وہ حلال متصور ہوگی۔
اگر ہم روز مرہ زندگی میں بھی دیکھیں تو یہی قاعدہ قابل عمل ہے ورنہ تو انسان کے لئے زندگی کا ہر ہر قدم مشکل بن کر رہ جائے۔ مثلاً ہم گھر سے نکلیں تو گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پر یہ لکھا ہوا تلاش کرنا شروع کر دیں کہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ ہم یہاں سے گزر سکتے ہیں یا نہیں؟ ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ ہاں کہیں کہیں یہ لکھا ہوا ضرور مل جائے گا کہ یہ راستہ فلاں مقام کی طرف جا رہا ہے یا پھریہ الفاظ اور علامات ملیں گی کہ یہ شارع عام نہیں ہے، No entry، یہاں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ بند ہے، بغیر اجازت اندر آنا منع ہے وغیرہ وغیرہ یا پھر گیٹ یا کسی بھی رکاوٹ سے راستہ بند کر دیا جاتا ہے۔ یعنی ہر اس راستے سے گزرنے کی اجازت ہوتی ہے جہاں ممانعت کا کوئی نشان نہ پایا جائے ۔ لہٰذا شریعت میں بھی کسی کام کے نہ کرنے کے لئے ممانعت کی دلیل ہونا ضروری ہے ۔

شریعت اسلام اور تصور حلال و حرام

کسی عمل کو محض بدعت کہہ دینےسے وہ حرام نہیں ہوجاتا کیونکہ لغوی اعتبار سے کسی عمل کا بدعت ہونا فقط اتنا ثابت کرئے گا کہ اس پر قرآن و حدیث اور عمل صحابہ سےکوئی سند نہیں ہے لہذا ایسا ہر عمل اباحت کے دائرےمیں آجائےگا پس ثابت ہوا کہ کسی عمل کا محض نیا ہونا حرمت کی دلیل نہیں بن سکتا بلکہ کسی بھی نئےعمل کی حلت و حرمت کو جاننے کےلیےاسےدلیل شرعی کی طرف لوٹایا جائےگا اگر وہ عمل موافق شرع ہو تو بدعت حسنہ اور اگر خلاف شرع ہوتو بدعت سئیہ نبی کریم ور صحابہ کا کسی کام کو نہ کرنا اس کی حرمت کی دلیل نہیں ہوتا۔
مشہور غیر مقلد عالم وحید الزمان بدعت کی اقسام کے بارے میں لکھتاہے ’’اما البدعۃ اللغویہ فھی تنقسم الی مباحۃ ومکروھۃ وحسنۃ وسئیۃ ‘‘ بہر حال باعتبار لغت کے بدعت کی حسب ذیل اقسام ہیں بدعت مباح ،بدعت مکروہ ،بدعت حسنہ او ربدعت سیۂ ۔( ہدیتہ المہدی 117مطبوعہ میور پریس دہلی،چشتی)
او رنواب صدیق حسن بھوپال جو غیرمقلد ین کے بہت بڑے عالم تھے انہوں نے کہا کہ بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہوجائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔ ( ھدیتہ المھدی )
مشھو رنجدی عالم قاضی شوکانی فتح الباری سے نقل کر کے اقسام بدعت کے بارے میں لکھتے ہیں ’’ لغت میں بدعت اس کا م کو کہتے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو او راصطلاح شرح میں سنت کے مقابلہ میں بدعت کا اطلاق ہوتاہے اس لئے یہ مذموم ہے او رتحقیق یہ ہے کہ بدعت اگر کسی ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں مستحسن ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور اگر ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تویہ بدعت سیۂ ہے ورنہ بدعت مباحہ ہے او ربلاشبہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں ۔( نیل الاوطار325/3مکتبۃ الکلیات الازہریۃ ) اسی طرح شیخ عثمانی دیوبندی نے بھی علامہ نووی کے حوالہ سے بدعت کہ یہ پانچ اقسام ذکر کیں ہیں ۔ ( فتح الملھم 406/2 مطبوعہ مکتبۃ المجار کراچی،چشتی)
مخالفین کی ان عبارتوں سے معلوم ہے کہ ان کے نزدیک بھی ہر بدعت گمراہی نہیں ہے جیسا کہ علامہ ابن منظور افریقی نے علامہ ابن اثیر کے حوالہ سے یہ لکھا ہے کہ حدیث مبارکہ میں جو ہے کہ ہر نیا کام بدعت ہے ا س نئے کام سے مراد وہ کام ہے جو خلاف شریعت ہو لکھتے ہیں ۔’’ و علی ھذالتاویل یحمل الحدیث الاٰخر کل محدثۃ بدعۃ انما یرید ما خالف اصول الشریعہ ولم یوافق السنۃ‘‘ ۔ (مجمع بحارالانوار 80/1مطبوعہ نو لکشورہند) یعنی ان دلائل کی بنا پر حدیث ’’ ہر نیا کام بدعت ہے ‘‘ کی تاویل کی جائے گی او راس نئے کام سے مراد وہ کام ہیں جو اصول شریعت کے مخالف ہوں اورسنت کے موافق نہ ہوں ۔اگر آج کل کا وہابی ہربدعت کو گمراہی کہے تووہ خود بھی نہیں بچ سکے گا کیونکہ اسلام کی کوئی عبادت بدعت حسنہ سے خالی نہیں ۔مثلا مسلمان کا بچہ بچہ ایمان مجمل اور مفصل یاد کرتاہے ہر ایمان کی دوقسمیں او ران کا نام دونوں بدعت ہیں قرون ثلاثہ میں اس کا پتہ نہیں اسی طرح چھے کلمہ او ران کی ترتیب کہ یہ پہلا یہ دوسرا ہے او ران کے یہ نام ہیں سب بدعت ہیں جن کا پہلے کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے اسی طرح قرآن شریف کے تیس پارہ بنانا۔ان میں رکوع قائم کرنا ،اس پر اعراب لگانا سب بدعت ۔ احادیث کو کتابی شکل میں جمع کرنا ،اس کی قسمیں بنانا کہ یہ صحیح ہے حسن ہے یا ٖضعیف ہے یہ سب بدعت ہے اسی طرح نماز میں زبان سے نیت کرنا بدعت ہر رمضان میں بیس رکعت تراویح پر ہمیشگی کرنا بدعت یہاں تک کہ خود حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا نعمت البدعۃ ھذہ یہ بڑی اچھی بدعت ہے ۔بسوں ،گاڑیوں او رموٹروں میں عرفات شریف جانا بدعت جبکہ ا س زمانہ پاک میں یہ سواریاں نہ تھی نہ ان کے ذریعے ہوتاتھا ۔پھریہ کہنا کہ ہر دینی کا بدعت ہے دنیاوی نہیں یہ کیسے صحیح ہوسکتاہے کیونکہ دینی کام کرنے پر ثواب ملتاہے او ردنیا کا جائز کام بھی نیت خیر سے کیاجائے تو ا سپربھی ثوا ب ملتا ہے ۔ جیسا کہ مشکوہ فضل الصدقہ میں صفحہ نمبر 167) پر حدیث پاک میں آتا ہے کہ ’’مسلمان سے خندہ پیشانی سے ملنا صدقہ کا ثواب رکھتا ہے اپنے بچوں کو پالنا نیت خیر سے ثواب ہے یہاں تک کہ جو لقمہ اپنی زوجہ کے منہ میں دے وہ بھی ثواب لہذا مسلمان کا ہر دنیاوی کا م دینی ہے ۔ پھر دینی کام کی قید لگانے سے وہابی خود بھی بدعت کے مرتکب ہوئے کیونکہ وہابیوں کا مدرسہ وہاں کا نصاب دورہ حدیث تنخواہ لے کر پڑھانا مصیبت کے وقت ختم بخاری کرنا ان سب کیلئے چندہ اکٹھا کرنا سب ہی دینی کام ہیں اور بدعت ہیں کیونکہ حضور نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ظاہری زمانہ مبارک میں ان میں سے کوئی کام نہ ہوا تھا ۔ پس معلوم ہو اکہ ہربدعت گمراہی نہیں ہے اللہ تعالی سمجھ عطافرمائے آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...