Wednesday 27 November 2019

دعا ء بعد نمازجنازہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں

0 comments
نمازِ جنازہ کے بعد میت کےلیئے دعا کرنا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : دعا کی فضیلت اور رغبت میں کئی آیات اور احادیث موجود ہیں ، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ادعونی استجب لکم ۔ (سورۃ المومن 60)
ترجمہ : مجھ سے مانگو میں تمہاری دعائوں کو قبول فرماؤںگا ۔

اجیب دعوۃ الداع اذا دعان ۔ (سورۃ البقرہ 186-)
ترجمہ : جب دعا مانگنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا کو قبول فرماتا ہوں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : الدعاء مخ العبادۃ ۔ (مشکوٰۃ کتاب الدعوات)
ترجمہ : دعا عبادت کا مغز (یعنی اصل) ہے ۔

"لایرد القدرالاالدعائ ۔ (مشکوٰۃ کتاب الدعوات)
ترجمہ : دعا تقدیر کو ٹال دیتی ہے ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعاء سے زیادہ کسی چیز میں فضیلت نہیں ہے ۔ (ترمذی ، ابن ماجہ، حاکم عن ابی ہریرہ)

ان آیات و احادیث پاک سے دعا کی کتنی فضیلت معلوم ہو رہی ہے اب اگر دعا کسی جگہ ممنوع ہوگی تو اس کیلئے دلیل کا ہونا ضروری ہوگا بلا دلیل ناجائز کہنا اصول شریعت کے خلاف ہے ۔ چنانچہ بطور خاص جو شخص نماز جنازہ کے بعد دعا کو ناجائز کہے اس پر دلیل کا پیش کرنا لازم ہوگا ۔ بجائے اس کے کہ وہ کوئی دلیل پیش کرتے ان کی طرف سے دلائل طلب کئے جاتے ہیں حالانکہ احادیث و آثار کثرت کے ساتھ اس بارے میں موجود ہیں ممکن ہے ان ہمارے بھائیوں کی نظر سے یہ احادیث نہ گزری ہوں ۔ چنانچہ ہم خالص جذبہ اصلاح اور اس امید کے ساتھ روایات ذکر کریں گے کہ یہ ہمارے یہ بھائی اپنی اصلاح فرما لیں ۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَی الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ إِذَا صَلَّيْتُمْ عَلَی الْمَيِّتِ فَأخْلِصُوا لَهُ الدُّعَاءَ ۔
ترجمہ : عبد العزیز بن یحییٰ حرانی ، محمد ابن سلمہ ، محمد بن اسحاق ، محمد بن ابراہیم ، ابو سلمہ بن عبدالرحمن ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میت پر نماز جنازہ پڑھ چکو تو خلوص دل سے اس کے لیے دعا کرو ۔ (مشکوۃ المصابیح ،کتاب الجنائز ،الفصل الثانی ، الحدیث ،۱۶۷۴ج۱،ص۳۱۹ ۔ مترجم اردو جلد اول حدیث نمبر 1583 مطبوعہ فرید بکسٹال لاہور،چشتی)(أبو داؤد، السنن، باب الدعاء للميت، 3 : 210، رقم : 3199)(ابن ماجه، السنن، باب ماجاء فی الدعاء فی الصلاة علی الجنازة، 1 : 480، رقم : 1497)(ابن حبان، الصحيح، باب : ذکر الأمر لمن صلی علی ميت أن يخلص له الدعاء، 7 : 345، رقم : 3076)(بيهقی، السنن الکبری، باب الدعاء فی صلاة الجنازة، 4 : 40، رقم : 6755، مکتبة دار الباز مکة المکرمة)

مختصر شرح : اس حدیث کے دو معنی ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ نمازِ جنازہ میں خالص دعا ہی کرو تلاوتِ قرآن نہ کرو حمد وثنا ء درود ودعاء کے مقدمات میں سے ہے اس صورت میں یہ حدیث امام اعظم رضی اللہ عنہ کی دلیل ہے کہ نماز جنازہ میں تلاوتِ قرآن ناجائز ہے دوسرا یہ کہ جب تم نماز جنازہ پڑھ چکو تو میت کیلئے خلوصِ دل سے دعا مانگو اس صورت میں دعا بعد نماز جنازہ کا ثبوت ہوگا خیال رہے کہ دعا بعد نمازِ جنازہ سنتِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بھی ہے سنتِ صحابہ بھی چنانچہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے شاہ حبشہ نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی اور بعد میں دعا مانگی حضرت عبد اللہ بن سلام ایک جنازہ میں پہنچے نماز ہوچکی تھی تو آپ نے حاضرین سے فرمایا نماز تو پڑھ چکے میرے ساتھ مل کردعا تو کرلو ۔ جن فقہاء نے اس دعا سے منع کیا ہے اس کی صورت یہ ہے کہ سلام کے بعد یونہی کھڑے کھڑے دعا مانگی جائے جس سے آنے والوں کو نماز کا دھوکہ ہو یا بہت لمبی دعائیں مانگی جائیں جس سے بلاوجہ دفن میں بہت دیر ہوجائے ۔ (مراٰۃ لمناجیح،ج۲،ص۴۸۰تا۴۷۹)

خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز جنازہ کے بعد دعا مانگتے ہیں عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں (یہ روایت طویل ہے) مقام موتہ میں جب کفار سے صحابہ جنگ فرمارہے تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو شہید ہوتے ملاحظہ فرمایا تو ان پر نماز جنازہ پڑھی اور ان کے لئے دعا مانگی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دعائے بخشش کا حکم دیا الفاظ یہ ہیں : وَصَلَّی عَلَیْہِ وَدَعَا وَقَالَ اسْتَغْفِرُوْا لَہٗ ۔ (1) فتح القدیر لابن ھمام۳؍۳۶۸ (2) عمدۃ القاری شرح بخاری۸؍۲۲(۳)نصب الرایۃ ۲؍۲۸۴(۴)شرح ابی داؤد للعینی ۶؍۱۵۳(۵)عون المعبود۹؍۲۰،چشتی)

حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھی (اس کے بعد) جو دعا مانگی وہ میں نے یاد کرلی الفاظ یہ ہیں] ’’صَلَّی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمعَلٰی جَنَازَۃَفَحَفِظْتُ مِنْ دُعَائَہٖ ۔ (1) صحیح مسلم۳؍۵۹رقم۲۲۷۶(2) صحیح ابن حبان۷؍۳۴۴رقم۳۰۷۵ (3) مسند البزار۷؍۷۲رقم۲۷۳۹(۴)سنن الکبرٰی للبیہقی۴؍۴۰رقم۷۲۱۶(۵)معجم الکبیر للطبرانی ۱۲؍۴۰۶رقم۴۵۰۷(۶)شرح السنۃ للبغوی۵؍۳۵۶رقم۱۴۹۵(۷)مسند الشامین ۳؍۱۸۲رقم۲۰۳۷(۸)المنتقی لابن الجارود۲؍۹۱رقم۵۲۲(۹)عمدۃ القاری شرح بخاری ۱۲؍۴۵۴(۱۰)شرح مسلم للنووی۳؍۳۸۳(۱۱)تحفۃ الأحوذی۳؍۸۲(۱۲)تلخیص الحبیر۲؍۲۸۸رقم۷۷۰(۱۳)کنزالعمال۱۵؍۵۸۷رقم۴۲۳۰۱(۱۴)بلوغ المرام۱؍۲۰۴(۱۵)ریاض الصالحین۱؍۴۷۳(۱۶)مشکٰوۃ المصابیح ۱؍۳۷۳رقم ۱۶۵۵(۱۷)البحرالرائق شرح کنز الدقائق۵؍۳۲۲
امام نووی رحمہ اللہ[شرح مسلم ]میں ’’فحفظت،، کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں [أَیْ عَلَّمَنِیْہِ بَعْدَ الصَّلٰوۃ  فَحَفِظْتُہ]ترجمہ:یعنی دعا نماز کے بعد سکھائی،پس انھوں نے اسے یاد کرلیا(شرح صحیح مسلم للنووی ۳؍۳۸۳طبع بیروت)
ان دونوں روایتوں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نماز جنازہ کے بعد دعا کرنا واضح ہے پھر اس کے جواز میں شک کرنا کیسا؟
اب ذرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے صحابی کا عمل بھی ملاحظہ فرمائیے : حضرت مستظل بن حصین سے روایت ہے [أَنَّ عَلِیًّا صَلَّی عَلٰی جَنَازَۃٍ بَعْدَ مَا صُلِّیَ عَلَیْہَا]ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھی جانے کے بعد دعا مانگی ۔ (۱) سنن الکبرٰی للبیہقی۴؍۴۵رقم۶۷۸۷ (۲) التمہید لابن عبد البر ۶؍۲۷۵(۳)کنز العمال۱۵؍۷۱۳رقم۴۲۸۴۱ (۴) جامع الأحادیث للسیوطی ۲۹؍۴۶۱رقم۳۲۵۶۱،چشتی)

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک اور روایت بھی ہے : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ، عَنِ الشَیْبَانِیِّ،عَنْ عُمَیْرِ بْنِ سَعِیْدٍ قَالَ:صَلَّیْت مَعَ عَلِیٍّ عَلٰی یَزِیْدَ بْنَ الْمُکَفَّفِ فَکَبَّرَ عَلَیْہِ أَرْبَعًا ،ثُمَّ مَشٰی حَتّیی أَتَاہُ فَقَالَ:أَللّٰہُمَّ عَبْدُکَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ : حضرت عمیر بن سعید سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یزید بن مکفف رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ پڑھی آپ نے چار تکبیریں کہیں پھر چلے میت کے پاس آئے اور کہا اے اللہ یہ تیرا بندہ ہے ۔۔۔۔الخ
(مصنف ابن ابی شیبۃ ۳؍۳۳۱رقم ۱۱۸۳۱اس کی سند صحیح ہے)
ان دونوں روایتوں میں جنازہ کے بعد دعا کرنی واضح ہے
اسی طرح جنازہ کے بعد دعا کر نا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے دیکھئے ۔ [مصنف عبدالرزاق۳؍۵۱۹رقم۶۵۴۵،چشتی]
اس کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ اور عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہما سے بھی روایات ہیں دیکھئے ۔[سنن الکبرٰی بیہقی۹۳۴،کنزالعمال۱۵؍۷۱۷رقم۴۲۸۵۸،المبسوط للسرخسی۲؍۲۷،بدائع الصنائع ۱؍۳۱۱،طبقات الکبرٰی۳؍۳۶۹]
حضرت أنس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : اطْلُبُوْا الْخَیْرَ دَہْرَکُمْ کُلَّہٗ وَتَعَرَّضُوْا لِنَفَحَاتِ رَحْمَۃِاللّٰہ ِ ۔
ترجمہ : ہر وقت،ہر گھڑی،عمر بھر خیر مانگے جاؤ اور تجلیات رحمت الٰہی کی تلاش رکھو ۔(۱) شعب الایمان للبیہقی ۲؍۳۷۰رقم۱۰۸۳(۲) تفسیر ابن کثیر ۴؍۳۳۰(۳) التمہید لابن عبدالبر۵؍۳۳۹ (۴) الاستذکار ۷؍۴۶۴ (۵) جامع الصغیر ۱؍۸۵(۶)الفتح الکبیر ۱؍۱۸۱(۷)الفردوس بمأثورالخطاب۱؍۷۹رقم۲۴۱ (۸)جامع الاحادیث للسیوطی ۴؍۴۹۵رقم۳۶۱۸(۹)کنزالعمال ۲؍۷۴رقم۳۱۸۹(۱۰) الأسماء والصفات للبیہقی ۱؍۳۲۹ (۱۱)سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۴؍۳۸۹رقم۱۸۹۰)

اب دیکھئے کہ نماز جنازہ کے بعد میت کو دفن کرنا ہوتا ہے لیکن دفن سے پہلے اور جنا زہ کے بعد دعا کرنے کا معمول سلف صالحین کا ہے یہی معمول بہا ہے یعنی اسی پر فتوٰی ہے ملاحظہ فرمائیے ، کشف الغطاء میں ہے : فاتحہ ودعا برائے میت پیش از دفن درست است و ہمیں است روایت معمولہ کذا فی الخلاصۃ الفقہ۔۔۔]
ترجمہ : میت کے لئے دفن سے پہلے فاتحہ و دعا  درست ہے اور یہی روایت معمول بہا ہے ایسا ہی خلاصۃ الفقہ میں ہے ۔ (کشف الغطاء صفحہ ۴۰ فصل ششم نماز جنازہ مطبوعہ دہلی)

میت کو قبر میں دفن کرنے کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر دعا کرنا

محترم قارئین : ہمارے ایک دوست نے بار بار میسج کیئے کہ میت کےلیئے ہاتھ اٹھا کر یا دفن کے بعد دعا کرنے کو بعض لوگ ناجائز کہتے ہیں اس کے متعلق رہنمائی فرمائیں ، فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی عرض گزار ہے کہ مختصر وقت میں یہ مضمون لکھا ہے اہل علم کہیں غلطی پائیں تو فقیر کو ضرور آگاہ فرمائیں شکریہ ۔

دفن کرنے کے بعد میت کیلئے دعا کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے ثابت ہے ۔ امیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی میت کو دفن کرنے سے فارغ ہوتے تو آپ اس پر کھڑے ہو کر فرماتے کہ اپنے بھائی کے لیے بخشش مانگو، پھراس کے لیے ثابت قدمی کا سوال کرو۔ اس سے اب سوال و جواب کیا جا رہا ہے ۔ (سنن ابو داوؤد، صحیح الترغیب و الترھیب ، ح:۳۵۱۱)

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک طویل حدیث مبارکہ روایت کی ہے جس میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر سے اٹھ کر باہر نکل جانے کے بارے میں فرماتی ہیں : حَتَّی جَاءَ الْبَقِیعَ فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِیَامَ ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ.
ترجمہ : یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقیع (قبرستان) تشریف لے گئے وہاں کافی دیر تک کھڑے رہے پھر تین بار اپنے ہاتھ اٹھائے ۔ (مسلم، الصحیح، 2: 670، رقم: 974، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي)(أحمد بن حنبل، المسند، 6: 221، رقم: 25897، مصر: مؤسسة قرطبة،چشتی)

میت کو قبرستان میں دفن کرنے کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر دعا کرنا حدیث مشکوٰۃ وغیرہ میں موجود ہے۔ اس کے الفاظ ہیں : وعنہ قال کان النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال استغفروا لاخیکم ثم سلوا لہ بالتثبیت فانہ الان یسئال۔
ترجمہ : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم دفن میت سے فارغ ہو کر قبر پر کھڑے ہوتے اور فرماتے اپنے بھائی کے لیے دعاء بخشش کرو۔ اور اس کے لیے بارگاہ ایزدی میں ثابت قدمی کی درخواست کرو۔ وہ اس وقت سوال کیا جاتا ہے ۔ (مشکوٰۃ باب اثبات عذاب القبر)

امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب غزوہ بدر کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکین کی طرف دیکھا تو وہ ایک ہزار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تین سو تیرہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے : فَاسْتَقْبَلَ نَبِيُّ اﷲِ الْقِبْلَةَ ثُمَّ مَدَّ یَدَیْهِ فَجَعَلَ یَهْتِفُ بِرَبِّهِ اللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِکْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ فَمَا زَالَ یَهْتِفُ بِرَبِّهِ مَادًّا یَدَیْهِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ حَتَّی سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ مَنْکِبَیْهِ.
ترجمہ : نبی اکرم نے قبلہ کی طرف منہ کیا اور ہاتھ اٹھا کر باآواز بلند اپنے رب سے یہ دعا کی: اے اللہ تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اس کو پورا فرما، اے اللہ! تو نے جس چیز کا مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ عطا فرما، اے اللہ! اہل اسلام کی یہ جماعت اگر ہلاک ہو گئی تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ آپ ہاتھ پھیلا کر باآواز بلند مسلسل دعا کرتے رہے حتیٰ کہ آپ کے شانوں سے چادر گر گئی ۔ (مسلم، الصحیح، 3: 1384، رقم: 1763،چشتی)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث ہے ۔ جس کے اندر یہ الفاظ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس جبرئیل امین تشریف لائے اور کہا کہ آپ کا پروردگار آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقیع (مدینے کا قبرستان) جائیں اور بقیع والوں کے لیے بخشش مانگیں ۔ (صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب ما یقال عند دخول المقابر)

عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو عبداللہ ذوالبجادین کی قبر میں دیکھا ۔۔۔ اس میں ہے کہ جب آپ اس کے دفن سے فارغ ہوئے اور آپ نے منہ قبلے کی طرف کیا اور آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی ۔ (فتح الباری، کتاب الدعوات، باب الدعا مستقبل القبلۃ،ح:۵۸۶۷ کی شرح میں بحوالہ مسند ابی عوانہ)

قبرستان میں اور میت کو دفن کرنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحیح سنت سے ثابت ہے ۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نماز سے باہر کسی دعا میں ہاتھ اٹھانا مستحب ہے ۔ اس کے بعد آپ نے ایسی بہت سی روایات ذکر کی ہیں جو کہ نماز سے باہر ہاتھ اٹھا کے دعا کرنے کے جواز کی دلیل ہیں ۔ اس کے بعد آپ فرماتے ہیں : اس مسئلے میں اس کے علاوہ بھی بہت سی احادیث ہیں ، تاہم جتنی احادیث میں نے ذکر کردی ہیں یہ کافی ہیں ، اور مقصد یہ ہے : دعا میں ہاتھ اٹھانے کے متعلق تمام مواقع کو یکجا جمع کرنے کا مدعی شخص سنگین غلطی پر ہے ( یعنی: مدعی ان مواقع کا مکمل طور پر شمار نہیں کرسکتا ۔ الخ (شرح المهذب 3/489)

غیر مقلد علماء لکھتے ہیں : عام طور پر لوگ دعا اس کو سمجھتے ہیں جس میں ہاتھ اٹھائے جائیں ، حالاں کہ دعا ء ہاتھ اٹھائے اور بغیر ہاتھ اٹھائے دونوں صورتوں میں ہوتی ہے۔ مثلاً نماز کے اندر، سجدہ میں اور بین السجدتین اور بعض دفہ قیام میں بلا ہاتھ اٹھائے دعا ہوتی ہے ۔ اس طرح قبر پر اختیار ہے ہاتھ اُٹھا کر دعا ء کرے یا بغیر ہاتھ اُٹھائے، ہاں ہاتھ اٹھانا آداب دعا سے ہے، اس لیے اُٹھانا بہتر ہے، مگر لازم نہ سمجھے ، اور اگر کوئی ہاتھ نہ اٹھائے تو اس پر اعتراض بھی نہ کرے ۔ جیسے فرضوں کے بعد کی دعا میں کوئی ہاتھ نہ اُٹھائےتو ناواقفط لوگ اعتراض کرتے ہیں ۔ (عبد اللہ امر تسری روپڑی فتاویٰ اہل حدیث جلد نمبر ۲ ص۴۶۷) ۔ (فتاویٰ علمائے حدیث جلد 05 ص 254)

فتویٰ دارالعلوم دیوبند

سوال # 54953 کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس بارے کہ قبر پرہاتھ اٹھا کر دعا مانگنی چاہیے یا ہاتھ چھوڑ کر.مسنون طریقہ کیا ہے قبر پر دعا ما نگنے کا اور کیا پڑھنا چاہیے۔ اکابر علمائے دیوبند کا طرز عمل کیا تھا ؟

Published on: Sep 13, 2014

جواب # 54953 بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1389-933/L=11/1435-U

قبرستان میں داخل ہوتے وقت ان الفاظ کے ساتھ سلام کرنا چاہیے، السلام علیکم یا دار قومٍ موٴمنین أنتم سلفنا ونحن بالأثر وإنا إن شاء اللہ بکم لاحقون یغفر اللہ لنا ولکم أجمعین وصلی اللہ علی سیدنا ومولانا محمد وبارک وسلم سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار پھر جو قرآن سے آسان معلوم ہو، سورہٴ فاتحہ، سورہٴ بقرہ کی ابتدائی آیتیں مفلحون تک، آیة الکرسی، آمن الرسول، سورہ یاسین سورئہ الملک سورہ تکاثر، سورہٴ اخلاص بارہ یا گیارہ مرتبہ یا سات مرتبہ یا تین مرتبہ پڑھ کر بخش دے۔ (شامی: ۳/۱۵۱) قبر پر ہاتھ اٹھاکر یا بغیر ہاتھ اٹھائے دعا کرسکتے ہیں، البتہ ہاتھ اٹھاکر دعا کرنے کی صورت میں رخ قبلہ کی طرف ہو، اس طور پر کھڑا نہ ہو کہ مردے سے مانگنے کا گمان پیدا ہو۔

واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء ، دارالعلوم دیوبند

فتاویٰ ھندیہ المعروف فتاویٰ عالگیری میں ہے : یستحب اذا دفن المیت ان یجلسوا ساعۃ عند القبر بعد الفراغ بقدر مایخرجھم و یقسم لحملھا یتلون القران ویدعون للمیت کذا فی الجوھرۃ الینزۃ ۔
ترجمہ : میت کی تدفین کے بعد تھوڑی دیر ٹھہرنا ، قرآن پاک کی تلاوت کرنا اور میت کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا مستحب ہے ۔ دعا کا طریقہ یہ ہے کہ منہ قبلے کی طرف ہو۔ (فتاویٰ ھندیہ :1/167 )

احادیث مبارکہ اور روایات سے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم کا نماز جنازہ کے بعد دعا کرنے کا معمول واضح طور پر ظاہر ہورہا ہے ان واضح دلائل کے بعد اگر کوئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کو بدعت کہے تو ہم اس کے لئے ہدایت کی دعا کرتے ہیں لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ اہل ایمان اس نیک عمل کو اپناتے ہوئے ثواب سے محروم نہیں رہیں گے ان شاء اللہ ۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ میں انشتار پیدا کرنے کے بجائے اتحاد کو فروغ دینے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)






















نمازِ جنازہ کے بعد دعا کرنا

محترم قارئینِ کرام : اللہ سبحانہ وتعالی نے جن وانس کواپنی عبادت کے لیے پیدافرمایا …… قرآن عظیم میں فرمایا : وماخلقت الجن والانس الالیعبدون ۔ (الذاریات ۵۶)
ترجمہ : اورمیں نے جن وانس کوتواپنی عبادت کے لیے بنایا ۔

اوراللہ تعالی کی عبادت کے طریقوں میں سے ایک محبوب ترین طریقہ ”دعا“ ہے ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : الدعاء مخ العبادۃ ۔ دعاعبادت کامغزہے ۔ (جامع الترمذی ۳۹۲۳، المعجم الاوسط للطبرانی رقم الحدیث ۴۲۳۳، الدعاء للطبرانی رقم الحدیث۵)

بلکہ بعض احادیث طیبہ میں تویہاں تک فرمایاکہ:عبادت تودعاہی ہے …… جیسا کہ جناب نعمان بن بشیر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : الدعاء ھوالعبادۃ ۔ دعاء ہی عبادت ہے ۔ (سنن ابی داودرقم الحدیث۴۶۲۱، جامع الترمذی رقم الحدیث ۵۹۸۲، ۰۷۱۳، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث ۸۱۸۳، الدعاء للطبرانی رقم الحدیث ۱، ۲، ۳، ۴)،(امام ترمذی نے اس حدیث سے متعلق فرمایا:حسن صحیح)

یوں ہی جناب براء رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : ان الدعاء ھوالعبادۃ ۔ بے شک دعاء ہی عبادت ہے ۔ (تاریخ بغدادج۵ص۶۵۳)

اوراللہ سبحانہ وتعالی نے حضرت سیدناابراہیم خلیل اللہ علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کی ، دعا میں کثرت کرنے پرمدح فرمائی ، قرآن عظیم میں ہے : ان ابراہیم لاواہ حلیم ۔ بے شک ابراہیم ”اواہ“اورحلم والے ہیں ۔ (التوبۃ۴۱۱)

اورحضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : الاواہ الدعاء ۔ ”اواہ“ کے معنی ہیں : دعاکی کثرت کرنے والا ۔ (جامع البیان للطبری ج۴۱ص۳۲۵)

اور شاید یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی کے محبوب جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے کثرت سے دعا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا …… حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : اکثرو االدعاء ۔ دعاء کثرت سے کرو ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث۴۴۷، سنن ابی داود رقم الحدیث۱۴۷، سنن النسائی ۵۲۱۱، مسنداحمد۳۸۰۹،چشتی)

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : ان اللہ یحب الملحین فی الدعاء ۔ بے شک اللہ تعالی باربار دعاء کرنے والوں کومحبوب رکھتاہے ۔ (نوادرالاصول ج۲ص۲۸۲)

لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ، بعض مسلمان کہلانے والے لوگ …… جہاں اہلِ اسلام کو دیگر نیک کاموں سے منع کرتے ، اور بدعت ، گمراہی وغیرہ کا راگ الاپ کے اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا قرب حاصل کرنے سے روکتے ہیں …… وہاں دعاء ایسی عبادت پر بھی پابندی لگاتے دکھائی دیتے ہیں ۔ فلاں وقت دعا کرنا ناجائز ہے ، نمازکے بعد اللہ تعالی سے مانگنا بدعت ہے ، نمازِجنازہ کے بعد اللہ سے سوال کرنا گمراہی ہے …… سبحنک ھذابھتان عظیم ۔

وہ کریم تواپنی کتاب میں بغیرکسی قید کے فرمائے : وقال ربکم ادعونی استجب لکم ۔
اورتمہارے رب نے فرمایا : مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا ۔ (سورہ غافر۶۰)

اوراس کے حبیب کریم رؤف رحیم فرمائیں : اذاسأل احدکم فلیکثر فانہ یسأل ربہ ۔
جب تم میں سے کوئی دعاکرے توکثرت سے مانگے …… کیونکہ وہ اپنے رب سے مانگ رہا ہے ۔ (صحیح ابن حبان رقم الحدیث۰۹۸)

لیکن یہ لوگ ہیں کہ سارے دلائل و براہین سے آنکھیں میچ کرصرف ایک عذر لنگ پیش کرتے ہیں : نمازجنازہ بھی تو دعا ہے ، پھربعد میں دعاکیوں مانگیں ؟
حیرت کی بات ہے …… کیا ایک بار جوعبادت کرلی جائے ، اس کے بعد دوبارہ وہ عبادت کرنا ممنوع ہو جاتا ہے ؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : وکان اذا دعا دعا ثلاثا ۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جب دعافرماتے توتین باردعافرماتے تھے ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث۹۴۳۳)

رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تو بار بار دعا کریں ، لیکن یہ دوبارہ دعاء سے بھی منع کریں …… اور اس کے باوجود اپنے آپ کوسنت کا متبع اور شریعت مطہرہ کا پابند بتائیں ……!!! مالکم کیف تحکمون ؟

نمازجنازہ کے بعد دعا کرنا قرآن ، حدیث اورعملِ صحابہ ، سب سے ثابت ہے ۔ قرآن عظیم میں فرمایا : فاذافرغت فانصب ۔ (الشرح۷)
اورصحابیٔ رسول حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما اس کی تفسیرمیں فرماتے ہیں : اذافرغت من الصلاۃ فانصب فی الدعاء واسأل اللہ وارغب الیہ ۔
یعنی جب آپ نمازسے فارغ ہوجائیں تودعاء میں کوشش کریں اور اللہ تعالی سے مانگیں اوراس کی طرف متوجہ ہوں ۔ (جامع البیان للطبری ج۴۲ص۶۹۴، تفسیرابن ابی حاتم الرازی ج۲۱ص۷۲۴)

اورجناب قتادۃ اس آیہ مقدسہ کی تفسیرمیں فرماتے ہیں : امرہ اذافرغ من صلاتہ ان یبالغ فی الدعاء ۔ یعنی اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کوحکم دیا ہے کہ : جب اپنی نمازسے فارغ ہوجائیں تودعاء میں مبالغہ کریں ۔ (جامع البیان للطبری ج۴۲ص۶۹۴،چشتی)

اس آیۂ مقدسہ سے ہر نماز کے بعد دعاء کا جائز ہونا ، بلکہ شرعا مندوب و مطلوب ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ اور واضح بات ہے کہ نمازجنازہ بھی تو نماز ہے ، پھراس کے بعد دعاء ناجائز کیسے ہوجائے گی ؟

اوراگرکوئی کہے کہ نمازجنازہ نماز نہیں ، یا اس آیۂ مقدسہ سے نمازجنازہ مراد نہیں تو ہم اسے کہں گے : ھاتوابرھانکم ان کنتم صادقین۔فاذلم یأتوابالشھداء فاولئک عنداللہ ھم الکاذبون ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں : اذاصلیتم علی المیت فاخلصوالہ الدعاء ۔ جب میت پرنمازپڑھ چکوتواخلاص کے ساتھ اس کے لیے دعاء کرو ۔ (سنن ابی داودرقم الحدیث۴۸۷۲، سنن ابن ماجہ۶۸۴۱، السنن الکبری للبیہقی ج۴ص۰۴، صحیح ابن حبان رقم الحدیث۱۴۱۳، الدعاء للبطرانی رقم الحدیث ۷۰۱۱)

اس حدیث میں ”فاخلصوا“ فرمایا …… یعنی ”فاء“ لائی گئی …… اورامام رازی ”المحصول“ میں اور امام عبید اللہ بن مسعود رحمہ اللہ تعالی ”التوضیح“ میں رقمطرازہیں :  الفاء للتعقیب ۔ فاء تعقیب کے لیے آتی ہے ۔ (المحصول ج۱ص۳۷۳، التوضیح ج۱ص۰۹۳)
اور امام بدرالدین زرکشی ذکرفرماہیں : الاجماع علی ان الفاء للتعقیب ۔ یعنی فاء کے تعقیب کے لیے ہونے پراجماع ہے ۔ (البحرالمحیط ج۳ص۷۹۱)

لہذا حدیث کا حاصل یہ ہوگا کہ : نمازجنازہ سے فارغ ہو کر میت کے لیے اخلاص سے دعا کرو ۔ مالکم لاتنطقون ؟ فلیأتوا بحدیث مثلہ ان کانوا صادقین !!!

اورنہ صرف یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے نمازجنازہ کے بعد دعاء کرنے کاحکم فرمایا …… بلکہ نماز جنازہ کے بعد خود دعاء فرماتے بھی رہے ۔ امیرالمؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : کان النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اذافرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال استغفروالاخیکم وسلوالہ بالتثبیت فانہ الآن یسأل ۔
نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جب میت کے دفن سے فارغ ہوجاتے تواس کی قبرپہ کھڑے ہوکرفرماتے : اپنے بھائی کے لیے مغفرت کی دعاء کرو ، اوراس کے لیے ثابت قدمی کاسوال کرو …… کیونکہ اس سے اس وقت سوال کیا جا رہا ہے ۔ (سنن ابی داود رقم الحدیث ۴۰۸۲)

اور دفن کے بعد دعاء کرنا ، نمازجنازہ کے بعد ہی ہوتا ہے …… پس نمازجنازہ کے بعد خود رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے دعا فرمائی ۔ بلکہ تدفین کی تکمیل سے پہلے …… یعنی دوران تدفین دعا کرنا بھی واردہوا ہے …… جیسا کہ مستدرک علی الصحیحین وغیرہ کی روایت کے کلمات ہیں : مر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بجنازۃ عندقبروصاحبہ یدفن فقال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم استغفروالاخیکم سلوااللہ لہ التثبیب فانہ الآن یسأل ۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قبرکے پاس رکھے ایک جِنازہ کے پاس سے گزرے جبکہ قبروالے کودفن کیاجارہاتھا …… تورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : اپنے بھائی کے لیے مغفرت کی دعاء مانگواوراللہ تعالی سے اس کے لیے ثابت قدمی کا سوال کروکیونکہ وہ ابھی سوال کیا جائے گا ۔ (مستدرک علی الصحیحین رقم الحدیث۰۲۳۱) ، امام حاکم نے اس حدیث کوصحیح قراردیا ہے ۔

اورنمازجنازہ کے بعد، دفن کرنے سے پہلے بھی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے دعاء فرمائی ہے …… واقدی رحمہ اللہ تعالی نے جنگ مؤتۃ کے بیان میں روایت کیا ہے : لماالتقی الناس بمؤتۃ جلس رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم علی المنبر وکشف لہ مابینہ وبین الشام فھوینظر الی معترکھم فقال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اخذ الرأیۃ زیدبن حارثۃ…………حتی استشھد فصلی علیہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فقال استغفروالہ فقد دخل الجنۃ وھویسعی۔ثم اخذ الرایۃ جعفر بن ابی طالب…………حتی استشھد فصلی علیہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ودعالہ ثم قال استغفروالاخیکم فانہ شھید، دخل الجنۃ فھویطیرفی الجنۃ بجناحین من یاقوت حیث یشاء من الجنۃ ۔
جب مؤتۃ میں جنگ شروع ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم منبر اقدس پرجلوہ فرماہوئے اورآپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اورشام کے درمیان سے پردے ہٹا دئیے گئے……پس آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ان کے معرکہ کودیکھ رہے تھے۔پس رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:زیدبن حارثۃ نے جھنڈاپکڑا……یہاں تک کہ وہ شہیدکردئیے گئے تورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان پرنمازپڑہی، پھر فرمایا:ان کے لیے مغفرت کی دعاکرو، پس تحقیق وہ جنت میں دوڑتے ہوئے داخل ہوئے۔ پھر جناب جعفر بن ابی طالب نے جھنڈاپکڑا…………یہاں تک کہ وہ شھیدکردئیے گئے تورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان پرنمازپڑھی اوران کے لیے دعافرمائی۔ پھرفرمایا:اپنے بھائی کے لیے مغفرت کی دعاکرو، کیونکہ وہ شھید ہیں، جنت میں داخل ہوگئے۔پس وہ جنت میں یاقوت کے دوپروں کے ساتھ جنت میں جہاں چاہتے ہیں اڑرہے ہیں ۔ (المغازی للواقدی ص۲۶۷،چشتی)
یہ حدیث واضح طورپرفرمارہی ہے کہ حضورسیدعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے جناب زیدبن حارثہ کی نمازجنازہ اداء کرنے کے بعداپنے صحابہ کوان کے لیے دعائے مغفرت کاحکم فرمایا……یونہی جناب جعفربن ابی طالب کی نمازجنازہ کے بعد خودبھی دعاء فرمائی اورپھراپنے صحابہ کوان کے لیے مغفرت کی دعاکاحکم فرمایا ۔ وللہ الحمد ۔

جس طرح رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے نمازجنازہ کے بعددعاء فرمائی ، یونہی صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے بھی نمازجنازہ کے بعددعاء کرنا مروی ہے …… جناب سعیدبن مسیب رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : حضرت ابن عمرفی جنازۃ فلماوضعھافی اللحد قال:بسم اللہ وفی سبیل اللہ وعلی ملۃ رسول اللہ، فلمااخذ فی تسویۃ اللبن علی اللحد قال اللھم اجرھامن الشیطان ومن عذاب القبراللھم جاف الارض عن جنبیہاوصعدروحھاولقھامنک رضوانا۔قلت:یاابن عمر اشئ سمعتہ من رسول اللہ ام قلتہ برأیک؟قال انی اذالقادرعلی القول بل شیئ سمعتہ من رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔
میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہماکے ساتھ ایک جنازہ میں حاضر ہوا۔پس جب آپ نے اسے لحدمیں رکھاتوآپ نے کہا:اللہ کے نام سے اوراللہ کی راہ میں اوررسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ملت پر۔پس جب لحدپرکچی اینٹیں برابرکرنے لگے توکہا : اے اللہ!اسے شیطان سے اورقبرکے عذاب سے پناہ عطا فرما ۔ اے اللہ ! زمین کواس کی دونوں کروٹوں سے جدافرما اوراس کی روح کواوپرپہنچااوراسے تیری خوشنودی عطافرما ۔ میں نے کہا:اے ابن عمر!یہ بات آپ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے سنی ہے یاآپ نے اپنی رائے سے کہا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تب تومیں بہت کچھ کہہ سکتاہوں …… بلکہ میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے سنا ۔ (ابن ماجہ رقم الحدیث۲۴۵۱،چشتی)

اس حدیث سے جہاں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کا عمل معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے نمازجنازہ کے بعد ، تدفین کی تکمیل سے پہلے میت کے لیے دعاء کی …… وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمل جناب عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے سیکھا …… اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بھی نمازجنازہ کے بعد ، اس کی تدفین کی تکمیل سے پہلے اس کے لیے دعافرمائی ۔

ابراہیم ہجری بتاتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی نے اپنی بیٹی کی نمازِ جنازہ کیسے اداء کی ، فرمایا : ثم کبر علیھا اربعا ثم قام بعد الرابعۃ قدر ما بین التکبیرتین یدعو ۔ یعنی حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی نے اپنی بیٹی کی نماز اداء کرتے ہوئے چار تکبیرات کہیں۔ پھر چوتھی تکبیر کے بعد اتنی دیر کھڑے ہو کر دعا میں مصروف رہے جتنا وقت دو تکبیروں کے درمیان ہوتا ہے ۔ یہ فعل کرنے کے بعد حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی نے فرمایا : کان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یصنع فی الجنازۃ ھکذا ۔ یعنی حضور سیدِ عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جنازہ میں یونہی کیا کرتے تھے ۔ (مسند احمد بن حنبل حدیث 19447)

حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی کے کلمات تو استمرار پر دلالت کر رہے ہیں ، لیکن نہ جانے پھر کیوں بعض احباب کو اصرار ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے کبھی بھی ایسا نہ کیا ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے …… فرمایا : وضع عمربن الخطاب علی سریرہ فتکنفہ الناس یدعون ویثنون ویصلون علیہ قبل ان یرفع وانا فیھم ۔
جناب عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ کوآپ کی چارپائی پر رکھا گیا تولوگ آپ کو گھیرے میں لے کر ، چارپائی اٹھانے سے پہلے آپ کے لیے دعاء اور ثناء کرنے لگ گئے اورمیں بھی ان دعاء کرنے والوں میں تھا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث ۹۰۴۳، صحیح مسلم رقم الحدیث ۲۰۴۴)
یہ حدیث تو صاف دلالت کر رہی ہے کہ صحابہ کرام میں نمازجنازہ کے بعد …… چارپائی اٹھانے سے پہلے دعاء کرنا بھی رائج تھا ، اوراسی لیے  وہ لوگ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی چارپائی اٹھانے سے پہلے ان کے لیے دعاء وثناء میں مصروف رہے ۔

عمیربن سعید کہتے ہیں : صلیت مع علی علی یزید بن المکفف فکبرعلیہ اربعاثم مشی حتی اتاہ فقال:اللہم عبدک وابن عبدک نزل بک الیوم فاغفرلہ ذنبہ ووسع علیہ مدخلہ فانالانعلم منہ الاخیراوانت اعلم بہ ۔
میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی معیت میں یزید بن المکفف کی نمازجنازہ اداء کی توآپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان پرچار تکبیریں کہیں، پھرچل کر ان کے قریب آئے اورکہا : اے اللہ!تیرابندہ اورتیرے بندے کابیٹاآج تیرے پاس حاضر ہواہے۔پس تواس کے گناہ کوبخش دے اوراس پراس کے مدخل کوکشادہ فرما، پس بے شک ہم اس سے بھلائی ہی جانتے ہیں اورتواسے زیادہ بہتر جاننے والاہے ۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ ج۳ص۲۱۲،چشتی)

ابراہیم ہجری بتاتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی نے اپنی بیٹی کی نمازِ جنازہ کیسے اداء کی ، فرمایا : ثم کبر علیھا اربعا ثم قام بعد الرابعۃ قدر ما بین التکبیرتین یدعو ۔
یعنی حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی نے اپنی بیٹی کی نماز اداء کرتے ہوئے چار تکبیرات کہیں ۔ پھر چوتھی تکبیر کے بعد اتنی دیر کھڑے ہو کر دعا میں مصروف رہے جتنا وقت دو تکبیروں کے درمیان ہوتا ہے ۔ یہ فعل کرنے کے بعد حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی نے فرمایا : کان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یصنع فی الجنازۃ ھکذا ۔ یعنی حضور سیدِ عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جنازہ میں یونہی کیا کرتے تھے ۔ (مسند احمد بن حنبل حدیث ۱۹۴۴۷)

حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی کے کلمات تو استمرار پر دلالت کر رہے ہیں ، لیکن نہ جانے پھر کیوں بعض احباب کو اصرار ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے کبھی بھی ایسا نہ کیا ۔
حضرت عبد اللہ بن سلام سے متعلق مروی ہے کہ ان سے حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی نمازجنازہ فوت ہوگئی …… پس جب وہ پہنچے توفرمایا : ان سبقتمونی بالصلاۃ علیہ فلاتسبقونی بالدعاء لہ ۔ اگرتم ان پرنمازمیں مجھ سے سبقت کرگئے ہوتوان کے لیے دعاء میں مجھ سے پہل مت کرو ۔ (المبسوط ج۲ص۷۴۴، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ج۳ص۶۸۲)
بلکہ بدائع الصنائع میں یہ روایت بھی موجود ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ایک جنازہ پرنمازاداء فرمائی ۔ پس جب فارغ ہوئے توحضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ حاضر ہوئے اوران کے ساتھ کچھ اورلوگ بھی تھے تو آپ نے دوبارہ نماز اداء کرنے کا ارادہ کیا تو نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے نے ان سے فرمایا : الصلاۃ علی الجنازۃ لاتعاد ولکن ادع للمیت واستغفرلہ ۔
جنازہ پر نماز دہرائی نہیں جاتی …… لیکن تم میت کے لیے دعا اور استغفار کرو ۔ (بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع  ج۳ص۵۸۲)

الحاصل : نمازجنازہ کے بعد میت کو دفن کرنے کے بعد ، تدفین کے دوران ، اور تدفین سے پہلے …… ہر وقت دعاء کرنا قرآن ، حدیث نبوی ، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے فعلِ شریف ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال وافعال سے ثابت ہے …… بلکہ تدفین کے بعد دعاء ، جو نمازجنازہ کے بعد ہی ہوتی ہے ، سے متعلق تو کثیر احادیث موجود ہیں ۔ اور امام ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں اس سے متعلق ایک مستقل باب باندھاہے ۔ لیکن اگراس کے باوجود کوئی یہی رٹ لگائے جائے کہ نمازجنازہ کے بعد دعاء کرنا جائز نہیں ، بدعت ہے ، گمراہی ہے ، اور لوگوں کو اس سے روکنے کی کوشش میں لگا رہے تواس کے لیے ہدایت کی دعاء ہی کی جاسکتی ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔