بزرگوں کے ہاتھ ، پاؤں اور مقامات مقدسہ و مزارات کو چومنا
قرآن کریم فرماتا ہے : وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوۡا ہٰذِہِ الْقَرْیَۃَ فَکُلُوۡا مِنْہَا حَیۡثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوۡلُوۡا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْلَکُمْ خَطٰیٰکُمْ ؕ وَسَنَزِیۡدُ الْمُحْسِنِیۡنَ ۔ ﴿سورۃ البقرہ آیت نمبر 58﴾
ترجمہ : اور جب ہم نے فرمایا اس بستی میں جاؤپھر اس میں جہاں چاہو بے روک ٹوک کھاؤ اور دروازہ میں سجدہ کرتے داخل ہواور کہو ہمارے گناہ معاف ہوں ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور قریب ہے کہ نیکی والوں کو اور زیادہ دیں ۔
وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوۡا ہٰذِہِ الْقَرْیَۃَ : اور جب ہم نے کہا اس شہر میں داخل ہوجاؤ ۔ اس شہر سے ’’بیتُ المقدس‘‘ مراد ہے یا اَرِیحا جو بیت المقدس کے قریب ہے جس میں عمالقہ آباد تھے اور وہ اسے خالی کر گئے تھے ،وہاں غلے میوے بکثرت تھے ۔ اس بستی کے دروازے میں داخل ہونے کا فرمایا گیا اور یہ دروازہ ان کے لیئے کعبہ کی طرح تھا اور اس میں داخل ہونا اور اس کی طرف سجدہ کرنا گناہوں کی معافی کا سبب تھا ۔ بنی اسرائیل کو حکم یہ تھا کہ دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں اور زبان سے ’’حِطَّۃٌ ‘‘ کہتے جائیں (یہ کلمہ استغفار تھا) انہوں نے دونوں حکموں کی مخالفت کی اورسجدہ کرتے ہوئے داخل ہونے کی بجائے سرینوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور توبہ و استغفار کا کلمہ پڑھنے کی بجائے مذاق کے طور پر’’حَبَّۃٌ فِی شَعْرۃٍ ‘‘ کہنے لگے جس کا معنیٰ تھا: بال میں دانہ ۔ اس مذاق اور نافرمانی کی سزا میں ان پر طاعون مسلط کیا گیا جس سے ہزاروں اسرائیلی ہلاک ہو گئے ۔ (تفسیرخازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۸،۱/۵۶، مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۸، ص۵۳، تفسیر عزیزی (مترجم) ،۱/۴۵۶-۴۵۷،چشتی)
اس آیت سے یہ پتہ لگا کہ بیت المقدس جو انبیاء کرام کی آرام گاہ ہے اس کی تعظیم اسطرح کرائی گئی کہ وہاں بنی اسرائیل کو سجدہ کرتے ہوئے جانے کا حکم دیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مقدس مقامات پر توبہ جلد قبول ہوتی ہے ۔ مشکوٰۃ باب المصافحۃ والمعانقہ فصل ثانی میں ہے : وعن ذراع وکان فی وفد عبدالقیس قال لما قدمنا المدینۃ فجعلنا نتبادر من رواحلنا فتقبل ید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورجلہ ۔
ترجمہ : حضرت ذراع سے مروی ہے اور یہ وفد عبدالقیس میں تھے فرماتے ہیں کہ جب ہم مدینہ منورہ آئے تو اپنی سواریوں سے اترنے میں جلدی کرنے لگے پس ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پاؤں چومتے تھے ۔ (الادب المفرد امام بخاری ص ۲۶۵ رقم الحدیث ۱۰۰۴)(سنن ابوداود ص ۷۸۶ ح ۵۶۶۵)(شعب الایمان ج ۶ ص ۴۷۶ دارالکتب العلمیۃ بیروت)(دلائل النبوۃ امام بیہقی ج ۵ ص ۳۲۷ دارالکتب العلمیۃ بیروت)(طبرانی کبیر ج ۵ رقم الحدیث ۵۳۱۳)(طبرانی الاوسط ج ۱ ص ۱۳۳)(التاریخ الکبیر ج ۳ ص ۴۴۷،چشتی)
مشکوٰۃ باب الکبائر وعلامات النفاق میں حضرت صفوان بن عسال سے روایت ہے
ترجمہ : پس انہوں نے حضور علیہ السلام کے ہاتھ پاوں چومے ۔
(سنن الترمذی ص ۷۷۰ رقم الحدیث ۲۷۳۸)(شرح معانی الآثار ج ۳ ص ۲۱۵)(سنن النسائی ص ۵۹۴ رقم الحدیث ۴۰۸۰)(سنن الکبریٰ للنسائی ج ۲ ص ۳۰۶ رقم الحدیث ۳۵۴۱)(سنن ابن ماجہ ص ۵۵۹ رقم الحدیث ۳۷۰۵)
طبرانی کبیر ج ۸ ص ۶۹ حدیث ۷۳۹۶ مطبوعہ مکتبۃ العلوم والحکم الموصل عراق
مصنف ابن ابی شیبہ ج ۵ ص ۲۹۲ رقم الحدیث ۲۶۲۰ مکتبۃ الرشد ریاض
مشکوٰۃ شریف ہی کی باب مایقال عند من حضرۃ الموت بروایت ابوداود میں ہے
عن عائشۃ قالت قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عثمان ابن مظعون وھو میت
ترجمہ : حضور علیہ السلام نے عثمان ابن مظعون کو بوسہ دیا حالانکہ ان کا انتقال ہوچکا تھا ۔ (متدرک الحاکم ج ۳ ص ۲۰۹ ح ۴۸۴۸)(سنن ابن ماجہ باب ماجا فی تقبیل المیت رقم الحدیث ۱۴۵۶)(مسند احمد ج ۶ ص ۴۳)(سنن ابوداود ج ۳ ص ۲۰۱ رقم الحدیث ۳۱۶۳ دارالفکر بیروت،چشتی)
شفا شریف میں ہے : جس منبر پر حضور علیہا لسلام خطبہ فرماتے تھے اس پر حضرت عبداللہ ابن عمر اپنا ہاتھ لگاکر منہ پر رکھتے تھے (چومتے تھے) شرح بخاری لابن حجر پارہ ششم ۶ صفحہ ۱۵ میں ہے۔ ارکانِ کعبہ کے چومنے سے بعض علما نے بزرگانِ دین وغیرہم کے تبرکات کا چومنا ثابت کیا ہے امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے کسی نے پوچھا کہ حضور علیہ السلام کام منبر یا قبر انور چومنا کیسا ہے؟ فرمایا کوئی حرج نہیں اور ابن ابی الصنف یمانی سے جو کہ مکہ کے علماٗ شافعیہ میں سے ہیں منقول ہے ۔ قرآن کریم اور حدیث کے اوراق بزرگان دین کی قبریں چومنا جائز ہیں ۔(شفا شریف ج ۲ ص ۷۰ مطبوعہ مصطفیٰ البابی الحلبی مصر)
توشیخ میں علامہ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : استنبط بعض العارفین من تقبیل الحجر الاسود تقبیل قبور الصٰلحین ۔
ترجمہ : حجرالاسود کے چومنے سے بعض عارفین نے بزرگانِ دین کی قبروں کا چومنا ثابت کیا ہے ۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے : عن داؤد بن أبي صالح قال أقبل مروان يوما فوجد رجلا واضعا وجهه علی القبر فقال أ تدري ماتصنع فأقبل عليه فاذا هو أبو أيوب فقال نعم جئت رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ولم آت الحجر سمعت رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يقول لا تبکوا علی الدين إذا وليه أهله ولکن ابکوا عليه إذا وليه غير أهله ۔
ترجمہ : داؤد بن ابی صالح کہتے ہیں ایک دن مروان آیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک شخص قبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنا چہرہ رکھے ہوئے ہے۔ مروان نے کہا جانتے ہو کیا کر رہے ہو؟ وہ شخص مروان کی طرف متوجہ ہوئے تو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ تھے۔ فرمایا ہاں میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں، کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے جب دین کے معاملات اہل لوگوں کے ہاتھ میں ہوں تو اس پر مت روؤ۔ ہاں جب امور دین نا اہل لوگوں کے ہاتھ میں ہوں تو اس پر روؤ ۔
(أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 422، الرقم : 23633، مؤسسة قرطبة مصر)(حاکم، المستدرک، 4 : 515، رقم : 8571)(طبراني، المعجم الکبير، 4 : 158، رقم : 3999)(طبراني، المعجم الأوسط، 1 : 199، 200، رقم : 286 أيضاً، 10 : 169، رقم : 9362،چشتی) ۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ روایت کی اِسناد صحیح ہیں۔ حاکم نے اسے شیخین (بخاری و مسلم) کی شرائط پر صحیح قرار دیا ہے جبکہ ذہبی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے ۔ امام محمد بن عبداللہ ابوعبداللہ حاکم النیشاپوری نے بھی اسی حدیث کو اپنی مستدرک میں کتاب الفتن والملاحم کے باب میں ج ۴ ص ۵۶۰ ح ۸۵۷۱ پر بیان کیا ہے اور طبرانی کبیر ج ۴ ص ۱۵۸ رقم الحدیث ۳۹۹۹ ، طبرانی الاوسط ج ۱۰ ص ۱۴۴ رقم الحدیث ۹۳۶۶ مطبوعہ دارالحرمین القاھرۃ مصر میں بھی بیان کیا ہے ۔ امام علی بن ابی بکر ہیثمی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی یاپنی مجمع الزوائد ومنبع الفوائد باب ولایۃ اھلھا ج ۵ ص ۲۴۵ دارالکتب العربی بیروت میں بیان کیا اور امام سید نورالدین سمہودی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے وفاٗ الوفا ج ۴ ص ۱۳۵۶ مطبوعہ بیروت پر لکھا ہے (رواہ احمد بسند حسن)۔ یعنی احمد والی روایت کی سند حسن ہے ۔
ایسے ہی امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک طویل روایت بیان کی ہے جس میں موئے مبارک سے برکت توسل اور شفا کا ذکر خود سیدنا امام احمد بن حنبل فرما رہے ہیں اور اسکا حوالہ ہے سیراعلام النبلا ج ۱۱ ص ۲۱۲ مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ بیروت
امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی وہ مشہور حدیث بھی ذکر کی ہے جس میں آپ قبر انور پر اپنا چہرہ ملنے لگتے ہیں اور بوسہ دیتے ہیں ۔
(سیر اعلام النبلا ج ۱ ص ۳۵۸ ۔ شفا السقام فی زیارت خیرالانام ص ۳۹ مطبوعہ حیدرآباد دکن ۔ نیل الاوطار شوکانی ج ۵ ص ۱۸۰ مطبوعہ دارالجیل بیروت میں بھی ذکر ہے ۔ الجوھر المنظم محدث ابن حجر مکی کی عظیم تصنیف ہے اس کے اردو ترجمہ ص ۱۰۴ پر بھی جید سند سے بلال رضی اللہ عنہ کی یہی حدیث مروی ہے مطبوعہ مرکز تحقیقات اسلامیہ لاہور،چشتی)
اب ذرا دیوبندیوں کے اپنے گھر سے گواہی بھی پڑھ لیں
علامہ عبدالحکیم لکھنوی لکھتے ہیں : وفی مطالب المومنین ولاباس بتقبیل قبر والدیہ کما فی کفایۃ الشعبی ان رجلا جاٗ الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انی حلفت ان اقبل عتبۃ باب الجنۃ فامر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان یقبل رجل ووجہ الاب ویدوی انہ قال یارسول اللہ صلی اللہ علیہو سلم ان لم یکن ابوان فقال قبل قبر ھما قال فان لم اعرف قبر ھما قال حط خطین وانوبان احدھما قبرالام والآخر قبر الاب فقلبھا فلا تحنث فی یمینک کذا فی مغفرۃ الغفور فی زیارۃ القبور ۔
ترجمہ : ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ رسول اللہ علیہ السلام میں نے آستانِ جنت چومنے کی قسم کھائی تھی حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ماں کے پاوں اور باپ کی پیشانی چومے مروی ہے کہ اس نے عرض کیاکہ اگر میرے ماں باپ نہ ہوں تو فرمایا ان دونوں کی قبروں کو بوسہ دے عرض کیا کہ اگر قبریں معلوم نہ وہں تو فرمایا دو خط کھینچ اور نیت کر کہ ایک ان میں سے ماں کی قبر ہے اور دوسری باپ کی ، ان دونوں کو بوسہ دے تیری قسم اتر جائے گی ۔ ( نورالایمان مطبوعہ لکھنو ہندوستان ۔ حاشیہ شرح الیاس ج ۲ ص ۳۰۳ مطبوعہ قصہ خوانی پشاور،چشتی)
امام بدر الدین عینی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : محب طبری رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا حجر اسود اور دیگر ارکان کو بوسہ دینے سے ہر اس چیز کو بوسہ دینے کا جواز ثابت ہوتا ہے جس کو بوسہ دینے میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہو، کیونکہ اس سلسلے میں اگر کسی حدیث میں تعظیم کا حکم نہیں آیا ہے تو کسی حدیث میں اس کی ممانعت یا کراہت بھی نہیں آئی ہے اور میرے جد محمد بن ابی بکر، محمد بن ابی صیف رحمتہ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ بعض حضرات جب مصاحف کو دیکھتے ہیں تو ان کو بوسہ دیتے ہیں اور جب احادیث کے اوراق کو دیکھتے ہیں تو انہیں بوسہ دیتے ہیں اور جب صالحین کی قبروں کو دیکھتے تو انہیں بوسہ دیتے اور یہ بات بعید نہیں ہے ۔(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ج ۹ ص ۲۴۱ مصر)
انورشاہ کشمیری دیوبندی لکھتے ہیں : حجر اسود کو بوسہ دینا شرعاً ثابت ہے اسلیئے یہ صالحین کے تبرکات کو بوسہ دینے کی اصل ہے ۔حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے مصحف کو بوسہ دیا اور امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے روضہ مطہرہ کے بوسہ دینے کو جائز کہا ۔ حافظ ابن تیمیہ اس سے حیران ہوئے کیونکہ یہ ان کے نزدیک جائز نہیں ہے ۔ (فیض الباری ج ۳ ص ۹۶ مطبوعہ حجازی مصر،چشتی)
یعنی ثابت ہوا کہ دیوبندی فتوے نے جو لکھا ہے انتہائی جہالت اور مکاری کے ساتھ ابن تیمیہ کے دھرم کو فروغ دیا ہے ان کا حنفیت سے کوئی واسطہ نہیں ہے دور دور تک بھی ۔
اگر اس جواب سے بھی تسلی نہ ہوئی ہو تو دیگر ہزار حوالہ جات بھی پیش کیئے جاسکتے ہیں
اور (احوط ) والے ثقیل الفاظ کا علمی جواب یہ رہا کہ وہ جو احوط کے خلاف ہو وہ نہ حرام ہے اور نہ مکروہ تحریمی جیسا کہ اصح و راجح کا مقابل حرام نہیں بلکہ وہ صحٰح وراجح اور اس پر عمل جائز ہے۔ اور یہ اہل علم پر مخفی نہیں جو اس کی تحقیق مزید چاہتا ہے اسے شامی کی طرف رجوع کرنا چاہیئے اور یہ قول کہ یہ نصاریٰ کی عادات سے ہے تو اس کے کیا ہووہ نصاریٰ کا شعار کیسے ہوسکتا ہے حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نصاریٰ کے شعار کو ہم سے زیادہ جانتے تھے وہ کیسے نصاریٰ کا شعار ہوجائے گا تو یہ فعل قطعاً حرام نہ ہوا۔ (بلکہ مباح ہوا)
تو یہ ہے اصل میں ان کے غلط کاریوں کے جوابات ، جب یہ جہلاٗ ایسے فتوے چھاپتے ہیں تو ظاہر ہے اسی لیئے تو گمراہی اور فرقہ پرستی پھیلتی ہے ۔ اس کے اصل ذمہ دار یہی وہابی دیوبندی ڈھونگی ہیں یہ تبلیغی مکار جنہوں نے اسلام کے لبادے میں فری میسنیت یعنی وہابیت دیوبندیت کا ننگا ناچ رچا رکھا ہےاور مذہب کو کاروبار بنا کر پیسے ریال شیکل اور ڈالر چھاپ رہے ہیں ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت داؤد بن صالح سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز خلیفہ مروان بن الحکم آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ہے تو مروان نے اسے کہا : کیا تو جانتا ہے کہ تو یہ کیا کررہا ہے؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تو دیکھا کہ وہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے جواب دیا : نعم، جئت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و لم آت الحجر .
ترجمہ : ہاں (میں جانتا ہوں کہ میں کیا کر رہا ہوں)، میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا ۔ (أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 422)
عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه أَنَّهُ جَاءَ إِلَی الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ فَقَبَّلَهُ فَقَالَ إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يُقَبِّلُکَ مَا قَبَّلْتُکَ ۔
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کے پاس تشریف لائے، پھر اسے بوسہ دیا، پھر فرمایا میں خوب جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے(اس حیثیت سے ) نہ نقصان دہ نہ فائدہ مند۔ اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے دیکھا نہ ہوتا، تجھے (کبھی) نہ چومتا ۔ (بخاری، الصحیح، 2 : 579، رقم : 1520،چشتی)
علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول نقل کیا ہے : أما تقبيل الأماکن الشريفة علی قصد التبرک وکذلک تقبيل أيدي الصالحين وأرجلهم فهو حسن محمود باعتبار القصد والنيه وقد سأل أبو هريرة الحسن رضی اﷲ تعالی عنه أن يکشف له المکان الذي قبله رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وهو سرته فقبله تبرکا بآثاره وذريته صلی الله عليه وآله وسلم وقد کان ثابت البناني لايدع يد أنس رضی اﷲ تعالی عنه حتی يقبلها ويقول يد مست يد رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم. . . أن الامام أحمد سئل عن تقبيل قبر النبی صلی الله عليه وآله وسلم وتقبيل منبره فقال لا بأس بذلک قال فأريناه للشيخ تقی الدين بن تيمية فصار يتعجب من ذلک ويقول عجبت أحمد عندي جليل بقوله هذا کلامه أو معنی کلامه قال وأي عجب في ذلک وقد روينا عن الامام أحمد أنه غسل قميصا للشافعي وشرب الماء الذي غسله به واِذا کان هذا تعظيمه لأهل العلم فکيف بمقادير الصحابه وکيف بآثار الأنبياء عليهم الصلاة والسلام ولقد أحسن مجنون ليلی حيث يقول :
أمر علی الديار ديار ليلی
أقبل ذا الجدار وذا الجدارا
وما حب الديار شغفن قلبی
ولکن حبُّ من سکن الديارا
قال المحب الطبري يمکن أن يستنبط من تقبيل الحجر واستلام الأرکان جواز تقبيل ما في تقبيله تعظيم تعالی فانه ان لم يرد فيه خبر بالندب لم يرد بالکراهه ۔
ترجمہ : حصول برکت کے ارادے سے مقامات مقدسہ کو چومنا، اسی طرح نیک لوگوں کے ہاتھ پاؤں کو بوسہ دینا، نیت و ارادہ کے اعتبار سے اچھا اور قابل تعریف کام ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ نے امام حسن مجتبی رضی اﷲ عنہ سے عرض کی کہ وہ اپنی ناف سے کپڑا اٹھائیں جس کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بوسہ دیا تھا پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی اولاد کے آثار سے برکت حاصل کرنے کے لیے اسے بوسہ دیا۔ اور (امام) ثابت بنانی جب تک بوسہ نہ دیتے حضرت انس رضی اﷲ عنہ کا ہاتھ نہ چھوڑتے اور فرمایا کرتے یہ وہ ہاتھ ہے جس نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ مبارک کو چھوا ہے ۔
حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور اور منبر اقدس کو بوسہ دینے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کوئی حرج نہیں۔ کہا کہ ہم نے یہ قول جب شیخ تقی الدین ابن تیمیہ کو دکھایا تو وہ اس پر تعجب کرنے لگے اور کہا مجھے تعجب ہے ۔ میرے نزدیک تو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات یا اس سے ملتی جلتی بات عجیب سی لگتی ہے۔ (محب طبری نے ) کہا اس میں تعجب کس بات پر ؟ ہم نے تو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات سنی ہے کہ آپ نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی قمیض دھو کر اس کا دھون پی لیا تھا تو جب وہ اہل علم کی اتنی تعظیم کرتے تھے تو پھر آثار صحابہ رضی اﷲ عنہ آثار انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام سے کتنی عزت و عظمت سے پیش آتے ہوں گے۔ لیلیٰ کے مجنوں (قیس عامری) نے کیا خوب کہا :
جب لیلیٰ کے شہر سے گزرتا ہوں
کبھی اس دیوار کو چومتا ہوں کبھی اس کو
مکانوں کی محبت نے میرا دل دیوانہ نہیں بنا رکھا
بلکہ ان میں بسنے والوں کی محبت نے یہ حال کر رکھا ہے
علامہ محب طبری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : یہ بھی ممکن ہے کہ حجر اسود اور ارکان کے بوسہ دینے سے ہر اس چیز کو چومنے کا مسئلہ نکالا جائے جس کے چومنے سے اﷲ تعالیٰ کی تعظیم ہے اگرچہ اس سلسلہ میں کوئی حدیث اس عموم استحباب پر مروی تو نہیں مگر اس کی کراہت پر بھی تو کوئی روایت نہیں ۔
علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : میں نے اپنے دادا محمد بن ابو بکر کے بعض حواشی میں امام ابو عبد اﷲ محمد بن ابی الصیف رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے لکھا دیکھا ہے کہ کچھ آئمہ دین قرآن کو دیکھتے تو اسے بوسہ دیتے جب اجزائے حدیث کو دیکھتے تو ان کو بوسہ دیتے اور جب نیک لوگوں کی قبروں پر نظر پڑتی تو ان کو بوسہ دیتے فرمایا یہ کچھ بعید نہیں ۔ (عینی، عمدۃ القاری، 9 : 241،چشتی)
عن داؤد بن أبي صالح قال أقبل مروان يوما فوجد رجلا واضعا وجهه علی القبر فقال أ تدري ماتصنع فأقبل عليه فاذا هو أبو أيوب فقال نعم جئت رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ولم آت الحجر سمعت رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يقول لا تبکوا علی الدين إذا وليه أهله ولکن ابکوا عليه إذا وليه غير أهله ۔
ترجمہ : داؤد بن ابی صالح کہتے ہیں ایک دن مروان آیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک شخص قبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنا چہرہ رکھے ہوئے ہے۔ مروان نے کہا جانتے ہو کیا کر رہے ہو؟ وہ شخص مروان کی طرف متوجہ ہوئے تو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ تھے۔ فرمایا ہاں میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں، کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے جب دین کے معاملات اہل لوگوں کے ہاتھ میں ہوں تو اس پر مت روؤ۔ ہاں جب امور دین نا اہل لوگوں کے ہاتھ میں ہوں تو اس پر روؤ ۔
(أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 422، الرقم : 23633، مؤسسة قرطبة مصر)(حاکم، المستدرک، 4 : 515، رقم : 8571)(طبراني، المعجم الکبير، 4 : 158، رقم : 3999)(طبراني، المعجم الأوسط، 1 : 199، 200، رقم : 286 أيضاً، 10 : 169، رقم : 9362،چشتی) ۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ روایت کی اِسناد صحیح ہیں۔ حاکم نے اسے شیخین (بخاری و مسلم) کی شرائط پر صحیح قرار دیا ہے جبکہ ذہبی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ہاتھ پاؤں چومنا امام بخاری رحمۃُ اللہ علیہ کی نظر میں ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’الادب المفرد‘‘، باب نمبر 444 ’’باب تقبیل الید‘‘ میں حدیث نمبر 972 تا 974، امام بخاری نے ’’ہاتھ چومنے‘‘ کے حوالے سے احادیث بیان کی ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارکہ کو چوما کرتے تھے ۔ ان احادیث کو ذکر کر کے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ آدابِ زندگی بتا رہے ہیں کہ بزرگوں کی سنت یہ تھی کہ شیوخ اور اکابر کا ہاتھ چوما کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دین میں اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کا الگ باب قائم کیا ۔ اس باب کے تحت آپ نے 3 احادیث کا ذکر کیا ۔ ان میں سے پہلی حدیث (972،چشتی) میں ہے کہ : ’’حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ سے دشمن کی تعداد کے زیادہ ہونے اور اپنی کم تعداد کو دیکھتے ہوئے اپنی موجودہ قوت کے خاتمہ کے ڈر سے میدان جنگ سے الٹے قدم واپس پلٹے اور یہ خیال کیا کہ ہم سے یہ گناہ سرزد ہوا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے راہ فرار نہیں اختیار کی بلکہ کامیابی کی طرف لوٹے ہو۔ پس ہم آگے بڑھے اور ’’فقبلنا يده‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں کو بوسہ دیا ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ یہ حدیث سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، مسند اور امام احمد بن حنبل میں بھی روایت کی گئی ہے۔ اس کے بعد اگلی حدیث (973،چشتی) میں ہے کہ : عبدالرحمن بن رزین سے روایت ہے کہ ہمیں بتایا گیا کہ یہ حضرت سلمہ بن الاکوع ہیں، ہم ان کے پاس آئے اور سلام کہا، انھوں نے اپنے ہاتھ نکالے اور کہا کہ ان ہاتھوں سے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی ’’فقمنا اليها فقبلناها ‘‘ ’’ہم نے کی طرف بڑھے اور ان کے ہاتھوں کو چوما ۔ اس سے اگلی حدیث 974 میں ہے کہ : قال ثابت لانس امسست النبی صلی الله عليه وآله وسلم بيدک قال نعم فقبلها ’’حضرت ثابت البنانی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نے اپنے ہاتھوں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوا تھا۔ انہوں نے جواب دیا : ہاں، یہ سنتے ہی حضرت ثابت، حضرت انس کے ہاتھ چومنے لگے ۔ پہلی حدیث میں ہے کہ صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ چومے۔۔۔ کئی لوگ اس کو نہیں مانتے اور اگر مان لیں تو کہتے ہیں کہ وہ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ چومے تھے۔۔۔ اس کا آگے اطلاق نہیں ہوتا۔ اگلی حدیث امام بخاری اسی لئے لے آئے کہ جس طرح صحابہ کرام، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ چومتے تو اسی طرح تابعین، صحابہ کرام کے ہاتھ چومتے۔ پس اس سے اکابر کے ہاتھ چومنا سنت ثابت ہوا ۔ یہ احادیث لانے کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اگلا باب 445 ’’بَابُ تَقْبِيْلِ الرِّجْل‘‘ ’’پاؤں چومنے کا باب‘‘ قائم کیا۔ ان تراجم الابواب سے امام بخاری کا عقیدہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ اکابر کے ہاتھ اور پاؤں چومنا سنت ہے۔ یہی امام مسلم کا عقیدہ ہے۔ امام بخاری جب نیشا پور میں تشریف لائے اور امام مسلم ان کے پاس حاضر ہوئے تو ائمہ کے احوال پر مبنی تمام کتب میں درج ہے کہ امام مسلم نے امام بخاری سے اجازت مانگی کہ : يَا سَيّدُ الْمُحَدِّثِيْنَ يَا اُسْتَاذَ الاسْتَاذِيْن . ترجمہ : اے محدثین کے سردار اور اساتذہ کے استاد مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کے قدم چوموں ۔ اسی طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایک موقع پر اپنے استاد کے قدم چومنے کی اجازت مانگی ۔ پس اب یہ واضح ہے کہ آج ان عقائد کے حوالے سے کون امام بخاری و امام مسلم رحمۃ اللہ علیہما کے عقیدہ کے مطابق ہے اور کون ان کے عقیدہ کے خلاف ہے۔ ہاتھ اور پاؤں چومنا کس کے عقیدہ اور مسلک میں جائز اور کہاں ناجائز ہے یہ بھی ہر کوئی جانتا ہے ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب 445 ’’بَابُ تَقْبِيْلِ الرِّجْل‘‘ ’’پاؤں چومنے کا باب‘‘ قائم کیا۔ ان تراجم الابواب سے امام بخاری کا عقیدہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ اکابر کے ہاتھ اور پاؤں چومنا سنت ہے۔’’پاؤں چومنے کے باب‘‘ میں امام بخاری حدیث لائے ہیں کہ۔ترجمہ:حضرت وازع بن عامر بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، ہمیں بتایا گیا کہ یہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تو ہم گر پڑے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ مبارک پکڑ لئے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین پکڑ لئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں چومنے لگے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین مبارک چومے کیا یہ سنت آگے امت میں بھی چل سکتی ہے ؟ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نظر دیکھ رہی تھی کہ یہ سوال بھی کبھی ہوگا لہذا آپ اگلی حدیث اسی سوال کے جواب میں لائے ۔ الادب المفرد ’’بَابُ تَقْبِيْلِ الرِّجْل‘‘ حدیث نمبر 976 میں فرمایا : عن صهيب قال رَاَيْتُ عَلِيًا يُقَبِّلُ يَدَالْعَبَّاس وَرِجْلَيْهِ . ترجمہ : حضرت صھیب بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اور قدم چومتے دیکھا ۔ اس کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ باب نمبر 446 ’’قِيَامُ الرَّجُلِ لِلرَّجُّلِ تَعْظِيْمًا.‘‘ ’’ایک آدمی کا دوسرے آدمی کے لئے تعظیماً قیام کرنا ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تعظیماً قیام کا باقاعدہ باب قائم کر رہے ہیں جبکہ صحیح بخاری پر اصرار کرنے والے آج تعظیماً قیام پر بحث کرتے پھرتے ہیں ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ہاتھ پاؤں چومنا امام بخاری رحمۃُ اللہ علیہ کی نظر میں ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’الادب المفرد‘‘، باب نمبر 444 ’’باب تقبیل الید‘‘ میں حدیث نمبر 972 تا 974، امام بخاری نے ’’ہاتھ چومنے‘‘ کے حوالے سے احادیث بیان کی ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارکہ کو چوما کرتے تھے ۔ ان احادیث کو ذکر کر کے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ آدابِ زندگی بتا رہے ہیں کہ بزرگوں کی سنت یہ تھی کہ شیوخ اور اکابر کا ہاتھ چوما کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دین میں اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کا الگ باب قائم کیا ۔ اس باب کے تحت آپ نے 3 احادیث کا ذکر کیا ۔ ان میں سے پہلی حدیث (972،چشتی) میں ہے کہ : ’’حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ سے دشمن کی تعداد کے زیادہ ہونے اور اپنی کم تعداد کو دیکھتے ہوئے اپنی موجودہ قوت کے خاتمہ کے ڈر سے میدان جنگ سے الٹے قدم واپس پلٹے اور یہ خیال کیا کہ ہم سے یہ گناہ سرزد ہوا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے راہ فرار نہیں اختیار کی بلکہ کامیابی کی طرف لوٹے ہو۔ پس ہم آگے بڑھے اور ’’فقبلنا يده‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں کو بوسہ دیا ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ یہ حدیث سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، مسند اور امام احمد بن حنبل میں بھی روایت کی گئی ہے۔ اس کے بعد اگلی حدیث (973،چشتی) میں ہے کہ : عبدالرحمن بن رزین سے روایت ہے کہ ہمیں بتایا گیا کہ یہ حضرت سلمہ بن الاکوع ہیں، ہم ان کے پاس آئے اور سلام کہا، انھوں نے اپنے ہاتھ نکالے اور کہا کہ ان ہاتھوں سے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی ’’فقمنا اليها فقبلناها ‘‘ ’’ہم نے کی طرف بڑھے اور ان کے ہاتھوں کو چوما ۔ اس سے اگلی حدیث 974 میں ہے کہ : قال ثابت لانس امسست النبی صلی الله عليه وآله وسلم بيدک قال نعم فقبلها ’’حضرت ثابت البنانی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نے اپنے ہاتھوں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوا تھا۔ انہوں نے جواب دیا : ہاں، یہ سنتے ہی حضرت ثابت، حضرت انس کے ہاتھ چومنے لگے ۔ پہلی حدیث میں ہے کہ صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ چومے۔۔۔ کئی لوگ اس کو نہیں مانتے اور اگر مان لیں تو کہتے ہیں کہ وہ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ چومے تھے۔۔۔ اس کا آگے اطلاق نہیں ہوتا۔ اگلی حدیث امام بخاری اسی لئے لے آئے کہ جس طرح صحابہ کرام، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ چومتے تو اسی طرح تابعین، صحابہ کرام کے ہاتھ چومتے۔ پس اس سے اکابر کے ہاتھ چومنا سنت ثابت ہوا ۔ یہ احادیث لانے کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اگلا باب 445 ’’بَابُ تَقْبِيْلِ الرِّجْل‘‘ ’’پاؤں چومنے کا باب‘‘ قائم کیا۔ ان تراجم الابواب سے امام بخاری کا عقیدہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ اکابر کے ہاتھ اور پاؤں چومنا سنت ہے۔ یہی امام مسلم کا عقیدہ ہے۔ امام بخاری جب نیشا پور میں تشریف لائے اور امام مسلم ان کے پاس حاضر ہوئے تو ائمہ کے احوال پر مبنی تمام کتب میں درج ہے کہ امام مسلم نے امام بخاری سے اجازت مانگی کہ : يَا سَيّدُ الْمُحَدِّثِيْنَ يَا اُسْتَاذَ الاسْتَاذِيْن . ترجمہ : اے محدثین کے سردار اور اساتذہ کے استاد مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کے قدم چوموں ۔ اسی طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایک موقع پر اپنے استاد کے قدم چومنے کی اجازت مانگی ۔ پس اب یہ واضح ہے کہ آج ان عقائد کے حوالے سے کون امام بخاری و امام مسلم رحمۃ اللہ علیہما کے عقیدہ کے مطابق ہے اور کون ان کے عقیدہ کے خلاف ہے۔ ہاتھ اور پاؤں چومنا کس کے عقیدہ اور مسلک میں جائز اور کہاں ناجائز ہے یہ بھی ہر کوئی جانتا ہے ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب 445 ’’بَابُ تَقْبِيْلِ الرِّجْل‘‘ ’’پاؤں چومنے کا باب‘‘ قائم کیا۔ ان تراجم الابواب سے امام بخاری کا عقیدہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ اکابر کے ہاتھ اور پاؤں چومنا سنت ہے۔’’پاؤں چومنے کے باب‘‘ میں امام بخاری حدیث لائے ہیں کہ۔ترجمہ:حضرت وازع بن عامر بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، ہمیں بتایا گیا کہ یہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تو ہم گر پڑے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ مبارک پکڑ لئے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین پکڑ لئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں چومنے لگے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین مبارک چومے کیا یہ سنت آگے امت میں بھی چل سکتی ہے ؟ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نظر دیکھ رہی تھی کہ یہ سوال بھی کبھی ہوگا لہذا آپ اگلی حدیث اسی سوال کے جواب میں لائے ۔ الادب المفرد ’’بَابُ تَقْبِيْلِ الرِّجْل‘‘ حدیث نمبر 976 میں فرمایا : عن صهيب قال رَاَيْتُ عَلِيًا يُقَبِّلُ يَدَالْعَبَّاس وَرِجْلَيْهِ . ترجمہ : حضرت صھیب بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اور قدم چومتے دیکھا ۔ اس کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ باب نمبر 446 ’’قِيَامُ الرَّجُلِ لِلرَّجُّلِ تَعْظِيْمًا.‘‘ ’’ایک آدمی کا دوسرے آدمی کے لئے تعظیماً قیام کرنا ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تعظیماً قیام کا باقاعدہ باب قائم کر رہے ہیں جبکہ صحیح بخاری پر اصرار کرنے والے آج تعظیماً قیام پر بحث کرتے پھرتے ہیں ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment