Saturday, 6 August 2016

بعد از وفات محبوبان خدا کا سننا اور مدد کرنا













 مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ مردے سنتے ہیں او رزندوں کے حالات دیکھتے ہیں کچھ اجمالی طور سے یہاں عرض کیا جاتا ہے

(1) فَاَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوۡا فِیۡ دَارِہِمْ جٰثِمِیۡنَ ﴿۷۸﴾فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَقَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیۡ وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلٰکِنۡ لَّاتُحِبُّوۡنَ النّٰصِحِیۡنَ ﴿۷۹﴾

پس پکڑلیاقوم صالح کو زلزلے نے تو وہ صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے پھر صالح نے ان سے منہ پھیرا اورکہا کہ اے میری قوم میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچادی اور تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم خیرخواہوں کوپسند نہیں کرتے ۔(پ8،الاعراف:78۔79)
(2) فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَنَصَحْتُ لَکُمْ ۚ فَکَیۡفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیۡنَ ﴿٪۹۳﴾

توشعیب نے ان مرے ہوؤں سے منہ پھیر ا اور کہا اے میری قوم میں تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا چکا اور تمہیں نصیحت کی تو کیوں کرغم کرو ں کافروں پر ۔(پ9،الاعراف:93)
ان آیتو ں سے معلوم ہوا کہ صالح علیہ السلام اور شعیب علیہ السلام نے ہلاک شدہ قوم پر کھڑے ہوکر ان سے یہ باتیں کیں۔

(3) وَسْـَٔلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنۡ قَبْلِکَ مِنۡ رُّسُلِنَاۤ ٭ اَجَعَلْنَا مِنۡ دُوۡنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِـہَۃً یُّعْبَدُوۡنَ ﴿٪۴۵﴾

ان رسولوں سے پوچھو جو ہم نے آپ سے پہلے بھیجے کیا ہم نے رحمن کے سوا اور خدا ٹھہرائے ہیں جو پوجے جاویں ۔(پ25،الزخرف:45)
گزشتہ نبی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں وفات پاچکے تھے فرمایا جارہاہے کہ وفات یافتہ رسولوں سے پوچھو کہ ہم نے شرک کی اجازت نہ دی تو ان کی امتیں ان پر تہمت لگاکر کہتی ہیں کہ ہمیں شرک کا حکم ہمارے پیغمبروں نے دیا ہے۔
اگر مردے نہیں سنتے توان سے پوچھنے کے کیا معنی ؟ بلکہ اس تیسری آیت سے تو یہ معلوم ہوا کہ خاص بزرگو ں کو مردے جواب بھی دیتے ہیں اور وہ جواب بھی سن لیتے ہیں ۔ اب بھی کشف قبور کرنے والے مردوں سے سوال کرلیتے ہیں ۔ اس لئے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے مقتول کافروں سے پکارکرفرمایا کہ بولو میرے تمام فرمان سچے تھے یا نہیں ۔ فاروق اعظم نے عرض کیا کہ بے جان مردو ں سے آپ کلام کیوں فرماتے ہیں تو فرمایا وہ تم سے زیادہ سنتے ہیں ۔

(صحیح البخاری،کتاب الجنائز، باب فی عذاب القبر، الحدیث1370،ج1،ص462،دار الکتب العلمیۃبیروت)
دوسری روایت میں ہے کہ دفن کے بعد جب زندے واپس ہوتے ہیں تو مردہ ان کے پاؤں کی آہٹ سنتا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب،الباب الخامس والاربعون فی بیان القبر وسؤالہ،ص۱۷۱،دار الکتب العلمیۃبیروت)

اسی لئے ہم نمازوں میں حضو ر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کرتے ہیں اور کھانا کھانے والے ، استنجا کرنے والے، سوتے ہوئے کو سلام کرنا منع ہے کیونکہ وہ جواب نہیں دے سکتے تو جو جواب نہ دے سکے اسے سلام کرنا منع ہے اگر مردے نہ سنتے ہوتے تو قبر ستا ن جاتے وقت ا نہیں سلام نہ کیا جاتا اور نماز میں حضور کو سلام نہ ہوتا۔
ضروری ہدایت:زندگی میں لوگوں کی سننے کی طاقت مختلف ہوتی ہے بعض قریب سے سنتے ہیں جیسے عام لوگ او ر بعض دور سے بھی سن لیتے ہیں جیسے پیغمبر اور اولیائ۔ مرنے کے بعد یہ طاقت بڑھتی ہے گھٹتی نہیں لہٰذا عام مردو ں کو ان کے قبرستان میں جاکرپکار سکتے ہیں دور سے نہیں لیکن انبیاء واولیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو دور سے بھی پکارسکتے ہیں کیونکہ وہ جب زندگی میں دور سے سنتے تھے تو بعدوفات بھی سنیں گے۔ لہٰذا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ہرجگہ سے سلام عرض کرو مگر دوسرے مردو ں کو صرف قبر پر جاکر دور سے نہیں۔
دوسری ہدایت: اگرچہ مرنے کے بعد رو ح اپنے مقام پر رہتی ہے لیکن اس کا تعلق قبر سے ضرورر ہتا ہے کہ عام مردو ں کو قبر پرجا کر پکارا جاوے تو سنیں گے مگر اور جگہ سے نہیں ۔جیسے سونے والا آدمی کہ اس کی ایک روح نکل کر عالم میں سیر کرتی ہے لیکن اگر اس کے جسم کے پاس کھڑے ہوکر آواز دو تو سنے گی ۔ دوسری جگہ سے نہیں سنتی۔

اعتراض: حضو رصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو جو نماز و غیرہ میں سلام کیا جاوے اس میں یہ نیت نہ ہو کہ آپ سن رہے ہیں بلکہ جیسے کسی سے سلام کہلاکر بھیجتے ہیں یا کسی کو خط میں سلام لکھتے ہیں ایسے ہی سلام کیا جائے کیونکہ دور کے آدمی کا سلام فرشتے پہنچا تے ہیں او رپاس والے کا سلام خود حضور سنتے ہیں جیسا کہ حدیث شر یف میں ہے۔(وہابی)
جواب : اس کے چند جواب ہیں ایک یہ کہ تمہارے عقیدے کے یہ بھی خلاف ہے کہ تم تو کہتے ہو کہ مردے سنتے ہی نہیں اور آیات پیش کرتے ہو اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبر انور میں سے سن لیا تو تمہارے قول کے خلاف ہوگیا ۔ دو سرے یہ کہ جب کسی کے ہاتھ سلام کہہ کر بھیجتے ہیں تو اسے خطاب کر کے السلام علیکم نہیں کہتے بلکہ جانے والے کو کہتے ہیں کہ ہمارا سلام کہہ دینا ہم لوگ نماز وغیرہ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو خط تو لکھتے نہیں تمہارے قول کے مطابق فرشتوں سے کہلا کر بھیجتے ہیں تو اس صورت میں یہ نہ کہا جاتا کہ اے نبی تم پر سلام ہو بلکہ یوں کہا جانا چاہئے کہ اے فرشتو! حضور سے ہمارا سلام کہنا،خطاب فرشتوں سے ہونا چاہیے تھا۔ تیسرے یہ کہ تمہاری پیش کردہ حدیث میں یہ نہیں ہے کہ دور والے کاسلام نہیں سنتے صرف یہ ہے کہ دور والے کا سلام ملائکہ پیش کرتے ہیں ہو سکتا ہے کہ ملائکہ بھی پیش کرتے ہوں اورسرکار خود بھی سنتے ہوں، جیسے کہ فرشتے رب تعالیٰ کی بارگاہ میں بندوں کے اعمال پیش کرتے ہیں تو خدا کیا ان کے اعمال خود نہیں جانتا ضرور جانتا ہے مگر پیشی بھی ہوتی ہے ۔
اعتراض:مردے نہیں سنتے قرآن کریم فرما رہاہے:

(1) وَ مَاۤ اَنۡتَ بِمُسْمِعٍ مَّنۡ فِی الْقُبُوۡرِ ﴿۲۲﴾

تم قبر والوں کو نہیں سنا سکتے ۔(پ22،فاطر:22)

(2) اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیۡنَ ﴿۸۰﴾وَمَاۤ اَنۡتَ بِہٰدِی الْعُمْیِ عَنۡ ضَلٰلَتِہِمْ ؕ

پس تم نہیں سنا سکتے مردو ں کو اور نہیں سنا سکتے بہروں کو پکار جب وہ پیٹھ دے کر پھر یں او رنہ اندھوں کو ان کی گمراہی سے راہ پر لاؤ ۔(پ20،النمل:80،81)
ان آیات میں صاف بتایا گیا کہ قبر والے اور مردے نہیں سنتے ۔
جواب : اس اعتراض کے چند جواب ہیں ایک یہ کہ تم بھی نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سننے کے قائل ہو کہ جو قبر انور پر سلام پڑھاجاوے وہ سرکار سن لیتے ہیں وہ بھی اس آیت کے خلاف ہوا ۔ دوسرے یہ کہ آیت میں یہ بھی ہے کہ تم اندھوں کو گمراہی سے نہیں نکال سکتے حالانکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بر کت سے ہزاروں اندھے ہدایت پر آگئے۔ تیسرے یہ کہ یہاں قبر والوں او رمردو ں ، اندھوں اور بہروں سے مراد وہ کفار ہیں جن پر مہر ہوچکی جن کے ایمان کی تو قع نہیں اسے خود قرآن کریم بتا رہا ہے۔ چنانچہ تمہاری پیش کردہ انہی آیات کے آخر میں یہ ہے ۔

(1) اِنۡ تُسْمِعُ اِلَّا مَنۡ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَہُمۡ مُّسْلِمُوۡنَ ﴿۸۱﴾

تم اس کو سناتے ہو جو ہماری آیتو ں پر ایمان لاویں اور وہ مسلمان ہوں۔(پ20،النمل:81)
یہ سورہ نمل اور سورہ روم میں دو نوں جگہ ہے اگر وہاں اندھے، بہرے ، مردے سے مراد یہ اندھے اور مردے ہوتے تو ان کے مقابل ایمان اور اسلام کا ذکر کیوں ہوتا ۔ پتا لگا کہ اس سے دل کے مردے، دل کے اندھے مراد ہیں۔ انہیں مردہ بہرہ اس لئے فرمایا کہ جیسے مردے پکار سے نفع او رنصیحت حاصل نہیں کرتے ۔ایسے ہی یہ لوگ ہیں نیز قرآن کریم کا فروں کے بارے میں فرماتا ہے :

(2) صُمٌّۢ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَا یَرْجِعُوۡنَ ﴿ۙ۱۸﴾

یہ کفار بہر ے ، گونگے ، اندھے ہیں پس وہ نہ لوٹیں گے ۔(پ1،البقرۃ:18)

(3) اَوَ مَنۡ کَانَ مَیۡتًا فَاَحْیَیۡنٰہُ وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوۡرًا یَّمْشِیۡ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنۡ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیۡسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا ؕ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکٰفِرِیۡنَ مَا کَانُوۡا یَعْمَلُوۡنَ ﴿۱۲۲﴾

اور کیا وہ جو مردہ تھا تو ہم نے اسے زندہ کردیا اور اس کے لئے ایک نور کردیا جس سے لوگوں میں چلتا ہے وہ اس جیسا ہوگا جواندھیروں میں ہے ان سے نکلنے والا نہیں یوں ہی کافروں کی آنکھ میں ان کے اعمال بھلے کردیئے گئے ہیں۔(پ8،الانعام:122)
اس آیت میں مردے سے مراد کافر ، زندگی سے مراد ہدایت ، اندھیروں سے مراد کفر، روشنی سے مراد ایمان ہے۔ یہ آیت تمہاری پیش کردہ آیات کی تفسیر ہے ۔

(4) وَمَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعْمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعْمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیۡلًا ﴿۷۲﴾

جواس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہے اور راستے سے بہکا ہوا ہے ۔(پ15،بنی اسرآء یل:72)
ا س میں بھی اندھے سے مراد دل کا اندھا ہے نہ کہ آنکھ کا اندھا ، بہر حال جن آیتوں میں اندھوں ، مردو ں ، بہروں کے نہ سننے نہ ہدایت پانے کا ذکر ہے ۔ وہاں کفار مراد ہیں بلکہ مردے مدد بھی کرتے ہیں آیات ملاحظہ ہوں ۔

(1) وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنۡصُرُنَّہٗ ؕ

اور وہ وقت یا د کرو جب اللہ نے نبیوں کا عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تمہارے پاس رسول تشریف لاویں جوتمہاری کتابوں کی تصدیق کریں تو تم ان پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا ۔(پ3،اٰل عمرٰن:81)

اس آیت سے معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں سے عہد لیا کہ تم محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا حالانکہ وہ پیغمبر آپ کے زمانہ میں وفات پاچکے تو پتا لگا کہ وہ حضرات بعد وفات حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان بھی لا ئے اور روحانی مدد بھی کی چنانچہ سب نبیوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے معراج کی رات نماز پڑھی یہ اس ایمان کا ثبوت ہوا حج وداع میں بہت سے پیغمبر آپ کے ساتھ حج میں شریک ہوئے او رموسی علیہ السلام نے اسلام والوں کی مدد کی کہ پچاس نماز وں کی پانچ کرادیں آخرمیں عیسی علیہ السلام بھی ظاہر ی مدد کے لئے آئیں گے اموات کی مدد ثابت ہوئی۔

(2) وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴﴾

اور اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو تمہارے پاس آجاویں پھر خدا سے مغفرت مانگیں اور رسول بھی ان کیلئے دعاء مغفرت کریں تو اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔(پ5،النساء:64)
ا س آیت سے معلوم ہو اکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدد سے تو بہ قبول ہوتی ہے اوریہ مدد زندگی سے خاص نہیں بلکہ قیامت تک یہ حکم ہے یعنی بعد وفات بھی ہماری تو بہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہی کی مدد سے قبول ہوگی بعد وفات مدد ثابت ہو ئی ۔ اسی لئے آج بھی حاجیوں کو حکم ہے کہ مدینہ منورہ میں سلام پڑھتے وقت یہ آیت پڑھ لیا کریں اگر یہ آیت فقط زندگی کے لئے تھی تو اب وہاں حاضری کا اور اس آیت کے پڑھنے کا حکم کیوں ہے ۔

(3) وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾

اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر جہانوں کے لئے رحمت ۔(پ17،الانبیاء:107)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تمام جہانوں کی رحمت ہیں اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی جہان تو رہے گا اگر آپ کی مدد اب بھی باقی نہ ہو تو عالم رحمت سے خالی ہوگیا ۔

(4) وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا

اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تمام لوگوں کے لئے بشیر اور نذیر بناکر ۔(پ22،سبا:28)
اس''لِلنَّاسِ''میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو حضور صلی اللہ تعالیٰ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آئے او رآپ کی یہ مدد تا قیامت جاری ہے ۔

(5) وَکَانُوۡا مِنۡ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۚ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِہٖ ۫

اور یہ بنی اسرائیل کافروں کے مقابلہ میں اسی رسول کے ذریعہ سے فتح کی دعا کرتے تھے پھر جب وہ جانا ہوا رسول ان کے پاس آیا تو یہ ان کاانکار کر بیٹھے ۔(پ1،البقرۃ:89)
معلوم ہواکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے بھی لوگ آپ کے نام کی مدد سے دعائیں کرتے اور فتح حاصل کرتے تھے ۔ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدد دنیا میں آنے سے پہلے شامل حال تھی تو بعد بھی رہے گی اسی لئے آج بھی حضور کے نا م کا کلمہ مسلمان بناتا ہے۔ درود شریف سے آفات دور ہوتی ہیں۔ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے تبرکات سے فائدہ ہوتاہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے تبرکات سے بنی اسرئیل جنگوں میں فتح حاصل کرتے تھے ۔ یہ سب بعد وفات کی مدد ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ وآلہ وسلم ! اب بھی بحیات حقیقی زندہ ہیں ایک آن کے لئے موت طاری ہوئی اور پھر دائمی زندگی عطا فرما دی گئی قرآن کریم تو شہیدوں کی زندگی کا بھی اعلان فرما رہا ہے۔ حضو ر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کاثبوت یہ ہے کہ زندوں کے لئے کہا جاتا ہے کہ فلاں عالم ہے ، حافظ ہے ، قاضی ہے اور مردوں کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ عالم تھا ، زندوں کے لئے'' ہے'' او ر مردوں کے لئے ''تھا'' استعمال ہوتا ہے۔ نبی کا کلمہ جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ کی زندگی میں پڑھتے تھے وہی کلمہ قیامت تک پڑھا جاوے گا کہ حضور اللہ کے رسول ہیں۔ صحابہ کرام بھی کہتے تھے کہ حضور اللہ کے رسول ہیں۔ شفیع المذنبین ، رحمۃ للعالمین ہیں اور ہم بھی یہ ہی کہتے ہیں اگر آپ زندہ نہ ہوتے توہمارا کلمہ بدل جانا چاہئے تھا ہم کلمہ یوں پڑھتے کہ حضور اللہ تعالیٰ کے رسول تھے ،جب آپ کا کلمہ نہ بدلا تو معلوم ہو اکہ آپ کا حال بھی نہ بدلا لہٰذا آپ اپنی زندگی شریف کی طر ح ہی سب کی مدد فرماتے ہیں ہاں اس زندگی کا ہم کو احساس نہیں ۔

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...