Saturday, 27 August 2016

تسکین الخواطر فی مسئلۃ الحاضر والناظر


تسکین الخواطر فی مسئلۃ الحاضر والناظر

از استاذی المکرّم غزالی زماں قبلہ سیّد احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

لفظ حاضر و ناظر کے معنیٰ کی تحقیق

حاضر کا مادہ ’’حضر‘‘ اور ناظر کا مادہ ’’نظر‘‘ ہے۔ حضر سے ’’الحضور‘‘ مصدر بنا۔ جس سے حاضر مشتق ہوا۔ حضر، حضور اور حاضر کے بہت سے معنے کتب لغت میں مرقوم ہیں۔ مثلاً حضر کے معنی پہلو، نزدیکی، صحن، حاضر ہونے کی جگہ وغیرہ ہیں اور حاضر کے معنیٰ شہروں اور بستیوں میں رہنے والا، بڑا قبیلہ وغیرہ آتے ہیں۔ یہ تمام معانی منجد مختار الصحاح اور مجمع بحار الانوار وغیرہ کتابوں میں درج ہیں۔ (۱)
ان کے علاوہ جن معنیٰ سے ہماری بحث خصوصیت کے ساتھ متعلق ہے، ان کی تفصیل یہ ہے۔ حضر، حضرۃ، حضور سب کے معنیٰ ہیں سامنے ہونا اور حاضر کے معنیٰ ہیں سامنے ہونے والا۔
جو چیز کھلم کھلا بے حجاب آنکھوں کے سامنے ہو اسے حاضر کہتے ہیں۔ منجد، صراح اور مختار الصحاح میں ہے کہ حضرۃ اور حضور غیبۃ کی ضد ہیں۔ (۱) اور لغتِ قرآن کی مشہور کتاب مفردات (۲) امام راغب اصفہانی میں یہ بھی لکھا ہے کہ جو چیز سامنے نہ ہو یعنی حواس سے دور آنکھوں سے پوشیدہ ہو اسے غائب اور غیب کہتے ہیں۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ حاضر غائب کی ضد ہے اور اس کے بعد یہ بھی معلوم ہو گیا کہ غائب اسے کہتے ہیں جو حواس سے دور ہو اور نگاہوں کے سامنے نہ ہو تو اب یہ بات ثابت ہو گئی کہ حاضر اسی کو کہا جائے گا جو حواس سے پوشیدہ نہ ہو اور کھلم کھلا بے حجاب آنکھوں کے سامنے موجود ہو۔
ہمارے اس روشن بیان سے ناظرین کرام نے اچھی طرح سمجھ لیا ہو گا کہ لفظ حاضر اپنے حقیقی لغوی معنی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی شان کے ہرگز لائق نہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ شہروں اور بستیوں میں رہنے اور قبیلہ ہونے سے پاک ہے۔ جتنے معانی لفظ حاضر کے منقول ہوئے اللہ تعالیٰ ان سب سے منزّہ و مبرّا ہے۔ قرآن کریم شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ حواس اور نگاہوں کے ادراک سے بھی بلند و بالا ہے۔
دیکھئے قرآن مجید میں ہے۔
لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ o
ترجمہ: آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں وہ تمام آنکھوں کا ادراک فرماتا ہے اور وہ لطیف و خبیر ہے۔
حاضرکے بعد لفظ ’’ناظر‘‘ کے معنیٰ کی تحقیق سنیٔے۔ مختار الصحاح (۱) میں ہے آنکھ کے ڈیلے کی سیاہی کو جس میں آنکھ کا تل ہوتا ہے، ناظر کہتے ہیں اور کبھی آنکھ کو ناظرہ کہا جاتا ہے۔
ناظر کا ماخذ نظر ہے۔ مفرداتِ راغب، مختار الصحاح، منجد اور صراح میں نظر کے حسب ذیل معنیٰ(۲) منقول ہیں۔
کسی امر میں تدبر اور تفکر کرنا، کسی چیز کا اندازہ کرنا، آنکھ کے ساتھ کسی چیز میں غور و تامل کرنا اور کسی چیز کا ادراک کرنے یا اسے دیکھنے کی غرض سے بصر و بصیرت کو پھیرنا۔ اس کے علاوہ نظر سے کبھی تامل و تلاش کے معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں اور کبھی اس سے وہ معرفت اور رؤیت مراد ہوتی ہے جو تلاش کے بعد حاصل ہو۔
امام راغب اصفہانی (۱) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں کی طرف نظر فرمانے کے معنیٰ دیکھنا نہیں بلکہ صرف یہ معنیٰ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر احسان فرماتا ہے اور انہیں اپنی نعمتیں پہنچاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشادفرمایا
وَلَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْہِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ط
ترجمہ: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کفار سے کلام نہ فرمائے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا۔
مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دِن کافروں پر اللہ تعالیٰ کا کوئی انعام واحسان نہ ہو گا۔
تفسیر روح المعانی (۲) میں اسی آیۂ کریمہ کی تفسیر میں ہے ’’لَا یَنْظُرُ اِلَیْہِمْ‘‘ کے معنیٰ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ’’کفار‘‘ پر مہربانی اور رحم نہیں فرمائے گا۔ اس کے بعد صاحب تفسیر (۳) فرماتے ہیں کہ جس کے حق میں لفظ ’’نظر‘‘ کا استعمال جائز نہیں (جیسا کہ اللہ تعالیٰ) اس کے لئے اگر یہ لفظ کبھی استعمال ہوا ہے تو وہ اپنے اصلی معنیٰ سے مجرد ہے اور صرف احسان کے معنیٰ میں ہے۔
لغت حدیث کی مشہور کتاب مجمع بحار الانوار (۱) میں ہے کہ حدیث پاک ’’اِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ اِلیٰ صُوَرِکُمْ‘‘ الیٰ اخر الحدیث میں نظر کے معنی دیکھنا نہیں بلکہ یہاں پسندیدگی رحمت اور مہربانی مراد ہے۔ اس کے بعد صاحب بحار الانوار فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نظر کے یہ معنی ہیں کہ وہ اپنے بندوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیتا ہے اور ان کا محاسبہ فرماتا ہے۔
اس روشن اور مدلل بیان کو پڑھ کر ہمارے ناظرین کرام نے اچھی طرح سمجھ لیا ہو گا کہ ان دونوں لفظوں کے اصلی اور حقیقی معنیٰ اللہ تعالیٰ کے شایان شان نہیں بلکہ ان معانی سے اللہ تعالیٰ کا پاک ہونا یقینی امر ہے۔
اس کے بعد یہ حقیقت خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ جب حاضر و ناظر کے اصلی معنیٰ سے اللہ تعالیٰ کا پاک ہونا واجب ہے تو ان لفظوں کا اطلاق بغیر تاویل کے ذات باری تعالیٰ پر کیوں کر ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسمایٔ حسنیٰ میں حاضر و ناظر کوئی نام نہیں اور قرآن و حدیث میں کسی جگہ حاضر و ناظر کا لفظ ذات باری تعالیٰ کے لئے وارد نہیں ہوا نہ سلف صالحین نے اللہ تعالیٰ کے لئے یہ لفظ بولا۔ کوئی شخص قیامت تک ثابت نہیں کر سکتا کہ صحابہ کرام یا تابعین یا آئمہ مجتہدین نے کبھی اللہ تعالیٰ کے لئے حاضر و ناظر کا لفظ استعمال کیا ہو۔
اور اسی لئے متاخرین کے زمانہ میں بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر کہنا شروع کیا تو اس دور کے علماء نے اس پر انکار کیا بلکہ بعض علماء نے اس اطلاق کو کفر قرار دے دیا۔ بالآخر یہ مسئلہ (کہ اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر کہنا کفر ہے یا نہیں) جمہور علماء کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ اس میں تاویل ہو سکتی ہے اس لئے یہ اطلاق کفر نہیں اور تاویل یہ کی ’’حضور‘‘ کو مجاز اعلم کے معنی میں لیا جائے اور ’’نظر‘‘ کے مجازی معنی رؤیت مراد لے لئے جائیں۔ اس تاویل کے بعد جب اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر کہا جائے گا تو یہ اطلاق علیم و بصیر اور عالم من یریٰ کے معنیٰ میں ہو گا۔ ملاحظہ فرمایئے در مختار اور شامی (۱)
رہا یہ سوال کہ یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ بعض علماء نے اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر کہنا کفر قرار دے دیا تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ صاحب درمختار کا ’’یا حاضر یا ناظر لیس بکفر‘‘ کہنا ہی اس امر کی روشن دلیل ہے کہ بعض علماء نے اس کو کفر کہا تھا ورنہ صاحب در مختار کا یہ قول بالکل لغو اور بے معنی قرار پائے گا کیوں کہ جب تک کوئی امر قابل انکار اور لائق تردید موجود نہ ہو اس وقت تک انکار اور تردید ممکن ہی نہیں! دیکھئے آج تک کسی نے یہ نہیں لکھا کہ اللہ تعالیٰ کو رحمن و رحیم کہنا کفر نہیں کیوں؟ محض اس لئے کہ کبھی کسی نے اللہ تعالیٰ کو رحمن و رحیم کہنا کفر قرار ہی نہیں دیا۔ معلوم ہوا کہ بعض علماء نے اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر کہنا اسی لئے کفر قرار دیا تھا کہ ان دونوں لفظوں کے لغوی معنی اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں لیکن جمہور علماء نے ان کو لغوی معنیٰ سے پھیر کر تاویل کر لی اور تاویل کے بعد حاضر و ناظر کے اطلاق کو اللہ تعالیٰ کے حق میں جائز رکھا۔ اس تحقیق سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ بغیر تاویل کے اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر کہنا قطعاً جائز نہیں۔
اس کے بعد یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے کہ جو لوگ رسول اکرم ﷺ کے حق میں حاضر و ناظر کے اطلاق کو کفر و شرک کہتے ہیں یا تو وہ حاضر و ناظر کے معنی نہیں سمجھتے یا انہوں نے اللہ تعالیٰ کو اپنے جیسا سمجھ لیا ہے کہ ایسے الفاظ کو اللہ تعالیٰ کے لئے خاص کرتے ہیں جن کے معنیٰ لغوی صرف بندوں کے لائق ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حق میں ان کا تصور بھی نہیں ہو سکتا۔ فَاِلَی اللّٰہِ الْمُشْتَکٰی۔
ممکن ہے اس مقام پر یہ اعتراض کیا جائے کہ فی زمانہ لفظ حاضر و ناظر، سمیع و بصیر اور علیم و خبیر یا بالفاظ دیگر ’’عالم ومن یریٰ‘‘ (جاننے والا اور دیکھنے والا) کے معنیٰ میں اللہ تعالیٰ پر اطلاق کیا جاتا ہے۔ اس لئے حضور کے حق میں اس کا استعمال انہی معنیٰ کا وہم پیدا کرے گا۔ لہٰذا حضور ﷺ کو حاضر و ناظر کہنا موہم شرک ہے۔
اس کے جواب میں اگرچہ اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ معترض کے ایہام شرک کی جڑیں ان ہی آیات قرآنیہ سے کٹ جاتی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو اپنے خاص ناموں مثلاً رؤف، رحیم، شہید وغیرہ سے موسوم کیا ہے۔ مگر مزید اطمینان کے لئے گزارش ہے کہ جس امر کو آپ ایہام شرک کی بنیاد قرار دے رہے ہیں بعینہٖ وہی امر قرآن مجید کی روشنی میں حضور سید عالم ﷺ کے لئے ثابت ہے۔ دیکھئے سمیع، بصیر، علیم، خبیر، عالم اور من یریٰ سب کا اطلاق حضور نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس پر قرآن مجید میں موجود ہے۔ آیہ کریمہ ’’اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ‘‘ پ ۱۵ رکوع نمبر ۱ میں حضور نبی کریم ﷺ کو سمیع و بصیر کہا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے قول ’’فَاسْئَلْ بِہٖ خَبِیْراً‘‘ پ ۱۹ ع ۳ سے حضور ﷺ کا خبیر ہونا ثابت ہے اور ’’وَہُوَ بِکُلِّ شَیئٍ عَلِیْمٌ‘‘ پ ۱ ع ۳ نیز (۱) ’’فَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ‘‘ پ ۱۳ ع ۳ میں حضور ﷺ کو علیم فرمایا گیا ہے۔
علیٰ ہٰذا القیاس آیۂ کریمہ ’’فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَرَسُوْلُہٗ‘‘ میں یریٰ کا فاعل اللہ تعالیٰ اور رسول کریم ﷺ دونوں ہیں یعنی اللہ تعالیٰ بھی لوگوں کے عمل دیکھتا ہے اور حضور ﷺ بھی دیکھتے ہیں۔
اب بتائیے کہ قرآن کریم کی روشنی میں نبی کریم ﷺ کی ذات مقدسہ پر سمیع و بصیر، علیم و خبیر اور ’’عالم ومن یریٰ ‘‘کا اطلاق ثابت ہوا یا نہیں، اس کے بعد آپ کے ایہام شرک کی بنیادیں کہاں ہیں؟
شاید ہمارے ناظرین کرام کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہو کہ آیاتِ منقولہ کی تفسیر میں کسی مفسّر کا حوالہ نہیں دیا گیا تو اس کے متعلق عرض ہے کہ ان آیاتِ قرآنیہ سے حضور ﷺ کے حق میں اطلاقاتِ مذکورہ کے قول میں مجھے منفرد نہ سمجھئے بلکہ مندرجہ ذیل مفسرین کریم و علمائے اعلام اس قول میں میرے ساتھ ہیں
۱: علامہ اسماعیل حنفی آفندی حقی صاحب تفسیر روح البیان
۲: علامہ سید محمود الوسی حنفی بغدادی صاحب تفسیر روح المعانی
۳: علامہ ابو البقاء ۴: علامہ حلبی
۵: علامہ طیبی ۶: علامہ سبکی
۷: شیخ اجل شاہ عبدالحق محدث دہلوی ۸: علامہ زرقانی
۹: علامہ صاوی
اگر آپ کو یقین نہ ہو تو ان کی اصلی عبارات مع خلاصہ ملاحظہ فرمائیے۔
۱: تاویلات نجمیہ میں ہے کہ آیۂ کریمہ ’’اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ‘‘ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کریم ﷺ وہ سمیع و بصیر ہیں جس کے متعلق حدیث قدسی میں وارد ہے کہ ’’میں اس کی سمع ہو جاتا ہوں تو وہ مجھ سے سنتا ہے اور میں اس کی بصر ہو جاتا ہوں تو وہ مجھ سے دیکھتا ہے‘‘ لہٰذا آیۂ کریمہ کی تحقیق یہ ہوئی کہ ’’ہم نے اپنے عبد مقدس کو اس لئے معراج کرائی کہ ہم اسے اپنی وہ نشانیاں دکھائیں جو ہمارے جلال و جمال کے ساتھ خاص ہیں’’ بے شک وہی عبد مقدس (محمد مصطفیٰ ﷺ) ہماری سمع کے ساتھ سمیع اور ہماری بصر کے ساتھ بصیر ہیں۔ بیشک وہ ہمارا کلام ہماری سمع سے سنتے اور ہمارا جمال ہماری بصر سے دیکھتے ہیں۔ (۱)
۲: ’’اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ‘‘ کی ضمیر جب رسول اللہ ﷺ کی طرف لوٹائی جائے جیسا کہ ابو البقاء نے بعض علماء سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ‘‘ کے معنیٰ یہ ہیں کہ نبی کریم ﷺ ہمارا کلام سننے والے اور ہماری ذات کو دیکھنے والے ہیں۔ علامہ حلبی نے کہا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی طرف اس ضمیر کا راجع کرنا بعید نہیں۔ اس کے بعد صاحب روح المعانی فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے غیر پر سمیع و بصیر کا اطلاق ممنوع نہیں۔ جیسا کہ بعض لوگ وہم کرتے ہیں۔ نہ اس آیت میں ممنوع ہے نہ مطلقاً۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ آیۂ کریمہ ’’اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ‘‘ میں ایسی ضمیر کا لانا جو دونوں امور کا احتمال رکھتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف بھی راجع ہو سکتی ہے اور حضور نبی کریم ﷺ کی طرف بھی اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہے کہ حضور ﷺ نے رب العزت کی ذات پاک کو دیکھا اور اس کے کلام مبارک کو اسی کے سمع مبارک سے سنا جیسا کہ ابھی ابھی حدیث قدسی ’’کُنْتُ لَہٗ سَمْعًا‘‘ میں اشارہ گزر چکا ہے۔ لہٰذا اس امر کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ (۱)
۳: بصیر (۲) علیم کے معنیٰ میں ہے۔ امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ‘‘ کی تفسیرمیں نقل فرمایا ہے کہ یہ ضمیر نبی کریم ﷺ کے لئے ہے اور ان دونوں صفتوں کے ساتھ نبی کریم ﷺ کو موصوف کرنے کے یہ معنیٰ ہیں کہ حضور ﷺ سمع و بصر کی ان دونوں صفتوں میں کامل ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی ان نشانیوں کا ادراک کیا جا سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کو دکھانا چاہتا ہے۔ لہٰذا آیۂ کریمہ کے روشن معنیٰ یہ ہیں کہ نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کے کلام کو بلا واسطہ سننے والے اور اس کے نورِ جمال کو اپنی عین بصر سے دیکھنے والے ہیں اور یہ وہ کمال ہے جس کے ساتھ حضور ﷺ مختص ہیں۔
۴: (۱) ’’وَہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ‘‘ یعنی نبی کریم ﷺ تمام چیزوں کو جاننے والے ہیں خواہ ذاتِ الٰہی کی شانیں ہوں یا احکام خداوندی ہوں یا اللہ تعالیٰ کی صفات اور افعال و آثار ہوں۔ حضور ﷺ نے تمام علوم ظاہر و باطن، اول و آخر کا احاطہ فرمایا ہے اور حضور ﷺ ’’فَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ‘‘ کا مصداق ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی افضل ترین رحمتیں اور کامل ترین تحفے ان پر نازل ہوئے۔
۵: (۲) قولِ خداوندی ’’فَاسْئَلْ بِہٖ خَبِیْرًا‘‘ کے معنیٰ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق کسی ایسی ہستی سے سوال کرو جو اس کی صفات کا عالم ہو۔ وہ تمہیں مخفی علوم سے خبردار کرے گا اور اختلاف مسائل کے اعتبار سے خبیر مختلف ہو جاتا ہے۔ اگر سائل نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام ہوں تو خبیر اللہ تعالیٰ ہے اور اگر سائل حضور کے اصحابِ کرام ہوں تو خبیر خود نبی کریم ﷺ ہیں اور اگر سائل تابعین ہوں تو خبیر صحابہ کرام ہوں گے جو نبی ﷺ سے علم حاصل کر کے خبر دیں گے اور حضور ﷺ اللہ تعالیٰ سے علم لے کر خبیر ہوں گے۔
علاوہ ازیں یہ چاروں اسمایٔ مبارکہ سمیع و بصیر، علیم و خبیر جن کو ایہامِ شرک کی بنیاد قرار دے رہیں ہیں، حضور سید عالم ﷺ کے اسمائے مبارکہ میں شامل ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے!
مدارج النبوۃ (۱) ، مواہب اللدنیہ (۲) ، زرقانی شریف (۳)
حضور سید عالم ﷺ کی تو بڑی شان ہے۔ قرآن کریم کو ملاحظہ فرمائیے اس میں حضرت اسحاق علیہ السلام کو علیم فرمایا ہے۔ سورئہ ذاریات میں ہے ’’وَبَشَّرُوْہُ بِغُلاَمٍ عَلِیْمٍ‘‘ (فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو غلام علیم (اسحاق علیہ السلام) کی بشارت دی) اور سنیے! قرآنِ کریم میں انسان کے متعلق فرمایا ’’فَجَعَلْنَاہُ سَمِیْعًام بَصِیْرًا‘‘ اس مقام پر یہ کہنا کہ یہ جعل کی قید سے مقید ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کے بنانے سے انسان سمیع و بصیر بنا) ہمارے لئے قطعاً مضر نہیں کیوں کہ ہم حضور ﷺ کو جعلِ خداوندی کے بغیر سمیع و بصیر نہیں مانتے لیکن قید جعل کا الفاظ میں ہونا ضروری نہیں۔ جیسا کہ آیت کریمہ ’’اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ‘‘ میں حسب تصریحات علمائے مفسرین حضور ﷺ سمیع و بصیر ہیں۔ مگر جعل یعنی بنانے کی قید الفاظ میں مذکور نہیں۔
حضور سید عالم ﷺ کے لئے جو لفظ حاضر و ناظر بولا جاتا ہے، اس کے معنیٰ بیان کرتے ہوئے بعض حضرات نے فرطِ عقیدت کی بنا پر تصرفات، استمداد اور علم غیب تینوں مسئلوں کو حاضر و ناظر کے مفہوم میں شامل کر دیا ہے اور اس طرح حاضر و ناظر کا مسئلہ مختلف مسائل کا ایک معجون مرکب بن کر رہ گیا ہے اور اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ بحث و مناظرہ کے وقت مدعی و مجیب کے لئے بیان دعویٰ میں مشکلات پیش آئیں اس لئے ضروری ہے کہ تفصیلات سے قبل نفس مسئلہ کے مفہوم کی وضاحت کر دی جائے
اس مقام پر سب سے پہلے یہ گزارش ہے کہ حضور ﷺ کے تصرفات اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے استمداد اور حضور کا عالم ما کان وما یکون ہونا تینوں باتیں اپنی جگہ حق اور عین صواب ہیں لیکن یہ تینوں مسئلے الگ الگ مستقل حیثیت رکھتے ہیں۔ حاضر و ناظر کے مفہوم میں داخل نہیں۔ اگر زندگی باقی رہی تو انشاء اللہ العزیز ان میں سے ہر مسئلہ پر علیحدہ رسالہ لکھا جائے گا اور بفضلہٖ تعالیٰ دلائل قاہرہ کی روشنی میں حضور ﷺ کے تصرفات اور حضور سے استمداد کے جواز اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ’’عالم ما کان وما یکون‘‘ کے ثبوت پر کلام کیا جائے گا، جس کو پڑھ کر ہر اہل فہم پر حقانیت اور صداقت واضح ہو جائے گی لیکن سرِ دست چوں کہ اس ایک ہی مسئلہ کی وضاحت مقصود ہے اس لئے دوسرے مسائل سے علیحدہ رہتے ہوئے صرف حاضر و ناظر کے مفہوم کی توضیح کی جاتی ہے۔ خوب غور سے ملاحظہ فرمائیے:
حضور ﷺ کے لئے جو لفظ حاضر و ناظر بولا جاتا ہے، اس کے یہ معنے ہرگز نہیں کہ نبی کریم ﷺ کی بشریت مطہرہ ہر جگہ ہر ایک کے سامنے موجود ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح روح اپنے بدن کے ہر جزو میں موجود ہوتی ہے اسی طرح روحِ دو عالم ﷺ کی حقیقت منورہ ذراتِ عالم کے ہر ذرہ میں جاری و ساری ہے، جس کی بنا پر حضور ﷺ اپنی روحانیت اور نورانیت کے ساتھ بیک وقت متعدد مقامات پر تشریف فرما ہوتے ہیں اور اہل اللہ اکثر و بیشتر بحالت بیداری اپنی جسمانی آنکھوں سے حضور کے جمالِ مبارک کا مشاہدہ کرتے ہیں اور حضور ﷺ بھی انہیں رحمت اور نظر عنایت سے مسرور و محظوظ فرماتے ہیں۔ گویا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنے غلاموں کے سامنے ہونا سرکار کے حاضر ہونے کے معنیٰ ہیں اور انہیں اپنی نظر مبارک سے دیکھنا حضور کے ناظر ہونے کا مفہوم ہے۔
سید عالم ﷺ کی قوتِ قدسیہ اور نورِ نبوت سے یہ امر بعید نہیں کہ آن واحد میں مشرق و مغرب، شمال و جنوب، تحت وفوق تمام جہات و امکنہ بعیدہ متعددہ لاتعد ولا تحصیٰ میں سرکار اپنے وجودِ مقدس بعینہٖ یا جسم اقدس مثالی کے ساتھ تشریف فرما ہو کر اپنے مقربین کو اپنے جمال کی زیارت اور نگاہ کرم کی رحمت و برکت سے سرفراز فرمائیں۔
حاضر و ناظر کے مسئلہ میں منکرین کی طرف سے عموماً یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ حاضر و ناظر ہونا خاص صفت خداوندی ہے اور خدا کی کوئی صفت غیر خدا کے لئے ثابت کرنا شرک ہے۔ اس کے جواب میں گزارش ہے کہ مخالفین کا یہ اعتراض بہت پرانا اور بے حد فرسودہ ہے۔ صرف حاضر و ناظر کا مسئلہ نہیں بلکہ کمالات رسالت سے تعلق رکھنے والے تمام مسائل کا انکار اسی شرک کا سہارا لے کر کیا جاتا ہے۔ گویا الزام شرک کا یہ اعتراض ایک مغالطہ عامۃ الورود ہے جو ہر مقام اور ہر موقع پر بلا کسی تامل کے وارد کر دیا جاتا ہے۔
اس کے متعلق گزارش ہے کہ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت کسی غیر کے لئے ثابت کرنا شرک ہے لیکن اس کے ساتھ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ صفاتِ خداوندی مستقل اور بالذات ہوتی ہیں۔ خدا کی کوئی صفت عطائی اور غیر مستقل نہیں۔ بندوں کے لئے کسی مستقل بالذات صفت کا حصول قطعاً نا ممکن اور محال ہے۔
اس مقام پر یہ عرض کر دینا مناسب ہو گا کہ اس بحث میں صفاتِ خداوندی سے ہمارے نزدیک وہی صفات مراد ہیں جن کا ظہور بندوں میں دین متین اور عقل سلیم کی روشنی میں ممکن ہے ورنہ وجوبِ وجود اور غنائے ذاتی کا ظہور بندوں کے حق میں قطعاً محال ہے اس لئے ہمارا ایمان ہے کہ صفت الوہیت (جو غنائے ذاتی کو مستلزم ہے) کا ظہور غیر اللہ کے لئے محالِ عقلی اور ممتنع بالذات ہے اور جس شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو وصف الوہیت عطا فرما دیا ہے وہ مشرک اور ملحد ہے۔ مشرکین اور مومنین کے مابین بنیادی فرق یہی ہے کہ مشرکین غیر اللہ کے لئے عطائے الوہیت کے قائل تھے جس کی عطا عقلاً نقلاً و شرعاً محال ہے اور مومنین کسی مقرب سے مقرب ترین حتیٰ کہ حضور سید المرسلین ﷺ کے حق میں بھی الوہیت اور غنائے ذاتی کے قائل نہیں ہیں۔
یاد رکھئے! اللہ تعالیٰ جو کسی مخلوق کو کوئی کمال عطا فرماتا ہے تو اس کے متعلق صرف یہ اعتقاد مومن ہونے کے لئے کافی نہیں کہ یہ کمال اللہ کا دیا ہوا ہے۔ اتنی بات تو مشرکین بھی اپنے معبودوں کے حق میں تسلیم کرتے تھے بلکہ مومن ہونے کے لئے ضروری ہے کہ عطائے خداوندی کا عقیدہ رکھتے ہوئے یہ اعتقاد بھی رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کمال کسی مخلوق کو عطا فرمایا ہے وہ عطا کے بعد حکمِ خداوندی، ارادہ اور مشیت ایزدی کے ماتحت ہے۔ ہر آن خدا تعالیٰ کی مشیت اس کے ساتھ متعلق ہے اور اس بندے کا ایک آن کے لئے بھی خدا تعالیٰ سے بے نیاز اور مستغنی ہونا قطعاً محال اور ممتنع بالذات ہے۔
مختصر یہ کہ مخلوق کے ہر کمال اور بندے کی ہر صفت کے متعلق مومن کا یہی اعتقاد ہے کہ یہ کمال اور یہ خوبی اللہ کی دی ہوئی ہے اور یہ بندہ اپنے اس کمال و خوبی میں علی الاطلاق مشیت جزئیہ کے ماتحت ہے اور کسی حال میں معبود حقیقی سے مستغنی اور بے نیاز نہیں۔
الحاصلبندے کو کسی امر میں اللہ تعالیٰ کی مشیت جزئیہ کے ماتحت نہ سمجھنا یا اس کو کسی حال میں کسی اعتبار سے اللہ تعالیٰ سے مستغنی اور بے نیاز قرار دینا شرک جلی اور کفر خالص ہے اور اس کے بر خلاف اعتقاد رکھنا عین ایمان ہے۔ استقلال اور عدم استقلال کے درمیان یہی فرق ہے جس کو ہم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا اور یہ بیان ایسا ہے کہ جو حضرات اس بحث میں ہمارے مد مقابل سمجھے جاتے ہیں ان کے اکابر اور مُسَلَّم علماء بھی ہمارے ساتھ ہیں۔
البتہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ اپنے مقبول بندوں میں ایسی صفات کریمہ پیدا کر دے جن کو کمالاتِ خداوندی کی تجلی اور صفاتِ ایزدی کا ظہور کہا جاسکے۔ ایسی صفات کو صفاتِ خداوندی قرار دینا ابلہ فریبی ہے کیوں کہ خدائے قدوس کی کوئی صفت حادث اور غیر مستقل نہیں ہو سکتی اور اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں میں جو صفات تسلیم کی گئی ہیں وہ خلق خداوندی سے مانی گئی ہیں۔ جو چیز مخلوق اور حادث ہو اس میں استقلالِ ذاتی کا وصف کیوں کر پایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ان صفاتِ مخلوقہ کو صفاتِ خداوندی کہنا بندے کو خدا یا خدا کو بندہ بنانے کے مترادف ہے۔
مخلوق کا مظہر انوارِ الٰہی ہونا شرک نہیں بلکہ یہ ایسا مسئلہ ہے کہ جس کی حقیقت کو تسلیم کرنا فی الجملہ ضروریاتِ دین سے ہے۔ امکان شرک کا عقیدہ یقینا کفر خالص ہے لیکن مخلوقات کا مظہر انوارِ الٰہی اور جلوہ گاہِ کمالات ایزدی ہونے کا انکار بھی کفر و الحاد سے کم نہیں۔
میرے نزدیک یہ امر بدیہیات سے ہے کہ عالم کے ذرے میں جو خوبی اور کمال موجود ہے درحقیقت وہ حسن و جمال الوہیت ہی کا ظہور ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں یہ امر روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔ ملاحظہ فرمائیے
فَلَمَّااَتَاہَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِیئِ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَۃِ الْمُبَارَکَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ اَنْ یّٰمُوْسیٰ اِنِّیْ اَنَا اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَo
ترجمہ: ’’پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) اس آگ کے پاس تشریف لائے تو ان کو ایک درخت سے برکت والی جگہ میں میدان کے داہنے کنارے کی طرف سے آواز دی گئی کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! بے شک میں اللہ رب العٰلمین ہوں‘‘۔
ظاہرہے کہ نہ وادیٔ ایمن کا کوئی کنارہ خدا ہے نہ بقعۂ مبارکہ خدا ہو سکتا ہے، نہ درخت کو خدا کی ذات قرار دیا جا سکتا ہے نہ وہ آگ خدا کی ذات ہے جو اس درخت پر تیزی سے چمک رہی تھی۔ یہ سب چیزیں انوارِ الٰہی کے مظاہر ہیں نہ کہ عین ذاتِ خداوندی۔ دوسری جگہ سورئہ نمل میں یہ واقعہ ان الفاظ میں مذکور ہے
فَلَمَّا جَائَہَا نُوْدِیَ اَنْم بُوْرِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَہَا وَسُبْحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
ترجمہ: ’’پھر جب موسیٰ علیہ السلام اس آگ کے پاس تشریف لائے تو ان کو آواز دی گئی کہ برکت والا ہے وہ جو آگ میں ہے اور جو اس کے آس پاس ہے اور اللہ رب العٰلمین کی ذات پاک ہے‘‘۔
(۱) فیض الباری شرح صحیح بخاری میں انور شاہ صاحب کشمیری اس آیۂ کریمہ کے متعلق فرماتے ہیں ’’پھر جب موسیٰ علیہ السلام آگ کے پاس آئے تو آپ کو ندا کی گئی کہ برکت والا ہے جو آگ میں ہے۔ پس موسیٰ علیہ السلام نے صرف آگ کو دیکھا نہ کہ رب تعالیٰ جل مجدہٗ کو لیکن چوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں تجلی فرمائی تھی اس لئے فرمایا ’’اے موسیٰ! بے شک میں اللہ ہوں‘‘ میں نے تمام قرآن میں اس سے زیادہ وہم پیدا کرنے والا لفظ نہیں دیکھا۔ یہاں غور کیجئے کہ موسیٰ علیہ السلام نے ’’اِنِّیْ اَنَا اللّٰہُ‘‘ کی آواز سنی۔ جس چیز سے وہ آواز آرہی ہے وہ آگ ہے، اس کے باوجود بھی یہ بات صحیح رہی کہ ’’بے شک میں اللہ ہوں‘‘۔ دیکھنے میں درخت متکلم ہے۔ (جس پر آگ بھڑک رہی ہے) لیکن درحقیقت وہ کلام اللہ کی طرف منسوب ہے اور یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے جب اس میں تجلی فرمائی تو وہ درخت معرفت الٰہیہ کے لئے وسیلہ ہو گیا اور متجلّٰی فیہ (درخت) نے متجلّٰی بنفسہٖ رب تعالیٰ جل مجدہٗ کا حکم لے لیا۔ انتہیٰ
اب اگر کوئی شخص ’’بُوْرِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَہَا وَسُبْحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ پڑھ کر یہ کہنے لگے کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ ’’نار‘‘ میں حلول فرما رہا ہے تو اس کے مشرک ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن اس کے برخلاف یہ عقیدہ رکھنا کہ ’’نَارِ وَمَنْ حَوْلَہَا‘‘ مظاہر حق ہیں اور تجلیاتِ حضرتِ حق سبحانہ وتعالیٰ کی جلوہ گاہ ہیں، عین ایمان اور روحِ قرآن ہے۔ معلوم ہوا کہ مخلوق کا مظاہر حق ہونا قرآن کی روشنی میں یقینی طور پر ثابت ہے۔
اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ ملاحظہ فرمایئے۔ ابراہیم علیہ السلام عرض کرتے ہیں۔ ’’رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی‘‘ اے میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کیسے جلاتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اَوَلَمْ تُؤْمِن‘‘ اے ابراہیم (علیہ السلام)! آپ کا اس بات پر ایمان نہیں؟ ’’قَالَ بَلٰی‘‘ ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا کیوں نہیں۔ ضرور میرا ایمان ہے۔ ’’وَلٰکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ‘‘ اور لیکن میں اس لئے سوال کر رہا ہوں کہ میرا دل مطمئن ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چار پرندوں کو لے لیجئے اور ان کو اپنے ساتھ مانوس کر لیجئے پھر انہیں ذبح کر کے ہر پہاڑ پر ان میں سے ایک جزو رکھ دیجئے ’’ثُمَّ ادْعُہُنَّ یَاْتِیْنَکَ سَعْیًا‘‘ پھر ان کو پکارئیے وہ آپ کے پاس دوڑتے ہوئے چلے آئیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ابراہیم علیہ السلام نے حسب ارشادِ خداوندی چار پرندے لے کر انہیں ذبح کیا اور ان کے اجزاء کو مخلوط کر کے ہر پہاڑ پر ان کے ایک ایک جزو کو رکھ دیا اور اس کے بعد انہیں پکارا تو وہ چاروں کے چاروں پرندے زندہ ہو کر دوڑتے ہوئے ان کے سامنے آ موجود ہوئے۔
ظاہر ہے کہ احیاء یعنی زندہ کرنا صرف اللہ تعالیٰ کی شان ہے اور سوال بھی اللہ تعالیٰ ہی کے احیاء کے متعلق تھا لیکن ان مردہ پرندوں کی زندگی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پکارنے پر ظہور پذیر ہوئی جو اس امر کی روشن دلیل ہے کہ صفت احیأ تو اللہ تعالیٰ ہی کی تھی لیکن اس کا ظہور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات اقدس میں ہوا۔ یہی ہمارا ایمان ہے کہ صفاتِ خداوندی کا ظہور مقربانِ بارگاہِ ایزدی میں علیٰ وجہ الکمال ہوا کرتا ہے۔ اگر بندے میں صفاتِ خداوندی کا ظہور نا ممکن ہو تو ’’تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ‘‘ کے کیا معنی ہوں گے؟ ہر شخص جانتا ہے کہ اخلاقِ الٰہیہ کے جلوؤں سے متصف ہونا مطلوب عندالشرع ہے۔ اگر اس چیز کو شرک قرار دے دیا جائے تو کمال انسانی کا کون سا مقام باقی رہے گا۔ ایک صفت یا ایک سے زیادہ صفات کے ظہور میں کوئی فرق نہیں پیدا ہوتا یعنی جس طرح خدا کی تمام صفات کا کسی بندے میں مستقلاً پایا جانا ممتنع عقلی ہے بالکل اسی طرح کسی ایک صفت خداوندی کا بھی بندے میں بالاستقلال پایا جانا محال ہے۔
بندے کا مظہر صفات الوہیت ہونے کا یہی مطلب ہے کہ وہ انوارِ صفات سے منور ہو جائے نہ یہ کہ صفاتِ الٰہیہ عرض قائم بالغیر کی طرح اس کی ذات میں پائی جائیں۔ ایسا عقیدہ کتاب و سنت کے منافی اور صریح الحاد و بے دینی ہے۔ علامہ ابو الفضل شہاب الدین سید محمود الوسی حنفی بغدادی روح المعانی میں اسی مسئلہ میں ارباب ریاضت و مجاہدہ کا ذکر فرماتے ہوئے ایک طویل بیان میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
’’جب طالب صادق محبوب کے راستے میں لذتیں اور راحتیں پانے کی وجہ سے شہواتِ نفسانیہ سے خالی ہو جاتا ہے اور اس کی زندگی اور اوقات ہر قسم کی کدورتوں سے پاک اور صاف ہو جاتے ہیں تو اس کا باطن روشن ہو جاتا ہے اور انوارِ غیب کی تجلیاں اس پر ظاہر ہوتی ہیں اور اس کے لئے ملکوت کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ جس سے اس کو بار بار نوری شعاعیں محسوس ہوتی ہیں اور وہ مثالی صورتوں میں امور غیبیہ کا مشاہدہ کرتا ہے پھر وہ جب ان امور میں سے کسی شے کا مزہ چکھتا ہے تو گوشہ نشینی، تنہائی، ذکر اور ہمیشہ پاک رہنا اور عبادت اور مراقبہ اور نفس کا محاسبہ اس کے لئے مرغوب ہو جاتا ہے اور وہ تمام حسی ملذذات سے اجتناب کرنے لگتا ہے اور اس کا دل ان کی محبت سے خالی ہو جاتا ہے اور پھر وہ اپنے باطن کے ساتھ حق تعالیٰ کی طرف پوری طرح متوجہ ہو جاتا ہے تو اس کے لئے وجدو سکر اور شوق و عشق اور بے چینی کا ظہور ہونے لگتا ہے اور یہ چیزیں اس کو اس کے نفس سے فانی اور غافل کر دیتی ہیں پھر وہ پوشیدہ حقائق اور غیبی انوار کو دیکھتا ہے تو وہ مشاہدہ، معائنہ اور مکاشفہ کے ساتھ متصف ہو جاتا ہے اور اس کے لئے انوار حقیقیہ ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ یہ انوار جو اس پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں، کبھی پوشیدہ بھی ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ پختہ ہو کر اس دورنگی (ظہور و خفا) سے نجات پاتا ہے (اس پر ظہور ہی کا حال رہتا ہے) اور اس پر سکینتِ روحانیہ اور طمانیت الٰہیہ کا نزول ہوتا ہے اور ان احوال اور روشنیوں کا وارد ہونا اس کے لئے ملکہ بن جاتا ہے پھر وہ عوالم جبروت میں داخل ہو کر ان عقول مجردہ اور انوارِ قاہرہ کا مشاہدہ کرتا ہے جو نگہبانی کرنے والے ملائکہ مقربین سے ہیں اور ان کے انوار کے ساتھ متصف ہو جاتا ہے اس وقت اس کے لئے عظمت اور کبریاء الٰہیہ کی تجلیاں اور سلطانِ احدیت کے انوار ظاہر ہوتے ہیں تو وہ ہبایٔ منثوراً کر دیتے ہیں اور اس کی انانیت کے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کے لئے گِر کر تعین ذاتی میں گم ہو جاتا ہے اور اس کا وجود وجودِ الٰہی میں فنا ہو جاتا ہے۔ یہ مقام محو اور فنا کا مقام ہے اور وہ سالکین کے پہلے سفر کی منزل ہے۔‘‘
پھر اگر وہ اسی محو و فنا کے حال میں رہا اور بقاء و صحو کی طرف نہ آیا تو عین جمع میں مستغرق ہو کر حق کے ساتھ (مشغول ہونے کی وجہ سے) تمام مخلوق سے محجوب ہو جاتا ہے اور اس کی نظر حق تعالیٰ جل شانہٗ کے مشاہدہ جمال سے نہیں چوکتی او راس کی ذات اور جلال کے انوار کو وہ ہر وقت دیکھتا رہتا ہے۔ اس وقت کثرتِ شہودِ حق میں مضمحل ہو جاتی ہے اور تفصیل وجود باری کے سامنے روپوش ہو جاتی ہے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس کے اوپر ایک اور مرتبہ ہے جو سکر سے صحو اور فنا سے بقا کی طرف آنے کے بعد ملتا ہے اور سالک عین جمع میں تفصیل کو دیکھتا ہے اور اس کا سینہ حق اور خلق دونوں کے لئے فراخ ہو جاتا ہے اور یہ دیکھنا ایسے طریقہ پر ہوتا ہے جس میں تکثر اور تجسم کو دخل نہیں ہوتا اور یہ ایسا طور ہے جو طورِ عقل سے وراء الوراء ہے۔
اور بعض عارفین کاملین کی عبارت میں واقع ہوا ہے کہ عارف کبھی حقیقت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے اخلاق کے ساتھ متخلق ہو جاتا ہے نہ بایں معنیٰ کہ اللہ کی صفات اس کے لئے ایک عرض ہو جائیں جو قائم بالنفس ہو۔ کیوں کہ یہ اس قبیل سے ہیں کہ جس کا کبھی تصور بھی نہیں ہو سکتا اور ایسی بات کہنا شریعت طریقت اور حقیقت سے نکل جانا ہے بلکہ یہ تخلیق ایک دوسرا علاقہ ہے جو صفات کو نیہ بدنیہ کے علاقے سے بہت زیادہ کامل اور اکمل ہے جس کی حقیقت معلوم نہیں ہو سکتی۔ (۱)
بندے کا مظہر صفاتِ الٰہیہ ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار قرآن و حدیث کی روشنی میں کسی طرح نہیں ہو سکتا جیسا کہ ہمارے بیانِ سابق سے ہمارے ناظرین کو معلوم ہو گیا ہو گا۔ مزید وضاحت کے لئے ایک حدیثِ قدسی او رسن لیجئے جس کو امام بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے اور وہ حدیث مشکوٰۃ شریف میں بھی موجود ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
’’اللہ تعالیٰ نے (اپنے رسول اکرم ﷺ کی زبانِ اقدس پر) فرمایا کہ جس نے میرے ولی سے عداوت کی میں نے اس کو اعلانِ جنگ فرما دیا اور جن چیزوں کے ذریعہ بندہ مجھ سے قریب ہوتا ہے ان میں سب سے زیادہ محبوب چیز میرے نزدیک فرائض ہیں اور میرا بندہ نوافل کے ذریعہ میری طرف ہمیشہ نزدیکی حاصل کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو جب میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو میں اس کے وہ کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی وہ آنکھیں ہو جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے وہ ہاتھ ہو جاتا ہوں جن سے وہ حملہ کرتا ہے اور اس کے وہ پاؤں ہو جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے کچھ مانگتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگ کر کسی بری چیز سے بچنا چاہتا ہے تو میں اسے ضرور بچاتا ہوں‘‘۔الحدیث (۱)
اس حدیث کے معنیٰ بیان کرتے ہوئے یہ کہنا کہ اس کے معنیٰ صرف یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نزدیکی حاصل کرنے والے کے حواس کو اپنی پسندیدہ چیزوں کے لئے وسیلہ بنا دیتا ہے اور وہ بندہ اپنے کانوں سے کوئی ناجائز چیز نہیں سنتا اور اپنی آنکھوں سے خلاف حکم شرع کوئی چیز نہیں دیکھتا اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں سے خلاف شرع کوئی کام نہیں کرتا، غلط اور حدیث شریف میں تحریف کرنے کے مترادف ہے۔ الفاظِ حدیث ان معنی کے متحمل نہیں کیوں کہ ان معنی کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے نزدیکی حاصل کرنے والا بندہ محبوب ہونے کے بعد اپنے کسی عضو یا حصہ سے کوئی گناہ نہیں کرتا اور وہ اپنے کان اور آنکھ وغیرہ سے جو کام کرتا ہے وہ سب جائز اور شرع کے مطابق ہوتے ہیں لیکن ان معنی کو جب الفاظِ حدیث پر پیش کیا جاتا ہے تو کوئی لفظ ان کی تائید نہیں کرتا۔ ایک معمولی سمجھ والا انسان بھی اس بات کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ گناہوں سے بچنے کا مرتبہ تو اسے محبوبیت سے پہلے ہی حاصل ہو گیا ہے۔ اب اگر محبوبیت کے بعد بھی وہ اسی مقام پر رہے تو یہ اس کے حق میں بلندیٔ مراتب ہو گی یا ترقی معکوس۔ اگر معصیتوں میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی خدا کی محبوبیت کا مقام حاصل ہو سکتا ہے تو تقویٰ اور پرہیز گاری کی کوئی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ نص قرآنی اس امر پر شاہد ہے کہ اتباع رسول ﷺ (تقویٰ اور پرہیزگاری) کے بعد ہی اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کا مرتبہ حاصل ہو تا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ
حضور ﷺ کی اتباع یعنی تقویٰ اور پرہیز گاری کے بغیر مقامِ محبوبیت خداوندی کا حصول نا ممکن ہے۔ ’’کُنْتُ سَمْعَہٗ وَبَصْرَہٗ‘‘ کا مرتبہ ’’فَاِذَا اَحْبَبْتُ‘‘ کے بعد ہے جس کا مقتضی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اس بندے کی سمع اور بصر ہونا ’’اتقاء عن المعاصی‘‘ کے علاوہ اس سے بلند او ربالا مرتبہ ہے جس کو گناہوں سے پاک ہونے کے بعد ہی حاصل کیا جاسکتا ہے جو پرہیز گاری کا نتیجہ اور قربِ نوافل کا ثمرہ ہے۔
ہمارے مخالفین کے مستند اور مسلم محدث انور شاہ صاحب کشمیری فیض الباری شرح بخاری (۱) جزو رابع میں اسی حدیث کے تحت لکھتے ہیں
’’علمائے شریعت نے کہا ہے کہ اس حدیث کے یہ معنیٰ ہیں کہ بندے کے اعضاء جوارح رضائے الٰہی کے تابع ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ رضائے رب کے خلاف بالکل حرکت نہیں کرتے تو جب اس کے سمع و بصر اور تمام اعضاء جوارح کی غایت اللہ تعالیٰ ہو جائے تو اس وقت یہ کہنا صحیح ہو گا کہ وہ بندہ اللہ ہی کے لئے سنتا اور اس کے لئے بولتا ہے تو گویا اللہ تعالیٰ اس کی سمع و بصر ہو گیا۔ میں کہتا ہوں کہ حدیث کے یہ معنیٰ بیان کرنا حق کے الفاظ سے تجاوز اور کجروی ہے۔ اس لئے کہ بصیغہ متکلم اللہ تعالیٰ کا ’’کُنْتُ سَمْعَہٗ‘‘ فرمانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ عبد متقرب بالنوافل میں اس کے جسم اور صورت کے سوا کچھ باقی نہیں رہا اور اس میں صرف اللہ تعالیٰ ہی متصرف ہو گیا ہے اور فنا فی اللہ سے صوفیاء کی مراد بھی یہی ہے کہ بندہ اپنی خواہشاتِ نفس سے اس طرح خالی ہو جائے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی چیز تصرف کرنے والی (سننے، دیکھنے اور بولنے والی) باقی نہ رہے۔ اس حدیث میں وحدۃ الوجود کی چمک ہے اور مسئلہ وحدۃ الوجود میں، میں اتنا متشدد نہیں لیکن شاہ عبدالعزیز کے زمانہ تک ہمارے مشائخ اس میں نہایت متشدد اور حریص تھے۔
’’بڑے تعجب کی بات ہے کہ میں ان کی محبت و اشتیاق میں پگھلا جا رہا ہوں اور ہمیشہ ان کے متعلق سوال کرتا رہتا ہوں حالانکہ وہ میرے ساتھ ہیں اور میری آنکھیں ان کے لئے روتی رہتی ہیں حالانکہ وہ پتلی میں ہیں اور میری روح ان کے لئے مشتاق رہتی ہے اور وہ میرے پہلو میں ہیں‘‘۔
بندے میں صفات خداوندی کے ظہور کا مرتبہ درحقیقت وہی مقام ہے جس کو قرآن و حدیث کی روشنی میں ہم بیان کرتے چلے آ رہے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی صفت سمع اور بصر اور قدرت کے انوار بندے کی سمع، بصر اور قدرت میں ظاہر ہونے لگتے ہیں اور اس طرح یہ عبد متقرب بالنوافل صفات الٰہیہ کا مظہر بن جاتا ہے یعنی یہ بندہ اللہ کے نور سمع سے سنتا ہے اور اسی کے نور بصر سے دیکھتا ہے اور اسی کے نور قدرت سے تصرف کرتا ہے نہ خدا بندے میں حلول کرتا ہے نہ بندہ خدا ہو جاتا ہے بلکہ خدا کا یہ مقرب بندہ مظہر خدا ہو کر کمال انسانیت کے اس مقام پر فائز ہوتا ہے جس کے لئے اس کی تخلیق ہوئی تھی۔
اگر آپ غور فرمائیں تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ آیۂ کریمہ ’’وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ‘‘ کے معنی یہی ہیں جن کا مصداق یہ عبد مقرب ہے عبادات کے معنی پامالی کے ہیں یعنی عبد مقرب اپنی انانیت اور صفات بشریت کو اپنے رب کی بارگاہ میں پامال یعنی ریاضت و مجاہدہ کے ذریعہ ان کو فنا کر دیتا ہے اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس بندے میں اس کے اپنے صفاتِ عبدیت کے بجائے صفاتِ حق متجلی ہوتی ہیں اور انوار صفاتِ الٰہیہ سے وہ بندہ منور و مستنیر ہو جاتا ہے۔ دیکھئے فیض الباری (۱) میں انور شاہ صاحب کشمیری اس مقام پر فرماتے ہیں۔
’’جب درخت سے ’’اِنِّیْ اَنَا اللّٰہُ‘‘ کی آواز آ سکتی ہے تو متقرب بالنوافل کا کیا حال ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی سمع و بصر نہ ہو سکے اور اللہ تعالیٰ کا اپنے مقرب بندوں کی سمع و بصر ہو جانا ایسی صورت میں کیوں کر محال ہو سکتا ہے جب کہ وہ ابن آدم جو صورت رحمٰن پر پیدا کیا گیا شرف و کمال میں شجر موسیٰ علیہ السلام سے کسی طرح کم نہیں‘‘۔
اور ملاحظہ فرمائیے: امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر کبیر کی پانچویں جلد (۲) میں فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کی زبان اقدس پر فرمایا
’’میرا بندہ میری طرف کسی چیز کے ذریعہ وہ نزدیکی حاصل نہیں کر سکتا جو ادائے فرائض کے ذریعے حاصل کرتا ہے اور نوافل کے ذریعہ وہ ہمیشہ مجھ سے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں۔ پھر جب وہ میرا محبوب ہو جاتا ہے تو میں اس کے کان اور آنکھ اور زبان اور دل اور ہاتھ اور پاؤں ہو جاتا ہوں۔ وہ مجھ سے سنتا ہے، مجھ سے دیکھتا ہے، مجھ سے بولتا ہے اور مجھ سے چلتا ہے۔ اور یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ان بندگان مقربین بارگاہِ ایزدی کی آنکھوں، کانوں بلکہ تمام اعضاء میں غیر اللہ کے لئے کوئی حصہ باقی نہ رہا۔ اس لئے اگر یہاں اللہ تعالیٰ کے غیر کے لئے کوئی حصہ باقی رہا ہوتا تو اللہ تعالیٰ یہ کبھی نہ فرماتا کہ میں اس کی سمع اور بصر ہو جاتا ہوں‘‘۔
یہی امام رازی تفسیر کبیر کی اسی پانچویں جلد میں عبارتِ مسطورہ بالا کے بعد رقمطراز ہیں۔
’’اور اسی لئے حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ نے فرمایا کہ خدا کی قسم! میں نے خیبر کا دروازہ جسمانی قوت سے نہیں اکھاڑا بلکہ ربانی قوت سے اکھاڑا تھا اور اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ اس وقت حضرت علی کی نظر عالم اجساد سے منقطع ہو چکی تھی اور ملکی قوتوں نے حضرت علی کو عالم کبریا کے نور سے چمکا دیا تھا، جس کی وجہ سے ان کی روح قوی ہو کر ارواحِ ملکیہ کے جواہر سے مشابہ ہو گئی تھی اور اس میں عالم قدس و عظمت کے انوار چمکنے لگے تھے۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں وہ قدرت حاصل ہو گئی جو ان کے غیر کو حاصل نہ تھی او راسی طرح جب کوئی بندہ نیکیوں پر ہمیشگی اختیار کرتا ہے تو اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ’’کُنْتُ لَہٗ سَمْعًا وَّبَصَرًا‘‘ فرمایا ہے۔ جب اللہ کے جلال کا نور اس کی سمع ہو جاتا ہے تو وہ دور و نزدیک آوازوں کو سن لیتا ہے اور جب یہی نور اس کی بصر ہو گیا تو وہ دور و نزدیک کی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے اور جب یہی نور جلال اس کا ہاتھ ہو گیا تو یہ بندہ مشکل اور آسان، دور اور قریب کی چیزوں میں تصرف کرنے پر قادر ہو جاتا ہے۔ (۱)
علامہ ابو الفضل (۲) شہاب الدین سید محمود الوسی حنفی بغدادی روح المعانی میں فرماتے ہیں۔
’’عارفین نے ذکر کیا ہے کہ قوم میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ میں، اللہ کے لئے، اللہ کے ساتھ، اللہ سے سنتے ہیں اور وہ سمع انسانی کے ساتھ نہیں بلکہ سمع ربانی کے ساتھ سنتے ہیں جیسا کہ حدیث قدسی ’’کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ‘‘ میں وارد ہے۔
امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ الیواقیت والجواہر جلد اول میں فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی کہ جب وہ کسی بندے کو محبوب بنا لیتا ہے تو وہ اس کی سمع اور بصر ہو جاتا ہے (الحدیث) وہ بندہ اللہ تعالیٰ کی صفت سمع و بصر کا مظہر بن جاتا ہے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض بندوں کو جنہیں وہ چاہتا ہے ان میں اپنی کل (۱) صفات جمع کر دیتا ہے اور کبھی بعض صفات عطا فرماتا ہے اور درجہ بدرجہ تھوڑی تھوڑی صفات عطا فرماتا رہتا ہے۔ (۲)
انفاسِ رحیمیہ (۳) مکتوبات شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ والد ماجد شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی میں ہے۔
’’اور رحمت کاملہ نازل ہو اس ذات پاک پر جو اللہ تعالیٰ کے مظہر اتم و اکمل ہیں اور اس کے حسن و جمال کی حسین و جمیل جلوہ گاہ ہیں جن کا نام پاک محمد مصطفیٰ ﷺ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ سب سے زیادہ واصل ہیں‘‘۔
نیز اسی کتاب (۴) میں ہے
’’اور بہترین تحفے اس کے حبیب پر جو اللہ تعالیٰ کے جمال و کمال کا آئینہ ہیں اور اس کے خزائن بخشش کی کنجی ہیں‘‘۔
مظہر صفاتِ باری تعالیٰ کو شرک کہنے والے ذرا آنکھیں کھول کر ان جلیل القدر آئمہ دین، علمائے اعلام، محدثین و مفسرین اور علمائے عارفین کی عباراتِ جلیلہ کو پڑھیں اور سوچیں کہ ان کے مصنوعی شرک کی زد میں کیسی کیسی مقدس ہستیاں آتی ہیں۔
ہمارے مخالفین کہتے ہیں کہ مشرکین اپنے تلبیۂ حج میں کہا کرتے تھے لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِلَّا شَرِیْکًا تَمْلِکُہٗ وَمَا مَلَکَ یعنی ’’اے اللہ! تیرا کوئی شریک نہیں لیکن وہ شریک جس کا تو مالک ہے اور وہ تیرا مالک نہیں‘‘۔ یہ کلام اس دعویٰ کی واضح دلیل ہے کہ مشرک ہونے کے لئے غیر اللہ کو متصرف بالاستقلال ماننا ضروری نہیں بلکہ محض تملیک اور عطائے کمالات کا اعتقاد بھی مشرک بنا دیتا ہے۔ نیز یہ کہ مشرکین مکہ اپنے بتوں کے حق میں تصرف بالاستقلال کے قائل نہ تھے کیوں کہ استقلالِ ذاتی اور مملوکیت میں منافات ہے۔
جواباً عرض ہے کہ مخالفین کا یہ استدلال بھی عجیب مضحکہ خیز ہے کہ وہ شریک یعنی اثباتِ توحید میں مشرکین کے کلام سے دلیل لاتے ہیں اور اتنا نہیں سمجھتے کہ مشرکین کا شرک، قدرت و تصرف ہی میں منحصر نہ تھا بلکہ وہ استحقاقِ عبادت میں بھی غیر اللہ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ان کا مقولہ مذکور ہے۔ ’’مَا نَعْبُدُ ہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفیٰ۔‘‘ یہ آیت اس مفہوم میں بالکل صریح ہے کہ مشرکین مکہ بتوں کی عبادت کرتے تھے خواہ ان کی عبادت کا مقصد کچھ ہو مگر ان کا اپنے بتوں کی عبادت کرنا بہرحال ثابت ہے۔ معلوم ہوا کہ مشرکین مکہ استحقاق عبادت میں غیر اللہ کو شریک مان کر ’’اِلَّا شَرِیْکًا‘‘ بولاکرتے تھے اور ان کا مشرک ہونا عطاء اوصاف کے اعتقاد کی وجہ سے نہیں بلکہ غیر اللہ کو مستحق عبادت سمجھنے کی بناء پر تھا۔ لہٰذا محض تملیک اور عطائے کمالات کے عقیدے پر مشرک ہونے کا دعویٰ کلام مشرکین سے بھی ثابت نہ ہوا۔
مخالفین کے استدلال کا دوسرا پہلو بھی انتہائی لغو ہے۔ کیوں کہ مشرکین سے ان کے معبودوں کے حق میں تصرف بالاستقلال کی نفی مملوکیت اور تصرف بالاستقلال میں منافات پر مبنی ہے حالانکہ مشرکین کے جاہلانہ نظریے کے مطابق ان دونوں کے درمیان کوئی منافات نہیں اس لئے کہ جب ان کے نزدیک ایک مملوک معبود ہو سکتا ہے تو متصرف بالاستقلال کیوں نہیں ہو سکتا؟
اگر اس منافات کی وجہ سے مشرکین کے اعتقاد استقلال بالتصرف کی نفی کر دی جائے تو ان سے بتوں کی عبادت کی بھی نفی کرنی پڑے گی۔ کیوں کہ جس طرح مملوکیت اور تصرف بالاستقلال میں منافات ہے بالکل اسی طرح مملوکیت اور معبودیت میں بھی منافات ہے۔ پس اگر اعتقاد مملوکیت کے ساتھ مشرکین کے ناپاک دلو ںمیں معبودیت کا عقیدہ جمع ہو سکتا ہے تو مملوکیت کے عقیدہ کے ساتھ تصرف بالاستقلال کا اعتقاد بھی پایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا یہ پہلو بھی ’’ھَبَائً مَنْثُوْرًا‘‘ ہوگیااور مشرکین مکہ کے قول سے استدلال کر کے ہمارے مخالفین نے جو استعانت بالمشرکین کی تھی اس سے بھی مقصد برآری نہ ہوئی۔ وللّٰہ الحمد

1 comment:

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...