Sunday, 21 February 2016

فتویٰ لگانے میں احتیاط کی ضرورت:۔افادات امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

اس مقام پر ایک خاص بات یہ ہے کہ جب علماے کرام سے کہا جاتا ہے کہ آپ لوگ فلاں تحریک و ادارے یا فلاں شخص کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ تو بلا دلیل کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ تو خارج از اسلام ہے۔ فلاں تحریک تو بدعقیدہ تحریک ہے، یا فلاں شخص تو صلح کلی کا حامی ہے۔ ہم بڑے ادب سے عرض کرتے ہیں کہ جو ضروریاتِ دین میں سے کسی شے کا منکر ہو باجماع مسلمین یقیناً قطعاً کافر ہے۔ اگرچہ کروڑ بار کلمہ پڑھے مگر اس کی وضاحت تو کر دی جائے کہ فلاں شخص نے ضروریاتِ دین میں سے فلاں چیز کا انکار کیا ہے اور اگر واقعی ایسا ہے تو علماء کرام کو بہ اتفاقِ رائے فیصلہ صادر کرنا چاہیے تاکہ جماعتی انتشار ختم ہو اور معاملہ یک طرفہ ہو اور اگر معاملہ ایسا نہیں ہے تو کسی صحیح العقیدہ عالم کو یا کسی دینی تحریک اور ادارے کو صلح کلی، بدعقیدہ یا خارج از اسلام کہنے میں سخت احتیاط کرنی چاہیے۔ سنی سنائی باتوں پر بلا تحقیق کسی کو مجرم مان کر اس پر سخت حکم شرعی نافذ کر دینا تو ویسے بھی خلاف شریعت عمل ہے اور فتویٰ نویسی کے تقاضوں کے منافی بھی ہے اور ذمہ دار علما کو یہ غیر محتاط، غیر ذمہ دارانہ اور طفلانہ طرز عمل زیب نہیں دیتا۔ ہم اس حوالے سے بھی امام احمد رضا قدس سرہ کے چند اقتباسات نقل کرتے ہیں۔ امام اہلِ سنت فرماتے ہیں :

’’فرض قطعی ہے کہ اہل کلمہ کے ہر قول وفعل کو اگر چہ بظاہر کیسا ہی شنیع وفظیع ہو حتی الامکان کفر سے بچائیں اگر کوئی ضعیف سے ضعیف، نحیف سے نحیف تاویل پیدا ہو، جس کی رُو سے حکمِ اسلام نکل سکتا ہوتو اس کی طرف جائیں، اور اس کے سوا اگر ہزار احتمال جانبِ کفر جاتے ہوں تو خیال میں نہ لائیں۔

(فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 317)

اعلیٰ حضرت مزید فرماتے ہیں :

’’حدیث میں ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

کفوا من اهل لا الٰه الا الله لا تکفروهم بذنب فمن اکفر اهل لا الٰه الا الله فهو الی الکفر اقرب.

’’لا الٰہ الا اللہ کہنے والوں سے زبان روکو، انھیں کسی گناہ پر کافر نہ کہو، لاالٰہ الااللہ کہنے والوں کو جو کافر کہے وْہ خود کفر سے نزدیک تر ہے‘‘

(المعجم الکبير، ج : 12، ص : 272)

امام احمد رضا قدس سرہ اس کے بعد ایک دوسری حدیث نقل فرماتے ہیں :

’’ تین باتیں اصل ایمان میں داخل ہیں، لاالٰہ الااللہ کہنے والے سے (کفر منسوب کرنے سے) باز رہنا اور اسے گناہ کے سبب کافر نہ کہا جائے اور کسی عمل پر اسلام سے خارج نہ کہیں‘‘

(فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 318)

اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز مزید فرماتے ہیں :

ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ ائمہ دین فرماتے ہیں، جو کسی مسلمان کی نسبت یہ چاہے کہ اس سے کفر صادر ہو، وہ کفر کرے یا نہ کرے، یہ چاہنے والا بھی کافر ہو گیا کہ اس نے مسلمان کو کافر ہونا چاہا۔

(فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 403)

مجدد ملت اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کی ان عبارتوں کی روشنی میں اب ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔ اس مقام پر ہم ایک بار پھر یہ وضاحت کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے اکابر نے جن کلمہ گو لوگوں کی تکفیر کی ہے، اس کی وجہ ان کا ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک کا انکار ہے۔ اس لئے حسام الحرمین کی حقانیت و صداقت اپنی جگہ مسلم ہے۔

آج بہت سے علماء امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کے اس مشرب کے برعکس تحریر و تقریر کے جوہر دکھاتے پھر رہے ہیں حالانکہ وہ صبح وشام مسلک اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کو حق و سچ ثابت کرتے نہیں تھکتے۔ آئے دن ان کی طرف سے کفریہ فتاوٰی جاری ہوتے ہیں۔ فریقِ ثانی کی دعوتِ دین اور اس کی مقبولیت عامہ سے خائف ہو کر حاسدانہ مخالفت کے ہاتھوں فتوؤں کی بوچھاڑ کے ساتھ ساتھ کردار کشی کی بھی منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ انتہائی شنیع حرکت ہے۔ ہمیں اس قسم کی حرکتوں سے بہرصورت باز رہنا چاہیے۔

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...