Wednesday 24 February 2016

نور کے معنٰی اور حضور نے سب کو چمکایا ، نور آفتاب و نور محمدی میں فرق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

1 comments


قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ ٱللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ پارہ 6 سورہ مائدہ رکوع 3)بے شک اللہ کی طرف سے تمہارے پاس نور آیا اور روشن کتاب۔یہ آیت کریمہ حضور اقدس صلے اللہ علیہ وسلم کی عظیم الشان نعت ہے، اس میں اہل کتاب کو مخاطب فرما کر ارشاد ہو رہا ہے کہ اے اللہ کے بندو تمہارے پاس بڑی شان والا نور اور کھلی ہوئی کتاب آپہنچی۔ اس آیت میں حضور علیہ السلام کو نور فرمایا۔ نور وہ ہے کہ جو آپ تو خود ظاہر ہو اور دوسروں کو ظاہر کردے۔ دیکھو آفتاب نور ہے کہ آفتاب کو دیکھنے کےلئے کسی روشنی کی ضرورت نہیں وہ خود روشن ہے اور جس پر اس نے خود توجہ کردی وہ بھی چمک گیا۔ دنیا میں کوئی اپنے خاندان سے مشہور ہوتا ہے۔ کوئی پیشہ کی وجہ سے، کوئی سلطنت کی وجہ سے، لیکن حضور علیہ السلام کسی وجہ سے نہیں چمکے، وہ تو خود نور ہیں، ان کو کون چمکاتا۔ بلکہ ان کی وجہ سے سب چمک گئے۔ اسی لئے کسی بادشاہی خاندان میں پیدائش پاک نہ ہوئی۔ دولتمند گھرانے میں جلوہ گری نہ فرمائی، حتٰی کہ ولادت پاک سے پہلے والد کا سایہ بھی سر سے اٹھالیا گیا۔ نبوت کے ظہور سے پہلے تقریباً سارے اہل قرابت آگے پیچھے دنیا سے چلے گئے، اور بعد نبوت جو باقی رہے وہ خون کے پیاسے، تاکہ کوئی نہ کہہ سکے کہ حضور علیہ السلام کی یہ شہرت ان کے خاندان یا اہل قرابت کی وجہ سے ہے۔ غرضکہ اس قدر بے سروسامانی ہے۔ مگر تمام دنیا پہچانتی ہے۔ کیسی پہچانتی ہے کہ ولادت پاک سے پہلے دنیا میں ہلچل مچ گئی۔ کہ نبی آخر الزمان کا زمانہ قریب آگیا۔ دوستوں میں خوشی اور دشمنوں میں رنج پھیل گیا۔ جیسے کہ سورج کے نکلنے سے پہلے آسمان پر روشنی پھیل جاتی ہے، بچپن شریف میں تمام لوگ تو کیا جانور اور پتھر بھی پہچانتے ہیں کہ یہ نبی آخرالزمان ہیں۔حلیمہ دائی حضور علیہ السلام کو لے کر اپنے گھر چلیں، تو خچر نے کہا کہ اے حلیمہ! میری پشت پر نبی آخر الزمان ہیں (مدارج) پھر حضور کی وہ نورانیت ہے کہ آپ کو زمین جانے، آسمان پہچانے، فرشی جانیں اور عرشی خدمتگاری کریں، اشارے سے سورج ڈوبا ہوا لوٹے، پورا چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوجاوے کیونکہ جانتا ہے کہ حضور کا اشارہ ہے۔بعد وفات شریف آج تیرہ سو سال سے زیادہ سال گزر چکے ہیں مگر زمین کے ہر گوشہ میں دنیا کے ہر ملک میں آپ کا نام آپ کے سارے کام آپ کی زندگی مبارک کا ایک ایک حال شریف دنیا والوں کے سامنے ہے۔ اتنے عرصہ میں دنیا میں معشوق گزرے، بادشاہ بھی گزرے، بڑے بڑے عالم و فاضل بھی گزرے مگر کسی کا نام بھی نہ رہاکیا خبر کتنے تارے کھلے چھپ گئےپر نہ ڈوبے نہ ڈوبا ہمارا نبییہ ذکر تھا آپ کے ظاہر ہونے کا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ کی برکت سے دوسرے کس طرح ظاہر ہوئے۔ اس کے متعلق مختصراً یہ عرض ہے کہ دنیا میں بڑے بڑا اولاد والے، مال والے، بادشاہت والے، گذرے اور انہوں نے اپنا نام باقی رکھنے کےلئے بہت کوشش کی، کسی نے کوئی عمارت بنوا کر چھوڑی جیسے کہ تاج محل وغیرہ کسی نے کوئی کتاب لکھوائی، غرضکہ اپنا نام چلانے کی بہت تدبیریں کیں، لیکن نام نہ چلا، لیکن حضور علیہ السلام کے والدین کریمین حضرت آمنہ خاتون، حضرت عبداللہ، عبدالمطلب و ہاشم وغیرھم۔ اسی طرح حضور علیہ السلام کی خدمت پرورش انجام دینے والے لوگ جیسے کہ حضرت حلیمہ دائی وغیرہ تمام دنیا میں قیامت تک کےلئے مشہور ہوگئے۔ کیونکہ صرف اس لئے کہ حضور علیہ السلام کی ذات سے ان کو نسبت ہوگئی، غرضکہ اپنے خاندان کو چمکایا اور اپنے ملک کو چمکایا، جس جگہ قدم پاک پہنچ گئے وہ جہان والوں کےلئے زیارت گاہ بن گئی۔ اگر ملک عرب میں آپ کا ظہور نہ ہوتا تو آج کعبہ کو کون جانتا اور مدینہ کو کون جانتا، دیکھو اس ملک میں نہ کوئی تماشاگاہ ہے، نہ کشمیر اور پیرس کی طرح تفریح کے انتظام نہ سبز زمین نہ میوے کے باغ مگر تمام دنیا اس کی طرف کچھی جارہی ہے۔ کیوں اس لئے کہ عرب کے چمن میں حضرت خلیل کے چمن سے ایک ایسا پھول کھلا کہ جس کی مہک سے دنیا معطر ہوگئی۔وہ پھول مدینہ کی کیاری میں جلوہ گر ہے، اس کی کشش سے سب ادھر بھاگے جارہے ہیں غرضکہ زمین و آسمان کی چکی سب کو پیس دیتی ہے، لیکن جو مدینہ والی کھونٹی مرکز عالم سے لگ جاتا ہے وہ اس چکی سے نہیں پس سکتا، سچ بچ جاتا ہے۔چکی کے پاٹن دیکھ کر اور دیا کبیرا روئےجو پاٹن میں آگیا سو ان میں بچانہ کوئےچکی چکی سب کہیں اور کیلی کہے نہ کوئےجو کیلی سے لاگا اس کا بال نہ بیکا ہوئےیہ تو دوستوں کا ذکر تھا جنہوں نے دشمنی کی وہ بھی مشہور ہوگئے جیسے ابو جہل وغیرہ۔ یہ تو نور کے معنے کی تحقیق تھی۔اب دو باتیں اور بھی قابل غور ہیں۔ ایک تو یہ کہ نور کو کتاب کے ساتھ کیوں جمع فرمایا گیا؟ وجہ یہ ہے کہ کوئی کتاب بھی اندھیرے میں نہیں پڑھی جاتی، روشنی چاہئیے۔ اسی طرح کتاب الٰہی کو وہ جان اور سمجھ سکتا ہے جس کے دل میں وہ نور الٰہی جلوہ گر ہو، جب وہ دل میں آئے تو قرآن ہاتھ میں آیاوہ جس کو ملے ایمان ملا، ایمان تو کیا رحمان ملاقرآن بھی جب ہی ہاتھ آیا، جب دل نے وہ نور ہدٰی پایادوسرے یہ کہ نور کی تنوین تعظیم کےلئے ہے یعنی بڑا نور۔ حضور کا بڑا نور ہونا چند طرح ہے اولاً یہ کہ سورج کی روشنی دنیا میں کم و بیش ہوتی رہتی ہے۔ صبح کی ہلکی، دوپہر کو زیادہ، شام کو پھر کم، رات میں بالکل غائب مگر نور رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کبھی کم نہیں، پھر سورج ہر وقت آدھی زمین کو روشن کرتا ہے۔ مگر نور حبیب علیہ السلام ساری زمین کو بلکہ فرش و عرش کو، سورج بدن کے ظاہر کو چمکاتا ہے، اور نور حبیب علیہ السلام دل و دماغ کو، خیال کو غرضکہ سب کو ہی چمکاتا ہے جو آدمی سورج سے بچنے کےلئے تہہ خانہ کوٹھڑی میں چھپ جاوے، تو دھوپ سے بچ جاوے گا۔ مگر نور محمدی تو تہہ خانہ میں، کوٹھڑی میں، پہاڑ پر، جہاں خدا کی خدائی ہے وہاں پہنچتا ہے، کسی کو محروم نہیں کرتا، جو خود اس سے فائدہ نہ اٹھائے وہ بدبخت ہے۔حضور کی ولادت مکہ معظمہ میں ہوئی، مکہ شریف بیچ زمین میں واقع ہے۔ کیونکہ محفل میں کناروں کے گیس خاص خاص جگہ روشنی دیتے ہیں، مگر درمیان کا بہت تیز گیس ساری محفل کو منور کرتا ہے دیگر انبیاء کرام اطراف عالم کے گیس تھے جو خاص جماعتوں کو ہدایت دیتے رہے۔ مگر حضور علیہ السلام ساری خدائی کے نور ہیں۔ لہٰذا بیچ میں جلوہ گری فرمائی۔ اسی لئے فرمایا۔ یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔ حضرت یوسف مصر میں جاکر چمکے، جج کچہری میں، مولوی مدرسہ میں، بابو اسٹیشن پر مگر حضور علیہ السلام ہر وقت ہر جگہ چمکے، ان کا سکہ عرش و فرش، ہر بازار میں چلتا ہے۔رب نے اس آیت میں تو حضور کو نور فرمایا اور قرآن کو فرمایا مبین یعنی ظاہر کرنے والا، نور میں اور مبین میں کیا فرق ہے؟ نور تو آنکھ سے نظر آتا ہے بلکہ اندھے بھی کچھ نہ کچھ محسوس کرلیتے ہیں اس معنی سے تو حضور علیہ السلام نور ہوئے۔ کہ اندھے ابو جہل وغیرہ بھی آپ کے قائل ہوگئے۔ یعرفونہ کما یعرفون ابناءھم مگر قرآن کریم کو وہ ہی پہچان سکا جو ایمان لے آیا۔ اور اس سے مسائل وہ ہی نکا سکتا ہے۔ جو علم و اجتہاد رکھتا ہو، قرآن کو پالینا ہر ایک کا حصہ نہیں، قرآن فرماتا ہے۔ فانھم لا یکذبونک ولٰکن الظٰلمین باٰیٰت اللہ یجحدون ۔ یعنی اے محبوب یہ کافر آپ کو جھوٹا نہیں کہتے بلکہ یہ تو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ کافر بھی محبوب علیہ السلام کو امین، سچا، راستباز جانتے تھے، ہاں قرآن کو نہ مانتے تھے۔ یہ فرق ہے نور میں اور مبین میں۔ یا یوں سمجھ لو کہ قرآن کو حضور نے چمکایا کیونکہ آپ نور ہیں اور قرآن نے حضور علیہ السلام کے اوصاف جگہ جگہ بیان فرمائے، کیونکہ وہ بیان کرنے والا، مبین ہے صلی اللہ علیہ وعلٰی اٰلہ واصحابہ وبارک وسلم

1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔