Sunday, 21 February 2016

نبی علیہ السلام کو بشر یا بھائی وغیرہ کہنا حرام ہے

نبی جنس بشر میں آتے ہیں اور انسان ہی ہوتے ہیں۔ جن یا بشر یا فرشتہ نہیں ہوتے یہ دنیاوی احکام ہیں۔ ورنہ بشریت کی ابتداء آدم علیہ السلام سے ہوئی۔ کیونکہ وہ ہی ابو البشر ہیں اور حضور علیہ السلام اس وقت نبی ہیں جبکہ آدم علیہ السلام آب و کل میں ہیں خود فرماتے ہیں کنت نبیا وادم بین الماء والطین اس وقت حضور نبی ہیں بشر نہیں سب کچھ صحیح لیکن ان کو بشر یا انسان کہہ کر پکارنا یا حضور علیہ السلام کو یامحمد یا کہ اے ابراہیم کے باپ یا اے بھائی باوا وغیرہ برابری کے الفاظ سے یاد کرنا حرام ہے۔ اور اگر اہانت کی نیت سے پکارا تو کافر ہے۔ عالمگیری وغیرہ کتب فقہ میں ہے کہ جو شخص حضور علیہ السلام کو ھذا الرجل یہ مرد اہانیت کی نیت سے کہے تو کافر ہے بلکہ یا رسول اللہ یاحبیب اللہ یا شفیع المذنبین وغیرہ عظمت کے کلمات سے یاد کرنا لازم ہے۔ شعراء جو اشعار میں یامحمد لکھ دیتے ہیں وہ تنگی موقعہ کی وجہ سے ہے پڑھنے والے کو لازم ہے کہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ لے۔ اسی طرح جو کہتے ہیں کہ۔
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحہ تیرا

یہ تیرا انتہائی ناز کا کلمہ ہے جیسے اے آقا میں تیرے قربان۔ اے ماں تو کہاں ہے ؟ اے اللہ تو ہم پر رحم فرما! اس تو اور تیرے کی حیثیت اور ہے۔

1) قرآن فرماتا ہے۔
لا تجعلوا دعآء الرسول بینکم کدعآء بعضکم بعضا (پارہ 18 سورہ 24 آیت 63)
ولا تجھروا لہ بالقول کجھر بعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم وانتم لا تشعرون (پارہ 26 سورہ 49 آیت 2)
“رسول کے پکارنے کو ایسا نہ ٹھہرالو جیسا کہ تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جاویں اور تم کو خبر نہ ہو۔“

ضبطی اعمال کفر کی وجہ سے ہوتی ہے۔ مدارج جلد اول وصل از جملہ رعایت حقوق اولیت میں ہے، “مخوانید اور ابنام مبارک اوچنانمکہ می خوایند بعضے از شما بعض را بلکہ بگوئیہ یارسول اللہ یانبی اللہ با توقیر و توضیح۔“ نبی علیہ السلام کو ان کا نام پاک لے کر نہ بلاؤ جیسے بعض بعض کو بلاتے ہیں۔ بلکہ یوں کہو یارسول اللہ یانبی اللہ توقیر و عزت کے ساتھ۔

تفسیر روح البیان زیر آیت لاتجعلوا ہے۔
والمعنی لاتجعلوا نداءکم ایاہ و تسمیتکم لہ کندآء بعضکم بعضا لاسمہ مثل یامحمد و یا ابن عبداللہ ولکن بلقبہ المعظم مثل یانبی اللہ و یارسول اللہ کما قال اللہ تعالٰی یایھا النبی و یایھا الرسول
“معنٰی یہ ہیں کہ حضور علیہ السلام کو پکارنا یا نام لینا ایسا نہ بناؤ جیسا کہ بعض لوگ بعض کو نام سے پکارتے ہیں جیسے یامحمد اور یا ابن عبداللہ وغیرہ لیکن ان کے عظمت والے القاب سے پکارو جیسے یانبی اللہ یارسول اللہ جیسا کہ خود رب تعالٰی فرماتا ہے یا ایہاالنبی یا ایہاالرسول۔“

ان آیات قرآنیہ اور اقوال مفسرین و محدثین سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کا ادب ہر حال میں ملحوظ رکھا جاوے نداء میں، کلام میں، ہر ادا میں۔

2) دنیاوی عظمت والوں کو بھی ان کا نام لے کر نہیں پکارا جاتا۔ ماں کو والدہ صاحبہ، باپ کو والد ماجد، بھائی کو بھائی صاحب جیسے الفاظ سے یاد کرتے ہیں اگر کوئی اپنی ماں کو باپ کی بیوی یا باپ کو ماں کا شوہر کہے یا اس کا نام لے کر پکارے یا اس کو بھیا وغیرہ کہے۔ تو اگرچہ بات تو سچی ہے مگر بے ادب گستاخ کہا جائیگا کہ برابری کے کلمات سے کیوں یاد کیا۔ حضور علیہ السلام تو خلیفۃ اللہ الاعظم ہیں ان کو نام سے پکارنا یا بھائی وغیرہ کہنا یقیناً حرام ہے۔ گھر میں بہن ماں بیوی بیٹی سب ہی عورتیں ہیں مگر ان کے نام و کام و احکام جداگانہ جو ماں کو بیوی یا بیوی کو ماں کہہ کر پکارے وہ بے ایمان ہی ہے اور جو ان سب کو ایک نگاہ سے دیکھے وہ مردود ہے ایسے ہی جو نبی کو امتی یا امتی کو نبی کی طرح سمجھے وہ ملعون ہے دیوبندیوں نے نبی کو امتی کا درجہ دیا ان کے پیشوا مولوی اسمعٰیل نے سید احمد بریلوی کو نبی کے برابر کرسی دی دیکھو صراط المستقیم کا خاتمہ۔ معاذاللہ

3) رب تعالٰی جس کو کوئی خاص درجہ عطا فرمائے۔ اس کو عام القاب سے پکارنا اس کے ان مراتب عالیہ کا انکار کرنا ہے اگر دنیاوی سلطنت کی طرف سے کسی کو نواب یا خان بہادر کا خطاب ملے تو اس کو آدمی کا بچہ یا بھائی وغیرہ کہنا اور ان القاب کو یاد کرنا جرم ہے کہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تم حکومت کے عطا کئے ہوئے ان خطابات سے ناراض ہو تو جس ذات عالی کو رب کی طرف سے نبی رسول کا خطاب ملے اس کو ان القاب کے علاوہ بھائی وغیرہ کہنا جرم ہے۔

4) خود پروردگار نے قرآن کریم میں حضور علیہ السلام کو یامحمد یا اخامومنین کہہ کر نہ پکارا بلکہ یا ایھاالنبی یا ایھاالرسول یاایھاالمزمل یاایھاالمدثر وغیرہ وغیرہ پیارے القاب سے پکارا حالانکہ وہ رب ہے تو ہم غلاموں کو کیا حق ہے کہ ان کو بشر یا بھائی کہہ کر پکاریں۔

5) قرآن کریم نے کفار مکہ کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ وہ انبیاء کو بشر کہتے تھے۔
قالوا ماانتم الا بشر مثلنا ولئن اطعتم بشرا مثلکم انکم اذالخسرون (پارہ 18 سورہ 36 آیت 15)
“کافر بولے نہیں ہو تم مگر ہم جیسے بشر اگر تم نے اپنے جیسے بشر کی پیروی کی تو تم نقصان والے ہو وغیرہ وغیرہ۔“

اس قسم کی بہت سی آیات ہیں اسی طرح مساوات بتانا یا انبیاء کرام کی شان گھٹانا طریقہ ابلیس ہے کہ اس نے کہا۔
خلقتنی من نار و خلقتہ من طین “خدایا تو نے مجھے آگ سے اور ان کو مٹی سے پیدا فرمایا۔“
مطلب یہ کہ میں ان سے افضل ہوں اسی طرح اب یہ کہنا کہ ہم میں اور پیغمبروں میں کیا فرق ہے۔ ہم بھی بشر وہ بھی بشر بلکہ ہم زندہ وہ مردے یہ سب ابلیسی کلام ہے۔
(اس پر جلد پوسٹیں بھی پیش کی جائیں گی ان شاء اللہ )

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...