اسلام ایک آفاقی مذہب ہے نبی کریم ﷺ کی بعثت کے جن مقاصد کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے ان میں سے ایک انسانوں کے قلوب کا تذکیہ اور اخلاق حسنہ کی تکمیل ہے۔ انسان کی طبعی خصلتوں اور پیدائشی عادتوں کو اخلاق کہتے ہیں۔ اخلاق ہی انسانیت کا وہ جوہر ہے جو درحقیقت انسان کو پستی سے نکال کر بلندی پر فائز کرتا ہے۔ یوں تو دنیا کے تمام مذاہب و ادیان میں اخلاق کی تعلیم موجود ہے۔ مگر مذہب اسلام نے خصوصی طورپر اخلاق حسنہ پر زور دیاہے۔ ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق دعوت کے فرائض انجام دے۔ اور یہ اہم کام اچھے اخلاق و کردار کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ بداخلاقی سے نفرت و عداوت کو بڑھاوا ملتا ہے اور اس کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ قرآن حکیم نے اس اہم نکتے کو یوں بیان کیا ہے ’’اگرآپ تند مزاج اور سخت دل ہوتے تو لوگ ضرور آپ سے منتشر ہوجاتے‘‘۔
سورہ قلم میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ بیشک آپ اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں‘‘پیغمبر اسلام نے اہل ایمان کو خوش اخلاقی کے ذریعہ زندگی کے تمام گوشوں کو آراستہ کرنے کاحکم دیا ہے۔ اور آپ نے پوری زندگی اس کا عملی نمونہ پیش کیا ۔ عام طورپر کمزوروں اور ما تحتوں کے ساتھ خوش اخلاقی کا مظاہرہ بے حد دشوار ہوتا ہے۔ لیکن میرے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کا حال یہ تھا کہ جب آپ ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے جاتے تو شاداں و فرحاں رہتے اور مسرت و شادمانی آپ کے رخسار سے نمایاں ہوتا۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی شہادت اخلاق حسنہ کی بابت یہ ہے کہ آپ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک فرماتے ، کمزوروں ، محتاجوں ، مفلسوں ، ضعیفوں ، غریبوں اور مسافروں کا بار گراں اپنے گردن اٹھاتے اور ان کی مالی مدد فرماتے، مہمانوں کی مہمان نوازی آپ کا شیوہ تھا۔ حضرت خدیجہ کس طرح آپ کے خصائل و شمائل بیان فرمارہی ہیںآپ کے اخلاق حسنہ کی گرویدہ دکھائی دے رہی ہیں۔ آپ کی رفیقہ حیات ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے صحابہ کرام نے آپ کے حسن اخلاق کے بارے میں پوچھا تو آپ نے برجستہ فرمایا’’ آپ کے اخلاق قرآن تھا،یعنی نبی کریم کی زندگی کا ہر لمحہ آپکے شب و روز، حیات طیبہ ، شام و سحر ،قول و فعل ، نشست و برخاست ، رفتار و گفتار، وضع قطع، آپ کی جلوت و خلوت ،آپ کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، الغرض آپ کی پوری زندگی قرآن کریم کی عمل تفسیر۔ گویا قرآن کریم قال اور سرکار دوجہاں اس کا حال ہے ۔جس طرح قرآن مقدس کی حد کوکوئی پانہیں سکتا۔ اسی طرح آپ کے اخلاق کریمہ کا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے اخلاق حسنہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں میں نے مسلسل دس سال سفر و حضر میں آپ کی خدمت میں رہا مگر حضور نے کبھی اف تک نہ کہا۔
جنگ احد میں آپ ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوگئے آپ کا چہرہ مبارک لہولہان ہوگیا۔ صحابہ کرام نے آپ کو جب اس حال میں دیکھا تو عرض کیا کہ آپ ان کافروں کی ہلاکت کی دعا فرمائیں تاکہ انہیں اپنے کیے کی سزا ملے مگر رحمت عالم ﷺ نے ان ستمگروں اور عزیت پہنچانے والوں کے لئے دعا فرمائی اے اللہ میری قوم کو ہدایت نصیب فرما۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حسن اخلاق اور اعلیٰ کردار کا جامع بنایا۔ تاکہ ساری انسانیت آپ کے اخلاق و محاسن کو اپنا کر رہنمائی حاصل کرسکے۔ حضور ﷺ نے فرمایا میں اس لئے بھیجا گیا ہوں تاکہ اخلاق کی بزرگیوں اور اعمال کی خوبیوں کو مرتبہ کمال تک پہنچا کر انہیں کامل و مکمل کردوں ۔ انسان کی زندگی میں اخلاق کی بڑی اہمیت ہے اگر انسان کے اخلاق اچھے ہوں تو ان کی زندگی اطمینان و سکون کے ساتھ گزرے گی۔ اور دوسرے کے لئے بھی قلبی سکون اور رحمت کا باعث ہوگی۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے عبداللہ ابن عمرسے روایت ہے تم سے سب سے اچھے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہوں۔ نیز حضور تاجدار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ایمان والوں میں زیادہ کامل ایمان والے وہ لوگ جو اخلاق میں زیادہ اچھے ہیں۔ اخلاق حسنہ ایمان اور اسلام کی نظر میں ایک عظیم المرتبت صفت ہے اسلام نے اخلاق کو پائیداری عطا فرمانے کے لئے قول و فعل میں تضاد کی سخت مزمت کی اور ارشاد ربانی ہے لماتقولون مالا تفعلون ۔ ایسی بات کہتے ہو جو خود نہیں کرتے۔ مطلب یہ ہے کہ جو کہو اسے کر دکھاؤ اور اگر آپ ایسانہیں کرتے تو آپ سے بداخلاق کوئی نہیں۔
حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رحمت عالم کے ہمراہ تھا اور دوش مبارک پر ایک چادر تھی اچانک ایک اعرابی آیا اور اس زور سے چادر مبارک کو کھینچا کہ آپ اس کے برابر آگئے ۔ اور آپ کی گردن مبارک پر چادر کی خراش کے نشان آگئے ۔ اعرابی کہنے لگا آپ نے اللہ کے مال میں کچھ عطا فرمائیں۔ اعرابی کی اس حرکت پر رحمت عالم کو نہ غصہ آیا اور نہ آپ نے اس سے اعراض فرمایا۔ بلکہ ہنس کر اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اور عطیہ دینے کا حکم فرمایا۔ ۹؍ہجری میں اسلامی لشکر جب فاتحانہ شان و شوکت کے ساتھ یمن میں داخل ہوا تو لشکر اسلامی کے ڈر سے عدی بن حاتم یمن چھوڑ کر ملک شام راہ فرار اختیار کی اور ان کی بہن گرفتار ہوکر مدینہ منورہ آگئیں اور رسول پاک کے اخلاق حسنہ سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ واپس جاکر اپنے بھائی عدی کو بارگاہ رسالت مآب میں حاضر ہونے کا مشورہ دیا ۔ عدی بہن کے مشورے پر مدیبہ طیبہ حاضر ہوئے اور رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی اللہ کے رسول عدی کا ہاتھ لیکر محبتانہ انداز میں کاشانہ نبوت کی طرف آرہے تھے کہ راستے میں ایک بڑھیا سے ملاقات ہوئی اس نے رسول اللہ ﷺ کو روک کر طویل گفتگو کی تو رسول اللہ کے خندہ پیشانی اورمحو گفتگو اور اخلاق حسنہ سے متاثر ہو عدی بن حاتم نے برجستہ کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوگئے۔
فتح مکہ کے دن تمام وہ مہاجرین جنہوں نے نبی کریم ﷺ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تھے سب کے سب گرفتار کرکے رحمت عالم ﷺ کے دربار میں حاضر کئے گئے۔ مکہ کے سارے ستمگر سرجھکا کر سرکار کے فیصلے کا انتظار کرنے لگے اور ہر ایک مجرم اپنے اپنے مظالم کو یاد کر کے اپنے انجام کی فکر کرنے لگے۔ اتنے میں نگاہ نبوت اس کی طرف اٹھی اور ارشاد ہوا میرے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔ تمام لوگ سہمی ہوئی آواز میں کہا ہم آپ کو کریم ابن کریم پاتے ہیں ہمیں آپ سے رحم کی امید ہے یہ سن کر رحمت عالم ﷺ نے فرمایا اے اہل مکہ سزا تو کجا میں تو یہ بھی نہیں پسند نہیں کرتا آج تمہارے لئے ملامت کا کوئی لفظ بولوں جاؤ تم سب آزاد ہو۔(ان لوگوں اپنے دلوں میں یہ خیال کیا تھا کہ آج ہمارے گھروں کو جلا دیا جائے گا ،بچے یتیم ہوجائیں گے ، بیویاں گرفتار کر لی جائیں گی ایک دم رسول اللہ ﷺ نے معافی کی بشارت دے دی) ۔رحمت عالم ﷺ کے خلق عظیم سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کی آنکھوں سے ندامت کے آنسو نکل پڑے۔ اور سارے مجرموں نے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کر لیا۔ حضور اکرم سراپا مجسم اخلاق تھے ۔موجودہ دور میں سب سے زیادہ کمی اخلاقی اقدار کی ہے ۔ سماج میں زیادہ تر برائیاں صرف اس وجہ سے پھیل رہی ہیں کہ ہمارے اندر اخلاقی تعلیمات کی کمی ہے اس کو اہمیت نہیں دیا جاتا۔ ہم مادیت پرستی کے دور میں سب کچھ فراموش کرتے جارہے ہیں ہماری ذمہ داری ہے کہ ایمان کے ساتھ ساتھ اپنے اخلاق کو سنواریں اور اپنے معاشرے میں اچھے اخلاق کو پروان چڑھائیں ۔
No comments:
Post a Comment