محبوب نے فرمایا کہ بلال (رضی اللہ عنہ) کتنی بے وفائی ہے اتنا عرصہ گزر گیا کہ تم ہماری ملاقات کو نہیں آئے:صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق میں رویا کرتے تھے۔ چنانچہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ فرمایا تو انہوں نے دل میں سوچا کہ پہلے تو یہاں محبوب کا دیدار ہوتا تھا۔ میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اذان دیتا تھا اب میں اگر محبوب کا دیدار نہیں کرسکوں گا تو میں برداشت نہیں کرسکوں گا چنانچہ انہوں نے ملک شام میں ہجرت فرمائی۔ پھر اس کے بعد انہوں نے اذان نہیں کہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے صرف دو مرتبہ اذان دی۔ ایک اذان تو جب بیت المقدس فتح ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں صحابہ کا دل مچل اٹھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے کہا امیر المومنین آپ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے کہیے۔ یہ اللہ کے محبوب کے موذن تھے۔ آج ذرا یاد تازہ ہوجائے اور بیت المقدس میں ان کی اذان ہوجائے تو بلال رضی اللہ عنہ نے پہلے تو انکار کردیا جب امیر المومنین نے حکم دیا اب انکار کی گنجائش نہ تھی تو ایک تو انہوں نے قبلہ اول میں اذان دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پھر ایک مرتبہ ملک شام میں رات کو سوئے ہوئے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار نصیب ہوا تو محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال (رضی اللہ عنہ) کتنی بے وفائی ہے اتنا عرصہ گزر گیا کہ تم ہماری ملاقات کو نہیں آئے۔ بس اس خواب کے آتے ہی اٹھ بیٹھے اپنی بیوی سے کہا کہ میری اونٹنی تیار کرو اور میں اب مدینہ جارہا ہوں۔ چنانچہ شام سے مدینہ طیبہ کا سفر کیا اب جب مدینہ طیبہ میں آئے تو نماز کا بھی وقت تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی چاہت تھی کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دور والی اذان سنیں اور محبوب کی یاد تازہ ہو۔ انہوں نے انکار فرمادیا۔ چنانچہ سیدنا حسن اور حسین رضی اللہ عنہم اجمعین دونوں شہزادوں کی خواہش تمنا ایسی تھی کہ اس کا انکار نہیں کرسکتے تھے چنانچہ کہنے لگے اچھا میں اذان دیتا ہوں۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دینی شروع کی اب اچانک جب مدینے میں صحابہ نے بلال رضی اللہ عنہ کی آواز سنی جس کو وہ دور نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں سنا کرتے تھے تو ان کے دل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد تازہ ہوگئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تو مرغ نیم بسمل کی طرح رونے لگے۔ ایک آواز بلند ہوئی۔ مدینہ کی عورتیں بھی اپنے گھر سے چادریں سر پر کرکے مسجد نبوی کی طرف بھاگیں اور اس وقت ایک عجیب کیفیت پیدا ہوئی کہ جب عورتیں بھی رو رہی تھی اور مرد بھی رو رہے تھے۔ ایک چھوٹے بچے نے جو ماں کے کندھے پر بیٹھا تھا اس نے حضرت بلال رضی اللہ عنہم کو دیکھا تو اپنی ماں سے پوچھنے لگا امی بلال رضی اللہ عنہ تو اتنے عرصے کے بعد واپس آگئے تم بتائو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کب واپس آئیں گے؟
کہتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ جب اَشھَدُاَنَّ مُحَمَّداً رَّسُولُ اللّٰہ پر پہنچے اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں بے قرار ہوکر نیچے گرگئے۔ مہاجرین اور انصار مدینہ میں بہت آوازیں بلند ہوئیں۔
No comments:
Post a Comment