Wednesday 4 February 2015

اسلام میں پردے کا تصوّر ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی

0 comments
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعثت نبوی سے قبل پوری دنیا فتنہ و فساد میں گرفتار تھی۔ بے حیائی وبے پردگی ، عریانیت و فحاشی عام تھی۔ عورتیں صرف نفسانی خواہشات کا ذریعہ سمجھی جاتی تھیں۔ لڑکیاں زندہ درگور کی جارہی تھیں۔ صنف نازک کی معاشرے میں کوئی حیثیت نہ تھی۔ ظہور اسلام نے زمانہ جاہلیت کے تمام تر غیر فطری و غیر انسانی رسم و رواج کو یکسر بدل کر ایک مہذب اور پاکیزہ معاشرہ عطا کیا اور سماج سے تمام تر برائیوں کا قلع قمع کردیا۔ اسلام ہی وہ مذہب مہذب ہے جس نے عورتوں کے حالات میں بہتری لائی۔ اور سوسائٹی میں عزت و عظمت ،تہذیب و تمدن ، عدل و مساوات کا درجہ دے کر ایک پاکیزہ معاشرے کی داغ بیل ڈالی۔ انہیں عصمت و عفت اور شرم و حیاء کے زیور سے آراستہ کرکے علم و عمل کا پیکر بنایا۔
 پیغمبر اسلام نے معاشرے میں پر امن قیام کے لئے جوپہلی تدبیر اختیار کی وہ یہ ہے کہ انسانی جذبات کو ہمہ قسم کے ہیجان و میلان سے بچاتے ہوئے مردوزن میں پائے جانے والی فطری و غیر فطری کشش و میلان کی ضابطہ بندی۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جو چیز قابل انتفاع ہوتی ہے۔ اسے پردے میں رکھا جاتا ہے اور اس کی حفاظت کی جاتی ہے۔ اگر اسے بے پردہ چھوڑ دیا جائے تو بہت سی برائیاں جنم لے لیتی ہیں۔ جب آپ اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں تو انصاف سے بتائیے کہ اگر ایک حسین و جمیل جوان خاتون اپنے حسن اور زیبائش کے ساتھ بے حجاب لوگوں کے سامنے آئے گی اور بے حیائی کا مظاہرہ کرے گی تو ہوس پرست لوگوں کی بد نظری کا شکار ہوگی یا نہیں۔اللہ تعالیٰ سورہ نور آیت ۳۱میں فرماتا ہے : میرے حبیب مسلمان مردوں کو حکم دو کے اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لئے بہت ستھرا ہے بے شک اللہ کو انکے کاموں کی خبر ہے اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت اور اپنا بناؤ سنگھار(غیروں)کو نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے۔ اور دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں۔ اسی طرح سورہ احزاب آیت نمبر ۵۹ میں ارشاد ہوتا ہے: اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادر کا حصہ اپنے منھ پر ڈالے رہیں۔ مذکورہ آیات میں مردوں کو اجنبی عورتوں کی طرف دیکھنے اور عورتوں اجنبی مردوں کی طرف دیکھنے سے روکا گیا اور اعلان عام فرمایا گیا کہ اپنی زیب و زینت بناؤ سنگھارہرگز ہرگز غیرمردوں پر ظاہر نہ کریں کیونکہ یہ فتنے کا موجب ہے۔ چنانچہ نبی کریمﷺ کی زوجہ حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ وہ اور آپ کی دوسری زوجہ حضرت میمو نہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم دونوں اس سے پردے میں چلی جاؤ میں نے عرض کیا کہ یارسوللہ ﷺ کیا یہ نابینا نہیں ہے
،تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم دونوں بھی نابینا ہو کیا تم اس کو نہیں دیکھ سکتیں۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث 2778)یہ حدیث پاک مسلم خواتین کے لئے باعث عبرت ہے کہ حضور ﷺ نے نابینا شخص سے بھی پردہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہر زمانے کی عورتوں میں زیب و زینت اور بناؤ سنگھار کرنا بننا سنورنا پایا جاتا ہے اور ہر عورت کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ وہ بہت خوبصورت نظر آئے ۔ اسلام نے عورتوں کی اس فطرت پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی البتہ زیب و زینت کے اظہار کی خواہش کی حد بندی ضرور کی ہے۔ اسلام نے مسلمان عورتوں کو پردے کا پابند بنایا تاکہ وہ با حیا ء، پارسا اور صالحہ بنیں۔ اور غیر محرموں اور حوس پرست لوگوں کی بد نگاہی سے بچیں۔ اور اپنی ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنائیں۔ مسلم خواتین بھی بناؤ سنگھار کرتی ہیں، ان کا بننا سنورنا ، زیب و زینت سے آراستہ ہونا صرف اور صرف ان کے اپنے شوہروں کے لئے ہونا چاہئے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اللہ نے فرمایاکہ اپنی زیبائش صرف اپنے شوہروں پر ظاہر کریں ، عورتوں کے ان محارم کا ذکر کیا ہے جن پر زیبائش کو ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ اس زیب وزینت سے مراد زیورات وغیرہ ہے ۔ رہے عورتوں کے بال تو ان کو ان کے شوہروں کے سوا اور کسی کے سامنے ظاہر کرنا جائز نہیں۔ عہد حاضر میں مسلم عورتیں عریاں لباس زیب تن کر کے بن ٹھن کر بازاروں میں اورشادی بیاہ کی محفلوں اور گلی کوچوں میں پھرا کرتی ہیں اور اپنے حسن کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہیں۔ ایسی عورتوں کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب عورتیں عطر(پھیلنے والی خوشبو) لگا کر کسی محفل سے گزرتی ہیں تو وہ ایسی ایسی ہیں جیسے زانیہ۔ مغربی دنیا میں عورتوں کی بے پردگی اور آزادنہ مردو زن کے اختلاط نے جن منفی نتائج کو جنم دیا ہے وہ کسی انصاف پسند شخص سے پوشیدہ نہیں۔ بد قسمتی سے مسلمانوں میں بھی کچھ ایسے لوگ پیدا ہوگئے ہیں جو اسلامی قانون کے مطابق عورتوں کو پردے میں رہنے پر اعتراض کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ پردہ اسلام میں ضروری نہیں کیونکہ اس سے صحت خراب ہوتی ہے ، عورتیں بیمار ہوجاتی ہیں ، انہیں صاف شفاف تازہ ہوا نہیں ملتی ہے۔ یہ اسلام کے خلاف ایک پروپیگنڈہ ہے جو حقائق سے بعید ہے۔ پردے کے اسلامی احکام کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو بے راہ روی ، عریانیت، فحاشی، بے حیائی ، شہوانی فتنہ انگیزی سے بچانا ہے۔ اور مسلم خواتین کو پردے میں رہ کرگھریلو معالات میں دلچسپی رکھنے اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت دے کر ان کے اخلاق و کردار سنوارنے کی تلقین کرتا ہے اور آزادانہ جاہلی زمانے کی عورتوں کی طرح گلی کوچوں میں گھومنے پھرنے سے روک کر گھر کی ملکہ بنے رہنے کو ترجیح دیتا ہے تاکہ ان کی عزت و آبروکی حفاظت ہو سکے اورہوس پرست لوگوں کی فتنہ انگیزی سے محفوظ رہ سکیں۔مسلم ماں اور بہنیں خاتون جنت سیدہ فاطمہ الزہرہ کی سیرت کو اپنانا چاہئے۔ سیدہ فاطمہ کے اندر یہ وصف جمیل خاص طورپر تھا کہ آپ پردے کی سخت پابند اور شرم و حیاء کا مجسمہ تھیں۔ آپ فرماتی ہیں کہ عورتوں کے لئے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ وہ کسی غیر مرد کو دیکھے اور نہ غیر مرد ان کو دیکھے۔ آپ کی شرم و حیاء کا لحاظ خداوند قدوس کو بھی ہے ۔چنانچہ حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
قیامت کے دن ایک ندا کرنے والا پردے سے ندا کرے گا اے حشر کے میدان میں جما ہونے والو! اپنی نگاہیں نیچی کرلو یہاں تک کہ فاطمہ بنت محمد ﷺ ستر ہزار حوروں کے ساتھ بجلی کی طرح گزر جائیں گی۔ میری ماں اور بہنوں ہم میں بے شمار سماجی و اخلاقی برائیاں عام ہوتی جارہی ہیں ، بے حجابی اور بے حیائی کو فیشن تصور کیا جانے لگا ہے ۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کی مخلوط تعلیم سے اخلاقی اقدار پامال ہورہے ہیں۔موبائیل و انٹرنیٹ کا غلط استعمال نوجوان لڑکے لڑکیوں کو جنسی بے راہ روی کا شکار بنا رہا ہے۔ اسلامی معاشرہ میں انگریزی تعلیم سے مثبت نتائج کے بجائے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ مسلم بچیاں غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کر رہی ہیں اور اپنا دین و ایمان ہوس پرستی کے ہاتھوں فروخت کرکے مرتد ہورہی ہیں (العیاذ باللہ)اور ارتداد کا تناسب دن بدن بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ ان برائیوں کا اصل سبب یہ ہے کہ والدین اپنے بچے اور بچیوں کی تربیت اسلامی انداز سے نہیں کرتے اور ان کے اخلاق و عادات سنوارنے کی طرف توجہ نہیں دیتے۔اگر ماں باپ اپنی اولاد کو اسلامی تعلیم و تربیت سے آراستہ کریں تو معاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں کا خاتمہ آسان ہوجائے گا۔ اگر معاشرے کے اچھے لوگ ،اصلاح و فلاح کے لئے سامنے آجائیں تو یقین ہے کہ ہمارا معاشرہ برائیوں سے پاک ہوجائے گا ، بگڑا ہوا ماحول سدھرجائے گا اور غلط روی اور بد عملی کا سد باب ہوجائے گا، مسلمانوں میں دینی حمیت پیدا ہوجائے گی ۔ اسلامی شعور بیدار ہوجائے گا ، اور خدا کے بندے احکام خدا وندی کے پابندہوجائیں گے۔ نیکوں کی صحبت اختیار کریں گے۔ صالحین کی وضع قطع اپنائیں گے اور اپنی شکل و صورت اسلامی بنائیں گے۔ اسلامی لباس پہنییں گے اور اپنی پاکیزہ شناخت باقی رکھیں گے ، اور رحمت الہٰی کے مستحق بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دنیا و آخرت میں کامیاب و کامراں فرمائے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔