Tuesday, 3 February 2015

اسلام کا عقیدہ ختم نبوّت قرآن و حدیث اور مستند دلائل کی روشنی میں ( حصّہ دوم ) : ۔ ترتیب و پیشکش ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسری دلیل
( نبی کریم ﷺ کی تعلیمات اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا عقیدہ ختمِ نبوت )

اللہ کے نبی ﷺ نے جہاں اُمت کو قرآنِ کریم کی آیات کی جامع تعلیمات دیں وہیں آپ ﷺ نے اپنی احادیث مبارکہ کی روشنی میں مسلمانوں کے ان تمام بنیادی عقائد کو بھی بالکل واضح فرما دیا کہ جن کا تعلق ایمان کے ساتھ ہے، اور جنھیں غلط سمجھنے کی وجہ سے ایک مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے۔ انھیں بنیادی عقائد میں سے عقیدہ ختم نبوت بھی ہے جسے ہم پچھلے صفحات میں قرآن و صحیح احادیث کے دلائل کے ساتھ واضح کر چکے ہیں۔ بات کو مزید واضح کرنے کے لیے ہم چند اور احادیث پیش کر رہے ہیں جن سے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور سلف صالحین کا عقیدہ واضح ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ

سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

انا محمد، وانا احمد، وانا الماحی الذی یمحی بی الکفر، وانا الحاشر الذی یحشر الناس علی عقبی، وانا العاقب، والعاقب الذی لیس بعدہ نبی

” میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعہ سے کفر کو مٹایا جائے گا، میں حاشر ہوں کہ میرے بعد حشر برپا ہوگا۔ میں عاقب ہوں، عاقب وہ ہے، جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ “ ( صحیح بخاری : 3532، صحیح مسلم :2354 واللفظ لہ )

یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ آپﷺ، اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں، آپ ﷺ کے بعد قیامت قائم ہو جائے گی، آپ کے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی پیدا نہیں ہو گا۔

سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ابیتم فو اللہ انی لانا الحاشر، وانا العاقب وانا النبی المصطفی آمنتم او کذبتم

” ( اے یہودیوں ! تم نے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ) کا انکار کیا ہے، اللہ کی قسم ! میں حاشر ہوں ( یعنی میرے بعد حشر برپا ہو گا ) میں عاقب ہوں۔

( یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا ) میں نبی مصطفی ہوں خواہ تم ( مجھ پر ) ایمان لے آؤ یا ( میری ) تکذیب کر دو۔ “ ( آپ ایمان لائیں یا نہ لائیں ہر صورت میں اللہ کا آخری نبی ہوں ) ( مسند الامام احمد : ج :۶ / ص : ۲۵ 6/ الطبرانی الکبیر، ج : ۱۸، ص : ۴۶، صححہ محققوا السند، ج : ۳۹، ص : ۴۱۰ )

سیدنا عرباض بن ساریہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

انی عنداللہ مکتوب لخاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینۃ، وساخبرکم باول ذلک : دعوۃ ابی ابراھیم، وبشارۃ عیسی بی

” آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں ہی تھے کہ مجھے اللہ کے ہاں آخری نبی لکھ دیا گیا تھا،کہ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں، اور اپنی ماں کا وہ خواب ہوں، جو انہوں نے میری ولادت سے پہلے دیکھا تھا، ۔ “ (مسند الامام احمد : ج : ۴، ص : ۱۲۷ 127/4، تفسیر طبری : 556/1، 87/28 واللفظہ لہ، تفسیر ابن ابی حاتم : 1264، طبقات ابن سعد : 148/1، 149، تاریخ المدینۃ لعمر بن شبہ : 236/2، المعرفۃ والتاریخ لیعقوب بن سفیان : 345/2، المعجم الکبیر للطبرانی : ۱۸، ص : ۲۵۲ 252/18، مسند الشامیین للطبرانی : 1939، مستدرک حاکم : 418/2، دلائل النبوۃ للبیہقی : ج: ۹، ص : ۱۶۵ 2، وسندہ حسن

اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ ( 2404 ) نے ” صحیح “ اور امام حاکم نے اس کی سند کو ” صحیح “ کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس کو ” صحیح “ کہا ہے۔ علامہ البانی اور مسند احمد کے محققین نے اس حدیث کو صحیح بتلایا ہے ۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

فانی آخر الانبیاء، وان مسجدی آخر المساجد ( صحیح مسلم : 507/1394 دارالسلام )

” میں آخری نبی ہوں، اور میری مسجد آخری مسجد ( نبوی ) ہے۔

انبیاء کرام کی یہ سنت ہے کہ وہ اللہ کی زمین پر مسجد ضرور بناتے ہیں جو عام مساجد کے مقابلے میں غیرمعمولی حیثیت رکھتی ہے، جیسے بیت اللہ مسجد حرام، جسے ابراہیمؑ نے بنایا اور جس میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔ بیت المقدس جو حضرت سلیمانؑ نے بنائی اور اسی طرح مسجد نبوی جو خاتم النبیین ﷺ کی مسجد ہے اور جس میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے۔

تو یہاں اللہ کے نبی ﷺ کا یہ فرمانا کہ میں آخری نبی ہوں اور میری یہ مسجد آخری مسجد ہے، تکمیلِ نبوت اور رسالت کی بہت ہی واضح اور کھلی دلیل ہے۔ اب چونکہ قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں پیدا ہو گا، نبوت اور رسالت کا سلسلہ آپ ﷺ پر مکمل ہو گیا اس لیے اب کوئی نئی نبوی مسجد بھی نہیں بن سکتی بلکہ وہ آخری مسجد جو مسجد نبوی کہلائی وہ مدینہ منورہ میں ہے۔

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی بن ابی طالب، فی غزوۃ تبوک، فقال : یا رسول اللہ تخلفنی فی النساءوالصبیان ؟ فقال : اما ترضی ان تکون منی بمنزلۃ ھارون من موسی ؟ غیر انہ لا نبی بعدی

” غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب کو ( مدینہ ) میں اپنا جانشین مقرر فرمایا، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ! کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ میرے ساتھ تمہیں وہی نسبت ہو، جو ہارون علیہ السلام کی موسیٰ علیہ السلام سے تھی، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ ( صحیح بخاری : 3706، صحیح مسلم : 2404 واللفظ لہ )

اسماءبنت عمیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا :

انت منی بمنزلۃ ھارون من موسی الا انہ لیس نبی بعدی

” تمہاری میرے ساتھ وہی نسبت ہے، جو حضرت ہارون کو حضرت موسی علیھما السلام کے ساتھ، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ “

( مسند الامام احمد : 369/6، 437، السنن الکبریٰ للنسائی : 8143، مسند اسحاق : 2139، السنۃ لابن ابی عاصم : 1346، المعجم الکبیر للطبرانی : 146/24، مصنف ابن ابی شیبہ : 60/12، 61 وسندہ صحیح )

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لم یبق من النبوۃ الا المبشرات، قالوا : وما المبشرات ؟ قال : الرویا الصالحۃ

” نبوت میں سے مبشرات کے علاوہ کچھ باقی نہیں، صحابہ نے عرض کی مبشرات کیا ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیک خواب۔ “

( صحیح بخاری : 699 )

سیدنا حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ؟ :

ذھبت النبوۃ فلا نبوۃ بعدی الا المبشرات قیل : وما المبشرات ؟ قال الرویا الصالحۃ یراھا الرجل او تری لہ

” نبوت ختم ہو گئی ہے، میرے بعد کوئی نبوت نہیں، سوائے مبشرات کے، کہا گیا مبشرات کیا ہیں ؟ فرمایا نیک خواب جو آدمی دیکھتا ہے، یا اس کیلئے دیکھا جاتا ہے۔ “ ( البزار ( کشف الاستار : 2121، المعجم الکبیر للطبرانی : 3051 وسندہ صحیح )

سیدہ ام کرز رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ذھبت النبوۃ وبقیت المبشرات

” نبوت ختم ہو گئی ہے، اب صرف مبشرات باقی ہیں۔ “

( مسند احمد : ج : ۶، ص : ۳۸۱ 381/6، مسند حمیدی : 348 348، ابن ماجہ :3896 3896 وسندہ حسن )

اس حدیث کو امام ابن حبان (ج : ۸، ص : 426 ) نے ” صحیح “ کہا ہے، ابویزید المکی حسن الحدیث ہے، امام ابن حبان رحمہ اللہ اور امام عجلی نے اس کی توثیق کر رکھی ہے۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ فجر کے بعد فرمایا کرتے تھے، کیا آپ میں سے کسی نے آج رات کوئی خواب دیکھا ہے ؟ اور فرمایا کرتے تھے :

انہ لا یبقی بعدی من النبوۃ الا الرویا الصالحۃ

” یقیناً میرے بعد نبوت میں سے کچھ باقی نہیں ( یعنی نبوت کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے ) البتہ نیک خواب باقی ہیں۔ “

( موطا امام مالک : 956/2، مسند احمد : 325/2، ابوداؤد : 5017، مستدرک حاکم : 390/4، وسندہ صحیح )

اس حدیث کو امام ابن حبان ( 6048 ) اور امام حاکم نے ” صحیح “ کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ ان احادیث سے ثابت ہوا کہ نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے، مبشرات یعنی مسلمان آدمی کے نیک خواب جو اجزائے نبوت میں سے ہیں، باقی رہیں گے۔

شیخ المعلمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

اتفق اھل العلم علی ان الرویا لا تصلح للحجۃ وانما ھی تبشیر وتنبیہ، وتصلح للاستئناس بھا اذا وافقت حجۃ شرعیۃ صحیحۃ

اہل علم اس بات پر متفق اللسان ہیں کہ ( امتی ) کا خواب حجت ( شرعی ) کی صلاحیت نہیں رکھتا، وہ محض بشارت اور تنبیہ کا کام دیتا ہے، البتہ جب صحیح شرعی حجت کے مطابق و موافق ہو، تو مانوسیت و طمانیت کا فائدہ دیتا ہے۔ ( التنکیل : 242/2 للشیخ عبدالرحمن المعلمی )

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :

لو کان نبی بعدی لکان عمر بن الخطاب

” اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوتے۔ “

( ترمذی : 3886، مسند الامام احمد : 154/4، المعجم الکبیر للطبرانی : 180/17، 298، مستدرک حاکم : 85/3 ح 4495، وسندہ حسن )

اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ” حسن غریب “، امام حاکم نے ” صحیح الاسناد “ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ” صحیح “ کہا ہے۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی تشریعی یا غیر تشریعی نہیں آئے گا، اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی نہ ہوئے، تو اور کون ہو سکتا ہے ؟

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لقد کان فیمن کان قبلکم من بنی اسرائیل رجال یکلمون من غیر ان یکونوا انبیاء، فان یکن فی امتی منھم احد فعمر

” تم لوگوں سے پہلے جو بنی اسرائیل گزرے ہیں، ان میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے، جن سے کلام کی جاتی تھی، جبکہ وہ نبی نہیں تھے، اگر میری امت سے کوئی ہوا، تو عمر ہوں گے۔ “ ( صحیح البخاری : 3689 )

صحابہ کرام اور سلف صالحین کا عقیدہ
1 اسماعیل بن عبدالرحمن السدی کہتے ہیں :

سالت انس بن مالک قلت : صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی ابنہ ابراھیم ؟ قال : لا ادری، رحمۃ اللہ علی ابراھیم لو عاش کان صدیقا نبیا

” میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراہیم پر نماز جنازہ پڑھی تھی ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نہیں جانتا ( پڑھی تھی یا نہیں پڑھی تھی ) ابراہیم پر اللہ کی رحمت ہو اگر وہ زندہ ہوتے تو سچے نبی ہوتے۔ “

( مسند الامام احمد : ج : ۳، ص : 281 / طبقات ابن سعد، ج : ۱، ص : 140 140/1 وسندہ حسن )

اسماعیل کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفی سے کہا :

رایت ابراھیم ابن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قال : مات صغیرا، ولو قضی ان یکون بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی عاش ابنہ، ولکن لانبی بعدہ

” کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کو دیکھا ہے ؟ فرمایا وہ بچپن میں ہی فوت ہوگئے، اگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہو سکتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے زندہ رہتے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ “ ( صحیح بخاری : 6194 6194، ابن ماجہ : 1510 1510، المعجم الاوسط للطبرانی : 6638، تاریخ ابن عساکر : 135/3 )

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا، اسی لئے تو آپ کے بیٹے ابراہیم زندہ نہ رہے۔

2 سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ روزِ قیامت شفاعت کبریٰ کے لئے جہاں دیگر انبیاء علیہم السلام کے پاس جائیں گے، وہاں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس بھی جائیں گے اور کہیں گے، ” اے عیسیٰ ( علیہ السلام ) اپنے رب کے ہاں ہمارے فیصلے کی سفارش کیجئے، وہ فرمائیں گے کہ اس وقت میں آپ کے کام نہیں آ سکتا، ” ولکن ائتوا محمداً صلی اللہ علیہ وسلم فانہ خاتم النبیین “ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں، وہ آخری نبی ہیں۔ “ وہ آج موجود ہیں، ان کے پہلے اور بعد کے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں، عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے، بھلا آپ مجھے یہ بتائیں کہ اگر کسی برتن میں سامان رکھ کر مہر لگا دی گئی ہو، کیا وہ مہر توڑے بغیر اس سامان تک رسائی ممکن ہے ؟ لوگ کہیں گے، نہیں، تو عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے :

” فان محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین “

” یقیناً محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ “ ( مسند الامام احمد : 248/3 وسندہ صحیح )

لوگ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے کہنے کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر کہیں گے :

یا محمد، انت رسول اللہ وخاتم الانبیاء

” اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں۔ “ ( صحیح بخاری : 7412، صحیح مسلم : 194 )

الحمدللہ، بیان کردہ قرآنی آیات، احادیثِ مبارکہ اور عقائدِ صحابہ کرام و اسلاف صالحین ؟؟ سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ ہادی اعظم خاتم النبیین والمرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں، نبوت اور رسالت آپﷺ پر مکمل ہو گئی ہے اور وہ کامل ہدایت ہمارے پاس بغیر کسی تحریف کے کتاب اللہ کی صورت میں موجود ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ رب العالمین نے خود لی ہے۔ اب قیامت تک کوئی نیا نبی اور رسول نہیں آئے گا، اور جس نے یہ دعوہ کیا کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد تشریعی یا غیر تشریعی نبی بنا کر بھیجا گیا ہے تو وہ جھوٹا، مفتری اور کذاب ہے۔

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمْ الإِسْلامَ دِيناً ۝

ترجمہ : آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے بحیثیت دین، اسلام کو پسند کیا ہے۔ (سورہ المائدہ : آیہ 3)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...