Wednesday 4 February 2015

اسلام اور پیغمبر اسلام علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی تعلیمات روشنی میں خواتین کے حقوق : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاھور پاکستان

0 comments
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طلوع اسلام سے قبل اس دنیا کی حالت انتہائی خستہ تھی۔ ہر جانب کفر و شرک، ظلم و زیادتی ، بدکاری و عیاری عام تھی۔ انسان ایک کوہ آتش فشاں کی طرح ہر لمحے بغض و عناد کی جنگ میں جل رہا تھا۔ ہر قبیلہ ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا ہواتھا، جذبات اتنے مشتعل تھے کہ ذرا ذرا سی بات پر جنگ چھڑ جایا کرتی تھی۔ کسی کے جان و مال ، ساز وسامان کا تحفظ نہ تھا۔بچیاں زندہ درگور کی جارہی تھیں ۔عورتوں کی کوئی عزت و وقعت نہ تھی ، دنیا کی حالت عجیب و غریب ہو چکی تھی۔عورت مرد کے دامن تقدس کا داغ کہی جاتی۔ دنیا کی تمام قدیم قومیں ذلت و رسوائی کے عمیق گہرائی میں پڑی تھیں۔ روم و یونان خود کو مہذب کہنے والی قوم انسانیت کے نام پر بدنماد اغ تھے۔ رومیوں اور یونانیوں کے دانشوروں کے فکر و اذہان پر عجیب و غریب ، حیرت کن دیوی اور دیوتاؤں کے نام مرتسم تھے۔ ان نگارشات دہر میں بے شمار لوگ صاحب سلطنت و سطوت آئے اور بڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دئیے۔ لیکن کسی نے بھی عورتوں کے حقوق کی فکر نہ کی۔ قوم یہود و نصاری بھی صرف عورتوں کو نفسانی خواہشات کی تکمیل اور تفریح کا ذریعہ سمجھتے۔ اور ان کے حسن وشباب میں کمی آتے ہی انہیں گھر سے بے گھر کر دیاکرتے ، حیض و نفاس والی عورتیں یک و تنہا کرکے گھر سے باہر ایک تاریک و تنگ کمرے میں بند کر دی جاتیں ۔ ان کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا جاتا ، اور معمولی معمولی غلطیوں پر جانوروں کی طرح زدو کوب کیا جاتا۔اہل عرب بچیوں کی پیدائش کے ساتھ ہی انہیں منحوس سمجھتے اور دفن کرنے کی فکرکرتے ۔جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے ’’ اور جب ان کو لڑکی کی پیدائش کی خبر دی جاتی تو دن بھر ان کا منہ سیاہ ہوجاتا، بیٹی کی پیدائش کی خبر سنتے ہی چہرہ بگاڑ لیتے ‘‘۔

 اسے پالنے ،پوسنے اور شادی بیاہ کرنے کے خوف سے انہیں زندہ دفن کردیتے تھے۔جیسا کہ فرمان الہٰی ہے قد خسر الذین قتلوا اولادہم سفہابغیرعلم۔ (سورہ انعام پارہ ۸)۔ ترجمہ: بے شک تباہ و برباد ہوئے وہ جو اپنی اولاد کو قتل کرتے ہیں جہالت سے ۔ صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ قرآن کریم نے قتل اولاد کو گناہ کبیرہ و فعل حرام کہا ہے۔ آخرت کا ڈر دلایا اس برے فعل سے باز رہنے کی تاکید فرمائی۔

 اس آیت کریمہ کی تفسیر میں امام قرطبی فرماتے ہیں: رحمت عالم ﷺکے ایک صحابی ہمیشہ غمگین رہا کرتے تھے ، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ دریافت کیا: کیا وجہ ہے کہ تم ہمیشہ غمگین رہتے ہو تو اس پر انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)میں نے زمانۂ جاہلیت میں ایک بڑا گناہ کیا کہ جس کو اللہ سبحانہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں فرمائے گا، اسی خوف سے میں غمگین رہتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنا گناہ بتاؤ تو انہوں نے پورا واقعہ سنایا کہ میری ایک خوبصورت بچی تھی اور جب وہ بڑی ہوئی تو اس کی شادی کے پیغامات آنے لگے تو میری غیرت نے جوش مارا، لہٰذا میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں فلاں قبیلہ میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے جارہا ہوں ، بچی کو بھی میرے ساتھ جانے کے لئے تیار کردو۔ شوہر کی خواہش پر انہوں نے بچی کو اچھے عمدہ لباس پہنادیے اور اس کو ساتھ لے کر چلا کہ راستے میں ایک کنواں دکھائی دیا،میں اپنی بچی کو اس کنویں میں ڈالنے لگا تو بچی نے مجھے پکار پکار کر کہا کہ میرے بابا مجھے اس کنویں میں اکیلے چھوڑ کر کیوں جارہے ہو؟ کیا میں تمہاری پیاری بیٹی نہیں ہوں؟ یہ میرے کس جرم کی سزا ہے؟ بچی کی ان باتوں سے میرا دل دہل گیا ، محبت پدری غالب آگئی ،میں نے اسے کنویں سے نکال لیا لیکن پھر مجھ پر شیطان نے غلبہ کیا اور دوبارہ میں نے اسے اسی کنویں میں ڈال کر ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سلا دیا۔ جب نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دلخراش انسانیت سوز واقعہ کو سنا تو آپ کو سخت صدمہ ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک تر ہوگئی۔ آپ نے انتہائی غضب کے عالم میں فرمایا : اگر زمانہ جاہلیت کے کاموں پر سزا دیتا تو یقیناًتم کو سزا دیتا، لیکن اسلام سے ما قبل کے تمام گناہ معاف ہیں اس لئے تم اس گناہ سے بری ہو۔

 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی عزت افزائی کے ساتھ اولاد کی پرورش اوراس کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دلائی۔ اور خاص طورپر بچیوں کی پرورش کرنے والے کو بے پناہ اجر و ثواب کا مستحق قرار دیا۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی دو لڑکی کی پرورش کی ، یہاں تک کہ وہ بڑی ہوگئی تو وہ شخص قیامت کے دن آئے گا اس حال میں کہ وہ میرے قریب ہوگا۔ نیز حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی اور انہیں تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا اور ادب سکھا یا، ان پر شفقت و محبت کی، یہاں تک کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو بے نیاز کر دیا، (مال کے ذریعے یا شوہر کے ذریعے)تو اللہ تعالیٰ نے ان پر جنت واجب کر دیا ۔یہ بشارت کو سن کر ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی نے دو لڑکیوں کی پرورش کی تو اس کو کیا ملے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو پر بھی یہی بدلہ ہے۔ یہاں تک کہ لوگوں نے ایک بچی کے بابت پوچھا تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ ایک بچی کی تعلیم وتربیت اور شفقت و محبت کا بدلہ بھی جنت ہے۔

 نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے میں پھیلے ہوئے غیر اسلامی وغیر انسانی جراثیم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور صنف نازک کو ظلم و استبداد کے شکنجوں سے رہائی دلا کر عزت و وقار عطا کیا۔ رحمت عالم کے رحم و کرم نے ہی ان بے سہارا عورتوں کو سہارا دیا اور زندگی کے ہر موڑ پر مردوں کے برابر لا کھڑا کیا۔ اور مردوں کی طرح عورتوں کے حقو ق مقرر کئے ، عورتوں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے شرعی عدالتیں قائم کی گئیں۔چنانچہ قرآن کریم سورہ بقرہ پارہ ۲ میں ارشاد ہے ’’ ولہن مثل الذی علیہن بالمعروف ‘‘۔ ترجمہ’’ عورتوں کے لئے بھی پسندیدہ طورپر وہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے لئے ہیں‘‘۔ رحمت عالم کے اس اسلامی و شرعی قوانین نے عورتوں کو ان کی مہر کی رقم ،میراث، تجارت ، جائیداد اور شوہر کی ہر چیز کا وارث بنادیا۔ پیغمبر اسلام نے دنیا کو ایک ایسا انقلابی دستور اور ضابطہ حیات دیا کہ جس میں زندگی کے داخلی و خارجی مسائل کا حل موجود ہو اور ایسا قانون دیا جو صرف عقائد و عبادات پر مبنی نہیں بلکہ تمام تر اعمال صالحہ کا سر چشمہ ہو۔

 الغرض:۔ وہ عورتیں جو آج تک سب سے زیادہ ذلیل و رسوا سمجھی جاتی تھی ،انہیں حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کے دلوں کا چین و سکون اور ان کے گھروں کی ملکہ بنادیا۔ اب انسانیت کا مزاج بدلنے لگا۔ سماج میں یہ آواز گونجنے لگی ، عورتیں مردوں کے دلوں کی تسکین ، روح کی راحت ، ذہن کا اطمینان اور بدن کی چین ہے ، جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے : ’’وخلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا علیہا وجعل بینکم مودۃ و رحمۃ‘‘۔ (سورہ بقرہ ،پارہ ۲) ترجمہ’’ اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تمہارے جنس سے بیویاں پیدا کی تاکہ تمہیں ان سے تسکین حاصل ہو ، اور اس نے درمیان میں محبت و شفقت پیدا کر دیا‘‘۔

 اس حکم خداوندی کے بعد اب کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ ظلم و زیادتی نہیں کرسکتا۔ اور نہ ہی اپنے ساز و سامان ، مال و اسباب ، زمین و جائیداد سے بے دخل کر کے گھر سے باہر کرسکتاہے ۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا: عاشرہن بالمعروف ‘‘ اور اچھے سلوک سے عورتوں کے ساتھ زندگی بسر کرو‘‘۔

 رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا عورتوں کے بابت اس خاص پیغام نے کہ ’’وہ تمہارے لئے لباس ہے ، اور تم اس کے لئے لباس ہو‘‘ دنیا میں ایک انقلاب پیدا کردیا۔ گویا عورتوں پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فرمان کے ساتھ احسان فرمایا’’ مرد عورت کے لئے لباس ،اور عورت مرد کے لئے لباس ہے‘‘ عورتوں کی عفت و عصمت کی حفاظت کرتے ہوئے ان کے مقام و مرتبہ کو بلند فرمایا۔

 بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل بیوہ عورتوں سے شادی کرنا ایک ناپسندیدہ فعل سمجھا جاتا اور ان کے ساتھ مویشیوں سا سلوک کیا جاتاتھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! بیواؤں اور مسکینوں کے سلسلے میں کوشش کرنے والے (یعنی ان کی نگہد اشت رکھنے والے )کا اجر و ثواب اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے ۔ اس ضمن میں سب سے پہلی مثال حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پیش کی اور چالیس سالہ بیوہ عورت سے شادی کرکے معاشرے کویہ پیغام دیا کہ بیوہ عورت قابل لعنت نہیں بلکہ قابل رحمت و شفقت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عین عالم شباب میں بیوہ سے نکاح کرنا ،بیوہ کو معاشرے میں عزت و وقار عطا کرنا تھا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ام سلمہ کے شوہر کے انتقال ہونے کے کچھ ہی دنوں بعد، حضرت صدیق اکبر ،حضرت فاروق اعظم ، حضرت عثمان غنی جیسے اجلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ام سلمہ کو پیغام نکاح بھیجا۔ ذرا غور کیجئے وہی عرب جہاں بیوہ کو لعنتی کہتے،اور بیوہ ہوتے ہی انہیں بند اندھیری کوٹھری میں ڈھکیل دیا کرتے ،اورکسمپرسی کے عالم میں چھوڑ دیتے۔ یہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی درسگاہ کا فیضان تھا کہ بیوہ عورتوں سے نکاح کے لئے ایک دوسرے پر سبقت کرتے نظر آرہے ہیں۔ اور جب ام سلمہ نے ان اجلہ صحابہ سے شادی کرنے سے انکار کردیا توخود رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمایا اور انہیں ام المومنین کے لقب سے ملقب فرمادیا۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔