Tuesday 10 February 2015

رسول اکرم نور مجسّم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کی ایک ھی سزا اس کی گردن اڑا دو ۔

0 comments
 اس وقت اسلام اور کفر کا مقابلہ بڑی شدت سے جاری ہے۔ اس معرکے کے بہت سے پہلو ہیں۔ آج یہ معرکہ اس انتہا پر پہنچ گیا ہے کہ اللہ کے دشمنوں نے نبی آخر الزماں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات کو نشانہ بنا لیا ہے۔ مسلسل گستاخیاں کر رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کی طرف سے بہت شدید خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ اسلام ان کو دنیا میں ابھرتا ہوا اور پھیلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ فروغ اسلام کو روکنے میں وہ پوری طرح بے بس ہیں۔ اور شدید پیچ وتاب کھا رہے ہیں تو آج غصہ کہاں نکل رہا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاکے چھاپ کر اور اللہ تعالی کی آخری کتاب قرآن کے خلاف، اسلام کے خلاف، اور حامل قرآن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف فلمیں بنا رہے ہیں، ان فلموں، خاکوں کی خوب تشہیر ہو رہی ہے۔مقصد کیا ہے ؟ صرف اور صرف اسلام دشمنی اور مسلمانوں کے دلوں سے بنی کریم ۖ کی محبت اور توقیر کو ختم کرنا لیکن جس کا ذکر میرے رب کعبہ نے بلند کیا ہو اس کو نہ کسی مادی وسائل کو ضرورت ہے نہ کسی کی مدد کی۔ اللہ رب العزت نے قران پاک جو لاریب ( جس میں کوئی شک نہیں ) کتاب میں فرمایا ۔'' اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کیا۔و پھر کیوں کر کسی کی غلیظ حرکتوں سے میرے نبی کی شان اقدس میں کمی آسکتی ہے۔ی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس کا تو غیر مسلم بھی اقرار کرتے تھے۔ رحمة اللعالمین صرف انسانوں کیلئے ہی نہیں حیوانات کیلئے بھی امام الانبیا علیہ السلام رحمت بن کر تشریف لائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک میں گستاخی سے ان کا درجہ کبھی نہیں گھٹتا بلکہ ان کا نام مزید پھیلتا رہا۔ گستاخوں نے فلم تو بنائی لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی قونصلیٹ سے ان کا جھنڈا گرا دیا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام مبارک کا جھنڈا گھاڑ دیا گیا۔ اور اگر ساری دنیا خاموش بھی ہوجائے اور سب بے غیرت بن جائیں تو بھی اللہ تعالی کی یہ آیت کافی ہے۔قران پاک کی آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے ارشاد فریایا ''نا فینا المستہزِئین''
ترجمعہ: آپ سے جو لوگ مسخرا پن کرتے ہیں ان کی سزا کے لئے ہم کافی ہیں۔ الحجر۔ 95
ایک اور جگہ میرے اللہ کریم نے قرآن میں فرمایا۔اِن الذِین یوذون اللہ ورسولہ لعنہم اللہ فِی الدنیا والاخِر۔ الاحزاب۔ 57
ترجمہ "جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو رنج پہنچاتے ہیں ان پر اللہ دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لئے اس نے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہےمطلب یہ کہ وہ لوگ جو اللہ کی گستاخیاں کریں اور اس کے رسول کی گستاخیاں کریں ان کو ایذا (تکلیف) پہنچائیں۔ اللہ کی طرف سے ان لوگوں پر لعنتیں ہیں دنیا میں بھی وہ لوگ ملعون ہیں اور آخرت میں بھی ملعون ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان اقدس میں ان گستاخیوں کو سیاسی مسئلہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ بلکہ یہ مسئلہ شریعت اسلامیہ کا ایک معرکتہ الآرا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کی حقیقت واقعیت، اس کی شدت اور اس کی حساسیت کا پورا ادراک ہونا چاہیے۔ رسمی سی قرار دادیں پیش کر کے اپنے آپ کو بری الذمہ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس کا حساب دنیا اور آخرت میں دینا پڑے گا۔ اللہ کے دشمن کس شدت سے اس مسئلے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، ہماری قراردادوں کا ان پر کوئی اثر نہیں، ہماری اسمبلیوں اور پارلیمنٹوں میں ان گستاخوں کے متعلق کیا کہا جا رہا ہے، ان کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ ان باتوں کو ذرہ برابر اہمیت نہیں دے رہے۔ آج مغرب اس بات پر مطمئن ہے کہ آج مسلمانوں کے رسول کی شان میں جتنی چاہیں گستاخیاں کر لیں، یہ محض قرار دادیں پاس کریں گے، جلوس نکالیں گے اور سڑکوں پر نکل کر اپنا غصہ ختم کر لیں گے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو گا، وہ اس بات سے پوری طرح مطمئن ہیں۔اے ایمان کے دعویدار مسلمانو!ایسے ملعونوں سے تمھیں نمٹنا ہے تاکہ تم محبت رسول کے سلسلے میں رب کے حضور سرخرو ہو سکو۔ ورنہ جہاں وہ اپنے برے انجام سے دوچار ہوں گے مسلمانو! تم بھی ذمہ داری ادا نہ کرنے پر مجرم ٹھہرو گے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس آیت کو پیش کر کے اس سے یہ نتیجہ نقل فرمایا ہے کہ ہر وہ شخص جو اللہ کے رسول کی گستاخی کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات مقدس پر سب وشتم کرے تو ایسا شخص ملعون ہے۔ اللہ کا قرآن کبھی کسی مسلمان شخص کو ملعون نہیں کہہ سکتا، ایسا ہر شخص جو گستاخی کرے اگر وہ مسلمان ہے تو اسلام سے خارج ہو جائے گا۔ بالاتفاق امت مسلمہ کے نزدیک یہ طے شدہ مسئلہ ہے کہ ایسا شخص مسلمان ہو ہی نہیں سکتا، اس کا حکم (مرتد) کا ہے۔ ایسے فعل کا مرتکب ایک ہو یا پوری جماعت۔ ان کی سزا صرف ایک ہے کہ ایسے لوگوں اور ایسی قوموں کو زندہ رہنے کا حق ہی نہیں ہے یہ فریضہ اللہ تعالی نے مسلمانوں پر عائد کیا ہے صحابہ کرام کے طرزِ عمل سے ہمیں سمجھ آئے گا کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ گستاخوں کی سزائیں، عہد رسول اللہ اور عہد صحابہ رضی اللہ عنہم میں کیا تھیں؟ انھوں نے اس مسئلہ پر امت مسلمہ کے لئے کیا اسوہ حسنہ چھوڑا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والا، آپ کی ذات کو گالی بکنے والا خواہ مسلمان ہو یا کافر، تمام آئمہ، مجتہدین اور فقہائے کرام کے نزدیک بالاتفاق واجب القتل ہے، وہ اپنے آپ کو مسلمان کہلوائے تب بھی قتل واجب ہے یہ مسئلہ ایسا حساس ہے کہ کوئی کافر بھی گستاخی کرے گا تو سزا قتل ہے۔سیدنا علی سے روایت ہے ایک یہودی عورت نبی کریمۖ کو گالیاں دیا کرتی تھی اور آپ کے بارے میں نا زیبا الفاظ بولتی تھی، تو ایک آدمی نے اس کا گلا گھونٹ دیا۔ یہاں تک کہ وہ مر گئی، تو رسول اللہ نے اس کا خون ضائع قرار دیا۔ ابوداود، کتاب الحدود، باب الحکم فیمن سب النبی ۖ :۔ اخرجہ البیہقی:۔ علامہ ناصر الدین البانی کہتے ہیں: اسنادہ حسن علی شرط الشیخین۔ ارواالغلیل:۔ اس کی سند بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔مذکورہ احادیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ شاتم رسول کی سزا قتل ہے، اس کے لیے کوئی معافی نہیں ہے، شاتم رسول کے قاتل پر نہ کوئی قصاص ہے اور نہ ہی دیت۔ اس قانون میں مسلم و غیر مسلم سب برابر ہیں، یعنی جو بھی گستاخی کرے گا اس سے معافی کا مطالبہ کیے بغیر قتل کی سزا دی جائے گی، جرم ثابت ہونے پر حدود اللہ میں بالخصوص حرمت رسول کے مسئلہ میں کوئی رعایت نہیں ہے۔ جو کوئی گستاخ توبہ کر لے تو اس کی توبہ کا فائدہ اس کو آخرت میں ضرور ہوگا، لیکن دنیا میں اس کو سزا دی جائے گی۔ اس قانون کا نفاذ حکومت کرے گی تو امن و امان قائم رہے گا اور گستاخی کا دروازہ بند رہے گا، اگر ایسا نہ کیا گیا تو بد امنی پیدا ہوگی اور غیرت ایمانی کی وجہ سے لوگ گستاخوں کو قتل کریں گے، قانون اپنے ہاتھ میں لیں گے جس سے حکومت کے لیے پریشانیاں پیدا ہوں گی ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔