ہادی اعظم خاتم النبیین والمرسلین محمد رسول اللہ ﷺ کا آفتابِ رسالت، قیامت تک کے لئے پوری انسانیت کو نورِ نبوت سے منوّر کرتا رہے گا۔ آخر الزماں پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ، ربِ کائنات کی طرف سے انسانیت کی رشد و ہدایت کیلئے مبعوث کردہ آخری نبی ہیں۔ آپﷺ کے بعد نبوت اور رسالت کا دروازہ ہمیشہ ہمیش کے لیے بند ہو چکا ہے، اور اب جو بھی نبوت کا دعوہ کرتا ہے وہ جھوٹا و کذاب ہے۔ مندرجہ ذیل مختصر مضمون میں ہم قرآن و صحیح احادیث سے ثابت کریں گے کہ نبوت اور رسالت کا سلسلہ آپ ﷺ پر مکمل ہو چکا ہے اور اب قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔
پہلی دلیل
اللہ رب العالمین نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا :
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيراً وَنَذِيراً وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ
ترجمہ:ہم نے آپﷺ کو تمام لوگوں کے لیے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، ہاں مگر (یہ صحیح ہے) کہ لوگوں کی اکثریت بے علم ہے۔(سورہ سبا، آیہ 28)
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ
ترجمہ : اور ہم نے آپ ﷺ کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ۔ (سورہ الانبیا ء : آیہ 107)
قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعاً
ترجمہ: آپ ﷺ کہ دیجئے کہ اے لوگوں ! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ( بنا کر بھیجا گیا) ہوں۔ (سورہ الآعراف : آیہ 158)
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمْ الإِسْلامَ دِيناً
ترجمہ :آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے بحیثیت دین، اسلام کو پسند کیا ہے۔ (سورہ المائدہ : آیہ 3)
مندرجہ بالا آیاتِ قرآنی میں اللہ رب العالمین، اپنے پیارے نبی محمدﷺ کی نبوت کی فضیلت بیان کر تے ہوئے مختلف مقامات پر یہ ارشاد فرما رہا ہے کہ آپ ﷺ تمام انسانوں کے لیے نبی اور رسول بنا کر بھیجے گئے، کیونکہ پِچھلی اُمتوں پر اللہ تعالیٰ نے جو انبیاء کرام مبعوث کرے تھے وہ صرف ایک خاص وقت اور خاص علاقہ اور قوم کے لیے تھے، اس کے بالکل بر عکس آپ ﷺ قیامت تک آنے والی بنی نوع انسانی کے لیے نبی اور رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں، جو آپ ﷺ پر تکمیلِ رسالت کی ایک واضح دلیل ہے۔
جیسا کہ ان آیات کی تفسیر، شارح قرآن حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی متعدد احادیثِ مبارکہ میں خود یوں بیان فرمائی ہے کہ :
” مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔
(1) ایک مہینے کی مسافت پر دشمن کے دل میں میری دھاک بٹھانے کر میری مدد کی گئی۔
(2) تمام روئے زمین میرے لیے مسجد اور پاک بنائی گئی، چنانچہ جہاں بھی نماز کا وقت آ جائے میری امت وہاں نماز ادا کرے۔
(3) مالِ غنیمت کو میرے لیے حلال کر دیا گیا، جو مجھ سے قبل کسی کے لیے حلال نہیں تھا۔
(4) مجھے شفاعت کا حق دیا گیا۔
(5) ہم سے پہلے نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا، اور مجھے کائنات کے تمام انسانوں کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا۔ (صحیح بخاری، کتاب التیمم )
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فضلت عی الانبیاءبست، اعطیت جوامع الکلم، ونصرت بالرعب، واحلت لی المغانم، وجعلت لی الارض طھورا ومسجدا وارسلت الی الخلق کافۃ وختم بی النبیون
” مجھے چھ چیزوں میں انبیاء علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے۔ مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے ہیں، رعب و دبدبہ کے ساتھ میری نصرت کی گئی ہے، مال غنیمت میرے لیے ( بشمول امت ) حلال قرار دیا گیا ہے۔ میرے لیے ( بشمول امت ) ساری کی ساری زمین مسجد اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بنا دی گئی ہے۔ میں پوری دنیا کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں، مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے
( صحیح مسلم، اوائل کتاب المساجد)
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ سے پہلے جتنے بھی نبی اور رسول آئے وہ ایک محدود وقت اور ایک محدود قوم کے لیے آئے تھے، لیکن آپ ﷺ آخری نبی اور رسول ہیں جن کہ بعد قیامت تک کوئی نیا نبی اور رسول نہیں آئے گا اسی لیے آپ ﷺ کو اللہ رب العالمین نے کسی خاص قوم یا کسی خاص وقت کے لیے مبعوث نہیں کیا بلکہ قیا مت تک آنے والی تمام بنی نوع انسانی کے لیے اور پوری کائنات کے لئے نبی اور رسول بنا کر بھیجا۔
ایک اور روایت میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاءکلما ھلک بہ، خلفہ نبی وانہ لانبی بعدی وسیکون خلفاءفیکثرون
” بنی اسرائیل کی قیادت انبیاء علیہم السلام کرتے تھے، جب کوئی نبی فوت ہوتا، تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا مگر ( سن لو ) میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ خلیفے ضرور ہوں گے، اور بکثرت ہوں گے۔ “ ( صحیح بخاری، 3456، صحیح مسلم : 1842 )
دوسری دلیل
قرآن کی دوسری آیات سے اس امر کی مزید وضاحت ہو جاتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ :
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً
ترجمہ : (لوگوں!) محمد ﷺ تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، لیکن آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کےرسول ہیں اور تمام نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا (بخوبی) جاننے والا ہے۔
(سورہ الاحزاب، آیہ 40)
قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ کی تفسیر بھی اللہ تعالیٰ کے آخری نبی محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی کئی احادیث میں فرمائی اور اس آیت میں موجود لفظ خاتم النبیین کو بڑی تفصیل کہ ساتھ واضح کیا تا کہ بعد میں امت کسی مفتری اور دھوکے باز کے دھوکے میں نہ آ جائے۔ آپ ﷺ نے خاتم النبیین کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ :
انہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی او انا خاتم النبیین لانبی بعدی
” میری امت میں تیس بڑے جھوٹے پیدا ہوں گے، جن میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہو گا کہ وہ نبی ہے۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ “ ( ابوداود : 4252، ترمذی، 2219، ابن ماجہ : 3952، مستدرک حاکم، 450/4، بروایت ثوبان )
(اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ” حسن صحیح “ امام حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے )
ان بین یدی الساعۃ ثلاثین کذابا دجالا کلھم یزعم انہ نبی
” قیامت سے پہلے تیس کذاب دجال پیدا ہوں گے، وہ سارے کے سارے نبوت کے دعویدار ہوں گے۔ “ ( دلائل النبوۃ للبیہقی :ج۶، ص : ۴۸۰ بروایت جابر بن سمرہ / یہ حدیث صحیح مسلم اور مسند احمد ج : ۵ ص: ۸۶، پر بھی ہے لیکن الفاظ کچھ مختلف ہیں )
نیز فرمایا :
لا تقوم الساعۃ حتی یخرج ثلاثون کذابا دجالا کلھم یکذب علی اللہ وعلی رسولہ
” قیامت قائم نہیں ہو گی، جب تک تیس ( نامور ) کذاب دجال پیدا نہیں ہوں گے، وہ سارے کے سارے اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھتے ہوں گے ( ابوداود : 4334 / ابو یعلی، ج : 10، ص : ۳۵۰ بروایت ابو ہریرہ t 433 )
وانہ واللہ لا تقوم الساعۃ حتی یخرج ثلاثون کذابا آخرھم الاعور الدجال
” اللہ کی قسم ! اس وقت تک قیامت برپا نہیں ہو گی، جب تک تیس ( نامور ) جھوٹے ( نبی ) پیدا نہیں ہوں گے۔ ان میں آخری کانا دجال ہوگا۔ “
( مسند الامام احمد : ج : ۵، ص : ۱۶ 16/5، طبرانی : ج : ۷، ص : ۲۲۸ 6/ مستدرک حاکم، ج: ۱، ص: ۳۲۹ 329/1، 330وسندہ حسن ) اس حدیث کو امام ابن خزیمہ ( 1397 ) امام ابن حبان (2845856 ) نے ” صحیح “ اور امام حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط پر ” صحیح “ کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے
ان حدیثوں سے واضح ہوا کہ نبی ﷺ کے بعد کچھ لوگ نبوت کا جھوٹا دعوہ ضرور کریں گے اور مسلمانوں کو دھوکے میں ڈالیں گے، لیکن چونکہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے فرما دیا کہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نیا نبی پیدا نہیں ہوگا۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی مدعی نبوت ہو گا، وہ مفتری اور دجال و کذاب ہوگا۔
یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ نبی ﷺ نے خاتم النبیین اور لا نبی بعدی کی ایسی تشریح کر دی ہے کہ کسی کو اسمیں تاویل کی گنجائش نہیں چھوڑی چنانچہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان الرسالۃ والنبوۃ قدانقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی
” اس میں کوئی شک نہیں کہ رسالت و نبوت منقطع ہو چکی ہے، میرے بعد اب نہ کوئی نبی ہے اور نہ رسول۔ “
( مسند الامام احمد : ج ۳3 ص : 267 ، ترمذی :2272 ، حاکم : ج : 1، ص : ۳۹۱ 391/4، ابن ابی شیبہ : ج : ۱۱، ص : ۵۳ 531 )
اس حدیث کو امام ترمذی نے ” حسن صحیح “ امام الضیاء ( 2645) نے ” صحیح “ کہا ہے اور امام حاکم نے اس کی سند کو بخاری و مسلم کی شرط پر ” صحیح “ کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے یہ حدیث اس بارے میں نص صریح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا۔
صحیح بخاری و مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان مثلی ومثل الانبیاءمن قبلی کمثل رجل بنٰی بیتا فاحسنہ واجملہ الا موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون : ھلا وضعت ھذہ اللبنۃ ؟ قال : فانا اللبنۃ وانا خاتم النبیین
” میری اور مجھ سے پہلے انبیاء اکرام کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی نے حسین و جمیل گھر بنایا، البتہ ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس عمارت کے اردگرد گھومتے اور اس کی عمدگی پر اظہار حیرت کرتے رہے مگر یہ ضرور کہتے رہے کہ اس اینٹ کی جگہ کو پر کیوں نہ کر دیا گیا ؟ تو وہ اینٹ میں ہوں، اور میں خاتم النبیین ہوں۔ “ ( صحیح بخاری : 3535، صحیح مسلم : 222862/228 )
یہی حدیث حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فانا موضع اللبنۃ، جئت فختمت الانبیاءعلیہم السلام
” اس اینٹ کی جگہ میں ہی ہوں، چنانچہ میں نے آ کر انبیاء علیھم السلام کی آمد کے سلسلے کو بند کر دیا “ ( صحیح مسلم : 2287 )
ایک روایت کے ایک اور الفاظ ہیں :
فانا موضع اللبنۃ ختم بی الانبیاء
” اس اینٹ کی جگہ میں ہی ہوں، اب میری آمد پر انبیاء کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے ۔ “ ( مسند الطیالسی : 1894، منحۃ المعبود، ج : ۲، ص : ۸۶ / اس حدیث کی سند غایت درجہ صحیح ہے )
سبحان اللہ، کس وضاحت کے ساتھ آپ ﷺ نے اپنی امت کو خاتم النبیین کی تشریح بیان فرمائی کہ کوئی اِشکال باقی نہ رہا۔ آپ ﷺ نے مزید فرمایا :
سیدنا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
ایھا الناس انہ لا نبی بعدی ولا امۃ بعدکم
” اے لوگو ! میرے بعد کوئی نبی نہیں، تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔ “
( المعجم الکبیر للطبرانی : ج : ۸، ص : ۱۶۱ 5، السنۃ لابن ابی عاصم : ج : ۲، ص : ۵۰۵1095 )
سیدنا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دجال کے بارے میں خطبہ دیا :
ایھا الناس ! انہ لم تکن فتنۃ علی الارض اعظم من فتنۃ الدجال وان اللہ لم یبعث نبیا الا حذرہ امتہ، وانا آخر الانبیاء، وانتم آخر الامم وھو خارج فیکم لا محالۃ فان یخرج وانا فیکم فانا حجیج کل مسلم، وان یخرج بعدی، فکل امری حجیج نفسہ، واللہ خلیفتی علی کل مسلم، وانہ یخرج من خلۃ بین الشام والعراق، فیعیث یمینا، ویمیث شمالا، فیا عباداللہ، اثبتوا، فانہ یبدا فیقول : انا نبی ولا نبی بعدی، ثم یثنی فیقول : انا ربکم ولن تروا ربکم حتی تموتوا، وانہ اعور، وان ربکم لیس باعور، وانہ مکتوب بین عینیہ ” کافر “ یقروہ کل مؤمن، فمن لقیہ منکم فلیتفل فی وجھہ….
” اے لوگو ! روئے زمین پر فتنہ دجال سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں، ہر نبی نے اپنی امت کو اس فتنہ سے ڈرایا ہے، میں آخری نبی ہوں، اور تم آخری امت ہو، وہ لامحالہ اس امت میں آنے والا ہے، اگر وہ میری زندگی میں آ جائے، تو میں ہر مسلمان کی طرف سے اس کا حریف ہوں، وہ اگر میرے بعد آئے تو ہر آدمی اپنے طور پر اس کا حریف ہے، اللہ تعالیٰ میری طرف سے ہر مسلمان پر نگہبان ہے، وہ شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا، چاروں سو فساد برپا کرے گا، اے اللہ کا بندو ! ثابت قدم رہنا وہ اس بات سے ابتداء کرے گا کہ میں نبی ہوں، ( یاد رکھو ) میرے بعد کوئی نبی نہیں، دوسرے نمبر پر یہ بات کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں، جبکہ تم مرنے سے پہلے اپنے رب کو نہ دیکھ سکو گے، اس کی حالت یہ ہو گی کہ وہ کانا ہو گا، جبکہ تمہارا رب کانا نہیں، اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ” کافر “ لکھا ہو گا، جسے ہر مومن پڑھ لے گا، تم میں سے جو بھی اس سے ملے، تو اس کے منہ پر تھوک دے۔ ( السنۃ لابن أبي عاصم : 390، ج : 1، ص : 171 ، سنن ابن ماجہ : 4077
No comments:
Post a Comment