Tuesday 3 February 2015

میرے نبی ﷺ کب سے نبی ﷺ ھیں احادیث مبارکہ کی روشنی میں ۔ حدیث نمبر 11 تا 15 ۔ ترتیب و پیشکش : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاھور پاکستان

0 comments
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
11. عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، أَنَّهُمْ قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَخْبِرْنَا عَنْ نَفْسِکَ؟ قَالَ : نَعَمْ، أَنَا، دَعْوَةُ إِبْرَاهِيْمَ، وَبَشَّرَ بِي عِيْسَی بْنُ مَرْيَمَ، وَرَأَتْ أُمِّي حِيْنَ وَضَعَتْنِي خَرَجَ مِنْهَا نُوْرٌ أَضَاءَتْ لَهُ قُصُوْرُ الشَّامِ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ سَعْدٍ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ، وَأَقَرَّهُ الذَّهَبِيُّ.

11 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4174، وابن سعد في الطبقات، 1 / 150، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 / 83، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 1 / 170، 3 / 393، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 2 / 131، والطبري في جامع البيان، 1 / 556، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 361، والسمرقندي في تفسيره، 3 / 421، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 1 / 458، وابن إسحاق في السيرة النبوية، 1 / 28، وابن هشام في السيرة النبوية، 1 / 302، والحلبي في السيرة الحلبية، 1 / 77.

’’حضرت خالد بن معدان حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! ہمیں اپنی ذات کی (حقیقت ) کے بارے میں بتائیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، میں حضرت ابراہیم عليہ السلام کی دعا ہوں اور حضرت عیسیٰ بن مریم عليہ السلام نے میری ہی بشارت دی تھی اور میری ولادت کے وقت میری والدہ محترمہ نے اپنے بدن سے ایسا نور نکلتے ہوئے دیکھا جس سے ان پر شام کے محلات تک روشن ہو گئے تھے۔‘‘

اس حديث کو امام حاکم، ابن سعد، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ اس حديث کی سند صحيح ہے اور امام ذہبی نے ان کی تائید کی ہے۔

12. عَنْ أَبِي مُوْسَی الأَشْعَرِيِّ رضي اﷲ عنه قَالَ : خَرَجَ أَبُوْ طَالِبٍ إِلَی الشَّامِ، وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي أَشْيَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَلَمَّا أَشْرَفُوْا عَلَی الرَّاهِبِ هَبَطُوْا، فَحَلُّوْا رِحَالَهُمْ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمُ الرَّاهِبُ، وَکَانُوْا قَبْلَ ذَلِکَ يَمُرُّوْنَ بِهِ فَـلَا يَخْرُجُ إِلَيْهِمْ وَلَا يَلْتَفِتُ، قَالَ : فَهُمْ يَحُلُّوْنَ رِحَالَهُمْ، فَجَعَلَ يَتَخَلَّلُهُمُ الرَّاهِبُ، حَتَّی جَاءَ فَأَخَذَ بِيَدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ : هَذَا سَيِّدُ الْعَالَمِيْنَ، هَذَا رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، يَبْعَثُهُ اﷲُ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ، فَقَالَ لَهُ أَشْيَاخٌ مِنْ قُرَيْشٍ : مَا عِلْمُکَ؟ فَقَالَ : إِنَّکُمْ حِيْنَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَةِ لَمْ يَبْقَ شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا، وَلَا يَسْجُدَانِ إِلَّا لِنَبِيٍّ، وَإِنِّي أَعْرِفُهُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوْفِ کَتِفِهِ مِثْلَ التُّفَاحَةِ، ثُمَّ رَجَعَ فَصَنَعَ لَهُمْ طَعَامًا، فَلَمَّا أَتَاهُمْ بِهِ، وَکَانَ هُوَ فِي رِعْيَةِ الإِْبِلِ، قَالَ : أَرْسِلُوْا إِلَيْهِ، فَأَقْبَلَ وَعَلَيْهِ غَمَامَةٌ تُظِلُّهُ. فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْقَوْمِ وَجَدَهُمْ قَدْ سَبَقُوْهُ إِلَی فَيئِ الشَّجَرَةِ، فَلَمَّا جَلَسَ مَالَ فَيئُ الشَّجَرَةِ عَلَيْهِ، فَقَالَ : انْظُرُوْا إِلَی فَيئِ الشَّجَرَةِ مَالَ عَلَيْهِ. … قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاﷲِ أَيُّکُمْ وَلِيُّهُ؟ قَالُوْا : أَبُوْطَالِبٍ. فَلَمْ يَزَلْ يُنَاشِدُهُ حَتَّی رَدَّهُ أَبُوْطَالِبٍ، وَبَعَثَ مَعَهُ أَبُوْبَکْرٍ بِلَالًا، وَزَوَّدَهُ الرَّاهِبُ مِنَ الْکَعْکِ وَالزَّيْتِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

12 : أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء فی نبوة النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 590، الرقم : 3620، وابن أبی شيبة فی المصنف، 6 / 317، الرقم : 31733، 36541، وابن حبان فی الثقات، 1 / 42، والأصبهانی فی دلائل النبوة، 1 / 45، الرقم : 19، والطبری فی تاريخ الأمم والملوک، 1 / 519.

’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو طالب روسائے قریش کے ہمراہ شام کے سفر پر روانہ ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ جب راہب کے پاس پہنچے وہ سواریوں سے اترے اور انہوں نے اپنے کجاوے کھول دیئے۔ راہب ان کی طرف آنکلا حالانکہ (روسائے قریش) اس سے قبل بھی اس کے پاس سے گزرا کرتے تھے لیکن وہ ان کے پاس نہیں آتا تھا اور نہ ہی ان کی طرف کوئی توجہ کرتا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ رضي اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ وہ راہب ان کے درمیان چلنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے قریب پہنچا اور آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کا دستِ اقدس پکڑ کر کہا : یہ تمام جہانوں کے سردار اور رب العالمین کے رسول ہیں۔ اﷲ تعالیٰ انہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث فرمائے گا۔ روسائے قریش نے اس سے پوچھا آپ کیسے جانتے ہیں؟ اس نے کہا : جب تم لوگ گھاٹی سے نمودار ہوئے تو کوئی پتھر اور درخت ایسا نہیں تھا جو سجدہ میں نہ گر پڑا ہو۔ اور وہ صرف نبی ہی کو سجدہ کرتے ہیں نیز میں انہیں مہرِ نبوت سے بھی پہچانتا ہوں جو ان کے کاندھے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مثل ہے۔ پھر وہ واپس چلا گیا اور اس نے ان لوگوں کے لئے کھانا تیار کیا۔ جب وہ کھانا لے آیا تو آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم اونٹوں کی چراگاہ میں تھے۔ راہب نے کہا انہیں بلا لو۔ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو آپ کے سرِ انور پر بادل سایہ فگن تھا اور جب آپ لوگوں کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ تمام لوگ (پہلے سے ہی) درخت کے سایہ میں پہنچ چکے ہیں لیکن جیسے ہی آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہوئے تو سایہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی طرف جھک گیا۔ راہب نے کہا : درخت کے سائے کو دیکھو وہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم پر جھک گیا ہے۔ پھر راہب نے کہا : میں تمھیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ ان کا سر پرست کون ہے؟ انہوں نے کہا ابو طالب! چنانچہ وہ حضرت ابو طالب کو مسلسل واسطہ دیتا رہا یہاں تک کہ حضرت ابو طالب نے آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو واپس (مکہ مکرمہ) بھجوا دیا۔ حضرت ابو بکر رضي اﷲ عنہ نے آپ کے ہمراہ حضرت بلال رضي اﷲ عنہ کو بھیجا اور راہب نے آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے ساتھ زادِ راہ کے طور پر کیک اور زیتون پیش کیا۔‘‘

اسے امام ترمذی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

13. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : أَوْحَی اﷲُ إِلَی عِيْسَی عليهم السلام يَا عِيْسَی، آمِنْ بِمُحَمَّدٍ وَأْمُرْ مَنْ أَدْرَکَهُ مِنْ أُمَّتِکَ أَنْ يُؤْمِنُوْا بِهِ فَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ آدَمَ وَلَولَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ الْجَنَّةَ وَلَا النَّارَ. وَلَقَدْ خَلَقْتُ الْعَرْشَ عَلَی الْمَاءِ فَاضْطَرَبَ فَکَتَبْتُ عَلَيْهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ فَسَکَنَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ وَوَافَقَهُ الذَّهَبِيُّ.

13 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 671، الرقم : 4227، والخلال في السنة، 1 / 261، الرقم : 316، والذهبي في ميزان الاعتدال، 5 / 299، الرقم : 6336، والعسقلاني في لسان الميزان، 4 / 354، الرقم : 1040، وابن حيان في طبقات المحدثين بأصبهان، 3 / 287.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عليہ السلام پر وحی نازل فرمائی : اے عیسیٰ! حضرت محمد ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لے آؤ اور اپنی امت کو بھی حکم دو کہ جو بھی ان کا زمانہ پائے تو (ضرور) ان پر ایمان لائے (جان لو!) اگر محمد ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) نہ ہوتے تو میں حضرت آدم عليہ السلام کو بھی پیدا نہ کرتا۔ اور اگر محمد مصطفی ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) نہ ہوتے تو میں نہ جنت پیدا کرتا اور نہ دوزخ، جب میں نے پانی پر عرش بنایا تو اس میں لرزش پیدا ہو گئی، لہذا میں نے اس پر ’’لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ‘‘ لکھ دیا تو وہ ٹھہر گیا۔‘‘

اس حديث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا : یہ حديث صحيح الاسناد ہے اور امام ذہبی نے بھی ان کی موافقت کی ہے۔

14. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ بِمَکَّةَ حَجَرًا کَانَ يُسَلِّمُ عَلَيَّ لَيَالِيَ بُعِثْتُ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ الْآنَ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

14 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : في آيات إثبات نبوة النبي صلی الله عليه وآله وسلم وما قد خصه اﷲ ل، 5 / 592، الرقم : 3624، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 105، الرقم : 21043، وأبو يعلی في المسند، 13 / 459، الرقم : 7469، والطيالسي في المسند، 1 / 106، الرقم : 781، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 245، الرقم : 2028، والبيهقي في دلائل النبوة، 2 / 153، وابن حيان فی العظمة، 5 / 1710.

’’حضرت جابر بن سمرہ رضي اﷲ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مکّہ مکرمہ میں ایک پتھر ہے جو مجھے بعثت کی راتوں میں سلام کیا کرتا تھا۔ میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں۔‘‘

اس حديث کو امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن ہے۔

15. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم بِمَکَّةَ، فَخَرَجْنَا فِي بَعْضِ نَوَاحِيْهَا، فَمَا اسْتَقْبَلَهُ جَبَلٌ وَلَا شَجَرٌ إِلَّا وَهُوَ يَقُوْلُ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَالْحَاکِمُ.

وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

15 : أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : (6)، 5 / 593، الرقم : 3626، والدارمی فی السنن، (4) باب : ما أکرم اﷲ به نبيه من إيمان الشجر به والبهائم والجن، 1 / 31، الرقم : 21، والحاکم فی المستدرک، 2 / 677، الرقم : 4238، والمقدسی فی الأحاديث المختارة، 2 / 134، الرقم : 502، والمنذری فی الترغيب والترهيب، 2 / 150، الرقم : 1880، والمزي فی تهذيب الکمال، 14 / 175، الرقم : 3103، والجرجانی فی تاريخ جرجان، 1 / 329، الرقم : 600.

’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں مکہ مکرمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ ہم مکہ مکرمہ کی ایک طرف چلے تو جو پہاڑ اور درخت بھی آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے سامنے آتا (وہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے) عرض کرتا : {اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ}.‘‘

اسے امام ترمذی، دارمی اور حاکم نے روایت کیا ہے، نیز امام ترمذی اور حاکم نے فرمایا کہ یہ حديث حسن اور صحيح الاسناد ہے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔