Sunday, 23 February 2025

ماہِ رمضانُ المبارک کے فضائل و برکات

ماہِ رمضانُ المبارک کے فضائل و برکات

محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلْیَصُمْہُؕ وَمَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ یُرِیۡدُ اللہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الْعُسْرَ۫ وَ لِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوۡنَ ۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر 185)

ترجمہ : رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کےلیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں ۔ اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو ۔


اس آیتِ مبارکہ میں ماہِ رمضان کی عظمت و فضیلت کا بیان ہے اوراس کی دو اہم ترین فضیلتیں ہیں ، پہلی یہ کہ اس مہینے میں قرآن اترا اور دوسری یہ کہ روزوں کےلیے اس مہینے کا انتخاب ہوا ۔ اس مہینے میں قرآن اترنے کے یہ معانی ہیں : (1) رمضان وہ ہے جس کی شان و شرافت کے بارے میں قرآن پاک نازل ہوا ۔ (2) قرآن کریم کے نازل ہونے کی ابتداء رمضان میں ہوئی ۔ (تفسیر کبیر سورہ البقرۃ الآیۃ : ۱۸۵، ۲/۲۵۲-۲۵۳،چشتی) ۔ (3) مکمل قرآن کریم رمضان المبارک کی شب ِقدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف اتارا گیا اور بیت العزت میں رہا ، (تفسیر خازن سورہ البقرۃ الآیۃ : ۱۸۵،۱/۱۲۱)


یہ اسی آسمان پر ایک مقام ہے یہاں سے وقتاً فَوقتاً حکمت کے مطابق جتنا جتنا اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام لاتے رہے اوریہ نزول تیئس سال کے عرصہ میں پورا ہوا ۔


عظمت والی چیز سے نسبت کی برکت


رمضانُ المبارک وہ واحد مہینہ ہے کہ جس کا نام قرآن پاک میں آیا اورقرآن مجید سے نسبت کی وجہ سے ماہِ رمضان کو عظمت و شرافت ملی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس وقت کو کسی شرف و عظمت والی چیز سے نسبت ہو جائے وہ قیامت تک شرف والا ہے ۔ اسی لیے جس دن اور گھڑی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت اور معراج سے نسبت ہے وہ عظمت و شرافت والے ہو گئے ، جیسے حضرت آدم علیہ السلام کی روزِ جمعہ پیدائش پر جمعہ کا دن عظمت والا ہو گیا ۔ (مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ صفحہ ۴۲۵، الحدیث: ۱۷(۸۵۴)،چشتی)


حضرت یحییٰ علیہ السلام کی پیدائش ، وصال اور زندہ اٹھائے جانے کے دن پر قرآن میں سلام فرمایا گیا ۔ (مریم: ۱۵) اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اپنی پیدائش ، وصال اور زندہ اٹھائے جانے کے دن پر سلام فرمانا قرآن میں مذکور ہے ۔ (سورہ مریم آیت نمبر ۳۳)


زیرِ تفسیر آیت میں قرآن مجید کی تین شانیں بیان ہوئیں : (۱) قرآن ہدایت ہے ، (۲) روشن نشانیوں پرمشتمل ہے اور ، (۳) حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے ۔ قرآن شریف کے 23 نام ہیں اور یہاں قرآن مجید کا دوسرا مشہور نام فرقان ذکر کیا گیا ہے ۔


اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہم پر فرض فرمائی لیکن اپنی رحمت سے ہم پرتنگی نہیں کی بلکہ آسانی فرماتے ہوئے متبادل بھی عطا فرما دیے ۔ روزہ فرض کیا لیکن رکھنے کی طاقت نہ ہو تو بعد میں رکھنے کی اجازت دیدی، بعض صورتوں میں فدیہ کی اجازت دیدی ، کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی طاقت نہ ہوتو بیٹھ کر ورنہ لیٹ کر اشارے سے پڑھنے کی اجازت دیدی، ایک مہینہ روزہ کا حکم فرمایا تو گیارہ مہینے دن میں کھانے کی اجازت دیدی اور رمضان میں بھی راتوں کو کھانے کی اجازت دی بلکہ سحری و افطاری کے کھانے پر ثواب کا وعدہ فرمایا ۔ گنتی کے چند جانوروں کا گوشت حرام قرار دیا تو ہزاروں جانوروں ، پرندوں کا گوشت حلال فرما دیا ۔ کاروبار کے چند ایک طریقوں سے منع کیا تو ہزاروں طریقوں کی اجازت بھی عطا فرمادی ۔ مرد کو ریشمی کپڑے سے منع کیا تو بیسیوں قسم کے کپڑے پہننے کی اجازت دیدی ۔ الغرض یوں غور کریں تو آیت کا معنیٰ روزِ روشن کی طرح ظاہر ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر آسانی چاہتا ہے اور وہ ہم پر تنگی نہیں چاہتا ۔


گنتی پوری کرنے سے مراد رمضان کے انتیس یا تیس دن پورے کرنا ہے اور تکبیر کہنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے دین کے طریقے سکھائے تو تم اس پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو اور ان چیزوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو ۔


حافظ ابن عساکر علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے ابراہیم پر صحائف رمضان کی پہلی شب میں نازل کیے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات رمضان کی چھٹی شب میں نازل کی ‘ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل رمضان کی اٹھارویں شب میں نازل ہوئے ۔ (تاریخ ابن عساکر ج 3 ص 195‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ 1404 ھ،چشتی)


امام رازی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : مجاہد نے کہا : کہ رمضان اللہ تعالیٰ کا نام ہے اور رمضان کے مہینہ کا معنی ہے : اللہ کا مہینہ اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے روایت ہے کہ یہ نہ کہو کہ رمضان آیا اور رمضان گیا ‘ بلکہ یہ کہو کہ رمضان کا مہینہ آیا اور رمضان کا مہینہ گیا ‘ کیونکہ رمضان ‘ اللہ کے اسماء میں سے ایک اسم ہے ۔


دوسرا قول یہ ہے کہ رمضان مہینہ کا نام ہے جیسا کہ رجب اور شعبان مہینوں کے نام ہیں۔ خلیل سے منقول ہے : رمضان ‘ رمضاء سے بنا ہے اور رمضاء خریف کی اس بارش کو کہتے ہیں جو زمین سے گرد و غبار کو دھو ڈالتی ہے ‘ اس طرح رمضان بھی اس امت کے گناہوں کو دھو ڈالتا ہے اور ان کے دلوں کو گناہوں سے پاک کردیتا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ رمضان رمض سے بنا ہے اور رمض سورج کی تیز دھوپ کو کہتے ہیں اور اس مہینے میں روزہ داروں پر بھوک اور پیاس کی شدت بھی تیز دھوپ کی طرح سخت ہوتی ہے ‘ یا جس طرح تیز دھوپ میں بدن جلتا ہے اسی طرح رمضان میں گناہ جل جاتے ہیں اور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : رمضان اللہ کے بندوں کے گناہ جلا دیتا ہے ۔


رمضان کے مہینہ میں نزول قرآن کی ابتداء اس وجہ سے کی گئی کہ قرآن اللہ عزوجل کا کلام ہے اور انوار الہیہ ہمیشہ متجلی اور منکشف رہتے ہیں ‘ البتہ ارواح بشریہ میں ان انوار کے ظہور سے حجابات بشریہ مانع ہوتے ہیں اور حجابات بشریہ کے زوال کا سب سے قوی سبب روزہ ہے ‘ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کشف کے حصول کا سب سے قوی ذریعہ روزہ ہے ‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اگر بنی آدم کے قلوب میں شیطان نہ گھومتے تو وہ آسمانوں کی نشانیوں کو دیکھ لیتے ‘ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید میں اور رمضان میں عظیم مناسبت ہے ‘ اس لیے نزول قرآن کی ابتداء کے لیے اس مہینہ کو خاص کرلیا گیا ۔ (تفسیر کبیر ج 2 ص 121۔ 120 مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ 1398 ھ،چشتی)


اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سو تم میں سے جو شخص اس مہینہ میں موجود ہو وہ ضرور اس ماہ کے روزے رکھے ۔ (سورہ البقرہ : 185)


بہ ظاہر اس آیت میں یہ اشکال کہ اس آیت سے یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ کوئی شخص اس مہینہ سے غائب بھی ہوسکتا ہے ‘ ہوسکتا ہے کہ پہلے یہ بات عجیب معلوم ہو لیکن اب جب کہ یہ محقق ہوگیا کہ قطبین میں چھ ماہ کا دن اور چھ ماہ کی رات ہوتی ہے تو وہاں کے رہنے والے رمضان کے مہینہ میں حاضر نہیں ہوتے ‘ اس لیے قطبین کے رہنے والوں پر رمضان کے روزے فرض نہیں ہیں ‘ البتہ جب باقی دنیا میں رمضان کا مہینہ ہو ان دنوں میں کسی قریبی اسلامی ملک کے حساب سے وہاں کے رہنے والے طلوع فجر اور غروب آفتاب کے اوقات کا اپنے علاقہ کی گھڑیوں کے وقت سے ایک نظام الاوقات مقرر کرلیں اور اتنا وقت روزہ سے گزاریں تو بہت بہتر ہے ‘ اور جب کہ تمام دنیا کاٹائم بتانے والی گھڑیاں ایجاد ہوچکی ہیں ‘ یہ ایسا مشکل بھی نہیں ہے ‘ وہاں کے رہنے والے اگر گھڑیوں کے حساب سے نمازیں پڑھیں تو یہ بھی بہت بہتر ہے ہرچند کہ سورج کے طلوع اور غروب کے لحاظ سے ان پر ایک سال میں صرف ایک دن کی نمازیں فرض ہوں گی ۔


سعودی عرب کے حساب سے روزے رکھتا ہوا پاکستان آیا تو عید کس حساب سے کرے گا ؟


پاکستان میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ سعودی عرب سے ایک یا دو روز پہلے روزے رکھتے ہوئے آتے ہیں اور ان کے تیس روزے پورے ہوجاتے ہیں اور یہاں ہنوز رمضان ہوتا ہے تو چونکہ مذاہب اربعہ کے محققین فقہاء کے نزدیک بلاد بعیدہ میں اختلاف مطالع معتبر ہے ‘ اس لیے اس کو روزے رکھنے چاہئیں ‘ نیز قرآن مجید میں ہے : (آیت) ” فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ “۔ (البقرہ : 185) تم میں سے جو اس مہینے میں موجود ہو تو وہ ضرور اس کے روزے رکھے “۔ اور اس شخص نے اس صورت میں رمضان کا مہینہ پایا ہے اس لیے وہ سب کے ساتھ روزے رکھے ‘ نیز امام ترمذی روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ” الصوم یوم تصومون والفطر یوم تفطرون “۔ جس دن لوگ روزہ رکھیں اس دن روزہ ہے اور جس دن لوگ عید کریں اس دن عید ہے۔ (جامع ترمذی ص 124) اس حدیث کا بھی یہ تقاضا ہے کہ جو شخص پاکستان میں آگیا وہ یہاں کے لوگوں کے ساتھ روزے رکھے اور یہاں کے لوگوں کے ساتھ عید کرے۔ ایک رائے یہ ہے کہ اگر اس کے تیس روزے پورے ہوچکے ہیں تو اس پر اب روزے لازم نہیں ‘ کیونکہ حدیث کے اعتبار سے مہینہ انتیس یا تیس دنوں کا ہوتا ہے اور وہ ایک مہینہ کے روزے رکھ چکا ہے ‘ لیکن پہلی رائے کے دلائل زیادہ قوی ہیں۔

پاکستان سے روزے رکھتا ہوا سعودی عرب گیا تو عید کس حساب سے کرے گا ؟


بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص نے پاکستان میں چاند دیکھ کر روزے رکھنے شروع کیے اور اثناء رمضان میں سعودی عرب چلا گیا جہاں جہاں لوگوں نے ایک یا دو روز پہلے روزے رکھنے شروع کیے تھے اور ابھی اس کے اٹھائیس یا انتیس روزے ہوئے تھے کہ انہوں نے عید کرلی اس صورت کے بارے میں علامہ نووی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ایک شخص نے ایک ایسے شہر سے سفر کیا جنہوں نے رمضان کا چاند نہیں دیکھا اور اس شہر میں پہنچا جس میں (اس کے حساب سے) ایک دن پہلے چاند دیکھ لیا گیا تھا اور ابھی اس نے انتیس روزے رکھے تھے کہ انہوں نے عید کرلی۔ اب اگر ہم عام حکم رکھیں یا یہ کہیں کہ اس کے لیے اس شہر کا حکم ہے تو وہ عید کرلے اور ایک دن کے روزے کی قضاء کرے ‘ اور اگر ہم حکم عام نہ رکھیں اور یہ کہیں کہ اس کے لیے پہلے شہر کا حکم ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس دن روزہ رکھے ۔


چونکہ مذاہب اربعہ کے محققین فقہاء کے نزدیک بلاد بعیدہ میں اختلاف مطالع معتبر ہے ‘ اس لیے پاکستان سے سعودی عرب پہنچنے کے بعد اس شخص پر سعودی عرب کے مطلع کے احکام لازم ہوں گے وہ اس کے حساب سے روزے رکھے گا اور ان کے حساب سے عید کرے گا ‘ لیکن اس کے روزے تیس سے کم ہیں تو وہ کم دونوں کی احتیاط قضا کرلے ۔


سعودی عرب سے عید کے دن سوار ہو کر پاکستان پہنچا اور یہاں ہنوز رمضان ہے۔ ایسی صورت کے بارے میں علامہ نووی لکھتے ہیں : اگر ایک شخص نے ایک شہر میں چاند دیکھا تو صبح عید کی اور وہ کشتی کے ذریعہ کسی دو دراز شہر میں پہنچا جہاں لوگوں کا روزہ تھا۔ شیخ ابو محمد نے کہا : اس پر لازم ہے کہ وہ بقیہ دن کھانے پینے سے اجتناب کرے۔ یہ اس صورت میں ہے جب ہم یہ کہیں کہ اس پر اس شہر کا حکم لازم ہے اور اگر ہم حکم عام رکھیں یا اختلاف مطالع کا اعتبار نہ کریں تو اس پر افطار کرنا لازم ہے ۔


چونکہ بلادِ بعیدہ میں اختلاف مطالع معتبر ہے ‘ اس لیے جو شخص سفر کر کے دور دراز علاقہ میں پہنچے گا اس پر وہاں کے جغرافیائی حالات کے اعتبار سے شرعی احکام لازم ہوں گے ۔


اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جو مریض یا مسافر ہو (اور روزے نہ رکھے) تو وہ دوسرے دنوں سے (مطلوبہ) عدد پورا کرے ۔ (سورہ البقرہ : 185)


اس حکم کو دوبارہ ذکر فرمایا تاکہ یہ وہم نہ ہو کہ یہ رخصت منسوخ ہوگئی ہے۔ کتنی مسافت کے سفر میں روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہے ؟ اس میں فقہاء کا اختلاف ہے ‘ داؤد ظاہری کے نزدیک مسافت کم ہو یا زیادہ اس پر شرعی سفر کے احکام نافذ ہوجاتے ہیں ‘ خواہ ایک میل کی مسافت کا سفر ہو ‘ امام احمد کے نزدیک دو دن کی مسافت کا اعتبار ہے ‘ امام شافعی کے نزدیک بھی دو دن کی مسافت کا اعتبار ہے ‘ امام مالک کے نزدیک ایک دن کی مسافت معتبر ہے ‘ امام ابوحنفیہ سفر شرعی کے لیے تین دن کی مسافت کا اعتبار کرتے ہیں ‘ ان کی دلیل یہ حدیث ہے ‘ امام بخاری روایت کرتے ہیں : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : کوئی عورت بغیر محرم کے تین دن کا سفر نہ کرے۔ (صحیح بخاری ج 1 ص 147‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ 1381 ھ،چشتی)


جمہور فقہاءِ احناف علیہم الرحمہ نے تین دن کی مسافت کا اندازہ اٹھارہ فرسخ کیا ہے ۔ (ردالمختار ج 1 ص 527۔ 526) اٹھارہ فرسخ ‘ 54 شرعی میل کے برابر ہیں جو انگریزی میلوں کے حساب سے اکسٹھ میل ‘ دو فرلانگ ‘ بیس گز ہے اور 724۔ 98 کلومیٹر کے برابر ہے ۔ مسافت قصر کی پوری تفصیل اور تحقیق ہم نے ” شرح صحیح مسلم “ جلد ثانی میں بیان کی ہے ۔


جو شخص فوت ہوگیا اور اس نے رمضان کے روزے نہ رکھے ہوں تو امام مالک ‘ امام شافعی اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک کوئی شخص اس کی طرف سے روزے نہیں رکھ سکتا ‘ ان کی دلیل یہ آیت ہے : ولا تزروازۃ وزر اخری ۔ (سورہ الانعام : 164)

ترجمہ : کوئی شخص کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔


علامہ مرداوی حنبلی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : جب کوئی شخص فوت ہوجائے اور اس پر نذر کے روزے ہوں تو صحیح مذہب یہ ہے کہ اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھ سکتا ہے اور صحیح مذہب یہ ہے کہ ایک جماعت میت کی طرف سے روزے رکھ سکتی ہے ‘ نیز صحیح مذہب یہ ہے کہ ولی کا غیر بھی میت کی طرف سے اس کی اجازت سے اور اس کی اجازت کے بغیر روزے رکھ سکتا ہے ‘ اگر ولی روزے نہ رکھے تو میت کے مال سے ہر روزہ کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلائے ۔ (الانصاف ج 3 ص 337۔ 336‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی،چشتی)


علامہ سرخسی حنفی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ہماری دلیل یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے موقوفا روایت ہے کہ کوئی شخص کسی کی طرف سے روزہ نہ رکھے اور نہ کوئی شخص کسی کی طرف سے نماز پڑھے۔ (موطا امام مالک ص 245‘ مطبوعہ لاہور)


دوسرے دلیل یہ ہے کہ زندگی میں عبادات کی ادائیگی میں کوئی شخص کسی کا نائب نہیں ہوسکتا ‘ لہذا موت کے بعد بھی نہیں ہوسکتا ‘ کیونکہ عبادت کا مکلف کرنے سے یہ مقصود ہے کہ مکلف کے بدن پر اس عبادت کی مشقت ہو اور نائب کے ادا کرنے سے مکلف کے بدن پر کوئی مشقت نہیں ہوئی ‘ البتہ اس کی طرف سے ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے گا ‘ کیونکہ اب اس مکلف کا خود روزہ رکھنا ممکن نہیں ہے تو فدیہ اس کے روزہ کا قائم مقام ہوجائے گا جیسا کہ شیخ فانی کی صورت میں ہے اور اس نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہو تو اس کے تہائی مال سے کھانا کھلانا لازم ہے اور امام شافعی کے نزدیک وہ وصیت کرے یا نہ کرے اس کی طرف سے کھانا کھلانا لازم ہے ‘ فدیہ کی مقدار ہمارے نزدیک دو کلو گندم ہے اور امام شافعی کے نزدیک ایک کلو گندم ہے ۔ (المبسوط جلد 3 صفحہ 37 مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ‘ 1398 ھ،چشتی)


روزہ چھ چیزوں کا ہے


(1) آنکھ کا بدنظری اور تاک جھانک سے بچے ۔


(2) کانوں کا کہ جھوٹ ، غیبت اور گانے بجانے کے سننے سے بجائے ۔


(3) زبان کا کہ جھوٹ، غیبت، گالیوں، فضول اور بے ہودہ بکواس سے بچائے ۔


(4) باقی بدن کا کہ ہاتھوں سے چوری اور ظلم نہ کرے اور پیروں سے چل کر کسی بری اور گناہ کی جگہ نہ جائے ۔


(5) حرام غذا کا کہ اس سے پرہیز کرے اور حلال بھی جہاں تک ہو، کم کھائے تاکہ روزے کے انوار اور برکات حاصل ہوں ۔


(6) پھر ڈرتا رہے کہ خدا جانے یہ روزہ قبول بھی ہوگا یا نہیں کہ شاید کوئی غلطی ہوگئی ہو مگر اس ڈر کے ساتھ کریم پروردگار کے کرم کے بھروسہ پر امید بھی رکھے ۔


اور خاص بندوں کے لئے ان 6 کے ساتھ ایک ساتویں چیز اور ہے کہ حق تعالیٰ کے سوا ہر چیز کی طرف سے دل کو ہٹالے یہاں تک کہ افطاری کا سامان بھی نہ کرے ۔


احیاءالعلوم کی شرح میں بعض بزرگوں کا قصہ آیا ہے کہ اگر کہیں سے افطاری آجاتی تو اس کو خیرات کر ڈالتے تاکہ دل اس میں مشغول نہ رہے ۔


مفسرین لکھتے ہیں کہ کتب علیکم الصیام میں انسان کی ہر چیز پر روزہ فرض کیا گیا ہے۔ پس زبان کا روزہ، جھوٹ اور غیبت سے بچنا ہے اور کان کا روزہ ناجائز چیزوں کے سننے سے پرہیز ہے اور آنکھوں کا روزہ کھیل تماشے سے بچنا ہے اور نفس کا روزہ حرص اور خواہشوں سے اور دل کا روزہ دنیا کی محبت سے بچنا ہے اور روح کا روزہ یہ ہے کہ آخرت کی لذتوں کی بھی خواہش نہ ہو اور سر خاص کا روزہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ کے سوا کسی پر بھی نظر نہ ہو ۔


ایک اہم بات : واضح ہو کہ اگر ان فضیلتوں اور برکتوں کو سن کر روزے کو ضروری اور برکت کا باعث سمجھا جاتا ہے تو نماز کا خیال اس سے کہیں بڑھ کر ہونا چاہئے کیونکہ وہ روزے اور زکوٰۃ اور حج سب سے افضل ہے اور سب کی اصل ہے اور یہ سب عبادتیں اس میں موجود ہیں ۔ چنانچہ :


(1) ذکر و تلاوت اور تسبیح اور کلمہ شہادت تو زبانی عبادتوں کی اصل الاصول ہیں ۔


(2) اور اس میں حج کا نمونہ بھی ہے کہ پہلی تکبیر احرام کے اور قبلہ کی طرف منہ کرنا طواف کے اور کھڑا ہونا عرفات میں ٹھہرنے کے اور رکوع اور سجود اور رکعتوں کے لئے اٹھنا، بیٹھنا صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنے کے قائم مقام ہے ۔


(3) نیز اس میں ہر چیز کا روزہ بھی پایا جاتا ہے کہ نظر کو دوست کے سوا غیر پر ڈالنے سے اور زبان کو ذکر اور تلاوت کے سوا باتیں کرنے سے اور ہاتھوں کو لینے دینے سے اور پائوں کو چلنے پھرنے سے اور دل کو خیالات کے میدان میں دوڑنے سے اور چیزوں میں غوروفکر کرنے سے روکتا ہے حالانکہ روزے میں اتنی پابندی نہیں ہیں۔


(4) اور اس میں زکوٰۃ بھی ہے کہ ستر چھپانے کے لئے کپڑا اور پاکی کے لئے برتن اور پانی خریدنے میں مال خرچ کرتا ہے نیز اپنے وقت کو تمام ضروریات سے اﷲ کے لئے فارغ کرتا ہے جس طرح زکوٰۃ کے لئے مال کی ایک مقدار کو علیحدہ کرتا ہے ۔


(5) نیز اس میں ہر مخلوق کی عبادت بھی پائی جاتی ہے چنانچہ کھڑا ہونے میں درختوں اور ذکرو تلاوت میں اڑنے والے خوش آواز جانوروں کی اور رکوع میں چرنے والے جانوروں کی اور سجدے میں بے ہاتھ پائوں کے جانوروں کی اور بیٹھنے میں پتھروں اور پہاڑوں وغیرہ تمام چیزوں کی عبادت موجود ہے ۔


(6) اور حق تعالیٰ کی معرفت و ذات میں استغراق ’’کروبیوں‘‘ یعنی فرشتوں کی عبادت ہے ۔ غرض نماز میں تمام مخلوقات کی عبادتیں موجود ہیں اسیلئے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے پوچھا گیا کہ سب سے افضل کون سا عمل ہے؟ تو آپ نے فرمایا ’’الصلوٰۃ لوقتھا‘‘ (نماز کا اسکے وقت پڑھنا) اور اسی لئے ارشاد ہوا کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے ۔


(7) اور نماز کوثر سے بھی مشابہت رکھتی ہے اس لئے کوثر کو عطا کرنے کے شکریہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو نماز ادا کرنے کا حکم ہوا کیونکہ: (1) نماز میں جو ہمکلامی ہوتی ہے وہ شہد سے زیادہ میٹھی ہے (2) اور اس میں جو غیبی انوار نمازی کے دل کو منور کرتے ہیں وہ دودھ سے زیادہ سفید ہے (3) اور اس میں جو یقین کو ترقی ہوتی ہے وہ برف سے زیادہ ٹھنڈی ہے (4) اور جو لطف و چین نماز میں نصیب ہوتا ہے وہ مکھن سے زیادہ نرم ہے (5) اور جو سنت ومستحب چیزیں نماز کو گھیرے ہوئے ہیں اور باطنی زندگی کو سرسبز کرتی ہیں وہ زمرد کے درختوںکی طرح ہیں جو کوثر کے کناروں پر ہیں (6) اور ذکروتسبیحات سونے چاندی کے گلاس ہیں جن سے محبت الٰہی کی شراب گھونٹ گھونٹ ہوکر باطن میں پہنچتی ہے اور روح کو سیراب کرتی ہے اور کوثر میں بھی یہی چھ صفتیں پائی جاتی ہیں (تفسیر عزیزیزی پارہ الم اور عم)


پس نماز کی قدر اور محبت روزے سے اور سب عبادتوں سے زیادہ ہونی چاہیے ۔


(8) اور بڑی قدر یہ ہے کہ اس کو نہایت عاجزی کے ساتھ باجماعت ادا کیا جائے کیونکہ جماعت کے بغیر ادا کرنے کو اصول فقہ میں ناقص ادا بتایا ہے ۔


مراۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے کہ جو نماز جماعت کے بغیر پڑھی جائے ، وہ ادا تو ہوجاتی ہے لیکن اس پر ثواب نہیں ملتا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد ہے کہ مسجد کے قریب رہنے والوں کی نماز مسجد کی بغیر گویا ہوتی ہی نہیں اور اس سے بڑھ کر کون سی تاکید ہوگی کہ رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جماعت ترک کرنے والوں کے گھروں میں آگ لگا دینے کی خواہش ظاہر فرمائی ۔


روزہ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک عظیم رکن ہے ، اللہ تعالی نے امت محمد یہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہجرت کے دوسرے سال رمضان کے روزوں کو فرض کیاہے ۔ جیسا کہ سبل الہدی والرشاد میں ہے : وفی السنۃ الثانیۃ فرض شہر رمضان ۔ (سبل الہدی والرشاد جماع ابواب سیرتہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی الصوم والاعتکاف، الباب السادس فی صومہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم التطوع)


اور سورہ بقرہ کی آیت نمبر 183 میں ارشاد ربانی ہے : یاایھا الذین اٰمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون ۔

ترجمہ : اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ ۔ (سورۃ البقرہ ۔ 183)


اِس ماہِ مُبارَک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ عزوجل نے اِس میں قراٰنِ پاک نازِل فرمایا ہے ۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے : شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ-فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ-وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘-وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ۔ (سورۃ البقرۃآیت نمبر 185)

تَرجَمَہ : رَمضان کا مہینا ، جس میں قرآن اُترا ، لوگوں کےلیے ہدایت اور رَہنمائی اور فیصلے کی روشن باتیں ،تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اِس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو، تو اُتنے روزے اور دِنوں میں ۔ اللہ عزوجل تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دُشواری نہیں چاہتا اور اِس لیے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ عزوجل کی بڑائی بولو اِس پر کہ اُس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو ۔


رَمضان، یہ ’’ رَمَضٌ ‘‘ سے بنا جس کے معنٰی ہیں ’’ گرمی سے جلنا ۔ کیونکہ جب مہینوں کے نام قدیم عربوں کی زبان سے نقل کیے گئے تو اس وَقت جس قسم کا موسم تھا اس کے مطابق مہینوں کے نام رکھ دیے گئے اِتفاق سے اس وَقت رمضان سخت گرمیوں میں آیا تھا اسی لیے یہ نام رکھ دیا گیا ۔ (اَلنِّہَایَۃ لِابْنِ الْاَثِیر جلد ۲ صفحہ ۲۴۰)


حکیم الامت حضرتِ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بعض مفسرین علیہم الرحمہ نے فرمایا کہ جب مہینوں کے نام رکھے گئے تو جس موسم میں جو مہینہ تھا اُسی سے اُس کا نام ہوا ۔ جو مہینہ گرمی میں تھا اُسے رَمضان کہہ دیا گیا اور جو موسم بہار میں تھا اُسے ربیعُ الْاَوّل اور جو سردی میں تھا جب پانی جم رہا تھا اُسے جُمادَی الْاُولٰی کہا گیا ۔ (تفسیر نعیمی جلد ۲ صفحہ ۵ ۲۰،چشتی)


حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب ماہِ رَمضان کی پہلی رات آتی ہے تو آسمانوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور آخری رات تک بند نہیں ہوتے ۔ جو کوئی بندہ اس ماہِ مبارَک کی کسی بھی رات میں نماز پڑھتا ہے تَو اللہ عَزّوَجَلَّ اُس کے ہر سجدے کے عوض (یعنی بدلے میں) اُس کےلیے پندرہ سو نیکیاں لکھتا ہے اور اُس کےلیے جنت میں سُرخ یا قوت کا گھر بناتا ہے ۔ پس جو کوئی ماہِ رَمضان کا پہلا روزہ رکھتا ہے تو اُس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ، اور اُس کےلیے صبح سے شام تک 70 ہزار فرشتے دُعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں ۔ رات اور دِن میں جب بھی وہ سجدہ کرتاہے اُس کے ہر سجدے کے بدلے اُسے (جنت میں ) ایک ایک ایسا دَرَخت عطا کیا جاتا ہے کہ اُس کے سائے میں (گھوڑے) سوار پانچ سو برس تک چلتا رہے ۔ (شُعَبُ الایمان جلد ۳ صفحہ ۳۱۴ حدیث نمبر ۳۶۳۵،چشتی)


حضرت جابر بن عبداللّٰہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری اُمت کو ماہِ رَمضان میں پانچ چیز یں ایسی عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں : {۱} جب رَمَضانُ الْمبارَک کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ عزوجل ان کی طرف رَحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف اللہ عزوجل نظر رَحمت فرمائے اُسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا {۲} شام کے وَقت ان کے منہ کی بو (جوبھوک کی وجہ سے ہوتی ہے) اللہ تَعَالٰی کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے {۳} فرشتے ہر رات اور دن ا ن کےلیے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں {۴} اللہ تَعَالٰی جنت کو حکم فرماتاہے : میرے (نیک ) بندوں کیلئے مُزَیَّن (مُ۔زَ۔یَّن۔یعنی آراستہ) ہوجا عنقریب وہ دنیا کی مَشَقَّت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پائیں گے‘‘ {۵} جب ماہِ رَمضان کی آخری رات آتی ہے تو اللہ عزوجل سب کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔ قوم میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی : یَارَسُولَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا وہ لَیلَۃُ الَقَدْر ہے ؟ ارشاد فرمایا : ’’نہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ مزدور جب اپنے کاموں سے فارِغ ہوجاتے ہیں تواُنہیں اُجرت دی جاتی ہے ۔ (شُعَبُ الایمان جلد ۳ صفحہ ۳۰۳ حدیث نمبر ۳۶۰۳)


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پانچوں نمازیں اور جمعہ اگلے جمعے تک اور ماہِ رَمضان اگلے ماہِ رَمضان تک گناہوں کا کفارہ ہیں جب تک کہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے ۔ (مسلِم ص۱۴۴حدیث۲۳۳)


روزہ عرف شرع میں مسلمان کا بہ نیّت عبادت صبح صادق سے غروب آفتاب تک اپنے کو قصداً کھانے پینے جماع سے باز رکھنا ، عورت کا حیض و نفاس سے خالی ہونا شرط ہے ۔ (الفتاوی الھندیۃ کتاب الصوم الباب الأول جلد ۱ صفحہ ۱۹۴،چشتی)


عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه یَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: قَالَ ﷲ: کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهٗ إِلَّا الصِّیَامَ، فَإِنَّهٗ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهٖ، وَالصِّیَامُ جُنَّةٌ، وَإِذَا کَانَ یَوْمُ صَوْمِ أَحَدِکُمْ فَـلَا یَرْفُثْ وَلَا یَصْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهٗ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهٗ فَلْیَقُلْ: إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، لَخُلُوْفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْیَبُ عِنْدَ ﷲِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْکِ. لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ یَفْرَحُهُمَا: إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهٗ فَرِحَ بِصَوْمِهٖ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ ۔

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم کا ہر عمل اُسی کے لیے ہے سوائے روزے کے، کیونکہ روزہ میرے لیے ہے اور اُس کی جزاء میں ہی دیتا ہوں۔ روزہ ڈھال ہے اور جس روز تم میں سے کوئی روزے سے ہو تو نہ فحش باتیں کرے اور نہ جھگڑے۔ اگر اُسے کوئی گالی دے یا لڑے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پیاری ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جن سے اُسے فرحت ہوتی ہے۔ جب افطار کرے تو خوش ہوتا ہے اور جب اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے کے(عظیم اجر کے) باعث خوش ہو گا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب هل یقول إني صائم إذا شتم، 2/673، الرقم: 1805، ومسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب فضل الصیام، 2/807، الرقم: 1151، والنسائي في السنن، کتاب الصیام، باب فضل الصیام، 4/163، الرقم: 2216، وفي السنن الکبری، 2/90، الرقم: 2525، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/323، الرقم: 7174، والبزار في المسند، 3/129، الرقم: 915)


عَنْ أَبِي هُرَیْرَة رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: یَقُوْلُ ﷲ تَعَالَی: کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ فَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَی سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ إِلَّا الصِّیَامَ هُوَ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ. إِنَّهُ یَتْرُکُ الطَّعَامَ وَشَهْوَتَهُ مِنْ أَجْلِي وَیَتْرُکُ الشَّرَابَ وَشَهْوَتَهُ مِنْ أَجْلِي فَهُوَ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ ۔ رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَ أَحْمَدُ ۔

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آدمی کا ہر عمل اس کے لئے ہے اور ہر نیکی کا ثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے۔ سوائے روزہ کے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا عطا کرتا ہوں، یقینا وہ (روزہ دار) کھانا اور شہوت نفسانی کو میری وجہ سے ترک کرتا ہے اور اپنا پینا اور شہوت میری وجہ سے ترک کرتا ہے، پس وہ (روزہ) میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا عطا کرتا ہوں۔‘‘ اس حدیث کو امام دارمی اور احمد نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الدارمي في السنن، 2/40، الرقم: 1770، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/443، الرقم: 9712، وابن خزیمة في الصحیح، 3/197، الرقم: 1898، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2/47، الرقم: 1442)


عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِیْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ ۔

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان میں بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیئے گئے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔

(أخرجه البخاري في الصحیح،کتاب الإیمان، باب تطوع قیام رمضان من الإیمان، 1/22، الرقم: 37، ومسلم في الصحیح، کتاب صلاة المسافرین وقصرها، باب الترغیب في قیام رمضان، 1/523، الرقم: 759، والنسائي في السنن، کتاب قیام اللیل وتطوع النہار، باب ثواب من قام رمضان إیمانا واحتسابا، 3/201، الرقم: 1602.1603، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/408، الرقم: 9277، وابن خزیمة في الصحیح، 3/336، الرقم: 2203، والدارمي في السنن، 2/42، الرقم: 1776،چشتی)


عَنْ سَهْلٍ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا یُقَالُ لَهُ الرَّیَّانُ، یَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، لَا یَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَیْرُهُمْ. یُقَالُ: أَیْنَ الصَّائِمُوْنَ؟ فَیَقُوْمُوْنَ لَا یَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَیْرُهُمْ. فَإِذَا دَخَلُوْا أُغْلِقَ، فَلَمْ یَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ ۔

ترجمہ : حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو رَیَّان کہا جاتا ہے۔ قیامت کے روز اُس سے (صرف) روزہ دار داخل ہوں گے اور اُن کے سوا اُس سے کوئی داخل نہیں ہو گا۔ کہا جائے گا کہ روزے دار کہاں ہیں؟ (اس دروازہ میں سے داخل ہونے کے لئے) روزے دار کھڑے ہو جائیں گے۔ اس دروازہ میں سے ان کے علاوہ کوئی اور داخل نہیں ہو گا۔ پھر جب وہ داخل ہو جائیں گے تو دروازہ بند کر دیا جائے گا اور کوئی دوسرا اُس سے داخل نہیں ہو گا ۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب الریان للصائمین، 2/671، الرقم: 1797، ومسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب فضل الصیام، 2/808، الرقم: 1152، والنسائي في السنن، کتاب الصیام، باب ذکر الاختلاف علی محمد بن أبي یعقوب في حدیث أبي أمامة في فضل الصائم، 4/168، الرقم: 2236، وابن ماجه في السنن، کتاب الصیام، باب ما جاء في فضل الصیام، 1/525، الرقم: 1640)


عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ ﷲِ، مُرْنِي بِعَمَلٍ. قَالَ: عَلَیْکَ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهٗ لَا عِدْلَ لَهُ. قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ ﷲِ، مُرْنِي بِعَمَلٍ. قَالَ: عَلَیْکَ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهٗ لَا عِدْلَ لَهؤٗ ۔ رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَابْنُ أَبِي شَیْبَةَ وَأَحْمَدُ ۔

ترجمہ : حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کسی عمل کے کرنے کا حکم فرمائیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: روزہ ! اس کے برابر کوئی دوسرا عمل نہیں۔ میں نے دوبارہ عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کسی عمل کے کرنے کا حکم فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزہ رکھو، اس کے برابر کوئی دوسرا عمل نہیں ہے ۔ اس حدیث کو امام نسائی، عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ اور احمد نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه النسائي في السنن، کتاب الصیام، باب في فضل الصیام، 4/165، الرقم: 2223، وعبد الرزاق في المصنف، 4/308، الرقم: 7899، وابن أبي شیبة في المصنف، 2/273، الرقم: 8895، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/249، الرقم: 22203، والطبراني في المعجم الکبیر، 8/91، الرقم: 7464، والحاکم في المستدرک، 1/582، الرقم: 1533)


عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ: أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم ذَکَرَ رَمَضَانَ یُفَضِّلُهٗ عَلَی الشُّهُوْرِ فَقَالَ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِیْمَانًا وَاحْتِسَابًا خَرَجَ مِنْ ذُنُوْبِهٖ کَیَوْمٍ وَلَدَتْهُ أُمُّهٗ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَالْبَیْهَقِيُّ ۔

ترجمہ : حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان کی دوسرے مہینوں پر فضلیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: جو شخص رمضان المبارک میں ایمان و اخلاص کے ساتھ قیام کرتا ہے وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جس طرح آج ہی اس کی ماں نے اسے جنا ہو ۔ اس حدیث کو امام نسائی، ابن ماجہ، اور بیہقی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه النسائي في السنن، کتاب الصیام، باب ذکر اختلاف یحیی بن أبي کثیر والنضر بن شیبان، 4/158، الرقم: 2208، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فیها، باب ما جاء في قیام شهر رمضان، 1/421، الرقم: 1328، والبیهقي في شعب الإیمان، 3/314، الرقم: 3635، وابن خزیمة في الصحیح، 3/335، الرقم: 2201،چشتی)


عَنِ النَّضْرِ بْنِ شَیْبَانَ قَالَ: لَقِیتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَقُلْتُ: حَدِّثْنِي بِحَدِیْثٍ سَمِعْتَهُ مِنْ أَبِیْکَ یَذْکُرُهُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، قَالَ: نَعَمْ، حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم ذَکَرَ شَهْرَ رَمَضَانَ فَقَالَ: شَهْرٌ کَتَبَ ﷲ عَلَیْکُمْ صِیَامَهُ وَسَنَنْتُ لَکُمْ قِیَامَهُ، فَمَنْ صَامَهُ وَقَامَهُ إِیْمَاناً وَاحْتِسَابًا خَرَجَ مِنْ ذُنُوْبِهِ کَیَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَابْنُ أَبِي شَیْبَةَ وَأَبُو یَعْلَی وأَبُوْدَاوُدَ الطَّیَالِسِيُّ ۔

ترجمہ : نضر بن شیبان سے مروی ہے کہ میں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی تو ان سے کہا: آپ مجھے کوئی ایسی حدیث بیان فرمائیے جو آپ نے اپنے والد ماجد سے رمضان کے متعلق سماعت کی ہو، آپ نے فرمایا: اچھا! مجھے میرے والدِ گرامی نے حدیث بیان کی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماهِ رمضان کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: یہ ایسا مہینہ ہے جس کے روزے اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کیے ہیں اور میں نے تمہارے لئے اس کے قیام (نمازِ تراویح) کو سنت قرار دیا ہے، پس جو شخص ایمان اور حصولِ ثواب کی نیت کے ساتھ ماهِ رمضان کے روزے رکھتا ہے اور اس کی راتوں میں قیام کرتا ہے وہ گناہوں سے یوں پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے وہ اس دن تھا جب اسے اس کی ماں نے جنم دیا تھا ۔ اس حدیث کو امام ابن ماجہ، ابن ابی شیبہ، ابو یعلی اور ابو داود طیالسی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فیها، باب ماجاء في قیام شهر رمضان، 1/421، الرقم: 1328، وابن أبي شیبة في المصنف، 2/165، الرقم: 7705، وأبو یعلی في المسند، 2/170، الرقم: 865، وأبوداود الطیالسي في المسند: 30، الرقم: 224، والشاشي في المسند، 1/273، الرقم: 241)


عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه عَنْ رَسُوْلِ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ: عَلَیْکُمْ بِقِیَامِ اللَّیْلِ، فَإِنَّهٗ دَأْبُ الصَّالِحِیْنَ قَبْلَکُمْ، وَهُوَ قُرْبَةٌ إِلٰی رَبِّکُمْ، وَمَکْفَرَةٌ لِلسَّیِّئَاتِ، وَمَنْهَاةٌ لِلْإِثْمِ ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِیْثٌ أَصَحُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ ۔

ترجمہ : حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رات کا قیام اپنے اوپر لازم کر لو کہ وہ تم سے پہلے کے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور تمہارے لیے قربِ خداوندی کا باعث ہے، برائیوں کو مٹانے والا اور گناہوں سے روکنے والا ہے ۔ اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے ۔ امام ترمذی اور امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب في دعاء النبي صلی الله علیه وآله وسلم ، 5/552، الرقم: 3549، والطبراني في المعجم الکبیر، 8/92، الرقم: 7766، والحاکم في المستدرک، 1/451، الرقم: 1156، والبیهقي في السنن الکبری، 2/502، الرقم: 4423،چشتی)


عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: خَرَجَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فَإِذَا أُنَاسٌ فِي رَمَضَانَ یُصَلُّوْنَ فِي نَاحِیَةِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ: مَا هَؤُلَائِ؟ فَقِیْلَ: هَؤُلَائِ نَاسٌ لَیْسَ مَعَهُمْ قُرْآنٌ وَأُبِيُّ بْنُ کَعْبٍ یُصَلِّي وَهُمْ یُصَلُّوْنَ بِصَلَاتِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم: أَصَابُوْا وَنِعْمَ مَا صَنَعُوْا ۔ رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَابْنُ خَزَیْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبَیْهَقِيُّ ۔ وفي روایة للبیهقي: قَالَ: قَدْ أَحْسَنُوْا أَوْ قَدْ أَصَابُوْا وَلَمْ یَکْرَهْ ذَلِکَ لَهُمْ ۔

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (حجرہ مبارک سے) باہر تشریف لائے تو (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ) رمضان المبارک میں لوگ مسجد کے ایک گوشہ میں نماز پڑھ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کون ہیں؟ عرض کیا گیا : یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قرآن پاک یاد نہیں ۔ حضرت ابی بن کعب نماز پڑھتے ہیں اور یہ لوگ ان کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انہوں نے درست کیا اور کتنا ہی اچھا عمل ہے جو انہوں نے کیا ۔ اِس حدیث کو امام ابو داود، ابن خزیمہ، ابن حبان اور بیہقی نے روایت کیا ہے ۔ اور بیہقی کی ایک روایت میں ہے، فرمایا : ’’اُنہوں نے کتنا احسن اقدام یا کتنا اچھا عمل کیا اور ان کے اس عمل کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناپسند نہیں فرمایا ۔ (أخرجه أبوداود في السنن، کتاب الصلاة، باب في قیام شهر رمضان، 2/50، الرقم: 1377، وابن خزیمة في الصحیح، 3/339، الرقم: 2208، وابن حبان في الصحیح، 6/282، الرقم: 2541، والبیهقي في السنن الکبری، 2/495، الرقم: 4386. 4388، وابن عبد البر في التمهید، 8/111، وابن قدامة في المغني، 1/455)


عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: لِکُلِّ شَيْئٍ زَکَاةٌ وَزَکَاةُ الْجَسَدِ الصَّوْمُ. زَادَ مُحْرِزٌ فِي حَدِیْثِهٖ: وَقَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: اَلصِّیَامُ نِصْفُ الصَّبْرِ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالطَّبَرَانِيُّ ۔

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر چیز کی کوئی نہ کوئی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے محرز نے اپنی روایت میں یہ اِضافہ کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزہ آدھا صبر ہے ۔ اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الصیام، باب في الصوم زکاة الجسد، 1/555، الرقم: 1745، والطبراني في المعجم الکبیر، 6/193، الرقم: 5973، وعبد بن حمید في المسند، 1/423، الرقم: 1449، وأبو نعیم في حلیة الأولیائ، 7/136، والبیهقي في شعب الإیمان، 3/292، الرقم: 3578،چشتی)


عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم یَقُوْلُ: اَلصِّیَامُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ کَجُنَّةِ أَحَدِکُمْ مِنَ الْقِتَالِ، قَالَ: وَصِیَامٌ حَسَنٌ صِیَامُ ثَـلَاثَةِ أَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَهْرٍ ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ خُزَیْمَةَ وَاللَّفْظُ لَهٗ ۔

ترجمہ : حضرت عثمان ابن ابی العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جیسے تم میدانِ جنگ میں (دشمن سے بچاؤ کے لیے) ڈھال استعمال کرتے ہو ایسے ہی روزہ دوزخ سے (بچاؤ کے لیے) ڈھال ہے۔ بہتر (طریقہ) ہر ماہ تین دن روزہ رکھنا ہے ۔ اس حدیث کو امام ابن ماجہ، نسائی اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے، مذکورہ الفاظ ابن خزیمہ کے ہیں ۔ (أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الصیام، باب ما جاء في فضل الصیام، 1/525، الرقم: 1639، والنسائي في السنن، کتاب الصیام، باب ذکر الاختلاف علی محمد بن أبي یعقوب في حدیث أبي أمامة في فضل الصائم، 4/167، الرقم: 2231، والطبراني في المعجم الکبیر، 9/51، الرقم: 8360، وابن خزیمة في الصحیح، 3/193، الرقم: 1891)


عَنْ عَائِشَةَ رضي ﷲ عنها عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: الصِّیَامُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ فَمَنْ أَصْبَحَ صَائِمًا فَلَا یَجْهَلْ یَوْمَئِذٍ وَإِنْ امْرُؤٌ جَهِلَ عَلَیْهِ فَلَا یَشْتُمْهُ وَلَا یَسُبَّهُ وَلْیَقُلْ إِنِّي صَائِمٌ. وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ لَخُلُوْفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْیَبُ عِنْدَ ﷲِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْکِ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ ۔

ترجمہ : اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: روزہ آگ سے بچنے کی ڈھال ہے جو شخص صبح کے وقت روزہ دار اٹھے اور اس دن وہ بدتمیزی نہ کرے، اگر کوئی دوسرا شخص اس کے ساتھ بدتمیزی کرے تو وہ اسے گالی نہ دے، برا نہ کہے بلکہ یوں کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے! بے شک روزہ دار کے منہ کی خوشبو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے ۔ اِس حدیث کو امام نسائی اور طبرانی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه النسائي في السنن، کتاب الصیام، باب ذکر الاختلاف علی محمد بن أبي بعقوب في حدیث أبي امامة في فضل الصائم، 4/167، الرقم: 2234، وفي السنن الکبری، 2/240، الرقم: 3258، والطبراني في المعجم الأوسط، 4/273، الرقم: 4179)


عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: اَلصِّیَامُ جُنَّةٌ، وَحِصْنٌ حَصِیْنٌ مِنَ النَّارِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ وَالْبَیْهَقِيُّ ۔ وفي روایة: عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: إِنَّمَا الصِّیَامُ جُنَّةٌ یَسْتَجِنُّ بِهَا الْعَبْدُ مِنَ النَّارِ ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ وَالْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ ۔ 

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزہ ڈھال ہے اور دوزخ کی آگ سے بچاؤ کے لئے محفوظ قلعہ ہے ۔ اس حدیث کو امام احمد نے سندِ حسن کے ساتھ اور بیہقی نے روایت کیا ہے ۔ اور ایک روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزہ ڈھال ہے اس کے ساتھ بندہ خود کو دوزخ کی آگ سے بچاتا ہے ۔ اِس حدیث کو امام احمد نے سندِ حسن کے ساتھ اور بزار، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه حنبل في المسند، 2/402، الرقم: 9214، والبیهقي في شعب الإیمان، 3/289، الرقم: 3571، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2/50، الرقم: 1451، وقال: إسنادہ حسن، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1/271، والهیثمي في مجمع الزوائد، 3/180، وقال: إسنادہ حسن.أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/396، الرقم: 15299، والبزار عن ابن أبي الوقاصص، 6/309، الرقم: 2321، والطبراني في المعجم الکبیر، 9/58، الرقم: 8386، والبیهقي في شعب الإیمان، 3/294، الرقم: 3582، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2/50، الرقم: 1452، وقال: إسناد حسن، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1/271، والهیثمي في مجمع الزوائد، 3/180، وقال: رواہ أحمد وإسنادہ حسن،چشتی)


عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضي ﷲ عنهما: أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: اَلصِّیَامُ وَالْقُرْآنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، یَقُوْلُ الصِّیَامُ: أَيْ رَبِّ، مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِیْهِ، وَیَقُوْلُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّیْلِ فَشَفِّعْنِي فِیْهِ. قَالَ: فَیُشَفَّعَانِ ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ: صَحِیْحٌ عَلَی شَرْطِ مُسْلِمٍ ۔

ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزہ اور قرآن بندے کے لیے قیامت کے دن شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اسے کھانے پینے اور خواہش نفس سے روکے رکھا لہٰذا اس کے لیے میری شفاعت قبول فرما اورقرآن کہے گا: اے میرے رب! میں نے اسے رات کے وقت نیند سے روکے رکھا (اور قیام اللیل میں مجھے پڑھتا یا سنتا رہا) لہٰذا اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی ۔ اِس حدیث کو امام احمد، طبرانی اور حاکم نے روایت کیا ہے ، نیز امام حاکم نے اِسے مسلم کی شرط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2/174، الرقم: 6626، والحاکم في المستدرک، 1/740، الرقم: 2036، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/346، الرقم: 1994، وابن المبارک في المسند، 1/59، الرقم: 96، والدیلمي في مسند الفردوس، 2/408، الرقم: 3815)


عَنْ عَائِشَةَ رضي ﷲ عنها زَوْجِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم أَنَّهَا قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ شَدَّ مِئْزَرَهُ ثُمَّ لَمْ یَأْتِ فِرَاشَهُ حَتَّی یَنْسَلِخَ. رَوَاهُ ابْنُ خُزَیْمَةَ وَأَحْمَدُ وَالْبَیْهَقِيُّ ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ رضی ﷲ عنھا سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب ماهِ رمضان شروع ہو جاتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا کمرِ ہمت کس لیتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بستر پر تشریف نہیں لاتے تھے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا ۔ اِس حدیث کو امام ابن خزیمہ، احمد اور بیہقی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه ابن خزیمة في الصحیح، 3/342، الرقم: 2216، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/66، الرقم: 24422، والبیهقي في شعب الإیمان، 3/310، الرقم: 3624، والسیوطي في الجامع الصغیر، 1/143، الرقم: 211،چشتی)


عَنْ عَائِشَةَ رضي ﷲ عنها قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم إِذَا دَخَلَ رَمَضَانَ تَغَیَّرَ لَوْنُهُ وَکَثُرَتْ صَلَاتُهُ وَابْتَهَلَّ فِي الدُّعَائِ وَأَشْفَقَ مِنْهُ ۔ رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ رضی ﷲ عنھا سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب ماہِ رمضان شروع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک متغیر ہو جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازوں کی (مزید) کثرت کر دیتے اور ﷲ تعالیٰ سے عاجزی و گڑ گڑاکر دعا کرتے اور اس ماہ میں نہایت محتاط رہتے ۔ اِس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 3/310، الرقم: 3625، وفي فضائل الأوقات، 1/191، الرقم: 67، والسیوطي في الجامع الصغیر، 1/143، الرقم: 212)


عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عَبَّاسٍ رضي ﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ فِي رَمَضَانَ یُنَادِي مُنَادٍ بَعْدَ ثُلُثِ اللَّیْلِ الْأَوَّلِ أَوْ ثُلُثِ اللَّیْلِ الْآخِرِ أَلَا سَائِلٌ یَسْأَلُ فَیُعْطَی، أَلَا مُسْتَغْفِرٌ یَسْتَغْفِرُ فَیُغْفَرُ لَهُ، أَلَا تَائِبٌ یَتُوْبُ فَیَتُوْبُ ﷲ عَلَیْهِ. رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ ۔

ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنھما نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک رمضان المبارک میں رات کے پہلے تیسرے پہر کے بعد یا آخری تیسرے پہر کے بعد ایک ندا کرنے والا ندا کرتا ہے: ہے کوئی سوال کرنے والا کہ وہ سوال کرے تو اسے عطا کیا جائے؟ کیا ہے کوئی مغفرت کا طلبگار کہ وہ مغفرت طلب کرے تو اسے بخش دیا جائے؟ کیا ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ وہ توبہ کرے تو ﷲ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرے؟‘‘ اِس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 3/311، الرقم: 3628)


عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ أَبِي قَیْسٍ یَقُوْلُ: قَالَتْ عَائِشَةُ رضي ﷲ عنها: لَا تَدَعْ قِیَامَ اللَّیْلِ فَإِنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم کَانَ لَا یَدَعُهٗ، وَکَانَ إِذَا مَرِضَ أَوْ کَسِلَ صَلّٰی قَاعِدًا. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ ۔

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن ابی قیس کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا نے مجھے نصیحت کی کہ قیام اللیل نہ چھوڑنا، کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے نہیں چھوڑا کرتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمار ہو جاتے یا کمزور ہو جاتے تو (نماز)بیٹھ کر پڑھ لیتے ۔ اِس حدیث کو امام ابو داود اور احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے ۔

(أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب قیام اللیل، 2/32، الرقم: 1307، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/249، الرقم: 26157، والحاکم في المستدرک، 1/452، الرقم: 1158، والبیهقي في السنن الکبری، 3/14، الرقم: 4498، والطیالسي في المسند، 1/214، الرقم: 1519، وابن خزیمة في الصحیح، 2/177، الرقم: 1137، والبخاري في الأدب المفرد، 1/279، الرقم: 800)


قَالَ أَبُوْ بَکْرِ بْنُ حَفْصٍ رَحِمَهٗ ﷲ: ذُکِرَ لِيْ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ کَانَ یَصُوْمُ الصَّیْفَ وَیُفْطِرُ الشِّتَاءَ ۔

ترجمہ : حضرت ابو بکر بن حفص رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا کہ حضرت ابوبکر گرمیوں میں روزے سے ہوتے اور سردیوں میں افطار کرتے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في الزهد/167)


قَالَ رَبِیْعُ بْنُ خِرَاشٍ رَحِمَهٗ ﷲ: اَلْجُوْعُ یُصُفِّي الْفُؤَادَ وَیُمِیْتُ الْهَوٰی وَیُوْرِثُ الْعِلْمَ ۔

ترجمہ : حضرت ربیع بن خراش رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بھوک دل کو صاف کرتی ہے، خواہش نفس کو تباہ کرتی ہے اور علم کا وارث بناتی ہے ۔ (أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری: 67)


قَالَ سَهْلٌ بْنُ عَبْدِ ﷲِ التُّسْتَرِيُّ رحمه ﷲ لِأَصْحَابِهٖ: مَا دَامَتِ النَّفْسُ تَطْلُبُ مِنْکُمْ الْمَعْصِیَةَ فَأَدِّبُوْهَا بِالْجُوْعِ وَالْعَطَشِ، فَإِذَا لَمْ تُرِدْ مِنْکُمُ الْمَعْصِیَةَ فَأَطْعِمُوْهَا مَا شَائَ تْ، وَاتْرُکُوْهَا تَنَامُ مِنَ اللَّیْلِ مَا أَحَبَّتْ ۔

ترجمہ : حضرت سہل بن عبد ﷲ تستری رحمۃ اللہ علیہ اپنے خدام سے فرماتے: جب تک تمہارا نفس گناہ طلب کرتا ہے اسے بھوک اور پیاس کے ذریعے ادب سکھاؤ (یعنی بھوک اور پیاس کے ساتھ اس کی تہذیب و اصلاح کرو)۔ پھر جب تم سے گناہ کی طلب نہ کرے تو جو چاہے اسے کھلاؤ اور اسے رات کو جب تک چاہے سویا رہنے دو ۔ (أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری: 119)


قَالَ سُفْیَانُ رحمة ﷲ: إِیَّاکُمْ وَالْبِطْنَةَ، فَإِنَّهَا تُقْسِي الْقَلْبَ، وَاکْظِمُوْا الْعِلْمَ، وَلَا تُکْثِرُوْا الضَحِکَ فَتَمُجُّهُ الْقُلُوْبُ ۔

ترجمہ : حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : کثرتِ طعام سے بچو کہ یہ دل میں سختی پیدا کرتا ہے اور علم سے اپنے آپ کو سیراب کرو، اور کثرت سے نہ ہنسو کہ دلوں کو ناگزیر لگنے لگے ۔ (أخرجه ابن المبارک في الزہد: 114، وأبو نعیم في حلیة الأولیاء، 7/36) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ماہِ رمضانُ المبارک کے فضائل و برکات

ماہِ رمضانُ المبارک کے فضائل و برکات محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی...