سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا
محترم قارئینِ کرام : زمانۂ جاہلیت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا شمار قریش کے رؤسا میں ہوتا تھا اور قریش حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بہت الفت اور محبت رکھتے تھے ، حضرت حسان بن ثابت ، حضرت ابن عباس ، حضرت عمرو بن عنبسہ ، ابراہیم رضی اللہ عنہم ، اور علما کی ایک جماعت کا یہ نظریہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلےاسلام قبول کیا ۔ حضرت عبید اللہ بن حصین تمیمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ! میں نے جس شخص پر بھی اسلام پیش کیا اس نے اس میں شک ، تردد اور غور و فکر کیا ، البتہ ابوبکر پر جب اسلام پیش کیا تو انہوں نے اس میں تردد نہیں کیا ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک معبوث ہونے والے نبی کے متعلق سنتا رہتا تھا ، میں نے ورقہ بن نوفل سے اس کے بارے میں پوچھا ۔ انہوں نے کہا وہ نبی عرب کے متوسط نسب سے مبعوث ہو گا اور مجھے متوسط نسب کا علم تھا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے تو میں آپ پر ایمان لے آیا اور آپ کی تصدیق کی ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بلند اخلاق ، پاکیزہ مزاج اور خدمت خلق کا حیرت انگیز جذبہ رکھتے تھے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کے تعلق سے جمہور کا اس پر اتفاق ہے آپ رضی اللہ عنہ مردوں میں سب سے پہلے اسلام میں داخل ہوئے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا ۔ بعض کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ سب سے پہلے ایمان لائے ہیں ۔ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے اس طرح کے مختلف اقوال میں یوں تطبیق کی ہے کہ مردوں میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، عورتوں میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور بچوں میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سب سے پہلے ایمان لانے کا اعزاز حاصل ہے ۔
امام ابن اسحق رحمة اللہ علیہ نے ایک حدیث روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سوائے ابوبکر کے اور کوئی ایسا شخص نہیں جو میری دعوت پر بے توقف و تامل ایمان لایا ہو ۔ (تاریخ الخلفاء ابوبکر الصدیق فصل فی اسلامہ صفحہ ۲۷)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ایمان لانے کا واقعہ بہ زبان خود یوں بیان کرتے ہیں : میں صحن کعبہ میں بیٹھا ہوا تھا اور زید بن عمر و بن نفیل بھی پاس ہی بیٹھا تھا ، امیہ بن ابی صلت کا وہاں سے گزر ہوا ،اس نے کہا اے طالب خیر! کیا حال ہے ؟ زید نے کہا : خیریت ہے ۔ امیہ نے پوچھا : کیا تم نے پا لیا ؟ زید نے کہا : نہیں ۔ حا لانکہ میں نے طلب میں کوتاہی نہیں کی ۔ تو امیہ نے یہ شعر پڑھا : ⏬
كل دين يوم القيامة الا
ما قضی الله و الحنيفة بور
ترجمہ : بروز قیامت تمام دین مٹ جائیں گے ، صرف حنیف "اسلام" باقی رہے گا ۔ جس کا اللہ نے فیصلہ فرمایا ہے ۔
امیہ نے کہا : وہ نبی جس کا انتظار ہے ، وہ ہم میں سے ہو گا یا تم میں سے ہو گا ، یا اہل فلسطین سے ۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے میں نے یہ نہیں سنا تھا کہ کسی نبی کا انتظار ہو رہا ہے ، یامبعوث ہوں گے ۔ یہ سن کر میں ورقہ بن نوفل کے پاس گیا ، جو کتب آسمانی کے زبر دست عالم تھے ، میں نے ان کے سامنے پوری بات بیان کی ۔ ورقہ نے کہا کہ ہاں بھتیجے ! اس با ت پر اہل کتاب اور علما متفق ہیں کہ وہ نبی جس کا انتظار ہے ، وہ عرب کے بہترین نسب میں ہوگا ۔ میں نسب سے واقف ہوں ، تمہاری قوم عرب کے بہترین خاندان میں ہے ۔ میں نے کہا : چچا ! وہ کس بات کی تعلیم دیں گے ،
کہا : جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوگا،اسی کی تعلیم دیں گے اور ظلم کی بات نہیں کریں گے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے ، تو میں ان پر ایمان لایا اور ان کی تصدیق کی ۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 312)
آغاز وحی کے زمانہ میں بہ سلسلہ تجارت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ یمن گئے ہوئے تھے ، جب واپس آئے ، تو عقبہ بن ابی معیط ، شیبہ ، ربیعہ ، ابوجہل ، ابوالبختری اور دیگر سرداران قریش ان سے ملنے آئے ۔ دوران گفتگو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مکہ کے متعلق تازہ ترین خبر دریافت کی ۔ تو کہا : اے ابو بکر ! بہت بڑی بات ہو گئی ۔ ابو طالب کا یتیم بچہ مدعی نبوت ہے ۔ اس کے انسداد کےلیے ہم تمھاری آ مد کے منتظر تھے ۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کرنے کا اشتیاق پیدا ہوا ۔ انہیں خوش اسلوبی کے ساتھ رخصت کیا اور بذات خود بارگاہ رسول میں حاضر ہوئے ۔ بعثت کے متعلق سوال کیا اور اسی مجلس میں داخل اسلام ہوۓ ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ : جس کے سامنے میں نے اسلام پیش کیا ، اس نے اپنے اندر ایک طرح کا تردد محسوس کیا ، مگر جب ابوبکر کو اسلام کی دعوت دی ، تو انہوں نے بے جھجک قبول کر لیا ۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 313)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے ، اور ہم سے بہتر اور ہمارے سردار تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ فرمایا : مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے حضرت ابو بکر تھے ۔ (ابن حبان، الصحيح، 15 : 279. 278، رقم : 6862)(هيثمي، موار دالظمآن، 1 : 532، رقم : 2199)(بزار، المسند، 1 : 373، رقم : 251)
حضرت عبداللہ بن عمر رضي اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جس شخص نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (طبراني، المعجم الاوسط، 8 : 190، رقم : 8365)(هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 43)(واسطي، تاريخ واسط، 1 : 254)
عمرو بن مرہ نے ابراہیم سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 224، رقم : 262، 263)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 225، رقم : 265)(ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 336، رقم : 36583)(طبري، تاريخ الامم والملوک، 1 : 540)
يوسف بن یعقوب ماجشون سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد اور ربیعہ سے سنا کہ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (ابن حبان، الثقات، 8 : 130، رقم : 12577)
ابوارویٰ دوسی سے روایت ہے کہ سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 171)(محاملی، أمالی المحاملی، 1 : 356، رقم : 396)
امام زہری سے روایت ہے کہ آزاد مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے آپ (حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ) ہیں ۔ (بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 369، رقم : 12872)
محمد بن کعب سے روایت ہے کہ اس اُمت میں سے سب سے پہلے (عورتوں میں) ایمان لانے والی سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ہیں اور مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ لیکن اپنے اسلام کا اعلان سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیا ۔ (احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 226، رقم : 268)
آپ رضی اللہ عنہ پختہ عمر افراد میں سے تھے اور معاشرے میں سماجی اور تجارتی سرگرمیوں کے باعث معروف بھی تھے اس لیے آپ رضی اللہ عنہ کے اظہارِ اسلام کا ہر ایک پر آشکار ہونا ایک فطری امر تھا ، سو اس کی شہرت ہوگئی ۔ اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نو عمر معصوم بچے تھے ، آپ رضی اللہ عنہ نے بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی گھر میں حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کی طرح پہلے ہی دن سے اسلام قبول کر لیا ۔ اغلباً ممکن ہے کہ زمانی اوليّت کے اعتبار سے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنھا اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہی سب پر مقدم ہوں مگر اعلانی اوليّت میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مقدم ہوں ۔
محمد بن کعب سے روایت ہے کہ سب سے پہلے حضرت ابو بکر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما اسلام لائے ، ان دونوں میں سے اپنے اسلام کا اعلان پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ (کم سنی کے باعث) اپنے باپ کے ڈر سے اپنے اسلام کو چھپاتے تھے ، حضرت ابو طالب کو آپ رضی اللہ عنہ کے اسلام کی خبر ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے ، حضرت ابو طالب نے پوچھا کیا تم نے اسلام قبول کر لیا ہے ؟ جواب دیا ہاں ! انہوں نے کہا : اے میرے بیٹے ! اپنے چچا زاد کی خوب مدد کرو ۔ راوی فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان دونوں میں سے پہلے اسلام لانے والے ہیں ۔
(فاکهی، اخبار مکة، 3 : 219)
ابو حاتم نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے والی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا ہیں اس کے بعد حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ایمان لائے اور جو کچھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے اس کی تصدیق کی اور اس وقت وہ دس سال کے بچے تھے ، پھر حضرت ابو بکر صدیق ایمان لائے ، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ابو طالب سے اپنا اسلام چھپاتے تھے ، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب اسلام قبول کیا تو اس کا اعلان بھی کر دیا پس اسی لیے لوگوں پر مشتبہ ہو گیا کہ ان دونوں میں سے پہلے کس نے اسلام قبول کیا ؟ ۔ (ابن حبان، الثقات، 1 : 52)
قاضی شوکانی نے کہا : یہ بات صحیح ہے کہ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال تک کل تئیس سال کا عرصہ بنتا ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد تیس سال تک حیات رہے اور آپ رضی اللہ عنہ کی عمر اسلام قبول کرنے کے بعد پچاس سال سے زائد بنتی ہے اور جب آپ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر ساٹھ سال سے کم تھی پس معلوم ہوا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے بچپن میں ہی اسلام قبول کیا ۔ (شوکاني، نيل الاوطار، 8 : 17)
حضرت ابوامامۃ باہلی سے روایت ہے کہ مجھے عمرو بن عبسہ نے خبر دی کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا ، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عکاظ کے مقام پر تشریف فرما تھے ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اِس دین پر آپ کی (اولین) اتباع کس نے کی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اِس پر میری اتباع دو مردوں نے کی ہے ایک آزاد اور ایک غلام ، وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ ہیں ۔ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، میں نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا ۔ (حاکم، المستدرک، 3 : 69، کتاب معرفة الصحابة، رقم : 4419،چشتی)(طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 540)
حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں آپ کی بعثتِ مبارکہ کے ابتدائی ایام میں حاضر ہوا ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ میں تھے اور اُس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خفیہ طور پر تبلیغِ دین فرماتے تھے ۔ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات سن کر عرض کیا ، یہ دین کتنا ہی اچھا ہے جو اللہ عزوجل نے آپ کو دے کر بھیجا ہے (پھر عرض کیا) اِس دین پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کس نے کی ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایک غلام اور ایک آزاد شخص نے وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (حاکم، المستدرک، 3 : 68، 69، کتاب معرفة الصحابه، رقم : 4418)(حاکم، المستدرک، 1 : 269، رقم : 583)(احمد بن حنبل، المسند، 4 : 111) (ابن خزيمه، الصحيح، 1 : 129، رقم : 260)(طبراني، مسند الشاميين، 2 : 315، رقم : 1410)(بيهقي، السنن الصغريٰ، 1 : 534، رقم : 959)
حضرت ھمام بن حارث رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس دور میں دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ پانچ غلاموں ، دو عورتوں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی نہ تھا ۔ (بخاري، الصحيح، 3 : 1338، کتاب المناقب، رقم : 3460)(بخاري، الصحيح، 3 : 1400، کتاب. . . رقم : 3644)(حاکم، المستدرک، 3 : 444، رقم : 5682)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 208، رقم : 232)(بزار، المسند، 4 : 244، رقم : 1411) (بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 369، رقم : 12883،چشتی)(خثيمه، من حديث خثيمه، 1 : 131) (ذهبي، سير اعلام النبلاء، 1 : 428)(مزي، تهذيب الکمال، 21 : 220)(عسقلاني، الاصابه، 4 : 575، رقم : 5708)(محب طبري، الرياض النضره، 1 : 420)
امام شعبی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کیا یا آپ سے سوال کیا گیا کہ اسلام قبول کرنے کے اعتبار سے پہلا شخص کون ہے ؟ تو آپ نے فرمایا، تم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ارشاد نہیں سنا : ⏬
إذا تذکّرت شجوا من أخي ثقة
فاذکر أخاک أبابکر بما فعلا
خير البريّة أتقاها وأعدلها
بعد النّبيّ وأوفاها بما حملا
ألثّاني ألتّالي المحمود مشهده
و أوّل النّاس منهم صدّق الرّسلا
ترجمہ : جب تم کسی قابل اعتماد بھائی کا تپاک سے ذکر کرو تو ضرور ابو بکر کے کارناموں کی وجہ سے انہیں یاد کرو ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد وہ تمام مخلوق سے بہتر ، اللہ سے زیادہ ڈرنے والے ، عدل کرنے والے اور اپنے فرائض کو کماحقہ سر انجام دینے والے ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ (دو ہجرت کرنے والوں میں سے) دوسرے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیرو ہیں ، محفل میں ان کی موجودگی پسندکی جاتی ہے ، وہ لوگوں میں سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے سب رسولوں کی تصدیق کی ۔ (حاکم، المستدرک، ، 3 : 67، کتاب معرفة الصحابه، رقم : 4414)(ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 14، رقم : 33885)(ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 336، رقم : 36584)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 133، رقم : 103،چشتی)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 142، رقم : 119)(طبراني، المعجم الکبير، 12 : 89، رقم : 12562)(شيباني، الآحاد والمثاني، 1 : 84، رقم : 44)(بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 369، رقم : 12875)(هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 43)(ابن جوزي، صفة الصفوه، 1 : 238)(ابن عبدالبر، الإستيعاب، 3 : 964، رقم : 1633)(محب طبري، الرياض النضره، 1 : 416)
عبداللہ بن حصین تمیمی سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے جس کسی کو اسلام کی دعوت دی اس نے کچھ نہ کچھ تردد ، ہچکچاہٹ اور تامل کا اظہار ضرور کیا سوائے ابوبکر کے کہ اس نے بغیر کسی تردد و تامل کے فوراً میری دعوت قبول کر لی ۔ (ابن کثير، البداية والنهاية، 3 : 27)(ابن هشام، السيرة النبوية، 2 : 91)(ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 444)(حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 442)(ابن عساکر، تاريخ دمشق، 30 : 44)(محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 415)
میں نے اسلام کے بارے میں جس سے بھی گفتگو کی اس نے انکار کیا اور مجھ سے تکرار کی سوائے ابو قحافہ کے بیٹے ابو بکر کے ، کیونکہ میں نے اس سے جو بات بھی کہی اس نے قبول کر لی اور اس پر مضبوطی سے قائم رہا ۔ (حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 442) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment