استقبالِ ماہِ رمضانُ المبارک ، رمضان ، قرآن ، انسان اور مسلمان
محترم قارئینِ کرام : استقبال کے معنی ہیں کسی آنے والے کو خوش آمدید کہنا ‘ اگر وہ محبوب ہے تو اس کےلیے دیدہ ودل فرشِ راہ کرنا ‘ عربی زبان میں اس کےلیے ”اَھْلاًوَّ سَھْلاً‘‘ اور ”مَرْحَبًا بِکُمْ‘‘ کے کلمات استعمال ہوتے ہیں ۔ ”رَحْب‘‘ کے معنی کشادگی کے ہیں اور کسی کو ”مَرْحَبًابِکُمْ‘‘ کہنے کا مطلب ہے : آپ کےلیے ہمارے دل میں بڑی کشادگی ہے ، کوئی انقباض نہیں ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رمضان المبارک سے اتنی زیادہ محبت فرماتے کہ اکثر اس کے پانے کی دُعا فرماتے تھے اور رمضان المبارک کا اہتمام ماہ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ ہو جاتا تھا ۔ یہ بات طے ہے کہ جو موقع ۔ جو دن ۔ جو تہوار ۔ جتنی زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ اُسی قدر زیادہ اس کے استقبال کی تیاری کی جاتی ہے ۔ مثلاً شادی بیاہ ۔ عید یا دوسرے خوشی کےمواقع ۔ چناچہ رمضان کے استقبال کے حوالے سے بھی یہ حقیقت بھی ذہین نشین کر لینی جاہیے کہ جب تک ہم رمضان کی اہمیت و فضیلت اور اس کی فوائد و ثمرات کا شعوری طور پر ادراک اور احساس نہ کریں گے ۔ اس وقت تک ہم نہ اس کا استقبال اور نہ اس کے استقبال کی تیاری اس کے شایانِ شان کر پائیں گے ۔ اور نہ ہی رمضان المبارک سے اس طرح مستفید ہو سکیں گے جیسا کہ مستفید ہونے کا حق ہے ۔ سبھی لوگوں کا طریقہ یہی ہے کہ اپنے آنے والے مہمان کی عزت و تکریم حسب حیثیت کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے ۔ مہمانوں کا استقبال اور مہمان نوازی رب تعالیٰ کو بھی پسند ہے قرآن پاک میں مہمان نوازی کے احکام مختلف اندازسے 15 جگہوں میں بیان کیے گئے ہیں ۔
اسلام میں مہمان نوازی کی بہت تاکید کی گئی ہے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مہمانوں کی بہت عزت وتکریم فر ماتے اور مہمانوں کی آمد سے خوش ہوتے ۔ مہمان نوازی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے بلکہ دیگر انبیاے کرام کا بھی پسندیدہ عمل اور طریقہ رہا ہے ۔ چنانچہ ابوا لضَّیفان حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام بہت ہی مہمان نواز تھے آپ بغیر مہمان کے کھانا تنا ول نہ فر ماتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فر ماتے ہیں جس گھر میں مہمان ہو اس میں خیر وبرکت اُونٹ کی کوہان (اونٹ کی پیٹھ کی بلندی) سے گر نے والی چھڑی سے بھی تیز آتی ہے ۔ (سنن ابن ماجہ جلد 4 صفحہ51 حدیث نمبر 3351)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ معمول رہا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اکٹھا فر ماتے اور خطبہ دیتے جس میں انہیں رمضان کے فضائل بیان فر ماتے، رمضان کی عظمت و اہمیت کے پیش نظر اس کی تیاری کی جانب متوجہ فر ماتے ۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہیے آمدِ رمضان کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اس کی تیاری کریں لوگوں تک اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فر مان و عمل کو پہنچائیں ۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ رمضان المبارک کی آمد کی مبارک باد دینے سے کیا رمضان المبارک کا حق ادا ہو جائے گا ؟ ۔ ہرگز نہیں قطعی نہیں ۔ انسانوں کی بخشش و مغفرت کےلیے رب تعالیٰ نے اپنے بندوں کو رمضان المبارک نعمت کے طور پر عطا فر مایا ۔ ماہ رمضان آیا نہیں کہ ابھی سے آمدِ رمضان کی مبارک با دکی جھڑی سوشل میڈیا پر شروع ہے کیا یہ عبادت کے تقاضوں کو پوری کرتی ہے۔فجر کی نمازِ جماعت میں اول صف نمازیوںسے پوری نہیں ہوتی ، مسجد بھر نے کی بات تو بہت دور ہے ۔ لیکن صبح ہوتے ہی سوشل میڈیا پر دینی پیغامات کی جھڑی لگ جاتی ہے کیا یہی اسلام ہے نماز نہ ادا کرو اور دینی پیغامات بھیجو۔ پلیز آپ سوچیں ضرور سوچیں ہم رمضان المبارک کے تقا ضوں کو کیسے پورے کریں ۔ کیا رمضان میں ہم افطار پارٹیاں کرا کر تصویریں سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے اخبارت میں تشہیر کرا کر رمضان کا حق ادا کر رہے ہیں ؟ ۔ کیا ہم صرف 5 دن یا 8 دن یا 15 دن کی تراویح میں قرآن سن کر پڑھ کر بعد میں آزاد ہو جائیں تو کیا رمضان اور قرآنِ مقدس کا حق ادا کردیں گے ؟ ۔ کیا صرف طرح طرح کی افطاری بنا کر سجا کر اس کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل کر کے رمضان کا حق ادا کر دیں گے ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ نہیں ہرگز نہیں قطعی نہیں ۔ یہ سب نام و نمود دکھاوا ہے ایسی عبادتیں منہ پر ماردی جائیں گی خدارا خدارا س سے خود بچیں اپنوں کو بچائیں ۔
ابھی سے ہم رمضان کے استقبال کی تیاریاں شروع نہیں بلکہ چالو کر دیں پورے رمضان کا شڈول بنائیں جیسے ہم کوئی بھی بڑا کام کرنے سے مہینوں پہلے پروگرام بناتے ہیں، شادی بیاہ ، مکان کی تعمیر بچے کی پیدائش کے بعد اُس کی پر ورش اور تعلیم کا پروگرام بناتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ استقبالِ رمضان آپ اس طرح کریں اپنی بھوک اور پیاس کو جانتے ہوئے بھو کوں کو کھا نا کھلائیں ، پیاسوں کو پانی پلائیں ، ضرورت مندوں کی حا جتیں (حسبِ حیثیت) پوری کریں اپنی مسجدوں ۔ مدرسوں سے بلا تفریق مذ ہب و ملت لوگوں کو پانی پلائیں ، حسبِ حیثیت غریبوں ، محتاجوں ، مسکینوں کےلیے سحری کا انتظام کریں نہ کہ افطار کی بڑی بڑی پارٹیاں کریں اور لیڈروں کو بلائیں اس کا اعلان کرائیں ، اگر امام اعلان کرنا بھول جائے تو اس کی بے عزتی کر دی ۔
دکھاوا شہرت سے عبادتیں بربا د کردی جاتی ہیں،دکھاوا صرف اور صرف نفس کا دھو کا ہے رب تعالیٰ دلوں کا حال خوب جانتا ہے۔جن پڑوسیوں کو آپ جانتے ہیں کہ غریب ہیں روزہ رکھتے ہیں اُن کو چھپ چھپاکر افطار بھجیں مدد کریں ۔ اس وقت جلسوں کا خوب زور ہے علماے کرام آمدِ رمضانُ المبارک ، استقبال رمضانُ المبارک کے سلسلے میں عوام تک پیغام پہنچائیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں ۔ ائمہ کرام جمعہ کے خطبہ میں اس جانب توجہ دلائیں،محلوں میں جو خواتین کے اجتماعات ہوتے ہیں مبلغات بھی اس طرف خواتین کی توجہ مبذول کرائیں۔پورے ماہ میں نماز کی پابندی ، قرآن پاک کی تلاوت، توبہ اسغفار اور ذکر و اذکار پر پوری توجہ مرکوز رکھیں ۔
یاد رہے کہ خوشخبری سننے والوں کے اندر خوشی اور سرور پیدا کرنے کا نام ہے اور رمضان جو نیکیوں کا موسم بہار ہے ۔ اس کے قریب آنے کی خوش خبری سے بڑھ کر اور کون سی خوشخبری ہو سکتی ہے ؟ چناچہ آپ اور آپ کے صحابہ ایسی ہی سچی خوشی سے سرشار رمضانُ المبارک کے منتظر ہوتے ۔ گویا پورے انہماک ۔ جوش و جذبے اور ولولے و بے تابی کے ساتھ رمضانُ المبارک کا انتظار اور استقبال سنتِ نبوی ہے ۔ لہٰذا شعبانُ المعظم میں ۔ اسی سنتِ نبوی کی تجدید ہمارا مقصدِ اولین ہے اور فلاح و کامیابی انہی کا مقدر بنتی ہے ۔ جو اس مہینے کی ویسے ہی قدر کرتے ہیں جیسا کہ اس کا حق ہے ۔ دوسرے لفظوں میں جو اسوۂ رسول کے مبارک نقشِ قدم پر چل کر اس ماہِ عظیم کی رحمتوں و برکتوں سے اپنی اور اپنے پیاروں کی جھولیاں بھر لینے کےلیے پہلے ہی سے منصوبہ بندی کرتے ہوئے کمر بستہ ہو جاتے ہیں ۔ تاکہ اس عظمت و بزرگی والے مہینے کی قیمتی گھڑیوں کی ایک ساعت بھی ضائع نہ جائے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بڑے شوق و محبت سے ماہ رمضان کا استقبال فرماتے ۔ قمری سال کے مہینوں میں ”رمضان‘‘ ہی ایسا عظیم المرتبت مہینہ ہے جس کی شان قرآنِ کریم میں بیان کی گئی ہے ۔ اور اس کی بابت ایک مفصَّل استقبالی خطبہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے‘ جو درج ذیل ہے : ⬇
حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بیان کرتے ہیں : (ایک بار) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شعبان کے آخری دن ہمیں ایک خطبہ ارشاد فرمایا : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو ! تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے‘ (یہ) مبارک مہینہ ہے ، اس میں ایک رات (ایسی ہے جو) ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، ﷲ تعالیٰ نے اس ماہ کے روزے رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس کی راتوں میں (نوافل کےلیے) قیام کو نفلی عبادت قرار دیا ہے ، سو جو (خوش نصیب) اس مہینے میں کوئی نفلی عبادت انجام دے گا ، تو اُسے دوسرے مہینوں کے (اسی نوع کے) فرض کے برابر اجر ملے گا اور جو اس مہینے میں کوئی فرض عبادت ادا کرے گا ، تو اسے (اسی نوع کے) غیرِ رمضان کے سترفرائض کے برابر اجر ملے گا ۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے ، یہ دوسروں سے ہمدردی اور ان کے دکھوں کے مداوے کامہینہ ہے ، یہ ایسا (مبارک) مہینہ ہے کہ اس میں مومن کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے ، جو شخص اس مہینے میں کسی روزے دار کا روزہ افطار کرائے گا ، تویہ اس کےلیے گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ بنے گا ، اس کے سبب اس کی گردن نارِ جہنّم سے آزاد ہوگی اور روزے دار کے اجر میں کسی کمی کے بغیر اسے اس کے برابر اجر ملے گا ۔ (حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بیان کرتے ہیں : ) ہم نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم میں سے ہر ایک کو اتنی توفیق نہیں ہے کہ وہ روزے دارکو روزہ افطار کرائے ، تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : یہ اجر اسے بھی ملے گا ، جو دودھ کے ایک گھونٹ یا ایک کھجور یا پانی پلا کر ہی کسی روزے دارکو روزہ افطار کرائے اور جو شخص کسی روزے دار کو پیٹ بھر کر کھلائے‘ تواللہ تعالیٰ اسے (قیامت کے دن) میرے حوضِ (کوثر) سے ایسا جام پلائے گا کہ (پھر) وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہیں ہوگا ۔ یہ ایسا (مبارک) مہینہ ہے کہ اس کا پہلا عشرہ (باعثِ نزولِ) رحمت ہے اور اس کا دوسرا عشرہ وسیلۂ مغفرت ہے اور اس کا آخری عشرہ نار (جہنم) سے آزادی کاسبب ہے ۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے ماتحت (خدام اور ملازمین) کے کام میں تخفیف کرے ‘ تواللہ تعالیٰ اسے بخش دے گااور اسے نار (جہنم) سے رہائی عطا فرمائے گا ۔ (شُعَبُ الایمان لِلبَیہقی حدیث 3336)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس مبارک مہینے کو خوش آمدید کہہ کر اس کا استقبال فرماتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے سوالیہ انداز میں تین بار دریافت کرتے : مَاذَا يَسْتَقْبِلُکُمْ وَتَسْتَقْبِلُوْنَ ؟ ۔ کون تمہارا استقبال کر رہا ہے اور تم کس کا استقبال کر رہے ہو ؟ ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا کوئی وحی اترنے والی ہے ؟ فرمایا : نہیں ۔ عرض کیا : کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : نہیں ۔ عرض کیا : پھر کیا بات ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اِنَّ ﷲَ يَغْفِرُ فِی أَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ لِکُلِّ أَهْلِ الْقِبْلَةِ ۔ (الترغيب والترهيب، 2 : 64، رقم : 1502) ۔ ترجمہ : بے شک ﷲ تعالیٰ ماہ رمضان کی پہلی رات ہی تمام اہلِ قبلہ کو بخش دیتا ہے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جیسے ہی ماہ رجب کا چاند طلوع ہوتا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا فرماتے : اَللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي رَجَبٍ، وَشَعْبَانَ، وَبَارِکْ لَنَا فِی رَمَضَانَ ۔ (حلية الأولياء جلد 6 صفحہ 269،چشتی)
ترجمہ : اے اللہ! ہمارے لیے رجب ، شعبان اور (بالخصوص) ماہ رمضان کو بابرکت بنا دے ۔
عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رضي ﷲ عنهما قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ ﷲِ ، لَمْ أَرَکَ تَصُوْمُ شَهْرًا مِنَ الشُّهُوْرِ مَا تَصُوْمُ مِنْ شَعْبَانَ ؟ قَالَ : ذَالِکَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيْهِ الأَعْمَالُ إِلَی رَبِّ الْعَالَمِيْنَ فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ ۔ (نسائي السنن کتاب الصيام، باب صوم النبي ﷺ بأبي هو وأمّي وذکر اختلاف الناقلين للخبر في ذلک، 4 : 201، رقم : 2357،چشتی)(أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 201، رقم : 21801)
ترجمہ : حضرت اُسامہ بن زید رضی ﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جس قدر آپ شعبان میں روزے رکھتے ہیں اس قدر میں نے آپ کو کسی اور مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو رجب اور رمضان کے درمیان میں (آتا) ہے اور لوگ اس سے غفلت برتتے ہیں حالانکہ اس مہینے میں (پورے سال کے) عمل اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرے عمل روزہ دار ہونے کی حالت میں اُٹھائے جائیں ۔
اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہ رضی ﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مسلسل دو ماہ تک روزے رکھتے نہیں دیکھا مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شعبان المعظم کے مبارک ماہ میں مسلسل روزے رکھتے کہ وہ رمضان المبارک کے روزہ سے مل جاتا ۔ (نسائي، السنن، کتاب الصيام، ذکر حديث أبی سلمه فی ذلک، 4 : 150، رقم : 2175،چشتی)
ماہِ شعبان ماہِ رمضان کےلیے مقدمہ کی مانند ہے لہٰذا اس میں وہی اعمال بجا لانے چاہییں جن کی کثرت رمضان المبارک میں کی جاتی ہے یعنی روزے اور تلاوتِ قرآن حکیم ۔ علامہ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ ’ لطائف المعارف صفحہ 258 ‘ میں لکھتے ہیں : ماہ شعبان میں روزوں اور تلاوتِ قرآن حکیم کی کثرت اِس لیے کی جاتی ہے تاکہ ماہ رمضان کی برکات حاصل کرنے کےلیے مکمل تیاری ہو جائے اور نفس ، رحمن کی اِطاعت پر خوش دلی اور خوب اطمینان سے راضی ہو جائے ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمول سے اِس حکمت کی تائید بھی ہو جاتی ہے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ شعبان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمول پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں : کان المسلمون إِذَا دَخَلَ شَعْبَانُ أکبُّوا علی المصاحِفِ فقرؤوها، وأَخْرَجُوْا زَکَاةَ أموالهم تقوِيَةً للضَّعيفِ والمسکينِ علی صيامِ و رمضانَ ۔ (لطائف المعارف : 258)
’’شعبان کے شروع ہوتے ہی مسلمان قرآن کی طرف جھک پڑتے، اپنے اَموال کی زکوۃ نکالتے تاکہ غریب، مسکین لوگ روزے اور ماہ رمضان بہتر طور پر گزار سکیں ۔
حضرت عبدُاللہ بِن عُکَیْم جُہَنِی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے کہ جب رمضان المبارک کی آمد ہوتی توامیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ یکم رمضان المبارک کی شب نمازِ مغرب کے بعد لوگوں کو نصیحت آموز خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرماتے : اے لوگو بیٹھ جاؤ ! بے شک اس مہینے کے روزے تم پر فرض کیے گئے ہیں ، البتہ اس میں نوافل کی ادائیگی فرض نہیں ہے ، لہٰذا جو بھی نوافل ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ نوافل ادا کرے کیونکہ یہ وہی بہترین نوافل ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا ہے اور جو نوافل کی ادائیگی کی اِستطاعت نہیں رکھتا اُسے چاہیے کہ اپنے بستر پر سو جائے ۔ تم میں سے ہر بندہ یہ کہتے ہوئے ڈرے کہ اگر فُلاں شخص روزہ رکھے گا تو میں روزہ رکھوں گا ، اور اگر فُلاں شخص نوافل ادا کرے گا تو میں بھی نوافل پڑھوں گا ۔ جوبھی روزہ رکھے یا نوفل ادا کرے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کےلیے کرے ۔ تم میں سے ہر شخص کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ جب تک وہ نماز کے انتظار میں ہوتا ہے درحقیقت نماز ہی میں ہوتا ہے ۔ آپ نے دو تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے گھر میں فضول باتیں کرنے سے بچتے رہو ۔ پھر تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا : خبردار ! تم میں سے کوئی بھی ہرگز اس مبارک مہینے کو فضول نہ گزارے ۔ جب تک چاند نہ دیکھ لو اس وقت تک روزہ نہ رکھو اگر چاند (Moon) مشکوک ہو جائے تو تیس (30) دن پورے کرو اور جب تک اندھیرا (یعنی سورج کے ڈوب جانے کا یقین)نہ ہو اس وقت تک افطار نہ کرو ۔ (مصنف عبدالرزاق، کتاب الصلوٰۃ،باب قیام رمضان جلد ۴ صفحہ ۲۰۴ حدیث نمبر ۷۷۷۸،چشتی)
حضرت فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ماہِ غُفران کی اہمیت و فضیلت سے کس قدر واقف تھے اور اس مبارک مہینے سے کیسی والہانہ عقیدت و محبت کرتے تھے کہ جیسے ہی یہ مبارک مہینہ جلوہ گر ہوتا تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہتی ، آپ آمدِ رمضان پر نہ صرف خود نیکیوں میں مشغول ہو جاتے بلکہ مسلمانوں میں عبادت کا ذوق و شوق بیدار کرنے کےلیےانہیں بھی اس مقدَّس مہینے میں اخلاص کےساتھ کثرت سے نفل عبادت کی ترغیب دلاتے اور آمدِ ماہِ رمضان کے پُرنور موقع پر چراغاں کے ذریعے مساجد کو روشن کرنا بھی آپ کے مبارک معمولات میں شامل تھا جیسا کہ حضرت ابواسحاق ہَمدانی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : امیر المؤمنین حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ رَمضانُ المبارک کی پہلی رات (First Night) باہر نکلے تو دیکھا کہ مساجد پر قندیلیں چمک رہی ہیں اور لوگ کتابُ اللہ کی تلاوت کر رہے ہیں ۔ یہ دیکھ کر آپ نے ارشاد فرمایا : نَوَّرَاللہُ لِعُمَرَ فِيْ قَبْرِہٖ كَمَا نَوَّرَ مَسَاجِدَ اللہِ بِالْقُرْآنِ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی قبر کو ویسا ہی منوَّر کر دے جیسا آپ نے (رمضانُ المبارک میں) مساجد کو قرآن سے منوَّر کیا ۔ (الریاض النضرہ)
ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اس مقدَّس مہینےکو عظیم الشّان طریقے سےخوش آمدیدکہنے کی تیَّاری شروع کر دیں ، اسےفضولیات اور غفلت میں گزارنے کے بجائے اخلاص کے ساتھ نیک اَعمال مثلاً فرائض و واجبات ، سنن و مستحبات ، نوافل ، ذکر و اذکار ، تلاوتِ قرآن ، زکوۃ و فطرات ، صدقہ و خیرات ، عشر و عطیات ، تہجد ، اشراق و چاشت ، غرباء و مساکین کی اِمداد ، شب بیداری ، توبہ و استغفار اور دعا و مناجات ، دُرُود و سلام کی کثرت ، حمد و نعت جیسی نیکیوں میں مشغول رہیں بلکہ ہر وہ نیک و جائز کام کرنے کی کوشش کریں کہ جس میں اللہ تعالیٰ اور اس کے مَحبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رِضا ہو ۔ ہمارے کریم آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی اس مبارک مہینے کی آمدہوتے ہی عِبادتِ الٰہی میں بہت زیادہ مشغول ہو جایا کرتے تھے : اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرت عائِشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں : جب ماہِ رَمَضان آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عِبادت کےلیے کَمر بَستہ ہو جاتے اور سارا مہینہ اپنے بِستر مبارک پر تشریف نہ لاتے ۔ (تفسیر درِ منثور،۱ / ۴۴۹) ۔ مزید فرماتی ہیں کہ جب ماہِ رَمَضان تشریف لاتا ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کارنگ مبارَک تبدیل (ہو کر پیلا یا لال) ہو جاتا ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نَماز کی کثرت فرماتے ، خوب گِڑ گڑا کر دُعا ئیں مانگتے اور اللہ تعالیٰ کا خوف آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر طاری رہتا ۔ (شُعَبُ الْایمان،۳ / ۳۱۰ ،حدیث: ۳۶۲۵)
ہر مسلمان کےلیے اللہ تعالے کی طرف سے رمضانُ المبارک کا مہینہ ایک گراں قدر تحفہ اور عظیم نعمت ہے ، زندگی کے نشیب و فراز سے گذارتے ہوئے اللہ عزوجل نے ہمیں رمضانُ المبارل کے دہانے تک پہنچایا ہے ، اس لیے ہمیں سب سے پہلے اس رب کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔ اور محض زبانی شکر کافی نہیں ہے ، بلکہ اپنے اعمال و کردار سے بھی اس کا اظہار کریں ۔ شکر نعمت میں پائداری اور زیادتی کے اسباب میں سے ہے ۔ شعبان کا مہینہ چونکہ طہارت کا مہینہ ہے ، اس لیے اہل ایمان کو اس ماہ فضیلت میں خاص اہتمام سے گناہوں سے توبہ کرلینی چاہیے تاکہ ان کے باطن کا خوب تزکیہ ہو تاکہ وہ ماہِ رمضان کا استقبال بہتر کیفیات کے ساتھ کرسکیں ۔ ان مبارک ایام میں اپنے لیے ، پوری امت مسلمہ کےلیے جملہ خیرات کی دعا کریں اور دیگر راہِ ہدایت سے بھٹکی انسانیت کےلیے بھی اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کریں ۔در اصل یہی ان ایام کا وہ مبارک ثمرہ ہے جس کی لذت سے ہمیں محظوظ ہونا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ ٰسے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے عظیم الشان مہمان کی آمد سے پہلے پہلے عمدہ اخلاق اور عالی صفات سے مزین فرما دے کہ ہم خوب سیرت ہو کر اپنے اس محترم و قدس مہمان کا استقبال کریں جس کی آمد کے ہم منتظر ہیں اور زبان سے دعا گو ہیں کہ : اے اللہ تُو ہمارے ماہِ شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں صحت و عافیت سے ماہِ رمضان تک پہنچا آمین ۔
رمضان ، قرآن ، انسان اور مسلمان
رمضان ، قرآن ، انسان اور مسلمان یہ چاروں الفاظ ایک دوسرے کے ساتھ گہرا ربط و تعلق رکھتے ہیں ۔ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہمیں یہ پتہ دیتا ہے کہ اس کی مبارک ساعتوں میں نزول قرآن ہوا ہے ۔ قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اس کائنات میں انسان کو اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے اور یہ اعزاز و شرف اسے فطرتاً ودیعت کردیا گیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ عملی زندگی میں کیا ہر انسان اشرف المخلوقات ہے ؟ اگر نہیں تو پھر انسان اشرف المخلوقات کیسے بن سکتا ہے ؟
انسان کا شرف اللہ کی اطاعت میں ہے : انسان اگر اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کا تاج پہنچانا چاہتا ہے تو اُسے اس امر کو ملحوظ رکھنا ہوگا کہ انسان کا شرف اللہ کی اطاعت میں ہے۔ اس حقیقت کی طرف قرآن یوں متوجہ کرتا ہے کہ اشرف المخلوقات انسان وہی ہو سکتا ہے جو اس ارشاد باری تعالیٰ پر پورا اُترے : مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهُ ِﷲِ ۔
ترجمہ : جس نے اپنا چہرہ ﷲ کے لیے جھکا دیا (یعنی خود کو ﷲ کے سپرد کر دیا) ۔ (البقرة، 112)
جو انسان اپنے رب کے سامنے جھک گیا ، اس کا فرمانبردار ہو گیا ، زندگی میں رب کی اطاعت آگئی ، اپنے وجود پر اللہ کے احکامات کو نافذ کر لیا ، جبینِ نیاز اللہ کے حضور جھک گئی ، الغرض جس کا سارا وجود ، قول اور عمل اللہ کے حکم کے تحت آگیا اور وہ سراپا تسلیم و رضا بن گیا ، ایسا انسان قرآن کے نزدیک اشرف المخلوقات کے اعزا زکا مستحق ہے اور حقیقی معنوں میں اسلام کے دائرہ میں داخل ہو گیا ۔
رمضان اور مسلمان : اشرف المخلوقات کے اعزاز کے حصول کےلیے ماہ رمضان المبارک ایک مسلمان کو ایک خاص قسم کا ماحول اور روحانی کیفیت عطا کرتا ہے جس بناء پر اس منزل کے حصول کےلیے اس کا سفر آسان ہو جاتا ہے ۔ ایک مسلمان کی زندگی میں جب رمضان کا بابرکت مہینہ آتا ہے تو اس مسلمان کو اپنی زندگی میں کیا کچھ اہتمام کرنا ہے۔۔ اپنے قول کو کس سطح پر قائم کرنا ہے ۔ اپنے فعل کو کسی معیار پر استوار کرنا ہے ۔ اپنے وجود سے کیا چیز ظاہر ہونے دینی ہے اور کیا نہیں ؟ اگر ہم نے اپنے آپ کو مثالی انسان اور ارفع مسلمان بنانا ہے تو اس حوالے سے ہمیں اسلامی تعلیمات اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و کردار اور ارشادات و فرمودات سے رہنمائی لینا ہوگی ۔
رمضان المبارک کی فضیلت کا اظہار باری تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں ارشاد فرمایا : شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ۔
ترجمہ : رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے ۔ (سورہ البقرة، 185)
پس نزولِ قرآن کی وجہ سے ماہ رمضان دوسرے مہینوں سے ممتاز اور منفرد ہے ۔ اللہ کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت کی سب سے بڑی علامت ، صداقت و حقانیت خود قرآن ہے۔ گویا قرآن ایک طرف اللہ کی کتاب اور اُس کا کلام ہے تو دوسری طرف رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت کا ایک زندہ معجزہ بھی ہے ۔
روزوں کی فرضیت : اللہ رب العزت نے روزوں کی فرضیت کے حوالے سے ارشاد فرمایا : يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ۔
ترجمہ : اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ ۔ (سورہ البقرة: 183)
اس آیت مبارکہ میں روزوں کی فرضیت کے مقصد ’’تقویٰ کا حصول‘‘ کو بیان فرمایا گویا جو روزہ انسان کو تقویٰ و پرہیزگاری سے آشنا نہ کرے اور اس کی عملی زندگی میں اللہ رب العزت کے احکامات کی بجا آوری اور منع کردہ اشیاء سے رُکنے پر آمادگی پیدا نہ کرے ، وہ روزہ بے روح اور بے مقصد ہوگا۔ ان روزوں کا دوسرا مقصد قرآن میں یوں بیان فرمایا گیا:لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ۔
ترجمہ : اس لیے کہ تم شکر گزار بن جاؤ ۔ (سورہ البقرة: 185)
قرآن اور صاحب قرآن کی صورت میں گویا ایک مہینے کے روزے کوئی زیادہ نہیں ۔ جتنی بڑی نعمت ہمیں میسر ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر شکر بھی اسی قدر بڑا ہونا چاہیے ۔ گویا یہ روزے ایک طرف ہمیں تقویٰ کی جانب راغب کرتے ہیں اور دوسری طرف ہمیں قرآن و صاحب قرآن کی صورت میں ملنے والی نعمت کی قدر و قیمت سے بھی آگاہ کرتے ہیں۔ نیز نعمت عطا کرنے والے رب کے ساتھ بھی ہمارے تعلق کو مضبوط کرتے ہیں ۔
پس 30/29 دن کوئی زیادہ نہیں ہیں ۔ اس لیے جب رمضان المبارک ہماری زندگی میں آئے تو اسے اپنے رب کی طرف سے خیر جاننا ہوگا ۔ اس کی بارگاہ میں شکر گزاری کے جذبے کے ساتھ ان روزوں کو رکھنا ہوگا ، موسموں کی شدت و حدت اور نفسانی خواہشات کو اپنے راستے کی رکاوٹ بننے سے روکنا ہوگا ۔ ہماری تعیشات بھری زندگی اللہ کی اطاعت میں رکاوٹ نہ بنیں ۔ حالات کی سختیاں ہمیں روزہ رکھنے کے عمل سے دور نہ کریں ۔ ہماری صحت کے چھوٹے موٹے مسائل بھی ہمیں روزہ کا عمل اختیار کرنے میں مزاحم نہ ہوں ۔ غرضیکہ تمام تر حالات و واقعات میں ہمارے لیے روزہ رکھ لینا زیادہ بہتر ہے اور اسی عمل میں ہمارے لیے خیر ہی خیر ہے ۔ ارشاد فرمایا کہ بیماری اگر شدید نہیں بلکہ قابل برداشت ہے تو ایسی صورت میں بھی یہی حکم ہے کہ : وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔
ترجمہ : اور تمہارا روزہ رکھ لینا تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں سمجھ ہو ۔ (سورہ البقرة: 184)
رمضان المبارک نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں : ⬇
نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے روزوں کا خاص اہتمام فرماتے ۔ اس ماہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادات اور معمولاتِ صالح میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ۔ وہ ذاتِ مبارکہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وماتاخر کا مژدہ سنایا ہو کہ آپ کے صدقے سے اللہ نے آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ فرمادیئے۔ اگر وہ ہستی رمضان المبارک میں رب کائنات کی بارگاہ میں اس حد تک نیاز مندانہ اظہار فرمائے تو ہمیں بھی اپنے اعمال کی اصلاح اور صفائے قلب و باطن کی طرف متوجہ ہونا ہوگا ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : کَانَ رَسُوْلُ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ شَدَّ مِئْزَرَهُ ثُمَّ لَمْ يَاْتِ فِرَاشَهُ حَتَّی يَنْسَلِخَ ۔
ترجمہ : جب ماهِ رمضان شروع ہو جاتا تو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا کمر بند کس لیتے پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بستر پر تشریف نہیں لاتے تھے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا ۔ (ابن خزيمة في الصحيح، 3/ 342، الرقم: 2216،چشتی)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ : کَانَ رَسُوْلُ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم إِذَا دَخَلَ رَمَضَانَ تَغَيَرَ لَوْنُهُ وَکَثُرَتْ صَلَاتُهُ وَابْتَهَلَّ فِي الدُّعَاءِ وَاَشْفَقَ مِنْهُ ۔
ترجمہ : جب ماہِ رمضان شروع ہوتا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک متغیر ہو جاتا اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازوں کی (مزید) کثرت کر دیتے اور ﷲ تعالیٰ سے عاجزی و گڑ گڑاکر دعا کرتے اور اس ماہ میں نہایت محتاط رہتے ۔ (شعب الإيمان، 3/ 310، الرقم: 3625)
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان کی فضیلت اور اہمیت کو اپنی متعدد احادیث میں اجاگر فرمایا ہے تاکہ رمضان کے ساتھ وابستگی ایمان میں اضافہ کا باعث بن جائے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ۔
ترجمہ : جو شخص رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور طلب ثواب کےلیے رکھے اس کے گذشتہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں ۔(بخاری الصحيح کتاب الصوم، 1/ 22، الرقم: 38،چشتی)
ہماری خوش نصیبی ہے کہ رمضان المبارک ہماری زندگیوں میں آیا ہے ۔ ہمیں رمضان المبارک کی آمد کا استقبال کیسے اور کس طرح کرنا چاہیے یہ عمل بھی ہم رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اقدس سے سیکھتے ہیں ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : هَذَا رَمَضَانَ قَدْ جَاءَ تُفْتَحُ فِيْهِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَتُغْلَقُ أَبْوَابُ النَّارِ وَتُغَلُّ فِيْهِ الشَّيَاطِيْنُ. بُعْدًا لِمَنْ أَدْرَکَ رَمَضَانَ فَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ إِذَا لَمْ يُغْفَرْلَهُ فِيْهِ فَمَتَی ؟
ترجمہ : رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آگیا ہے اس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اس میں شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے وہ شخص بڑا ہی بدنصیب ہے جس نے رمضان کا مہینہ پایا لیکن اس کی بخشش نہ ہوئی۔ اگر اس کی اس (مغفرت کے) مہینہ میں بھی بخشش نہ ہوئی تو پھر کب ہوگی ؟ ۔ (طبرانی، المعجم الاوسط، 7: 323،چشتی)
جہنم کے دروازے بند کردیے جانے سے مراد یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو جہنم کی طرف لے جاتی ہے انسانی طبیعت میں فطرتاً اس کی رغبت کم کردی جاتی ہے ۔ نیکی کے فروغ اور بدی کے سدباب کا ماحول بنادیا جاتا ہے ۔ برائی کی طرف آمادہ کرنے والے شیاطین اور اس کے کارندوں کو پابند سلاسل کردیا جاتا ہے ۔ آسمانی اور زمینی فضائیں اللہ کی رحمت سے معمور ہوجاتی ہیں ۔ ہر طرف ایک نورانی اور روحانی ماحول کارفرما دکھائی دیتا ہے ۔ اللہ کی شانِ رحمت اپنے جوبن اور کمال پر دکھائی دیتی ہے ۔ اس مہینے میں باری تعالیٰ اپنی رحمتیں سب سے زیادہ بانٹتا ہے اور ان رحمتوں کو لینے اور پانے کا طریق اس کے حضور عبادت گزاری، مغفرت طلبی اور دعا طلبی میں ہے ۔ اس مہینے میں ایک سعید روح کو باری تعالیٰ اپنی ساری نعمتوں سے نوازتا ہے اور اس مہینے میں اللہ کی نعمتوں اور اس کی رحمتوں سے محرومی صرف اور صرف شقی اور بدبخت کےلیے ہے ۔
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ بن صامت سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان کی آمد پر ارشاد فرمایا : اَتَاکُمْ رَمَضَانُ شَهْرُ بَرَکَةٍ يَغْشَاکُمُ ﷲُ فِيْهِ فَيُنْزِلُ الرَّحْمَةَ، وَيَحُطُّ الْخَطَايَا، وَيَسْتَجِيْبُ فِيْهِ الدُّعَاءَ، يَنْظُرُ ﷲُ تَعَالَی إِلَی تَنَافُسِکُمْ فِيْهِ، وَيُبَاهِي بِکُمْ مَـلَائِکَتَهُ فَاَرُوا ﷲَ مِنْ اَنْفُسِکُمْ خَيْرًا، فَإِنَّ الشَّقِيَّ مَنْ حُرِمَ فِيْهِ رَحْمَةَ ﷲِ ۔
ترجمہ : تمہارے پاس برکتوں والا مہینہ آگیا اس میں اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت سے ڈھانپ لیتا ہے اور اپنی رحمت نازل فرماتا ہے ، گناہوں کو مٹاتا ہے اور دعائیں قبول فرماتا ہے اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں پر نظر فرماتا ہے اور تمہاری وجہ سے اپنے فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے اس لیے تم اپنے قلب و باطن سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نیکی حاضر کرو اس لیے کہ وہ شخص بدبخت ہے جو اس ماہ مبارک میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم رہا ۔ (الترغيب والترهيب، 2/ 60، الرقم: 1490،چشتی)
اس مہینے میں اللہ رب العزت کا کرم اس حد تک بندے پر نازل ہوتا ہے کہ اس کی بارگاہ میں جھولی پھیلانے والا نامراد نہیں رہتا بلکہ وہ اپنی شان کے لائق بندے کو اس کی طلب سے کئی بڑھ کر عطا کرتا ہے ۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ذَاکِرُ ﷲِ فِي رَمَضَانَ مَغْفُورٌ لَهُ، وَسَائِلُ ﷲِ فِيْهِ لَا يَخِيْبُ ۔
ترجمہ : ماہِ رمضان میں ﷲ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا بخش دیا جاتا ہے اور اس ماہ میں ﷲ تعالیٰ سے مانگنے والے کو نامراد نہیں کیا جاتا ۔ (المعجم الاوسط، 6/ 195، الرقم: 6170،چشتی)
گویا یہ مہینہ جنت میں داخلے اور جنت کو پانے کا مہینہ ہے اور اس مہینے میں رب اپنے بندوں کے دلوں کو اپنا خصوصی مسکن اور ٹھکانہ بناتا ہے ۔ مانگنے والے کو نامراد نہیں کرتا ۔ اور وہ اپنے بندوں کے دلوں کو اپنی معرفت ، محبت اور قربت کی خیرات عطا کرتا ہے ۔
اسلام کی عبادات کا مقصد تشکیلِ کردار : روزے دار کےلیے لازم ہے کہ کھانے ، پینے اور نفسانی خواہشات کی ہر چیز سے رک جائے ۔ اکل وشرب اور ہوائے نفس سے رکنے کا یہ عمل ہی صوم ہے لیکن اس صوم کی تکمیل کےلیے حالت روزہ میں ایک صائم کو روزے کے کچھ آداب و تقاضوں کو بھی بجا لانا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وَإِذَا کَانَ يَوْمُ صَوْمِ اَحَدِکُمْ فلَاَ يَرْفُثْ وَلَا يَصْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهُ اَحَدٌ اَوْ قَاتَلَهُ فَلْيَقُلْ: إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ ۔
ترجمہ : جب تم میں سے کوئی روزے سے ہو تو نہ فحش کلامی کرے اور نہ جھگڑے اور اگر کوئی اسے گالی دے یا اس کے ساتھ لڑے تو یہ کہہ دے میں روزے سے ہوں ۔ (بخاری الجامع الصحيح، کتاب الصوم، 2: 673، الرقم: 1805،چشتی)
ایک اور مقام پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنْ لَمْ يَدَعْ قَولَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ ِﷲِ حَاجَةٌ فِي اَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ ۔
ترجمہ : جو شخص بحالت روزہ جھوٹ بولنا اور اس کے ساتھ برے عمل کرنا ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو (روزے کی حالت میں) اس کے بھوکا اور پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ (صحيح البخاری، کتاب: الصوم، 2/ 673، الرقم: 1804،چشتی)
اسلام کی ہر عبادت کا مقصد تقویٰ کی صورت میں انسان کو ایک کردار عطا کرنا ہے ۔ روزے کے عمل کی وسعت ان احادیث مبارکہ سے واضح ہے کہ روزہ سارے اعضاء کا ہونا چاہیے ۔ زبان سب و شتم اور فحش کلامی سے پاک ہو ، کسی کو گالی گلوچ نہ کرے ، نفرت و حقارت کا اظہار نہ کرے ، کسی کے جذبات کو مجروح نہ کرے اور کسی بھی قسم کی کسی کو بھی کوئی تکلیف و اذیت نہ دے ۔ الغرض مسلمان کا وجود ، وجود خیر ہو، لڑائی جھگڑے، فتنہ و فساد ، جھوٹ سے ہر ممکن اجتناب کرے ۔ نیز اسی طرح اس کا وجود بھی بُرے عمل کی آماجگاہ بننے سے محفوظ ہو جائے ۔
اگر نفس شر کی ہر چیز میں مصروف نظر آئے ، اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرے ، اللہ کی نافرمانی اور معصیت کی طرف بڑھے لیکن ظاہر داری میں روزے رکھتا پھرے ، دن بھر بھوکا پیاسا رہے تو اس کا یہ عمل کچھ فائدہ نہ دے گا ، اس لیے کہ ایسے روزے کا نہ رب نے حکم دیا تھا اور نہ یہ اسلام میں مقصود ہے ۔
فلیس للہ حاجۃ ۔ اللہ کو ایسے روزوں کی ضرورت نہیں جو اس کے اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات اور تعلیمات کی صریح خلاف ورزی میں رکھے جائیں ۔ پس جس طرح ہر عمل اپنی ادائیگی کے لئے کچھ قواعد و ضوابط رکھتا ہے اسی طرح روزے کی ادائیگی کے مذکورہ ضابطوں پر عمل پیرا ہونا ہی روزے کو اللہ کی بارگاہ میں مقبولیت تک لے جاتا ہے ۔
روزہ ڈھال ہے : روزہ ڈھال اور دوزخ سے بچاٶ کے لیے قلعہ اس وقت بنتا ہے جب روزے کا عمل اپنے تمام تر ظاہری اور باطنی آداب کے ساتھ ادا کیا جائے ۔ روزہ میں ایک مکمل عمل اطاعت نظر آئے اور کسی بھی وقت اس میں معصیت و نافرمانی کا کوئی رجحان دکھائی نہ دے ۔ ایسا روزہ ہی مکمل طہارت کے ساتھ ساتھ اکمل اطاعت بنتا ہے ۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : الصِّيَامُ جُنَّةٌ، وَحِصْنٌ حَصِيْنٌ مِنَ النَّارِ ۔
ترجمہ : روزہ ڈھال ہے اور دوزخ کی آگ سے بچاٶ کےلیے محفوظ قلعہ ہے ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 2: 402، الرقم: 9214،چشتی)
روزے کا جہنم سے بچاٶ کےلیے ایک قلعہ ، ایک ڈھال اور ایک مکمل حفاظت ہونا اس طرح ہے کہ اگر روزہ دار خود کو ان برائیوں سے بچالیتا ہے تو اس کا یہ سارے کا سارا عمل ایک ڈھال بن جاتا ہے ۔
قیامِ رمضان : رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک میں صحابہ کرام رضی الکہ عنہم کو نماز تراویح ادا کرنے کی ترغیب دیتے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس حوالے سے بیان کرتے ہیں : يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ ۔ ترجمہ : رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز تراویح پڑھنے کی رغبت دلایا کرتے ۔ (صحيح بخاری، کتاب صلاة التراويح، 2: 707 الرقم: 1905،چشتی)
حضرت عبدالرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنْ قَامَ رَََمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا خَرَجَ مِنْ ذُنُوْبِهِ کَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ ۔
ترجمہ : جو شخص ایمان اور حصول ثواب کی نیت کے ساتھ رمضان کی راتوں میں قیام کرتا ہے تو وہ گناہوں سے یوں پاک صاف ہوجاتا ہے جیسے وہ اس دن تھا جب اسے اس کی ماں نے جنم دیا تھا ۔ (سن نسائی کتاب الصيام 4: 158، الرقم: 2208،چشتی)
ان احادیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تراویح کی وہ نماز جو کیفیت ایمان کے ساتھ ادا کی جائے ، جس میں ثواب ، اپنے اعمالِ نفس کے احتساب و محاسبہ کی کیفیات اور اللہ کی اطاعت میں دائمی رہنے کا جذبہ بھی ہو ، ان کیفیات سے معمور اور بھرپور صلاۃ التراویح ایک مسلمان و مومن کے حق میں سراسر مغفرت و بخشش کی خیرات بن جاتی ہے ۔ باری تعالیٰ اپنے بندہ کے طویل قیام کے ذریعے اس مغفرت طلبی کے عمل کو اجابت کی شان عطا کرتا ہے۔ بندے کو بخشش و مغفرتِ ذنب کا مژدہ جانفزا سنادیا جاتا ہے ۔ یوں بندہ اپنے سفرِ اطاعت میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے ۔
روزے کا اجرو ثواب : رمضان المبارک میں بندہ مومن کو اللہ کی بارگاہ میں ملنے والی سب سے بڑی نعمت مغفرت اور عطائے عفو ہے ۔ یقینا ایک بندے کےلیے اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں کہ رب بندے کو مغفرت کی بشارت عطا کردے ۔
روزہ کے اس مکمل عمل کا اللہ کی بارگاہ میں اجرو ثواب کیا ہے ؟ ⬇
حدیث قدسی ہے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان فرماتے ہیں کہ باری تعالیٰ نے فرمایا : کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ فَالْحَسَنَهُ بِعَشْرِ اَمْثَالِهَا إِلَی سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ إِلَّا الصِّيَامَ هُوَ لِي وَ اَنَا اَجْزِي بِهِ إِنَّهُ يَتْرُکُ الطَّعَامَ وَشَهَوَتَهُ مِنْ اَجْلِي وَيَتْرُکُ الشَّرَابَ وَشَهْوَتَهُ مِنْ اَجْلِي فَهُوَ لِي وَاَنَا اَجْزِي بِهِ ۔
ترجمہ : آدمی کا ہر عمل اس کے لئے ہے اور ہر نیکی کا ثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے۔ سوائے روزہ کے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا عطا کرتا ہوں، یقینا وہ (روزہ دار) کھانا اور شہوت نفسانی کو میری وجہ سے ترک کرتا ہے اور اپنا پینا اور شہوت میری وجہ سے ترک کرتا ہے، پس وہ (روزہ) میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا عطا کرتا ہوں ۔ (سنن الدارمي ، 2/40، الرقم:1770،چشتی)
نہ صرف یہ کہ روزے کا اجرو ثواب اللہ تعالیٰ نے محدود نہ فرمایا بلکہ روزے کے مکمل آداب و تقاضوں کو ملحوظ رکھنے والا روز قیامت روزے کی شفاعت سے بھی بہرہ مند ہوگا ۔
حضرت عبد ﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. يَقُوْلُ الصِّيَامُ: اَي رَبِّ مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِيْهِ وَيَقُوْلُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيْهِ فَيُشَفَّعَانِ ۔
ترجمہ : روزہ اور قرآن قیامت کے روز بندہ مومن کےلیے شفاعت کریں گے ۔ روزہ عرض کرے گا : اے اللہ ! دن کے وقت میں نے اس کو کھانے اور شہوت سے روکے رکھا پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما اور قرآن کہے گا میں نے رات کو اسے جگائے رکھا پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما ، پس دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی ۔ (مسند احمد بن حنبل، 2/ 174، الرقم: 6626)
اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادات میں بھی بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ روزے کو تمام عبادات پر ترجیح اور فضیلت دیتے ہوئے باری تعالیٰ نے اس کا انتساب الصوم لی وانا اجزی بہ کے کلمات کے ساتھ اپنی طرف کیا ہے ۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عبادتیں تو ساری اسی کےلیے ہیں مگر جو اہمیت روزے کو دی گئی ہے وہ ہر اعتبار سے منفرد اور ممتاز ہے ۔ اس لیے بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم مسلسل اور باقاعدگی سے رمضان المبارک کے روزے رکھ کر اپنے رب کی معرفت اور قربت حاصل کریں ۔ اہلِ اسلام سے گذارش ہے کہ ادارہ پیغامُ القرآن پاکستان کے زیرِ انتظام دین کی نشر و اشاعت کرنے ، دینی تعلیم عام کرنے خصوصاً دور دراز دیہاتوں کے غریب بچوں کو مفت دینی و عصری تعلیم دینے ، ادارہ کےلیے جگہ کی خریداری و تعمیر ۔ دین کی نشر و اشاعت ، دینی کتب تفاسیر قرآن ، کتبِ احادیث عربی اردو کی شروحات ، دیگر اسلامی کتب ، کی خریداری کے سلسلہ میں تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیراً کثیرا آمین ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : بڑا بیٹے محمد جواد کا اکاؤنٹ نمبر : 02520107640866 میزان بینک چوھنگ لاہور پاکستان ، موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : ⏬
03009576666
03215555970
(دعا گو ڈاکٹر مفتی فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment