Monday, 10 February 2025

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ صدیق اکبر ہیں

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ صدیق اکبر ہیں ۔ رافضیوں اور نیم رافضیوں کے فریب کا تحقیقی جواب

محترم قارئینِ کرام : رافضی شیعہ اور تقیہ (یعنی جھوٹ) کی آڑ میں چھپے رافضی کہتے ہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے خود فرمایا کہ میں صدیق اکبر ہوں ، تو گذارش ہے کہ یہ ان کا اپنا قول ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کا فرمان نہیں ہے ۔ انہوں نے اپنے بعد کا کہا ہے ، پہلے کی بات نہیں کی ۔ انہیں بھی پتہ تھا کہ مجھ سے پہلے بھی صدیق ہے ۔ اس لیے آپ کا یہ قول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد کا تھا ، نہ کہ ان کی صدیقیت کی نفی تھی ۔ اس سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صداقت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ کیونکہ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود صدیق کا لقب عطا فرمایا ہے ۔


رافضی شیعہ اور تقیہ (یعنی جھوٹ) کی آڑ میں چھپے رافضی بھی یہ قولِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ پیش کرتے ہیں ۔ رافضی شیعہ اور تقیہ (یعنی جھوٹ) کی آڑ میں چھپے رافضی حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو صدیق اکبر قرار دیتے ہیں اور دلیل میں ایک منکر اور باطل روایت پیش کرتے ہیں روایت یہ ہے :عباد بن عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ أانَا عَبْدُ اللَّهِ و اأَخُو رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأانَا الصِّدِّيقُ الأَكْبَرُ لَا يَقُولُهَا بَعْدِي إلَّا کَذَّابٌ صَلَّيْتُ قَبْلَ النَّاسِ بِسَبْعِ سِنِينَ ۔

ترجمہ : عباد بن عبد اللہ سے روایت ہے جس نے کہا : علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں اللہ کا بندہ ہوں اور میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھائی ہوں اور میں صدیق اکبر ہوں ۔ میں نے لوگوں سے سات سال پہلے نماز پڑھی ۔ (سنن ابن ماجہ جلد 1 صفحہ 44)(البدايہ والنهايہ جلد 3 صفحہ 26)(مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 112،چشتی)(تاريخ طبری جلد 2 صفحہ 56)(کامل ابن اثير جلد 2 صفحہ 57)(فرائد السمطين حموينی جلد 1 صفحہ 248)(الخصائص نسائی صفحہ 46)(تذكرة الخواص ابن جوزی صفحہ 108)


اس روایت کے متعلق امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا یہ منکر ہے : قال عليُّ بنُ أبي طالبٍ : ( ( أنا عبدُ اللهِ وأخو رسولِه ، وأنا الصِّدِّيقُ الأكبرُ ، لا يقولُها بعدي إلَّا كاذبٌ ، صلَّيت قبل النَّاسِ سبعَ سنين ۔ الراوي : عباد بن عبدالله الأسدي | المحدث : ابن الجوزي | المصدر : موضوعات ابن الجوزي ۔ (الصفحة أو الرقم: 2/98 | خلاصة حكم المحدث : موضوع)

قال عليُّ رضي اللهُ عنه : أنا عبدُ اللهِ ، وأخو رسولِ اللهِ ، وأنا الصِّدِّيقُ الأكبرُ, لا يقولها بعدي إلا كاذبٌ ، صليتُ قبل الناسِ سبعَ سنين . وفي روايةٍ له : ولقد أسلمتُ قبل الناسِ بسبعِ سنينَ ۔ الراوي : عباد بن عبد الله الأسدي المحدث : (منهاج السنة الصفحة أو الرقم : 7/443 | خلاصة حكم المحدث : موضوع)

عن عَلِيٍّ يقولُ أنا عَبدُ اللَّهِ وأَخو رَسولِهِ وأَنا الصِّدِّيقُ الأكْبَرُ لا يقولُها بعْدِي إلا كاذِبٌ مُفتِرٍ صَلَّيتُ قبلَ النَّاسِ بسبعِ سنينَ ۔ الراوي : عباد بن عبدالله الأسدي | المحدث : ابن كثير | المصدر : البداية والنهاية الصفحة أو الرقم: 3/25 | خلاصة حكم المحدث : منكر)

أنا عبدُ اللهِ وأخو رسولِ اللهِ, أنا الصديقُ الأكبرُ, لا يقولُها بعدي إلا كاذبٌ, صليتُ قبل الناسِ بسبعِ سنين . الراوي : – | المحدث : الشوكاني | المصدر : الفوائد المجموعة الصفحة أو الرقم: 343 | خلاصة حكم المحدث : في إسناده عباد بن عبد الله الأسدي, وهو المتهم بوضعه،چشتی)

قال عَلِيٌّ أنَا عبدُ اللهِ ، وأخو رسولِ اللهِ ، وأنا الصِّدِّيقُ الأكبرُ ، لا يقولُها بعدي إلا كاذبٌ ، آمنتُ قبل الناسِ سبعَ سِنِينَ ۔ الراوي : عباد بن عبدالله الأسدي | المحدث : الألباني | المصدر : السلسلة الضعيفة الصفحة أو الرقم: 4947 | خلاصة حكم المحدث : موضوع)

عن عليٍّ قال : أنا عبدُ اللهِ وأخو رسولِه صلى اللهُ عليه وسلم ، وأنا الصديقُ الأكبرُ ، لا يقولُها بعدي إلا كذابٌ ، صليتُ قبل الناسِ بسبعِ سنين ۔ الراوي : عباد بن عبدالله الأسدي | المحدث : الألباني | المصدر : ضعيف ابن ماجه الصفحة أو الرقم: 24 | خلاصة حكم المحدث : باطل)(الدرر السنية – الموسوعة الحديثية)


رافضیوں اور اُن کے ہمنوا تفضیلی رافضیوں کا مذکورہ دعویٰ ہی کئی جہتوں سے قابل گرفت ہے لیکن ہم اس سے صرف نظر کرتے ہیں اور جس حدیث کے ذریعے یہ ثابت کیا گیا ہے اس کی استنادی حیثیت کا جائزہ لیتے ہیں ۔ چوں کہ اس بات کی ضرورت اس لیے پڑی کہ اس کے ذریعے افضلیت عمرین کو ختم کرکے مولائے کائنات کو سب سے افضل قرار دینا ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم افضلیت پر ہونے والے حملے کا دفاع کریں ۔


رافضی اور اُن کے ہمنوا تفضیلی رافضی مذکورہ بالا حدیث پیش کرتے ہیں جس کی کل چھ اسناد ذکر کرتے ہیں جو درج ذیل ہیں : ⏬


 ١۔ حضرت ابوذر غفاری ٢۔ حضرت سلمان فارسی ٣۔ابو لیلیٰ غفاری ٤۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ٥۔ مولائے کائنات حضرت علی ( ان کے الفاظ یہ ہیں : بعض سندیں خاص اہل بیت علیہم السلام کی سندیں ہیں اور وہ مولائے کائنات سے خود اس فرمان کو روایت کرتے ہیں اور مولا علی ان روایات کو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کرتے ہیں) ۔ ٦۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہم ۔


مذکورہ حدیث ان چھ راویوں سے مروی ہے، ہر ایک کی روایت پر محدثین و ائمۂ جرح و تعدیل نے کہا فرمایا ہے؛ ملاحظہ فرمائیں : ⏬


١۔ عن ابی ذر الغفاری رضی اللہ عنہ

ابن جوزی : "موضوع" ۔ ( موضوعات ابن جوزی ١٠٢/٢)

امام ذہبی : "فیہ محمد بن عبید واہ، و علی بن ھاشم شیعی و عباد رافضی" (ترتیب الموضوعات صفحہ ١٠٠)


١/٢۔ عن ابی ذر الغفاری و سلیمان الفارسی رضی اللہ عنہما

امام ابن کثیر : " منکرا جدا" ( جامع المسانید و السنن ٤٣٨٦)

امام ہیثمی : " فیہ عمرو بن سعید المصری و ھو ضعیف" (مجمع الزوائد ١٠٥/٩)

امام ابن حجر عسقلانی :" اسنادہ واھی ، و محمد متھم، و عباد من کبار الروافض، و ان کان صدوقا فی الحدیث" ( مختصر البزار ٣٠١/٣)

شوکانی : " فیہ عمر بن سعید المصری و فیہ ضعف" ( در السحابۃ ١٤٠)


یہ استنادی حیثیت تھی پہلے اور دوسرے طریق کی ۔ اب تیسرے طریق کو ملاحظہ کیجیے : ⏬


٣۔ أبو لیلیٰ الغفاری رضی اللہ عنہ

ابن عبد البر :" فیہ اسحاق بن بشر ممن لایحتج بنقلہ اذا انفرد لضعفہ و نکارۃ حدیثہ" ( الستیعاب ٣٠٧/٤)


٤۔ عن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما*

عقیلی : " فیہ داھر بن یحییٰ الرازی کان ممن یغلو فی الروافض لایتابع علیہ حدیثہ" (الضعفاء الکبیر ٢/ ٤٧)

ابن عدی : " فیہ عبد اللہ بن یحییٰ بن داھر عامۃ ما یرویہ فی فضائل علی و ھو متھم" ( ٥/ ٣٧٩)

ابن جوزی : " موضوع" (موضوعات ابن جوزی ٢/ ١٠٣)

امام ذہبی : " فیہ عبد اللہ بن داھر من غلاۃ القوم و ضعفائھم "( ترتیب الموضوعات ١٠٠)

ایضا قال : قد اغنی اللہ علیاََ أن تقرر مناقبہ بالأکاذیب و الاباطیل" (میزان الإعتدال ٢/ ٤١٦)

" باطل" ۔ (میزان الإعتدال ٢/ ٣)


٥ ۔ عن علی کرم اللہ وجہہ الکریم

الجورقانی :" حبۃ لایساوی حبۃ کان غالباََ فی التشیع واھیا فی الحدیث" (الأباطیل و المناکیر ١/٢٩٤)

قال ایضاََ : " باطل " (الأباطیل و المناکیر ٢٩٣)

ابن عساکر :" لا یتابع علیہ و لا یعرف سماع سلیمان بن معاذۃ" (تاریخ دمشق ٤٢/ ٣٣)

ابن جوزی : " لا یصح" (العلل المتناھیۃ ٢/٩٤٤)

قال ایضاََ :" موضوع " ( موضوعات ابن جوزی ٩٩/٢)

ابن تیمیۃ :" موضوع" ( منہاج السنۃ ٣٦٨/٢)

امام ذہبی : " کذب علیٰ علیٍ" ( میزان الإعتدال ٢/ ٣٦٨)


عباد بن عبداللہ اسدی والی روایت بھی ضعیف جداً ہے ۔ یہ عباد کی وجہ سے باطل ہے امام ابن الجوزی اس کو موضوعات میں ل کر آئے ہیں اور امام ذھبی کہتے ہیں یہ مستدرک کے مطبوعہ میں نہیں ہے اس لیے میں نے اسے اسی نسخہ سے ثابت کیا ۔

آگے امام بخاری فرماتے ہیں اس میں نظر ہے امام مدینی فرماتے ہیں یہ ضعیف ہے امام ازدی فرماتے ہیں اس نے ایسی احادیث بیان کی ہیں جس پر یہ عمل نہیں کرتا ۔

حافظ عقیلی اس کو لکھنے کے بعد کہتے ہیں یہ روایت میں لعین ہے حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں یہ روایت منکر ہے ۔

تلخیص مستدرک للحاکم میں امام ذھبی پوری بحث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں یہ روایت ضعیف جداً ہے ۔

ابن کثیر کا متن کو منکر کہنا اس پر بھی پوری بحث ہے وہیں پر ۔


8 عن ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ

مذکورہ حدیث آپ سے مروی تلاش بسیار کے بعد بھی نہ ملی  یعنی منقطع ۔


اس پوری تفصیل کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ مذکورہ حدیث اس قابل نہیں کہ اس کو بیان کیا جائے اور یہی وجہ بنی کہ علمائے اہل سنت نے اس کو اپنی کتابوں میں جگہ نہیں دی بلکہ مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی شان میں وارد صحیح اور قابل بیان احادیث خوب نقل کیں جن کو پڑھ کر مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی فضیلت و عظمت اور رفعت شان کا اعتراف ہر صاحب فہم کرے گا ۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے ایسے دلائل موجود ہیں جس سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صدیقیت ثابت ہوتی ہے اور ان کے مرتبے کو کوئی نہیں پہنچ سکتا ان شاءاللہ احادیث سے بھی ثابت کریں گے کہ آپ ہی صدیق اکبر ہیں رضی اللہ عنہ اس سے ہرگز مولا علی رضی اللہ عنہ کی توہین غرض نہیں ان کے بے شمار فضائل ہیں جس میں ان کو شیر خدا و حیدر کرار جیسے الفاظ سے جانا جاتا ہے ۔ مگر ان کے خصائص کو کبھی بھی کسی اور کےلیے استعمال نہیں کیا گیا ۔


حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اور مفسرین کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ سچ لے کر تشریف لانے والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور اس کی تصدیق کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ سچ لے کر تشریف لانے والے سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور تصدیق کرنے والے سے تمام مومنین مراد ہیں ۔ سچ لے کر تشریف لانے والے اور تصدیق کرنے والے سے ایک پوری جماعت مراد ہے ، تشریف لانے والے انبیاءِ کرام علیہم السلام ہیں اور تصدیق کرنے والے سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی ۔ (تفسیر خازن سورہ زمر آیت نمبر ۳۳، ۴/۵۵-۵۶،چشتی)(تفسیر کبیر الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۳، ۹/۴۵۲)(تفسیر مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۳، صفحہ ۱۰۳۸)


امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : أن المراد شخص واحد فالذی جاء بالصدق محمد ، والذی صدق بہ ہو أبو بکر ، وہذا القول مروی عن علی بن أبی طالب علیہ السلام وجماعۃ من المفسرین رضی اللہ عنہم ۔

ترجمہ : اس سے مراد ایک ہی ہستی ہیں ، تو جو سچی بات لے کر آئے وہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور جس نے آپ کی تصدیق کی وہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔ اور یہ روایت حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ اور مفسرین کرام رحمہم اللہ کی ایک بڑی جماعت سے منقول ہے ۔ (التفسیر الکبیر،)(الدر المنثور، روح البیان، سورۃالزمر۔ 33)


حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہاں ابو بکر رضی اللہ عنہ صدیق ہیں : ⏬


عن عروة بن عبد الله قال سألت أبا جعفر محمد بن علي عليهما السلام عن حلية السيوف فقال لا بأس به قد حلى أبو بكر الصديق رضي الله عنه سيفه، قلت فتقول الصديق؟ قال: فوثب وثبة واستقبل القبلة وقال : نعم الصديق نعم الصديق نعم الصديق، فمن لم يقل له الصديق فلا صدق الله له قولا في الدنيا ولا في الآخرة ۔

ترجمہ : عروه بن عبدالله سے روایت ہے حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا گیا کہ تلواروں کو زیور لگانا جائز ہے یا نہیں ؟ آپ نے جواب دیا : اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار کو زیور لگایا ہوا تھا ۔ عرض کیا : کیا آپ بھی ان کو صدیق کہتے ہیں۔ اس پر حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اچھل پڑے اور قبلہ رخ ہو کر فرمایا : ہاں وہ صدیق ہیں ، ہاں وہ صدیق ہیں ، ہاں وہ صدیق ہیں ۔ جو ان کو صدیق نہیں کہتا اللہ اس کے کسی قول کو نہ دنیا میں سچا کرے نہ آخرت میں ۔ (كشف الغمة ابن أبي الفتح الإربلی جلد ۳ صفحہ ۳۶۰)


آپ کے القاب مبارکہ میں صدیق بہت مشہور ہے ، کیونکہ یہ مبارک لقب آپ کو کسی مخلوق نے نہیں دیا ، بلکہ خالق کائنات نے عطا فرمایا ، جیسا کہ سنن دیلمی میں حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یَا أَبَابَکْرٍ اِنَّ اللّٰہَ سَمَّاکَ الصَّدِّیقَ ۔

ترجمہ : اے ابوبکر ! اللہ تعالیٰ نے تمہارا نام صدیق رکھا ہے ۔ (کنز العمال حرف الفاء فضل ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ حدیث نمبر 32615)


یہ لقب خاص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کےلیے ہے ان کے خصائص و فضائل میں سینکڑوں بار وارد ہوا ہے اگر مولا علی رضی اللہ عنہ کےلیے یہ کہیں وارد ہوا ہوتا ۔ تو اہلبیت رضی اللہ عنہم کے کسی امام نے آپ کو اس لقب سے ضرور یاد کیا ہوتا ۔ بلکہ اوپر خود مولا علی رضی اللہ عنہ کا اپنا فرمان پیش کر دیا جس میں صدیق سے مراد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں ۔ اور میں صدیق اکبر ہوں مولا علی کا فرمان یہ جھوٹی و منگھڑت روایت ہے عباد بن عبداللہ کذاب راوی کی ۔ اور کئی علما نے لکھا کہ اس حدیث کا ایک راوی غالی رافضی ہے اور یہ بات بھی علما نے لکھی ہے کہ رافضیوں نے مولائے کائنات اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کی شان میں تین لاکھ حدیثیں گڑھی ہیں ( معاذ اللہ) ۔ کیا بعید کہ ان تین لاکھ میں سے یہ بھی ایک ہو ۔ اور اس کو ایسے ہی لوگ بیان کرتے ہیں جن کی نگاہ میں سیدنا صدیق اکبر اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہما کی افضلیت کھٹکتی ہے ۔ اور اس کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں کہ جیسے ہمارے علماء اہلسنت نے مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی شان بیان کرنے میں کوتاہی کی ہے ۔


مذکورہ بالا تحقیق سے ثابت ہوا کہ : ⏬


(1) یہ باطل قول ہے اس میں عباد بن عبد اللہ کذاب راوی ہے ۔


(2) یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے حدیث رسول نہیں ہے اور ان کا اپنا قول بھ باطل اور منکر ہے ۔


افسوس کہ رافضی شیعہ اور تقیہ (یعنی جھوٹ) کی آڑ میں چھپے رافضیوں نے حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کو صدیق اکبر ثابت کرنے کی کوشش ہے لیکن وہ بھی ان کے ایک باطل اور منکر غیر ثابت قول کے ساتھ ۔ اندازہ لگایا آپ نے کہ کس طرح غلط کو صحیح کہ رہے ہیں یہ رافضی شیعہ اور تقیہ (یعنی جھوٹ) کی آڑ میں چھپے رافضی حضرات ۔

صدیق کسے کہتے ہیں ؟


(1) صدیق اسے کہتے ہیں جوزبان سے کہی ہوئی بات کو دل اور اپنے عمل سے مؤکد کر دے ۔ (التعریفات صفحہ ۹۵)


حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو صدیق اسی لیے کہتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ فقط زبان کے نہیں بلکہ قلب وعمل کے بھی صدیق تھے ۔


(2) صدیق اسے بھی کہتے ہیں جوتصدیق کرنے میں مبالغہ کرے،جب اس کے سامنے کوئی چیز بیان کی جائے تواوّلا ہی اس کی تصدیق کر دے ، حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی ایسے ہی تھے کہ اوّلاً ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہربات کی تصدیق کر دیا کرتے تھے ۔


(3) حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : صدیق وہ کہ جیسا وہ کہہ دے بات ویسی ہی ہو جائے ۔ اسی لیے تو حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام کے ساتھ جودوقیدی تھے ان میں سے شاہی ساقی یعنی بادشاہ کو شراب پلانے والے نے آپ علیہ السلام کو صدیق کہا کیونکہ اس نے دیکھا کہ جو آپ نے کہا تھا وہ ہی ہوا ، عرض کیا : یُوْسُفُ اَیُّھَا الصِّدِّیْقُ ۔ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سیدنا مالک بن سنان رضی اللہ عنہ کے متعلق جو کہا تھا وہ ہی ہوا کہ وہ شہید ہونے کے بعد زندہ ہو کر آئے ۔ (مرآۃ المناجیح جلد ۸ صفحہ ۱۶۲)

صدیقیت کسے کہتے ہیں ؟


اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : صدیقیت ایک مرتبہ تلو نبوت ہے کہ اس کے اور نبوت کے بیچ میں کوئی مرتبہ نہیں مگر ایک مقام ادق واخفی کہ نصیبہ حضرت صدیق اکبر اکرم واتقی رضی اللہ عنہ ہے تو اجناس وانواع واصناف فضائل وکمالات وبلندی درجات میں خصائص و ملزومات نبوت کے سوا صدیقین ہر عطیہ بہیہ کے لائق واہل ہیں اگرچہ باہم ان میں تفاوت و تفاضل کثیرو وافر ہو ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۱۵ صفحہ ۶۷۸،چشتی)


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہر معاملے میں صداقت کا عملی مظاہرہ فرمایا حتی کہ واقعہ معراج اور آسمانی خبروں وغیرہ جیسے معاملات کہ جن کو اس وقت کسی کی عقل نے تسلیم نہیں کیا ان میں بھی آپ رضی اللہ عنہ نے فوراً تصدیق فرمائی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام معاملات میں جیسی تصدیق آپ رضی اللہ عنہ نے کی ویسی کسی نے نہ کی اس لیے آپ رضی اللہ عنہ کو ’’صدیق اکبر‘‘ کہا جاتا ہے ۔


حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ صدیق اکبر ہیں اور سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ صدیق اصغر ، صدیق اکبر کا مقام اعلی صدیقیت سے بلند و بالا ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۱۵ صفحہ ۶۸۰)


نسیم الریاض شرح شفاء میں ہے : سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تخصیص اس لیے کہ وہ صدیق اکبر ہیں جو تمام لوگوں میں آگے ہیں کیونکہ انہوں نے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کی وہ کسی کو حاصل نہیں اور یونہی سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کا نام صدیق اصغر ہے جو ہرگز کفر سے ملتبس نہ ہوئے اور نہ ہی انہوں نے غیر اللہ کو سجدہ کیا باوجود یکہ وہ نابالغ تھے ۔ (نسیم الریاض فی شرح الشفا القسم الاول فی ثناء اللہ ۔ الخ الفصل الاول جلد ۱ صفحہ ۲۳۴،چشتی)


سبھی علمائے اُمّت کے ، امام و پیشوا ہیں آپ

بِلا شک پیشوائے اَصفیا صدّیق اکبر ہیں


خدا ئے پاک کی رحمت سے انسانوں میں ہر اک سے

فُزوں تر بعد از کُل انبیا صدّیقِ اکبر ہیں


حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں ابو بکر رضی اللہ عنہ صدیق ہیں : ⏬


عن عروة بن عبد الله قال سألت أبا جعفر محمد بن علي عليهما السلام عن حلية السيوف فقال لا بأس به قد حلى أبو بكر الصديق رضي الله عنه سيفه، قلت فتقول الصديق؟ قال: فوثب وثبة واستقبل القبلة وقال : نعم الصديق نعم الصديق نعم الصديق، فمن لم يقل له الصديق فلا صدق الله له قولا في الدنيا ولا في الآخرة​ ۔

ترجمہ : عروه بن عبدالله سے روایت ہے حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا گیا کہ تلواروں کو زیور لگانا جائز ہے یا نہیں ؟ آپ نے جواب دیا : اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار کو زیور لگایا ہوا تھا۔ عرض کیا : کیا آپ بھی ان کو صدیق کہتے ہیں۔ اس پر حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اچھل پڑے اور قبلہ رخ ہو کر فرمایا : ہاں وہ صدیق ہیں ، ہاں وہ صدیق ہیں ، ہاں وہ صدیق ہیں ۔ جو ان کو صدیق نہیں کہتا اللہ اس کے کسی قول کو نہ دنیا میں سچا کرے نہ آخرت میں ۔​ (كشف الغمة – ابن أبي الفتح الإربلي – ج ۳ – ص ۳۶۰)


آپ کے القاب مبارکہ میں صدیق بہت مشہور ہے ، کیونکہ یہ مبارک لقب آپ کو کسی مخلوق نے نہیں دیا ، بلکہ خالق کائنات نے عطا فرمایا ، جیسا کہ سنن دیلمی میں حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یَا أَبَابَکْرٍ اِنَّ اللّٰہَ سَمَّاکَ الصَّدِّیقَ ۔

ترجمہ : اے ابوبکر! اللہ تعالیٰ نے تمہارا نام صدیق رکھا ہے ۔ (کنز العمال حرف الفاء فضل ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ حدیث نمبر 32615)


ابھی آپ نے امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان حق ترجمان سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صداقت کا تذکرہ سنا ، اب آئیے امام الاولیاء کی زبان فیض ترجمان سے سماعت فرمائیے ! حضرت مولائے کائنات سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے ارشاد فرمایا : لَاَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اسْمَ اَبِی بَکْرٍ مِنَ السَّمَاءِ ’’ الصِّدِّیقَ‘‘۔

ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام ’’ صدیق‘‘ آسمان سے نازل فرمایا ہے ۔ (مختصر تاریخ دمشق جلد 13 صفحہ 52،چشتی)


آپ کو صدیق کے مبارک لقب سے اس لئے بھی یاد کیا جاتا ہے کیونکہ آپ نے بلا کسی تامل سب سے پہلے معجزۂ معراج کی برملا تصدیق کی ، جیسا کہ مستدرک علی الصحیحین اور تاریخ الخلفاء میں روایت ہے : عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت جاء المشرکون إلی أبی بکر فقالوا ہل لک إلی صاحبک یزعم أنہ أسری بہ اللیلۃ إلی بیت المقدس قال أو قال ذلک؟ قالوا نعم فقال لقد صدق إنی لأصدقہ بأبعد من ذلک بخبر السماء غدوۃ وروحۃ فلذلک سمی الصدیق ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ شب معراج کے اگلے دن مشرکین مکہ حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور کہا ، اپنے صاحب کی اب بھی تصدیق کروگے ؟ ، انہوں نے دعوٰی کیا ہے “راتوں رات بیت المقدس کی سیر کرآئے ہیں “ابوبکر صدیق نے کہا : “بیشک آپ نے سچ فرمایا ہے ، میں تو صبح وشام اس سے بھی اہم امور کی تصدیق کرتا ہوں “۔ اس واقعہ سے آپ کا لقب صدیق مشہور ہوگیا ۔ (تاریخ الخلفاء صفح 11)


اسی طرح مختلف مواقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی فضیلت کا اظہار فرمایا ، اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اتھاہ وارفتگی اور اٹوٹ وابستگی کی بنیاد پر حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اپنے درمیان حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہر اعتبار سے افضل و مقدم اور اولی و بہتر جانتے اور مانتے تھے ۔


حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ صادق و حکیم ہیں ۔ شیخ اکبرحضرت سیدنا محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس موطن میں تشریف نہ رکھتے ہوں اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حاضر ہوں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام پر صدیق قیام کریں گے کہ وہاں صدیق سے اعلی کوئی نہیں جو انہیں اس سے روکے ۔ وہ اس وقت کے صادق و حکیم ہیں ، اور جو ان کے سوا ہیں سب ان کے زیر حکم ۔ (الفتوحات المکیۃ الباب الثالث والسبعون جلد ۳ صفحہ ۴۴،چشتی)(فتاوی رضویہ جلد ۱۵ صفحہ ۶۸۰)


قرآن مجید میں بھی صدیق کا لفظ ، انبیاء علیہم السّلام ، اولیاء اور صالحین کے لیے استعمال ہوا ہے : يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ أَفْتِنَا فِي سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنْبُلاَتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ لَّعَلِّي أَرْجِعُ إِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُونَ ۔ (سورہ يُوْسُف 12 : 46)

ترجمہ : (وہ قید خانہ میں پہنچ کر کہنے لگا) اے یوسف ، اے صدقِ مجسّم ! آپ ہمیں (اس خواب کی) تعبیر بتا دیں کہ سات فربہ گائیں ہیں جنہیں سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات سبز خوشے ہیں اور دوسرے سات خشک ؛ تاکہ میں (یہ تعبیر لے کر) واپس لوگوں کے پاس جاؤں شاید انہیں (آپ کی قدر و منزلت) معلوم ہو جائے ۔


وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ۔ (سورہ مَرْيَم ، 19 : 41)

ترجمہ : اور آپ کتاب (قرآن مجید) میں ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کیجیے ، بیشک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے ۔


وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ۔ (سورہ مَرْيَم ، 19 : 56)

ترجمہ : اور (اس) کتاب میں ادریس (علیہ السلام) کا ذکر کیجیے ، بیشک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے ۔


مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ كَانَا يَأْكُلاَنِ الطَّعَامَ انظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ ثُمَّ انظُرْ أَنَّى يُؤْفَكُونَ ۔ (سورہ الْمَآئِدَة ، 5 : 75)

ترجمہ : مسیح ابنِ مریم (علیہما السلام) رسول کے سوا (کچھ) نہیں ہیں (یعنی خدا یا خدا کا بیٹا اور شریک نہیں ہیں)، یقیناً ان سے پہلے (بھی) بہت سے رسول گزر چکے ہیں ، اور ان کی والدہ بڑی صاحبِ صدق (ولیّہ) تھیں، وہ دونوں (مخلوق تھے کیونکہ) کھانا بھی کھایا کرتے تھے۔ (اے حبیب!) دیکھئے ہم ان (کی رہنمائی) کے لئے کس طرح آیتوں کو وضاحت سے بیان کرتے ہیں پھر ملاحظہ فرمائیے کہ (اس کے باوجود) وہ کس طرح (حق سے) پھرے جارہے ہیں ۔


وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَ رُسُلِهِ أُوْلَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُوْلَئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ ۔ (سورہ الْحَدِيْد ، 57 : 19)

ترجمہ : اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں ، اُن کےلیے اُن کا اجر (بھی) ہے اور ان کا نور (بھی) ہے، اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی لوگ دوزخی ہیں ۔


اس کے علاوہ بھی متعدد مقامات پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت یوسف علیہ السلام اور دیگر بھی کئی صدیق ہیں ، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑے صدیق ہیں ۔ الصدیقون جمع کا صیغہ ہمیں بتا رہا ہے کہ بہت سارے صدیق ہیں تو پتہ چلا کہ صدیقین کی تعداد ایک دو نہیں بلکہ بہت زیادہ ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود فرمایا کہ میں صدیق اکبر ہوں اور اگر میرے بعد کسی نے اس کا دعویٰ کیا تو وہ کذاب ہے ۔ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے ۔ اس میں لڑائی جھگڑا والی بات بھی نہیں ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اِفطار کی دعا کب پڑھنی چاہیے اور رمضان المبارک کے اہم تاریخی واقعات

اِفطار کی دعا کب پڑھنی چاہیے اور رمضان المبارک کے اہم تاریخی واقعات محترم قارئینِ کرام : بہتر یہی ہے کہ افطار کرنے سے پہلے دعا پڑھی جائے ، ک...