Sunday, 16 February 2025

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور تراویح کا ثبوت کتب شیعہ و اہلسنت سے

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور تراویح کا ثبوت کتب شیعہ و اہلسنت سے

محترم قارئینِ کرام : حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں تراویح بیس رکعت ہی پڑھی جاتی تھی ۔ حضرت سیدنا مولا علی المرتضى ، حضرت سیدنا عثمان غنی ذو النورین رضی اللہ عنہما کے دور خلافت میں گھر سے نکلے مسجد میں لوگوں کو جمع ہوکر نماز تراویح پڑھتے ہوۓ دیکھ کر ارشاد فرمایا : اے اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قبر انور کو منور فرما جس نے ہماری مسجدوں کو منور کردیا ۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی حدید جلد ٣ صفحہ ٩٨)


حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم رمضان مبارک کے مہینہ میں اپنی نماز کو بڑھا دیتے تھے ۔ عشاء کی (فرض) نماز کے بعد نماز کےلیے کھڑے ہوتے ، لوگ پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھتے ، اس طرح کے کچھ وقفہ کیا جاتا ۔ پھر اس طرح حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھاتے ۔ فروع کافی جلد ١ صفحہ ٣٩٤ طبع نولکشور ، جلد ٤ صفحہ ١٥٤ طبع ایران)


شیعہ کی کتاب من لایحضر الفقیہ میں بھی بیس (٢٠) رکعت تراویح کا ذکر ہے ۔ (من لایحضر الفقیہ جلد ٢ صفحہ ٨٨)


حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ بھی رمضان المبارک کے مہینہ میں اپنی نماز میں اضافہ کر دیتے تھے ، اور روزانہ معمول کے علاوہ بیس رکعت نماز نوافل (مزید) ادا فرماتے تھے ۔ (الاستبصار جلد ١ صفحہ ٢٣١ طبع نولکشور ، جلد ١ صفحہ ٤٦٢ طبع ایران،چشتی)


عَنِ ابْنِ أَبِي الْحَسْنَاءِ أَنَّ عَلِیًّا رضی اللہ عنہ أَمَرَ رَجُلًا یُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ عِشْرِیْنَ رَکْعَةً ۔ رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ وَالْبَیْهَقِيُّ ۔

ترجمہ : ابنِ ابو الحسناء بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو رمضان المبارک میں لوگوں کو بیس 20 رکعت نمازِ (تراویح) پڑھانے کا حکم دیا ۔ اسے امام ابن ابی شیبہ اور اور بیہقی نے روایت کیا ہے ۔ (ابن أبي شیبۃ في المصنف، 2/163، الرقم/7681، والبیہقي في السنن الکبری، 2/497، الرقم/4397،چشتی،وذکرہ ابن عبد البر في التمہید، 8/115، والمبارکفوري في تحفۃ الأحوذي، 3/444، وابن قدامۃ في المغني، 1/456)


عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمٰنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ: دَعَا الْقُرَّاءَ فِي رَمَضَانَ فَأَمَرَ مِنْھُمْ رَجُلًا یُصَلِّي بِالنَّاسِ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً. قَالَ: وَکَانَ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ یُوْتِرُ بِھِمْ. وَرُوِيَ ذٰلِکَ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ عَلِيٍّ ۔

ترجمہ : ابو عبد الرحمن سلمی سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رمضان المبارک میں قراء حضرات کو بلایا اور ان میں سے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات نمازِ (تراویح) پڑھائے اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ انہیں وتر (کی نماز) پڑھاتے تھے۔ یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک اور سند کے ساتھ بھی مروی ہے ۔ (بیہقي في السنن الکبری، 2/496، الرقم/4396، وذکرہ المبارکفوري في تحفۃ الأحوذي، 3/444)


وَفِي رِوَایَۃٍ أَنَّ عَلِیًّا رضی اللہ عنہ کَانَ یَؤُمُّھُمْ بِعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَیُوْتِرُ بِثَـلَاثٍ ۔ رَوَاهُ ابْنُ الإِسْمَاعِیْلِ الصَّنْعَانِيُّ وَقَالَ: فِیْهِ قُوَّۃٌ ۔

ترجمہ : ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ انہیں بیس رکعات (تراویح) اور تین وتر پڑھایا کرتے تھے ۔ اسے امام اسماعیل صنعانی نے روایت کیا اور قوی قرار دیا ہے ۔ (ذکرہ الصنعاني في سبل السلام، 2/10)


رَوَی الْاِمَامُ الْحَافِظُ زَیْدُ بْنُ عَلِیِّ الْہَاشْمِیُّ فِیْ مُسْنَدِہٖ کَمَا حَدَّثَنِیْ زَیْدُ بْنُ عَلِیٍّ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ عَنْ عَلِیٍّ اَنَّہٗ اَمَرَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ بِالنَّاسِ صَلَاۃَ الْقِیَامِ فِیْ شَہْرِ رَمْضَانَ اَنْ یُّصَلِیَّ بِھِمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً یُّسَلِّمُ فِیْ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ وَیُرَاوِحَ مَابَیْنَ کُلِّ اَرْبَعِ رَکْعَاتٍ ۔ (مسند الامام زیدص158،159،چشتی)

ترجمہ : امام زید اپنے والد امام زین العابدین رضی اللہ عنہما سے وہ اپنے والد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جس امام کو رمضان میں تراویح پڑھانے کا حکم دیا اسے فرمایاکہ وہ لوگوں کوبیس رکعات پڑھائے ، ہر دورکعت پر سلام پھیرے ، ہر چار رکعت کے بعد آرام کا اتنا وقفہ دے کہ حاجت والافارغ ہوکر وضو کر لے اور (یہ بھی حکم دیا کہ قاری)  آخر میں وتر پڑھائے ۔

اس روایت کی سارے راوی اہل بیت رضی اللہ عنہم کے ہیں اورثقہ ہیں ۔


عَنْ أَبِى عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِىِّ عَنْ عَلِىٍّ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : دَعَا الْقُرَّاءَ فِى رَمَضَانَ ، فَأَمَرَ مِنْهُمْ رَجُلاً يُصَلِّى بِالنَّاسِ عِشْرِينَ رَكْعَةً. قَالَ : وَكَانَ عَلِىٌّ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ يُوتِرُ بِهِمْ. ۔ (السنن الکبری للبیھقی ج2ص496)

ترجمہ : ابوعبدالرحمن سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رمضان میں قاریوں کوبلایا پھر ایک شخص کوحکم دیا کہ وہ لوگوں کوبیس رکعت پڑھایاکرے اورحضرت علی خود انہیں وتر پڑھاتے تھے ۔


 غیر مقلدین کہتے ہیں کہ اس میں ایک راوی حماد بن شعیب ضعیف ہے ۔

جواب : اولاً : اگرچہ حماد بن شعیب کی بعض ائمہ نے تضعیف کی ہے لیکن دیگر ائمہ نے اس کی تو ثیق بھی کی ہے  مثلاً : ⏬

1 :  امام ابن عدی فر ما تے ہیں : یکتب حدیثہ مع ضعفہ ۔ (لسا ن المیزان: ج2 ص348)

یعنی اس کی  حدیث اس کے ضعف کے باوجود لکھی جا سکتی ہے ۔

اور ارشاد الحق اثری غیر مقلد کے نزدیک ’’یکتب حدیث‘‘کا جملہ الفا ظ تعدیل میں شما ر ہو تا ہے۔ (تو ضیح الکلام ج1ص547)

2: امام ابن حبا ن نے انہیں ثقات میں شما ر کیا ہے (تہذیب الکمال: ج8 ص378)

3: علامہ ابن تیمیہ نے اسی حماد بن شعیب والی روایت سے استدلال کیا ہے۔ (منہا ج السنہ ج2ص224)

4: امام بیہقی نے اس اثر علی کو اثر شتیر بن شکل کی قوت کے لیے روایت کیا ہے  جو دلیل ہے کہ یہ  امام بیہقی کے نزدیک قوی ہے ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی: ج2ص996)

5: علامہ ذہبی جیسے نا قد فن نے اس پر المنتقیٰ ص542پر سکوت فر مایا ہے ۔

6: امام تر مذی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی اس بیس رکعت والی روایت کو صحیح ما نتے ہیں جب ہی تو استدلال کرتے ہیں، چنانچہ فر ما تے ہیں : واکثر اہل العلم علی ما روی عن علی وعمر وغیرہما من اصحاب النبی  صلی اللہ علیہ وسلم عشرین  رکعۃ ۔ (سنن الترمذی ج1ص166)

ترجمہ : اکثر اہل علم کاموقف بیس رکعت ہی ہے جیساکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اورحضرت عمررضی اللہ عنہ اوردیگر بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔

اصولی طور پر حماد بن شعیب حسن الحدیث درجہ کا راوی ہے اور حدیث مقبول ہے ۔


ثانیاً : حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور کی تراویح کے راوی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ابو الحسناء بھی ہیں ۔ لہذا اس سند میں اگر ضعف ہو ( جبکہ یہ حسن درجہ کی روایت ہے) تو  ان مویدات کی وجہ سے ختم ہو جا ئے گا ۔


ایک غیر مقلد وہابی نے لکھا : عطا ء بن السائب“مختلط  راوی  ہے ، حماد بن شعیب ان  لوگو ں میں سے نہیں  جنہوں نے اس سے قبل الاختلاط سنا ہے ۔ (آٹھ رکعت نماز ترا ویح ص13)

جواب : اولاً : عطا ء بن السائب اگر آخر عمر میں مختلط ہو گئے  تھے لیکن اتنے بھی نہیں کہ ان کی احا دیث ضعیف قرار دی جا ئیں بلکہ باجو د اختلاط کے محدثین کے ہا ں ان کی احادیث  کم ازکم ”حسن “ درجہ کی ضرور ہیں ۔ مثلاً : ⏬

1: امام ہیثمی ایک روا یت کے تحت لکھتے ہیں:”وفیہ عطا ء بن السائب وفیہ کلام  وھو حسن الحدیث“ (مجمع الزوائد ج3 ص142 ، باب التکبیر علی الجنازۃ)

ترجمہ : اس روایت میں عطا ء بن السائب ہے، اس میں کلام ہے لیکن ان کی حد یث حسن درجہ  کی ہے ۔

2: علامہ ذہبی فرماتے ہیں: تابعی مشہور حسن الحدیث۔ (المغنی فی الضعفا ء:  ج2 ص59، رقم الترجمۃ 4121،چشتی)

ترجمہ: یہ مشہور تابعی ہیں اور ان کی حدیث حسن درجہ کی ہوتی ہے۔

3: امام حاکم عطا ء بن السائب کی ایک روایت جسے جریر بن عبد الحمید نے روایت کیا ہے ، کو نقل کر نے کے بعد فر ما تے ہیں: صحیح الاسنا د ۔ (المستدرک للحاکم:  ج5 ص350،  كتاب التوبة و الإنابة)

حالانکہ جریرکا سما ع بعد الاختلاط کا ہے ۔ (الشذا الفياح من علوم ابن الصلاح: ج2 ص750)

معلوم ہو ا آپ اختلاط  کے با وجود ’’حسن الحدیث‘‘ ہیں ۔

4: حا فظ ابن حجرلکھتے ہیں: وکان اختلط بآخرہ ولم یفحش حتی یستحق ان یعتدل بہ عن مسلک العدول ۔ (تہذیب التہذیب ج4 ص493)

تر جمہ : عطا ء بن السائب آخر ی عمر میں اختلاط کا شکا ر ہو گئے تھے لیکن اتنے فاحش اور زیادہ مختلط بھی نہیں ہو ئے  کہ وہ اختلاط کی وجہ سے عادل  (وثقہ ) ہیں راویوں کی راہ سے تجاوز  کر جا ئیں۔

5: امام مسلم:  انہوں نے عطا ء بن السائب  کو مقدمہ مسلم میں قابل اعتماد اور طبقہ ثا نیہ کا راوی شما ر کیا ہے  جن سے صحیح مسلم میں روایت لی ہے ۔ ( مقدمہ مسلم ص:3)

لہذا یہ حسن الحدیث راوی ہےاور روایت حسن  درجہ کی ہے ۔

ثا نیاً :۔۔۔اس روا یت کی مؤید دیگر روایات بھی ہیں جن میں حضرت حسین اور حضرت ابو الحسنا ء کے طریق ہیں ۔ پس یہ روایت مؤیدات کی وجہ سے حجت وقابل اعتماد ہے ۔


3:حضرت ابو الحسناء : ⏬


عَنِ أَبِي الْحَسْنَاءِ : أَنَّ عَلِيًّا أَمَرَ رَجُلاً يُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً. (مصنف ابن ابی شیبۃ ج2ص285، السنن الکبری ج2ص497)

ترجمہ: ابوالحسناء سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کوحکم دیا کہ وہ لوگوں کورمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھائے۔

فائدہ: اس روایت کی سند حسن درجہ کی ہے۔ اس روایت میں  حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ’’حکم‘‘ دینے کا ذکر ہے ۔


غیر مقلدین کہتے ہیں : ابو الحسنا ء مجہو ل العین ہے ، لہٰذا روا یت ضعیف ہے ۔

جواب : اولاً : عند الاحناف خیر القرو ن کی جہا لت ، تدلیس اور ارسال جرح ہی نہیں اور شوافع کے ہا ں متا بعت سے یہ جرح ختم ہو گئی کیو نکہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ سے بیس رکعت ترا ویح روا یت کر نے میں ابو الحسنا ء اکیلے نہیں  بلکہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اور امام ابو عبد الرحمن سلمی بھی یہی روایت کرتے  ہیں۔ (تجلیا ت صفدر ج3ص328)

ثانیاً:۔۔۔۔ ابو الحسنا ء سے دوراوی یہ روایت نقل کر رہے ہیں : ⏬

1: عمرو بن قیس ۔ (مصنف ابن  ابی شیبہ ج2ص285)

2: ابو سعید البقال ۔ (السنن الکبر یٰ للبیہقی  ج2ص497)

اور یہ دونوں با لترتیب ثقہ اور صدوق ہیں۔ (تقریب التہذیب ص456،ص299)

حافظ ابن حجر لکھتے ہیں ؛ من روی عنہ اکثر من واحد ولم یوثق الیہ الاشارۃ بلفظ  مستو ر او مجہول الحال ۔ (تقریب التہذیب: ص111)

ترجمہ : جس راوی سے ایک سے زائد راوی روا یت کریں اور اس کی تو ثیق  کی گئی ہو  تو اس کی طرف لفظ مستو ریا مجہول الحال سے اشار ہ کیا جا تا ہے ۔

یہاں ابو الحسناء سے بھی دو راوی یہ روایت کر رہے ہیں۔ لہذا اصولی طور پر یہ مجہو ل نہیں بلکہ مستور راوی بنتا ہے ۔غیر مقلدین کا اسے مجہول العین کہہ کر روایت رد کرنا شرمناک ہے ۔

الحاصل ابو الحسنا ء مستور راوی ٹھہرتا ہے اور محدثین کے ہاں  قاعدہ ہے کہ مستور کی متا بعت کوئی دوسرا راوی کرے جو مرتبہ میں اس سے بہتر یا برابر ہو تو اس کی روایت حسن ہو جا تی ہے ۔ چنانچہ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : ومتى تُوبعَ السيءُ الحفظ بمُعْتَبَرٍ: كأَنْ يكونَ فَوْقَهُ، أو مِثلَهُ، لا دونه، وكذا المختلِط الذي لم يتميز، والمستور، والإسناد المرسل، وكذا المدلَّس إذا لم يُعْرف المحذوف منه صار حديثُهم حسناً، لا لذاته، بل وصْفُهُ بذلك باعتبارِ المجموع ۔ ( نزہۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر:ص234)

ترجمہ : جب سئی الحفظ راوی کی متا بعت کسی معتبر راوی سے ہو جا ئے جو مرتبہ میں اس سے بہتر یا برابر ہو کم نہ ہو، اسی طرح مختلط  راوی جس کی روا یت میں تمییز نہ ہو  سکے اور اسی طرح مستور ،مرسل اور مدلس  کوئی تا ئید کر دے تو ان سب کی روا یات  حسن ہو جائیں گی  اپنی ذا ت کی وجہ سے نہیں بلکہ مجمو عی حیثیت کے اعتبا ر سے ۔

ابو الحسنا ء کی متا بعت  ابو عبد الرحمن نے  کی ہے ۔ (السنن الکبری للبیھقی ج2ص496)

اور یہ ابو الحسنا ء سے بڑھ کر ثقہ راوی ہے۔ اس لئے ابو الحسناء کی یہ روایت  جمہور کے نزدیک بھی مقبول ہے ۔

مذکورہ روایات سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں بیس رکعت تراویح پر ہمیشگی کی گئی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اِفطار کی دعا کب پڑھنی چاہیے اور رمضان المبارک کے اہم تاریخی واقعات

اِفطار کی دعا کب پڑھنی چاہیے اور رمضان المبارک کے اہم تاریخی واقعات محترم قارئینِ کرام : بہتر یہی ہے کہ افطار کرنے سے پہلے دعا پڑھی جائے ، ک...