مقصدِ تخلیقِ انسان حصّہ سوم
بنی نوعِ انسان کی تخلیق فطرتِ الہٰیہ پر ہوئی ہے اور ابتدائے آفرینش سے بطنِ مادر سے نزولِ انسانی کے وقت انسان کا پہلا فطری مذہب توحید ہوتا ہے، پھر کوئی کسی مذہب سے منسلک کردیا جاتا ہے اور کوئی کسی اور مذہب میں گردانا جاتا ہے۔ توحید سے انحراف ہی انسان کے بھٹکنے کی وجہ بنا اور اصلاح کے لیے انبیائے کرام اور رسل عظام علیہم السّلام تشریف لائے اور توحید کا درس دیا۔ قرآن نے ارشاد فرمایا : فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًاؕ ۔ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَاؕ ۔ لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِؕ ۔ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُۗۙ ۔ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ۔ (سورہ الروم آیت نمبر 30)
ترجمہ : تو اپنا منہ سیدھا کرو الله کی اطاعت کےلیے ایک اکیلے اسی کے ہو کر الله کی ڈالی ہوئی بنا جس پر لوگوں کوپیدا کیا الله کی بنائی چیز نہ بدلنا یہی سیدھا دین ہے مگر بہت لوگ نہیں جانتے ۔
محترم قارئین کرام : فطرتِ الہٰی کیا ہے ؟ فطرتِ الہٰی اپنی تخلیق ’’انسان‘‘ سے محبت ، درگزر ، رواداری اور معافی کا معاملہ روا رکھنا ہے اور خالقِ عظیم انسان کو بھی باہم محبت ، مودت ، انسیت ، عفو و درگزر ، معافی اور احسان کا حکم دیتا ہے ۔ احسان کا لغوی مفہوم نیکی ، اچھا سلوک ، بھلائی اور شکر ہے فطرت سے مراد دینِ اسلام ہے اور معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو ایمان پر پیدا کیا ، جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے ’’ ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے ۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائز باب اذا اسلم الصبی فمات ہل یصلی علیہ ۔ الخ ، ۱ / ۴۵۷، الحدیث: ۱۳۵۸)(صحیح مسلم کتاب القدر باب کلّ مولود یولد علی الفطرۃ ۔ الخ، ص۱۴۲۸، الحدیث: ۲۲(۲۶۵۸))
یعنی اسی عہد پر پیدا کیا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے ’’اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ‘‘ فرما کر لیا ہے ، تو دنیامیں جو بھی بچہ پیدا ہوتا ہے وہ اسی اقرار پر پیدا ہوتا ہے اگرچہ بعد میں وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنے لگ جائے ۔
بعض مفسرین کے نزدیک فطرت سے مراد خِلقَت ہے اور معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو توحید اور دینِ اسلام قبول کرنے کی صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور فطری طور پر انسان نہ ا س دین سے منہ موڑ سکتا ہے اور نہ ہی اس کا انکار کر سکتا ہے کیونکہ یہ دین ہر اعتبار سے عقلِ سلیم سے ہم آہنگ اور صحیح فہم کے عین مطابق ہے اور لوگوں میں سے جو گمراہ ہو گا وہ جنّوں اور انسانوں کے شَیاطین کے بہکانے سے گمراہ ہوگا ۔ (تفسیر خازن سورہ الروم الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۴۶۳)(تفسیر مدارک، الروم الآیۃ : ۳۰، ص۹۰۸،چشتی)(تفسیر روح المعانی، الروم الآیۃ: ۳۰، ۱۱ / ۵۶)
حضرت عیاض بن حمار رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) میں نے اپنے تمام بندوں کواس حال میں پیدا کیا کہ وہ باطل سے دور رہنے والے تھے، بے شک ان کے پاس شیطان آئے اور ان کو دین سے پھیر دیا اور جو چیزیں میں نے ان پر حلال کی تھیں وہ انہوں نے ان پر حرام کر دیں اور ان کو میرے ساتھ شرک کرنے کا حکم دیا حالانکہ میں نے اس شرک پر کوئی دلیل نازل نہیں کی ۔ (صحیح مسلم، کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب الصفات التی یعرف بہا فی الدنیا اہل الجنّۃ واہل النار، ص۱۵۳۲، الحدیث: ۶۳(۲۸۶۵))
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے ، پھر اس بچے کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنالیتے ہیں ۔( بخاری، کتاب الجنائز، باب اذا اسلم الصبی فمات ہل یصلی علیہ ۔ الخ، ۱ / ۴۵۷، الحدیث: ۱۳۵۸)(صحیح مسلم، کتاب القدر، باب کلّ مولود یولد علی الفطرۃ۔۔۔ الخ، ص۱۴۲۸، الحدیث: ۲۲(۲۶۵۸))
یاد رہے کہ دُنْیَوی اَحکام یا اُخروی نجات میں فطری ایمان کا اعتبار نہیں بلکہ صرف شرعی ایمان معتبر ہے ۔
لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ : اللہ کی بنائی ہوئی چیزمیں تبدیلی نہ کرنا ۔ اس کا ایک معنی یہ ہے کہ تم شرک کر کے اللہ تعالیٰ کے دین میں تبدیلی نہ کرو بلکہ اسی دین پر قائم رہو جس پر اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس کامل خِلقَت پر تمہیں پیدا فرمایا ہے تم اس میں تبدیلی نہ کرو ۔
ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ : یہی سیدھا دین ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا دین ہی سیدھا دین ہے جس میں کوئی ٹیڑھا پن نہیں مگر بہت سے لوگ اس کی حقیقت کو نہیں جانتے تو اے لوگو ! تم اسی دین پر قائم رہو ۔ احسان کی بابت حکمِ الہٰی ہے : هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ ۔ (سورہ الرحمن، 55: 60)
ترجمہ : نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔
فخرِ انسانیت ، انسانِ کامل محمد رسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ربِ محمد صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انسان کا نصب العین عطا فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا : خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ ۔ (سورہ الاعراف، 7: 199)
ترجمہ : (اے حبیبِ مکرّم!) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں ، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں ۔
نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں خالقِ عظیم نے اپنے محبوبِ محمد مصطفی صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ ج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ۔ (سورہ آل عمران، 3: 159)
ترجمہ : پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کےلیے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے ۔
قرآنِ عظیم نے انسانی فطرت کی تصویر کچھ اس طرح پیش کی ہے : ⬇
جب خالقِ عظیم نے انسان کو اس کی اصلیت اور فطری حیثیت بتانا چاہی تو فرمایا : هَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا ۔ (سورہ الدهر، 76: 1)
ترجمہ : بے شک انسان پر زمانے کا ایک ایسا وقت بھی گزر چکا ہے کہ وہ کوئی قابلِ ذِکر چیز ہی نہ تھا ۔
جب خالقِ عظیم نے چاہا کہ انسان حق اور باطل میں تمیز کرے تو رب کائنات نے شعورو بصیرت کی راہ بھی دکھا دی، اب خواہ انسان شکر گزار ہوجائے یا ناشکر گزار رہے، یہ اس کو بخشے ہوئے عقل اور شعور پر چھوڑ دیا۔ ارشاد فرمایا : اِنَّا هَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا ۔ (سورہ الدھر، 76: 3)
ترجمہ : بے شک ہم نے اسے(حق وباطل میں تمیز کرنے کے لیے شعور و بصیرت کی) راہ بھی دکھا دی، (اب) خواہ وہ شکر گزار ہو جائے یا ناشکر گزار رہے ۔
جب رب تعالیٰ نے فطرتی تخلیق اور اپنی عنایتِ تخلیقی ظاہر کرنا چاہی تو فرمایا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ۔ (سورہ التین، 95: 4)
ترجمہ : بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے ۔
رب عظیم نے جب انسان کو اس کے جسمانی اعضاء اور قدو قامت کی قدرو قیمت بتانا چاہی تو فرمایا : الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰکَ فَعَدَلَکَ ۔ (سورہ الانفطار، 82: 7)
ترجمہ : جس نے (رحم مادر کے اندر ایک نطفہ میں سے) تجھے پیدا کیا، پھر اس نے تجھے (اعضا سازی کے لیے ابتدائً) درست اور سیدھا کیا، پھر وہ تیری ساخت میں متناسب تبدیلی لایا ۔
ربِ کریم نے جب انسان فطری خود سری سے آگاہی دینا چاہی اور طبعی اور فطری رجحان بتانا چاہا تو ارشاد فرمایا : بَلْ یُرِیْدُ الْاِنْسَانُ لِیَفْجُرَ اَمَامَهٗ ۔ (القیامة، 75: 5)
ترجمہ : بلکہ انسان یہ چاہتاہے کہ اپنے آگے (کی زندگی میں) بھی گناہ کرتا رہے ۔
جب خالقِ ارض و سماوات نے انسان کا ظلم اور ناشکرا پن بتانا چاہا تو فرمایا : اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ ۔ (سورہ ابراهیم، 14: 34)
ترجمہ : بے شک انسان بڑا ہی ظالم بڑا ہی ناشکرگزار ہے ۔
جب رب محمد صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انسان کو عدل اور محنت کرنے کی طرف راغب کرنا چاہا تو ارشاد فرمایا : وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی ۔ (سورہ النجم، 53: 39)
ترجمہ : اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہو گی (رہا فضل اس پر کسی کا حق نہیں وہ محض اللہ کی عطاء و رضا ہے جس پر جتنا چاہے کر دے) ۔
جب رب تعالیٰ نے انسان کو بحیثیت قوم اپنی حالت کے بدلنے کا ضابطہ الہٰی بتانا چاہا تو فرمایا:اِنَّ اللهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ.(الرعد، 13: 11)
’’بے شک اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں۔‘‘
خالقِ عظیم نے انسان کی تنگ دلی اور ضیقِ دامانی ظاہر کرنا چاہی تو فرمایا:وَکَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا.(الاسراء، 17: 100)
’’اور انسان بہت ہی تنگ دل اور بخیل واقع ہوا ہے۔‘‘
جب اللہ تعالیٰ نے انسان کی جھگڑا کرنے والی فطرت ظاہر کرنا چاہی تو فرمایا:وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلًا.(الکهف، 18: 54)
’’اور انسان جھگڑنے میں ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔‘‘
خالقِ عظیم نے جب انسان کو یہ بتانا چاہا کہ میں تیرے اتنا قریب ہوں کہ مجھے تیرے دل میں پیدا ہونے والے خیال اور ارادے کا بھی معلوم ہے تو فرمایا:وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ.(ق، 50: 16)
’’اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔‘‘
جب رب عظیم نے انسان کی فطرتی کم حوصلگی ظاہر کرنا چاہی تو فرمایا:اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًا.(المعارج، 70: 19)
’’بے شک انسان بے صبر اور لالچی پیدا ہوا ہے۔‘‘
جب مالکِ یوم الدین نے انسان کو فطرتی طور پر مصیبت میں گھبرا جانے والا ظاہر کرنا چاہا تو فرمایا:اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوْعًا.(المعارج، 70: 20))
’’جب اسے مصیبت (یا مالی نقصان) پہنچے تو گھبرا جاتا ہے۔‘‘
جب رب العالمین نے انسان کی فطری عجلت اور جلد بازی ظاہر کرنا چاہی تو فرمایا:وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا.(الاسراء، 17: 11)
’’اور انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔‘‘
جب رب کائنات نے انسان کی فضیلتِ علمی ظاہر کرنا چاہی تو فرمایا:عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ.(العلق، 96: 5)
’’جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘
اس میں کائنات کے بلند رتبہ عظیم الخلقت اور عظیم المرتبت ہستی محمد رسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف اشارہ ہے جنہیں سارا علم سکھا دیا ۔
جب خالقِ عظیم نے بنی نوع انسان کو فطرتاً مال اور دولت کی محبت میں گرفتار بتانا چاہا تو فرمایا:وَاِنَّهٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ.(العادیات، 100: 8)
’’اور بے شک وہ مال کی محبت میں بہت سخت ہے۔‘‘
خالقِ ربِ عظیم نے جب کسی انسان کے ناحق قتل کی اہمیت اپنی بارگاہ میں ظاہر کرنا چاہی تو فرمایا:مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ط وَمَنْ اَحْیَاهَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا.(المائدة، 5: 32)
’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد انگیزی (کی سزا) کے بغیر (ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا ۔‘‘
جب خداوندِ عظیم نے انسان کو گناہ اور ظلم کرنے کے بعد توبہ اور اصلاح کی طرف راغب کرنا چاہا تو فرمایا:فَمَنْ تَابَ مِنْ م بَعْدِ ظُلْمِهٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللهَ یَتُوْبُ عَلَیْهِ ط اِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.(المائدة، 5: 39)
’’پھر جو شخص اپنے (اس) ظلم کے بعد توبہ اور اصلاح کرلے تو بے شک اللہ اس پر رحمت کے ساتھ رجوع فرمانے والا ہے۔ یقینا اللہ بڑا بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
رب رحمن نے اپنے ناپسندیدہ انسانوں کے بارے میں فرمایا:اِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ۔(البقرة، 2: 190)
’’بے شک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:اِنَّ اللهَ لاَ یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ.(القصص، 28: 76)
’’بے شک اللہ اِترانے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘
زمین پر فساد بپا کرنے والوں کے لیے اظہارِ ناپسندیدگی کرتے ہوئے فرمایا:اِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ.(القصص، 28: 77)
’’بے شک اللہ فساد بپا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘
سرکش انسان کو بھی اپنی محبت سے محروم کرتے ہوئے فرمایا:اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِیْنَ.(النحل، 16: 23)
’’بے شک وہ سرکشوں متکبّروں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
ظالموں کی چابک دستیوں اور ریشہ دوانیوں پر ناپسندیدگی کا اظہار یوں فرمایا:وَاللهُ لَایُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ.(آل عمران، 3: 57)
’’اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
انسان کی فطرت اور مزاج کو قرآن کے آئینہ میں بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جب ایک انسان انفرادی حیثیت سے ہٹ کر اجتماعی زندگی اختیار کرتا ہے اور ایک قوم اور معاشرہ بنتا ہے، جس میں انسان معاشرتی دھارے میں اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری نبھاتا ہے تو خالقِ عظیم نے ان آیات کے ذریعے جھنجھوڑتے ہوئے مخاطب کرتا ہے کہ : ⬇
اے انسان! تجھے عدل و انصاف کا حکم دیا، تم نے حق تلفی کی حد کردی۔
اے انسان! تجھے معاف کرنے کا حکم دیا تو تم نے انتقام لینے کی حد کردی۔
اے انسان! تجھے صبر کرنے کا حکم دیا تو تم نے بے صبری اور جبر کی حد کردی۔
اے انسان! تجھے حسد سے بچنے کا حکم دیا تو تم آتشِ حسد میں جل کر خاکستر ہوگئے۔
اے انسان! تجھے رحمن نے بلایا تو تم شیطان کی طرف بھاگ گئے۔
اے انسان! تجھے فضول خرچی سے منع کیا تو تم نے سخاوت سے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔
اے انسان! تجھے اشرف المخلوقات بنایا تو تم نے انسانیت کے سارے شرف پاش پاش کردیئے۔
اے انسان! میں نے تجھ پر آشکار کیا کہ زندگی ایک انمول خزانہ ہے تو تم نے حفاظت کی بجائے اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کردیا۔
اے انسان! تجھے غریب کا خیال رکھنے کا حکم ہوا تو تم نے غریب ہی مار ڈالا۔
اے انسان! میں نے تجھے اپنی زمین پر اکڑ کر چلنے سے منع فرمایا تو تم ایسے چلنے لگے جیسے زمین ہی پھاڑ ڈالو گے۔
اے انسان! اپنے دل سے یہ بھول نکال دے کہ میرے حبیبِ مکرمe کی شفاعت ظالم، غاصب، یتیم اور بیوہ کی حق تلفی کرنے والے پر بھی ہوگی۔
یاد رکھ! معافی کی معراج، انسانیت پر احسان کرنا ہے اور احسان اپنا حق دوسروں کو دے دینا ہوتا ہے۔
کسی بھی مہذب اور تعلیم یافتہ معاشرے میں معاشرتی طور پر باہمی رویہ اور روش میں درگزر اور معافی (Behaviour Toleration and Remission) بنیادی اہمیت کی حامل ہوا کرتی ہے کیونکہ یہ مسلّمہ حقیقت ہے کہ رویہ میں عدمِ برداشت لاقانونیت کو جنم دیتی ہے اور ایسا عمل کسی بھی ریاست کی بنیادیں کھوکھلی کردیتا ہے۔ ظاہراً مغربی جمہوریت اخلاقی روایات و اقدار کی علم بردار کہلاتی ہے لیکن کہیں نہ کہیں کمی موجود ہے جس کے باعث باقاعدہ مضبوط قانون اور ضوابط ہونے کے باوجود باہمی طور بین المذاہب ہم آہنگی کا فقدان نظرآتا ہے۔
اس کے برعکس اسلام میں عفو و درگزر اور باہمی رواداری اسلام کی بنیادی اساس گردانی جاتی ہے اور دینِ اسلام کا جز لاینفک ہے۔ ایسا رویہ اسلامی ریاست کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور یہی عمل اسلام کو دیگر مذاہب سے ممتاز کرتا ہے۔ بصورتِ دیگر جنگل کا قانون فروغ پاتا ہے۔
عفو و درگزر اور رواداری بظاہر علیحدہ علیحدہ الفاظ ہیں تاہم عملی طور دونوں دینِ اسلام کی روح تصور ہوتے ہیں۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کے خصائص میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل جو قدر ہے وہ انسانی عظمت اور مساوات ہے۔قرآن ارشاد فرماتا ہے:
یٰٓـاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ.(النساء، 4: 1)
’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی ۔‘‘
اسلام میں انسان کو ایک خاص مقام و مرتبہ دیا گیا ہے۔ جبکہ اسلام سے قبل مذاہب اور تہذیبوں میں کہیں نہ کہیں انسانیت کی تذلیل اور بے توقیری کی جاتی رہی ہے۔ یاد رہے کہ بعض الہامی مذاہب میں تذلیلِ انسانیت والے نظریات تحریفات کی بناء پر پیدا ہوگئے ہیں جبکہ یہ قطعی طور پر الہامی تعلیمات نہیں ہیں۔
اسلام نے بنی نوع انسان کے اس بلند مقام کو کسی مخصوص نسل، قوم اور مذہب سے منسوب نہیں کیا بلکہ عظمت و مساوات کا باہم مرقع بنایا ہے۔ اسلام نے رنگ و نسل اور لسانیت اور علاقائیت کے سارے بت پاش پاش کرکے تمام انسانوں کو باہمی محبت ومودت اور مساوات کی لڑی میں پرودیا ہے۔ اسلام کی نظر میں تمام بنی نوعِ آدم بحیثیتِ انسان برابر ہیں۔ یہی تہذیبی اور ثقافتی نظریہ اسلام ہے جو بین المذاہب ہم آہنگی کی فضا برقرار رکھنے پر زور دیتا ہے۔
محترم قارئین ! یہ اسلام اور قرآن کی عظمت اور محمد رسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعلیمات اور نبوی فیض کی برکات ہیں کہ اسلام نے عالمگیریت کے لحاظ سے پوری دنیا اور دیگر مذاہب میں بھی اثرات مرتب کیے ہیں اور نتیجتاً پوری دنیا کی فکر تبدیل ہوئی ہے۔
مائیکل ہارٹ نے اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے : ہم جانتے ہیں کہ ساتویں صدی عیسویں میں عرب فتوحات کے انسانی تاریخ پر اثرات ہنوز موجود ہیں ۔ یہ دینی اور دنیاوی اثرات کا طلسماتی سحر اور بے نظیر اشتراک ہے جو میرے خیال میں حضرت محمد صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ متاثر کن شخصیت کا درجہ دینے اور ماننے کا جواز بنتا ہے۔ یہ بات بھی قابل صد ستائش ہے کہ عربوں نے چند صدیوں میں اندلس کو مالی اور علمی لحاظ سے یورپ میں ممتاز کردیا۔ یہ مسئلہ اسلامی نظریاتی اور اخلاقی نوعیت کا تھا، فقط علمی اور اقتصادی نہ تھا۔ انہوں نے نصاری کو انسانی خصائل سے روشناس کروایا۔
یہ اسلام کی خاص فضیلت اور انوکھی شان ہے کہ اسلام نے نہ صرف اہلیانِ اسلام اور مومنین کو اخوت و مساوات کی تلقین و ہدایت کی ہے بلکہ پوری انسانیت کو یایھا الناس کے اجتماعی خطابات و القابات سے پکار کر عالمگیر اخوت و مساوات کا درس دیا ہے۔ یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام اپنی تہذیبی روایات کے بل بوتے پر بین الاقوامی سطح پر اپنے فکری و نظریاتی اثرات مرتب کرچکا ہے۔ اس کی واحد وجہ بین الاقوامی طور پر بین المذاہب ہم آہنگی کی فضا برقرار رکھنا اور یعنی کہ باہمی رویوں میں برداشت اور رواداری کے ذریعے ماحول سازگار رکھنا ہے ۔ (مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment