Tuesday, 20 December 2022

قرآن کا پیغامِ عمل مسلمانوں کے نام حصّہ چہارم

قرآن کا پیغامِ عمل مسلمانوں کے نام حصّہ چہارم

خواتین بھی وراثت میں حصہ دار ہیں


لِلرِّجَالِ  نَصِیْبٌ  مِّمَّا  تَرَكَ  الْوَالِدٰنِ  وَ  الْاَقْرَبُوْنَ   ۪-  وَ  لِلنِّسَآءِ  نَصِیْبٌ  مِّمَّا  تَرَكَ  الْوَالِدٰنِ  وَ  الْاَقْرَبُوْنَ  مِمَّا  قَلَّ  مِنْهُ  اَوْ  كَثُرَؕ-نَصِیْبًا  مَّفْرُوْضًا ۔ (سورۃ النساء آیت نمبر 7)
ترجمہ : مردوں کےلیے حصہ ہے اس میں سے جو چھوڑ گئے ماں باپ اور قرابت والے اور عورتوں کےلیے حصہ ہے اس میں سے جو چھوڑ گئے ماں باپ اور قرابت والے ترکہ تھوڑا ہو یا بہت حصہ ہے اندازہ باندھا ہوا ۔

زمانہ جاہلیت میں عورتوں اور بچوں کو وراثت سے حصہ نہ دیتے تھے، اِس آیت میں اُس رسم کو باطل کیا گیا۔ اِس سے یہ بھی معلو م ہوا کہ بیٹے کو میراث دینا اور بیٹی کو نہ دینا صریح ظلم اور قرآن کے خلاف ہے دونوں میراث کے حقدار ہیں اور اس سے اسلام میں عورتوں کے حقوق کی اہمیت کا بھی پتا چلا ۔

یتیموں کی جائیداد پر قبضہ نہ کرو

وَ  اٰتُوا  الْیَتٰمٰۤى  اَمْوَالَهُمْ  وَ  لَا  تَتَبَدَّلُوا  الْخَبِیْثَ  بِالطَّیِّبِ   ۪-  وَ  لَا  تَاْكُلُوْۤا  اَمْوَالَهُمْ  اِلٰۤى  اَمْوَالِكُمْؕ-اِنَّهٗ  كَانَ  حُوْبًا  كَبِیْرًا ۔ (سورۃ النساء آیت نمبر 2)
ترجمہ : اور یتیموں کو ان کے مال دو اور ستھرے کے بدلے گندا نہ لو اور ان کے مال اپنے مالوں میں ملاکر نہ کھا جاؤ بیشک یہ بڑا گناہ ہے ۔

اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک شخص کی نگرانی میں اُس کے یتیم بھتیجے کا بہت زیادہ مال تھا ، جب وہ یتیم بالغ ہو ا اور اس نے اپنا مال طلب کیا تو چچا نے دینے سے انکار کردیا اِس پر یہ آیت نازل ہوئی جسے سن کر اُس شخص نے یتیم کا مال اُس کے حوالے کردیا اور کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرتے ہیں ۔ (فسیر بیضاوی سورہ النساء آیت : ۲، ۲ / ۱۴۱)

آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جب یتیم اپنا مال طلب کریں تو ان کا مال ان کے حوالے کردو جب کہ دیگر شرعی تقاضوں کو پورا کرلیا ہے اور اپنے حلال مال کے بدلے یتیم کا مال نہ لو جو تمہارے لئے حرام ہے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ اپنا گھٹیا مال یتیم کو دے کر اس کا عمدہ مال لے لو۔ یہ تمہارا گھٹیا مال تمہارے لئے عمدہ ہے کیونکہ یہ تمہارے لئے حلال ہے اور یتیم کا عمدہ مال تمہارے لیے گھٹیا اور خبیث ہے کیونکہ وہ تمہارے لیے حرام ہے ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جب یتیم کا مال اپنے مال سے ملا کر کھانا حرام ہوا یعنی گھٹیا معاوضہ دے کر کھانا بھی حرام ہے تو بغیر معاوضہ کے کھالینا تو بطریق اَولیٰ حرام ہوا ۔ ہاں شریعت نے جہاں ان کا مال ملا کر استعمال کی اجازت دی وہ جدا ہے جس کا بیان سورہ ٔبقرہ آیت 220 میں ہے ۔

یتیم اس نابالغ لڑکے یا لڑکی کو کہتے ہیں جس کا باپ فوت ہوجائے ۔ آیتِ مبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے یہاں یتیموں سے متعلق چند اہم مسائل بیان کئے جاتے ہیں : ⬇

(1) ۔ یتیم کوتحفہ دے سکتے ہیں مگر اس کاتحفہ لے نہیں سکتے ۔

(2) ۔ کوئی شخص فوت ہو اور اس کے ورثاء میں یتیم بچے بھی ہوں تو اس ترکے سے تیجہ، چالیسواں ، نیاز، فاتحہ اور خیرات کرنا سب حرام ہے اور لوگوں کا یتیموں کے مال والی اُس نیاز، فاتحہ کے کھانے کو کھانا بھی حرام ہے ۔ یہ مسئلہ بہت زیادہ پیش آنے والا ہے لیکن افسوس کہ لوگ بے دھڑک یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں ۔

(3) ۔ ایسے موقع پر جائز نیاز کا طریقہ یہ ہے کہ بالغ ورثاء خاص اپنے مال سے نیاز دلائیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہاں وہ دعوت مراد نہیں ہے جو تدفین کے بعد یا سوئم کے دن کی پکائی جاتی ہے کیونکہ وہ دعوت تو بہر صورت ناجائز ہے خواہ اپنے مال سے کریں ۔ مسئلہ : تیجہ، فاتحہ کا ایصالِ ثواب جائز ہے لیکن رشتے داروں اور اہلِ محلہ کی جو دعوت کی جاتی ہے یہ ناجائز ہے، وہ کھانا صرف فقراء کو کھلانے کی اجازت ہے ۔ اس کے بارے میں مزید تفصیل جاننے کےلیے فتاویٰ رضویہ کی نویں جلد سے ان دو رسائل کامطالعہ فرمائیں (1) اَلْحُجَّۃُ الْفَائِحہْ لِطِیْبِ التَّعْیِیْنِ وَالْفَاتِحَہْ ۔ (دن متعین کرنے اور مروجہ فاتحہ ، سوئم وغیرہ کا ثبوت) ۔ (2) جَلِیُّ الصَّوْتْ لِنَھْیِ الدَّعْوَۃِ اَمَامَ مَوْتْ ۔ (کسی کی موت پردعوت کرنے کی ممانعت کا واضح بیان)

یتیموں کی حفاظت کرو

وَ یَسْتَفْتُوْنَكَ فِی النِّسَآءِؕ-قُلِ اللّٰهُ یُفْتِیْكُمْ فِیْهِنَّۙ-وَ مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ فِی الْكِتٰبِ فِیْ یَتٰمَى النِّسَآءِ الّٰتِیْ لَا تُؤْتُوْنَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَ تَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الْوِلْدَانِۙ-وَ اَنْ تَقُوْمُوْا لِلْیَتٰمٰى بِالْقِسْطِؕ-وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِهٖ عَلِیْمًا ۔ (سورۃ النساء آیت نمبر 127 )
ترجمہ : اور تم سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں تم فرما دو کہ اللہ تمہیں ان کا فتویٰ دیتا ہے اور وہ جو تم پر قرآن میں پڑھا جاتا ہے ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں کہ تم انہیں نہیں دیتے جو ان کا مقرر ہے اور انہیں نکاح میں بھی لانے سے منہ پھیرتے ہو اور کمزور بچوں کے بارے میں اور یہ کہ یتیموں کے حق میں انصاف پر قائم رہو اور تم جو بھلائی کرو تو اللہ کو اس کی خبر ہے ۔

شانِ نزول : زمانہِ جاہلِیَّت میں عرب کے لوگ عورت اور چھوٹے بچوں کو میت کے مال کا وارث قرار نہیں دیتے تھے ۔ جب آیت ِمیراث نازل ہوئی تو انہوں نے عرض کیا ، یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا عورت اور چھوٹے بچے وارث ہوں گے ؟ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اُن کو اِس آیت سے جواب دیا ۔ حضرت عائشہ  رَضِیَ اللہُ عَنْہا نے فرمایا کہ یتیموں کے اولیاء کا دستور یہ تھا کہ اگر یتیم لڑکی صاحبِ مال و جمال ہوتی تو اس سے تھوڑے مہر پر نکاح کرلیتے اور اگر حسن و مال نہ رکھتی تو اسے چھوڑ دیتے اور اگرحسنِ صورت نہ رکھتی اور ہوتی مالدار تو اس سے نکاح نہ کرتے اور اس اندیشہ سے دوسرے کے نکاح میں بھی نہ دیتے کہ وہ مال میں حصہ دار ہو جائے گا اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرما کر انہیں ان عادتوں سے منع فرمایا ۔ (تفسیر خازن سورہ النساء آیت : ۱۲۷، ۱ / ۴۳۵)

قرآنِ پاک میں یتیموں ، بیواؤں اور معاشرے کے کمزو ر و محروم افراد کےلیے بہت زیادہ ہدایات دی گئی ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ یتیموں ، بیواؤں ، عورتوں ، کمزوروں اور محروم لوگوں کو ان کے حقوق دلانا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی سنت ہے اور اس کےلیے کوشش کرنا اللہ عَزَّوَجَلَّ کو بہت پسند ہے ۔

حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، ایک شخص نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ تیرا دل نرم ہو جائے ؟اس نے عرض کی: جی ہاں۔ ارشاد فرمایا : تیرے پاس کوئی یتیم آئے تو اس کے سر پہ ہاتھ پھیرو اور اپنے کھانے میں سے اسے کھلاؤ ، تیرا دل نرم ہو جائے گا اور تیری حاجتیں بھی پوری ہوں گی ۔ (مصنف عبد الرزاق، کتاب الجامع، باب اصحاب الاموال، ۱۰ / ۱۳۵، الحدیث: ۲۰۱۹۸،چشتی)

حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہُ عَنْہُما سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جس نے تین یتیموں کی پرورش کی وہ رات کو قیام کرنے والے ، دن کو روزہ رکھنے والے اور صبح شام اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی تلوار سونتنے والے کی طرح ہے اورمیں اور وہ جنت میں دو بھائیوں کی طرح ہوں گے جیسا کہ یہ دو بہنیں ہیں ۔ اوراپنی انگشت ِشہادت اور درمیانی انگلی کو ملایا ۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب حقّ الیتیم ، ۴ / ۱۹۴، الحدیث: ۳۶۸۰)

حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : بیواؤں اور مسکینوں پر خرچ کرنے والا راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں جہاد کرنے والے اور رات کو قیام اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے ۔ (سنن ابن ماجہ کتاب التجارات باب الحث علی المکاسب، ۳ / ۶، الحدیث: ۲۱۴۰،چشتی)

حضرت انس بن مالک  رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جو میرے کسی امتی کی حاجت پوری کرے اور اُس کی نیت یہ ہو کہ اِس کے ذریعے اُس امتی کو خوش کرے تو اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا ا س نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو خوش کیا اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو خوش کیا اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے جنت میں داخل کرے گا ۔ (شعب الایمان، الثالث والخمسون من شعب الایمان ۔۔۔ الخ، ۶ / ۱۱۵، الحدیث: ۷۶۵۳)

دوسروں کا مال بلا ضرورت خرچ نہ کرو

وَابْتَلُوا  الْیَتٰمٰى  حَتّٰۤى  اِذَا  بَلَغُوا  النِّكَاحَۚ ۔ فَاِنْ  اٰنَسْتُمْ  مِّنْهُمْ  رُشْدًا  فَادْفَعُوْۤا اِلَیْهِمْ  اَمْوَالَهُمْۚ ۔ وَ  لَا  تَاْكُلُوْهَاۤ  اِسْرَافًا  وَّ  بِدَارًا اَنْ  یَّكْبَرُوْاؕ ۔ وَمَنْ  كَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْۚ ۔ وَمَنْ  كَانَ  فَقِیْرًا  فَلْیَاْكُلْ  بِالْمَعْرُوْفِؕ-فَاِذَا دَفَعْتُمْ  اِلَیْهِمْ  اَمْوَالَهُمْ  فَاَشْهِدُوْا  عَلَیْهِمْؕ-وَ  كَفٰى  بِاللّٰهِ حَسِیْبًا ۔ (سورۃ النساء آیت نمبر 6)
ترجمہ : اور یتیموں کو آزماتے رہو یہاں تک کہ جب وہ نکاح کے قابل ہوں تو اگر تم ان کی سمجھ ٹھیک دیکھو تو ان کے مال انہیں سپرد کردو اور انہیں نہ کھاؤ حد سے بڑھ کر اور اس جلدی میں کہ کہیں بڑے نہ ہو جائیں اور جسے حاجت نہ ہو وہ بچتا رہے اور جو حاجت مند ہو وہ بقدر مناسب کھائے پھر جب تم ان کے مال انہیں سپرد کرو تو ان پر گواہ کرلو اور اللہ کافی ہے حساب لینے کو ۔

اس آیتِ مبارکہ میں یتیموں کے حوالے سے بہت واضح احکام دئیے ہیں ، چنانچہ فرمایا کہ جن یتیموں کا مال تمہارے پاس ہو ان کی سمجھداری کو آزماتے رہو جس کی ایک صورت یہ ہے کہ ان کا مال دے کر وقتاً فوقتاً انہیں دیکھتے رہو کہ کیسے خرچ کرتے ہیں ۔ یوں انہیں آزماتے رہو یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں یعنی بالغ ہو جائیں تو اگر تم ان میں سمجھداری کے آثار دیکھو کہ وہ مالی معاملات اچھے طریقے سے کرلیتے ہیں تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو ۔ یہاں تک ان کے بارے میں حکم دینے کے بعد اب سرپرستوں کو بطورِ خاص چند ہدایات دی ہیں چنانچہ فرمایا کہ یتیموں کے مال کو فضول خرچی سے استعمال نہ کرو اور ان کامال جلدی جلدی نہ کھاؤ اس ڈر سے کہ جب وہ بڑے ہو جائیں گے تو چونکہ تمہیں اُن کے مال واپس کرنا پڑیں گے لہٰذا جتنا زیادہ ہوسکے ان کا مال کھا جاؤ ، یہ حرام ہے ۔ مزید ہدایت یہ ہے کہ یتیم کا سرپرست اگر خودمالدار ہو یعنی اسے یتیم کا مال استعمال کرنے کی حاجت نہیں تو وہ اُس کا مال استعمال کرنے سے بچے اور جو حاجت مند ہو وہ بقدر مناسب کھاسکتا ہے یعنی جتنی معمولی سی ضرورت ہو ۔ اس میں کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کم سے کم کھائے ۔ (تفسیر جَمَل سورہ النساء آیت : ۶، ۲ / ۱۳،چشتی)

آیت کے آخر میں مزید پہلے والے حکم کے بارے میں فرمایا کہ جب تم یتیموں کے مال اُن کے حوالے کرنے لگو تو اِس بات پر گواہ بنالو تاکہ بعد میں کوئی جھگڑا نہ ہو ۔ یہ حکم مستحب ہے ۔

لوگوں کے درمیان صلح کراؤ

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ۔ (سورۃ الحجرات آیت نمبر 10)
ترجمہ : مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو ۔

مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہی ہیں کیونکہ یہ آپس میں دینی تعلق اورا سلامی محبت کے ساتھ مَربوط ہیں اوریہ رشتہ تمام دُنْیَوی رشتوں  سے مضبوط تر ہے ، لہٰذاجب کبھی دو بھائیوں میں جھگڑا واقع ہو تو ان میں صلح کرادو اور اللہ تعالیٰ سے ڈروتا کہ تم پر رحمت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور پرہیزگاری اختیار کرنا ایمان والوں کی باہمی محبت اور اُلفت کا سبب ہے اور جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے ا س پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے ۔ (تفسیر خازن سورہ الحجرات آیت : ۱۰، ۴ / ۱۶۸، مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ جلد ۱۰ صفحہ ۱۱۵۳،چشتی)

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولِ اکرم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ مسلمان ،مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پرظلم کرے نہ اس کو رُسوا کرے ، جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں مشغول رہتاہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرتاہے اورجوشخص کسی مسلمان سے مصیبت کو دور کرتا ہے تواللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے مَصائب میں سے کوئی مصیبت دُور فرما دے گا اور جو شخص کسی مسلمان کا پردہ رکھتا ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کاپردہ رکھے گا ۔ (صحیح بخاری کتاب المظالم والغصب باب لا یظلم المسلم ۔ الخ، ۲ / ۱۲۶، الحدیث: ۲۴۴۲)

حضر ت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ سارے مسلمان ایک شخص کی طرح ہیں  ،جب اس کی آنکھ میں  تکلیف ہوگی توسارے جسم میں تکلیف ہوگی اور اگر اس کے سرمیں  دردہوتوسارے جسم میں  دردہوگا ۔ ( مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تراحم المؤمنین... الخ، ص۱۳۹۶، الحدیث: ۶۷(۲۵۸۶))

حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کےلیے عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے ۔ (صحیح مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تراحم المؤمنین... الخ، ص۱۳۹۶، الحدیث: ۶۵(۲۵۸۵))

بدگمانی سے بچو اور غیبت نہ کرو

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ ۔ (سورۃ الحجرات آیت نمبر 12)
ترجمہ : اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈھو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں  کو بہت زیادہ گمان کرنے سے منع فرمایا کیونکہ بعض گمان ایسے ہیں  جو محض گناہ ہیں  لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ گمان کی کثرت سے بچا جائے ۔ (تفسیر ابن کثیر سورہ الحجرات آیت : ۱۲، ۷ / ۳۵۲)

امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : (یہاں آیت میں گمان کرنے سے بچنے کا حکم دیا گیا) کیونکہ گمان ایک دوسرے کو عیب لگانے کا سبب ہے ، اس پر قبیح افعال صادر ہونے کا مدار ہے اور اسی سے خفیہ دشمن ظاہر ہوتا ہے اور کہنے والا جب ان اُمور سے یقینی طور پر واقف ہو گا تو وہ ا س بات پر بہت کم یقین کرے گا کہ کسی میں  عیب ہے تاکہ اسے عیب لگائے ،کیونکہ کبھی فعل بظاہر قبیح ہوتا ہے لیکن حقیقت میں  ایسا نہیں  ہوتا اس لیے کہ ممکن ہے کرنے والا اسے بھول کر کر رہا ہو یا دیکھنے والا غلطی پر ہو ۔ (تفسیر کبیر سورہ الحجرات آیت : ۱۲، ۱۰ / ۱۱۰)

امام عبداللہ بن عمر بیضاوی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : یہاں  آیت میں گمان کی کثرت کو مُبْہَم رکھا گیا تاکہ مسلمان ہر گمان کے بارے میں محتاط ہو جائے اور غور و فکر کرے یہاں تک کہ اسے معلوم ہو جائے کہ اس گمان کا تعلق کس صورت سے ہے کیونکہ بعض گمان واجب ہیں ، بعض حرام ہیں  اور بعض مُباح ہیں ۔ (تفسیر بیضاوی سورہ الحجرات آیت : ۱۲، ۵ / ۲۱۸،چشتی)

گمان کی کئی اَقسام ہیں ، ان میں  سے چار یہ ہیں : (1) واجب ،جیسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھنا ۔ (2) مُستحَب ، جیسے صالح مومن کے ساتھ نیک گمان رکھنا ۔ (3) ممنوع حرام ۔ جیسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ برا گمان کرنا اور یونہی مومن کے ساتھ برا گمان کرنا ۔ (4) جائز ، جیسے فاسقِ مُعْلِن کے ساتھ ایسا گمان کرنا جیسے افعال اس سے ظہور میں  آتے ہوں ۔

حضرت سفیان ثوری رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں : گمان دو طرح کا ہے ، ایک وہ کہ دل میں  آئے اور زبان سے بھی کہہ دیا جائے ۔ یہ اگر مسلمان پر برائی کے ساتھ ہے تو گناہ ہے ۔ دوسرا یہ کہ دل میں  آئے اور زبان سے نہ کہا جائے ، یہ اگرچہ گناہ نہیں مگر اس سے بھی دل کو خالی کرنا ضروری ہے ۔ (تفسیر خازن سورہ الحجرات آیت : ۱۲، ۴ / ۱۷۰-۱۷۱، مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۱۱۵۵،چشتی)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : مسلمان پر بدگمانی خود حرام ہے جب تک ثبوتِ شرعی نہ ہو ۔ (فتاوی رضویہ،۶ / ۴۸۶)
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں : مسلمانوں  پر بدگمانی حرام اور حتّی الامکان اس کے قول وفعل کو وجہِ صحیح پر حمل واجب (ہے) ۔ (فتاوی رضویہ،۲۰ / ۲۷۸)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : بے شک مسلمان پر بد گمانی حرام ہے مگر جبکہ کسی قرینہ سے اس کا ایسا ہونا ثابت ہوتا ہو (جیسا اس کے بارے میں  گمان کیا) تو اب حرام نہیں ، مثلاً کسی کو (شراب بنانے کی) بھٹی میں  آتے جاتے دیکھ کر اسے شراب خور گمان کیا تواِس کا قصور نہیں (بلکہ بھٹی میں آنے جانے والے کا قصور ہے کیونکہ) اُس نے موضعِ تہمت (یعنی تہمت لگنے کی جگہ) سے کیوں اِجتناب نہ کیا ۔ (فتاوی امجدیہ، ۱ / ۱۲۳)

صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : مومنِ صالح کے ساتھ برا گمان ممنوع ہے ، اسی طرح اس کا کوئی کلام سن کر فاسد معنی مراد لینا باوجودیکہ اس کے دوسرے صحیح معنی موجود ہوں اور مسلمان کا حال ان کے موافق ہو ، یہ بھی گمانِ بد میں  داخل ہے ۔ (تفسیر خزائن العرفان سورہ الحجرات آیت : ۱۲، صفحہ ۹۵۰)

دینِ اسلا م وہ عظیم دین ہے جس میں انسانوں کے باہمی حقوق اور معاشرتی آداب کو خاص اہمیت دی گئی اور ان چیزوں کا خصوصی لحاظ رکھا گیاہے اسی لیے جو چیز انسانی حقوق کو ضائع کرنے کا سبب بنتی ہے اور جو چیز معاشرتی آداب کے بر خلاف ہے اس سے دینِ اسلام نے منع فرمایا اور اس سے بچنے کا تاکید کے ساتھ حکم دیاہے ، جیسے ان اَشیاء میں سے ایک چیز ’’بد گمانی‘‘ ہے جو کہ انسانی حقوق کی پامالی کا بہت بڑا سبب اور معاشرتی آداب کے انتہائی بر خلاف ہے ، اس سے دین ِاسلام میں خاص طور پر منع کیا گیا ہے ، چنانچہ قرآنِ مجید میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا ۔ (سورہ بنی اسرائیل:۳۶)
ترجمہ : اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں  بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں  سوال کیا جائے گا ۔

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اپنے آپ کو بدگمانی سے بچائو کہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے ، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو ، حرص نہ کرو ، حسد نہ کرو ، بغض نہ کرو،ایک دوسرے سے رُوگَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی ہو جاٶ ۔ (صحی مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تحریم الظّنّ والتّجسّس... الخ، صفحہ ۱۳۸۶، الحدیث: ۲۸(۲۵۶۳))

بدگمانی کے دینی اور دُنْیَوی نقصانات

(1) ۔ جس کے بارے میں  بد گمانی کی ، اگر اُس کے سامنے اِس کا اظہار کر دیا تو اُس کی دل آزاری ہو سکتی ہے اور شرعی اجازت کے بغیر مسلمان کی دل آزاری حرام ہے ۔

(2) ۔ اگر ا س کی غیر موجودگی میں  دوسرے کے سامنے اپنے برے گمان کا اظہار کیاتو یہ غیبت ہو جائے گی اور مسلمان کی غیبت کرنا حرام ہے ۔

(3) ۔ بد گمانی کرنے والا محض اپنے گمان پر صبر نہیں  کرتا بلکہ وہ اس کے عیب تلاش کرنے میں  لگ جاتا ہے اور کسی مسلمان کے عیبوں  کوتلاش کرناناجائز و گناہ ہے ۔

(4) بد گمانی کرنے سے بغض اور حسد جیسے خطرناک اَمراض پیدا ہوتے ہیں  ۔

(5) ۔ بد گمانی کرنے سے دو بھائیوں  میں  دشمنی پیدا ہو جاتی ہے،ساس اور بہو ایک دوسرے کے خلاف ہو جاتے ہیں ، شوہر اور بیوی میں  ایک دوسرے پر اعتماد ختم ہوجاتا اور بات بات پر آپس میں  لڑائی رہنے لگتی ہے اور آخر کاران میں  طلاق اور جدائی کی نوبت آجاتی ہے ،بھائی اور بہن کے درمیان تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں  اور یوں  ایک ہنستا بستا گھر اجڑ کر رہ جاتا ہے ۔

(6) ۔ دوسروں  کےلیے برے خیالات رکھنے والے افراد پر فالج اور دل کی بیماریوں  کا خطرہ زیادہ ہو جاتا ہے جیسا کہ حال ہی میں امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کردہ ایک تحقیقی رپوٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ افراد جو دوسروں  کےلیے مخالفانہ سوچ رکھتے ہیں اور اس کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار اور غصے میں  رہتے ہیں  ان میں  دل کی بیماریوں  اور فالج کا خطرہ 86% بڑھ جاتا ہے ۔

بد گمانی کا علاج

حضرت امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : شیطان آدمی کے دل میں  بدگمانی ڈالتاہے تو مسلمان کو چاہیے کہ وہ شیطان کی تصدیق نہ کرے اور اس کو خوش نہ کرے حتّٰی کہ اگر کسی کے منہ سے شراب کی بو آ رہی ہو تو پھر بھی اس پر حد لگانا جائز نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے اس نے شراب کا ایک گھونٹ پی کر کلی کر دی ہو یا کسی نے اس کو جَبراً شراب پلادی ہو اوراس کااِحتمال ہے تووہ دل سے بدگمانی کی تصدیق کرکے شیطان کوخوش نہ کرے (اگرچہ مذکورہ صورت میں بدگمانی کا گناہ نہیں  ہو گا لیکن بچنے میں پھر بھی بھلائی ہی ہے) ۔ (احیاء علوم الدین، کتاب آفات اللسان، بیان تحریم الغیبۃ بالقلب، ۳ / ۱۸۶،چشتی)

یہ بھی معلوم ہو اکہ مسلمانوں کے پوشیدہ عیب تلاش کرنا اور انہیں بیان کرنا ممنوع ہے ، یہاں اسی سے متعلق ایک عبرت انگیز حدیثِ پاک ملاحظہ ہو ، حضرت ابوبرزہ اسلمی رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اے ان لوگوں کے گروہ ، جو زبان سے ایمان لائے اور ایمان ان کے دلوں میں  داخل نہیں ہوا ، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی چھپی ہوئی باتوں کی ٹٹول نہ کرو ، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چھپی ہوئی چیز کی ٹٹول کرے گا ، اللہ تعالیٰ اس کی پوشیدہ چیز کی ٹٹول کرے (یعنی اسے ظاہر کر دے) گا اور جس کی اللہ (عَزَّوَجَلَّ) ٹٹول کرے گا (یعنی عیب ظاہر کرے گا) اس کو رسوا کردے گا ، اگرچہ وہ اپنے مکان کے اندر ہو ۔ (سنن ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، ۴ / ۳۵۴، الحدیث: ۴۸۸۰)

اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں  کی غیبت کرنا اور ان کے عیب تلاش کرنا منافق کا شِعار ہے اور عیب تلاش کرنے کا انجام ذلت و رسوائی ہے کیونکہ جو شخص کسی دوسرے مسلمان کے عیب تلاش کر رہا ہے ، یقینا اس میں بھی کوئی نہ کوئی عیب ضرور ہو گا اور ممکن ہے کہ وہ عیب ایسا ہو جس کے ظاہر ہونے سے وہ معاشرے میں  ذلیل و خوار ہو جائے لہٰذا عیب تلاش کرنے والوں کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ ان کی اس حرکت کی بنا پر کہیں اللہ تعالیٰ ان کے وہ پوشیدہ عیوب ظاہر نہ فرما دے جس سے وہ ذلت و رسوائی سے دوچار ہو جائیں ۔

عیب چھپانے کے دو فضائل

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی مسلمان کے عیب پرپردہ رکھا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیوب پر پردہ رکھے گا ۔ (صحیح بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب لا یظلم المسلم... الخ، ۲ / ۱۲۶، الحدیث: ۲۴۴۲)

حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جو شخص ایسی چیز دیکھے جس کو چھپانا چاہیے اور اس نے پردہ ڈال دیا (یعنی چھپادی) تو ایسا ہے جیسے مَٶُوْدَہ (یعنی زندہ زمین میں  دبا دی جانے والی بچی) کو زندہ کیا ۔ (سنن ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الستر علی المسلم، ۴ / ۳۵۷، الحدیث: ۴۸۱۹)

لوگوں  کے عیب تلاش کرنے کی بجائے اپنے عیبوں  کی اصلاح کی جائے

جو شخص لوگوں کے عیب تلاش کرنے میں  رہتا ہے اسے خاص طور پر اور تمام لوگوں  کو عمومی طور پر چاہیے کہ کسی کے عیب تلاش کرنے کی بجائے اپنے اندر موجود عیبوں کو تلاش کرنے اور ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں کہ اسی میں  ان کی اور دوسروں کی دنیا و آخرت کابھلا ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : تم میں  سے کوئی شخص اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکا دیکھتا ہے اوراپنی آنکھ کوبھول جاتا ہے ۔ (شعب الایمان، الرابع والاربعون من شعب الایمان... الخ، فصل فیما ورد... الخ، ۵ / ۳۱۱، الحدیث: ۶۷۶۱)

حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا فرماتے ہیں : جب تم اپنے ساتھی کے عیب ذکر کرنے کا ارادہ کرو تو (اس وقت) اپنے عیبوں کو یاد کرو ۔ (شعب الایمان، الرابع والاربعون من شعب الایمان... الخ، فصل فیما ورد... الخ، ۵ / ۳۱۱، الحدیث: ۶۷۵۸)

انسان کی عزت و حرمت کی حفاظت میں  اسلام کا کردار

دینِ اسلام کی نظر میں ایک انسان کی عزت و حرمت کی قدر بہت زیادہ ہے اور اگر وہ انسان مسلمان بھی ہو تو اس کی عزت و حرمت کی قدر اسلام کی نظر میں مزید بڑھ جاتی ہے ، اسی لیے دینِ اسلام نے ان تما م اَفعال سے بچنے کا حکم دیا ہے جن سے کسی انسان کی عزت و حرمت پامال ہوتی ہو ، ان افعال میں سے ایک فعل کسی کے عیب تلاش کرنا اور اسے دوسروں کے سامنے بیان کر دینا ہے جس کا انسانوں کی عزت و حرمت ختم کرنے میں بہت بڑ اکردار ہے ، اس وجہ سے جہاں اس شخص کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا عیب لوگوں کے سامنے ظاہر ہو جائے وہیں  وہ شخص بھی لوگوں  کی نفرت اور ملامت کا سامنا کرتا ہے جو عیب تلاش کرنے اور انہیں ظاہر کرنے میں لگا رہتا ہے ، یوں عیب تلاش کرنے والے اور جس کا عیب بیان کیا جائے ، دونو ں کی عزت و حرمت چلی جاتی ہے ، اس لیے دینِ اسلام نے عیبوں  کی تلاش میں  رہنے اور انہیں  لوگوں  کے سامنے شرعی اجازت کے بغیر بیان کرنے سے منع کیا اور اس سے باز نہ آنے والوں کو سخت وعیدیں سنائیں تاکہ ان وعیدوں سے ڈر کر لوگ اس بُرے فعل سے باز آ جائیں اور سب کی عزت و حرمت کی حفاظت ہو ۔

تیسرا حکم یہ دیا گیا کہ ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو ، کیا تم میں  کوئی یہ پسند کرے گا کہ اپنے مَرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے ، یقینا یہ تمہیں ناپسند ہوگا ، تو پھر مسلمان بھائی کی غیبت بھی تمہیں گوارا نہ ہونی چاہیے کیونکہ اس کو پیٹھ پیچھے برا کہنا اس کے مرنے کے بعد اس کا گوشت کھانے کی مثل ہے کیونکہ جس طرح کسی کا گوشت کاٹنے سے اس کو ایذا ہوتی ہے اسی طرح اس کی بدگوئی کرنے سے اسے قلبی تکلیف ہوتی ہے اور درحقیقت عزت و آبرُو گوشت سے زیادہ پیاری ہے ۔

شانِ نزول : جب سرکارِ کل عالَم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جہاد کےلیے روانہ ہوتے اور سفر فرماتے تو ہر دو مال داروں کے ساتھ ایک غریب مسلمان کو کردیتے کہ وہ غریب اُن کی خدمت کرے اور وہ اسے کھلائیں پلائیں ، یوں ہر ایک کاکا م چلے ، چنانچہ اسی دستور کے مطابق حضرت سلمان رَضِیَ اللہ عَنْہُ دو آدمیوں کے ساتھ کیے گئے تھے ، ایک روز وہ سوگئے اور کھانا تیار نہ کرسکے تو اُن دونوں نے انہیں کھانا طلب کرنے کےلیے رسولِ کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  بھیجا ، حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کچن کے خادم حضرتِ اُسامہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ تھے ، اُن کے پاس کھانے میں سے کچھ باقی رہا نہ تھا ، اس لیے انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے ۔ حضرت سلمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہی آکر کہہ دیا تو اُن دونوں  رفیقوں  نے کہا : اُسامہ (رَضِیَ اللہ عَنْہُ) نے بخل کیا ۔ جب وہ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ارشاد فرمایا ’’ میں  تمہارے منہ میں  گوشت کی رنگت دیکھتا ہوں ۔ اُنہوں نے عرض کی:ہم نے گوشت کھایا ہی نہیں ۔ ارشادفرمایا ’’ تم نے غیبت کی اور جو مسلمان کی غیبت کرے اُس نے مسلمان کا گوشت کھایا ۔ (تفسیر خازن سورہ الحجرات آیت : ۱۲، ۴ / ۱۷۰-۱۷۱،چشتی)

اس آیت میں  غیبت کرنے سے منع کیا گیا اور ایک مثال کے ذریعے اس کی شَناعَت اور برائی کو بیان فرمایاگیا ہے ، کثیر اَحادیث میں  بھی اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ۔

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا چیز ہے ؟ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ نے عرض کی : اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی زیادہ جانتے ہیں ۔ ارشاد فرمایا ’’ تم اپنے بھائی کا وہ عیب بیان کرو جس کے ذکر کو وہ ناپسند کرتا ہے ۔ عرض کی گئی : اس کے بارے میں  آپ کی کیا رائے ہے کہ اگر میرے بھائی میں وہ عیب موجود ہو جسے میں  بیان کرتا ہوں ۔ ارشاد فرمایا : تم جو عیب بیان کررہے ہو اگروہ اس میں  موجود ہوجب ہی تووہ غیبت ہے  اوراگراس میں  وہ عیب نہیں  ہے تو پھر وہ بہتان ہے ۔ (صحیح مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تحریم الغیبۃ، ص۱۳۹۷، الحدیث: ۷۰(۲۵۸۹))

حضرت ابوسعید اور حضرت جابر رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’ غیبت زِنا سے بھی زیادہ سخت چیز ہے ۔ لوگوں  نے عرض کی ، یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، غیبت زنا سے زیادہ سخت کیسے ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’ مرد زِنا کرتا ہے پھر توبہ کرتا ہے تواللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبو ل فرماتا ہے اور غیبت کرنے والے کی تب تک مغفرت نہ ہو گی جب تک وہ معاف نہ کر دے جس کی غیبت کی ہے ۔ (شعب الایمان، الرابع والاربعون من شعب الایمان... الخ، فصل فیما ورد... الخ، ۵ / ۳۰۶، الحدیث: ۶۷۴۱،چشتی)

حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جب مجھے معراج کرائی گئی تومیں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے ناخن پیتل کے تھے اوروہ ان ناخنوں سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے ،میں  نے پوچھا:اے جبریل! عَلَیْہِ السَّلَام، یہ کون لوگ ہیں  ؟انہوں  نے کہا: یہ وہ افراد ہیں  جولوگوں  کاگوشت کھاتے اوران کی عزتوں  کوپامال کرتے تھے ۔ (سنن ابوداؤد کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، ۴ / ۳۵۳، الحدیث: ۴۸۷۸)

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جس نے دنیامیں  اپنے بھائی کا گوشت کھایا اس کے پاس قیامت کے دن اس کے بھائی کا گوشت لایا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا تم جس طرح دنیا میں اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتے تھے اب زندہ کا گوشت کھاٶ وہ چیخ مارتا ہوا اور منہ بگاڑتا ہوا کھائے گا ۔ (معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۴۵۰، الحدیث: ۱۶۵۶)

ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ انہیں  غور سے پڑھے اور غیبت سے بچنے کی بھر پور کوشش کرے ، فی زمانہ اس حرام سے بچنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے کیونکہ آج کل مسلمانوں  میں  یہ بلا بہت پھیلی ہوئی ہے اور وہ اس سے بچنے کی طرف بالکل توجہ نہیں کرتے اور ان کی بہت کم مجلسیں ایسی ہوتی ہیں جو چغلی اور غیبت سے محفوظ ہوں ۔

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : غیبت کے یہ معنیٰ ہیں کہ کسی شخص کے پوشیدہ عیب کو (جس کو وہ دوسروں کے سامنے ظاہر ہونا پسند نہ کرتا ہو) اس کی برائی کرنے کے طور پر ذکر کرنا اور اگر اس میں وہ بات ہی نہ ہو تو یہ غیبت نہیں بلکہ بہتان ہے ۔ (بہار شریعت، حصہ شانزدہم، ۳ / ۵۳۲)

غیبت جس طرح زبان سے ہوتی ہے (اسی طرح) فعل سے بھی ہوتی ہے ، صراحت کے ساتھ برائی کی جائے یا تعریض و کنایہ کے ساتھ ہو سب صورتیں حرام ہیں ، برائی کو جس نَوعِیَّت سے سمجھائے گا سب غیبت میں داخل ہے ۔ تعریض کی یہ صورت ہے کہ کسی کے ذکر کرتے وقت یہ کہا کہ ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میں ایسا نہیں ‘‘ جس کا یہ مطلب ہوا کہ وہ ایسا ہے ۔ کسی کی برائی لکھ دی یہ بھی غیبت ہے ، سر وغیرہ کی حرکت بھی غیبت ہو سکتی ہے ، مثلاً کسی کی خوبیوں کا تذکرہ تھا اس نے سر کے اشارہ سے یہ بتانا چاہا کہ اس میں جو کچھ برائیاں ہیں ان سے تم واقف نہیں ، ہونٹوں اور آنکھوں اور بھوؤں اور زبان یا ہاتھ کے اشارہ سے بھی غیبت ہو سکتی ہے ۔

ایک صورت غیبت کی نقل ہے مثلاً کسی لنگڑے کی نقل کرے اور لنگڑا کر چلے ، یا جس چال سے کوئی چلتا ہے اس کی نقل اتاری جائے یہ بھی غیبت ہے ، بلکہ زبان سے کہہ دینے سے یہ زیادہ برا ہے کیونکہ نقل کرنے میں پوری تصویر کشی اور بات کو سمجھانا پایا جاتا ہے (جب) کہ کہنے میں  وہ بات نہیں  ہوتی ۔ (بہار شریعت، حصہ شانزدہم، ۳ / ۵۳۶)

جس طرح زندہ آدمی کی غیبت ہو سکتی ہے مرے ہوئے مسلمان کو برائی کے ساتھ یاد کرنا بھی غیبت ہے ، جبکہ وہ صورتیں نہ ہوں جن میں عیوب کا بیان کرنا غیبت میں داخل نہیں ۔ مسلم کی غیبت جس طرح حرام ہے کافر ذمی کی بھی ناجائز ہے کہ ان کے حقوق بھی مسلم کی طرح ہیں (جبکہ) کافر حربی کی برائی کرنا غیبت نہیں ۔

کسی کی برائی اس کے سامنے کرنا اگر غیبت میں داخل نہ بھی ہو جبکہ غیبت میں  پیٹھ پیچھے برائی کرنا معتبر ہو مگر یہ اس سے بڑھ کر حرام ہے کیونکہ غیبت میں  جو وجہ ہے وہ یہ ہے کہ ایذاءِ مسلم ہے وہ یہاں بدرجہ اَولی پائی جاتی ہے غیبت میں  تو یہ اِحتمال ہے کہ اسے اطلاع ملے یا نہ ملے اگر اسے اطلاع نہ ہوئی تو ایذا بھی نہ ہوئی ، مگر احتمالِ ایذا کو یہاں ایذا قرار دے کر شرعِ مُطَہَّر نے حرام کیا اور مونھ پر اس کی مذمت کرنا تو حقیقۃً ایذا ہے پھر یہ کیوں  حرام نہ ہو ۔

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : بعض لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ تم فلاں کی غیبت کیوں کرتے ہو ، وہ نہایت دلیری کے ساتھ یہ کہتے ہیں مجھے اس کا ڈر آپڑا ہے چلو میں اس کے مونھ پر یہ باتیں کہہ دوں گا ، ان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ پیٹھ پیچھے اس کی برائی کرنا غیبت و حرام ہے اور مونھ پر کہو گے تو یہ دوسرا حرام ہو گا ، اگر تم اس کے سامنے کہنے کی جرأت رکھتے ہو تو اس کی وجہ سے غیبت حلال نہیں  ہو گی ۔

جس کے سامنے کسی کی غیبت کی جائے اسے لازم ہے کہ زبان سے انکار کر دے مثلاً کہدے کہ میرے سامنے اس کی برائی نہ کرو ۔ اگر زبان سے انکار کرنے میں اس کو خوف و اندیشہ ہے تو دل سے اسے برا جانے اور اگر ممکن ہو تو یہ شخص جس کے سامنے برائی کی جارہی ہے وہاں سے اٹھ جائے یا اس بات کو کاٹ کر کوئی دوسری بات شروع کر دے ایسا نہ کرنے میں سننے والا بھی گناہ گار ہو گا ، غیبت کا سننے والا بھی غیبت کرنے والے کے حکم میں  ہے ۔ (بہار شریعت حصہ شانزدہم، ۳ / ۵۳۷-۵۳۸)

جس کی غیبت کی اگر اس کو اس کی خبر ہو گئی تو اس سے معافی مانگنی ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے سامنے یہ کہے کہ میں نے تمہاری اس اس طرح غیبت یا برائی کی تم معاف کردو ، اس سے معاف کرائے اور توبہ کرے تب اس سے بریٔ الذمہ ہوگا اور اگر اس کو خبر نہ ہوئی ہو تو توبہ اور ندامت کافی ہے ۔

جس کی غیبت کی ہے اسے خبر نہ ہوئی اور اس نے توبہ کرلی اس کے بعد اسے خبر ملی کہ فلاں نے میری غیبت کی ہے آیا اس کی توبہ صحیح ہے یا نہیں ؟ اس میں  علما کے دو قول ہیں ایک قول یہ ہے کہ وہ توبہ صحیح ہے اللہ تعالیٰ دونوں کی مغفرت فرما دے گا ، جس نے غیبت کی اس کی مغفرت توبہ سے ہوئی اور جس کی غیبت کی گئی اس کو جو تکلیف پہنچی اور اس نے در گزر کیا ، اس وجہ سے اس کی مغفرت ہو جائے گی ۔

اور بعض علما یہ فرماتے ہیں کہ اس کی توبہ مُعَلَّق رہے گی اگر وہ شخص جس کی غیبت ہوئی خبر پہنچنے سے پہلے ہی مر گیا تو توبہ صحیح ہے اور توبہ کے بعد اسے خبر پہنچ گئی تو صحیح نہیں ، جب تک اس سے معاف نہ کرائے ۔ بہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور معافی مانگنا ضروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضرور ہے کہ میں  نے جھوٹ کہا تھا جو فلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا ۔

معافی مانگنے میں  یہ ضرور ہے کہ غیبت کے مقابل میں  اس کی ثناءِ حسن (اچھی تعریف) کرے اور اس کے ساتھ اظہارِ محبت کرے کہ اس کے دل سے یہ بات جاتی رہے اور فرض کرو اس نے زبان سے معاف کر دیا مگر اس کا دل اس سے خوش نہ ہوا تو اس کا معافی مانگنا اور اظہارِ محبت کرنا غیبت کی برائی کے مقابل ہو جائے گا اور آخرت میں  مُؤاخَذہ نہ ہوگا ۔

اس نے معافی مانگی اور اس نے معاف کردیا مگر اس نے سچائی اور خلوصِ دل سے معافی نہیں  مانگی تھی محض ظاہری اور نمائشی یہ معافی تھی ، تو ہوسکتا ہے کہ آخرت میں  مُؤاخذہ ہو ، کیونکہ اس نے یہ سمجھ کر معاف کیا تھا کہ یہ خلوص کے ساتھ معافی مانگ رہا ہے ۔

حضرت امام غزالی عَلَیْہِ الرَّحْمَہ یہ فرماتے ہیں ، کہ جس کی غیبت کی وہ مر گیا یا کہیں غائب ہو گیا اس سے کیونکر معافی مانگے یہ معاملہ بہت دشوار ہو گیا ، اس کو چاہیے کہ نیک کام کی کثرت کرے تاکہ اگر اس کی نیکیاں غیبت کے بدلے میں اسے دے دی جائیں ، جب بھی اس کے پاس نیکیاں  باقی رہ جائیں ۔ (بہار شریعت حصہ شانزدہم، ۳ / ۵۳۸-۵۳۹) ۔ (مزید حصّہ پنجم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...