Tuesday 13 December 2022

قرآن کا پیغامِ عمل مسلمانوں کے نام حصّہ اوّل

0 comments
قرآن کا پیغامِ عمل مسلمانوں کے نام حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : اللہ رب العزت کی نازل کردہ کتاب قرآن مجید ساری دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی آسمانی کتاب ہے ۔ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدً لِّلْمُتَّقِین ۔ (سورہ البقرہ) ۔ ترجمہ : وہ بلند رتبہ کتاب (قرآن) کوئی شک کی جگہ نہیں اس میں ہدایت ہے ڈر والوں کو ۔ لَارَیْبَ : کوئی شک نہیں ۔ آیت کریمہ کے اس حصے میں قرآن مجید کا وصف خاص بیان کیا گیا کہ یہ ایسی بلند شان اور عظمت و شرف والی کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں کیوں کہ شک اس چیز میں ہوتا ہے ۔ جس کی حقانیت پر کوئی دلیل نہ ہو جب کہ قرآن پاک اپنی حقانیت کی ایسی واضح اور مضبوط دلیلیں رکھتا ہے جو ہر صاحبِ انصاف اور عقل مند انسان کو اس بات کا یقین کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں کہ یہ کتاب حق اور سچ ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہے ، تو جیسے اندھے کے انکار سے سورج کا وجود مشکوک نہیں ہوتا ایسے ہی کسی بے عقل مخالف کے شک اور انکار کرنے سے یہ کتاب مشکوک نہیں ہو سکتی ۔ جب ہم اس کائنات میں غورو فکر کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو اس کائنات میں بڑی مرکزی اہمیت حاصل ہے اور اس کائنات کی ہر چیز اس کےلیے مسخر ہے اور یہ انسان اپنی عقل کی بناء پر ہر شے کو اپنے تصرف میں لارہا ہے ۔ یوں انسان اس کائنات کا بادشاہ اور شہنشاہ دکھائی دیتا ہے ۔ اتنی زیادہ قوت و طاقت کی بناء پر اس کے پھسلنے کے خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں ۔ ان سے بچانے کےلیے انسان کو باری تعالیٰ نے اپنا کلام قرآن عطا کیا ہے اور بلاشبہ انسان اور قرآن اس کائنات کی دو مسلمہ حقیقتیں ہیں اور ان دونوں میں سے قرآن نے انسان کے بارے میں بتادیا ہے کہ وہ انسان کیا ہے ، اب انسان کے لئے سب زیادہ ضروری ہے کہ قرآن کو پڑھے ، سمجھے اور بار بار اس میں غور و فکر کرے تاکہ وہ اپنی انسانیت کی حقیقت کو پاجائے اور قرآن کے نزول سے لے کر اور ہدایت کی فراہمی اور رسانی تک سارے امور قرآن کو بخوبی جان لے اور دوسروں کو اس قرآن کی آفاقی تعلیمات سے صحیح معنوں میں آگاہ کرے ۔ انسان کو بندہ رحمن بننے کےلیے قرآن سے بہتر کوئی چیز راہنمائی نہیں دے سکتی ۔

جب ہم اس کائنات میں غورو فکر کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو اس کائنات میں بڑی مرکزی اہمیت حاصل ہے اور اس کائنات کی ہر چیز اس کےلیے مسخر ہے اور یہ انسان اپنی عقل کی بناء پر ہر شے کو اپنے تصرف میں لارہا ہے ۔ یوں انسان اس کائنات کا بادشاہ اور شہنشاہ دکھائی دیتا ہے ۔ اتنی زیادہ قوت و طاقت کی بناء پر اس کے پھسلنے کے خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں ۔ ان سے بچانے کےلیے انسان کو باری تعالیٰ نے اپنا کلام قرآن عطا کیا ہے اور بلاشبہ انسان اور قرآن اس کائنات کی دو مسلمہ حقیقتیں ہیں اور ان دونوں میں سے قرآن نے انسان کے بارے میں بتادیا ہے کہ وہ انسان کیا ہے ، اب انسان کے لئے سب زیادہ ضروری ہے کہ قرآن کو پڑھے ، سمجھے اور بار بار اس میں غور و فکر کرے تاکہ وہ اپنی انسانیت کی حقیقت کو پاجائے اور قرآن کے نزول سے لے کر اور ہدایت کی فراہمی اور رسانی تک سارے امور قرآن کو بخوبی جان لے اور دوسروں کو اس قرآن کی آفاقی تعلیمات سے صحیح معنوں میں آگاہ کرے ۔ انسان کو بندہ رحمن بننے کےلیے قرآن سے بہتر کوئی چیز راہنمائی نہیں دے سکتی ۔ اب ہم قرآن ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ یہ کب نازل ہوا اور اس کے نازل کرنے کا مقصد رب کے نزدیک کیا ہے اور انسان نے اس قرآن کے بارے میں کیا نقطہ نظر اپنایا ہوا ہے ؟ سورہ بقرہ میں ارشاد فرمایا : شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ-فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ-وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘-وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ۔ (سورہ البقرة آیت نمبر 185)
 ترجمہ : رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں۔ اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو ۔

ہماری خوش نصیبی ہے کہ باری تعالیٰ نے ہمیں اپنی زندگی میں شہر رمضان عطا فرمایا اور یہ نزول قرآن کا مہینہ ہے اور وہ قرآن جو لوگوں کے لئے اس لئے نازل کیا گیا تاکہ وہ اس قرآن کے ذریعے ہدایت پائیں اور اس قرآن کے ذریعے حق و باطل، سچ اور جھوٹ کے درمیان امتیاز کریں اور اس قرآن کو اپنے لئے ساری زندگی میں سرچشمہ ہدایت ’’هدی للناس‘‘ سمجھیں اور اس کی ’’بيِّنٰت‘‘ سے مستفید ہوں اور اس قرآن سے راہنمائی حاصل کریں ۔

قرآن کا نزول ہدایت کے لیے ہے

اس آیہ کریمہ میں ’’ہدی للناس‘‘ کے الفاظ ہمیں پکار پکار کر یہ دعوت دے رہے ہیں کہ قرآن کے نزول کا مقصد کیا ہے۔ قرآن ہمیں کیوں عطا کیا گیا اور قرآن کو ہمارے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ کیوں کیا گیا۔ قرآن کے پڑھنے کی ہمیں ترغیب کیوں دی گئی۔ قرآن کے ایک ایک حرف کو پڑھنے پر دس نیکیوں کا وعدہ کیوں کیا گیا؟ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : من قرا حرفا من کتاب الله فله به حسنة والحسنة بعشر امثالها ولا اقول الم حرف ولکن الف حرف و لام حرف و ميم حرف ۔
ترجمہ : جس شخص نے قرآن حکیم کا ایک حرف پڑھا اس کے لئے نیکی ہے اور یہ ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے میں یہ نہیں کہتا الم ایک حرف ہے بلکہ اس میں الف الگ حرف ہے لام الگ حرف ہے اور میم الگ حرف ہے۔ ہر ایک حرف پر ثواب دس نیکیوں کا ہے ۔ (جامع ترمذی فضائل القرآن)

قرآن کے الفاظ و کلمات کو پڑھنے پر اتنا زیادہ اجر و ثواب عطا کرنے کا وعدہ کیوں کیا گیا۔ ان ساری ترغیبات کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم قرآن پڑھنے کی طرف راغب ہوجائیں اور قرآن پڑھتے پڑھتے اس سے ہدایت اخذ کرنے کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ قرآن کے ذریعے ہم اپنے دین کو سیکھ لیں۔ قرآن کے ذریعے ہم اپنے مولا کو پالیں اور قرآن کے ذریعے اس کی توحید کی معرفت حاصل کرلیں اور قرآن کے ذریعے ہم اس کی بندگی کی حقیقت کو پالیں۔ حتی کہ قرآن کے ذریعے ہم اپنے مولا کی رضا کو پالیں ۔

الہامی کتابوں کے نزول کا مقصد ہدایت ہے

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ باری تعالیٰ نے جتنی بھی کتابیں آج تک انبیاء علیہم السلام پر نازل کی ہیں۔ ان سب کا مقصد انسانوں کی ہدایت رہا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کو یہ صحائف اور یہ کتب اس لئے دی گئیں تاکہ ان کے ماننے والے اور ان پر ایمان لانے والے ان کتب اور صحائف سے ہدایت حاصل کریں۔ چنانچہ اس حوالے سے حضرت موسیٰ علی السلام اور آپ پر نازل کی گئی کتاب تورات کے بارے میں باری تعالیٰ سورۃ البقرہ اور سورۃ المومنون میں ارشاد فرماتا ہے : وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ ۔ (سورہ البقرہ آیت 53)
 ترجمہ : اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں تمیز کردینا کہ کہیں تم راہ پر آؤ ۔

فرقان کے کئی معانی کئے گئے ہیں : (1) فرقان سے مراد بھی تورات ہی ہے ۔ (2) کفر وایمان میں فرق کرنے والے معجزات جیسے عصا اور یدِ بیضاء وغیرہ ۔ (3)حلال و حرام میں فرق کرنے والی شریعت مراد ہے ۔ (تفسیر مدارک، البقرۃ الآیۃ : ۵۳، ص۵۲)

سورۃ المومنون میں یوں ارشاد فرمایا : فَقَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا وَ قَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ (47) فَكَذَّبُوْهُمَا فَكَانُوْا مِنَ الْمُهْلَكِیْنَ (48) وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ لَعَلَّهُمْ یَهْتَدُوْنَ (49) ۔
 ترجمہ : تو بولے کیا ہم ایمان لے آئیں اپنے جیسے دو آدمیوں پر اور ان کی قوم ہماری بندگی کررہی ہے ۔ تو انہوں نے ان دونوں کو جھٹلایا تو ہلاک کیے ہوؤں میں ہو گئے ۔ اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی کہ ان کو ہدایت ہو ۔

اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَاالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُنہیں  ایمان کی دعوت دی تو کہنے لگے’’کیا ہم اپنے جیسے دو آدمیوں  یعنی حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَاالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پرایمان لے آئیں  حالانکہ ان کی قوم بنی اسرائیل ہمارے زیرِ فرمان ہے، تو یہ کیسے گوارا ہو کہ اسی قوم کے دو آدمیوں  پر ایمان لا کر اُن کے اطاعت گزار بن جائیں ۔ یہ لوگ اپنی تکذیب پر قائم رہے یہاں  تک کہ دریا میں  غرق ہو کر ہلاک کئے جانے والوں  میں  سے ہو گئے ۔ (تفسیر خازن سورہ المؤمنون الآیۃ: ۴۷-۴۸، ۳ / ۳۲۶)(تفسیر ابوسعود سورہ المؤمنون الآیۃ: ۴۷-۴۸، ۴ / ۴۹-۵۰،چشتی)

ارشاد فرمایا کہ ہم نے فرعون اور اس کی قوم کی ہلاکت کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کتاب یعنی توریت شریف عطا فرمائی تاکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم بنی اسرائیل ا س کے احکامات پر عمل کر کے سیدھے راستے کی ہدایت پاجائیں ۔ (تفسیر روح البیان سورہ المؤمنون الآیۃ: ۴۹، ۶ / ۸۶)

ان دونوں آیات میں یہ الفاظ ’’اذ اتينا موسیٰ الکتب‘‘ اور ’’لقد اتينا موسی الکتب‘‘ کے الفاط ہمیں اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کتاب تورات عطا کی لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کتاب باری تعالیٰ نے انہیں کیونکر عطا کی؟ کس مقصد کے لئے دی؟ اس کتاب کے اور دیگر کتب سماوی کے نازل کرنے کا مقصد رب کے نزدیک کیا ہے؟ ان ہی آیات کے اگلے الفاظ ان کتابوں کے نزول کے مقصد کو واضح کررہے ہیں کہ وہ الفاظ یہ ہیں: ’’لعلهم يهتدون‘‘ اور ’’لعلکم تهتدون‘‘ تاکہ وہ ہدایت پائیں اور تاکہ تم ہدایت پاؤ۔ گویا کتب سماوی اور ہدایت لازم و ملزوم ہے ۔ انبیاء علیہم السلام اور ان کی کتب کے بغیر ہدایت کو نہیں پایا جاسکتا ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات اور قرآن ہدایت ہیں

حضرت امام مالک اپنی کتاب میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : عن مالک انه بلغه ان رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم قال ترکت فيکم امرين لن تضلوا ماتمسکتم بهما کتاب الله وسنة نبيه ۔ (رواه مالک والحاکم عن ابی هريره رضی الله عنه)
ترجمہ : میں تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اگر تم انہیں تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ایک اللہ کی کتاب اور دوسری تمہارے نبی کی سنت ۔

یہ حدیث مبارکہ بھی ہمیں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمسک میں ہی ہدایت ہے۔ جس نے کتاب اللہ کو اور سنت رسول  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سختی سے پکڑ لیا وہ کبھی بھی گمراہ نہ ہوگا۔ وہ ہدایت پر ہی رہے گا۔ لیکن اب سوال یہ ہے کتاب اللہ یعنی قرآن کا تمسک کیسے کیا جائے، قرآن کو مضبوطی سے کیسے پکڑا جائے، قرآن سے اپنا تعلق کیسے قائم کیا جائے اور قرآن کو اپنی زندگی میں کس طرح اختیار کیا جائے۔ قرآن کے ساتھ ہمارا ربط کیسا ہو اور قرآن ہماری زندگیوں میں کیسے نظر آئے۔ ہمارا عمل قرآن کے مطابق کیسے ہو۔ ہمارا قول قرآن کے مطابق کیسے ہو۔ ہمارا خلق قرآن کے مطابق کیسے ہو۔ ہماری سیرت اور ہماری شخصیت قرآن کے مطابق کیسے ہو۔ ہم کیسے یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ قرآن کے ساتھ ہمارا وہ تعلق قائم ہوگیا ہے جس کا حکم اللہ اور رسول نے دیا ہے اور یوں ہماری ساری زندگی قرآن کے مطابق ہو اور ہم قرآن سے باہر نہ ہوں تاکہ ہمیں قرآن کے نزول کا مقصد ہدایت عظمیٰ حاصل ہو جائے ۔

رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذمہ داری ہدایت تک پہنچانا ہے

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : اگر تم قرآن کو بھی اور میرے نبی کی سنت کو بھی ایک ہی جگہ ایک شخص میں دیکھنا چاہتے ہو تو وہ میرے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے۔ جس نے تمہیں قرآن بھی پہنچایا اور اپنی سنت بھی تمہیں سکھائی ہے ۔ اس لیے اس رسول کی یہی ذمہ داری تھی ۔

وَمَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ ۔
ترجمہ : اور رسول (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر (احکام کو) صریحاً پہنچا دینے کے سوا (کچھ لازم) نہیں ہے ۔ (سورہ النور آیت نمبر 54)

گویا اس نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے احکام کو اور اللہ کے دین کو قرآن اور اپنی سنت کے ذریعے ’’البلغ المبين‘‘ یعنی واضح طور پر پہنچادیا ہے ۔

نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا فرض نبوت بتمام و کمال ادا کر دیا ہے ۔ اللہ کا دین تم تک پہنچادیا ہے اور اس دین کے پہنچانے پر تم بھی خطبہ حجۃ الوداع کی صورت میں اقرار کر چکے ہو اور اللہ بھی تمہارے اس اقرار پر گواہ و شاہد ہے ۔

ہدایت کی عملی صورت اطاعت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے

اب تمہاری فقط یہی ذمہ داری ہے : وان تطيعوه تهتدوا ۔
ترجمہ : اگر تم ان کی (رسول کی) اطاعت کرو تو ہدایت پاجاؤ گے ۔ (النور آیت 54)

گویا رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں تمہارے لیے ہدایت کا سامان رکھ دیا گیا ہے ۔ اب رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت تمہیں کیسے اختیار کرنی ہے ۔ اس اطاعت کی عملی صورت یہ ہے کہ تم رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کہی ہوئی ہر بات کو، ہر حدیث کو، ہر فرمان کو اپنا عمل بنالو۔ تم اپنی گفتار کو رسول اللہ کی گفتار پر استوار کرو۔ تم اپنے قول کو رسول اللہ کے قول سے روشنی دو۔ تم اپنے فعل کو فعل رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے راہنمائی دو۔ تم اپنے خلق کو خلق رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آشنا کرو۔ تم اپنی ذات کو رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں اطاعت کے باب میں فنا کردو۔ ’’تھتدوا‘‘ تم ہدیات پاجاؤ گے۔ اس لئے کہ رسول اللہ کی اطاعت خود اللہ کی اطاعت ہے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے : مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ ﷲَ ۔
ترجمہ : جس نے رسول (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم مانا بےشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 80)

گویا قرآن اس مقام پر واضح کررہا ہے کہ تمہیں ہدایت اس وقت تک میسر نہیں آسکتی جب تک تم خود کو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں ڈھال نہ لو اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا پیکر مجسم نہ بن جاؤ اور اطاعت رسول کو اپنا اوڑھنا بچھونا نہ بنالو اور اپنی حیات کو اطاعت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آشنا نہ کردو، گویا ہدایت عطاکئے جانے کی ضمانت اطاعت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔

اطاعت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نتیجہ صراط مستقیم ہے

قرآن ہدایت کو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے ساتھ لازم و ملزوم کرتا ہے۔ اس لئے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سراپا ہدایت ہے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو باری تعالیٰ نے ساری کائنات کےلیے ہادی بنایا ہے۔ اس لئے ارشاد فرمایا : وَاِنَّکَ لَتَهْدِيْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ۔ (سورہ الشوریٰ آیت 52)
ترجمہ : اور بے شک آپ ہی صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت عطا فرماتے ہیں ۔

اس آیت کریمہ نے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعارف ہی صراط مستقیم کی ہدایت عطا کرنے والا کرایا ہے اور آپ کی ذات سے وابستہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو صراط مستقیم کی ہدایت مل گئی اور انسان کو وہ ہدایت مل گئی جو اس کی زندگی کا حاصل ہے ۔ جو اس کا زندگی کا مقصود ہے ۔

اتباع فنائیت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ہے

رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے ہدایت حاصل کرنے کی پہلی صورت اطاعت رسول ہے جس کا ذکر ہم کرچکے، دوسری صورت کا بھی قرآن ذکر کرتا ہے اور وہ ہے اتباع رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّکُمْ تَهْتَدُوْنَ ۔ (سورہ الاعراف آیت نمبر 158)
ترجمہ : اور تم انہی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پاسکو ۔

اب اس آیت کریمہ میں ہدایت عطا کئے جانے کا انحصار رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع پر رکھ دیا گیا ہے جو اتباع رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈھلے گا وہی ہدایت پانے والا ہوگا جو خودکو اتباع رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیکر بنائے گا وہ ہدایت یافتہ ہوگا۔ جو خود کو رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں فنا کرے گا وہی ہدایت کا حقدار ہوگا۔ اتباع رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقوش پا کی تلاش میں خود کو فنا کردینا ہے۔ اتباع میں دل کا غلبہ ہوتا ہے اور اطاعت میں عقل کا غلبہ ہوتا ہے۔اطاعت، قول و فعل رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ جانتی ہے۔ اتباع، قول و فعل رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ بھی نہیں جانتی ۔

تصور اطاعت اور اتباع کا باہمی تعلق

اطاعت میں محبت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلبہ ہوتا ہے اور اتباع میں عشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلبہ و تفوق ہوتا ہے۔ اطاعت، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی اداؤں کو اختیار کرنے کا نام ہے اور اتباع، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ادا کو اختیار کرنے کا نام ہے۔ اطاعت میں اپنی شخصیت کا احساس رہتا ہے اور اتباع میں رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت ہی باقی رہ جاتی ہے۔ اطاعت میں اپنے وجود کا خیال رہتا ہے۔ اتباع میں اپنا وجود بھی وجود مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فنا کردیا جاتا ہے ۔ اس لیے ارشاد فرمایا : واتبعوه لعلکم تهتدون ۔
ترجمہ : اس رسول کی اتباع میں ڈھل جاؤ تاکہ تم ہدایت یافتہ ہوجاؤ ۔

نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہی انسان کو ’’لعلکم تهتدون‘‘ کا اعزاز بھی دیتی ہے اور ’’يحببکم الله‘‘ کا مقام رفیع اور اس دنیا کی سب سے بڑی نعمت اور سب سے بڑا انعام، سب سے بڑا اکرام اور شان بندگی کا سب سے بڑا مقام بھی رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہی عطا کرتی ہے ۔ اس لیے ارشاد فرمایا : قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 31)
ترجمہ : اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ جب ہی سچا ہوسکتا ہے جب آدمی نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرنے والاہو اور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اختیار کرے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہُ عَنْہُما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم قریش کے پاس تشریف لائے جنہوں نے خانۂ  کعبہ میں بت نصب کئے تھے اور انہیں سجا سجا کر ان کو سجدہ کررہے تھے ۔ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، اے گروہِ قریش ! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ،تم اپنے آباء و اجداد حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین سے ہٹ گئے ہو۔ قریش نے کہا: ہم ان بتوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی محبت میں پوجتے ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے قریب کریں ۔ اس پر یہ آیت ِ کریمہ نازل ہوئی ۔ (تفسیر خازن سورہ اٰل عمران الآیۃ: ۳۱، ۱ / ۲۴۳،چشتی)

اور بتایا گیا کہ محبتِ الہٰی کا دعویٰ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اور فرماں برداری کے بغیر قابلِ قبول نہیں۔ جو اس دعوے کا ثبوت دینا چاہتا ہے وہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اختیار کرے اور چونکہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بت پرستی سے منع فرمایا ہے تو بت پرستی کرنے والا نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نافرمان اور محبتِ الٰہی کے دعوے میں جھوٹا ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ  مدینہ کے یہودی کہا کرتے تھے کہ ہم کو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتبا ع کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں ۔ تب یہ آیت اتری ۔ (تفسیر خازن سورہ اٰل عمران الآیۃ: ۳۱، ۱ / ۲۴۳)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی  رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ یہی قول قوی ہے کیونکہ سورۂ آلِ عمران مدنی ہے ۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کو نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اور پیروی کرنا ضروری ہے ۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَاﰳ   الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ۪-فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ ۔ (سورہ اعراف آیت نمبر ۱۵۸)
ترجمہ : تم فرماؤ : اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں جس کےلیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر جونبی ہیں ، ( کسی سے) پڑھے ہوئے نہیں ہیں ، اللہ اور اس کی تمام باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی غلامی کرو تاکہ تم ہدایت پالو ۔

حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ  فرماتے ہیں : ایک مرتبہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حاضر ہوئے اور عرض کی : ہم یہودیوں کی کچھ باتیں سنتے ہیں جو ہمیں بھلی لگتی ہیں کیا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اجازت دیتے ہیں کہ کچھ لکھ بھی لیا کریں ؟ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’ کیا تم یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح حیران ہو! میں تمہارے پاس روشن اور صاف شریعت لایا اور اگر آج حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی زندہ ہوتے تو انہیں میری اتباع کے بغیر چارہ نہ ہوتا ۔ (شعب الایمان الرابع من شعب الایمان ذکر حدیث جمع القرآن ، ۱ / ۱۹۹، الحدیث: ۱۷۶،چشتی)

صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم میں نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کے جذبے کا اندازہ ان واقعات سے لگایا جاسکتا ہے : ⬇

حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر فرمایا ’’خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے،نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان ۔ اگر میں نے نبی کریم  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے میں ہر گز بوسہ نہ دیتا ۔ (مسلم، کتاب الحج، باب استحباب تقبیل الحجر الاسود فی الطواف، ص۶۶۲، الحدیث: ۲۵۱(۱۲۷۰))

اور سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ اس کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے حجرِ اسود کو بوسہ دیا۔ (نسائی، کتاب مناسک الحج، تقبیل الحجر، ص۴۷۸، الحدیث: ۲۹۳۴)

حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے ایک بار پانی منگوایا اور وضو کیا، پھر آپ مسکرانے لگے اور ساتھیوں سے فرمایا ’’ کیاتم مجھ سے اس چیز کے بارے میں پوچھو گے نہیں جس نے مجھے مسکرایا ؟ انہوں نے عرض کی: اے امیرُ المؤمنین! رَضِیَ اللہُ عَنْہُ، آپ کس چیز کی وجہ سے مسکرائے تھے ؟ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا ’’ایک بار نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ا س جگہ کے قریب ہی وضو فرمایا تھا اور فراغت کے بعد مسکرائے تھے اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم سے فرمایا تھا ’’کیاتم مجھ سے پوچھو گے نہیں کہ کس چیز نے مجھے مسکرایا ؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم نے عرض کی : یا رسولَ اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کس چیز نے آپ کو مسکرایا ؟ تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’بندہ جب وضو کا پانی منگوائے پھر اپنا چہرہ دھوئے تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کے گناہ مٹا دیتا ہے،پھر اپنی کہنیاں دھوئے تو کہنیوں کے ،سر کا مسح کرے تو سر کے اور اپنے قدموں کو دھوئے تو قدموں کے گناہ مٹا دیتا ہے ۔ (تو میں نے انہی کی ادا کو اداء کیا ہے) ۔ (مسند امام احمد، مسند عثمان بن عفان،  ۱ / ۱۳۰، الحدیث: ۴۱۵،چشتی)

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُما ایک جگہ اپنی اونٹنی کو چکر لگوا رہے تھے ۔لوگوں نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا’’ میں (اس کی حکمت) نہیں جانتا، مگر اس جگہ میں نے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا تھا اس لئے میں بھی ایساکر رہا ہوں ۔ (کتاب الشفا الباب الاول: فرض الایمان بہ، فصل واما ماورد عن السلف فی اتباعہ، ص۱۵، الجزء الثانی)

فرمایا اتباعِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تم کوئی معمولی چیز نہ سمجھو یہی وہ اتباع ہے جو تم کو رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی مقرب بناسکتی ہے اور رب کا بھی محبوب بناسکتی ہے۔ اگر تم رب کی محبوبیت چاہتے ہو اور اس کی محبت چاہتے ہو، اس کی بندگی کی معرفت چاہتے ہو اور اس کا ہوجانا چاہتے ہو تو اس کی ایک ہی صورت ہے کہ خود کو اتباعِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈھال لو۔ اتباع رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی زندگیوں میں اختیار کرلو، تمہیں مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی مل جائے گا خدا بھی مل جائے گا اور ہدایت بھی مل جائے گی اور خدا کے محبوب بھی ہو جاؤ گے ۔

لیلۃ القدر اور قرآن کا نزول

اس قرآن کو کتاب ہدایت کی صفت عظیم کے ساتھ متصف کرکے باری تعالیٰ نے لیلۃ القدر کی ساعتوں میں زمین پر اتارا ہے۔ لیلۃ القدر کو نزول قرآن کی وجہ سے جو فضیلت و اہمیت حاصل ہے خود قرآن اس کا ذکر یوں کرتا ہے : اِنَّآ اَنْزَلَنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ. وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ. لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ ۔
ترجمہ : بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے ۔ اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے ؟ شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ (سورہ القدر آیت نمبر 1تا3)

شبِ برات کو نزولِ قرآن ہونے کی وجہ سے لیلۃ القدر کانام دیا گیا ہے ۔ یہ رات ہزار راتوں سے افضل رات ہے ۔ یہ رات اللہ کی رحمت کی رات ہے اور یہ رات نزول ملائکہ اور نزول روح الامین کی رات ہے ۔ اس رات کا ایک ایک لمحہ خیروبرکت کا ہے۔ اس رات کاایک ایک پل سلامتی کا ہے ۔ یہ رات غروب آفتاب سے فجر تک سلامتی کی رات ہے اور یہ اللہ کے فضل و کرم کی رات ہے۔ نزول قرآن کی یہ رات ہمیں یہ پیغام دیتی ہے : اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَهُ لَحٰفِظُوْنَ ۔
ترجمہ : بے شک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقینا ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے ۔ (سورہ الحجر آیت نمبر 9)

ہم نے اس قرآن کو سفینوں میں محفوظ کردیا ہے اور ہم نے اس قرآن کو سینوں میں بھی محفوظ کردیا ہے ۔ صحیفوں ، سفینوں میں چودہ سو سال سے محفوظ چلا آرہا ہے اور سینوں میں بھی چودہ سو سال سے محفوظ چلا آرہا ہے اور ہر رمضان المبارک میں صلاۃ الراویح کی صورت میں یہ سینے قرآن کے محفوظ ہونے کی زندہ علامت اور شہادت بن جاتے ہیں۔ کوئی ہے جو اب بھی رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس زندہ معجزہ کا انکار کرے ۔

فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ۔ (سورہ الرحمن، آیت نمبر 13)
ترجمہ : پس (اے گروہ جنّ و انسان) تم دونوں اپنے رب کی کِن کِن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟ ۔

قرآن اپنی ہدایت عظمیٰ پر خود شہادت ہے

قرآن ہمارے اندر اللہ کی وحدانیت اور اس کی توحید کی ایک ابدی شہادت بن کر موجود ہے۔ قرآن ہمارے اندر رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت کی ایک روشن علامت بن کر موجود ہے اور دین اسلام کی صداقت و حقانیت کی سب سے بڑی دلیل یہ قرآن ہے۔ یہ ایک کتاب زندہ ہے۔ یہ کتاب مردہ دلوں کو زندگی دیتی ہے۔ یہ کتاب مردہ سوچوں کو افکار تازہ دیتی ہے۔ یہ کتاب انسانی عملوں کی اصلاح کرتی ہے۔ یہ کتاب انسانی رویوں کو درست کرتی ہے حتی کہ اس کتاب کا موضوع ہی ’’ہدی للناس‘‘ ہے اور یہ کتاب ’’وبینت من الھدی والفرقان‘‘ ہدایت کی نشانیوں سے مملو ہے اور حق و باطل کے امتیازات سے بھرپور ہے اور کل عالم انسانیت میں ہر دور میں اور ہر زمانے میں اور آج تک کوئی کتاب یہ دعویٰ کرسکی ہے اور نہ کرسکے گی اور یہ اس کتاب قرآن کا کھلا چیلنج ہے۔ قرآن اپنے اس چیلنج کو ہر زمانے کے لوگوں سے مخاطب ہوکر یوں کرتا ہے : اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَهْدِيْ لِلَّتِيْ هِيَ اَقْوَمُ ۔
ترجمہ : بے شک یہ قرآن اس (منزل) کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو سب سے درست ہے ۔ (سورہ بنی اسرائيل آیت نمبر 9)

یہ قرآن ہی سب سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ہدایت کی طرف راہنمائی کرتا ہے ۔ قرآن کی ہدایت سے بڑھ کر کوئی ہدایت نہیں اور قرآن کی ہدایت سے بڑھ کر کوئی ہدایت سیدھی ، مضبوط اور مستحکم نہیں ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔