Friday 9 December 2022

اسلام سیرتِ طیبہ اور خدمتِ خلق

0 comments
اسلام سیرتِ  طیبہ اور خدمتِ خلق
محترم قارئینِ کرام : ظہورِ اسلام سے قبل اہلِ عرب بہت سی تہذیبی ، اخلاقی اور معاشرتی بُرائیوں کا شکار تھے ۔ شرک میں گھِرے معاشرے نے ان کےقلب و اذہان کو اپنی قوی گرفت میں لے رکھا تھا ۔ دینِ ابراہیمی کا اصل چہرہ مسخ ہو چکا تھا ۔ ایسے بدترین ماحول اور مایوس کن حالات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہ عظیم الشان اور ہمہ گیر انقلاب برپا کیا جو شبِ تاریک میں روشنی کا اندلیب ثابت ہوا جس نے بھولے بھٹکوں کی درست سمت رہنمائی کی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس انقلاب کی بنیاد رنگ و نسل اور طبقاتی نظام سے بلا امتیاز انسانی ہمدردی ، سماجی بہبود اور خدمتِ خلق جیسے پاکیزہ اُصولوں پر استوار کی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرد کے جان ، مال ، عزت و آبرو کو نہ صرف تحفظ عطا کیا بلکہ امن و آشتی سے تمدنی زندگی گزارنے کے رہنما اصول بھی وضع فرمائے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسا جامع اور کامل ترین نظام عطا کیا جس میں ہر شخص کے حقوق و فرائض کو متعین فرمایا ۔ جس کا عملی نمونہ اسوہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے ۔

خدمت خلق ایک جامع لفظ ہے ، یہ لفظ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے ، خدمت خلق کے معنی مخلوق کے کام آنا ہے ، لیکن اسلام میں اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی رضا و خوش نودی کےلیے بلا کسی اُجرت اور صلے کے خلق خدا کے کام آنا اور امانت پر کمر بستہ رہنا ہے ۔

دنیا کے ہر مذہب نے انسانیت کی بلا امتیاز خدمت کی تلقین کی ہے ۔ ضروت مند کی حاجت روائی ہر مذہب کی بنیادی تعلیم ہے ۔ لیکن خدمت انسانیت یہ اسلام کا طرہ امتیاز اور مسلمانوں کا بنیادی وصف ہے ۔ یہی ہماری شان اور ہمارا شعار ہے اور یہ امت خدمت انسانیت کےلیے ہی برپا کی گئی ہےاور اسلام کی حقوق العباد کی تعلیمات معاشرتی ذمےداریوں اور انسانی فلاح وبہبود کی مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہیں ۔

یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
یہ پہلا سبق تھا کتابِ ہدیٰ کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا

وہی دوست ہے خالقِ دوسرا کا
خلائق سے ہے جس کو رشتہ ولا کا

کہا جاتا ہے کہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے وہ معاشرے میں رہنے پر مجبور ہے اسے قدم قدم پر دوسروں کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے ، مال و دولت کی وسعتوں کے باوجود انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے اور ایک دوسرے کے احتیاج کو دور کرنے کےلیے آپسی تعاون ، ہمدردی ، خیر خواہی اور محبت کا جذبہ سماجی ضرورت کا جزء لا ینفک ہے اور انسان وہی ہے جو دوسروں کا خیر خواہ اور ہمددر ہو ۔

جس معاشرہ میں کمزوروں کو سہارا دینے ، گرتے کو تھامنے اور زندگی کی تلخ گھڑیوں میں افراد معاشرہ کے حوصلے بڑھانے کا رواج اور چلن ہو ۔ وہ سماج کے کمزور طبقات کی خدمت و تعاون کو مختلف اندازاور حکیمانہ اسلوب میں پیش کرتا ہے ۔ اورایک دوسرے کے کام آنا ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کا آغاز ہے ۔ اور بلاتفریق ایک دوسرے کی مدد کرنا تمام معاشروں کا خاصہ ہے ۔

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے

اسلام صرف چند عبادات کے مجموعہ کا نام نہیں بلکہ زندگی گزارنے کے ہر پہلو کے بارے میں واضع ہدایات دیتا ہے ۔ ہم نے اسلام کی تعلیمات کو چھوڑ دیا ۔ خاص کر حقوق العباد کو تو ہم عبادت ہی خیال نہیں کرتے ۔ اسی وجہ سے ہم میں اتحاد و اتفاق نہیں رہا ۔ یکجہتی اور بھائی چارہ نہیں رہا ، اخوت ، محبت ، رواداری ، اور ایک دوسرے کا احساس نہیں رہا ۔ ہم اتنے خود غرض ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنی ذات کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا ۔ یہ جو دنیا میں انسانیت سسک رہی ہے ۔

آج ضرورت ہے کہ ہم انسانیت کی فکر کریں ، ہماری پہچان انسانیت کے بہی خواہ و خیر نواہ کی حیثیت سے ہو ، ہمارے اندر خدمات انسانیت کی ایسی ترپ موجود ہو کہ سماج کا وہ فرد ہمیں اپنا مونس و غمخوار سمجھے ، اگرہم نے انسانیت کی فکر چھوڑ دی تو ہم خیر امت کہلانے کے مستحق ہر گز نہیں ہوسکتے ۔

خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پوری زندگی خدمت خلق کا اعلیٰ نمونہ تھی ، نبوت سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سماج اور معاشرہ میں خدمت خلق ، محتاجوں و مسکینوں کی دادرسی ، یتیموں سے ہمدردی ، پریشاں حالوں کی مدد اور دیگر بہت سارے رفاہی کاموں کے حوالے سے معروف تھے ، اور نبوت سے سرفرز کئے جانے کے بعد تو پوری انسانیت اور تمام نوع انسانی جس طرح آپ کے احسانات کے زیر بار ہے اس کو شمار ہی نہیں کیا جا سکتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی ساری زندگی انسانیت کےلیے وقف کی تھی ، آپ کی بعثت مسلمانوں کےلیے نہیں بلکہ انسانوں کےلیے ہوئی تھی ، یہی وجہ ہے کہ آپ کی زندگی بے لوث محبتِ انسانیت ، رحم و کرم ، عفو و درگزر اور انسانوں کے دنیاوی و اخروی نجات کےلیے انتھک جدوجہد اور مساعی پر مشتمل تھی۔اس بنیاد پر ہر مسلمان اور خاص طور پر وارثینِ نبوت کا یہ فرض ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر چلتے ہوئے اپنی زندگی کا نصب العین انسان اور انسانیت کی خدمت کو بنائیں ۔

محترم قارئينِ کرام : خدمتِ مخلوقِ خدا کی ذریعہ دوسروں کو نفع پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضا ہے ۔ ایک بہترین مسلمان کی یہ خوبی ہے کہ وہ ایسے کام کریں جو دوسرے انسانوں کےلیے مفید اور نفع بخش ہوں ۔ اس نیکی کے ذریعے صرف لوگوں میں عزت واحترام ہی نہیں پاتا بلکہ اللہ تبارک تعالیٰ کے ہاں بھی اہم رتبہ حاصل کرلیتا ہے ۔ پس شفقت و محبت ، رحم و کرم ، خوش اخلاقی ، غم خواری و غم گساری خیرو بھلائی ، ہمدردی ، عفو و درگزر ، حسن سلوک ، امداد و اعانت اور خدمتِ خلق ایک بہترین انسان کی وہ عظیم صفات ہیں کہ جن کی بدولت وہ دین و دنیا اور آخرت میں کامیاب اور سرخرو ہو سکتا ہے ۔ اس لیے ہمیں اللہ نے جن نعمتوں سے نوازا ہے ، ہمیں چاہیے ہم ان نعمتوں میں سے اللہ کی مخلوق کےلیے کچھ حصہ ضرور نکالیں ، ڈاکٹر غریب مریضوں کا مفت یا کم فیس میں علاج کریں ، استاد غریب بچوں کو مفت یا کم فیس میں تعلیم دیں ، اگر آپ کا تعلق پولیس ، عدالت یا سیاست سے ہے ، تو آپ اپنا کام ایمان داری سے کر کے خدمت خلق کےلیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ، آپ کا تعلق کسی بھی شعبےسے ہو ، اپنے کام کی نوعیت اور استطاعت کے مطابق خدمت خلق میں خود کو مصروف رکھیں ۔

اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب اور
پسندیدہ وہ آدمی ہے جو اس کے کنبے (مخلوق) کے ساتھ نیکی کرے ۔

لہٰذا ہمیں چاہیے اس فرقہ پرستی اور اخلاقی بحران کے اس دور میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ سماج کے بااثر افراد ، تنظیمیں اور ادارے خدمتِ خلق کے میدان میں آگے آئیں اور مضبوطی کے ساتھ اپنے قدم جمائیں ، دنیا کو اپنے عمل سے اسلام سکھائیں ، لوگ اسلام کو کتابوں کے بجائے ہمارے اخلاق و کردار سے ہی سمجھناچاہتے ہیں ، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے کچھ ادارے بہتر کام کر رہے ہیں ، لیکن مزید بہتری لانے کی شدید ضرورت ہے ، اپنے نجی اسکولوں اور مدارس کے نصابوں میں اخلاقیات کو بنیادی اہمیت دینے کے ساتھ ساتھ عملی مشق کرائیں ، تاکہ نئی نسلوں میں بھی خدمت خلق کا جذبہ پروان چڑھے ۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ خدمت خلق صرف دلوں کے فتح کرنے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ اسلام کی ترویج واشاعت کا موثر ہتھیار بھی ہے ۔

جب ہم رفاعی کاموں کا جامع تصوّر اور وسیع دائرہ سامنے رکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات گرامی اور رفاعی کاموں کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحمتِ عمیمہ اور وسیعہ سے نہ صرف انسان مستفیداور بہرہ ور ہوئے بلکہ تمام حیوانات ،نباتات اور جمادات تک نے رحمت کا حصہ پایا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رفاہِ عامّہ کے کاموں کی منظم اور مربوط بنیاد رکھی اس کے مقاصد واضح کیے اس کے لیے قانون سازی کی اور اس کا عملاً نفاذ فرمایا ۔ آج اُمتِ مسلمہ ہی نہیں بلکہ انسانیت میں خدمتِ خلق اور رفاہِ عامّہ کا جتنا کام ہو رہا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جامع تعلیمات کا پیش خیمہ ہے ۔ یہ بات ناقابلِ تردید ہے کہ دُنیا میں سب سے پہلی فلاحی ریاست کا تصور بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے شروع ہوتا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ و طاہرہ سے فلاحِ معاشرہ اور خدمتِ خلق کے تصورات اور ان پرعملی اقدامات ہمہ گیر ہیں ۔ دور حاضر میں جن کا مطالعہ اور عملی نفاذ وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خدمتِ خلق کو کس قدر اہم اورمقدس قرار دیا اس کا اندازہ حدیث مبارکہ سے بخوبی لگا یا جا سکتا ہے : خیر الناس من ینفع الناس ۔ (کنزالعمال، ج:8، حدیث نمبر:42154،چشتی)
ترجمہ : تم میں بہترین وہ ہے جس سے دوسرے انسان کو فائدہ پہنچے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ غریبوں اور مسکینوں کےلیے سراپا رحمت اور لطف و عطاہے- مساکین کو تکلیف میں دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے رنج و غم کامداوا فرماتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مساکین کی تکالیف کے ازالے کو معاشرتی فرض قرار دیا ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو معاشرتی بھلائی کے کاموں کی ترجیح فرماتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فر مایا : بیوہ اور مسکین کےلیے کوشش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے ۔ قعنبی کو شک ہے کہ شاید امام مالک علیہ الرحمہ نے یہ بھی فرمایا کہ اس شب بیدار کی طرح ہے جو کبھی سستی محسوس نہیں کرتا اور اس روزہ دار کی طرح جو کبھی روزہ نہیں چھوڑتا ۔ ( صحیح بخاری، ج:5، حدیث نمبر:5661،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی امت کو غرباء و مساکین اور رشتہ داروں اور مستحقین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دی ہے ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کسی شخص نے سوال کیا ۔ بہترین اسلام کون سا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ، ’’تو کھانا کھلائے یا سلام کرے اس شخص کو جسے تو پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو ۔ (صحیح بخاری جلد 1 حدیث 2)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اپنے کسی بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اور پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ اسے (دوزخ کی) آگ سے سات خندق جتنے فاصلے کی دُوری پر کردے گا اور دو خندق کے درمیان پانچ سو (500)سال کا فاصلہ ہے ۔ (حاکم المستدرک علی الصحیحین، ج:2، حدیث:7172،چشتی)

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہرشعبہ میں کامل رہنمائی کرتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کو انتہائی نا پسند فرمایا ہے ’’حقیر سے حقیر پیشہ اپنانا کسی کے آگےہاتھ پھیلانے سے بہترہے‘‘ اسلام نے درس دیاہے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری دی جائے ۔ اگر معاشرے میں کوئی ایسا شخص ہے جو کسی قسم کا ہنر سیکھ کر روزگار حاصل کرنا چاہتا ہے یا کوئی شخص کوئی ہنر جانتا ہے لیکن اس میں پختہ نہیں ہے اور پوری طرح کام نہیں کر سکتا تو ایسے شخص کو ہنر سکھانا یا ہنر میں قابل بنانا اس کی رہنمائی کرنا اور کام سلیقے سے کرنے کے لائق بنانا نیکی کا کام اور صدقہ جاریہ ہے ۔ جیسا کہ حضرت ابو ذرغِفاری رضی اللہ عنہ سےروایت کردہ حدیث رہنمائی کرتی ہے : حضرت ابو ذرغِفاری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے دریافت کیا کہ سب سے برتر اور افضل عمل کون سا ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا ۔ میں نے دریافت کیا کہ کس قسم کا غلام آزاد کرنا زیادہ فضیلت کا کام ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا وہ جس کی قیمت زیادہ ہو میں نے عرض کیا کہ اگر میں استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہ کر سکو ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی مدد کرو جو (غربت کی وجہ سے) ضائع ہو رہا ہو جو شخص اپنا کام نہ کر سکے میں نے عرض کی اگر یہ بھی نہ کر سکوں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا لوگوں کو اپنے شر سے بچاؤ یہ بھی ایک صدقہ ہے جو تو اپنے وجود پر کررہا ہے ۔ (صحیح بخاری، کتاب العتیق، باب ابی الرقاب افضل)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بیواؤں کی بھلائی اور خیر خواہی کی تعلیم دی ہے ۔ قبل از ظہورِ اسلام جب عورت بیوہ ہوجاتی تو مرنے والے کے رشتے دار اسے مالِ وراثت تصور کرتے ہوئے قابض ہو جاتے اور پھر اس کی بقیہ زندگی کسی کنیز سے بہتر نہ ہوتی ۔ مرحوم کے عزیز و اقارب اسے نہ صرف وراثت سے محروم کر دیتے بلکہ اس کا جینا بھی محال کر دیتے ۔ ہوس بھری نگاہوں کے نشتر ہمیشہ اس (بیوہ) کے تعاقب میں رہتے ۔ اسلام نے بیوہ کو احسن طریقے سے زندگی گزارے کے حقوق سے ہمکنار کیا اور معاشرے میں اس کی عزت و تکریم کا اہتمام کیا ۔ اہلِ عرب بیواؤں سے نکاح کو پسند نہ کرتے جس سے وہ معاشی اور سماجی عدم تحفظ کا شکار رہتیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود بیوہ خواتین سے نکاح فرما کر اس رسمِ بد کا خاتمہ کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے بیوہ عورتوں کو معاشرے میں باعزت مقام عطا فرمایا اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی فضیلت کو یوں بیان فرمایا : بیوہ اور مسکین کےلیے امدادی کوشش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے یا اس شخص کی مانند جو دن کو ہمیشہ روزہ رکھے اور راتوں کو قیام کرے ۔ (صحیح بخاری جلد نمبر 5 حدیث نمبر :5660،چشتی)

ایک مسلم خاندان کی ابتداء نکاح سے ہوتی ہے اس لیے اسلام میں نکاح ایک سماجی معاہدہ ہے جسے اسلام نے تقدس عطا کرکے عبادت کا درجہ دیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ بتاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کتنے ہی مردوں اور عورتوں کنواریوں اور بیواؤں کے نکاح کرواتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ارشادات سے نکاح کی ترغیب دی اور اس کے مختلف پہلو بیان فرمائے اور اس کی اہمیت واضح کی جیسا کہ ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ : تین لوگوں کی مدد کرنا اللہ پر ان لوگوں کا حق ہے ۔ (1) اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ۔ (2) غلامی اور قرض وغیرہ سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کرنے والا ۔ (3) اوراپنی عفت محفوظ رکھنےکےلئے نکاح کرنے والا ۔ (سنن ترمذی، کتاب الجہاد،حدیث:1655،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے معاشرے کے دیگر محروم المعیشت طبقات کی طرح یتیموں کے حقوق کا بھی تعین فرمایا تاکہ وہ بھی کسی معاشرتی یا معاشی تعطل کا شکار ہوئے بغیر زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھ سکیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یتیم کی کفالت کرنے والے کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : مَیں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح نزدیک ہوں گے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انگہشت شہادت اور درمیانی انگلی کو ملاتے ہوئے یہ بات فرمائی ۔ (صحیح بخاری جلد 5 حدیث نمبر : 5659)

اسلامی معاشرے کے وہ افراد جو اُمتِ مسلمہ کے اجتماعی فریضہ اشاعت و ترویجِ اسلام اور اسلامی حکومت کے دفاع میں مصروف رہتے ہیں ۔ ایسے افراد کے اہلِ خانہ کی حفاظت و نگہبانی ، اگر حاجت مند ہوں تو ان کی امداد کرنا اجر و ثواب کا باعث ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شہدا ، مجاہدینِ اسلام کے اہل خانہ سے خصوصی شفقت فرماتے حدیث مبارکہ شاہد ہے : جس شخص نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کو تیار کیا (ثواب میں شریک ہوا) اور جس شخص نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے گھر والوں سے کوئی بھلائی کی تو اس نے جہاد کیا (یعنی جہاد کے ثواب میں شریک ہوا) ۔ (صحیح بخاری، کتاب الجہاد، حدیث نمبر:2843،چشتی)

سردارانِ مکہ کی سخاوت و فیاضی اگرچہ ضرب المثل تھی لیکن یتامیٰ اور مساکین اور وسائل سے محروم افراد کی مدد کرتے وقت ان کے ہاتھ رُک جاتے تھے اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب مدینہ طیبہ میں ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تو سب سے پہلے معاشرے میں معاشی استحکام کےلیے اہلِ ثروت کو انفاق فی المال کی تلقین فرمائی کیونکہ اسلام کے نقطہ نظر پر مبنی انفاق فی المال درحقیقت اپنے سرمایہ و دولت کو یتامیٰ اور مساکین اور معاشرے کے پست طبقات پر اس طرح خرچ کرنا ہے کہ ان کا معاشی تعطل ختم ہوجائے اور ان کی تخلیقی جدوجہد بحال ہو جائے اور وہ معاشرہ میں مطلوبہ کردار بہ تحسین و خوبی سرانجام دے سکیں ۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اطعام المساکین ، الحض علی الطعام ، انفاق فی سبیل اللہ ، زکوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کے پُرزور الفاظ کے ذریعے ان میں انفاق کا جذبہ پیدا کیا ۔ انفاق فی المال کی ترغیب دلاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خرچ کر تجھ پر (بھی) خرچ کیا جائے گا‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے اور دن رات کی فیاضی سے اس میں کمی واقع نہیں ہوتی ۔ کیا تم نہیں دیکھتے اس نے آسمان اور زمین کے پیدا کرنے میں کتنی فیاضی کی ہے لیکن اس کے دائیں ہاتھ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ۔ (صحیح مسلم کتاب الزکوٰۃ جلد 2 حدیث نمبر : 993،چشتی)

سود کو عربی زبان میں ربو/ربا کہتے ہیں لغوی اعتبار سے اس کا معنی کسی چیز کا زیادہ ہونا اور بڑھنا مراد ہے ۔ اصطلاحاً ربا سے مراد مال میں وہ زیادتی ہے جو سرمایہ دار اپنے مقروض کو قرض کی ادائیگی کی مہلت دے کر حاصل کرتا ہے ۔ اگر بہ نظرغائر مطالعہ کیا جائے تو جدید کیا ہر دَور کے تمام پیچیدہ اور لاینحل مسائل کی بنیاد اور سب سے بڑی وجہ سودی معیشت اور اس پر مبنی سرمایہ داری ہے ، جس پر اپنےاعمال اور اپنے ارشادات سے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کاری ضرب لگائی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی متعدد احادیث مبارکہ میں سود کی حرمت کا ذکر ملتا ہے ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : سود کے ستّر (70) سے زائد درجے ہیں اور شرک بھی اسی طرح ہے (گناہ میں اس کے برابر) ۔ (منذری، الترغیب والترھیب، ج:3، حدیث نمبر:2846،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جہاں جائز اور حلال ذرائع معیشت کی نشاندہی کی وہیں دوسری طرف ناجائز اور حرام ذرائع معیشت کو واضح طور پر بیان کیا ہے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رشوت کی شدید الفاظ میں مذمت فرمائی ہے کہ : رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں ۔ (بیہقی، شعیب الایمان، ج:4، حدیث نمبر:5520)

رشوت کے ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان تمام برائیوں کو جو معیشت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں جیسے قحبہ گری و عصمت فروشی سے کمایا ہوا مال ، چوری ، لوٹ مار،دھوکہ اور ظلم و غصب سے حاصل کیے ہوئے مال کو بھی حرام قرار دیا ۔

فرد کےلیے صرفِ مال کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم فرمایا ہے کہ اتنا خرچ کرے جتنا مناسب اور ضروری ہو ، نہ ہی بخل و کنجوسی سے کام لینے کو کہا گیا ہے اور نہ ہی اسراف و تبذیر کو شعار بنانے کو جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوا اِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنِ ۔ (سورہ بنی اسرائیل:27)
ترجمہ : بے شک فضول خرچی والے شیاطین کے بھائی ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کئی مواقع پر اسراف و تبذیر کی سخت الفاظ میں مذمت فرمائی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے : کھاؤ اور پیئو اور دوسروں پر صدقہ کرو کپڑے بناکر پہنو بشرطیکہ اسراف اور نیت میں فخر نہ ہو ۔ (ابو یعلیٰ، المسند، ج:2، حدیث نمبر:1328)

بحیثیتِ مسلمان سیرتِ طیبہ کے مطالعےسے ہمیں رفاعی کاموں کی ترجیح و ترغیب کی کامل رہنمائی ملتی ہے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے معاشرتی اور سماجی رفاعہ عامہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے ۔ الغرض نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے امتی ہونے کی حیثیت سے ہم پہ فرض عائد ہوتا ہےکہ کسی مخصوص گروہ ، رنگ و نسل اور زبان سے بلا امتیاز بلا غرض و غایت سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روشنی میں انسانی ہمدردی ، سماجی بہبود اور خدمتِ خلق کےلیے کام کیا جائے ۔ اللہ تعالی ہمیں اپنی مخلوق کی خدمت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ الحَمْدُ ِلله الفیض فاٶنڈیشن پاکستان کے زیرِ انتظام دور دراز دیہاتوں میں خدمتِ خلق اور غریب بچوں کو مفت عصری و دینی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے : ⬇

اہلِ اسلام سے گذارش ہے کہ الفیض فاٶنڈیشن پاکستان کے زیرِ انتظام خدمتِ خلق ، دین کی نشر و اشاعت کرنے ، دینی تعلیم عام کرنے خصوصاً دور دراز دیہاتوں کے غریب بچوں کو مفت دینی و عصری تعلیم دینے ، استاذہ کرام کے وظاٸف ، ادارہ کےلیے جگہ کی خریداری و تعمیر ۔ دین کی نشر و اشاعت ، دینی کتب تفاسیر قرآن ، کتبِ احادیث عربی اردو کی شروحات ، دیگر اسلامی کتب ،  کی خریداری کے سلسلہ میں تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیراً کثیرا آمین ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : فیض احمد چشتی اکاؤنٹ نمبر : ⬇ 0001957900055503 حبیب بینک کیولری گراؤنڈ برانچ لاہور پاکستان ، موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں ۔ 03009576666 ،03215555970 ، جزاكم اللهُ‎ خیراً کثیرا آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔