مقصدِ تخلیقِ انسان حصّہ پنجم
دین اسلام ، قرآن مجید اورر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعلیمات و سیرت نے سکھایا ہے کہ سب سے اچھا اور بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے اور تکلیف نہ دے ، غریبوں ، مساکینوں اور عام لوگوں کے دلوں میں خوشیاں بھر سکے ، ان کی زندگی کے لمحات کو رنج وغم سے پاک کرنے کو کوشش کریں ، چند لمحوں کے لئے ہی صحیح انہیں فرحت و مسرت اور شادمانی فراہم کر کے ان کے درد والم اورحزن و ملال کو ہلکا کرے ، انہیں اگر مدد کی ضرورت ہو تو ان کی مدد کرے اور اگر وہ کچھ نہ کر سکتا ہو تو کم از کم ان کے ساتھ میٹھی بات کرکے ہی ان کے تفکرات کو دور کرے ۔
مخلوق خدا کی خدمت کرنا ، ان کے کام آنا ، ان کے مصائب و آلام کو دور کرنا ، ان کے دکھ درد کو بانٹنا اور ان کے ساتھ ہمدردی و غمخواری اور شفقت کرنے پر شریعت نے کتنا زور دیا ہے ۔ یہ خدمت خلق اور شفقت علی الخلق کتنی بڑی نیکی اور کتنی بڑی عبادت ہے ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا کیا مقام ہے ۔ یہ ایک مستقل لمبا چوڑا موضوع ہے ، جس کی یہاں قطعاً گنجائش نہیں ۔ تاہم اتنی بات عرض کر دینا ضروری ہے کہ قرآن کے مطابق انسان کی تخلیق کا مقصد عبادت الٰہی ہے ۔ ارشاد ربانی ہے : وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون ۔ (سورۂ الزاریات 56)
ترجمہ : اور میں نے جنات اور انسانوں کو پیدا ہی اس غرض سے کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ۔
مفسرین کرام علیہم الرّحمہ نے لکھا ہے کہ : عبادت سے یہاں مراد فقہ کتاب العبادات والی عبادت پنج گانہ مراد نہیں بلکہ اپنے وسیع و عام مفہوم میں طلب رضا الٰہی کے مترادف مراد ہے ۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ ساری عبادتوں کا خلاصہ صرف دو چیزیں ہیں ۔ ایک امر الٰہی کی تعظیم دوسری خلق خدا پر شفقت ۔ دوسرے لفظوں میں حقوق ﷲ اور حقوق العباد کی ادائیگی ۔ تفسیر کبیر میں ہے : ماالعبادہ التی الجن والانس لھا قلنا التعظیم لامرﷲ والشفقہ علی خلق ﷲ فان ہذین النوعین لم یخل شرع منہما ۔
ترجمہ : وہ عبادت کیا ہے جس کے لئے جنوں اور انسانوں کو پیدا کیا گیا تو ہم کہیں گے کہ یہ امر الٰہی کی تعظیم اور خلق خدا پر شفقت کا نام ہے۔ کیونکہ یہ دو چیزیں ایسی ہیں جن سے کوئی شریعت خالی نہیں رہی ۔
عبادت کے مفہوم میں وسعت کا اندازہ قرآن مجید کی ایک دوسری آیت سے بھی لگایا جا سکتا ہے ۔ سورہ البقرہ میں ارشاد ہے : نیکی یہی نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق یا مغرب کی طرف پھیرلو بلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص ﷲ ، قیامت کے دن ، فرشتوں ، (آسمانی) کتابوں اور پیغمبروں پر ایمان لائے اور اس کی محبت میں مال صرف کرے، قرابت داروں، مسکینوں، راہ گیروں اور سائلوں پر اور گردنوں کے آزاد کرادینے میں ۔ (سورہ البقرہ 177)
خدمت خلق ایک جا مع لفظ ہے ، یہ لفظ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے ۔ خلق مخلوق کے معنی میں ہے اور اس کا روئے زمین پر رہنے والے ہر جاندار پر اطلا ق ہوتا ہے اور ان سب کی حتی الامکان خدمت کرنا ، ان کا خیال رکھنا ہمارا مذہبی واخلاقی فرض ہے، ان کے ساتھ بہتر سلو ک وبر تاؤکی ہدایت اللہ رب العزت نے بھی دی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعلیمات بھی اس سلسلے میں تاکید کرتی ہیں ۔ دین میں خدمت خلق کے مقام کو سمجھنے سے اس کے وسیع تر مفہوم کو سمجھنا آسان ہوجائے گا ۔
قرآن مجید میں جگہ جگہ ایمان لانے والوں کی جن اہم صفا ت کا ذکر کیا گیا ہے ، ان میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ، یتیموں کی دیکھ بھا ل کرنا ، مسکینوں کو کھانا کھلانا بھی شامل ہے ۔ اور ان صفات کی نہ صرف ترغیب دی گئی ہے ، بلکہ ان صفات کو نہ اپنانے پر بھڑکتی آگ کی وعید سنائی گئی ہے ۔ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی پوری زندگی دوسروں کی خدمت میں گذاری ، آپ کی دعوت میں مخلوقات کی خدمت پر بہت زور ملتا ہے ۔ قربان جائیے اس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات پر ، جس نے عا لم انسانیت کی خدمت میں اپنی سا ری زندگی گزار دی اور ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ ان کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے ۔
خدمت خلق کا مفہوم
خد مت خلق کے لغوی معنی مخلوق کی خدمت کرنا ہے اور اصطلاحِ اسلام میں خدمت خلق کا مفہوم یہ ہے : رضا ئے حق حاصل کر نے کےلیے تمام مخلوق خصوصاً انسانوں کے سا تھ جائز امور میں مدد دینا ہے ۔
لوگوں کی خدمت سے انسان نہ صرف لوگوں کے دلوں میں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی بڑی عزت واحترام پاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور قرب کا حقدار بن جاتا ہے اور مخلوقِ خدا کی خدمت کرنے والا شیخ سعدی علیہ الرحمة کے اس مصرع کے مصداق بن جاتا ہے : ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد ۔ یعنی جو شخص دوسروں کی خدمت کرتا ہے (ایک وقت ایسا آتا ہے کہ) لوگ اس کی خدمت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔
اسلام میں ایک بہترین انسان کے لئے جن صفات کا ہونا ضروری ہے ، ان میں سے ایک صفت خدمت خلق کی ہے اور ایسی صفت رکھنے والے کو اچھا انسان قرار دیا گیا ہے ۔ خدمت خلق میں جس طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے ۔
خدمت خلق اور قرآنی حکم
خدمت خلق میں صرف مالی امداد و اعانت ہی شامل نہیں بلکہ کسی کی رہنمائی کرنا ، کسی کی کفالت کرنا ، کسی کو تعلیم دینا ، کوئی ہنر سکھانا ، اچھا اور مفید مشورہ دینا ، کسی کی علمی سرپرستی کرنا ، مسجد اور مدرسہ قائم کرنا ، نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا وغیرہ یہ تمام امور خدمت خلق میں آتے ہیں ۔ چنانچہ ﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا : وَتَعَاوَنُوا عَلَی البِرِّ وَالتَّقویٰ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الاِثمِ وَالعُدوَانَ ۔ (سورةالمائدہ:آیت۲)
ترجمہ : اے ایمان والو! نیکی اور پر ہیزگاری (کے کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون ومدد کرو اور گناہ اور برائی (کے کاموں) میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کرو ۔
اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ خیر و بھلائی اور اچھے کاموں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون وامداد کریں اور گناہوں اور برائی کے کاموں میں کسی کی مدد نہ کریں بلکہ گنا ہ اور برائی سے روکیں کہ یہ بھی خدمت خلق کا حصہ ہے ۔
ایک حدیث شریف میں نبی کریم رؤف الرّحیم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : خَیرُ النَّاسِ مَن یَّنفَعُ النَّاسَ ۔
ترجمہ : لوگوں میں سب سے اچھا وہ ہے جو لوگوں کو نفع اور فائدہ پہنچائے ۔ (جامع ترمذی)
ایک اور مقام پر فرمایا : اگر کوئی شخص راستے سے تکلیف دینے والی چیز ہٹا دے تو یہ بھی صدقہ ہے ۔ (صحیح مسلم،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بہترین انسان کے بارے میں فرمایا کہ تم میں سب سے بہترین اور عمدہ انسان وہ ہے جو دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ اور حسنِ سلوک کرتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بہترین انسان بننے کا معیار یہ مقرر کیا ہے کہ اس کے وجود دوسروں کےلیے فائدہ مند اور نفع آور ہو ، دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہو اور ان کی خیرو بھلائی کےلیے ہر وقت کوشاں رہے ۔
خدمت خلق کےلیے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
دوسروں کو نفع پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضا ہے ۔ ایک سچے مسلمان کی یہ نشانی ہے کہ وہ ایسے کام کرے ، جس سے عام لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے ۔ مثلاً رفاعی ادارے بنانا، ہسپتال وشفاخانے بنانا، اسکول وکالجز بنانا، کنویں اور تالاب بنانا ، دارالامان بنانا وغیرہ، یہ ایسے کام ہیں کہ جن سے مخلوقِ خدا فیض یاب ہوتی ہے اور ان اداروں کے قائم کرنے والوں کے حق میں دعائیں کرتی رہتی ہے اور یہ ایسے ادارے ہیں کہ جو صدقہ جاریہ میں شمار ہوتے ہیں یعنی ان اداروں سے جو لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں وہ قائم کرنے والے کے حق میں دعا کرتے ہیں اور اس کا اجرو ثواب مرنے کے بعد بھی اس شخص کو ملتا ہے اوراس کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے ۔
خدمت خلق اور اسوہ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ : رحمت کرنے والوں پر رحمن رحم فرماتا ہے، تم زمین پر رہنے والوں پر رحم کرو ، آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا ۔ (صحیح مسلم،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے گھر کے سارے کام خود فرمایا کرتے تھے ۔ پھٹے ہوئے کپڑے خود سی لیتے اور اپنے نعلین کی خود مرمت فرما لیتے ۔ پالتو جانوروں کو خود کھولتے باندھتے اور انہیں چارا دیا کرتے الغرض کسی کام میں کوئی عار نہیں سمجھتے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ طریقہ تھا کہ ضرورت مند لوگوں کے چھوٹے موٹے کام اپنے ہاتھ سے کر دیا کرتے تھے ۔ مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کے کام بھی آتے تھے ۔ ایک بوڑھی یہودیہ عورت کی خدمت کرنے کا واقعہ احادیث میں موجود ہے ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے پڑوسیوں کی دیکھ بھال اور تیمارداری بھی فرماتے تھے ۔
ایک مرتبہ حبشہ سے نجاشی بادشاہ کے کچھ مہمان مدینہ منورہ آئے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خواہش تھی کہ مہمانوں کی خدمت اور مہمان نوازی وہ کریں لیکن رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خود اپنے ہاتھوں سے ان کی خدمت اور خاطر مدارت کی اور فرمایا کہ ”ان لوگوں نے میرے ساتھیوں (مہاجرین حبشہ) کی خدمت کی ہے اس لیے میں خودان کی خدمت کروں گا ۔ (شعب الایمان،مسند امام احمد،چشتی)
حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ : اصحابِ صفہ غریب لوگ تھے ۔ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ : جس کے گھر دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ یہاں (اصحابِ صفہ میں) سے تیسرے آدمی کو لے جائے (یعنی ان کو کھانا کھلائے) اور جس کے گھر میں چار آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ پانچویں اور چھٹے آدمی کو لے جائے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ تین آدمیوں کو گھر لائے اور خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے ساتھ دس آدمیوں کو لے کر گئے ۔ (صحیح بخاری ، صحیح مسلم)
غلاموں کی آزادی اور رضائِے الہٰی
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی یہ عادتِ مبارکہ تھی کہ جس مسلمان کو کفار کے ہاتھ میں غلام یا قیدی کی حالت میں دیکھتے تو اُس کو خرید کر آزاد کردیتے تھے اور یہ لوگ عموماً کمزور اور ضعیف ہوتے تھے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے والد حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے فرمایا کہ : جب تم غلاموں کو خرید کر آزاد ہی کرتے ہو تو ایسے غلا موں کو خرید کر آزاد کرو جو طاقت وَر اوربہادر ہوں تاکہ وہ کل تمہارے دشمنوں کا مقابلہ اور تمہاری حفاظت کرسکیں - حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ : میرا مقصد اُن آزاد کردہ غلاموں سے کوئی فائدہ اٹھانا نہیں ہے ، بلکہ میں تو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر اُن کو آزاد کرتا ہوں ۔ (تاریخ الخلفا، تفسیر ضیاءالقرآن،تفسیر مظہری)
مال و دولت اگر صحیح مصرف ، صحیح مقام اور مناسب موقع پر خرچ ہو تو اُس کی قدر و منزلت غیر متنا ہی ہو جاتی ہے ۔ روٹی کا ایک ٹکڑاشدتِ گرسنگی (شدید بھوک) کی حالت میں خوانِ نعمت ہے، لیکن آسودگی کی حالت میں ”الوانِ نعمت“ بھی بے حقیقت شئے بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فتح مکہ سے پہلے جن لوگوں نے اپنی جان و مال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اعانت و مدد کی تھی ، ان کو قرآن مجید نے مخصوص عظمت و فضیلت کا مستحق قرار دیا ہے ۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : تم میں سے کوئی برابر ی نہیں کرسکتا ، اُن کی جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے (راہِ الہٰی میں) مال خرچ کیا اور جہاد کیا ، اُن کا درجہ بہت بڑا ہے ، ان سے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد مال خرچ کیا اور جہاد کیا ، اور سب کے ساتھ اللہ نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے ، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے بہ خوبی خبردار ہے ۔ (سورة الحدید)
صدیق کےلیے خدا کا رسول کافی ہے
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال طلب کیا تو شاہراہِ عشق و محبت کے سالکین دوڑ پڑے ۔ کوئی اپنا چو تھائی مال لے کر آیا ، تو کوئی اپنی آدھی متاع لے کر آیا اور آسمانِ محبت کے نیر اعظم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنا سارا گھر کا گھر اٹھا لائے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پوچھا : اے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے اہل و عیال کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو ؟
کاروانِ عشق کے سالارِ اعلیٰ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑا ہی پیارا اور دل رُبا جواب دیا ، جو آج بھی تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے مرقوم ہے- عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے گھر والوں کےلیے بس اللہ عز و جل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم (کی رضا) کو چھوڑ آیا ہوں ۔ (تاریخ الخلفاء) اس جذبہ مقدس کو شاعرمشرق علامہ محمد اقبال یوں بیان کرتے ہیں : ⬇
پروانے کو چراغ تو بلبل کو پھول بس
صدیق کےلیے ہے خدا کا رسول بس
خدمت خلق اور اسوہ فاروقی
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عظمت و شان اور رعب و دبدبہ کا ایک طرف تو یہ حال تھا کہ محض آپ کے نام سے ہی قیصر و کسریٰ ایسی عظیم الشان سلطنت کے ایوان حکومت و اقتدار میں لرزہ پیدا ہوجاتا تھا اور دوسری طرف خدمت خلق کا یہ عالم ہے کہ کندھے پر مشکیزہ رکھ کر بیوہ عورتوں کےلیے آپ پانی بھرتے ہیں ۔ مجاہدین اسلام کے اہل و عیال کا بازار سے سودا سلف خرید کر لادیتے ہیں اور پھر اسی حالت میں تھک کر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کسی گوشہ میں فرشِ خاک پر لیٹ کر آرام فرماتے ہیں ۔
ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ صدقہ کے اونٹوں کے بدن پر تیل مل رہے تھے کہ ایک شخص نے کہا : اے امیر المومنین ! یہ کام کسی غلام سے لے لیا ہوتا، آپ کیوں اتنی محنت ومشقت کرتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھ سے بڑھ کر اور کون غلام ہو سکتا ہے ، جو شخص مسلمانوں کا والی ہے وہ در حقیقت ان کا غلام بھی ہے ۔(سیر الصحابہ/ کنزالعما ل،چشتی)
حضور غوث اعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة اللہ علیہ (متوفی 561 ھ / 1166 ء) فرماتے ہیں کہ : اگر مجھے دنیا کے تمام خزانوں کا مال اور دولت مل جائے تو میں آن کی آن میں سب مال و دولت فقیروں ، مسکینوں اور حاجت مندوں میں بانٹ دوں ۔اور فرمایا کہ امیروں اور دولت مندوں کے ساتھ بیٹھنے کی خواہش تو ہر شخص کرتا ہے لیکن حقیقی مسرت اور سعادت انہی کو حاصل ہوتی ہے جن کو مسکینوں کی ہم نشینی کی آرزو رہتی ہے ۔ (الفتح الربانی و غنیہ)
حضو ر دا تا گنج بخش سید علی ہجویری رحمة اللہ علیہ (متوفی 465ھ/1074) اپنی شہرہ آفاق تصنیف کشف المحجوب میں فرماتے ہیں کہ : ایک مرتبہ میں عراق میں دنیا کو حاصل کرنے اور اسے (حاجت مندوں میں) لٹا دینے میں پوری طرح مشغول تھا ، جس کی وجہ سے میں بہت قرض دار ہو گیا جس کسی کو بھی کسی چیز کی ضرورت ہوتی ، وہ میری طرف ہی رجوع کرتا اور میں اس فکر میں رہتا کہ سب کی آرزو کیسے پوری کروں ۔ اندریں حالات ایک عراقی شیخ نے مجھے لکھا کہ اے عظیم فرزند اگر ممکن ہو تو دوسروں کی حاجت ضرور پوری کیا کرو مگر سب کےلیے اپنا دل پریشان بھی نہیں کیا کرو کیوں کہ اللہ رب العٰلمین ہی حقیقی حاجت رواہے اوروہ اپنے بندوں کےلیے خود ہی کافی ہے ۔
شہباز طریقت حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمة اللہ علیہ نے جب تونسہ شریف میں مستقل سکونت فرمائی ، تو اس وقت حالت یہ تھی کہ رہنے کے لئے کوئی مکان نہ تھا ، فقط ایک جھونپڑی تھی ، جس میں آپ فقروفاقہ سے شغل فرماتے تھے مگر کچھ عرصہ کے بعد جب بڑے بڑے امرا ، وزرا ، نواب اور جاگیر دار آپ کی قدم بوسی کےلیے حاضر ہونے لگے تو کچھ فتوح (نذرانوں) کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا اور دنیا کی ہر نعمت آپ کے قدموں میں آتی گئی ، لیکن ان تمام نعمتوں کے باوجود استغناء اور مخلو قِ خدا کی خدمت کا یہ جذبہ تھا کہ آپ کے قائم کردہ آستانہ عالیہ سلیمانیہ میں ہزاروں طلبہ ، درویش ، مہمان اور مسافر ہر روز لنگر سے کھانا کھاتے تھے ۔ کھانے کے علاوہ بھی ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز موجود ہوتی تھی اور بیماری کی حالت میں ادویات بھی لنگر سے بلامعاوضہ ملتی تھیں ۔ ایک مرتبہ لنگر خانے کے ایک باورچی نے عرض کی کہ : حضور اس مہینہ میں پانچ سو روپیہ صرف درویشوں کی دوائی پر خرچ ہوگیا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ : اگر پانچ ہزار روپے بھی خرچ ہوجائیں تو مجھے اطلاع نہ دی جائے ، درویشوں اور طالب علموں کی جان کے مقابلہ میں روپے پیسے کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ (بحوالہ تذکرہ خواجگانِ تونسوی ، نافع السالکین،چشتی)
انسانی زندگی پر خدمت خلق کے ثمرات
اللہ کے انعام یافتہ بندے : ﷲ تعالیٰ کی راہ میں ہمیں اپنی سب سے قیمتی اور پیاری چیز خرچ کرنی چاہئے کہ اس سے ﷲ کی رضا اور خیرو بھلائی حاصل ہوتی ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشادِ ربانی ہے کہ : لَن تَنَالُوا البِرَّحَتّٰی تُنفِقُوا مِمَّاتُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَےیٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہ عَلِیم ۔
ترجمہ : جب تک تم ﷲ تعالیٰ کی راہ میں اپنی سب سے پیاری چیز خرچ نہیں کرو گے تو خیروبھلائی (تقویٰ و پرہیز گاری) تم کو ہر گز نہیں پہنچ سکتے اور تم جو کچھ بھی (ﷲ کی راہ میں) خرچ کرو گے ، ﷲ اس کو جاننے والا ہے ۔(سورة آل عمران: آیت ۲۹)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرما یا کہ : ﷲ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں جن کو اس نے اپنی خاص نعمتوں سے نوازا ہے تا کہ وہ اللہ کے بندوں کو اپنے مال سے نفع پہنچائیں اور جب تک وہ ﷲ کے بندوں کو نفع پہنچاتے رہیں گے ، ﷲ تعالیٰ بھی انہیں مزید نعمتوںسے نواز تا رہے گا اور جب وہ خدا کے بندوں کو محرو م کر دیں گے تو ﷲ بھی ان سے اپنی نعمتیں ختم فرما لیتا ہے اور ان کی جگہ دوسرے بندوں کو عطاء فر ما دیتا ہے ۔ (مشکوٰة شریف)
حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ مدینے میں بڑے مال دار صحابی تھے اور انہیں اپنے اموال میں سے اپنا باغ ”بیرحائی“ بہت ہی پیارا اور محبوب تھا اور جب یہ آیت مبارک نازل ہوئی تو انہوں نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں حاضر ہو کر عرض کی کہ یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! مجھے اپنے تمام اموال میں باغ بیر حا سب سے زیادہ پیارا ہے اور میں اس کو ﷲ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ انہوں نے اپنا وہ باغ ﷲ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کردیا ۔ (صحیح بخاری / صحیح مسلم)
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے مال خرچ کرنے کو تقویٰ وپرہیز گاری کا سبب بتا یا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے : فَاَمَّا مَن اَعطٰی وَاتَّقٰی ۔ وَصَدَّقَ بِالحُسنٰی ۔ فَسَنُیَسِّرُہُ لِلیُسرٰی ۔
ترجمہ : پھر جس نے (راہِ خدامیں اپنا) مال دیا اور (اس سے) ڈرتا رہا اور (جس نے) اچھی بات کی تصدیق کی تو ہم آسان کر دیں گے اس کے لئے آسان راہ ۔ (سورة اللیل : آیت ۷۔۵)
ان آیات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے”اتقٰی“ سے پہلے ”اعطٰی“ ذکر فرمایا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں مال خرچ کرنا جہاں تقویٰ و پرہیزگاری کا سبب ہے اور اس سے خیر و بھلائی اور نیکیوں کے راستے کھل جاتے ہیں اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ سخاوت کے بغیر تمام اعمال ادھورے رہ جاتے ہیں ، گویا سخاوت تمام اعمال خیر کو درجہ کمال تک پہنچانے کا سبب بھی ہے ۔
ہمدردی اور احترامِ انسانیت جس کا ہمارا دین مطالبہ کرتا ہے ، وہ ایک معاشرتی اصلاح کا کامیاب نسخہ ہے، جس کی بدولت معاشرے کے افراد ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک اسلامی وفلاحی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور امن وسکون کا گہوارہ بن جاتا ہے ۔ بقول شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ : ⬇
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
خدمت خلق ، وقت کی اہم ضرورت
رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انسانوں کو باہمی ہمدردی اور خدمت گزاری کا سبق دیا۔ طاقتوروں کو کمزوروں پر رحم و مہربانی اور امیروں کو غریبوں کی امداد کرنے کی تاکیدو تلقین فرمائی ۔ مظلوموں اور حاجت مندوں کی فریا درسی کی تاکید فرمائی ۔ یتیموں ، مسکینوں اور لاوارثوں کی کفالت اور سر پرستی کا حکم فرما یا ہے ۔
خدمت خلق وقت کی ضرورت بھی ہے اور بہت بڑی عبادت بھی ہے ۔ کسی انسان کے دکھ درد کو بانٹنا حصولِ جنت کا ذریعہ ہے ۔ کسی زخمی دل پر محبت و شفقت کا مرہم رکھنا ﷲ کی خوشنودی کا ذریعہ ہے ۔ کسی مقروض کے ساتھ تعاون کرنا ﷲ کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کا ایک بڑا سبب ہے ۔ کسی بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کا حق بھی ہے اور سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بھی ہے ۔ کسی بھوکے کو کھانا کھلانا عظیم نیکی اور ایمان کی علامت ہے ۔دوسروں کے کام آنا ہی اصل زندگی ہے ، اپنے لیے تو سب جیتے ہیں، کامل انسان تو وہ ہے ، جو ﷲ کے بندوں اور اپنے بھائیوں کے لئے جیتا ہو ۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں : ⬇
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
عیسائی مشنریوں اور صوفیاءکرام علیہم الرّحمہ کی خدمت خلق میں فرق
آج دنیا بھر میں عیسائی مشنریاں صرف ایک نعرہ خدمت Service of Humanity کو لے کر دوسرے مذاہب کو شرمندہ کررہی ہیں ۔ ان کے پاس بڑے مالی وسائل ہیں ۔ جنگ کے میدان میں زخمیوں کی خدمت ، اسپتال قائم کرکے مریضوں کا علاج ، قحط زدہ علاقوں میں خوراک سے بھوکوں کی امداد، تعلیمی اداروں وغیرہ کا قیام ۔ ان کی سرگرمیاں مختلف نوعیت کی ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی وہ بائبل کے مواعظ بھی سناتی ہیں ، عیسائیت کا لٹریچر مفت تقسیم کرتی ہیں ، تبدیل مذاہب کا لالچ دیتی ہیں اور ان کا مذہب قبول کرنے والوں کو بہت سی رعایتیں بھی حاصل ہوجاتی ہیں۔ پسماندہ اور جاہل استحصال کے شکار علاقوں میں انہیں خاصی کامیابی ہوتی ہے ۔
چشتی صوفیاءکرام علیہم الرّحمہ بھی اسلام کے مبلغ تھے ۔ مگر کیا ان کے پاس اتنے عظیم فنڈز تھے ؟ کیا ان کی تحریک اتنی منظم تھی ؟ کیا وہ پروپیگنڈے کے فن سے کام لیتے تھے ؟ بے سروسامانی اور فقر محض کے باوجود ان کی خانقاہوں میں دن رات لنگر جاری تھا ۔ فتوح میں نقد آیا تقسیم ہوگیا ۔ نذرانے میں اشرفیاں آئیں لٹ گئیں ، ہدیہ میں کپڑا آیا ، بانٹ دیا گیا ۔ دنیا کی کوئی جماعت یا ادارہ یا مشنری یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ انہوں نے ان مشائخ علیہم الرّحمہ سے زیادہ دلسوزی سے مجروح انسانیت کی خدمت کی ہوگی ۔
خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ کا حال ان کے خلیفہ خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں بیان کیا ہے : از پگاہ تا شام خلق بیامدے۔ نماز حفتن ہم خلق بسیدے۔ ام خواہندہ بیش ازاں بود کہ آرندہ وہرکہ چیزے بیاوردے چیزے یافتے ۔
ترجمہ : صبح سے شام تک خلق خدا آتی رہتی ، عشاء کی نماز کے وقت بھی یہ سلسلہ جاری رہتا تھا مگر مانگنے والوں کی تعداد نذر دینے والوں سے زیادہ ہی ہوتی تھی۔ جو کوئی چیز نذر لاتا تھا ، وہ کچھ نہ کچھ عطیہ پاتا تھا ۔ (خیر المجالس صفحہ نمبر 257،چشتی)
حضرت بابا فرید الدین شکر رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ کے دروازے بھی نصف شب تک کھلے رہتے تھے اور ’’ہیچ کس خدمت ایشاں نیامدے کہ اور اچیزے نصیب نہ کردے‘‘ ۔ (فوائد الفواد 125)
اور فرماتے تھے کہ : ہر برمن می آید چیزے می آرو۔ اگر مسکینے بیاید وچیزے نیا رد ہر آئینہ رما چیزے بدوباید داد‘‘ ۔ (فوائد الفواد 336)
دوسروں کو نفع پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضا ہے ۔ ایک اچھے مسلمان کی یہ خوبی ہے کہ وہ ایسے کام کرتا ہے جو دوسرے انسانوں کے لیے فائدہ مند ہوں ۔ اس نیکی کے ذریعے صرف لوگوں میں عزت واحترام ہی نہیں پاتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی درجات حاصل کرلیتا ہے ۔ پس شفقت و محبت، رحم و کرم ، خوش اخلاقی ، غمخواری و غمگساری خیرو بھلائی ، ہمدردی ، عفو و درگزر، حسن سلوک ، امداد و اعانت اور خدمت خلق ! ایک بہترین انسان کی وہ عظیم صفات (Qualities) ہیں کہ جن کی بہ دولت وہ دین و دنیا اور آخرت میں کامیاب اور سرخرو ہو سکتا ہے ۔
آیئے اسی مشن کو آگے بڑھانے میں ہمارا ساتھ دیجیے : ⬇
دین کا درد رکھنے والے مسلمان بھائیوں ، بیٹوں اور سبھی احباب سے گذارش ہے کہ : فتنوں ، مصاٸب و مشکلات کے اس دور میں فتنوں ، مصاٸب و مشکلات کا مقابلہ کرنے ، دین کی نشر و اشاعت کرنے ، دینی تعلیم عام کرنے اور غربا فقرا و مستحقین کی مدد میں ہمارا ساتھ دیں ۔ دین کی نشر و اشاعت کےلیے دینی کتب تفاسیر قرآن اور کتب احادیث عربی اردو کی شروحات و دیگر اسلامی کتب کی اشد ضرورت ہے : آیئے تفاسیر قرآن اور کتب احادیث کی خریداری میں ہمارا ساتھ دیجیے اور الفیض فاٶنڈیشن پاکستان کے زیرِ انتظام مستحق بچوں ، بچیوں کو دینی تعلیم دینے کے اخراجات کے سلسلہ میں صاحبِ حیثیت مسلمان تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیرا آمین ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : ⬇
فیض احمد چشتی اکاؤنٹ نمبر 0001957900055503 حبیب بینک کیولری گراؤنڈ برانچ لاہور پاکستان ۔
موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں ۔ 03009576666 ،03215555970 ۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کو اجرِ عظیم عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment